اربعین: فضائلِ عیدین

الاحادیث النبویۃ

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنه قَالَتْ: دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثٍ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ وَذَالِکَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا أَبَا بَکْرٍ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهٰذَا عِيدُنَا . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب سنة العيدين لأهل الإسلام، 1 / 324، الرقم: 909، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة فی اللعب الذي لا معصية في أيام العيد، 2 / 607، الرقم: 892، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 99، الرقم: 24726، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين باب ضرب الدف يوم العيد، 3 / 195، الرقم: 1593، وابن ماجہ في السنن، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1 / 612، الرقم: 1898.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے درآنحالیکہ میرے پاس انصار کی دو بچیاں (وہ اشعار) ترنم کے ساتھ پڑھ رہی تھیں جن میں اس بہادری کا ذکر تھا جو انصار نے جنگ بُعاث میں دکھائی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ مغنیہ نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجہ! اور یہ عید کے دن کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کیلئے ایک خوشی کا دن ہوتا اور یہ ہمارا خوشی کا دن ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

قال العسقلانی في الفتح في شرح هذا الحديث: إن لکل قوم عيدا وهذا عيدنا. ففيه تعليل الأمر بترکهما وإيضاح خلاف ما ظنه الصديق رضی الله عنه . فأوضح له النبی صلی الله عليه وآله وسلم الحال وعرفه الحکم مقرونا ببيانالحکمة بأنه يوم عيد أی يوم سرور شرعي، فلا ينکر فيه مثل هذا کما لا ينکر في الأعراس.

العسقلاني، فتح الباری، 2 / 442.

حافظ عسقلانی اس حدیث کی شرح میں ’فتح الباری‘ میں فرماتے ہیں: ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ اس میں ان بچیوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کی وجہ بیان ہوئی ہے اور اس کے خلاف کی وضاحت ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گمان کیا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اس حال کو واضح فرما دیا اور انہیں حکمت کے ساتھ اس حکم سے آگاہ فرما دیا جو اس کے ساتھ ملا ہو ا تھا کہ یہ عید کا دن ہے یعنی مسرتِ شرعی کا دن ہے۔ پس اس میں اس طرح کے کا م میں کوئی کراہت نہیں جیسا کہ شادی بیاہ کے موقع پر کوئی کراہت نہیں (بشرطیکہ کلام جائز ہو).

قال القرطبی: قولها ليستا بمغنيتين، أی ليستا ممن يعرف الغناء کما يعرفه المغنيات المعروفات بذلک. وهذا منها تحرز عن الغناء المعتاد عند المشتهرين به وهو الذی يحرک الساکن ويبعث الکامن: وهذا النوع إذا کان فی شعر فيه وصف محاسن النساء والخمر وغيرهما من الأمور المحرمة لا يختلف فی تحريمه.

العسقلاني، فتح الباری، 2 / 442.

امام قرطبی فرماتے ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ’’ وہ گانے والی نہ تھیں‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھیں جو گانے بجانے کے فن کو باقاعدہ جانتے ہیں جیسا کہ پیشہ ور گانے والیاں اس فن کو جانتی ہیں اور جمہور کے نزدیک اس سے عام گانے بجانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کا اطلاق اس گانے بجانے پر ہوتا ہے جو ساکن جذبات کو متحرک کر تا اور پوشیدہ جذبات کو مشتعل کرتا ہے۔ یہ قسم اگر شعر میں ہو جس میں عورتوں کی خوبیوں اور شراب جیسے حرام امور کا ذکر ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔

2. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنه : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی الله عنه دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَامِ مِنًی تُغَنِّيَانِ وَتُدَفِّفَانِ وَتَضْرِبَانِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَکْرٍ فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَکْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَامُ عِيدٍ. وَتِلْکَ الْأَيَامُ أَيَامُ مِنًی، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَی الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ، فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ يَعْنِي مِنَ الْأَمْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قصة الحبش، 3 / 1298، الرقم: 3337، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية في أيام العيد،2 / 607، الرقم: 892، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 84، الرقم: 24585.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے۔ زمانہ حج کے دوران میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں اور دف بجا رہی تھیں اورحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کپڑا اوڑھ کر آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لڑکیوں کو ڈانٹا، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرۂ انور سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: اے ابوبکر! یہ عید کے دن ہیں۔ اور وہ دن حج کے دن تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پردا کرا رکھا تھا اور میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے (یعنی نیزہ بازی اور تلوار زنی کرتے) ہوئے دیکھ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(اے عمر) بنی ارفدہ کو اطمینان سے (یہ) کام کرنے دو۔

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

قال العسقلاني في الفتح: يلعبون فی المسجد. قال المحب الطبری: هذا السياق يشعر بأن عادتهم ذلک فی کل عيد. ووقع فی رواية ابن حبان: لما قدم وفد الحبشة قاموا يلعبون فی المسجد، وهذا يشعر بأن الترخيص لهم فی ذلک بحال القدوم ولا تنافی بينهما لاحتمال أن يکون قدومهم صادف يوم عيد. وکان من عادتهم اللعب فی الأعياد ففعلوا ذلک کعادتهم، ثم صاروا يلعبون يوم کل عيد ويؤيده ما رواه أبو داود عن أنس رضی الله عنه ، قال: لما قدم النبي صلی الله عليه وآله وسلم المدينة لعبت الحبشة فرحا بذلک لعبوا بحرابهم، ولا شک أن يوم قدومه صلی الله عليه وآله وسلم کان عندهم أعظم من يوم العيد.

العسقلاني، فتح الباری، 2 / 443.

حافظ عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں: حدیث مبارکہ ’’وہ لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے‘‘ کے بارے میں محب طبری فرماتے ہیں کہ یہ سیاق اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ( کھیل) ہر عید پر ان کا معمول تھا، اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا اور وہ مسجد میں کھیلنے کے لئے کھڑے ہوئے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کو اجازت ان کے آتے ہی مل گئی تھی۔ ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں اس احتمال کے باعث کہ ان حبشیوں کی آمد اتفاقًا عید کے دن ہوئی اورعیدوں کے موقع پر کھیلنا ان کا معمول تھا۔چنانچہ انہوں نے اپنے معمول کے مطابق کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک عید کے موقع پر تشریف لائے اور ان کا عید کے دن کھیلنے کا معمول تھا۔ پس انہوں نے اپنے معمول کے مطابق کیا اور پھر وہ ہر عید کے موقع پر کھیلنے لگے۔ اس کی تائید ابو داود کی روایت سے ہوتی ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حبشی اس پر شاداں و فرحاں ہو کر کھیلے۔ وہ اپنے نیزوں سے کھیلے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا دن ان کے لئے عید کے دن سے بھی زیادہ عظمت والا دن تھا۔

3. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَدِمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْمَدِيْنَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُوْنَ فِيْهِمَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا هٰذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِيْهِمَا فِي الْجَاهِلِيَةِ. قَالَ إِنَّ اﷲَ قَدْ أَبْدَلَکُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْر وَيَوْمَ النَّحْرِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.

3: أخرجه أحمد ابن حنبل في المسند، 2 / 250، الرقم: 13647، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب صلاة العيدين، 1 / 295، الرقم: 1134، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، 3 / 179، الرقم: 1556، والحاکم في المستدرک، 1 / 434، الرقم: 1090.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے لیے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ یہ دو دن کیا ( اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اﷲ !) ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے(اور خوشی مناتے) تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان کی جگہ ان سے بہتر دو دن. عید الفطر اور عید الاضحی۔ مرحمت فرمائے ہیں۔

اس حدیث کو امام احمد، ابو داود، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فِي کَبْکَبَةٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ يُصَلُّوْنَ عَلٰی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ يَذْکُرُ اﷲَ، فَإِذَاکَانَ يَوْمُ عِيْدِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهٰی بِهِمْ مَلَائِکَتَهُ، فَقَالَ: يَا مَلَائِکَتِي، مَا جَزَائُ أَجِيْرٍ وَفّٰی عَمَلَهُ؟ قَالُوْا: رَبَّنَا، جَزَاؤُهُ أَنْ يُوَفّٰی أَجْرُهُ. قَالَ: مَلَائِکَتِي، عَبِيْدِي وَإِمَائِي قَضَوْا فَرِيْضَتِي عَلَيْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا يَعُجُّوْنَ إِلَيَّ بِالدُّعَائِ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَکَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَکَانِي لَأُجِيْبَنَّهُمْ. فَيَقُوْلُ: ارْجِعُوْا قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَبَدَّلْتُ سَيِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ. قَالَ: فَيَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّهُمْ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

4: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 343، الرقم: 3717، وأيضا في فضائل الأوقات، 1 / 318، الرقم: 155.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل e فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں، اور ہر اس کھڑے یا بیٹھے ہوئے بندے پر سلام بھیجتے ہیں جو اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے، یعنی عید الفطر کا دن تو اﷲ تعالیٰ ان بندوںپر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنے ذمہ میرا فریضہ پورا کر دیا۔ پھر وہ دعا میں دستِ طلب دراز کرتے ہوئے نکل پڑتے ہیں۔ (اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں) مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنے کرم، اپنی بلندی شان اور رفعتِ مکانی کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر (اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ فرمایا: پھر یہ لوگ بخشش یافتہ ہو کر لوٹتے ہیں۔

اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَا: لَمْ يَکُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحٰی. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب المشي والرکوب إلی العيد والصلاة قبل الخطبة بغير أذان ولا إقامة، 1 / 327، الرقم: 917، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، 2 / 604، الرقم: 886.

حضرت ابن عباس اور حضرت جابر بن عبد اﷲ سے مروی ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْعِيْدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.

6: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء، 2 / 604، الرقم: 887، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 91، الرقم: 20879، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب ترک الأذان في العيد، 1 / 298، الرقم: 1148، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء أن صلاة العيدين بغير أذان ولا إقامة، 2 / 412، الرقم: 532.

حضرت جابر بن سَمُرَہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی مرتبہ بغیر اَذان اور اِقامت کے نماز عیدین پڑھی ہے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ عَطَائٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ إِلَی ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا بُويِعَ لَهُ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ، إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب المشي والرکوب إلی العيد والصلاة قبل الخطبة بغير أذان وإقامة، 1 / 327، الرقم: 916، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، 2 / 604، الرقم: 886.

عطاسے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس (یہ پیغام دے کر) بھیجا۔ جب کہ ابھی ان کے لیے بیعت لی جا رہی تھی۔ کہ عید الفطر کے لیے اذان نہیں کہی جاتی اور خطبہ نماز کے بعد ہی ہوتاہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

8. عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَی ابْنِ أَزْهَرَ أَنَّهُ شَهِدَ العيد يَوْمَ الْأَضْحٰی مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، فَصَلّٰی قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ نَهَاکُمْ عَنْ صِيَامِ هٰذَيْنِ العيديْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَيَوْمُ فِطْرِکُمْ مِنْ صِيَامِکُمْ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَيَوْمٌ تَأْکُلُونَ مِنْ نُسُکِکُمْ، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: ثُمَّ شَهِدْتُ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فَکَانَ ذَلِکَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَصَلّٰی قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هٰذَا يَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِيهِ عِيدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْتَظِرَ الْجُمُعَةَ مِنْ أَهْلِ الْعَوَالِي فَلْيَنْتَظِرْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَرْجِعَ فَقَدْ أَذِنْتُ لَهُ، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: ثُمَّ شَهِدْتُهُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه ، فَصَلَّٰی قَبْلَ الْخُطْبَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب ما يؤکل من لحوم الأضاحي وما يتزود منها، 5 / 2116، الرقم: 5251، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 34، الرقم: 224، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 281، الرقم: 5636.

ابو عبید مولیٰ بن ازہر کا بیان ہے: میں عید الاضحی کے روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید گاہ میں حاضر ہوا۔ پس انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید پڑھائی، پھر انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں ان دونوں عیدوں کے روز روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک تو تمہارے روزوں کی افطاری کا دن ہے اور دوسرے روز تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو. ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ پھر میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نمازِ عید میں شامل ہوا اور وہ روز جمعہ تھا، پس خطبہ سے پہلے نماز پڑھی۔ پھر انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! آج کے روز تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں، لہٰذا باشندگانِ عوالی سے جو چاہے نماز جمعہ کا انتظار کرسکتا ہے، اور جو واپس جانا چاہے تو اسے میں اجازت دیتا ہوں۔ ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ پھر میں حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز عید میں شامل ہوا تو انہوں نے بھی خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيْدَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَکُلُّهُمْ کَانُوْا يُصَلُّوْنَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

9: أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب العيدين، باب الخطبة بعد العيد، 1 / 327، الرقم: 920، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء، 2 / 605، الرقم: 888، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 296، الرقم: 5994.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نمازِ عید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان l کے ساتھ حاضر ہوا۔ یہ سب خطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

10. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ کَانُوا يُصَلُّوْنَ الْعِيْدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء، 2 / 605، الرقم: 888، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء أن صلاة العيدين بغير أذان ولا إقامة، 2 / 411، الرقم: 531، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب صلاة العيدين قبل الخطبة، وابن أبي شيبة في المصنف، 5673، الرقم: 5673.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما خطبہ سے پہلے عیدین کی نماز پڑھتے تھے۔

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

11. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی وَالصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فرض صدقة الفطر، 2 / 547، الرقم: 1432، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب فرض زکاة رمضان علی المسلمين دون المعاهدين، 5 / 48، الرقم: 2504 ، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 162، الرقم: 7477.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع (18ء3 کلوگرام) کھجور یا ایک صاع جَو کی مقدار ہر (صاحبِ استطاعت) غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر واجب فرمایا اور اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

اس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: فَرَضَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم صَدَقَةَ الْفِطْرِ أَوْ قَالَ رَمَضَانَ عَلَی الذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوکِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما يُعْطِي التَّمْرَ، فَأَعْوَزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنَ التَّمْرِ فَأَعْطٰی شَعِيرًا فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ يُعْطِي عَنِ الصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ حَتّٰی إِنْ کَانَ يُعْطِي عَنْ بَنِيَّ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما يُعْطِيْهَا الَّذِينَ يَقْبَلُونَهَا وَکَانُوا يُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر علی الحر والمملوک، 2 / 549، الرقم: 1440، ومسلم (مختصرا) في الصحيح، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمين من التمر والشعير، 2 / 677، الرقم: 984.

حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ہر مرد ، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو کی مقدار واجب فرمایا۔ لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما (صدقہ فطر میں )کھجوریں دیا کرتے۔ ایک دفعہ اہل مدینہ کھجوروں کے قحط میں مبتلا ہو گئے تو جَو دیئے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہر چھوٹے اور بڑے کی طرف سے (صدقہ فطر) دیا کرتے، یہاں تک کہ میرے (نافع کے) بیٹوں کی طرف سے بھی اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں کو دیتے جو قبول کر لیا کرتے اور عید الفطر سے ایک دو روز پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

13. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ:کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر صاع من طعام، 2 / 548، الرقم: 1435، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر علی المسلمين من التمر والشعير، 2 / 678، الرقم: 985، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة عن رسول اﷲ، باب ما جاء في صدقة الفطر، 3 / 59، الرقم:673، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب الزبيب، 5 / 51، الرقم: 2512، ومالک في الموطأ، 1 / 284، الرقم: 627.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جَو میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا پنیر میں سے ایک صاع یا کشمش میں سے ایک صاع صدقہ فطر کے طور پر نکالا کرتے تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

14. عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ عَن أَبِيْهِ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَدُّوا صَاعًا مِنْ قَمْحٍ. أَو قَالَ: صَاعًا مِنْ بُرٍّ. عَنِ الصَّغِيْرِ وَالکَبِيْرِ، وَالذَّکَرِ وَالأُنْثٰی، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوْکِ، وَالْغَنِيِّ وَالْفَقِيْرِ. أَمَّا غَنِيُّکُمْ فَيُزَکِّيْهِ اﷲُ وَأَمَّا فَقِيْرُکُمْ فَيَرُدُّ اﷲُ عَلَيْهِ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَائُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ.

14: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 432، الرقم: 23714، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 318، الرقم: 5785، والدارقطني في السنن، 1 / 361، الرقم: 2086، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 163، الرقم: 7484، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 120، الرقم: 108.

حضرت ثعلبہ بن ابی صعیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گندم کا ایک صاع . یا فرمایا:گیہوں کا ایک صاع . (صدقہ فطر) ہر چھوٹے بڑے، مرد و عورت، آزاد و غلام، غنی اور فقیر کی طرف سے ادا کرو. غنی کو اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے) پاک کردیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس سے زیادہ واپس کر دیتا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد، عبد الرزاق اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

15. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَعَثَ مُنَادِيًا فِي فِجَاجِ مَکَّةَ: أَلَا! إِنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، صَغِيرٍ أَوْ کَبِيرٍ، مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ أَوْ سِوَاهُ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

15: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في صدقة الفطر، 3 / 60، الرقم: 674، والدارقطني في السنن، 1 / 358، الرقم: 2061.

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد(شعیب بن محمد بن عبد اﷲ ) سے، وہ اپنے دادا (حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی شاہراہوں پر ایک منادی بھیجا (اس نے اعلان کیا:) سن لو! صدقہ فطر دو مد گندم یا ایک صاع کھانا ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے اور بڑے (سب) پر واجب ہے۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

16. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِإِخْرَاجِ زَکَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُودَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

16: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الأمر بإخراج زکاة الفطر قبل الصلاة، 2 / 679، الرقم: 986، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 67، الرقم: 5345 وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب متی تؤدی، 2 / 111، الرقم: 1610، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب الوقت الذي يستحب أن تؤدی صدقة الفطر فيه، 5 / 54، الرقم: 2521،.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.

17: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 / 111، الرقم: 1609، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 1 / 585، الرقم: 1827، والدارقطني في السنن، 2 / 138، والحاکم في المستدرک، 1 / 568، الرقم: 1488، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 296، الرقم: 3348.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو واجب فرمایا جو روزہ دار کو لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے والا ہے اور غریبوں کی غذا کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔

اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، دارقطنی اور حاکم نے روایت کیا، اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے، لیکن انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی۔

18. عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْفِطْرِ، فَصَلّٰی فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ، فَأَتَی النِّسَاءَ فَذَکَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَکَّأُ عَلٰی يَدِ بِلَالٍ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَائُ الصَّدَقَةَ. قُلْتُ لِعَطَائٍ: زَکَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ؟ قَالَ: لَا وَلٰکِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ. قُلْتُ: أَتُرٰی حَقًّا عَلَی الْإِمَامِ ذٰلِکَ وَيُذَکِّرُهُنَّ؟ قَالَ: إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب موعظة الإمام النساء يوم العيد، 1 / 332، رقم: 935، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، 2 / 603، الرقم: 885، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 296، الرقم: 14196، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب الخطبة يوم العيد، 1 / 297، الرقم: 1141.

عطاء نے حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ عید الفطر کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز سے ابتدا کی۔ پھر خطبہ ارشاد فرمایا۔ جب فارغ ہوئے تو (منبر سے) نیچے اترے اور خواتین کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لے رکھا تھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑاپھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈالتی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ صدقہ فطر؟ فرمایا: نہیں بلکہ یہ اور صدقہ تھا جو وہ اس وقت کر رہی تھیں۔ ایک اپنی انگشتری ڈالتی اور پھر دوسری عورتیں ڈالنے لگتیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا امام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ فرمایا: یہ ان کے لیے ضروری ہے لیکن انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ایسا نہیں کرتے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمَ أَضْحٰی أَوْ فِطْرٍ، فَصَلّٰی رَکْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَی النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَتُلْقِي سِخَابَهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهٰذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الخطبة بعد العيد، 1 / 327، الرقم: 921، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب ترک الصلاة قبل العيد، 2 / 606، الرقم: 884، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 280، الرقم: 2533، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة ، باب الصلاة بعد صلاة العيد، 1 / 301، الرقم: 1159، والترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء في صلاة قبل العيد وبعدها، 2 / 417، الرقم: 537، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب الصلاة قبل العيدين وبعدها، 3 / 193، الرقم: 1587.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر کو تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز(عید) پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس(دو رکعت نماز عید)سے قبل کوئی نماز پڑھی نہ بعد میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواتین کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں صدقہ کا حکم دیا تو( ان کے دامن میں) کوئی عورت اپنا چھلا ڈالتی اور کوئی اپنا ہار.

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔

20. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْأَضْحٰی وَيَوْمَ الْفِطْرِ فَيَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا صَلّٰی صَلَاتَهُ وَسَلَّمَ، قَامَ فَأَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ وَهُمْ جُلُوْسٌ فِي مُصَلَّاهُمْ، فَإِنْ کَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِبَعْثٍ ذَکَرَهُ لِلنَّاسِ أَوْ کَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ بِغَيْرِ ذٰلِکَ أَمَرَهُمْ بِهَا، وَکَانَ يَقُوْلُ: تَصَدَّقُوْا تَصَدَّقُوْا تَصَدَّقُوْا. وَکَانَ أَکْثَرَ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَائُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

20: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب العمل في غسل العيدين والنداء، 2 / 605، الرقم: 889، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 42، الرقم: 11399، والنسائي في السنن، کتاب صلاة العيدين، باب استقبال الإمام الناس بوجهه في الخطبة، 3 / 187، الرقم: 1576.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الاضحی اور عید الفطر کے روز باہر تشریف لے جاتے اور نماز سے اِبتداء فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے اور سلام پھیر نے کے بعد کھڑے ہو جاتے اور لوگوں کی طرف تشریف لے جاتے جبکہ وہ ابھی اپنی نمازکی جگہ بیٹھے ہوتے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو اس کا لوگوں سے ذکر فرماتے، اگر کوئی اور کام ہوتا تو اس کا حکم دیتے اور فرماتے: صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو. سب سے زیادہ صدقہ کرنے والی عورتیںہوتی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے جاتے۔

اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيْدَ، قَالَ: کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ وَأَبُوْ مُوْسٰی الأَشْعَرِيُّ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيْدُ ابْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّکْبِيْرِ فِي الصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحٰی. . . فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: سَلْ هٰذَا لِعَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُودٍ. فَسَأَلَهُ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: يُکَبِّرُ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ، فَيَرْکَعُ، ثُمَّ يَقُوْمُ فِي الثَّانِيَةِ، فَيَقْرَأُ، ثُمَّ يُکَبِّرُ أَرْبَعاً بَعْدَ الْقِرَاءَ ةِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

21: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 293، الرقم: 5687، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 494، الرقم: 5706، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 303، الرقم: 9516.

حضرت علقمہ اور اَسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما تشریف فرما تھے اور ان کے پاس حضرت حذیفہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان دونوں سے سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے عید الفطر اور عید الاضحی میں تکبیر کہنے کا طریقہ پوچھا۔ حضرت حذیفہ نے سعید بن عاص سے کہا کہ یہ سوال عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے پوچھو. سعید بن عاص نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: (بشمول تکبیر تحریمہ) چار تکبیرات کہے، پھر تلاوت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، پھر دوسری رکعت میں کھڑا ہو ، پھر تلاوت کرے، پھر (بشمول تکبیر رکوع) چار تکبیرات کہے۔

اس حدیث کو امام عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی يَأکُلَ تَمَرَاتٍ. وَقَالَ مُرَجَّأُ بْنُ رَجَائٍ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اﷲِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَيَأکُلُهُنَّ وِتْرًا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب الأکل يوم الفطر قبل الخروج، 1 / 325، الرقم: 910، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم: 12290، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 342، الرقم: 1429، وابن حبان في الصحيح، 7 / 53، الرقم: 2814، والحاکم في المستدرک، 1 / 433، الرقم: 1090.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عید الفطر کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک عید گاہ تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے۔ اور مرجّا بن رجاء سے عُبیداللہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجوریں طاق تعداد میں تناول فرمایا کرتے۔ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ رضی الله عنهما عَنْ أَبِيهِ قَالَ:کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی يَطْعَمَ، وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحٰی حَتّٰی يُصَلِّيَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

23: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء في الأکل يوم الفطر قبل الخروج، 2 / 426، الرقم: 542، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في الأکل يوم الفطر قبل أن يخرج، 1 / 558، الرقم: 1756، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 341، الرقم: 1426، وابن حبان في الصحيح، 7 / 52، الرقم: 2812، والدارقطني في السنن، 1 / 294، والطيالسي في المسند، 1 / 109، الرقم: 811.

حضرت عبد اللہ بن بُریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے دن کچھ کھائے بغیر عیدگاہ کی طرف تشریف نہ لے جاتے اور عید الاضحی کے دن نماز سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا کَانَ يَوْمُ عِيْدٍ خَالَفَ الطَّرِيْقَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

24: أخرجه البخاري في الصحيح، أبواب العيدين، باب من خالف الطريق إذا رجع يوم العيد، 1 / 334، الرقم: 943.

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید کے روز (نماز عید کے لئے) مخالف راستوں سے آیا جایا کرتے۔

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

25. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: نَهَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

25: أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم يوم الفطر، 2 / 702، الرقم:1890، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحی، 2 / 799، الرقم: 1138، وأحمد بن حنبل في المنسد، 3 / 85، الرقم: 11821، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب في النهي عن صيام يوم الفطر والأضحی، 1 / 549، الرقم:1721، والأصبهاني في مسند أبي حنيفة، 1 / 163.

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الفطر اور قربانی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

26. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي رِوَايَةٍ: لَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ: الْفِطْرِ وَالْأَضْحٰی. رَوَاهُ البُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

26: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب الصوم يوم النحر، 2 / 703، الرقم: 1893، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 85، 96، الرقم: 11821، 11929.

حضرت ابو سعید خدری ص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میںبیان کرتے ہیں کہ ان دو دنوں کا روزہ نہیں ہے: عید الفطر اور عید الاضحی۔

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

27. عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيَامُ التَّشْرِيْقِ أَيَامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

27: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق، 2 / 800، الرقم:1141، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 75، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 463، الرقم:4182، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 94، الرقم:15268.

حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایام تشریق (عید الاضحی کے بعد تین دن) کھانے پینے کے دن ہیں۔

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ سَعْدِ بْن أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ أُنَادِيَ أَيَامَ مِنيً: إِنَّهَا أَيَامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ، وَلَا صَوْمَ فِيْهَا، يَعْنِي: أَيَامَ التَّشْرِيقِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

28: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 169، الرقم: 1456، وفي 1 / 174، الرقم: 1500، والحارث بن أسامة في المسند، 1 / 434، الرقم: 350.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایام منی میں مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں اور ان میں روزہ نہیں ہوتا یعنی ایام تشریق. اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

29. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنهما قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.

29: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب صوم عشر ذي الحجة، 2 / 833، الرقم:1176، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 42، الرقم:24193، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في صيام العشر، 3 / 129، الرقم:756، والنسائی في السنن الکبری، 2 / 165، الرقم:2872، وابن الجعد في المسند، 1 / 265، الرقم:1744، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 285، الرقم: 8177.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عشرئہ ذی الحجہ کے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔

اس حدیث کو امام مسلم ، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

30. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدُ وَالتِّرْمِذِي وَالنَّسَائِيُّ.

30: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب صيام أيام التشريق، 2 / 320، الرقم: 2419، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب في کراهية الصوم في أيام التشريق، 3 / 143، الرقم: 773، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب النهي عن صوم يوم عرفة، 5 / 252، الرقم: 3004، والدارمي في السنن، کتاب الصوم، باب في صيام يوم عرفة، 2 / 37، الرقم: 1764، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 394، الرقم: 15270، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 292، الرقم: 2100.

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عرفہ کا دن، قربانی کا دن اور ایام تشریق اہل اسلام کے لئے عید (کے دن ) ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

اس حدیث کو امام ابوداود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

31. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم نَهٰی عَنْ صَوْمِ خَمْسَةِ أَيَامٍ فِي السَّنَةِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ النَّحْرِ، وَثَلَاثَةِ أَيَامِ التَّشْرِيقِ.

رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ.

31: أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 407، الرقم: 2384، وأبو يعلی في المسند، 7 / 149، الرقم: 4117.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سال میں پانچ دن کے روزوں سے منع فرمایا: عید الفطر کے روز، عید قربان کے روز اور تین دن ایام تشریق کے۔ اس حدیث کو امام دارقطنی نے روایت کیا ہے۔

32. عَنْ الْبَرَائِ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ، فَقَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هٰذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

32: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب سنة العيدين لأهل الإسلام، 1 / 324، الرقم: 908.

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: اس روز کی ابتدا ہم نماز پڑھنے سے کرتے ہیں، پھر واپس لوٹ کر قربانی کرتے ہیں۔ جس نے ہماری طرح کیا اس نے ہمارے طریقے کو پا لیا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هٰذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ، لَيْسَ مِنَ النُّسْکِ فِي شَيْئٍ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ: يَا رَسُولَ اﷲِ! ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ. فَقَالَ اجْعَلْهُ مَکَانَهُ وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التکبير إلی العيد، 1 / 329، الرقم: 922، ومسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب وقتها، 3 / 1553، الرقم: 1961، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 303، الرقم:18715، والنسائي في السنن، 3 / 182، الرقم: 1563، وابن حبان في الصحيح، 13 / 228، الرقم: 5907.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس روز جس چیز کے ساتھ ہم آغاز کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں۔ پھر واپس جا کر قربانی کرتے ہیں۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہمارے طریقے کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے تیار کیا۔ اس میں قربانی نام کی کوئی چیز نہیں۔ انصار میں سے ایک شخص عرض گزار ہوا جس کو ابو بردہ بن نیار کہا جاتا تھا: یا رسول اللہ! میں ذبح کر بیٹھا لیکن میرے پاس بکری کا آٹھ نو ماہ کا بچہ ہے جو دو سال والے سے بہتر ہے۔ فرمایا کہ اس کی جگہ کر لو اور تمہارے بعد اور کسی کے لیے کافی یا جائز نہیں۔

33. عن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ وَأَنَا أُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ.مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

33: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأضاحي، باب في أضحية النبي صلی الله عليه وآله وسلم بکبشين أقرنين، 5 / 2111، الرقم: 5233.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو دنبوں کی قربانی دیا کرتے تھے اور میں بھی دو دنبوں کی قربانی کرتا ہوں۔

34. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، قَالَ: ضَحَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صِفَاحِهِمَا يُسَمِّي وَيُکَبِّرُ، فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ.

34: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأضاحي باب من ذبح الأضاحي بيده، 5 / 2113، الرقم: 5238.

ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے دنبوں کی قربانی دی۔ پس میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا قدم مبارک ان کے پہلوؤں پر رکھا، بسم اﷲ اور تکبیر پڑھی، پھر اپنے دست اقدس سے دونوں کو ذبح فرمایا۔

35. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: ذَبَحَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

35: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب الاشتراک في الهدي وإجزاء البقرة، والبدنة کل منها، 2 / 956، الرقم: 1319، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 378، الرقم: 15086، وأبوعوانة في المسند، 2 / 318، الرقم: 3273.

حضرت جابر (بن عبد اللہ) رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی۔

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ قُرْطٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَامِ عِنْدَ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ قَالَ عِيسٰی قَالَ ثَوْرٌ وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي وَقَالَ وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اﷲِ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَتِهِنَّ يَبْدَأُ، فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا قَالَ: فَتَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ خَفِيَةٍ لَمْ أَفْهَمْهَا، فَقُلْتُ: مَا قَالَ؟ قَالَ: مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ واللَّفْظُ لَهُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الِإسْنَادِ

36: أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 350، الرقم: 19098، و أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب في الهدي إذا عطب قبل أن يبلغ، 2 / 148.149، الرقم: 1765، والحاکم في المستدرک علی الصحيحين،کتاب الأضاحی، 4 / 221.

حضرت عبد اﷲ بن قرط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک یوم النحر(دس ذی الحجہ) ہے، پھر یوم القر ہے یعنی اگلا روز، اور فرمایا کہ پانچ یا چھ گائیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئیں، وہ ساری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک تر ہونا شروع ہو گئیں کہ (کیا معلوم) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس سے قربا نی کا آغاز فرمائیں۔جب وہ ذبح ہونے کے بعد اپنے پہلوؤں کے بل گر گئیں توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آہستہ سے کچھ ارشاد فرمایا جو میں سمجھ نہ سکا۔ میں نے( اپنے نزدیک والے شخص سے ) پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ (اس نے کہا: ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو چاہے (ان کا گوشت) کاٹ کر لے جائے۔

37. عَنْ عَليٍّ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلٰی بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ کُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحج، باب يتصدق بجلود الهدي، 2 / 613، الرقم: 1630، ومسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب في الصدقة بلحوم الهدي وجلودها وجلالها، 2 / 954، الرقم: 1317، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 123، الرقم: 1002، والدارمي في السنن، 2 / 101، الرقم: 1940، وأبو عوانة في المسند، 2 / 315، الرقم: 3261.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ قربانی کے جانور کے پاس کھڑے رہیں اور جانور کا سارا گوشت تقسیم کر دیں بلکہ اس کی کھال اور جھول بھی اور اس میں سے مزدوری میں کچھ نہ دیا جائے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

38. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَنَحَرْنَا الْبَعِيرَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

38: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب الاشتراک في الهدي وإجزاء البقرة والبدنة کل منهما عن سبعة، 2 / 955، الرقم: 1318، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب في البقر والجزور عن کم تجزئ، 3 / 98، الرقم: 2809، والترمذي في السنن، کتاب الأضاحي، باب ما جاء في الاشتراک في الأضحية، 4 / 89، الرقم: 1502، وابن ماجه في السنن، کتاب الأضاحي، باب عن کم تجزئ البدنة والبقرة، 2 / 1047، الرقم: 3132.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کیا، سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ کی اور سات آدمیوں کی طرف سے ہی گائے کی قربانی کی۔

اس حدیث کو امام مسلم ، ابو داود ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

39. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما يَقُولُ: کُنَّا لَا نَأکُلُ مِنْ لُحُومِ بُدْنِنَا فَوْقَ ثَلَاثِ مِنًی، فَرَخَّصَ لَنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: کُلُوا وَتَزَوَّدُوا، فَأَکَلْنَا وَتَزَوَّدْنَا. قُلْتُ لِعَطَائٍ: أَقَالَ حَتّٰی جِئْنَا الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: لَا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

39: أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب الحج، باب وإذ بوأنا لإبراهيم مکان البيت أن لا تشرک بي شيئًا . . . ، 2 / 614، الرقم: 1632، ومسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب بيان ما کان من النهي عن أکل لحوم الأضاحي بعد ثلاث في أول الإسلام وبيان نسخه وإباحة إلی متی شاء، 3 / 1562، الرقم: 1972، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 317، الرقم: 14452 والنسائي في السنن، کتاب الصخايا، باب الإذن في ذلک، 7 / 333، الرقم: 4426، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم: 9062.

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ ہم اپنی منٰی والی قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ نہیں کھایا کرتے تھے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اجازت دی اور فرمایا: کھاؤ اور زادِ راہ بناؤ. پس ہم کھاتے اور زادِ راہ بناتے۔ میں نے عطاء سے کہا: کیا یہ فرمایا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچے؟ فرمایا: نہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

40. عَنْ نُبَيْشَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّا کُنَّا نَهَيْنَاکُمْ عَنْ لُحُومِهَا أَنْ تَأکُلُوهَا فَوْقَ ثَلَاثٍ لِکَيْ تَسَعَکُمْ، فَقَدْ جَاءَ اﷲُ بِالسَّعَةِ، فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَاتَّجِرُوا. أَلَا! وَإِنَّ هٰذِهِ الْأَيَامَ أَيَامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ وَذِکْرِ اﷲِ عَزَّ وَجَلَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.

40: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 75، الرقم: 20742، و أبوداود في السنن، کتاب الضحايا،، باب في حبس لحوم الأضاحي، 3 / 100، الرقم: 2813، والدارمي في السنن، 2 / 108، الرقم: 1958، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 292، الرقم: 19001.

حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں نے تمہیں قربانیوں کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ جائے۔ اب اﷲ تعالیٰ نے فراخی عطا کر دی ہے تو اب کھاؤ، جمع کرو اور ثواب کماؤ. معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دن (عید الاضحی اور ایام تشریق) کھانے پینے اور ذکرِ الٰہی کے دن ہیں۔

اس حدیث کو امام احمد، ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

41. عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما سُئِلَ عَنْ رُکُوبِ الْهَدْيِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: ارْکَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتّٰی تَجِدَ ظَهْرًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

41: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب جواز رکوب البدنة المهداة لمن احتاج إليها، 2 / 961، الرقم: 1324، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 324، الرقم: 14513، وأبوداود في السنن، کتاب المناسک، باب في رکوب البدن، 2 / 147، الرقم: 1761، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب رکوب البدنة بالمعروف، 5 / 177، الرقم: 2802، وأبويعلی في المسند، 4 / 141، الرقم: 2199.

حضرت ابو زبیر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب شدید مجبوری ہو تو سواری ملنے تک بقدرِ ضرورت اس پر سواری کر سکتے ہو .

اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved