اربعین: علم حدیث کے لیے سفر کرنے کی فضیلت

طلب حدیث کے لیے صحابہ کرامؓ کے اسفار

كَانَتِ الرِّحْلَةُ فِي طَلَبِ الْحَدِيْثِ قَائِمَةً فِي عَهْدِ الصَّحَابَةِ مِنْ أَجْلِ مَعْرِفَةِ تَعَالِيْمِ الدِّيْنِ. فَقَدْ تَـمَّتْ رِحَلاَتٌ كَثِيْرَةٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ فِي طَلَبِ الْحَدِيْثِ خَاصَّةً.

حصول حدیث کے لیے سفر کرنے کا عمل عہد صحابہ میں بھی جاری رہا، جو دین کی تعلیمات کی معرفت کےلیے سفر کیا کرتے تھے۔ علماء کرام نے بالخصوص حدیث کے حصول کی خاطر بہت سے سفر کیے۔

4. عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِي مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْـمَدِينَةِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُوْلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ، يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ، جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العلم، باب التناوب في العلم، 1: 29، الرقم: 89

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اور میرا انصاری ہمسایہ جو بنو امیہ بن زید سے تھا، اور یہ قبیلہ مدینہ منورہ کے عوالی میں رہتا تھا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں باری باری حاضر ہوتے تھے، ایک روز وہ حاضر ہوتا اور ایک روز میں۔ جس روز میں حاضر ہوتا تو اس روز کی وحی اور دیگر خبریں اسے لا کر دیتا اور جب وہ جاتا تو اسی طرح کرتا۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

5. رَوَى الْبُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ الْبَابِ فِي كِتَابِ الْعِلْمِ: رَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ مَسِيْرَةَ شَهْرٍ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَيْسٍ فِي حَدِيْثٍ وَاحِدٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العلم، باب الخروج في طلب العلم، 1: 41

امام بخاری نے کتاب العلم کے ترجمۃ الباب (باب الخروج فی طلب العلم) میں بیان کیا ہے: حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الله بن اُنیس رضی اللہ عنہ کی طرف ایک حدیث کی خاطر ایک مہینے کا سفر طے کیا۔

6. عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ؛ وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ؛ وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللهِ، تَبْلُغُهُ الْإِبِلُ، لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل القرآن، باب القراء من أصحاب النبي ﷺ، 4: 1912، الرقم: 4716؛ ومسلم في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عبد الله بن مسعود وأمه، 4: 1913، الرقم: 2463؛ والخطيب البغدادي في الكفاية في علم الرواية، 1: 402

مسروق کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، قرآن کریم کی کوئی سورت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں یہ نہ جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس کے متعلق مجھے یہ علم نہ ہو کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص اللہ کی کتاب کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اونٹ کی سواری وہاں پہنچ سکتی ہے تو میں ضرور اونٹ پر سوار ہوکر اس کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

7. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُوْلُ: بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ، سَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَاشْتَرَيْتُ بَعِيرًا ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَيْهِ رَحْلِي فَسِرْتُ إِلَيْهِ شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ عَلَيْهِ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَقُلْتُ لِلْبَوَّابِ: قُلْ لَهُ: جَابِرٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ: ابْنُ عَبْدِ اللهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. فَخَرَجَ يَطَأُ ثَوْبَهُ، فَاعْتَنَقَنِي وَاعْتَنَقْتُهُ، فَقُلْتُ حَدِيثًا بَلَغَنِي عَنْكَ، أَنَّكَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي الْقِصَاصِ، فَخَشِيتُ أَنْ تَمُوتَ، أَوْ أَمُوتَ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» أَوْ قَالَ: «الْعِبَادُ عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا». قَالَ: قُلْنَا: وَمَا بُهْمًا؟ قَالَ: «لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ، يَسْمَعُهُ مِنْ قُرْبٍ: أَنَا الْـمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَنْ يَدْخُلَ النَّارَ، وَلَهُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَلِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عِنْدَهُ حَقٌّ، حَتَّى أَقُصَّهُ مِنْهُ، حَتَّى اللَّطْمَةُ». قَالَ: قُلْنَا: كَيْفَ؟ وَإِنَّا إِنَّمَا نَأْتِي اللهَ عَزَّ وَجَلَّ عُرَاةً غُرْلًا بُهْمًا، قَالَ: «بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ».أَيْ يُؤْخَذُ مِنْ حَسَنَاتِ الظَّالِـمِ، فَيُعْطَی لِلْمَظْلُوْمِ، وَإِنْ لَـمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ، يُؤْخَذُ مِنْ سَيِّئَاتِ الْـمَظْلُوْمِ، وَيُطْرَحُ عَلَى الظَّالِـمِ، فَيَتَخَفَّفُ الْـمَظْلُوْمُ مِنْ سَيِّئَاتِهِ، وَيُزَادُ الظَّالِـمُ فِي النَّكَالِ وَالْعَذَابِ بَدَلَ سَيِّئَاتِ الْـمَظْلُوْمِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ. وَقَالَ الْهَيـْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 495، الرقم: 16085؛ وابن عبد البر في التمهيد، 23: 233؛ وأيضًا في جامع بيان العلم وفضله، 1: 93؛ والخطيب في الرحلة في طلب الحديث: 110، الرقم: 31؛ وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10: 345.

حضرت عبد اللہ بن محمد بن عقیل سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: مجھے ایک شخص کے بارے میں خبر پہنچی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے (براہ راست) ایک حدیث سنی ہوئی ہے۔ میں نے ایک اونٹ خریدا، اس پر اپنا زاد سفر باندھا اور اس شخص کی طرف ایک ماہ کا سفر طے کیا حتی کہ اس کے پاس ملک شام میں پہنچ گیا۔ وہ صحابی حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے دربان سے کہا کہ ان کو اطلاع دو کہ جابر دروازہ پر آیا ہے۔ دربان نے پوچھا: کیا آپ جابر بن عبد اللہ ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا روندھتے ہوئے (تیزی سے) باہر تشریف لائے، ہم نے معانقہ کیا۔ میں نے عرض کیا: آپ سے ایک حدیث کے بارے میں خبر ملی ہے کہ آپ نے یہ حدیثِ قصاص براہ راست رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں اس حدیث کے سماع سے قبل مجھے یا آپ کو موت نہ آ جائے (لہٰذا حدیث جا کر سننا چاہیے اس لیے میں حاضر ہو گیا ہوں)۔ حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روز قیامت بندوں کو، یا فرمایا: لوگوں کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ بے لباس ہوں گے، بغیر ختنے کے ہوں گے اور بُهْم ہوں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: بُهْمًا سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس کوئی چیز نہ ہو گی۔ ان کو ایسی آواز سے بلایا جائے گا جس کو (قریب و بعید کے سب لوگ) قریب سے ہی سنیں گے، (اللہ تعالیٰ فرمائے گا:) میں بادشاہ ہوں اور میں حاکم ہوں، کوئی دوزخی اس وقت تک روزخ میں داخل نہیں ہو سکے گا جب تک اس کا کسی جنتی پر کوئی حق باقی ہو اور میں اسے اس کا قصاص نہ لے دوں۔ کوئی جنتی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا کہ اس کا کسی دوزخی پر کوئی حق باقی ہو اور میں اسے اس کا قصاص نہ لے دوں، (یہ حق) چاہے ایک تھپڑ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: جب ہم اللہ تعالیٰ کے پاس بے لباس، غیر مختون اور بے سر و سامان حاضر ہوں گے تو وہ (قصاص) کیسے دلائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیکیوں اور گناہوں سے۔ یعنی ظالم کی نیکیوں سے نیکیاں لے کر مظلوم کو دے دے گا، اور اگر اس کے (نامہ اعمال میں) نیکی نہیں ہوگی تو مظلوم کے گناہوں سے (کچھ گناہ) ظالم کے نامہ اعمال میں ڈال دے گا۔ مظلوم کے گناہ کم ہو جائیں گے اور ظالم کے گناہ مظلوم کے گناہوں کے تبادلہ کے باعث زیادہ ہو جائیں گے لہٰذا جس کی بنا پر وہ انتقام و عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا کہ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

8. عَنِ ابْنِ عَقِيْلٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ حَدَّثَهُ — أَنَّهُ بَلَغَهُ حَدِيْثٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ — فَابْتَعْتُ بَعِيْرًا، فَشَدَدْتُ إِلَيْهِ رَحْلِي شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَبَعَثْتُ إِلَيْهِ أَنَّ جَابِرًا بِالْبَابِ، فَرَجَعَ الرَّسُوْلُ فَقَالَ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَخَرَجَ فَاعْتَنَقَنِي. قُلْتُ: حَدِيْثٌ بَلَغَنِي لَـمْ أَسْمَعْهُ، خَشِيْتُ أَنْ أَمُوْتَ أَوْ تَمُوْتَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: «يَحْشُرُ اللهُ الْعِبَادَ أَوِ النَّاسَ عُرَاةً غُرْلاً بُهْمًا».

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالْخَطِيْبُ وَقَالَ الْحَاكِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد: 337، الرقم: 970؛ وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4: 79، الرقم: 2034؛ والحاكم في المستدرك، 2: 475، الرقم: 3638؛ والخطيب في الرحلة في طلب الحديث: 100.

حضرت ابن عقیل سے مروی ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک حدیث نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی سے پہنچی (جو بالواسطہ تھی) تو میں نے ایک اونٹ خریدا اور میں نے ان کی طرف اپنی سواری پر ایک ماہ کا سفر طے کیا (تاکہ وہ حدیث ان سے خود سن لوں) یہاں تک کہ میں شام پہنچا۔ وہ صحابی عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ جابر آپ کے دروازہ پر آیا ہے۔ قاصد واپس آیا اور پوچھا: کیا آپ جابر بن عبد اللہ ہیں۔ میں نے کہا: ہاں۔ حضرت عبد اللہ بن انیس باہر تشریف لائے اور مجھ سے معانقہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: ایک حدیث مجھے ملی ہے جسے میں نے براہ راست نہیں سنا۔ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں مجھے یا آپ کو موت نہ آ جائے (لہٰذا حدیث جا کر سننا چاہیے اس لیے میں حاضر ہو گیا)۔ حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ بندوں کو، یا فرمایا: لوگوں کو اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ بے لباس ہوں گے، بغیر ختنے کے ہوں گے اور بے سرو سامان ہوں گے۔

اسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔

9. وَرَوَى بِطَرِيْقٍ آخَرَ وَفِيْهِ: «إِنَّ اللهَ يَبْعَثُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، وَهُوَ تَعَالَى عَلَى عَرْشِهِ يُنَادِي بِصَوْتٍ لَهُ رَفِيعٍ غَيْرِ فَظِيعٍ يُسْمِعُ الْبَعِيدَ كَمَا يُسْمِعُ الْقَرِيبَ، يَقُوْلُ: أَنَا الدَّيَّانُ لَا ظُلْمَ عِنْدِي، وَعِزَّتِي، لَا يُجَاوِزُنِيَ الْيَوْمَ ظُلْمُ ظَالِـمٍ، وَلَوْ لَطْمَةً، وَلَوْ ضَرْبَةَ يَدٍ عَلَى يَدٍ، وَلَأَقْتَصَّنَّ لِلْجَمَّاءِ مِنَ الْقَرْنَاءِ، وَلَأَسْأَلَنَّ الْحَجَرَ لِـمَ نَكِبَ الْحَجَرَ؟، وَلَأَسْأَلَنَّ الْعُودَ لِـمَ خَدَشَ صَاحِبَهُ. فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ عَلَيَّ فِي كِتَابِهِ: ﴿وَنَضَعُ ٱلۡمَوَٰزِينَ ٱلۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٞ شَيۡ‍ٔٗاۖ﴾ [الأنبياء، 21: 47]».

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ وَابْنُ قُدَامَةَ.

أخرجه الخطيب في الرحلة في طلب الحديث: 117، الرقم: 33؛ وابن قدامة المقدسي في إثبات صفة العلو: 73.

ایک اور طریق سے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے: بے شک اللہ تعالیٰ روز قیامت تم کو ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے گا، جبکہ وہ اپنے عرش پر جلوہ افروز ہو گا، وہ ایسی بلند آواز میں پکارے گا کہ وہ ناگوار ہرگز نہ ہو گی، وہ قریب و بعید کے ہر شخص کو یکساں سنائے گا، وہ فرمائے گا: میں حاکم ہوں اور میرے ہاں ظلم نہیں ہے، اور میری عزت کی قسم! آج کسی ظالم کا ظلم مجھ سے تجاوز نہیں کر سکتا (یعنی بدلہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتا) اگرچہ وہ ظلم ایک تھپڑ ہی ہو یا ایک ہاتھ کی دوسرے ہاتھ پر خفیف ضرب ہی ہو، میں بغیر سینگ والی بکری کا قصاص سینگ والی بکری سے ضرور دلاؤں گا، میں پتھر سے ضرور پوچھوں گا کہ اس نے دوسرے پتھر کو کیوں ٹھوکر ماری، میں عود (لکڑی) سے ضرور پوچھوں گا کہ اس نے اپنے صاحب کو کیوں زخمی کیا۔ (حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:)اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مجھ پر نازل فرمایا ہے: ﴿وَنَضَعُ ٱلۡمَوَٰزِينَ ٱلۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٞ شَيۡ‍ٔٗاۖ﴾ ’اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے سو کسی جان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا‘۔

10. عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ، يَقُوْلُ: بَيْنَا أَنَا عَلَى مِصْرَ إِذْ أَتَى الآذِنُ الْبَوَّابُ، فَقَالَ: إِنَّ أَعْرَابِيًّا عَلَى بَعِيْرٍ عَلَى الْبَابِ يَسْتَأْذِنُ، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْأَنْصَارِيُّ. قَالَ: فَأَشْرَفْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: أَنْزِلُ إِلَيْكَ أَوْ تَصْعَدُ؟ قَالَ: لَا تَنْزِلُ وَلَا أَصْعَدُ، حَدِيْثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَرْوِيْهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي سِتْرِ الْـمُؤْمِنِ، جِئْتُ أَسْمَعُهُ. قُلْتُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: «مَنْ سَتَرَ عَلَى مُؤْمِنٍ، فَكَأَنَّمَا أَحْيَى مَوْءُودَةً»؛ فَضَرَبَ بَعِيْرَهُ رَاجِعًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ أَبُو سِنَانٍ الْقَسْمَلِـيُّ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خِرَاشٍ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 8: 114، الرقم: 8133؛ وأبو داود في السنن عن عقبة بن عامر وليس فيه ذكر الراحلة، كتاب الأدب، باب في الستر عن المسلم، 4: 273، الرقم: 4891؛ والنسائي كذلك في السنن الكبرى، 4: 307، الرقم: 7281–7282؛ وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 3: 169، الرقم: 3526؛ والهيثمي في مجمع الزوائد، 1: 134.

حضرت رجاء بن حیوہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مسلمہ بن مخلد کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب میں مصر کا والی تھا تو (ایک دن) دربان میرے پاس آیا، اور کہنے لگا: ایک بدو اونٹ پر سوار ہو کر دروازے پر آیا ہے اور ملاقات کی اجازت طلب کر رہا ہے، میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے بتایا کہ میں جابر بن عبد اللہ انصاری ہوں۔ حضرت مسلمہ بن مخلد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان کو (بالا خانہ سے) جھانک کر دیکھا اور کہا: کیا میں نیچے آپ کے پاس آ جاؤں یا آپ اوپر تشریف لے آتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: نہ تو آپ نیچے آئیں اور نہ ہی میں اوپر آتا ہوں، مجھے مومن کی پردہ پوشی کے بارے میں ایک حدیث پہنچی ہے جسے آپ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، بس میں اس کا سماع کرنے آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے بھی کسی مومن کی پردہ پوشی کی تو گویا اس نے زندہ درگور لڑکی کی زندگی بچا لی۔ (یہ حدیث مبارکہ سنتے ہی) انہوں نے واپسی کے لیے اونٹ کو ضرب لگائی۔

اس حدیث کو امام طبرانی نے ’المعجم الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا کہ اس کی سند میں ابو سنان قسملی ہیں جن کو ابن حبان اور ابن خراش نے ثقہ کہا ہے۔

11. وَفِي رِوَايَةٍ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْـمَدِينَةِ إِلَى مِصْرَ، فَقَالَ لِـحَاجِبِ أَمِيرِهَا: قُلْ لِلْأَمِيرِ يَخْرُجُ إِلَيَّ، فَقَالَ الْـحَاجِبُ: مَا قَالَ لَنَا أَحَدٌ مُنْذُ نَزَلْنَا هَذَا الْبَلَدَ غَيْرُكَ، إِنَّمَا كَانَ يُقَالُ: اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى الْأَمِيرِ، قَالَ: ايْتِهِ فَقُلْ لَهُ: هَذَا فُلَانٌ بِالْبَابِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْأَمِيرُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَتَيْتُكَ أَسْأَلُكَ عَنْ حَدِيْثٍ وَاحِدٍ، فِيْمَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ مُسْلِمٍ، فَكَأَنَّمَا أَحْيَا مَوْءُودَةً».

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ فِي الرِّحْلَةِ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 122، الرقم: 36.

ایک اور روایت میں ہے: اہل مدینہ میں سے ایک شخص مصر آیا اور امیر مصر کے دربان سے کہنے لگا: امیر سے کہو کہ میرے پاس باہر تشریف لائیں۔ دربان نے کہا : جب سے ہم اس شہر میں آئے ہیں آپ کے علاوہ کسی نے بھی ایسی بات نہیں کی، بلکہ ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے لیے امیر سے اجازت طلب کریں۔ انہوں نے کہا: جاؤ اور ایسے ہی کہو کہ دروازے پر فلاں بندہ آیا ہے۔ امیر مصر ان کے پاس باہر تشریف لائے، تو انہوں نے کہا:بے شک میں آپ کے پاس آپ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں جو مسلمان کی پردہ پوشی کرنے والے شخص کے بارے میں ہے۔ امیر مصر نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو گویا اس نے زندہ درگور لڑکی کی زندگی بچا لی۔

اس حدیث کو خطیب بغدادی نے الرحلة في طلب الحديث میں روایت کیا ہے۔

12. وَفِي رِوَايَةِ جَرِيرِ بْنِ حَيَّانَ، أَنَّ رَجُلًا رَحَلَ إِلَى مِصْرَ فِي هَذَا الْـحَدِيثِ وَلَـمْ يَحِلَّ رَحْلَهُ حَتَّى رَجَعَ: «مَنْ سَتَرَ عَلَى أَخِيهِ فِي الدُّنْيَا، سَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الْآخِرَةِ».

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ فِي الرِّحْلَةِ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 123، الرقم: 37.

حضرت جریر بن حیان سے مروی ہے کہ ایک شخص نے صرف اس ایک حدیث (کے سماع) کی خاطر مصر کا سفر کیا اور بغیر قیام کے ہی واپس لوٹ گئے: جس کسی نے اس دنیا میں اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

اس حدیث کو خطیب بغدادی نے الرحلة في طلب العلم میں روایت کیا ہے۔

13. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ رضی اللہ عنهما أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ رَحَلَ إِلَى فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَهُوَ بِمِصْرَ، فَقَدِمَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَـمْ آتِكَ زَائِرًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ. قَالَ: وَمَا هُوَ قَالَ كَذَا وَكَذَا. قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ. قَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ». قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً. قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا».

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 22، الرقم: 24015؛ وأبو داود في السنن، کتاب الترجل، 4: 75، الرقم: 4160؛ والدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 151، الرقم: 571؛ والبيهقي في شعب الإيمان، 5: 227، الرقم: 6468؛ والخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 124، الرقم: 39.

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے جو مصر میں تھے۔ جب وہ ان کے ہاں پہنچ گئے تو کہا: میں صرف آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا بلکہ میں نے اور آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی، مجھے امید ہے کہ آپ کو (میری نسبت) بہتر یاد ہوگی۔ انہوں نے کہا: وہ کون سی ہے؟ انہوں نے وہ بیان کردی اور کہا: کیا وجہ ہے کہ میں آپ کے بال بکھرے ہوئے دیکھتا ہوں، حالانکہ آپ اس سرزمین کے حاکم ہیں۔ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زیادہ آرائش کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس (صحابی رسول ﷺ)نے پوچھا: لیکن کیا بات ہے کہ میں آپ کو ننگے پیر دیکھتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم کبھی کبھی ننگے پیر بھی رہا کریں۔

اس حدیث کو امام احمد، ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ ﷺ لِـحَدِيْثٍ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ مَا جِئْتُ لِـحَاجَةٍ. قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا، سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْـمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِـمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْـمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِـمِ عَلَى الْعَابِدِ، كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَـمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ».

رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه أبو داود في السنن، كتاب العلم، باب الحث على طلب العلم، 3: 317، الرقم: 3641؛ وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث في طلب العلم، 1: 81، الرقم: 223

حضرت کثیر بن قیس نے بیان فرمایا: میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا، اس نے کہا: اے ابو درداء! میں رسول ﷺ کے مبارک شہر سے ایک حدیث کی خاطر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول الله ﷺ سے آپ ایک حدیث روایت کرتے ہیں۔ میں کسی اور حاجت سے حاضر نہیں ہوا۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلے گا تو الله تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے کسی راستے پر چلائے گا۔ علم حاصل کرنے والے کی خوشی کے لیے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں۔ عالم کے لیے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی۔ عبادت کرنے والوں پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر علماء ہی انبیائے کرام کے (حقیقی) وارث ہیں کیونکہ انبیائے کرام کی میراث دینار یا درہم نہیں ہوتے، ان کی میراث علم دین ہے۔ جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ پا لیا۔

اس حدیث کو امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

15. وَفِي رِوَايَةٍ أَيْضًا عَنْهُ: قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنِّي أَتَيْتُكَ مِنَ الْـمَدِينَةِ مَدِينَةِ الرَّسُولِ ﷺ لِـحَدِيثٍ، بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ . قَالَ: فَمَا جَاءَ بِكَ تِجَارَةٌ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: وَلَا جَاءَ بِكَ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لَا.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب فضل العلم والعالم، 1: 110، الرقم: 342.

حضرت کثیر بن قیس ہی سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: میں حضرت ابو درداء کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابو درداء! میں شہر رسول ﷺ مدینہ منورہ سے ایک حدیث مبارکہ کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں، مجھے خبر ملی ہے کہ آپ وہ حدیث (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو یہاں تجارت لے کر تو نہیں آئی؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ آپ کو اس کے علاوہ کوئی اور چیز تو لے کر نہیں آئی؟ جواب دیا: نہیں۔

اس کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

16. وَفِي رِوَايَةٍ أَيْضًا عَنْهُ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْـمَدِينَةِ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ. فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ أَيْ أَخِي؟ قَالَ: حَدِيثٌ، بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ . قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِـحَاجَةٍ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: مَا قَدِمْتَ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْـحَدِيثِ. قَالَ: نَعَمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 196؛ وابن حبان في الصحيح، 1: 289، الرقم: 88؛ والبيهقي في شعب الإيمان، 2: 262، الرقم: 1696، 1697؛ وأيضاً في المدخل إلى السنن الكبرى: 250، الرقم: 347؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 79-84، الرقم: 125-132؛ والخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 77-82، الرقم: 4-6؛ وابن عساكر في تاريخ دمشق الكبير، 50: 44.

ان ہی سے مروی ایک اور روایت میں ہے: دمشق میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ سے ایک شخص آیا تو انہوں نے پوچھا:اے میرے بھائی ! تجھے کیا چیز کھینچ لائی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایک حدیث، جس کے بارے میں مجھے خبر ملی ہے کہ آپ اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیا (یہاں) تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیا کسی اور کام سے تو نہیں آئے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے (حیرت سے) کہا (اچھا) تو آپ صرف اسی حدیث کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما قَالَ: لَـمَّا تُوُفِّـيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ قُلْتُ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: يَا فُلاَنُ، هَلُمَّ، فَلْنَسْأَلْ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ فَإِنَّهُمْ الْيَوْمَ كَثِيرٌ. فَقَالَ: وَا عَجَباً لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ. أَتَرَى النَّاسَ يَحْتَاجُونَ إِلَيْكَ وَفِي النَّاسِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ تَرَى. فَتَرَكَ ذَلِكَ، وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْـمَسْأَلَةِ، فَإِنْ كَانَ لَيَبْلُغُنِيَ الْـحَدِيثُ عَنِ الرَّجُلِ، فَآتِيهِ وَهُوَ قَائِلٌ، فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي عَلَى بَابِهِ، فَتَسْفِي الرِّيحُ عَلَى وَجْهِي التُّرَابَ، فَيَخْرُجُ فَيَرَانِي. فَيَقُولُ: يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللهِ، مَا جَاءَ بِكَ؟ أَلَا أَرْسَلْتَ إِلَيَّ فَآتِيَكَ. فَأَقُولُ: لَا أَنَا أَحَقُّ أَنْ آتِيَكَ، فَأَسْأَلُهُ عَنِ الْـحَدِيثِ. قَالَ: فَبَقِيَ الرَّجُلُ، حَتَّى رَآنِي وَقَدِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيَّ. فَقَالَ: كَانَ هَذَا الْفَتَى أَعْقَلَ مِنِّي.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 150، الرقم: 570؛ وابن سعد في الطبقات الکبری، 2: 367؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 189، الرقم: 375؛ والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 158، الرقم: 215؛ والذهبي في سيرأعلام النبلاء، 3: 343.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو گیا تو میں نے ایک انصاری شخص سے کہا: اے فلاں!آؤ، اصحاب رسول ﷺ سے (احادیث کے بارے میں) سوال کرتے ہیں آج تو وہ کثیر تعداد میں ہیں۔ انہوں نے کہا: اے ابن عباس! تعجب ہے تجھ پر۔ کیا آپ کی رائے ہے کہ وہ آپ کے محتاج ہوں گے، حالانکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں صحابہ بھی موجود ہیں۔ اس نے (طلب حدیث کی راہ) ترک کر دی، جبکہ میں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث کے بارے میں) سوال کرنے لگا۔ اگر مجھے کسی شخص (صحابی) سے حدیث (کی خبر) ملتی تو میں ان کے پاس آتا، اگر وہ قیلولہ کر رہے ہوتے تو میں ان کے دروازے پر اپنی چادر کا تکیہ بنا کر لیٹا رہتا۔ ہوا میرے چہرے پر گرد و غبار ڈال دیتی پھر جب وہ صحابی باہر نکلتے اور مجھے (اس حالت میں) دیکھتے تو فرماتے: اے رسول اللہ ﷺ کے عم زاد! آپ کیوں تشریف لائے؟ آپ نے مجھے بلا بھیجا ہوتا تو میں چلا آتا۔ اس پر میں کہتا: نہیں، بلکہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حق میرا ہے، پھر میں ان سے حدیث کے بارے میں پوچھتا۔ انہوں (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: وہ (انصاری) شخص اسی طرح (طلب حدیث سے عدم دلچسپی کی حالت میں) رہا۔ حتی کہ (ایک دن) اس نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ (حدیث شریف سننے والے) لوگوں کا ایک ہجوم میرے گرد جمع تھا تو کہنے لگا: یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقل مند تھا۔

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ – مِنْ آلِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ – قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما : طَلَبْتُ الْعِلْمَ، فَلَمْ أَجِدْهُ أَكْثَرَ مِنْهُ فِي الأَنْصَارِ، فَكُنْتُ آتِي الرَّجُلَ فَأَسْأَلُ عَنْهُ، فَيُقَالُ لِي نَائِمٌ، فَأَتَوَسَّدُ رِدَائِي، ثُمَّ أَضْطَجِعُ، حَتَّى يَخْرُجَ إِلَى الظُّهْرِ. فَيَقُولُ: مَتَى كُنْتَ هَا هُنَا يَا ابْنَ عَمِّ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَأَقُولُ: مُنْذُ طَوِيلٍ. فَيَقُولُ: بِئْسَمَا صَنَعْتَ، هَلاَّ أَعْلَمْتَنِي؟ فَأَقُولُ: أَرَدْتُ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيَّ وَقَدْ قَضَيْتَ حَاجَتَكَ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 150، الرقم: 566.

حضرت حصین بن عبد الرحمٰن سے مروی ہے، جو سعد بن معاذ کی اولاد سے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے علم طلب کیا تو انصار سے بڑھ کر علم کسی کے ہاں نہیں پایا۔ میں ایک شخص (صحابی رسول ﷺ) کے پاس آتا اور ان کے بارے میں پوچھتا، تو مجھے بتایا جاتا کہ وہ سو رہے ہیں۔ تو میں (ان کے دروازے پر ہی) اپنی چادر کا تکیہ بنا لیتا اور وہاں ہی لیٹ جاتا حتی کہ وہ نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے باہر نکلتے تو فرماتے: اے رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد! آپ کب سے یہاں ہیں؟ میں جواب دیتا کہ کافی دیر سے۔ وہ کہتے: آپ نے اچھا نہیں کیا، آپ نے مجھے کیوں اطلاع نہیں دی؟ میں جواب دیتا: میں نے چاہا کہ آپ اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد خود ہی میرے پاس باہر تشریف لے آئیں۔

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما قَالَ: وُجِدَ أَكْثَرُ حَدِيثِ رَسُولِ اللهِ ﷺ عِنْدَ هَذَا الْحَيِّ مِنَ الأَنْصَارِ، وَاللهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَتِي الرَّجُلَ مِنْهُمْ، فَيُقَالُ: هُوَ نَائِمٌ فَلَوْ شِئْتُ أَنْ يُوقَظَ لِي، فَأَدَعُهُ، حَتَّى يَخْرُجَ لِأَسْتَطِيْبَ بِذَلِكَ حَدِيْثَهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 150، الرقم: 567؛ والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3: 344

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی زیادہ تر احادیث مبارکہ انصار کے اس قبیلہ میں پائی گئی ہیں، خدا کی قسم! میں ان کے کسی شخص کے پاس آتا، مجھے بتایا جاتا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کو آپ کے لیے جگا دیتے ہیں، تو میں انہیں سونے دیتا حتی کہ وہ خود نکلتے اس طرح میں خوش دلی سے ان کی حدیث لے لیتا۔

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

20. عَنِ ابْنِ جَابِرٍ رضی اللہ عنهما قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللهِ الْـحَضْرَمِيَّ الشَّامِيَّ، يَقُولُ: إِنْ كُنْتُ لَأَرْكَبُ إِلَى الْـمِصْرِ مِنَ الْأَمْصَارِ فِي الْـحَدِيثِ الْوَاحِدِ لِأَسْمَعَهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب الرحلة في طلب العلم واحتمال العناء فيه، 1: 149 الرقم: 563؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 189، الرقم: 375؛ وابن عساکر في تاريخ دمشق الكبير، 10: 165؛ والخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 147، الرقم: 57

حضرت ابن جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے بسر بن عبید اللہ حضرمی شامی کو یہ کہتے ہوئے سنا: اگر مجھے صرف ایک حدیث کے سماع کے لیے شہروں کے شہر سفر کرنا پڑتا تو میں ضرور کرتا۔

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، يَقُوْلُ: خَرَجَ أَبُوْ أَيُّوْبَ إِلَى عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَهُوَ بِمِصْرَ، يَسْأَلُهُ عَنْ حَدِيْثٍ سَمِعَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، لَـمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ غَيْرُهُ وَغَيْرُ عُقْبَةَ. فَلَمَّا قَدِمَ، أَتَى مَنْزِلَ مَسْلَمَةَ بْنِ مُخَلَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ — وَهُوَ أَمِيْرُ مِصْرَ — فَأَخْبَرَ بِهِ، فَعَجِلَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَعَانَقَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوْبَ؟ فَقَالَ: حَدِيْثٌ، سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، لَـمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ غَيْرِي وَغَيْرُ عُقْبَةَ، فَابْعَثْ مَنْ يَدُلُّنِي عَلَى مَنْـزِلِهِ. قَالَ: فَبَعَثَ مَعَهُ مَنْ يَدُلُّهُ عَلَى مَنْزِلِ عُقْبَةَ، فَأُخْبِرَ عُقْبَةُ بِهِ، فَعَجِلَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَعَانَقَهُ وَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا أَيُّوْبَ؟ فَقَالَ: حَدِيْثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، لَـمْ يَبْقَ أَحَدٌ سَمِعَهُ غَيْرِي وَغَيْرُكَ فِي سِتْرِ الْـمُؤْمِنِ؛ قَالَ عُقْبَةُ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: «مَنَ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِي الدُّنْيَا عَلَى خِزْيِهِ، سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». فَقَالَ لَهُ أَبُوْ أَيُّوْبَ: صَدَقْتَ. ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُوْ أَيُّوْبَ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَرَكِبَهَا رَاجِعًا إِلَى الْـمَدِيْنَةِ، فَمَا أَدْرَكَتْهُ جَائِزَةُ مُسَلَّمَةَ بْنِ مُخَلَّدٍ إِلَّا بِعَرِيْشِ مِصْرَ.

رَوَاهُ الْحُمَيْدِيُّ فِي الْـمُسْنَدِ.

أخرجه الحميدي في المسند، 1: 189، الرقم: 384، والحاكم في معرفة علوم الحديث، 1: 40، والخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 118–120؛ وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1: 443، الرقم: 421

عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: حضرت ابو ایوب عقبہ بن عامر کے پاس گئے اور وہ اس وقت مصر میں تھے۔ وہ ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھنے کے لیے مصر گئے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ اور عقبہ کے علاوہ کوئی اور نہیں بچا تھا کہ جس نے وہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ جب وہ مصر پہنچے تو مسلمہ بن مخلد انصاری کے گھر آئے جو مصر کے امیر تھے۔ انہیں ان (ابو ایوب کی آمد) کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ تیزی سے ان کی طرف باہر آئے، ان سے معانقہ کیا۔ پھر پوچھا: اے ابو ایوب! آپ کو کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ ایک حدیث مبارکہ جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے براہ راست سننے والا میرے اور عقبہ کے علاوہ کوئی اور شخص باقی نہیں ہے، آپ میرے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیج دیں جو مجھے عقبہ کا گھر دکھا دے۔ راوی نے کہا کہ مسلمہ نے ان کے ساتھ ایک شخص کو بھیجا جس نے ان کو عقبہ کا گھر دکھا دیا۔ عقبہ بن عامر کو ان کی آمد کی خبر دی گئی تو وہ تیزی سے ان کی طرف باہر آ گئے، ان سے معانقہ کیا اور پوچھا: اے ابو ایوب! آپ کو کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ ایک حدیث مبارکہ، جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، اور میرے اور آپ کے علاوہ مومن کی پردہ پاشی کے بارے میں اس حدیث کو سننے والا کوئی اور شخص باقی موجود نہیں۔ عقبہ نے کہا کہ ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس کسی نے اس دنیا میں کسی مومن کی رسوائی پر اس کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اس پر حضرت ابو ایوب نے فرمایا: تم نے سچ کہا، پھر حضرت ابو ایوب اپنی سواری کی طرف پلٹے، مدینہ کی طرف واپسی کے لیے اس پر سوار ہو گئے۔ مسلمہ بن مخلد کا بھیجا ہوا تحفہ بھی عریش مصر کے مقام پر آپ تک پہنچا۔

اس کو امام حمیدی نے ’المسند‘ میں روایت کیا ہے۔

22. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ رَكِبَ مِنَ الْـمَدِينَةِ إِلَى عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ بِمِصْرَ حَتَّى لَقِيَهُ، فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «مَنْ سَتَرَ مُؤْمِنًا فِي الدُّنْيَا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟» فَقَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَكَبَّرَ الْأَنْصَارِيُّ وَحَمِدَ اللهَ، ثُمَّ انْصَرَفَ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الرحلة في طلب الحديث: 120–121، الرقم: 35.

مسلم بن یسار سے مروی ہے کہ ایک انصاری شخص مدینہ منورہ سے سوار ہو کر عقبہ بن عامر کے پاس آئے، وہ اس وقت مصر میں مقیم تھے، انہوں نے ان سے ملاقات کی پھر پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس کسی نے دنیا میں کسی مومن کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرماتے گا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، راوی نے بیان کیا کہ اس انصاری صحابی نے اللہ اکبر کہا،اللہ کی حمد و ثنا کی اور پھر واپس چلے گئے۔

اس کو خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: أَتَيْتُ الْـمَدِيْنَةَ ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، وَإِذَا النَّاسُ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حِلَقٌ حِلَقٌ يَتَحَدَّثُوْنَ قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْضِي إِلَى الْحِلَقِ حَتَّى أَتَيْتُ حَلْقَةً، فِيْهَا رَجُلٌ شَاحِبٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ، كَأَنَّمَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: «هَلَكَ أَصْحَابُ الْعَقْدِ، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، لَا آسَى عَلَيْهِمْ، قَالَـهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَتَحَدَّثَ بِمَا قُضِيَ لَهُ، ثُمَّ قَامَ، فَلَمَّا قَامَ سَأَلْتُ عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوْا: هَذَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، سَيِّدُ الْـمُسْلِمِيْنَ، فَتَبِعْتُهُ حَتَّى أَتَى مَنْزِلَهُ، فَإِذَا هُوَ رَثُّ الْـهَيْئَةِ، وَرَثُّ الْكِسْوَةِ، يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، ثُمَّ سَأَلَنِي: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالَ: أَكْثَرُ شَيءٍ سُؤَالًا، فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ غَضِبْتُ، فَجَثَوْتُ عَلَى رُكْبَتَيَّ، وَاسْتَقْبَلْتُ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعْتُ يَدَيَّ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُوْ إِلَيْكَ: أَنَّا نُنْفِقُ نَفَقَاتِنَا، وَنُنْصِبُ أَبْدَانَنَا، وَنُرْحِلُ مَطَايَانَا ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، فَإِذَا لَقِيْنَاهُمْ تَجَهَّمُوْنَا، وَقَالُوْا لَنَا، فَبَكَى أُبَيٌّ وَجَعَلَ يَتَرَضَّانِي، وَقَالَ: وَيْحَكَ لَـمْ أَذْهَبْ هُنَا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُعَاهِدُكَ لَئِنْ أَبْقَيْتَنِي إِلَى يَوْمِ الْجُمُعَةِ، لَأَتَكَلَّمَنْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَلَا أَخَافُ فِيْهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، ثُمَّ أَرَاهُ قَامَ، فَلَمَّا قَالَ ذَلِكَ انْصَرَفْتُ عَنْهُ، وَجَعَلْتُ أَنْتَظِرُ الْجُمُعَةَ، لِأَسْمَعَ كَلَامَهُ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَاتِي، فَإِذَا السِّكَكُ غَاصَّةٌ مِنَ النَّاسِ، لَا آخُذُ فِي سِكَّةٍ إِلَّا تَلَقَّانِي النَّاسُ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالُوْا: نَحْسِبُكَ غَرِيْبًا؟ قُلْتُ: أَجَلْ، قَالُوْا: مَاتَ سَيِّدُ الْـمُسْلِمِيْنَ أَبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ: فَلَقِيْتُ أَبَا مُوْسَى بِالْعِرَاقِ، فَحَدَّثْتُهُ بِالْـحَدِيْثِ، فَقَالَ: وَالَـهَفَاهُ أَلَا كَانَ بَقِيَ، حَتَّى يُبْلِغَنَا مَقَالَةَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ»

رَوَاهُ ابْنُ حَجَرِ الْعَسْقَلَانِيِّ.

أخرجه ابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، 12: 699-700، الرقم: 3080

ابو عمران الجونی حضرت جندب سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں علم کی تلاش کے لیے مدینہ منورہ آیا تو (دیکھا کہ) لوگ مسجد نبوی میں حلقوں کی صورت میں احادیث مبارکہ کا مذاکرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان حلقوں کی طرف گیا اور ایک حلقے کے پاس آیا اس میں کمزور اور زرد رنگت والا ایک شخص تھا جو دو کپڑوں میں ملبوس تھا، (اس کی ظاہری حالت سے لگتا تھا کہ) گویا وہ سفر سے لوٹا ہے۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا: اہل اقتدار ہلاک ہو گئے، رب کعبہ کی قسم!مجھے ان کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ کلمات تین مرتبہ کہے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔ جو ان کےحق میں فیصلہ کیا گیا انہوں نے بیان کر دیا، پھر وہ کھڑے ہوئے، جب وہ کھڑے ہوئے تو میں نے ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ سید المسلمین ابی بن کعب ہیں، میں ان کے پیچھے گیا حتی کہ ان کے گھر پہنچ گیا، وہ خستہ حال، بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھے گویا دونوں ایک دوسرے کے مشابہ تھے،پھر میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا، پھر مجھ سے پوچھا : تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا: میں اہل عراق سے ہوں۔ انہوں نے کہا : (اہل عراق) بہت زیادہ سوال کرنے والے ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو مجھے غصہ آ گیا اور میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا، میں قبلہ رخ ہو گیا اور اپنے ہاتھ اٹھا دیئے اور میں نے کہا: اے اللہ ! ہم تجھ سے شکوہ کرتے ہیں، ہم اپنا مال خرچ کرتے ہیں، اپنے جسموں کو تھکاتے ہیں، حصول علم کی خاطر اپنی سواریوں پر سفر کرتے ہیں، جب اہل علم سے ملتے ہیں تو وہ ہمیں ناپسند کرتے ہیں اور ہمارے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ اس پر حضرت ابی بن کعب رو پڑے اور مجھے راضی کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: افسوس تم پر، میری یہ مراد نہیں تھی، پھر فرمانے لگے: اے اللہ! میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں اگر تو نے مجھے جمعہ کے روز تک زندہ رکھا تو جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اس کو ضرور بیان کروں گا اور اس بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوں گا، پھر وہ کھڑے ہو گئے۔ جب انہوں نے یہ فرمایا تو میں واپس چلا آیا اور ان کی باتیں سننے کے لیے جمعہ کا انتظار کرنے لگا۔ راوی نے بیان کیا: جب جمعہ کا دن آیا تو میں اپنے کسی کام سے باہر نکلا، (تو دیکھا کہ) راستے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے، میں جو بھی راستہ اختیار کرتا تو وہاں لوگوں کی بھیڑ ہوتی۔ میں نے پوچھا: لوگوں کا یہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: ہمارا گمان ہے کہ تم یہاں اجنبی ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: سید المسلمین حضرت اُبی بن کعب فوت ہو گئے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ بعدازاں عراق میں حضرت ابو موسیٰ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے یہ ساری بات بیان کی تو انہوں نے فرمایا: ہائے افسوس! کاش وہ زندہ رہتے تاکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ ہم تک پہنچا دیتے۔

اسے ابن حجر عسقلانی نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ حَرْبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنهما يَقُولُ: قُلْتُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ يَتَّخِذُ نَعْلَيْنِ مِنْ حَدِيْدٍ.

رَوَاهُ الْحَاكِمُ.

أخرجه الحاكم في معرفة علوم الحديث: 9.

شعبہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بشر بن حرب کو کہتے ہوئے سنا: میں نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں نے طالب علم سے کہا کہ وہ اپنے جوتے لوہے کے بنا لے۔

اس کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved