مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت

اِیمان اور کفر کے مابین حدِ فاصل اِیمان اور کفر کے درمیان نسبتِ مجازی کا لحاظ

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صلحاء کی تعظیم و تکریم اور اُن سے اِستغاثہ کے دوران عامۃ المسلمین کبھی کبھار بعض ایسے اَلفاظ کا اِستعمال کر جاتے ہیں کہ اگر اُن اَلفاظ کو اُن کے حقیقی معنی موضوع لہ کے مطابق سمجھا جائے تو بات کفر و شِرک تک جاپہنچتی ہے۔ لیکن چونکہ اُن کے دِلوں میں اپنے ادا کردہ الفاظ کے حقیقی مفہوم کی بجائے مجازی معنی مُراد ہوتا ہے اور مجازِ متعارف پائے جانے کے سبب ایسے موقع پر معاشرے میں عام طور پر مجازی معنی ہی مُراد لیا جاتا ہے لہٰذا ایسے افراد شِرک کی آلائش میں نہیں گردانے جائیں گے۔ مثلاً :

يَا أکرمَ الخلقِ مَا لِی مَن ألُوذُ به
سِواک عندَ حُلول الحادثِ العمم

ترجمہ : اَے تمام مخلوق سے بزرگ و برتر (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کے علاوہ میرا کوئی (مددگار) نہیں جس کی میں آفات کی کثرت کے وقت پناہ طلب کروں۔

لِي خمسةٌ نُاطْفی بِها حرَّ الوباءِ الحاطمةِ
اَلمصطفیٰ وَ الْمُرتضٰی وَ ابْنَاهُمَا وَ الْفَاطِمة

ترجمہ : میرے لئے پانچ (اَحباب ایسے) ہیں کہ جن کی مدد سے میں تباہ کن وباء کی حدّت کو بُجھاتا ہوں (اَور وہ یہ ہیں : ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم، اِن کے دونوں صاحبزادے (حسن رضی اللہ عنھم و حسین رضی اللہ عنھم ) اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنھمء۔

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اَب تک بنی ہوئی ہے

مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے
مِرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا

سب کا کوئی نہ کوئی دُنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارے کوئی نہیں سہارا

خدا دے پکڑے چُھڑاوے مُحمد
مُحمد دے پکڑے چُھڑا کوئی نئِیں سکدا

دنیا دے اندر ہوراں دے ہووَن گے ہور سہارے وِی
میرا تے آقا باج تِرے کوئی وِی سہارا ہور نئِیں

اِسی طرح بعض اَوقات اُمتِ مسلمہ کے کچھ اَفراد سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے ہوئے لَيسَ لنَا مَلجأٌ سِواکَ يَا رسولَ اﷲِ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کے سِوا ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں‘‘ وغیرہ جیسے اَلفاظ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بادیء النظر میں اگر ایسے اَشعار و اَلفاظ کا اِطلاق حقیقی معنی پر کیا جائے تو ایسے قول کا قائل کافر و مُشرک قرار پاتا دکھائی دیتا ہے، مگر دَرحقیقت کسی بھی مسلمان کے ذِہن میں اِن الفاظ کے اِستعمال کے وقت حقیقی معنی مُراد نہیں ہوتا۔ ہر وہ شخص جو یہ اَلفاظ پکارتا ہے وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے سِوا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی بارگاہ میرے لئے جائے پناہ ہے اور خدا کے دَر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا سہارا مجھ عاصی و خطاکار کی بخشش کا ذرِیعہ و وسیلہ ہے۔ اِن اَلفاظ سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوقِ خدا میں آپ کے سِوا میرا کوئی نہیں ہے اور آپ کے علاوہ دیگر اِنسانوں سے مجھے قطعاً کوئی اُمید نہیں ہے۔ اگرچہ ہم عام طور پر توسّل و اِستغاثہ کے دوران اِس طرح کے ذُومعنی اَلفاظ کا اِستعمال کرتے ہیں اور نہ دُوسروں کو ایسے اَلفاظ کے اِستعمال کی تلقین کرتے ہیں، تاکہ شِرک کا وہم و گمان بھی جنم نہ لے اور ایسے اَلفاظ سے اِجتناب بھی ہو جائے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کے اَلفاظ کا مجازی اِستعمال کرنے والے پر کفر و شِرک کا فتویٰ جڑ دینے میں جلدبازی سے کام لینا بھی دانشمندی کی بات نہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن مسلمانوں کے مؤحّد ہونے کے بارے میں حُسنِ ظن رکھا جائے اور معنیء مجازی کو مدّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ ہائے کفر و شِرک سے کلیتاً اِجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ مؤحّدین اللہ تعالی کی توحید کے اُسی طرح قائل ہیں جیسے اِسلامی اَحکام کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِسالت کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ جب وہ اِسلام کے جمیع اَحکام پر عمل پیرا ہیں تو چند اَلفاظ کے مجازی اِستعمال کے جُرم کی پاداش میں اُنہیں حلقۂ اِسلام سے نکال باہر پھینکنا کہاں کی ہوشمندی ہے؟ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنھم سے مروِی ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :

مَنْ صلّي صلوٰتنا وَ اسْتقبلَ قبلتَنا و أکل ذبيحتَنا فذٰلک المُسلم الذي له ذمة اﷲِ و ذمة رسولِه فلا تخفروا اﷲ فی ذمتِه.

جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنائے اور ہمارا ذبیحہ کھائے پس وہ ایسا مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِمہ ثابت ہے، پس تم اللہ کی ذمہ داری کو مت توڑو۔

(صحيح البخاري، کتاب الصلوٰة، 1 : 56)

صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ کے بعد عامۃ المسلمین کو مجازِ عقلی کے جائز اِستعمال پر مُشرک قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ مجازِعقلی کا اِستعمال قرآن و حدیث اور عملِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جا بجا موجود ہے اَور اِس سے اِنکار ممکن نہیں۔ ایک مؤمن سے ایسے اَلفاظ کا صدور مجازِ عقلی پر محمول کر لینے میں کوئی عذر مانع نہیں۔ صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق جو شخص یہ اِعتقاد رکھے کہ اللہ تعالی ہی بندوں کا خالق و مالک ہے اور اُسی نے اُنہیں مختلف اَعمال و اَفعال کی اِنجام دہی کی طاقت سے نوازا ہے، اﷲ ربّ العزّت کے اِختیار میں کسی زِندہ و مُردہ کی خواہش کو کوئی دخل حاصل نہیں اِلاّ یہ کہ خدا خود اپنی مرضی سے اُس کی خواہش و سفارش کو قبول کرے۔۔۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ہی حقیقت میں مؤمن و مسلمان ہے۔۔۔ یہی عین توحید ہے اور یہی عین اِسلام، جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بھی سیدہ مریم علیہ السلام سے مکالمہ کے دوران اللہ تعالی کے فعل کی نسبت اپنی طرف کر کے مجازِعقلی کا صدور فرمایا تھا۔ قرآنِ مجید میں جبرئیل علیہ السلام کے اَلفاظ یوں وارِد ہوئے ہیں :

لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo

تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo

(مريم، 19 : 19)

جب اللہ تعالی کی نورانی مخلوق کا سردار ایسے مجازی اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کر سکتا ہے اور اللہ ربّ العزّت خود ان الفاظ کو اپنے کلامِ مجید میں دُہرا سکتا ہے تو ایک بندۂ بشر اگر ایسے ہی اَلفاظ کی نسبت تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دے تو اِس میں کون سی قباحت ہے؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قرآنِ مجید کی حقیقی رُوح تک رسائی اِختیار کی جائے تاکہ مسلمان ایک دُوسرے کی تکفیر کا وطیرہ ترک کر دیں، اِسی میں اِسلام کا فائدہ ہے اور اِسی میں ہم سب کے اِیمان کی بھلائی ہے۔

حرفِ آخر

یہاں ہم جملہ بحث کو سمیٹتے ہوئے اِبتداء میں تحریر کردہ ایک اہم بات کو اُسلوبِ نو کے ساتھ ایک بار پھر بیان کرنا چاہیں گے کہ فی زمانہ بعض لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ کے ضمن میں حقیقت و مجاز کے درمیان فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ اُن کا عقیدہ و نظریہ اَلفاظِ قران کے فقط حقیقی معانی سے اِستدلال لینے کا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک محل نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ احادیثِ نبوی اور اَسلاف ائمہ کی قرآنی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں ہو کر تفسیر بالرائے کے مُرتکب ہو رہے ہیں اور عقائدِ اِسلام کے باب میں بدعات پیدا کرنے اور اَلفاظِ قرآنی کے معنی مُرادی سے ہٹ کر عقائد کی تشریحات وضع کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اِعتدال سے ہٹنے والا دُوسرا گروہ ضد میں آ کر مجاز کے اِستعمال میں کچھ اِس طرح سے زیادتی کا قائل ہوتا چلا گیا ہے کہ اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا ہے جبکہ اِعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔ حقیقت و مجاز کے اِستعمال میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی تعبیر و توجیہہ کے لئے ضروری و کارآمد ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved