Al-Minhaj al-Sawi min al-Hadith al-Nabawi

باب 9 :عظمت رسالت اور شرف مصطفیٰ ﷺ

اَلْبَابُ التَّاسِعُ: عَظْمَةُ الرِّسَالَةِ وَشَرَفُ الْمُصْطَفَي ﷺ

(عظمتِ رِسالت اور شرفِ مصطفیٰ ﷺ)

1. فَصْلٌ فِي أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ بِأَجْسَادِهِمْ

(انبیاءِ کرام علیھم السلام کا اپنے مزارات میں جسموں کے ساتھ زندہ ہونے کا بیان)

2. فَصْلٌ فِي مَنْزِلَةِ عِلْمِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعْرِفَتِهِ

(حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ علم اور معرفت کا بیان)

3. فَصْلٌ فِي أَنَّ الْأُمَّةَ تُسْئَلُ عَنْ مَکَانَةِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُبُوْرِ

(امت سے قبر میں مقامِ مصطفیٰ ﷺ سے متعلق پوچھے جانے کا بیان)

4. فَصْلٌ فِي الشَّفَاعَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

(روزِ قیامت شفاعت کا بیان)

5. فَصْلٌ فِي أَجْرِ حُبِّ النَّبِيِّ ﷺ وَالصُّحْبَةِ الصَّالِحَةِ

(حضور ﷺ سے محبت کرنے اور صحبتِ صالحین کے اَجر کا بیان)

6. فَصْلٌ فِي التَّبَرُّکِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَآثَارِهِ

(حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے آثار مبارِکہ سے حصولِ برکت کا بیان)

7. فَصْلٌ فِي التَّوَسُّلِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَالصَّالِحِيْنَ

(حضور نبی اکرم ﷺ اور صالحین سے توسّل کا بیان)

8. فَصْلٌ فِي شَرَفِ النُّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَةِ ﷺ

(نبوتِ محمدی ﷺ کے شرف کا بیان)

9. فَصْلٌ فِي عَدْمِ نَظِيْرِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْکَوْنِ

(کائنات میں حضور ﷺ کی مثل نہ ہونے کا بیان)

10. فَصْلٌ فِي تَعْظِيمِ النَّبِيِّ ﷺ

(حضور نبی اکرم ﷺ کی تعظیم کا بیان)

فَصْلٌ فِي أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ بِأَجْسَادِهِمْ

(انبیاءِ کرام علیہم السلام کا اپنے مزارات میں جسموں کے ساتھ زندہ ہونے کا بیان)

549 / 1. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ: بَلِيْتَ قَالَ ﷺ: إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلىٰ الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

الحديث رقم 1: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الصلاة، باب: فضل يوم الجمعةو ليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم: 1047، وفي کتاب: الصلاة، باب: في الاستغفار، 2 / 88، الرقم: 1531، والنسائي في السنن، کتاب: الجمعة، باب: بإکثار الصلاة علي النبي ﷺ يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم: 1374، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة، باب: في فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم: 1085.

’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘

550 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوْحِي، حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 2: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: المناسک، باب: زيارة القبور، 2 / 218، الرقم: 2041. و أحمد بن حنبل في المسند 2 / 527، الرقم: 10827، والبيهقي في السنن الکبري، 15 / 245، الرقم: 10050، و في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم: 1581، 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453 الرقم: 526.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو بیشک الله تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹا دی ہوئی ہے (اور میری توجہ اس کی طرف مبذول فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘

551 / 3. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلىٰ الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.

الحديث رقم 3: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الجنائز، باب: ذکر وفاته ودفنه ﷺ، 1 / 524، الرقم: 1637، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم: 2582.

’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اور (یا رسول الله!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس الله عزوجل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے۔‘‘

552 / 4. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدً مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي.

رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

الحديث رقم 4: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم: 13496، والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم: 193 والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم: 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔‘‘

553 / 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکَرِبْتُ کُرْبَةً مَا کَرِبْتُ مِثْلَهُ قًطُّ، قَالَ: فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسَي عليه السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ. وَإِذَا عِيْسىٰ ابْنُ مَرْيَمَ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.

الحديث رقم 5: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم: 172، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 455، الرقم: 11480، وأبو عوانة في المسند، 1 / 116 الرقم: 350، وأبونعيم في المسند المستخرج، 1 / 239، الرقم: 433، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 487.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، تب الله تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (اسے دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوءہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر (دیکھا کہ) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم ﷺ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا: یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔‘‘

554 / 6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب:) مَرَرْتُ عَلىٰ مُوْسَي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 6: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب: من فضائل موسي عليه السلام، 4 / 1845، الرقم: 2375، والنسائي في السنن، کتاب: قيام الليل وتطوع النهار، باب: ذکر صلاة نبي الله موسي عليه السلام، 3 / 215، الرقم: 161. 1632، وفي السنن الکبري، 1 / 419، الرقم: 1328، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم: 12526 - 13618، وابن حبان في الصحيح، 1 / 242، الرقم: 50، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 13، الرقم: 7806، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 335، الرقم: 36575، وأبو يعلي في المسند، 6 / 71، الرقم: 3325، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 362، الرقم: 1205، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 170، الرقم: 6529، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 205، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 444.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: ) سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔‘‘

555 / 7. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا کَانَ أَيَامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ ﷺ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَبِ رضي الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلاَّ بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَذَکَرَ مَعْنَاهُ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَانْفَرَدَ بِهِ.

الحديث رقم 7: أخرجه الدارمي في السنن، باب: (15)، ما أکرم الله تعالي نبيه ﷺ بَعْدَ مَوْتِهِ، 1 / 56، الرقم: 93، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم: 5951، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم: 4029.

’’حضرت سعید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (جو کہ جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے مسجد نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے (تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور سے سنتے تھے۔‘‘

556 / 8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ.

رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ.

والعسقلاني في الفتح وقال: قد جمع البيهقي کتابًا لطيفًا في حياة الأنبياء في قبورهم أورد فيه حديث أنس رضي الله عنه: الأنبياء أحياء في قبورهم يصلّون. أخرجه من طريق يحيي بن أبي کثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثّقه أحمد وابن حبّان عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري وقد وثّقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضاً أبو يعلي في مسنده من هذا الوجه وأخرجه البزار وصحّحه البيهقي.

الحديث رقم 8: أخرجه أبو يعلي في المسند، 6 / 147، الرقم: 3425، وابن عدي في الکامل، 2 / 327، الرقم: 460، وقال: هذا أحاديث غرائب حسان وأرجو أنه لا بأس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 119، الرقم: 403، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 487، وفي لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم: 787، 1033، وقال: رواه البيهقي، وقال: ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 200، 270، وقال: رواه البيهقي، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 211، وقال: رواه أبو يعلي والبزار، ورجال أبي يعلي ثقات، والسيوطي في شرحه علي سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود، 6 / 19، وقال: وألفت عن ذلک تأليفا سميته: انتباه الأذکياء بحياة الأنبياء، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 / 178، وقال: فقد صححه البيهقي وألف في ذلک جزءا، والزرقاني في شرحه علي موطأ الإمام مالک، 4 / 357، وقال: وجمع البيهقي کتابا لطيفا في حياة الأنبياء وروي فيه بإسناد صحيح عن أنس رضي الله عنه مرفوعا.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور اس حدیث کو امام ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن عدی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔

امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میںزندہ ہونے کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب لکھی ہے جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور صلاۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ حدیث انہوں نے یحی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ صحیح حدیث کے رواۃ میں سے ہیں انہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام احمد بن حنبل نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور انہیں بھی امام احمد نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن معین نے حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اور امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘

فَصْلٌ فِي مَنْزِلَةِ عِلْمِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعْرِفَتِهِ

(حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ علم اور معرفت کا بیان)

557 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ حِيْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ‘ فَصَلَّي الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلىٰ الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُوْرًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ: فَوَاللهِ لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا‘ قَالَ أَنَسٌ: فَأًکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَاءَ، وَأَکْثَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي. فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ اِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: النَّارُ. فَقَامَ عَبْدُ اللهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَبُوْکَ حُذَافَةُ. قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ يَقُوْلَ: سَلُوْنِي، سَلُونِي. فَبَرَکَ عُمَرُ عَلىٰ رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ ﷺ رَسُوْلاً. قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حِيْنَ قَالَ عُمَرُ: ذَلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: ما يکره من کثرة السؤال وتکلف ما لايعنيه، 6 / 2660، الرقم: 6864، وفي کتاب: مواقيت الصلاة، باب: وقت الظهر عند الزوال، 1 / 200، الرقم: 2001، 2278، وفي کتاب: العلم، باب: حسن برک علي رکبتيه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم: 93، وفي الأدب المفرد، 1: 404، الرقم: 1184، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: توقيره ﷺ وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم: 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم: 12681، وأبو يعلي في المسند، 6 / 286، الرقم: 3201، وابن حبان في الصحيح، 1 / 309، الرقم: 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم: 9155.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم الله تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم ﷺ خاموش ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

558 / 10. عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ ﷺ مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّى دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ما جاء في قول الله تعالي: وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3 / 1166، الرقم: 3020.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ ﷺ نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

559 / 11. عَنْ حُذَيفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلىٰ قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم 11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: القدر، باب: وکان أمر الله قدرا مقدورا، 6 / 2435، الرقم: 6230، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: اخبار النبي ﷺ فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم: 2891، والترمذي مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء أخبر النبي ﷺ أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم: 2191، وأبوداود في السنن، کتاب: الفتن والملاحم، باب: ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 94، الرقم: 4240، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 385، الرقم: 23322، والبزار في المسند، 7 / 231، الرقم: 8499، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبراني مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في مسند الشاميين، 2 / 247، الرقم: 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، 2 / 278، الرقم: 5379.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ ﷺ نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘

560 / 12. عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضي الله عنه قَالَ: صَلَّي بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْفَجْرَ. وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَاءِنٌ قَالَ: فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

الحديث رقم 12: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب: إخبار النبي ﷺ فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم: 2892، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء ما أخبر النبي ﷺ أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم: 2191، وابن حبان في الصحيح، 15 / 9، الرقم: 6638، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم: 8498، وأبويعلي في المسند، 12 / 237، الرقم: 2844، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 28، الرقم: 46، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم: 2183.

’’حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا‘ پھر آپ ﷺ نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ ﷺ نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔‘‘

561 / 13. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: بِمَا هُوَکَاءِنٌ إِلىٰ أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنْ الْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبي ﷺ فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم: 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم: 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم: 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم: 2795، والطيالسي في المسند، 1 / 58، الرقم: 433، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 912، الرقم: 996، وإسناده صحيح، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 889، الرقم: 458.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ ﷺ سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی؟‘‘

562 / 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ. قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَ.لَأُ الْأَعْلَي؟ قُلْتُ: رَبِّي لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي. وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

وفي رواية عنه: قَالَ: فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ: (وَکَذَلِکَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ) (الأنعام، 6: 75). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

وفي رواية: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ: فَتَجَلَّي لِي کُلُّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ: فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْيَانِيُّ.

وفي رواية: فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيءٍ وَبَصَرْتُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية: عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 14: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم: 3233 - 3235، والدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب: في رؤية الرب تعالي في النوم، 2 / 170، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم: 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم: 22162، 23258، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 290، الرقم: 8117، 20 / 109، 141، الرقم: 216، 690، والروياني في المسند، 1 / 429، الرقم: 656، 2 / 299، الرقم: 1241، وأبويعلي في المسند، 4 / 475، الرقم: 2608، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم: 31706، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 49، الرقم: 2585، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم: 682، وابن أبي عاصم في السنة 1 / 203، الرقم: 465، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد الله بن أحمد في السنة، 2 / 489، الرقم: 1121، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 120، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم: 591، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 323، وابن النجاد في الرّد علي من يقول القرآن مخلوق، 1 / 5856، الرقم: 76 - 78، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 176 - 178.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا: یا محمد! میں نے عرض کیا: میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا: عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔‘‘ (الانعام، 6: 75)۔

’’اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔‘‘

’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔‘‘

’’اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔‘‘

’’اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔‘‘

563 / 15. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ: فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّى نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ: وَيَضَعُ يَدَهُ عَلىٰ الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ: فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم: 1779، ونحوه في کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب: عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم: 2873، وأبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم: 2071، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم: 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم: 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم: 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم: 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم: 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم: 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم: 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم: 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم: 5871.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔‘‘

564 / 16. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ: أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ، حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِمْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم: 4014، وفي کتاب: الجنائز، باب: الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم: 1189، وفي کتاب: الجهاد، باب: تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم: 2645، وفي باب: من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم: 2898، وفي کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم: 3431، وفي کتاب: فضائل الصحابة، باب: مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم: 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم: 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم: 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم: 5295، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم: 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب: أحوال القيامة وبداء الخلق، باب: في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم: 5887.

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد الله بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا: ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔‘‘

565 / 17. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ: فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا: دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 17: أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم: 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم: 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم: 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم: 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم: 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا: ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘

فَصْلٌ فِي أَنَّ الْأَمَّةَ تُسْئَلُ عَنْ مَکَانَةِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُبُوْرِ

(اُمت سے قبر میں مقامِ مصطفیٰ ﷺ سے متعلق پوچھے جانے کا بیان)

566 / 18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّي عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُوْلاَنِ: مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ ﷺ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ. فيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلىٰ مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعًا. قَالَ: وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ: مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ: لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ: لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم: 1308، وفي کتاب: الجنائز، باب: الميت يسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم: 1673، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب: التي يصرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4 / 2200، الرقم: 2870، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم: 4752، والنسائي في السنن کتاب: الجنائز، باب: المسألة في القبر 4 / 97، الرقم: 2051، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم: 12293.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ ﷺ کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد ﷺ ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘

567 / 19. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: فِي خُطْبَتِهِ يَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ شَيءٍ کُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلاَّ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ مِثْلَ أَوْ قَرِيْبَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِکَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، يُؤْتَي أَحَدُکُمْ فَيُقَالُ: مَا عِلْمُکَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوْقِنُ فَيَقُوْلُ: هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، جَاءَ نَا بِالْبَيِنَاتِ وَالْهُدَي، فَأَجَبْنَا وَآمنَّا وَاتَّبَعْنَا فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِکَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، فَيَقُوْلُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوضوء، باب: مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأ إِلَّا مِنْ الغَشَيِ المُثْقَلِ، 1 / 79، الرقم: 182، وفي کتاب: الجمعة، باب: صلاة النساء مع الرجال في الکسوف، 1 / 358، الرقم: 1005، وفي کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ، 6 / 2657، الرقم: 6857، ومسلم في الصحيح، کتاب: الکسوف، باب: ما عرض علي النبي ﷺ في صلاة الکسوف من أمر الجنة والنار، 2 / 624، الرقم: 905، ومالک في الموطأ، 1 / 189، الرقم: 447، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 345، الرقم: 26970.

’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ سورج گرہن کے روز حضور نبی اکرم ﷺ (نماز کسوف سے) فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی ایسی چیز نہیں جسے میں نے اپنی اس جگہ پر دیکھ نہ لیا ہو یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہارا امتحان ہو گا۔ دجال کے فتنے جیسی آزمائش یا اُس کے قریب تر کوئی شے۔ (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اس سے کہا جائے گا کہ اس شخص (حضور نبی اکرم ﷺ) کے متعلق تو کیا جانتا ہے؟ جو ایمان والا یا یقین والا ہو گا وہ کہے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جو ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کے ساتھ تشریف لائے۔ ہم نے ان کی بات مانی، اِن پر ایمان لائے اور اِن کی پیروی کی۔ اسے کہا جائے گا: آرام سے سو جا، ہمیں معلوم تھا کہ تو ایمان والا ہے۔ اگر وہ منافق یا شک کرنے والا ہو گا (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تو کہے گا: مجھے نہیں معلوم میں لوگوں کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی کہہ دیتا تھا۔‘‘

568 / 20. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا قُبِرَ الْمَيِتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْکَرُ، وَالآخَرُ: النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ: مَاکَانَ يَقُوْلُ: هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، فَيَقُوْلَانِ: قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: نَمْ، فَيَقُوْلُ: أَرْجِعُ إِلىٰ أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ: نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّى يَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجِعِهِ ذَلِکَ وَإِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُوْلَانِ: قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيْهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم 20: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في عذاب القبر، 3 / 383، الرقم: 1071، وابن حبان في الصحيح، 7 / 386، الرقم: 3117، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 56، الرقم: 12062، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 416، الرقم: 864، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 199، الرقم: 5399، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 4 / 156، والمناوي في فيض القدير، 2 / 331.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو (مرنے کے بعد) قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم ﷺ) کے بارے میں (دنیا میں) کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم ﷺ اس کے (خاص) بندے اور (سچے) رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے: (سکون و اطمینان سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جا کر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں (نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے (اسی حال میں) اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (ان سوالات کے جواب میں) کہے گا: میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی (یعنی اسے دبائے گی) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اسی حالتِ (عذاب) میں اس جگہ سے اٹھائے گا۔‘‘

569 / 21. عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: وَأَمَّا فِتْنَةُ الْقَبْرِ فَبِي تُفْتَنُوْنَ وَعَنِّي تُسْأَلُوْنَ فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ وَلَا مَشْعُوْفٍ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيْمَ کُنْتَ؟ فَيَقُوْلُ: فِي الإِسْلَامِ فَيُقَالُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي کَانَ فِيْکُمْ؟ فَيَقُوْلُ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ جَائَ نَا بِالْبَيِنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللهِ عزوجل فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللهَ ؟ فَيَقُوْلُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَي اللهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظَرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ: اُنْظُرْ إِلىٰ مَا وَقَاکَ اللهُ عزوجل ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرَجَةٌ إِلىٰ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلىٰ زَهَرَتِهَا وَمَا فِيْهَا فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُکَ وَيُقَالُ لَهُ: عَلىٰ الْيَقِيْنِ کُنْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالَي.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 21: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر القبر والبلي، 2 / 1426، الرقم: 4268، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 139، الرقم: 25133، وابن منده في الإيمان، 2 / 967، الرقم: 1067، وعبد الله بن أحمد في السنة، 1 / 308، الرقم: 602، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 240.

’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قبر کا امتحان میرے ہی بارے میں ہو گا اور (قبر میں) تم سے میرے ہی متعلق پوچھا جائے گا۔ پس اگر کوئی نیک آدمی ہو گا تو اسے بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس کی قبر میں بٹھایا جائے گا، پھر اسے کہا جائے گا تو کس ملّت سے تھا؟ تو وہ کہے گا دین اسلام پر، پھر اس سے کہا جائے گا: یہ کون شخص ہیں جو تم میں موجود تھے؟ پس وہ کہے گا یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس واضح نشانیاں لے کر مبعوث ہوئے۔ پس ہم نے ان کی تصدیق کی پس اس سے کہا جائے گا کیا تو نے الله کو دیکھ رکھا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ کوئی شخص الله کو نہیں دیکھ سکتا پس جہنم کی طرف سے اس کی قبر میں سوراخ کر دیا جائے گا پس وہ اس کی طرف دیکھے گا کہ اس کا بعض اس کے بعض کو تباہ کر رہا ہے پھر اسے کہا جائے گا اس کی طرف دیکھ جس سے اللہ عزوجل نے تمہیں بچا لیا پھر جنت کی طرف سے اس کی قبر میں ایک سوراخ کر دیا جائے گا تو وہ اس کی رونق و جمال کی طرف دیکھے گا پس اُسے کہا جائے گا یہ ہے تیرا جنت میں ٹھکانہ، اور پھر اسے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اِسی پر مرا اور اِسی پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تجھے زندہ کیا جائے گا۔‘‘

570 / 22. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ جِنَازَةً. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذِهِ الْأَمَّةَ تُبْتَلَي فِي قُبُوْرِهَا، فَإِذَا الإِنْسَانُ دُفِنَ فَتَفَرَّقَ عَنْهُ أَصْحَابُهُ، جَاءَهُ مَلَکٌ فِي يَدِهِ مِطْرَاقٌ فَأَقْعَدَهُ قَالَ: مَا تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، فَيَقُوْلُ: صَدَقْتَ ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلىٰ النَّارِ فَيَقُوْلُ: هَذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَوْ کَفَرْتَ بِرَبِّکَ، فَأَمَّا إِذَا آمَنْتَ فَهَذَا مَنْزِلُکَ فَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلىٰ الْجَنَّةِ، فَيُرِيْدُ أَنْ يَنْهَضَ إِلَيْهِ فَيَقُوْلُ لَهُ: اسْکُنْ، وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ. . . الحديث.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

الحديث رقم 22: أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 3 / 3، الرقم: 11013، 14864، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 417، الرقم: 565، وعبد الله بن أحمد في السنة، 2 / 612، الرقم: 1456.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں شامل ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اس امت (کے لوگوں) کی قبر میں آزمائش ہوگی۔ پس جب انسان دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (اس کے پاس سے) منتشر ہو جاتے ہیں تو اس کے پاس فرشتہ جس کے ہاتھ میں گرز ہوتا ہے، اسے وہ بٹھاتا ہے اور کہتا ہے: اس ہستی (محمد مصطفیٰ ﷺ) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ پس اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد مصطفیٰ ﷺ اس کے (خاص) بندے اور (افضل ترین) رسول ہیں۔ پس وہ (فرشتہ) اسے کہتا ہے: تو نے سچ کہا پھر اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور (فرشتہ) کہتا ہے: تیرا یہ ٹھکانہ ہوتا اگر تو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتا لیکن تو ایمان لایا پس تیرا یہ (جنت) ٹھکانہ ہے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دروازہ کھولا جاتا ہے۔ وہ شخص (فرحت و خوشی کے مارے بے اختیار ہو کر) اس دروازے کی طرف بڑھتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے: ٹھہر جاؤ اور اس کے لئے اس کی قبر میں ہی وسعت پیدا کر دی جاتی ہے۔‘‘

571 / 23. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في رواية طويلة قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ شَيئٌ لَمْ أَکُنْ رَأَيْتُهُ إِلاَّ وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا وَقَدْ أُرِيْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِکُمْ يُسْأَلُ أَحَدُکُمْ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ؟ وَمَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنْ قَالَ: لَا أَدْرِي رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ وَيَصْنَعُوْنَ شَيْئًا فَصَنَعْتُهُ قِيْلَ لَهُ: أَجَلْ عَلىٰ الشَّکِّ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ النَّارِ وَإِنْ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ قِيْلَ لَهُ: عَلىٰ الْيَقِيْنِ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

الحديث رقم 23: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 354، وسنده حسن.

’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے میں نے نہ دیکھا ہو لیکن یہ کہ اب میں اسے اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں اور تحقیق مجھے تمہیں اپنی قبروں میں آزمائش میں مبتلا ہوتے دکھایا گیا ہے۔ تم میں سے ہر کسی سے سوال کیا جائے گا: تو (دنیا میں) اس ہستی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کے) بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ اور تو (دنیا میں) کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پھر اگر اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا میں نے جس طرح لوگوں کو (ان کے بارے میں) کہتے سنا میں نے بھی اسی طرح کہہ دیا اور جو کچھ انہیں کرتے ہوئے دیکھا اسی طرح کر دیا تو اس سے کہا جائے گا کہ ہاں تو شک پر زندہ رہا اور اسی پر مرا پس اب یہ رہا تیرا آگ کا ٹھکانہ اور اگر اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اس سے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اور اسی پر مرا لہٰذا تیرا ٹھکانہ یہ جنت ہے۔‘‘

572 / 24. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه في رواية طويلة قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَکٌ، فَيَقُوْلُ لَهُ: مَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنَّ اللهَ هَدَاهُ قَالَ: کُنْتُ أَعْبُدُ اللهَ فَيُقَالُ لَهُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ: هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيءٍ غَيْرِهَا فَيَقُوْلُ: دَعُوْنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي فَيُقَالُ لَهُ: اسْکُنْ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 24: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم: 4751، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 233، الرقم: 13472، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 194، الرقم: 5394، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 237.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو پوچھتا ہے تو کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتا تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس عظیم ہستی (سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ) کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پس اس کے سوا اس سے کسی اور شے کے متعلق نہیں پوچھا جاتا اور اسی روایت میں ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے گھر والوں کو بشارت دوں، اسے کہا جاتا ہے کہ یہیں (عیش و عشرت سے) رہو۔‘‘

573 / 25. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْتَهَيْنَا إِلىٰ الْقَبْرِ وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ کَأَنَّمَا عَلىٰ رُءُوْسِنَا الطَّيْرُ وَفِي يَدِهِ عُوْدٌ يَنْکُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: اسْتَعِيْذُوْا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَقَالَ: وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ حِيْنَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا مَنْ رَبُّکَ؟ وَمَا دِيْنُکَ؟ وَمَنْ نَبِيُّکَ؟

وفي رواية له قَالَ: وَيَأْتِيهِ مَلَکَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُوْلاَنِ لَهُ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّيَ اللهُ، فَيَقُوْلاَنِ لَهُ: مَا دِيْنُکَ؟ فَيَقُوْلُ: دِيْنِيَ الإِسْلَامُ، فَيَقُوْلاَنِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيْکُمْ؟ قَالَ: فَيَقُوْلُ: هُوَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَيَقُوْلَانِ: وَمَا يُدْرِيْکَ؟ فَيَقُوْلُ: قَرَأْتُ کِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.

وفي رواية له: فَذَلِکَ قَوْلُ اللهِ عزوجل: (يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ)، (إبراهيم، 14: 27) قَالَ: فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنْ السَّمَاءِ أَنْ قَد صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوْا لَهُ بَابًا إِلىٰ الْجَنَّةِ وَأَلْبِسُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ: فَيَأْتِيْهِ مِنْ رُوْحِهَا وَطِيْبِهَا قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيْهَا مَدَّ بَصَرِهِ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 25: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم: 4751، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 233، الرقم: 2.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہم ایک انصاری کے جنازہ کے لئے گئے اور قبر کے قریب جا کر رک گئے، جب تک وہ دفن نہیں کر دیا گیا حضور نبی اکرم ﷺ وہیں تشریف فرما رہے اور آپ ﷺ کے اردگرد ہم بھی یوں خاموش ہو کر بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ ﷺ کے دستِ اقدس میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ ﷺ زمین کو کریدنے لگے اور سر مبارک کو اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا: عذاب قبر سے الله تعالیٰ کی پناہ مانگو پھر آپ ﷺ نے فرمایا: مردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے جب وہ (اس کے ساتھی) پیٹھ پھیر کر جاتے ہیں۔ اس وقت اس سے پوچھا جاتا ہے: اے انسان! تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟

’’اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، پس اسے بٹھا کر اسے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ دونوں فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے۔ دونوں اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہستی کون ہے جو تمہاری طرف مبعوث کی گئی تھی؟ وہ کہتا ہے کہ یہ تو ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ دونوں پوچھتے ہیں تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھی لہٰذا ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی۔‘‘

’’اور ایک روایت میں ہے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔‘‘ کا یہی مطلب ہے پس آسمان سے ایک پکارنے والے کی آواز آتی ہے، میرے بندے تو نے سچ کہا لہٰذا جنت میں اس کا بستر لگا دو اور اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو۔ پس اس کے ذریعے اسے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی ہے اور تاحد نظر اس کی قبر فراخ کر دی جاتی ہے۔‘‘

فَصْلٌ فِي الشَّفَاعَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

(روزِ قیامت شفاعت کا بیان)

574 / 26. عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ: يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، حَتَّى تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلىٰ النَّبِيِّ ﷺ فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اللهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

الحديث رقم 26: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: قوله: عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم: 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 381، الرقم: 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم: 927.

’’حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی: اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم ﷺ پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘

575 / 27. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَي، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 27: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم: 1405، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 854، الرقم: 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم: 8725، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم: 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم: 3677، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ (اس کی تپش کے باعث لوگوں کے) نصف کانوں تک (پسینہ) پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مدد مانگیں گے۔‘‘

576 / 28. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 28: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في الشفاعة، 4 / 625، الرقم: 2435، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في الشفاعة، 4 / 236، الرقم: 4739، وابن ماجه عن جابر رضي الله عنه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم: 4310، والحاکم في المستدرک، 1 / 139، الرقم: 228، وقال الحاکم: هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، وأبو يعلي في المسند، 6 / 40، الرقم: 3284، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 272، الرقم: 448، والطيالسي في المسند، 1 / 233، الرقم: 1669.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے۔‘‘

577 / 29. عَنْ أَبِي مُوْسَي الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خُيِرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يُّدْخَلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ. فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَي أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا. وَلَکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ، الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 29: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم: 4311، وأحمد بن حنبل عن ابن عمر رضي الله عنهما في المسند، 2 / 75، الرقم: 5452، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 202، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ خواہ میں قیامت کے روز شفاعت کو چن لوں یا میری آدھی اُمت کو (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل کر دیا جائے تو میں نے اس میں سے شفاعت کو اختیار کیا ہے کیونکہ وہ عام اور (پوری اُمت کے لئے) کافی ہوگی اور تم شائد یہ خیال کرو کہ وہ پرہیزگاروں کے لئے ہو گی؟ نہیں بلکہ وہ (میری شفاعت) بہت زیادہ گناہگاروں، خطاکاروں اور برائیوں میں مبتلا ہونے والوں کے لئے ہو گی۔‘‘

578 / 30. عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَتَدْرُوْنَ مَا خَيَرَنِي رَبِّيَ اللَّيْلَةَ؟ قُلْنَا: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ قَالَ: فَإِنَّهُ خَيَرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخَلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ. فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ: هِيَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلىٰ شَرْطِ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم 30: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر الشفاعة، 2 / 1444، الرقم: 4317، والحاکم في المستدرک، 1 / 135، الرقم: 221، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 68، الرقم: 126، وفي مسند الشاميين، 1 / 326، الرقم: 575، وابن منده في الإيمان، 20 / 873، الرقم: 932.

’’حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو رات میرے رب نے مجھے کیا اختیار دیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول سب سے بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے مجھے یہ اختیار دیا کہ اگر میں چاہوں تو میری نصف اُمت کو (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل کر دیا جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں، میں نے شفاعت کو پسند کیا صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! الله تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ الله تعالیٰ ہمیں (بھی) شفاعت کے حقداروں میں (شامل) کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہر مسلمان کے لئے ہے۔‘‘

579 / 31. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدً مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 31: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم: 13496، والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم: 193، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم: 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔‘‘

580 / 32. عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا، أَوْسَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ (لَا يَدْرِي أَبُوْحَازِمٍ أَيُّهُمَا قَالَ): مُتَمَاسِکُونَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، لايَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ، وُجُوْهُهُمْ عَلىٰ صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 32: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الرِّقاق، باب: صفة الجنة والنار، 5 / 2399، الرقم: 6187، وفي باب: يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، 5 / 2396، الرقم: 6177، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: الدليل علي دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب، 1 / 198، الرقم: 219.

’’امام ابوحازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد جنت میں داخل ہوں گے (ابو حازم کو یاد نہیں رہا کہ ان میں سے کون سی تعداد مروی ہے) وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں گے ان میں سے پہلا شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک ان کا آخری فرد بھی داخل نہ ہو جائے (یعنی وہ اپنے ہزاروں لاکھوں افراد کی نگرانی کر رہا ہوگا) ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔‘‘

581 / 33. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مُجَادَلَةُ أَحَدِکُمْ فِي الْحَقِّ يَکُوْنُ لَهُ فِي الدُّنْيَا بِأَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ أُدْخِلُوْا النَّارَ قَالَ: يَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا وَيَحُجُّوْنَ مَعَنَا فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ قَالَ: فَيَقُوْلُ: اذْهَبُوْا فَأَخْرِجُوْا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، قَالَ: فَيَأْتُوْنَهُمْ فَيَعْرِفُوْنَهُمْ بِصُوَرِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلىٰ أَنْصَافِ سَاقَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلىٰ کَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَهُمْ، فَيَقُوْلُوْنَ: رَبَّنَا قَدْ أَخْرَجْنَا مَنْ أَمَرْتَنَا قَالَ: وَيَقُوْلُ: أَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِيْنَارٍ مِنَ الْإِيْمَانِ ثُمَّ قَالَ: مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ حَتَّى يَقُوْلَ: مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ. قَالَ أَبُوْسَعِيْدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ فَلْيَقْرَأْ هَذِهِ الآيَةَ: (إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَلِکَ لِمَنْ يَشَاءُ) إِلىٰ (عَظِيْمًا). (النساء، 4: 48). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه.

الحديث رقم 33: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: في قول الله تعالي: وجوه يومئذ ناضرة إلي ربها ناظرة، 6 / 2707، الرقم: 7001، والنسائي في السنن، کتاب: الإيمان وشرائعه، باب: زيادة الإيمان، 8 / 112، الرقم: 5010، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في الإيمان، 1 / 23، الرقم: 60، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 94، الرقم: 117، والحاکم في المستدرک، 4 / 626، الرقم: 8736، وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِِ، وابن راشد في الجامع، 11 / 410.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو۔ کہتے ہیں: وہ ان کے پاس جائیں گے اور ان کی شکلیں دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو آگ نے پنڈلیوں کے نصف تک اور بعض کو ٹخنوں تک پکڑا ہو گا۔ وہ انہیں نکالیں گے اور پھر عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں جن کے نکالنے کا حکم فرمایا تھا انہیں ہم نے نکال لیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: انہیں بھی جا کر نکال لو جن کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان ہے۔ پھر فرمائے گا: اسے بھی نکال لاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہے (پھر) یہاں تک فرمائے گا: اسے بھی (نکال لاؤ) جس کے دل میں ذرّہ برابر ایمان ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب جس شخص کو یقین نہ آئے تو وہ یہ آیتِ کریمہ پڑھ لے۔ ’’بیشک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘(النساء، 4: 48)۔

582 / 34. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوْفًا (وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: أَهْلُ الْجَنَّةِ) فَيَمُرُّ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلىٰ الرَّجُلِ، فَيَقُوْلُ: يَا فُلَانُ، أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُکَ شَرْبَةً؟ قَالَ: فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ، فَيَقُوْلُ: أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُکَ طَهُوْرًا؟ فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَقُوْلُ: يَا فُلَانُ، أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ کَذَا وَکَذَا؟ فَذَهَبْتُ لَکَ، فَيَشْفَعُ لَهُ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْيَعْلَي.

الحديث رقم 34: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: فضل صدقة الماء، 2 / 1215، الرقم: 3685، وأبو يعلي في المسند، 7 / 78، الرقم: 4006، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 317، الرقم: 6511، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 39، الرقم: 1415، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 382، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 3 / 275.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ صفیں بنائیں گے (ابن نمیر نے کہا یعنی کہ اہلِ جنت) تو دوزخیوں میں سے ایک شخص جنتیوں میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا: اے فلاں! تجھے یاد ہے کہ ایک دن تو نے پانی مانگا تھا اور میں نے تجھے پانی پلایا تھا؟ راوی فرماتے ہیں: پس وہ جنتی اس دوزخی کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی دوسرے آدمی کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: تجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دن تجھے طہارت کے لئے پانی دیا تھا؟ چنانچہ وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی کہے گا: اے فلاں: تجھے یاد ہے کہ ایک دن تو نے مجھے اس اس کام کے لئے بھیجا تھا چنانچہ میں تیری خاطر چلاگیا تھا؟ پس وہ اس کی شفاعت کرے گا۔‘‘

فَصْلٌ فِي أَجْرِ حُبِّ النَّبِيِّ ﷺ وَالصُّحْبَةِ الصَّالِحَةِ

(حضور ﷺ سے محبت اور صحبتِ صالحین کے اجر کا بیان)

583 / 35. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَي السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: لَا شَيئَ (وفي رواية أحمد: قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَثِيْرِ عَمَلٍ لَا صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ) إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ ﷺ . فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيءٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ وَ إِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 35: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم: 3485، وفي کتاب: الأدب، باب: ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2285، الرقم: 5815، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم: 2639، والترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول الله ﷺ باب: ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم: 2385، وقال أبو عيسي: هذا حديث صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: إخبار الرجل الرجل بمحبته إياه، 4 / 333، الرقم: 5127، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 129، الرقم: 352، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، 168، 178، الرقم: 12032، 12738، 12846، وابن حبان في الصحيح، 10 / 308، الرقم: 105، وأبو يعلي في المسند، 5 / 372، الرقم: 3023، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 254، الرقم: 8556.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول الله!) قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کوئی تیاری نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا: میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمانِ اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سے محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔‘‘

584 / 36. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ أَعْرَابِيًا قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ: مَتَي السَّاعَةُ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ: حُبَّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ. قَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم 36: أخرجه البخاري في صحيح، کتاب: الأدب، باب: علامة الحب في الله، 3 / 1349، الرقم: 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم: 2639، والترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم: 2385.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا: (یا رسول الله!) قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: الله عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی محبت (یہی میرا سرمایہ حیات ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔‘‘

585 / 37. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ ﷺ خَارِجَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ فَلَقِيَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَکَأَنَّ الرَّجُلَ اسْتَکَانَ ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا کَبِيْرَ صِيَامٍ وَلاَ صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَکِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهُ قَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأحکام، باب: القَضَاءِ وَالفُتْيَاَ في الطَّرِيْقِ، 6 / 2615، الرقم: 6734، وفي کتاب: الأدب، باب: ماجائَ في قول الرّجُلِ ويلَکَ، 5 / 2282، الرقم: 5815، وفي کتاب الأدب، باب: علامًةِ حُبِّ اللهِ عزوجل لقولِهِ: (وَإِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْکُمُ اللهُ)، (آل عمران: 31)، 5 / 2285، الرقم: 5816 - 5819، وفي کتاب: فضائل أصحاب النّبِي ﷺ، باب: مناقب عُمَرَ بنِ الْخطَّابِ، 3 / 1349، الرقم: 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب: البرو الصلة والآداب، باب: المرء مع من أحبَّ 4 / 2032. 2033، الرقم: 2639، والترمذي نحوه في السنن، کتاب: الزهد عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم: 2385 وَصَحَّحَهُ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 465 الرقم: 12715، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 149، الرقم: 1796، وابن حبان في الصحيح، 1 / 182، الرقم: 8، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الرقم: 7465، والطيالسي في المسند، 1 / 284، الرقم: 2131، وأبويعلي في المسند، 5 / 372، الرقم: 3023، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 387، الرقم: 498.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اور میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اس کے لئے (فرائض سے) زیادہ روزہ، نماز اور صدقہ وغیرہ (اعمال) تو تیار نہیں کئے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔‘‘

586 / 38. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيْعُ أَنْ يَعْمَلَ کَعَمَلِهِمْ قَالَ: أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ: فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ: فَأَعَادَهَا أَبُوْذَرٍّ فَأَعًادَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيِدٍ.

الحديث رقم 38: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الأدب، باب: أخبار الرجل الرجل بمحبته إليه، 4 / 333، الرقم: 5126، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم: 395، وابن حبان في الصحيح، 2 / 315، الرقم: 556، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم: 2787، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم: 61416، 21501، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 128، الرقم: 351، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 15، الرقم: 4598.

’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسا عمل نہیں کر سکتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! تو اس کے ساتھ ہو گا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے عرض کیا: میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا: اے ابوذر! تو یقیناً ان کے ساتھ ہو گا جن سے تجھے محبت ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا سوال دہرایا تو رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے دہرا کر بیان فرمایا۔‘‘

587 / 39. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّکَ. فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ: وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّکَ. فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ: وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّکَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلىٰ مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلىٰ مُنْتَهَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 39: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في فضل الفقر، 4 / 576، الرقم: 2350، وابن حبان في الصحيح، 7 / 185، الرقم: 2922، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 173، الرقم: 1471، والروياني في المسند، 2 / 88، الرقم: 872، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 620، الرقم: 2505، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 292، الرقم: 777، والمزي في تهذيب الکمال، 12 / 398.

’’حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سوچو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (پھر) سوچو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر کے لیے تیار ہوجا کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔‘‘

588 / 40. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى يَکُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَحَتَّى يُقْذَفَ فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَعُوْدَ فِي الْکُفْرِ، (وفي رواية: أَنْ يَرْجِعَ يَهُودِيًا أَوْ نَصْرَانِيًا) بَعْدَ أَنْ نَجَّاهُ اللهُ مِنْهُ، وَلَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم 40: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم: 13174، 3 / 278، الرقم: 13991 - 13992، 3 / 230، الرقم: 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم: 237، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 394، الرقم: 1328، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم: 283، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 33.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ عزوجل اور اس کا رسول ﷺ اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہوجائیں، اور اس وقت تک جب کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالت) کفر (اور ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو وہ اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

589 / 41. عَنْ عَائشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: جَاءَ رَجُلٌ إِلىٰ رَسُوْلِ الله ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَإِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَأَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَأَذْکُرُکَ فَمَا أَصْبِرُ حَتَّى آتِيَکَ فَانْظُرُ إِلَيْکَ وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ أَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيِيْنَ، وَأَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ أَنْ لَا أَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَ جِبْرِيْلُ عليه السلام بِهَذِهِ الْآيَةِ: (وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ. . . ) (النساء، 4: 69) فَدَعَا بِهِ فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

الحديث رقم 41: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم: 477، وفي المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم: 52، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 240، 8 / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا: یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت مبارکہ کو لے کر اترے: ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔‘‘ پس آپ ﷺ نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘

590 / 42. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ: (يَا) مُحَمَّدَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

الحديث رقم 42: أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الرقم: 964، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم: 2539، وابن سعد في الطبقات الکبري، 4 / 154، وابن السني في عمل اليوم والليلة، الرقم: 168، 170، 172، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 498، الرقم: 1218، ويحيي بن معين في التاريخ، 4 / 24، الرقم: 2953، والمناوي في فيض القدير، 1 / 399، والمزي في تهذيب الکمال، 17 / 142.

’’حضرت عبدالرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما کا پاؤں سن ہوگیا تو ایک آدمی نے ان سے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے یاد کریں، تو انہوں نے یا محمد (صلی الله علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا۔‘‘

591 / 43. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: إذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَي جِبْرِيْلَ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ. فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيْلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوْهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 43: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: ذِکرِ المَلائِکَةِ، 3 / 1175، الرقم: 3037، وفي کتاب: الأدب، باب: المِقَةِ مِن اللهِ تَعَالَي، 5 / 2246، الرقم: 5693، وفي کتاب: التوحيد، باب: کَلاَم الرَّبِّ مَعَ جِبْرِيْلَ، ونِداءِ اللهِ الملائِکَةَ، 6 / 2721، الرقم: 7047، وفي مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: إذا أحب الله عبداً حببه إلي عباده، 4 / 2030، الرقم: 2637، ومالک في الموطأ، کتاب: الشعر، باب: ماجاء في المتحابين في الله، 2 / 953، الرقم: 1710، وابن حبان في الصحيح، 2 / 86، الرقم: 365، وأحمدبن حنبل في المسند، 2 / 413، الرقم: 9341، 10685، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 160، الرقم: 2800، والبيهقي في کتاب الزهد الکبير، 2 / 301، الرقم: 805، وابن عمر الأزدي في مسند الربيع، 1 / 45، الرقم: 67، وابن راهويه في المسند، 1 / 366، ، الرقم: 375، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 228.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب اللهتعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بلاتا ہے (اور حکم دیتا ہے) کہ اللهتعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ الله تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں (کے دلوں) میں بھی اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘

592 / 44. عَنْ أَبِي مُوْسَي رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ وَالسُّؤْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِيْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْکِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَکَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيْحًا طَيِبَةً. وَنَافِخُ الْکِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَکَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيْحًا خبِيْثَةً.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 44: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: المِسکِ، 5 / 2104، الرقم: 5214، وفي کتاب: البيوع، باب: في العَطَّارِ وبيع المِسکِ، 2 / 741، الرقم: 1995، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: استحباب مجالسة الصالحين، ومجانبة قرناء السوء، 4 / 2026، الرقم: 7270، 7307، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 54، الرقم: 9435، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 288، الرقم: 1380، والروياني في المسند، 1 / 318، الرقم: 974، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 24، الرقم: 4638.

’’حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اچھے اور برے ساتھی کی مثال مشک والے اور بھٹی دھونکنے والے جیسی ہے کیونکہ مشک والا یا تو تحفۃً تمہیں (تھوڑی بہت خوشبو) دے دے گا یا تم اس سے خرید لوگے ورنہ عمدہ خوشبو تو تم پا ہی لو گے، رہی بھٹی والے (لوہار) کی بات تو (اس کی بھٹی کی آگ) یا تمہارے کپڑے جلا دے گی وگرنہ تمہیں (بھٹی کی) بدبو تو ضرور پہنچے گی۔‘‘

593 / 45. عَنْ أَبِي هَرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قُلْنَا: يَارَسُوْلَ اللهِ، مَالَنَا إِذَا کُنَّا عِنْدَکَ رَقَّتْ قُلُوْبُنَا، وَزَهِدْنَا فِي الدُّنْيَا، وَکُنَّا مِنْ أَهْلِ الآخِرَةِ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِکَ فَآنَسْنَا أَهَالِيْنَا، وَشَمَمْنَا أَوْلَادَنَا أَنْکَرْنَا أَنْفُسَنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ أَنَّکُمْ تَکُوْنُوْنَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي کُنْتُمْ عَلىٰ حَالِکُمْ ذَلِکَ لَزَارَتْکُمُ الْمَلَائِکَةُ فِي بُيُوْتِکُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَجَاءَ اللهُ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ کَي يُذْنِبُوْا فَيَغْفِرَ لَهُمْ . . . الحديث.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم 45: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: صفة الجنة عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في صفة الجنة ونعيمها، 4 / 672، الرقم: 2526، وابن حبان في الصحيح، 16 / 396، الرقم، 3787، والطيالسي في المسند، 1 / 337، الرقم: 2583، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 409، الرقم: 7101، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 415، الرقم: 1420، وابن المبارک في الزهد، 1 / 380، الرقم: 1075.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یارسول الله! ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ہم آپ کی بارگاہِ اقدس میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ہم دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے باسی ہو جاتے ہیں اور جب آپ کی بارگاہ سے چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں گھل مل جاتے ہیں اور اپنی اولاد سے ملتے جلتے رہتے ہیں تو ہمارے دل بدل جاتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اسی حالت میں رہو جس طرح میرے پاس سے اٹھ کر جاتے ہو تو فرشتے تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللهتعالیٰ ضرور ایک نئی مخلوق لے آئے گا تاکہ وہ گناہ کریں (اور پھر توبہ کر لیں) اور پھر الله تعالیٰ انہیں بخش دے۔‘‘

594 / 46. عَنْ أَبِي مُوْسَي رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلُ الْجَلِيْسِ الصَّالِحِ مَثَلُُ الْعَطَّارِ إِنْ لَمْ يُصِبْکَ مِنْهُ أَصَابَکَ رِيْحُهُ، وَمًثَلُ الْجَلِيْسِ السُّوْءِ مَثَلُ الْقَيْنِ إِنْ لَمْ يُحرِقْکَ بِشَرَرِهِ عَلَقَ بِکَ مِنْ رِيْحِهِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَاحَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

الحديث رقم 46: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 341، الرقم: 579، والبزار في المسند، 8 / 44، الرقم: 3027، 3190، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 404، الرقم: 19624، والحاکم في المستدرک، 4 / 312، الرقم: 7749، وأبو يعلي في المسند، 7 / 274، الرقم: 4295، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 199، الرقم: 2215، 2216، وقال المقدسي: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 287، الرقم: 1377، وابن خلاد في أمثال الحديث، 1 / 113، الرقم: 77 - 78، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 274، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 61، وقال الهيثمي: إِسْنَادَهُ حَسَنٌ.

’’حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اچھے ساتھی کی مثال عطار کی سی ہے اس سے اگر تمہیں اور کچھ بھی نہ ملے تو اس کی (اچھی) خوشبو تو پہنچ ہی جائے گی، اور برے ساتھی کی مثال لوہار کی سی ہے اگر اس (کی بھٹی کے) شعلے تجھے نہ بھی جلائیں تو اس کی (بھٹی کی) بدبو تو تمہیں ضرور پہنچے گی۔‘‘

595 / 47. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: لَا تُصَاحِبْ إِلاَّ مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْکُلْ طَعَامَکَ إِلاَّ تَقِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 47: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الزهد عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في صُحْبَةِ المُؤْمِنِ، 4 / 600، الرقم: 2395، وأبوداود في السنن، کتاب: الأدب، باب: مَن يؤمر أن يجالس، 4 / 259، الرقم: 4832، وابن حبان في الصحيح، 2 / 314، الرقم: 554 - 555 - 560، والدارمي في السنن، 2 / 140، الرقم: 2057، والحاکم في المستدرک، 4 / 143، الرقم: 7169، وَقالَ الحَاکِمُ: هَذَاحَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 277، الرقم: 3136، وأبويعلي في المسند، 2 / 484، الرقم: 1315، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 42، الرقم: 9383، وابن المبارک في الزهد، 1 / 124، الرقم: 364، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 351، الرقم: 8403، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 15، الرقم: 4599.

’’حضرت ابوسعید(خدری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (سچے) مومنوں کی صحبت ہی اختیار کرو اور تمہارا کھانا صرف پرہیزگار (دوست) ہی کھائے۔‘‘

فَصْلٌ فِي التَّبَرُّکِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَآثَارِهِ

(حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے آثارِ مبارکہ سے حصولِ برکت کا بیان)

596 / 48. عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلىٰ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلىٰ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 48: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوَضُوء، باب: اسْتِمْعَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ، 1 / 81، الرقم: 187، وفي کتاب: المناقب، باب: کُنْيَةِ النِّبِيّ ﷺ، 3 / 1301، الرقم: 3347، وفي باب: خَاتَمِ النُّبُوَّةِ، 3 / 1301، الرقم: 3348، وفي کتاب: المرضي، باب: مَن ذَهبَ بِالصَّبِيِّ المَرِيْضِ لِيُدْعي لَهُ، 5 / 2146، الرقم: 5346، وفي کتاب: الدعوات، باب: الدُّعَاءِ لِلصِّبْيَانِ بِالْبَرَکَةِ وَمسَحِْ رَؤُوْسِهِمْ، 5 / 2337، الرقم: 5991، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: إثبات خاتَم النُّبُوَةِ وصفته ومحله من جسده ﷺ، 4 / 1823، الرقم: 2345، والنسائي في السنن الکبري، 4 / 361، الرقم: 7518، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 157، الرقم: 6682، والشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 379، الرقم: 2420، 3430.

’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی پھر وضو فرمایا تو میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پیا پھر آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی تھی۔‘‘

597 / 49. عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّي النَّبِيُّ ﷺ الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ. وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَي: دَعَا النَّبِيُّ ﷺ بِقَدْحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيْهِ وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلىٰ وُجُوْهِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا.

الحديث رقم 49: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوضوء، باب: اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوْءِ النَّاسِ، 1 / 80، الرقم: 185، وفي کتاب: الصلاة في الثياب، باب: الصلاةِ في الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1 / 147، الرقم: 369، وفي کتاب: الصلاة، باب: سترة الإمامِ سترةُ مَن خَلْفَهُ، 1 / 187، الرقم: 473، وفي باب: الصلاةِ إلَي العَنَزَةِ، 1 / 188، الرقم: 477، وفي باب: السُّتْرَةُ بِمَکَّةَ وَغَيْرِهَا، 1 / 188، الرقم: 479، وفي کتاب: الأذان، باب: الأذان لِلمُسَافِرِ، إذا کانوا جماعةً، والإقامة، وکذلک بِعَرَفَةَ وَ جَمْعٍٍ، 1 / 227، الرقم: 607، وفي کتاب: المناقب، باب: صِفةِ النَّّبِيّ ﷺ، 3 / 1304، الرقم: 3373، وفي کتاب: المغازي، باب: غَزْوَة الطَّائفِ، 4 / 1573، الرقم: 4073، وفي کتاب: اللباس، باب: التَّشْمِيْر في الثِّيَابِ، 5 / 2182، الرقم: 5449، وفي کتاب: الوضوء، باب: الغسل والوضوء في المخضب والقدح، والخشب والحجارة، 1 / 83، الرقم: 193، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أبي موسي وأبي عامر الأشعريين رضي الله عنهما، 4 / 1943، الرقم: 2497، وأبو يعلي في المسند، 13 / 301، الرقم: 301.

وفي رواية عنه: قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ عَنَزَةً فَرَکَزَهَا، وخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، صَلَّي إِلىٰ الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ، يَمُرُّوْنَ مِنْ بَيْنَ يَدَي الْعَنَزَةِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وُمُسْلِمٌ مُخْتَصَرًا.

’’حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ ﷺ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ ﷺ کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پس اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں (یعنی حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابوعامر اشعری) سے فرمایا: اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر بھی ڈال لو۔‘‘

’’اور حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور میں نے لوگوں کو آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپکتے دیکھا جسے کچھ مل گیا اُس نے اسے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی (اور اسے اپنے جسم پر مل لیا)، پھر میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر گاڑ دیا تو حضور نبی اکرم ﷺ سُرخ لباس میں جوڑے کو سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے اور نیزے کی طرف منہ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے دیکھا کہ نیزے سے پرے آدمی اور جانور گزر رہے ہیں۔‘‘

598 / 50. عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ الرَّبِيْعِ رضي الله عنه قَالَ: وَهُوَ الَّذِي مَجَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ غُلَامٌ مِنْ بِئْرِهِمْ. وَقَالَ عُرْوَةُ، عَنِ الْمِسْوَرِ وَغَيْرِهِ، يُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ: وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلىٰ وَضُوئِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم 50: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوضوء، باب: اسْتِعْمالِ فضلِ وَضُوءِ النَّاسِ، 1 / 81، الرقم: 186، وفي کتاب: العلم، باب: متي يَصِحُّ سمَاعُ الصَّغِيْرِ، 1 / 41، الرقم: 77، وفي کتاب: الدعوات، باب: الدُّعَاءِ لِلصّبيَانِ بالبرکةِ ومسح رُؤُوسِهِمْ، 53 / 2338، الرقم: 5993، وابن حبان في الصحيح، 11 / 221، الرقم: 4872، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 336، الرقم: 9720، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 12، الرقم: 13، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 220، وفي شعب الإيمان، 5 / 333، الرقم: 6829، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 151، الرقم: 5993.

’’حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جن کے چہرے پر جب یہ بچے تھے اُن کے کنویں کے پانی سے حضور نبی اکرم ﷺ نے کلی فرمائی تھی اور عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب وضو فرماتے تو قریب تھا کہ لوگ وضو کے پانی پر آپس میں لڑ مرتے۔‘‘

599 / 51. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي الله عنهما قَالَا: إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ قَالَ: فَوَاللهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلىٰ وَضُوئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلىٰ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَي قَوْمِ وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلىٰ الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلىٰ قَيْصَرَ وَکِسْرَي وَالنَّجَاشِيِّ وَاللهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا. وَاللهِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَ إِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ وَ إِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلىٰ وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ . . . الحديث.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 51: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الشروط، باب: الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 / 974، الرقم: 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم: 4872، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 9، الرقم: 13، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 220.

’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی الله عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (کے معمولاتِ تعظیم مصطفیٰ ﷺ ) کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا تھا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی تھی۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ پانی میں حاصل کروں) جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام اپنی آوازوں کو آپ ﷺ کے سامنے پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا: اے قوم! الله ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے صحابہ کرام محمد ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، اور غایت تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔‘‘

600 / 52. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا رَمَي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْجَمْرَةَ وَنَحَرَ نُسُکَهُ وَحَلَقَ، نَاوَلَ الْحَالِقُ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ: اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 52: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 948، الرقم: 1305، والترمذي فيالسنن، کتاب: الحج عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء بأي جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم: 912، وأبوداود في السنن، کتاب: المناسک، باب: الحلق والتقصير، 2 / 203، الرقم: 1981، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 449، الرقم: 4114، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم: 12113، وابن حبان في الصحيح، 9 / 191، الرقم: 1743، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 299، الرقم: 2928، والحاکم في المستدرک، 1 / 647، الرقم: 1743، وَ قَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو آپ ﷺ نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈے پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا: یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ ﷺ نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا: یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘

601 / 53. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، وَالْحَلاَّقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 53: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکهم به، 4 / 1812، الرقم: 2325، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 133، 137، الرقم: 12423، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 380، الرقم: 1273.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا: حجام آپ ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ ﷺ کے گرد گھوم رہے تھے اور ان (میں سے ہر ایک) کی یہ کوشش تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا کوئی ایک بال مبارک بھی زمین پر گرنے نہ پائے بلکہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں آ جائے۔‘‘

602 / 54. عَنِ ابْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ: قُلْتُ لِعُبَيْدَةَ: عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ ﷺ، أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ رضي الله عنه، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ رضي الله عنه، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

ُالحديث رقم 54: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الوضوء، باب: الماء الذي يغسل به شعرا الإنسان وکان عطاء لا يري، 1 / 75، الرقم: 168، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 67، الرقم: 13188.

’’حضرت ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ سے کہا: ہمارے پاس حضور نبی اکرم ﷺ کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ نے فرمایا: اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا (اور جو کچھ اس دنیا میں ہے ان سب) سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘

603 / 55. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه مَوْلَي أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في رواية طويلة قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما عَنْ جُبَّةِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: هَذِهِ جُبَّةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ کِسْرَوَانِيَةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيْبَاجٍ فَرْجَيْهَا مَکْفُوْفَيْنِ بِالدِّيْبَاجِ فَقَالَتْ: هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَاءِشَةَ حَتَّى قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَي يُسْتَشْفَي بِهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 55: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: اللباس والزينة، باب: تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 / 1641، الرقم: 2069، وأبو داود في السنن، کتاب: اللباس، باب: الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 / 49، الرقم: 4054، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 423، الرقم: 4010، وفي شعب الإيمان 5 / 141، الرقم: 6108، وأبو عوانة في المسند، 1 / 230، الرقم: 511، وابن راهويه في المسند، 1 / 133، الرقم: 30.

’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنھما کے غلام حضرت عبدالله ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء رضی الله عنھا نے حضور نبی اکرم ﷺ کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا: یہ حضور نبی اکرم ﷺ کا جبّہ مبارک ہے اور پھر انہوں نے ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب ہے) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے سنجاف تھے حضرت اسماء رضی الله عنھا نے فرمایا: یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی الله عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضور نبی اکرم ﷺ پہنتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔‘‘

604 / 56. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَدْخُلُ بَيْتَ أُمِّ سُلَيْمٍ رضي الله عنها فَيَنَامُ عَلىٰ فِرَاشِهَا. وَلَيْسَتْ فِيْهِ. قَالَ: فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَامَ عَلىٰ فِرَاشِهَا. فَأُتِيَتْ فَقِيْلَ لَهَا: هَذَا النَّبِيُّ ﷺ نَامَ فِي بَيْتِکِ، عَلىٰ فِرَاشِکِ. قَالَ: فَجَائَتْ وَقَدْ عَرِقَ، وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُهُ عَلىٰ قِطْعَةِ أَدِيْمٍ، عَلىٰ الْفِرَاشِ. فَفَتَحَتْ عَتِيْدَتَهَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَلِکَ الْعَرَقَ فَتَعْصِرُهُ فِي قَوَارِيرِهَا. فَفَزِعَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: مَا تَصْنَعِيْنَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! نَرْجُو بَرَکَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ: أَصَبْتِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 56: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: طيب عرق النبي ﷺ والتبرک به، 4 / 1815، الرقم: 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم: 1334 / 1339.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت اُم سُلیم رضی الله عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ ﷺ تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر سو گئے، وہ آئیں تو ان سے کہا گیا: حضور نبی اکرم ﷺ تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ ﷺ کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا: اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘

فَصْلٌ فِي التَّوَسُّلِ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَالصَّالِحِيْنَ

(حضور نبی اکرم ﷺ اور صالحین سے توسّل کا بیان)

605 / 57. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه کَانَ إِذَا قُحِطُوْا اسْتَسْقَي بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما فَقَالَ: اَللَّهُمَّ إِنَّا کَنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِنَبِيِنَا فَتَسْقِيْنَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.

الحديث رقم 57: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: سُؤَالِ النَّاسِ الإمام الاستسقاء إِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم: 964، وفي کتاب: فضائل الصحابة، باب: ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي الله عنهما، 3 / 1360، الرقم: 3507، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 337، الرقم: 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم: 2861، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم: 2437، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم: 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم: 351، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 135، الرقم: 87 وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے: اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم ﷺ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم ﷺ کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا: تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘

606 / 58. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ دِيْنَارٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ:

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ: حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيْهِ: رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَاَنَا أَنْظُرُ إِلىٰ وَجْهِ النَّبِيِّ ﷺ يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 58: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الإستسقاءَ إذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم: 963، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 405، الرقم: 1272، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم: 5673، 26، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم: 6218 - 6219، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 386، الرقم: 7700، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم: 1009، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 2، 471، والمزي في تحفة الأشراف، 5 / 359، الرقم: 6775.

’’حضرت عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:

’’وہ گورے (مکھڑے والے ﷺ ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘

حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ ﷺ (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔‘‘

607 / 59. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَي النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: ادْعُ اللهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ. وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ: ادْعُهُ. فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلىٰ رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَي. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ).

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ.

وَقَالَ أَبُوْعِيسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلىٰ شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 59: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول الله ﷺ، باب: في دعاء الضعيف، 5 / 569، الرقم: 3578، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 168، الرقم: 10494، 10495، وابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء في صلاة الحاجة، 1 / 441، الرقم: 1385، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 225، الرقم: 1219، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم: 17240 - 17242، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم: 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم: 508، وفي المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم: 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم: 2192، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 147، الرقم: 379، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 417، الرقم: 658 - 660، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 272، الرقم: 1018، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279.

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا: (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: یہ دعا کرنا: (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کے وسیلہ سے، اے محمد ﷺ میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم ﷺ کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

608 / 60. عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ أَوْسِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَحَطَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلىٰ عَاءِشَةَ رضي الله عنها فَقَالَتْ: انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ ﷺ فَاجْعَلُوا مِنْهُ کُوًي إِلىٰ السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

الحديث رقم 60: أخرجه الدارمي في السنن، باب: (15): ما أکرم الله تعالي نبيّه ﷺ بعد موته، 1 / 56، الرقم: 92، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم: 5950، وابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفي ﷺ، 2 / 801، وتقي الدين السبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 276، وفي شرحه الزرقاني، 11 / 150.

’’حضرت ابو جوزاء اوس بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔‘‘

609 / 61. عَنْ مَالِکِ الدَّارِ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِيْ زَمَنِ عُمَرَ رضي الله عنه، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلىٰ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَي الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ: ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُّوْنَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْکَ الْکِيْسُ! عَلَيْکَ الْکِيْسُ! فَأَتَي عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَکَي عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ.

الحديث رقم 61: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الرقم: 32002، والبيهقي في دلائل النبوة، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والهندي في کنزل العمال، 8 / 431، الرقم: 23535، وابن تيمية: في اقتضاء الصراط المستقيم، 1 / 373، وً ابنُ کَثِيْرٌ في البداية والنهاية، 5 / 167، وَ قَال: إسْنَادُهُ صَحيحَ، والعَسْقلانِيُّ في الإصابة، 3 / 484 وقَال: رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شيبة بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ.

’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول الله! آپ (الله تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے پھر خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن (سامراجی) تمہاری جان لینے کے درپے ہیں) عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے الله! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں۔‘‘

610 / 62. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّهُ قَالَ: اسْتَقَي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَامَ الرِّمَادَةِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما فَقَالَ: اللَّهُمَّ، هَذَا عَمُّ نَبِيِکَ الْعَبَّاسُ نَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِهِ فَاسْقِنَا فَمَا بَرِحُوْا حَتَّى سَقَاهُمُ اللهُ. قَالَ: فَخَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ يَرَي لِلْعَبَّاسِ مَا يَرَي الْوَلَدُ لِوَالِدِهِ يُعَظِّمُهُ وَيُفَحِّمُهُ وَيَبِرُّ قَسَمَهُ فَاقْتَدُوْا أَيُّهَا النَّاسُ، بِرَسُوْلِ اللهِ فِي عَمِّهِ الْعَبَّاسِ وَاتَّخَذُوْهُ وَسِيْلَةً إِلىٰ الله عزوجل فِيْمَا نَزَلَ بِکُمْ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

الحديث رقم 62: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 377، الرقم: 5438، وابن عبدالبر في الاستيعاب، 3 / 98، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 305، الرقم: 559، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 92، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 497، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 277، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 9 / 348، والمناوي في فيض القدير، 5 / 215.

’’حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہما کو وسیلہ بنایا اور الله تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا: اے الله! یہ تیرے نبی مکرم ﷺ کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ الله تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا: اے لوگو! حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ ﷺ ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کرو اور انہیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔‘‘

611 / 63. عَنْ مُصْعَبِ ابْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: رَأَي سَعْدٌ رضي الله عنه أَنَّ لَهُ فَضْلًا عَلىٰ مَنْ دُوْنَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: هَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.

وفي رواية: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ سَمِعْتُ النَّبيَّ ﷺ يَقُوْلُ: ابْغُوْنِي فِي ضُعَفَائِکُمْ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ.

رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 63: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجهاد، باب: مَنِ اسْتَعَانَ بالضُّعَفَاءِ وَ الصَّالِحِين في الْحَرْبِ، 3 / 1061، الرقم: 2739، والترمذي في السنن، کتاب: الجهاد عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في الاستفتاح بصعاليک المسلمين، 4 / 206، الرقم: 1702، وأبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في الانتصار برزل الخيل والضعفة، 3 / 32، الرقم: 2594، والنسائي في السنن، کتاب: الجهاد، باب: الاستنصار بالضعيف، 6 / 45، الرقم: 3179، وفي السنن الکبري، 3 / 30، الرقم: 4388، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 198، الرقم: 21779، وابن حبان في الصحيح، 11 / 85، الرقم: 4767، والحاکم في المستدرک، 2 / 116، 157، الرقم: 2509، 2641، وَ قَالَ الحاکمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 345، الرقم: 6181: 6 / 331، الرقم: 12684، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 71، الرقم: 4842 - 4843.

’’حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘

’’اور ایک روایت میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو بے شک تمہیں اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘

612 / 64. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلىٰ الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسَأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي فَأَوْحَي اللهُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلىٰ عَرْشِکَ فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَي اللهُ عزوجل إِلَيْهِ: يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 64: أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 182، الرقم: 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم: 6502، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11 / 94.

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا الله!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفیٰ ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفیٰ کون ہیں؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: ’’اے آدم! وہ (محمد ﷺ) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

613 / 65. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَلَاةٍ فَلْيُنَادِ يَا عِبَادَ اللهِ! احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ اللهِ! احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَِّﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي.

وفي رواية: عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضي الله عنه عَنْ نَبِيِّ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْأ أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ: يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيْثُوْنِي يَا عِبَادَ اللهِ أَغِيْثُوْنِي فَإِنَِّﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 65: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم: 10518،: 17 / 117، الرقم: 290، وأبويعلي في المسند، 9 / 177، الرقم: 5269، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم: 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132.

’’حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے: اے الله کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے الله کے بندو! میری سواری پکڑا دو کیوں کہ الله تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے۔‘‘

’’اور ایک روایت میں حضرت عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے اور وہ کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے: اے الله کے بندو! میری مدد کرو، اے الله کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا الله تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ تجربہ شدہ بات ہے۔‘‘

فَصْلٌ فِي شَرَفِ النُّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَةِ ﷺ

( نبوتِ محمدی ﷺ کے شرف کا بیان )

614 / 66. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلىٰ قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 66: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: ما جاء في أسماء رسول الله ﷺ، 3 / 1299، الرقم: 3339، وفي کتاب: التفسير، باب: تفسير سورة الصف، 4 / 1858، الرقم: 4614، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في أسمائه ﷺ، 4 / 828، الرقم: 2354، والترمذي في السنن، کتاب: الأدب عن رسول الله ﷺ، باب: ما جاء في أسماء النبي ﷺ، 5 / 135، الرقم: 2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائي في السنن الکبري، 6 / 489، الرقم: 11590، ومالک في الموطأ، کتاب: أسماء النبي ﷺ، باب: أسماء النبي ﷺ، 2 / 1004، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 80، 84، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم: 2775، وابن حبان في الصحيح، 14 / 219، الرقم: 6313، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم: 3570، وفي المعجم الکبير، 2 / 120، الرقم: 1520 - 1529، وأبويعلي في المسند، 13 / 388، الرقم: 7395، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 140، الرقم: 1397.

’’حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں میں محمد اور احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کر دے گا اور میں حاشر ہوں۔ سب لوگ میری پیروی میں ہی (روزِ حشر) جمع کئے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب سے آخر میں آنے والا) ہوں۔‘‘

615 / 67. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَي بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 67: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: خَاتَم النَّبِيِنَ ﷺ، 3 / 1300، الرقم: 3341 - 3342، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: ذکر کونه ﷺ خاتم النبين، 4 / 1791، الرقم: 2286، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 436، الرقم: 11422، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 398، الرقم: 9156، وابن حبان في الصحيح، 14 / 315، الرقم: 6405.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے)۔‘‘

616 / 68. عَنْ أَبِي مُوْسَي الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُسَمِّي لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 68: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في أسمائه ﷺ، 4 / 1828، الرقم: 2355، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 395، 404، 407، والحاکم في المستدرک، 2 / 659، الرقم: 4185 - 4186، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 311، الرقم: 31692 - 31693، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 327، الرقم: 4338، 4417، وابن جعد في المسند، 1 / 479، الرقم: 3322.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے اپنے کئی اسماء گرامی بیان کئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی (بعد میں آنے والا) اور حاشر (جس کی پیروی میں روزِ حشر سب جمع کئے جائیں گے) ہوں اور نبی التوبہ، نبی الرحمہ ہوں۔‘‘

617 / 69. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضي الله عنه يَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ اصْطَفَي کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَي قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَي مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم 69: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فضل نسب النبي ﷺ، 4 / 1782، الرقم: 2276، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ: باب: ما جاء في فضل النبي ﷺ، 5 / 583، الرقم: 3605، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 107، وابن حبان في الصحيح، 14 / 135، الرقم: 6242، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 317، الرقم: 31731، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 365، الرقم: 12852، 3542، وفي شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم: 1391، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 66، الرقم: 161، وأبويعلي في المسند، 13 / 469، الرقم: 7485، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 751، الرقم: 1400.

’’حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے بنی کنانہ کو اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب بخشا اور پسندیدہ قرار دیا۔‘‘

618 / 70. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُاللهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ: اعْدِلْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: وَيْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، (أَوْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه: يَا رَسُوْلَ اللهِ! دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيثَ.)، قَالَ: دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 70: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استابة المرتدين والمعاندين، باب: مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِئَلَّا يَنْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم: 6534، 6532، وفي کتاب: المناقب، باب: علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم: 3414، وفي کتاب: فضائل القرآن، باب: البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم: 4771، وفي کتاب: الأدب، باب: ما جاء في قول الرَّجلِ: ويْلَکَ، 5 / 2281، الرقم: 5811، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم: 1064، ونحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4103، وفي السنن الکبري، 6 / 355، الرقم: 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم: 172، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم: 1083، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم: 6741، والحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم: 2647، وقال: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم: 11554، 14861، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم: 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، ونحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم: 3846، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم: 9060، وأبو يعلي في المسند، 2 / 298، الرقم: 1022، والبخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم: 774.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! عدل سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کم بخت! اگر میں عدل نہیں کرتا تو اور کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں (یا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول الله! مجھے اجازت دیجئے، میں اس خبیث منافق کی گردن اڑا دوں۔ ) آپ ﷺ نے فرمایا: رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یاہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے) گوبر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو گا)۔‘‘

619 / 71. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَي النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ: (اَلنَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ) (الأحزاب، 33: 6) فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضِيَاعًا فَلْيَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

الحديث رقم 71: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التفسير / الأحزاب، باب: النبيّ أوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، 4 / 1795، الرقم: 4503، والدارمي في السنن، 2 / 341، الرقم: 2594، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 238، الرقم: 12148.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’نبی مکرم ﷺ مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ (الاحزاب، 33: 6) سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد میرا نظامِ حکومت یہ دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گا)۔‘‘

620 / 72. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.

الحديث رقم 72: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم: 6285، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 752، الرقم: 1402، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217.

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: (یا رسول الله!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفیٰ ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘

621 / 73. عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ نِکَاحٍ وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلىٰ أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

الحديث رقم 73: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 80، الرقم: 4728، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 303، الرقم: 31641، والبيهقي عن ابن عباس رضي الله عنهما في السنن الکبري، 7 / 190، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 190، الرقم: 2949، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 294، الرقم: 784، والهندي في کنزالعمال، 11 / 402، الرقم: 31870، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 214

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر، اور میرا (یہ نسبتی تقدس) حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رضی الله عنہما کے مجھے جننے تک برقرار رہا (اور زمانہ جاہلیت کی بدکرداریوں اور آوارگیوں کی ذرا بھر بھی ملاوٹ میری نسبت میں نہیں پائی گئی)۔‘‘

622 / 74. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ رضي الله عنه إِلىٰ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلىٰ الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَيْکَ السَّلَامُ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

الحديث رقم: 74 أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول الله ﷺ باب: (99)، 5 / 543 الرقم: 3532، وفي کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ باب: في فضل النبي ﷺ، 5 / 584، الرقم: 3607 - 3608، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 210، الرقم: 1788، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 149، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 41، الرقم: 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم: 466، والهندي في کنز العمال، 11 / 415، الرقم: 31950.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور وہ اس وقت (کافروں سے کچھ ناشائستہ کلمات) سن کر (غصہ کی حالت میں تھے، پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: آپ پر سلامتی ہو آپ رسولِ خدا ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

623 / 75. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسىٰ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

وفي رواية: عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ: مَتَي کُنْتَ نَبِيًا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قِيْلَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، مَتَي کُتِبْتَ نَبِيًا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمِ.

إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ السَّنَدِ.

وفي رواية عنه: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي أُخِذَ مِيْثَاقُکَ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُوْلَ اللهِ، مَتَي جُعِلْتَ نَبِيًا؟ قَالَ: وَآدَمَ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

وفي رواية: عَنْ عُمَرَ رضي الله عنه قاَلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي جُعِلْتَ نَبِيًا؟ قَالَ: وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ.

رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السُّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

وفي رواية: عَنْ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ: مَتَي اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّي الْمِيْثَاقُ.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

الحديث رقم 75: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: في فضل النبي ﷺ، 5 / 585، الرقم: 3609، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 66، 5 / 59، 379، الرقم: 23620، والحاکم في المستدرک، 2 / 665 - 666، الرقم: 4209 - 4210، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 369، الرقم: 36553، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 272، الرقم: 4175، وفي المعجم الکبير، 12 / 92، 119، الرقم: 12571، 12646، 20 / 353، الرقم: 833، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7 / 122، 9 / 53، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 374، الرقم: 1606، والخلال في السنة، 1 / 188، الرقم: 200، إسناده صحيح، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم: 411، إسناده صحيح، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 347، الرقم: 2918، وعبد الله بن أحمد في السنة، 2 / 398، الرقم: 864، إسناده صحيح، وابن سعد في الطبقات الکبري، 1 / 148، 7 / 60، وابن حبان في الثقات، 1 / 47، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 127، الرقم: 591، 3 / 129، 1103، وابن خياط في الطبقات، 1 / 59، 125، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 142.143، الرقم: 123 - 124، وأبوالمحاسن في معتصر المختصر، 1 / 10، وفي الإکمال، 1 / 428، الرقم: 898، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 284، الرقم: 4845، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 26 / 382، 45 / 488 - 489، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 753، الرقم: 1403، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 70، الرقم: 1032، 5 / 82، الرقم: 2472، 10 / 146، الرقم: 5292، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 244، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 5 / 147، الرقم: 290، وفي الإصابة، 6 / 239، وفي تعجيل المنفعة، 1 / 542، الرقم: 1518، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1488، الرقم: 2582، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7 / 384، 11 / 110، وقال: هذا حديث صالح السند، والسيوطي في الخصائص الکبري، 1 / 7.8، 18، وفي الحاوي للفتاوي، 2 / 100، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 307، 320 - 321، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1 / 392، الرقم: 653، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 60، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال: رواه الطبراني والبزار، وذکره الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 4 / 471، الرقم: 1856.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کا باہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘

’’حضرت میسرہ فجر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: (یا رسول اللہ!) آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) آپ کے لئے کب نبوت فرض کی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ) حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘

’’اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ سے میثاق (یعنی وعدۂ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘

’’اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب نبی بنائے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘

’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم علیہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘

’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کب شرف نبوت سے سرفراز کیئے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘

624 / 76. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَاُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيءٍ خَلَقَهُ اللهُ تَعَالَي قَبْلَ الْأَشْيَاءِ؟ قَالَ: يَا جَابِرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالَي قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِکَ مِنْ نُورِهِ، فَجَعَلَ ذَلِکَ النُّوْرَ يَدُوْرُ بِالْقُدْرَةِ حَيْثُ شَاءَ اللهُ تَعَالَي، وَلَمْ يَکُنْ فِي ذَلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّةٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ، وَلَا أَرْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ، وَلَا إِنْسِيٌّ، فَلَمَّا أَرَادَ اللهُ تَعَالَي أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَمَ ذَلِکَ النُّورَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ: فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: اللَّوْحَ وَمِنَ الثَّالِثِ: الْعَرْشَ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: حَمَلَةَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْکُرْسِيَّ وَمِنَ الثَّالِثِ: بَاقِيَ الْمَلَائِکَةِ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَةَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْأَرْضِيْنَ وَمِنَ الثَّالِثِ: اَلْجَنَّةَ وَالنَّارَ . . . الحديث. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

الحديث رقم 76: أخرجه عبد الرزاق في المصنف (الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف)، 1 / 63، الرقم: 63، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 71، وقال: أخرجه عبد الرزاق بسنده، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 1 / 89 - 91، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 311، الرقم: 827، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، والعيدروسي في تاريخ النور السافر، 1 / 8، وقال: رواه عبد الرزاق بسنده، والحلبي في السيرة، 1 / 50، والتهانوي في نشر الطيب، 1 / 13.

’’حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ الله تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک الله تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب الله تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کئے۔ پھر چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی۔ ۔ ۔ یہ طویل حدیث ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved