Sayyiduna Faruq-e-Azam (R.A.) ke Fazail-o-Manaqib

باب 9 :آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ

(9) بَابٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي الله عنه الْعِلْمِيَّةِ

(آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ)

61. عَنِ الْأزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ : صَلَّی بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُکْنَی أبَا رَمْثَةَ فَقَالَ : صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ أوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلاَةِ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : وَ کَانَ أبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ يَقُوْمَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِيْنِهِ وَکَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ، فَصَلَّی نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ عَنْ يَسَارِهِ حَتّٰی رَأيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ ثُمَّ انْفَتَلَ کَانْفِتَالِ أبِيْ رِمْثَةَ يَعْنِيْ نَفْسَهُ فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِيْ أدْرَکَ مَعَهُ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ يَشْفَعُ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ فَأخَذَ بِمَنْکَبَيْهِ فَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ : إِجْلِسْ فَإِنَّهُ لَمْ يَهْلِکْ أهْلُ الْکِتَابِ إِلاَّ أنَّهُ لَمْ يَکُنْ بَيْنَ صَلَوَاتِهِمْ فَصْلٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَصَرَهُ فَقَالَ : أصَابَ اﷲُ بِکَ يَا بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ.

’’حضرت ارزق بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے امام نے ہمیں نماز پڑھائی جن کا نام ابورمثہ تھا۔ انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ یہی نماز یا اس جیسی نماز پڑھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ صف اول میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب کھڑے تھے۔ ایک شخص اور تھا جس نے تکبیر اولیٰ پائی تھی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کو پورا کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح کھڑے ہوئے جس طرح ابورمثہ کھڑے ہوئے۔ پھر وہ شخض جس نے تکبیر اولیٰ میں شرکت کی تھی وہ دو نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جلدی سے اس کو کندھوں سے پکڑ لیا اور اس کو جھٹک کر بٹھا دیا اور فرمایا : اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے ایک نماز کو دوسری نماز سے علیحدہ نہ کیا۔ اسی وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : اے عمر بن الخطاب! اﷲ تعالیٰ نے تمہیں صحیح بات کہنے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 61 : أخرجه أبوداؤد فی السنن، کتاب الصلوٰة، باب فی الرجل يتطوع في مکانه الذي صلي فيه المکتوبة، 1 / 264، الحديث رقم : 1007، والحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 1 / 403، الحديث رقم : 996، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 2 / 190، الحديث رقم : 2867، والبيهقي في السنن الصغریٰ، 1 / 395، الحديث رقم : 676.

62. عَنْ قَبِيْصَةَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : مَا رَأيْتُ رَجُلًا أَعْلَمَ بِاﷲِ وَ لَا أَقْرَأ لِکِتَابِ اﷲِ، وَ أَفْقَهَ فِيْ دِيْنِ اﷲِ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شيبة.

’’ حضرت قبیصہ بن جابر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم باﷲ نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی کتاب اﷲ کا قاری دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی اﷲ کے دین کا فقیہ دیکھا ہے۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 62 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 355، الحديث رقم : 31987، و في 6 / 139، الحديث رقم : 30130.

63. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَوْ أَنَّ عِلْمَ عُمَرَ وُضِعَ فِي کِفَّةِ الْمِيْزَانِ، وَوُضِعَ عِلْمُ أهْلِ الْأرْضِ فِي کِفَّةٍ لَرَجَحَ عِلْمُهُ بِعِلْمِهِمْ. قَالَ وَکِيْعٌ، قَالَ الْأعْمَشُ : فَأنْکَرْتُ ذَلِکَ فَأتَيْتُ إِبْرَاهِيْمَ فَذَکَرْتُهُ لَهُ فَقَالَ وَمَا أَنْکَرْتُ مِنْ ذَلِکَ؟ فَوَاﷲِ لَقَدْ قَالَ عَبْدُاللّٰهِ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : إِنِّيْ لَأحْسِبُ تِسْعَةَ أَعْشَارِ الْعِلْمِ ذَهَبَ يَوْمَ ذَهْبَ عُمَرَ. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعَجَمِ الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور تمام اہل زمین کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقیناً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ان کے علم پر بھاری ہو گا۔ حضرت وکیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اعمش نے کہا : میں نے اس چیز کا انکار کیا پس میں ابراہیم سے ملا اور ان کے سامنے یہ چیز بیان کی تو انہوں نے کہا میں اس کا انکار نہیں کرتا۔ پس خدا کی قسم! ابن مسعود نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ علم کے دس حصوں میں سے 9 حصے اس دن چلے گئے جس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 63 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 163، الحديث رقم : 8809، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 69، وابن عبدالبر في التمهيد، 3 / 198، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 2 / 336. .

64. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَقِيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلًا مِنَ الْجِنِّ فَصَارَعَهُ، فَصَرَعَهُ الْإِنْسِيُّ فَقَالَ لَهُ الْإِنْسِيُّ : إِنِّيْ لَأرَاکَ ضَئِيْلًا شَخِيْتًا کَأَنَّ ذُرَيْعَتَکَ ذُرَيْعَتَي کَلْبٍ فَکَذٰلِکَ أَنْتُمْ مَعْشَرُ الْجِنِّ أَمْ أَنْتَ مِنْ بَيْنِهِمْ کَذٰلِکَ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ إِنِّيْ مِنْهُمْ لَضَلِيْعٌ، وَلَکِنْ عَاوِدْنِي الثَّانِيَّةَ، فَإِنْ صَرَعْتَنِيْ عَلَّمْتُکَ شَيْئًا يَنْفَعُکَ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَقَرَأُ ’’اﷲُ لَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ‘‘؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّکَ لَا تَقْرَؤُهَا فِيْ بَيْتٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ لَهُ خَبَجٌ کَخَبَجِ الْحِمَارِ لَا يَدْخُلُهُ حَتَّی تُصْبِحَ.

وَ زَادَ الطَّبَرَانِيُّ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! مَنْ ذَاکَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ؟ فَعَبَسَ عَبْدُاللّٰهِ، وَ أَقْبَلَ عَلَيْهِ وَ قَالَ : مَنْ يَکُوْنُ هُوَ إِلَّا عُمَرُ رضی اﷲ عنه. . رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ وَالطَّبْرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ایک صحابی ایک جن کو ملا اور اس کے ساتھ کشتی کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی نے اس جن کو پچھاڑ دیا پھر اسے کہا کہ تم نہایت کمزور اور دبلے پتلے ہو اور تمہارے ہاتھ کتے کے ہاتھ کی طرح کمزور ہیں۔ کیا تم جنات کا گروہ اسی طرح کا ہوتا ہے؟ یا تم ان میں سے اس طرح ہو تو وہ جن کہنے لگا : نہیں خدا کی قسم! میں ان سب میں سے ایک موٹا تازہ جن ہوں لیکن تم میرے ساتھ دوبارہ کشتی کرو۔ پس اگر تم نے مجھے دوبارہ پچھاڑ دیا تو میں تمہیں ایسی چیز سکھاؤں گا جو تمہیں نفع دے گی انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ (انہوں نے اسے دوبارہ پچھاڑ دیا) تو جن نے کہا کیا تم ’’اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ‘‘ پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جن نے کہا۔ یہ جس گھر میں بھی پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان گدھے کی طرح ڈر کر بھاگتا ہے اور وہ اس گھر میں اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک تم صبح نہ کر لو۔ امام طبرانی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔ اے ابو عبد الرحمٰن! اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے وہ آدمی کون سا تھا؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے پہلے تھوڑا تردد کیا۔ لیکن پھر فرمایا : وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ اس حدیث کو امام دارمی نے اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 64 : أخرجه الدارمی فی السنن، کتاب فضائل القرآن، باب فضل أول سورة البقرة و أية الکرسي، 2 / 540، الحديث رقم : 3381، و الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 166، الحديث رقم : 8826، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 71.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved