انتخابات 2013ء

ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات

"سیاست نہیں ریاست بچاؤ"۔ محترم قارئین! یہ وہ نعرہ ہے جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں ملک پاکستان میں رائج فرسودہ و کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے پاکستان عوامی تحریک (PAT) نے بلند کیا۔ شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک (PAT) نے اس نظام کے خلاف علمِ بغاوت کیوں بلند کیا۔ ۔ ۔ ؟ دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے جارہی تھیں مگر PAT نے اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے سے انکار کیوں کیا۔ ۔ ۔ ؟ لانگ مارچ اور پولنگ ڈے پر ملک بھر میں دھرنوں کا کیا جواز تھا۔ ۔ ۔ ؟ الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل پر شیخ الاسلام نے اعتراض کیوں کیا۔ ۔ ۔ ؟ مک مکا پر مبنی الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں نے کیا گل کھلائے۔ ۔ ۔ ؟ نام نہاد سکروٹنی کی حقیقت کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب انتخابات کے نتائج کے بعد پوری قوم جان چکی اور شیخ الاسلام کے موقف کی سچائی اظہر من الشمس ہوچکی ہے۔ آیئے! شیخ الاسلام کی جدوجہد، حالیہ انتخابات کے پس منظر، انتخابات کے نتائج اور ملک کی آئندہ صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

شیخ الاسلام کے مطالبات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان پر لاکھوں لوگوں کے سامنے استحکام پاکستان کے لئے اپنا ایجنڈا دیتے ہوئے فرمایا:

"میں جو ایجنڈا اور منصوبہ دے رہا ہوں وہ آئین پاکستان کے مطابق ہے اور پاکستان کے آئین کی ایک شق بھی اس سے الگ نہیں۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آئین پاکستان کس طرح کے انتخابات چاہتا ہے؟ میں پاکستان کے آئین کا پابند ہوں۔ نظام انتخاب کو اس آئین کے تابع کریں گے اور آئین کو حکمران بنائیں گے۔ میری غرض صرف اور صرف آئین پاکستان سے ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں اس آئین کے مطابق ہوں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو، آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں، آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے اور آئین پاکستان کے مطابق دیانتدرانہ، genuine elections کی ضمانت مہیا کی جائے۔ اگلے انتخابات اگر نظام انتخاب کو بدلے بغیر اور electoral reforms کے بغیر کرا دئیے گئے تو وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے۔ اگر وہی خائن، جعلی ڈگریوں والے اور آئین کو پامال کرنے والے لوگ پھر الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار دیئے گئے تو یہ قوم کے ساتھ ایک مذاق ہوگا۔ ہم ڈرائنگ رومز کے اندر دو پارٹیوں کا آپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے"۔

23 دسمبر کے خطاب میں شیخ الاسلام نے اپنے ایجنڈے کی واضحیت کے بعد 13 جنوری تا 17 جنوری 2013ء لانگ مارچ کے دوران ملک و قوم کی رہنمائی کے لئے انتخابی اصلاحات کا درج ذیل آئینی پیکج دیا:

  1. انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کا وقت ہو تاکہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے لیے انتخابی اصلاحات کے نفاذ یا امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کے لیے مناسب وقت میسر آئے۔
  2. کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے سات دن کی بجائے ایک ما ہ کا وقت دیا جائے تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی اہلیت کا تعین کر سکے۔
  3. انتخابات سے پہلے آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 (3) پر عمل درآمد پر خصوصی توجہ دی جائے۔
  4. عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل 77 تا 82 اور سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات سے متعلق 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے (یہ آرٹیکلزانتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایمان دارانہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوانی کے معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں)۔
  5. الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا۔

اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن میں سابقہ حکومت نے ان تمام مطالبات کو تسلیم کیا، اس پر عملدرآمد کا یقین دلایا مگر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لئے راضی نہ ہوئے۔ شیخ الاسلام نے الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے نقصانات اور آئندہ انتخابات میں ان کے کردار کوجنوری 2013ء میں ہی قوم کے سامنے واضح کردیا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی طور پر تشکیل پایا ہے۔ چاروں صوبوں سے 15 ناموں میں سے باقاعدہ سماعت کے بعد 5 افرادکا تقرر کرنا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ لہذا یہ کمیشن دو سیاسی جماعتوں کے آپس کے مک مکا کا نتیجہ ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کے لئے آئین و قانون میں موجود جملہ آرٹیکلز کا نفاذ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتا ہے اور وہ ادارہ جو خود غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ سے سیاسی جماعتوںکا احسان مند ہوکر معرض وجود میں آیا ہو وہ کس طرح قانون و آئین کی بالادستی کو یقینی بناسکتا ہے بلکہ وہ تو فطرتی طور پر اپنے "محسنوں" کو ہر قدم پر "رعایت اور مدد" فراہم کرے گا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved