84 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ
الصَّحِيْحِ.
84.90 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 585، الرقم : 3609، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 66، 5 / 59، 379، الرقم : 23620، والحاکم في المستدرک، 2 / 665.666، الرقم : 4209.4210، وابن أبی شيبة فی المصنف، 7 / 369، الرقم : 36553، وأبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 286، الرقم : 75، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 272، الرقم : 4175، وفی المعجم الکبير، 12 / 92، 119، الرقم : 12571، 12646، 20 / 353، الرقم : 833، وأبو نعيم فی حلية الأولياء، 7 / 122، 9 / 53، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 374، الرقم : 1606، والخلال في السنة، 1 / 188، الرقم : 200، إسناده صحيح، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 411، إسناده صحيح، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 347، الرقم : 2918، وعبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 398، الرقم : 864، إسناده صحيح، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 148، 7 / 60، وابن حبان في الثقات، 1 / 47، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 127، الرقم : 591، 3 / 129، 1103، وابن خياط في الطبقات، 1 / 59، 125، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 753، الرقم : 1403، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 142.143، الرقم : 123.124، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 10، وفي الإکمال، 1 / 428، الرقم : 898، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 284، الرقم : 4845، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 26 / 382، 45 / 488.489، والخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 3 / 70، الرقم : 1032، 5 / 82، الرقم : 2472، 10 / 146، الرقم : 5292، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 244، والعسقلانی في تهذيب التهذيب، 5 / 147، الرقم : 290، وفي الإصابة، 6 / 239، وفي تعجيل المنفعة، 1 / 542، الرقم : 1518، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1488، الرقم : 2582، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7 / 384، 11 / 110، وقال : هذا حديث صالح السند، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 307، 320.321، والجرجانی في تاريخ جرجان، 1 / 392، الرقم : 653، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7.8، 18، وفي الحاوي للفتاوی، 2 / 100، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 60، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : رواه الطبراني والبزار، وذکره الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 4 / 471، الرقم : 1856.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کا باہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحيح حديث کے رجال ہیں۔
85 / 2. وفي رواية : عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِص قَالَ : قُلْتُ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی کُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ سَعْدٍ وَالْبُخَارِيُّ
فِي الْکَبِيْرِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت میسرہ فجر رضي اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا : (یا رسول اللہ!) آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام حاکم، طبرانی، ابوسعد اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير’’ میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
86 / 3. وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللہ عنهما قَالَ : قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی کُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ
أَبِي عَاصِمٍ.
إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
وَقَالَ الذَّهَبِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ السَّنَدِ.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : (یا رسول اللہ!) آپ کے لئے کب نبوت فرض کی گئی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ) حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام احمد، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے الفاظ طبرانی کے ہیں نیز اس حديث کی سند صحيح اور تمام کے تمام رجال ثقات اور صحيح حديث کے رجال ہیں۔ امام ذہبی نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صالح السند ہے۔
87 / 4. وفي رواية عنه : قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی أُخِذَ مِيْثَاقُکَ؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ سے میثاق (یعنی وعدہ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
88 / 5. وفي رواية : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ عَنْ رَجُلٍ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمَ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن شقیق رضي اللہ عنہ نے ایک صحابی سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کب نبی بنائے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحيح حديث کے رجال ہیں۔
89 / 6. وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضي اللہ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘
امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔
90 / 7. وفي رواية : عَنْ عَامِرٍ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
91 / 8. عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اللهُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
91 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323.
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
92 / 9. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اللہ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اللهِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اللہ عليهم أجمعين.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
92 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334.
’’حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
93 / 10. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
93 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
اس حديث کو امام ابو نعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
94 / 11. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ
عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.
94 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.
’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔
95 / 12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اللہ عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
95 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابو بکر رضي اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضي اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
96 / 13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اللہ عنهما قَالَ : أَوْحَی اللهُ إِلَی عِيْسَی عليهم السلام يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
96 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم عليہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
97 / 14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي اللہ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
97 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اللہ ل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2028، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 153، وابن حيان فی العظمة، 5 / 1710.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکّہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔
98 / 15. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اللہ عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
98 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (6)، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب : ما أکرم اللہ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا : {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ}.‘‘
اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث حسن اور صحيح الاسناد ہے۔
Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved