حقیقت مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین تنازعات کی حقیقت اور ان پر طعن سے اجتناب

اَلْبَاب 1: حَقِيْقَةُ الْمُشَاجَرَةِ بَيْنَ الصَّحَابَةِ رضی اللہ عنہم وَالْكَفُّ عَنِ الطَّعْنِ فِيْهِمْ

﴿صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین تنازعات کی حقیقت اور اُن پر طعن سے اِجتناب﴾

1. وَقَالَ الإِمَامُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْاِعْتِقَادِ: وَأَمَّا خُرُوجُ مَنْ خَرَجَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ رضی اللہ عنہ مَعَ أَهْلِ الشَّامِ فِي طَلَبِ دَمِ عُثْمَانَ ثُمَّ مُنَازَعَتُهُ إِيَّاهُ فِي الْإِمَارَةِ فَإِنَّهُ غَيْرُ مُصِيبٍ فِيْمَا فَعَلَ، وَاسْتَدْلَلْنَا بِبَرَاءَةِ عَلِيٍّ مِنْ قَتْلِ عُثْمَانَ بِمَا جَرَى لَهُ مِنَ الْبَيْعَةِ، لِمَا كَانَتْ لَهُ مِنَ السَّابِقَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيْلِ اللهِ وَالْفَضَائِلِ الْكَثِيرَةِ وَالْمَنَاقِبِ الْجَمَّةِ الَّتِي هِيَ مَعْلُومَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ إِنَّ الَّذِي خَرَجَ عَلَيْهِ وَنَازَعَهُ كَانَ بَاغِيًا عَلَيْهِ وَكَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ أَخْبَرَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ بِأَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ تَقْتُلُهُ، فَقَتَلَهُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حَرْبِ صِفِّيْنَ.

امام بیہقی ’’ کتاب الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں: جس شخص نے اہل شام کے ساتھ قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ کی طلب کا بہانہ بنا کر امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، پھر اُن کے ساتھ خلافت میں تنازع کیا وہ اپنے عمل میں درست نہیں تھا۔ قتلِ عثمان سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مبراء ہونے کے ہمارے پاس جو دلائل ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُن کی بیعتِ خلافت پر اتفاق ہوا، پھر اُن کی اسلام میں سبقت، ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ میں پیش پیش ہونا اور اُن کے دیگر فضائل کثیرہ اور مناقبِ جمیلہ جو اہل علم کے ہاں معروف ہیں، سب اُن کی براء ت کے بیّن دلائل ہیں۔ یقینا جس شخص نے اُن کے خلاف خروج کیا اور جھگڑا کیا وہ حد سے تجاوز کرنے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو آگاہ فرمایا تھا کہ: ’’اُنہیں باغی گروہ قتل کرے گا‘‘، سو اُنہیں اُس گروہ نے قتل کیا تھاجس نے جنگِ صفین میں امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔

أخرجه البيهقي في الإعتقاد/374

2. وَقَالَ الْإِمَامُ الْبَيْهَقِيُّ عَنِ الْإِمَامِ ابْنِ خُزَيْمَةَ، قَالَ: وَكُلُّ مَنْ نَازَعَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي إِمَارَتِهِ فَهُوَ بَاغٍ، عَلَى هَذَا عُهِدَتْ مَشَايِخُنَا وَبِهِ قَالَ ابْنُ إِدْرِيْسَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ. قَالَ الشَّيْخُ: ثُمَّ لَمْ يَخْرُجْ مَنْ خَرَجَ عَلَيْهِ بِبَغْيِهِ، عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: «لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيْمَتَانِ تَكُوْنُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيْمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ».

امام بیہقی، امام ابن خزیمہ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: ہر وہ شخص جس نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اُن سے تنازع کیا، وہ ریاستی قانون کی خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ اسی بات پر ہمارے مشائخ کا طے شدہ قول معروف ہے اور یہی محمد بن ادریس یعنی امام شافعی کا قول ہے۔ شیخ فرماتے ہیں: جن لوگوں نے اُن کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے خروج کیا وہ (غلط ہونے کے باوجود) خارج از اسلام نہیں ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو بڑے گروہوں کے درمیان بڑی جنگ نہ ہوگی اور اُن دونوں کا دعویٰ (اقرارِ اسلام) ایک ہی ہوگا۔

أخرجه البيهقي في الإعتقاد/375

3. وَعَنْ أَبِي مُوْسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ مَعَهُ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً وَيَقُوْلُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ يُصْلِحُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ».

حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَأَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ، وَأَحَمَدُ، وَأَبُوْدَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ، وَالْحُمَيْدِيُّ، وَالطَّيَالِسِيُّ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.

قَالَ سُفْيَانُ: قَوْلُهُ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُعْجِبُنَا جِدًّا.

ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں: میں نے امام حسن بصری سے سنا، اُنہوں نے کہا: میں نے ابوبکرہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر اس حال میں دیکھا کہ سیدنا حسن بن علی علیہم السلام آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی اُن کی طرف، پھر فرمایا: میرا یہ بیٹا سید ہے، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان مصالحت کروائے گا۔

یہ حدیث صحیح ہے، اس کو امام بخاری، احمد، ابو داود، ترمذی، نسائی، حُمیدی، طیالسی اور امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

سفیان نے کہا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی: ’’مسلمانوں کے دوگروہ‘‘ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپس میں نبرد آزما دونوں گروہوں کو مسلمان قرار دیا تھا۔)

أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب الحسن والحسين رضی اللہ عنہما، 3/1369، الرقم/3536، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/37، الرقم/20408، وأبو داود في السنن، كتاب السنة، باب ما يدل على ترك الكلام في الفتنة، 4/216، الرقم/4662، والنسائي في السنن، باب مخاطبة الإمام دعيته وهو على المنبر، 3/107، الرقم/1410، والبيهقي في السنن الكبرى، 8/173، الرقم/16486

4. وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي سُنَنِهِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ بِالإِسْنَادِ الْمُتَّصِلِ إِلَى عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: ‹‹لَا تَقُوْلُوْا كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ وَلَـكِنْ قُوْلُوْا فَسَقُوْا أَوْ ظَلَمُوْا››. وَزَادَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي إِحْدَى رِوَايَاتِهِ: وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُوْنُوْنَ جَارُوْا عَنِ الْحَقِّ فَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نُّقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوْا إِلَيْهِ. (1)

وَقدْ ذَكَرَ الإْمَامُ أَبُو الْحَسَنِ سَيْفُ الدِّيْنِ الآمَدِيُّ الشَّافِعِيُّ فِي كِتَابِهِ ‹‹أَبْكَارُ الْأَفْكَارِ›› فِي الْفَصْلِ التَّاسِعِ فِيْمَا جَرَى بَيْنَ الصَّحَابَةِ مِنَ الْفِتَنِ وَالْحُرُوْبِ أَنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الشَّافِعِيَّةِ قَالُوْا نَحْوَهُ. (2)

امام بیہقی نے اپنی ’’السنن‘‘ میں اور امام ابن ابی شیبہ نے اپنی ’’المصنف‘‘ میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما تک سندِ متصل کے ساتھ روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: یہ نہ کہوکہ اہل شام نے کفرکیا، بلکہ کہو کہ اُنہوں نے فسق یا ظلم کیا۔ امام ابن ابی شیبہ نے ایک روایت میں یہ اضافہ کیا ہے: بلکہ وہ قوم (یعنی اہلِ شام) فتنہ میں مبتلا ہوگئی اور حق سے ہٹ گئی، لہٰذا ہم پر واجب ہوگیا کہ ہم اُن سے قتال کریں حتیٰ کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔

امام ابو الحسن سیف الدین آمدی شافعی نے اپنی کتاب ’’أبكار الأفكار‘‘ کی نویں فصل میں ذکر کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو فتنے اور جنگیں رونما ہوئیں اُن کے بارے میں کثیر شافعیہ نے اسی طرح کہا ہے۔

  1. أخرجه ابن أبي شيبة في المصنّف، 7/547، الرقم/37841، 37842، والبيهقي في السنن الكبرى، 8/174-16498، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2/546، الرقم/600، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 1/346-347، وابن تيمية في منهاج السنة، 5/246

  2. الآمدي في أبكار الأفكار، 5/293

5. وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي كِتَابِ الْفِتَنِ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيّ رضی اللہ عنہما: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ» مِنْ كِتَابِهِ ‹‹فَتْحِ الْبَارِي››: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ﴾، [الحجرات، 49/19]، فَفِيْهَا الْأَمْرُ بِقِتَالِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ مَنْ قَاتَلَ عَلِيًّا كَانُوا بُغَاةً وَهَؤُلَاءِ مَعَ هَذَا التَّصْوِيبِ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُ لَا يُذَمُّ وَاحِدٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بَلْ يَقُوْلُوْنَ اجْتَهَدُوْا فَأَخْطَئُوْا وَذَهَبَ طَائِفَةٌ قَلِيْلَةٌ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَهُوَ قَوْلُ كَثِيرٍ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ إِلَى أَنَّ كُلًّا مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ مُصِيْبٌ وَطَائِفَةٌ إِلَى أَنَّ الْمُصِيْبَ طَائِفَةٌ لَا بِعَيْنِهَا. (1)

وَيَكْفِيْ لِإِثْبَاتِ ذَلِكَ الْحَدِيْثُ الصَّحِيْحُ الَّذِيْ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيِةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ». أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ فِي ‹‹كِتَابِ الصَّلَاةِ، بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ››، بِهَذَا الَّلفْظِ؛ وَرَوَاهُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ فِي ‹‹كِتَابِ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ مَسْحِ الْغُبَارِ››، بِلَفْظِ: «يَدْعُوْهُمْ إِلَى اللهِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ». وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ أَيْضًا بِالَّلفْظِ الَّذِي رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي كِتَابِ الصَّلاَةِ. (2)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ’’فتح الباری، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للحسن بن علي d: «إن ابني هذا سيد»‘‘ میں فرمایا ہے: اس آیت ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا﴾ ’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو‘ میں باغی گروہ سے لڑنے کا حکم ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کی وہ باغی تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق و صواب پر ہونے کے اعتقاد کے ساتھ لوگ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ وہ اُن مقاتلین میں سے کسی کی مذمت نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اجتہاد کیا اور غلطی کے مرتکب ہوئے، اور اہل سنت کے ایک چھوٹےسے طبقے اور کثیر معتزلہ کا کہنا ہے کہ دونوں گروہ درست تھے، ایک اور طبقہ کہتا ہے کہ بلاتعین دونوں میں سے کوئی ایک گروہ حق پرتھا۔

اور (یہ بات غلط ہے کیونکہ) ایک گروہ کے حق پر ہونے کی تعیین و تصریح کے لیے یہ صحیح حدیث ہی کافی ہے جسے امام بخاری نے بایں الفاظ نقل کیاہے: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گا اور وہ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔‘‘ امام بخاری نے اس حدیث کو ’’کتاب الصلاۃ، باب التعاون فی بناء المساجد‘‘ میں انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور اُنہوں نے دوسرے مقام پر ’’کتاب الجہاد والسیر، باب مسح الغبار‘‘ میں اِن الفاظ میں روایت کیا ہے: ’’وہ (عمار رضی اللہ عنہ ) اُنہیں اللہ کی طرف بلائے گا اور وہ (باغی گروہ کے لوگ) اُسے آگ کی طرف بلائیں گے۔‘‘ نیزاس کو امام ابن حبان نے بھی انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے جن الفاظ کے ساتھ امام بخاری نے کتاب الصلاۃ میں روایت کیا ہے۔

  1. العسقلاني في فتح الباري، 13/67، الرقم/6692

  2. أخرجه البخارى في الصحيح، كتاب الصلاة، باب التعاون في بناء المساجد، 1/172، الرقم/436، وأيضًا في كتاب الجهاد والسير، باب مسح الغبار، 3/1035، الرقم/2657، وابن حبّان في الصحيح، 15/554، الرقم/7079

6. وَرَوَى ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيْحِهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ». وَفِيْهِ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «وَيْحَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ». فَالْحَدِيْثُ بِرِوَايَتَيْهِ مِنْ أَصَحِّ الصَّحِيْحِ، فَعَمَّارُ الَّذِي كَانَ فِي جَيْشِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ دَاعٍ إِلَى الْجَنَّةِ بِقِتَالِهِ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، فَعَلِيٌّ دَاعٍ إِلَى الْجَنَّةِ بِطَرِيْقِ الْأَوْلَى. وَفِي رِوَايَةِ الطَّبَرَانِيِّ زِيَادَةٌ وَهِيَ: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ النَّاكِبَةُ عَنِ الْحَقِّ». وَعَمَّارٌ مَا نَالَ هَذَا الْفَضْلَ إِلَّا بِكَوْنِهِ مَعَ عَلِيٍّ، فَهُوَ وَجَيْشُهُ دُعَاةٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَمُقَاتِلُوْهُمْ دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ.

امام ابن حبان اپنی ’’الصحیح‘‘ میں بیان کرتے ہیں: سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ نیزاِس میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گا اور وہ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔‘‘ یہ حدیث دونوں روایتوں کے ساتھ صحیح ترین حدیث ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے، جو معیتِ علی میں داعی إلی الجنۃ تھے، لہٰذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریقِ اَولیٰ داعی إلی الجنة تھے، طبرانی کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے وہ باغی گروہ قتل کرے گا جو حق سے ہٹ چکاہوگا۔‘‘ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اس فضیلت کے حامل فقط سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی معیت کی بدولت ہوئے، لہٰذا وہ اور اُن کا لشکر داعی إلی الجنة تھے اور اُن کے ساتھ جنگ کرنے والے داعی إلی النار تھے۔

أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15/131، الرقم/6736، وأيضًا في 15/553، الرقم/7078، والطبراني في المعجم الكبير، 23/363، الرقم/852، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 297، والمناوي في فيض القدير، 4/359.

7. وَقَالَ الْحَافِظُ: وَكَانَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ بِالْخِلَافَةِ عَقْبَ قَتْلِ عُثْمَانَ فِي أَوَائِلِ ذِي الْحَجَّةِ سَنَةَ خَمْسٍ وَثلَاثِيْنَ فَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ وَكُلُّ مَنْ حَضَرَ، وَكَتَبَ بَيْعَتَهُ إِلَى الْآفَاقِ فَأَذْعَنُوْا كُلُّهُمْ إِلَّا مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ فِي أَهْلِ الشَّامِ فَكَانَ بَيْنَهُمْ بَعْدَ مَا كَانَ.

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعتِ خلافت، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد 35 ہجری میں ماہ ذی الحجہ کے شروع میں ہوئی، تمام مہاجرین وانصار اور جملہ حاضرین نے آپ کی بیعت کی، اُنہوں نے تمام اطراف میں اپنی بیعت سے متعلق لکھ بھیجا، سب نے سرِ تسلیم خم کیا، سوائے اہلِ شام میں سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے، پھر اُن کے مابین وہ ہوا جو ہوا۔

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 7/72

8. وَقَالَ الْإِمَامُ عَبْدُ الْقَاهِرِ الْجُرْجَانِيُّ فِي ‹‹كِتَابِ الإْمَامَةِ››: أَجْمَعَ فُقَهَاءُ الْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ مِنْ فَرِيْقَيِ الْحَدِيْثِ وَالرَّاْيِ مِنْهُمْ: مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالْجَمْهُوْرُ الأَعْظَمُ مِنَ الْمُتَكَلِّمِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَالِهِ لِأَهْلِ صِفِّيْنَ كَمَا هُوَ مُصِيْبٌ فِي أَهْلِ الْجَمَلِ، وَأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُوْنَ لَهُ لَكِنْ لَا يُكَفَّرُوْنَ بِبَغْيِهِمْ، وَقَالُوْا أَيْضًا: بِأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُونَ لَهُ لَـكِنْ لَا يَجُوْزُ تَكْفِيْرُهُمْ بِبَغْيِهِمْ.

امام عبدالقاہر الجرجانی اپنی کتاب ’’الإمامة‘‘ میں فرماتے ہیں: فقہائے اسلام نے فرمایا ہے: حجاز اور عراق کے محدثین اور فقہاء کرام کی دونوں طرف کی جماعتیں جن میں امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی اور متکلمین رضی اللہ عنہم اور جمیع مسلمین کے جمہورِ اعظم کا اجماع ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ صفین کے خلاف جنگ میں حق پر تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ اہلِ جَمل کے ساتھ قتال میں حق پر تھے، نیز انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی وہ باغی اور ظالم تھے، لیکن اُن کے خروج و بغاوت کی وجہ سے اُنہیں کافر قرار دینا جائز نہیں ہے۔

القرطبي في التذكرة، 2/626، والمناوي في فيض القدير، 6/366

9. وَقَالَ الإِمَامُ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ فِي كِتَابِهِ: ‹‹الْفَرْقُ بَيْنَ الْفِرَقِ›› فِي بَيَانِ عَقِيْدَةِ أَهْلِ السُّنَّةِ: وَقَالُوْا بِإِمَامَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي وَقْتِهِ، وَقَالُوْا بِتَصْوِيْبِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حُرُوْبِهِ بِالْبَصْرَةِ وَبِصِفِّيْنَ وَبِنَهْرَوَانَ. وَقَالُوْا بِأَنَّ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ تَابَا وَرَجَعَا عَنْ قِتَالِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ... وَهَذَا لِأَنَّهُمَا أَيْ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ رضی اللہ عنہما مِنَ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمَا الْحُسْنَى فَلَمْ يَمُوْتَا إِلَّا تَائِبَيْنِ مِنْ مُخَالَفَةِ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِانْضِمَامِهِمَا لِلْعَسْكَرِ الْمُضَادِّ لَهُ.

امام ابو منصور اپنی کتاب ’’الفرَق بین الفِرق‘‘ میں عقیدۂ اہل سنت کی توضیح میں فرماتے ہیں: علماء کرام نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انہی کی خلافت کے حق ہونے کاقول کیا ہے اور بصرہ، صِفّین اور نَہروان کی جنگوں میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کی تصریح کی ہے، اُنہوں نے کہا ہے: حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نادم و افسردہ ہوئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے توبہ کی، اور عملاً رجوع کر لیا تھا، یہ اس لیے ہوا کہ حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما اُن خوش بختوں میں سے تھے جن کے لیے جنت واجب ہوچکی تھی، اُنہوں نے انتقال سے قبل ہی امیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مخالف لشکر میں شمولیت پر توبہ کر لی تھی۔ سو توبہ اور رجوع کے بعد ہی ان کی وفات واقع ہوئی۔

أبو منصور البغدادي في الفَرْق بين الفِرَق/342

10. ثُمَّ قَالَ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ الْبَغْدَادِيُّ: وَقَالُوْا: إِنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَصَدَتِ الإِصْلَاحَ بَيْنَ الْفَرِيْقَيْنِ فَغَلَبَهَا بَنُوْ ضَبَّةَ وَالْأَزْدُ عَلَى رَأْيِهَا وَقَاتَلُوْا عَلِيًّا دُوْنَ إِذْنِهَا حَتَّى كَانَ مِنَ الأَمْرِ مَا كَانَ. فَعَائِشَةُ رضی اللہ عنہا أَنَّهَا وَقَفَتْ فِي الْعَسْكَرِ الْمُضَادِّ لِعَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَمَا كَانَ لَهَا أَنْ تَقِفَ، لَكِنَّهَا لَمْ تَمُتْ حَتَّى رَجَعَتْ مِن ذَلِكَ، فَإِنَّهَا رضی اللہ عنہا كَانَتْ حِيْنَ تَذْكُرُ تِلْكَ الْوَاقِعَةَ تَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا مِنْ دُمُوْعِهَا.

مزید برآں امام ابومنصوربغدادی نے لکھا ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایاہے: اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی فریقین کے مابین اصلاح کاقصدکیا تھا، لیکن اُن کی سوچ پر بنو ضبہ اور بنو اَزد غالب آگئے اور ان دونوں قبیلوں کے شرپسند لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجازت و اطلاع کے بغیر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ شروع کر دی، حتیٰ کہ وہ کچھ ہوا جو ہوا۔ اس بنا پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اُس لشکرمیں جا کھڑی ہوئی تھیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں آیاتھا، اُس لشکرمیں کھڑا ہونا اُن کے لیے مناسب نہیں تھا، لیکن اُنہوں نے بھی وصال سے قبل اس سے رجوع کرلیاتھا، اور وہ جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتیں، اتنا روتی تھیں کہ اپنے دوپٹہ کو آنسوؤں سے تر کر دیتی تھیں۔

أبو منصور البغدادي في الفَرق بين الفِرَق/101-102

وَقَالَ: أَجْمَعُوْا أَنَّ عَلِيًّا مُصِيْبٌ فِي قِتَالِهِ أَهْلَ صِفِّيْنَ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ وَعَسْكَرَهُ. وَقَالُوْا أَيْضًا: بِأَنَّ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بُغَاةٌ ظَالِمُوْنَ لَهُ وَلَـكِنْ لَّا يَجُوْزُ تَكْفِيْرُهُمْ ِببَغْيِهِمْ.

امام ابو منصور بغدادی مزید لکھتے ہیں: علماء کرام کا اجماع ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے لشکر کے ساتھ معرکۂ صفین میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔ نیز اُنہوں نے کہا ہے: جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کی وہ سب اُن سے نا انصافی و ظلم کرنے والے اور باغی تھے لیکن اُن کی اس حد درجہ مخالفت کے باوجود اُن کی تکفیر جائز نہیں ہے۔

المناوي في فيض القدير، 6/366

11. قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلَانِيُّ فِي ‹‹فَتْحِ الْبَارِي›› تَحْتَ بَابِ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ الْمَسْجِدِ وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ».

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں ’’باب التعاون في بناء المسجد‘‘ میں حدیث ’’تقتله الفئة الباغیة‘‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

فَائِدَةٌ: رَوَى حَدِيثاً «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ مِنْهُمْ قَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ رضی اللہ عنہ كَمَا تَقَدَّمَ، وَأُمُّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا عِنْدَ مُسْلِمٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہما عِنْدَ النَّسَائِيِّ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَحُذَيْفَةُ وَأَبُو أَيُّوبَ وَأَبُو رَافِعٍ وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ وَمُعَاوِيَةُ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَأَبُو الْيُسْرِ وَعَمَّارٌ رضی اللہ عنہم نَفْسُهُ وَكُلُّهَا عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ وَغَيْرِهِ، وَغَالِبُ طُرُقِهَا صَحِيْحَةٌ أَوْ حَسَنَةٌ، وَفِيْهِ عَنْ جَمَاعَةٍ آخَرِينَ يَطُوْلُ عَدُّهُمْ وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَفَضِيلَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعَلِيٍّ وَلِعَمَّارٍ وَرَدٌّ عَلَى النَّوَاصِبِ الزَّاعِمِينَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ مُصِيْبًا فِي حُرُوبِهِ.

فائدہ: حدیث ’’تقتل عمارا الفئة الباغیة‘‘ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے: اُن میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ پہلے اُس کا ذکرگزر چکا ہے، اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں جیسا کہ امام مسلم نے روایت کیا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ امام ترمذی نے روایت کیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ہیں، جیسا کہ امام نسائی نے روایت کیا ہے اور حضرت عثمان بن عفان، حضرت حذیفہ، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابورافع، حضرت خزیمہ بن ثابت، حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو الیسر اور خود سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما شامل ہیں، جنہوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، یہ تمام طرق امام طبرانی اور دوسرے محدثین کرام کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اکثر طرق صحیح یا حسن ہیں۔ اس حدیث کے راویوں میں ایک اور جماعت کا نام بھی ہے جن کی فہرست طویل ہے۔ اس حدیث میں دلائل نبوت میں سے واضح دلیل ہے، سیدنا علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی کھلی فضیلت ہے، اور نواصب کی تردید ہے جو گمان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہیں تھے۔

ابن حجر العسقلاني في فتح البارى، 1/542

فَإِنْ قِيلَ: كَانَ قَتْلُهُ بِصِفِّيْنَ وَهُوَ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَالَّذِينَ قَتَلُوْهُ مَعَ مُعَاوِيَةَ، وَكَانَ مَعَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ، فَكَيْفَ يَجُوزُ عَلَيْهِمُ الدُّعَاءُ إِلَى النَّارِ؟ فَالْجَوَابُ: أَنَّهُمْ كَانُوا ظَانِّيْنَ أَنَّهُمْ يَدْعُوْنَ إِلَى الْجَنَّةِ وَهُمْ مُجْتَهِدُونَ لَا لَوْمَ عَلَيْهِمْ فِي اتِّبَاعِ ظُنُوْنِهِمْ، فَالْمُرَادُ بِالدُّعَاءِ إِلَى الْجَنَّةِ الدُّعَاءُ إِلَى سَبَبِهَا وَهُوَ طَاعَةُ الْإِمَامِ وَكَذَلِكَ كَانَ عَمَّارٌ رضی اللہ عنہ يَدْعُوهُمْ إِلَى طَاعَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَهُوَ الْإِمَامُ الْوَاجِبُ الطَّاعَةِ إِذْ ذَاكَ وَكَانُوا هُمْ يَدْعُونَ إِلَى خِلَافِ ذَلِكَ لَكِنَّهُمْ مَعْذُوْرُوْنَ لِلتَّأْوِيْلِ الَّذِي ظَهَرَ لَهُمْ.

اگر یہ کہا جائے کہ اُن کی شہادت صفین کی جنگ میں ہوئی، جبکہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حامی تھے اور جنہوں نے اُنہیں شہید کیا وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی تھے اور اُن کے ساتھ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تھی، لہٰذا اُنہیں داعی الی النارکہنا کیونکر جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو داعی الی الجنۃ سمجھتے تھے اور وہ مجتہد تھے، (سو) ان پر اُن کے گمان کی پیروی میں کوئی ملامت نہیں، لیکن فی الحقیقت جنت کی طرف بلانے سے مراد اُس کے صحیح راستے اور سبب کی طرف بلاناہے اور وہ امامِ برحق کی طاعت ہے، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سب مخالفین کو طاعتِ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی طرف بلاتے تھے کیونکہ اُس وقت وہی واجب الاطاعت امامِ برحق تھے، جبکہ وہ لوگ (یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت) اس کے برعکس معاملہ کی طرف بلا رہے تھے لیکن وہ اُس تاویل کی وجہ سے معذور تھے جو اُنہیں سوجھی تھی۔

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 1/542-543

وَقَالَ ابْنُ بَطَّالٍ تَبَعًا لِلْمُهَلَّبِ: إِنَّمَا يَصِحُّ هَذَا فِي الْخَوَارِجِ الَّذِينَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ عَمَّارًا رضی اللہ عنہ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَمَاعَةِ، وَلَا يَصِحُّ فِي أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ، وَتَابَعَهُ عَلَى هَذَا الْكَلَامِ جَمَاعَةٌ مِنَ الشُّرَّاحِ وَفِيهِ نَظَرٌ مِنْ أَوْجُهٍ.

لِأَنَّ الْخَوَارِجَ إِنَّمَا خَرَجُوا عَلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ بَعْدَ قَتْلِ عَمَّارٍ رضی اللہ عنہ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ، بِذَلِكَ فَإِنَّ ابْتِدَاءَ أَمْرِ الْخَوَارِجِ كَانَ عَقِبَ التَّحْكِيمِ، وَكَانَ التَّحْكِيمُ عَقِبَ انْتِهَاءِ الْقِتَالِ بِصِفِّينَ، وَكَانَ قَتْلُ عَمَّارٍ رضی اللہ عنہ قَبْلَ ذَلِكَ قَطْعًا، فَكَيْفَ يَبْعَثُهُ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ بَعْدَ مَوْتِهِ.

ابن بطال نے مہلّب کی پیروی میں کہا ہے: یہ بات اُن خوارج کے بارے میں درست ہے جن کی طرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا کہ وہ اُنہیں جماعت کی طرف بلائیں، اور یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس بات میں شارحین کی ایک جماعت نے اُن کی پیروی کی ہے، لیکن اس میں کئی وجوہ سے کلام (یعنی اعتراض) ہے۔

اس لیے کہ خوارج نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد کیا تھا، اس سلسلے میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ خوارج کے معاملہ کا آغاز تحکیم کے بعد اور جنگ صفین کے خاتمہ پر ہوا، جب کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت قطعی طور پر اس سے قبل (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کے ہاتھوں ) ہو چکی تھی، سو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُنہیں اُن کے شہید ہو جانے کے بعد خوارج کی طرف کیسے بھیج دیا تھا؟ (لہٰذا یہ بات خلافِ واقعہ اور خلافِ حقیقت ہے۔)

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 1/542

12. قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي شَرْحِ الْبُخَارِيِّ أَيْضًا: وَدَلَّ حَدِيْثٌ: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» عَلَى أَنَّ عَلِيًّا كَانَ الْمُصِيْبَ فِي تِلْكَ الْحَرْبِ، لِأَنَّ أَصْحَابَ مُعَاوِيَةَ قَتَلُوْهُ، وَقَدْ أَخْرَجَ الْبَزَّارُ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: ‹‹كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ وَقَدْ خَرَجَ أَهْلُ دِيْنِكُمْ يَضْرِبُ بَعْضُهُمْ وُجُوْهَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: اُنْظُرُوا الْفِرْقَةَ الَّتِي تَدْعُوْ إِلَى أَمْرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَالْزِمُوْهَا، فَإِنَّهَا عَلَى الْحَقِّ››. وَأَخْرَجَ يَعْقُوْبُ بْنُ سُفْيَانَ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا بَلَغَ مُعَاوِيَةَ غَلَبَةُ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ عَلَى أَهْلِ الْجَمَلِ دَعَا إِلَى الطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ، فَأَجَابَهُ أَهْلُ الشَّامِ، فَسَارَ إِلَيْهِ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فَالْتَقَيَا بِصِفِّيْنَ. وَقَدْ ذَكَرَ يَحْييُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْجَعْفِيُّ أَحَدُ شُيُوخِ الْبُخَارِيِّ فِي كِتَابِ صِفِّيْنَ فِي تَأْلِيْفِهِ بِسَنَدٍ جَيِّدٍ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَولَانِيِّ رضی اللہ عنہ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ: ‹‹أَنْتَ تُنَازِعُ عَلِيًّا فِي الْخِلَافَةِ أَوَ أَنْتَ مِثْلُهُ؟ قَالَ: لَا، وَإنِّي لَا، لَأَعْلَمُ أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنِّي وَأَحَقُّ بِالْأَمْرِ، وَلَـكِنْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُوْمًا وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ وَوَلِيُّهُ أَطْلُبُ بِدَمِهِ. فَأْتُوْا عَلِيًّا فَقُوْلُوْا لَهُ: يَدْفَعُ لَنَا قَتَلَةَ عُثْمَانَ، فَأَتَوْهُ فَكَلَّمُوْهُ، فَقَالَ: يَدْخُلُ فِي الْبَيْعَةِ وَيُحَاكِمُهُمْ إِلَيَّ، فَامْتَنَعَ مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ فَسَارَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فِي الْجُيُوشِ مِنَ الْعِرَاقِ حَتَّى نَزَلَ بِصِفِّيْنَ، وَسَارَ مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ حَتَّى نَزَلَ هُنَاكَ وَذَلِكَ فِي ذِي الْحَجَّةِ سَنَةَ سِتٍّ وَثَلاَثِيْنَ، فَتَراسَلُوا فَلَمْ يَتِمَّ لَهُمْ أَمْرٌ، فَوَقَعَ الْقِتَالُ››.

حافظ ابن حجر عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں مزید لکھتے ہیں: حدیث ’’تقتل عمارا الفئة الباغیة‘‘ دلالت کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان تمام جنگوں میں حق پر تھے، کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ امام بزار سندِ جید کے ساتھ حضرت زید بن وہب سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بیان کیا: ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، اُنہوں نے فرمایا: اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہارے ہی دین والے خروج کریں گے اور ایک دوسرے پر تلواروں کے ساتھ حملہ آور ہوں گے؟ لوگوں نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں (اس وقت کے لیے) کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا: تم اُس گروہ پر نظر رکھنا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے امر کی طرف بلا رہا ہو، اسی کی پیروی کرنا یقیناً وہ حق پر ہوگا۔ امام یعقوب بن سفیان سندِ جید کے ساتھ امام زھری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بیان کیا: جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اہل جمل پر سدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلبہ کی خبر پہنچی تو انہوں نے لوگوں کو قصاصِ عثمان کے مطالبے کی طرف بلایا، اس پر اہل شام نے لبیک کہا۔ پھر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف چل پڑے، نتیجتاً صفین کے مقام پر آمنا سامنا ہوا، امام بخاری کے ایک شیخ یحییٰ بن سلیمان جعفی نے ’’کتاب الصفین‘‘ میں حضرت ابو مسلم خولانی سے سند جید کے ساتھ روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلافت میں تنازعہ کرتے ہیں کیا آپ اُن کی مثل ہیں ؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے افضل ہیں اور اس امر میں مجھ سے زیادہ حق دار ہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ عثمان ظلماً قتل کیے گئے اور میں اُن کا چچازاد اور وارث ہوں، اُن کا قصاص مانگتا ہوں۔ تم علی کے پاس جاؤ اور اُن سے کہوکہ وہ قاتلینِ عثمان کو ہمارے حوالے کر دیں۔ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے اور اُن سے بات کی تو اُنہوں نے فرمایا: پہلے وہ میری بیعت کریں اور پھر اُن کا کیس میرے پاس لائیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ عراق سے ایک لشکرکے ساتھ نکلے، اور صفین میں اُترے، اُدھر سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ چلے، وہ بھی وہیں اترے، یہ واقعہ ذی الحج 36 ہجری میں ہوا، پھر اُنہوں نے باہم مراسلات کا سلسلہ شروع کیا لیکن معاملہ کسی کنارے نہ لگا، بالآخر جنگ واقع ہو گئی۔

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 13/85-86

13. قَالَ الْحَافِظُ: وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي َشيْبَةَ بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ عَنْ أَبِي الرِّضَا سَمِعْتُ عَمَّارًا يَوْمَ صِفِّيْنَ يَقُوْلُ: ‹‹مَنْ َسرَّهُ أَنْ يَّكْتَنِفَهُ الْحُوْرُ الْعِيْنُ فَلْيَتَقَدَّمْ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ مُحْتَسِبًا››، وَمِنْ طِرِيْقِ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارٍ فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهَلُ الشَّامِ، فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُوْلُوْا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَاحِدٌ، وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ حَادُوْا عَنِ الْحَقِّ، فَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نُّقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوْا.

حافظ ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں: امام ابن ابی شیبہ سند جیدکے ساتھ حضرت ابو الرضا سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: میں نے جنگِ صفین میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص چاہتا ہے کہ اسے جنت کی خوبصورت آنکھوں والی حوروں کا ساتھ نصیب ہو، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے امر کا احتساب کرتے ہوئے اور دو صفوں کے درمیان آجائے (یعنی اس معرکہ حق میں شریک ہو)۔ زیاد بن حارث بیان کرتے ہیں: میں عمار رضی اللہ عنہ کے پہلو میں تھا کہ ایک شخص نے کہا: اہلِ شام کفرکے مرتکب ہو گئے ہیں، اس پر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مت کہو، ہم سب کے نبی ایک ہی ہیں، لیکن وہ ایسی قوم ہے جو جادۂ حق سے ہٹ گئی ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہوگیا ہے کہ اُن سے جنگ کریں، یہاں تک کہ وہ حق کی طرف پلٹ آئیں۔

ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 13/86

14. وَذَكَرَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي ‹‹الْمَطَالِبِ الْعَالِيَةِ›› بَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ: أَنَّ صَاحِبَيْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْكَوَّاءِ وَابْنَ عِبَادٍ سَأَلَاهُ عَنْ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ قَالَا: فَأَخْبِرْنَا عَنْ قِتَالِكَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ (يَعْنِيَانِ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ) صَاحِبَاكَ فِي الْهِجْرَةِ وَصَاحِبَاكَ فِي بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ وَصَاحِبَاكَ فِي الْمَشُوْرَةِ؟ فَقَالَ: بَايَعَانِي بِالْمَدِيْنَةِ وَخَالَفَانِي بِالْبَصْرَةِ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِمَّنْ بَايَعَ أَبَا بَكْرٍ رضی اللہ عنہ خَلَعَهُ لَقَاتَلْنَاهُ، وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِمَّنْ بَايَعَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ خَلَعَهُ لَقَاتَلْنَاهُ.

وَعَزَاهُ لِإِسْحَقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ، قَالَ الْحَافِظُ الْبُوْصِيْرِيُّ: رَوَاهُ إِسْحَقُ بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ.

حافظ ابن حجر عسقلانی ’’المطالب العالیة، باب قتال أهل البغي‘‘ میں لکھتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دوساتھی عبداللہ بن الکواء اور ابن عبادنے اُن سے پوچھا: آپ ہمیں ان دو شخصوں یعنی حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جنگ کی وجہ بتلائیں جو ہجرت میں، بیعتِ رضوان میں اور مشاورت میں ہمیشہ آپ کے ساتھی تھے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان حضرات نے مدینہ منورہ میں میری بیعت کی اور بصرہ میں آ کرتوڑدی۔ اگر کوئی شخص ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت کرکے توڑ دیتا تو میں اُس کے ساتھ بھی اسی طرح جنگ کرتا۔

ابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، باب قتال أهل البغي، 18/102، الرقم/4394، وأيضًا في فتح الباري، 13/55

اس حدیث کی نسبت اسحاق بن راہویہ کی طرف کی گئی ہے۔ امام بوصیری نے بھی فرمایاہے: اسے امام اسحاق نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

15. وَقَالَ الإِمَامُ بَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ الْحَنَفِيُّ: قُلْتُ: كَيْفَ يُقَالُ: كَانَ مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ مُخْطِئًا فِي اجْتِهَادِهِ، فَمَا كَانَ الدَّلِيْلُ فِي اجْتِهَادِهِ؟ وَقَدْ بَلَغَهُ الْحَدِيْثُ الَّذِي قَالَا: وَيْحَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، وَابْنُ سُمَيَّةَ هُوَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ، وَقَدْ قَتَلَهُ فِئَةُ مُعَاوِيَةَ، أَفَلَا يَرْضَى مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ سَوَاءً بِسَوَاءٍ حَتَّى يَكُوْنَ لَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ؟

امام بدر الدین العینی الحنفی فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں: یہ کیسے کہہ دیا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد میں خطا کی، سوال یہ ہے کہ ان کے اجتہاد پر دلیل کیا ہے؟ حالانکہ انہیں وہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابن سمیہ پر رحمت ہو، اِس کو باغی گروہ قتل کرے گا، ابن سمیہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم ہیں، اور اُنہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے ہی شہید کیا تھا۔ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات پر راضی نہیں کہ ان کا معاملہ برابر برابر ہو جائے، چہ جائیکہ ان کے لیے (غلط اجتہاد کا) اجر واحد ہو؟

العيني في عمدة القاري، 24/192، الرقم/7083

16. وَقَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُ فِي الْمِرْقَاةِ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ»: قَالَ الطِّيْبِيُّ: تَرَحَّمَ عَلَيْهِ بِسَبَبِ الشِّدَّةِ الَّتِي يَقَعُ فِيْهَا عَمَّارٌ مِنْ قِبَلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ، يُرِيْدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ قُتِلَ يَوْمَ صِفِّيْنَ، وَقَالَ ابْنُ الْمَلِكِ: اِعْلَمْ أَنَّ عَمَّارًا قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ وَفِئَتُهُ، فَكَانُوْا طَاغِيْنَ بَاغِيْنَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ، لِأَنَّ عَمَّارًا كَانَ فِي عَسْكَرِ عَلِيٍّ، وَهُوَ الْمُسْتَحِقُّ لِلْإِمَامَةِ فَامْتَنَعُوْا عَنْ بَيْعَتِهِ. وَحُكِيَ أَنَّ مُعَاوِيَةَ يُؤَوِّلُ مَعْنَى الْحَدِيْثِ وَيَقُوْلُ: ‹‹نَحْنُ فِئَةٌ بَاغِيَةٌ طَالِبَةٌ لِدَمِ عُثْمَانَ›› وَهَذَا كَمَا تَرَى تَحْرِيْفٌ، إِذْ مَعْنَى طَلَبِ الدَّمِ غَيْرُ مُنَاسِبٍ هُنَا، لِأَنَّهُ ذَكَرَ الْحَدِيْثَ فِي إِظْهَارِ فَضِيْلَةِ عَمَّارٍ وَذَمِّ قَاتِلِهِ، لِأَنَّهُ جَاءَ فِي طَرِيْقِ وَيْحٍ. قُلْتُ: ‹‹وَيْحٌ›› كَلِمَةٌ تُقَالُ لِمَنْ وَقَعَ فِي هَلَكَةٍ لَا يَسْتَحِقُّهَا فَيَتَرَحَّمُ عَلَيْهِ وَيُرْثَى لَهُ بِخِلَافِ ‹‹وَيْلٍ››، فِإِنَّهَا كَلِمَةُ عُقُوْبَةٍ تُقَالُ لِلَّذِي يَسْتَحِقُّهَا وَلَا يَتَرَحَّمُ عَلَيْهِ هَذَا، وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيْرِ بِرِوَايَةِ الإِمَامِ أَحْمَدَ وَالْبُخَارِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی اللہ عنہ مَرْفُوْعًا: «وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ يَدْعُوْهُمْ إِلَى الْجَنّةِ وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى النَّارِ». وَهَذَا كَالنَّصِّ الصَّرِيْحِ فِي مَعْنَى الصَّحِيْحِ الْمُتَـبَادِرِ مِنَ الْبَغْيِ الْمُطْلَقِ فِي الْكِتَابِ، كَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡيِ﴾ [النحل، 16/90]، وَقَوْلُهُ سُبْحَانَهُ: ﴿فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ﴾ [الحجرات، 49/9]، فِإِطْلَاقُ اللَّفْظِ الشَّرْعِيِّ عَلَى إِرَادَةِ الْمَعْنَى اللُّغْوِيِّ عُدُوْلٌ عَنِ الْعَدْلِ وَمَيْلٌ إِلَى الظُّلْمِ الّذِيْ هُوَ وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْبَغْيَ بِحَسْبِ الْمَعْنَى الشَّرْعِيِّ وَلِإِطْلَاقِ الْعُرْفِيِّ خُصَّ مِنْ عُمُوْمِ مَعْنَى الطَّلَبِ اللُّغَوِيِّ إِلَى طَلَبِ الشَّرِّ الْخَاصِّ بِالْخُرُوْجِ الْمَنْهِيِّ، فَلَا يَصِحُّ أَنْ يُّرَادَ بِهِ طَلَبُ دَمِ خَلِيْفَةِ الزَّمَانِ وَهُوَ عُثْمَانُ رضی اللہ عنہ.

وَقَدْ حُكِيَ عَنْ مُعَاوَيَةَ تَأْوِيْلٌ أَقْبَحُ مِنْ هَذَا حَيْثُ قَالَ: إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيٌّ وَفِئَتُهُ، حَيْثُ حَمَلَهُ عَلَى الْقِتَالِ وَصَارَ سَبَبًا لِقَتْلِهِ فِي الْمَآلِ، فَقِيْلَ لَهُ فِي الْجَوَابِ: فَإِذَنْ قَاتِلُ حَمْزَةَ هُوَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيْثُ كَانَ بَاعِثًا لَهُ عَلَى ذَلِكَ، وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىَ حَيْثُ أَمَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ بِقِتَالِ الْمُشْرِكِيْنَ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا الْحَدِيْثَ فِيْهِ مُعْجِزَاتٌ ثَلَاثٌ، إِحْدَاهَا: أَنَّهُ سَيُقْتَلُ، وَثَانِيْهَا: أَنَّهُ مَظْلُوْمٌ، وَثَالِثُهَا: أَنَّ قَاتِلَهُ بَاغٍ مِنَ الْبُغَاةِ. وَالْكُلُّ صِدْقٌ وَحَقٌّ. ثُمَّ رَأَيْتُ الشَّيْخَ أَكْمَلَ الدِّيْنِ قَالَ: الظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا أَي التَّأْوِيْلَ السَّابِقَ عَنْ مُعَاوِيَةَ. وَمَا حُكِيَ عَنْهُ أَيْضًا مِنْ أَنَّهُ قَتَلَهُ مَنْ أَخْرَجَهُ لِلْقَتْلِ وَحَرَّضَهُ عَلَيْهِ كُلٌّ مِنْهُمَا افْتِرَاءٌ عَلَيْهِ، أَمَّا الْأَوَّلُ فَتَحْرِيْفٌ لِلْحَدِيْثِ، وَأَمَّا الثَّانِي فَلِأَنَّهُ مَا أَخْرَجَهُ أَحَدٌ بَلْ هُوَ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ مُجَاهِدًا فِي سَبِيْلِ اللهِ قَاصِدًا ِلإِقَامَةِ الْفَرْضِ، وَإِنَّمَا كَانَ كُلٌّ مِّنْهُمَا افْتِرَاءً عَلَى مُعَاوِيَةَ، لِأَنّهُ رضی اللہ عنہ أَعْقَلُ مِنْ أَنْ يَقَعَ فِي شَيْءٍ ظَاهِرِ الْفَسَادِ عَلَى الْخَاصِّ وَالْعَامِّ. قُلْتُ: فَإِذًا كَانَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَّرْجِعَ عَنْ بَغْيِهِ بِإِطَاعَتِهِ الْخَلِيْفَةَ وَيَتْرُكُ الْمُخَالَفَةَ وَطَلَبَ الْخِلَافَةِ الْمُنِيْفَةِ، فَتَبَيَّنَ بِهَذَا أَنَّهُ كَانَ فِي الْبَاطِنِ بَاغِيًا، وَفِي الظَّاهِرِ مُتَسْتِرًا بِدَمِ عُثْمَانَ مُرَاعِيًا مُرَائِيًا، فَجَاءَ هَذَا الْحَدِيْثُ عَلَيْهِ نَاعِيًا، وَعَنْ عَمَلِهِ نَاهِيًا، لَكِنْ كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُوْرًا، فَصَارَ عِنْدَهُ كُلُّ مَنْ فِي الْقُرْآنِ وَالْحَدِيْثِ مَهْجُوْرًا. فَرَحِمَ اللهُ مَنْ أَنْصَفَ وَلَمْ يَتَعَصَّبْ وَلَمْ يَتَعَسّفْ، وَتَوَلَّى الْاِقْتِصَادَ فِي الْاِعْتِقَادِ، لِئَلَّا يَقَعَ فِي جَانِبَي سَبِيْلِ الرَّشَادِ مِنَ الرَّفْضِ وَالنَّصْبِ بِأَنْ يُّحِبَّ جَمِيْعَ الآلِ وَالصَّحْبِ.

ملا علی قاری ’’مرقاة المفاتيح‘‘ میں ’’تقتلك الفئة الباغية‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: امام طیبی فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پر رحم فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا، کیونکہ وہ باغی گروہ کی جانب سے بہت زیادہ اذیت میں مبتلا ہونے والے تھے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کی جماعت مراد لی ہے، کیونکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ صفین کی جنگ میں شہید کیے گئے تھے۔ محدث ابن الملک کہتے ہیں: جان لیجئے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے گروہ نے شہید کیا تھا، لہٰذا اس حدیث کی روسے وہ باغی اور طاغی قرارپائے، کیونکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ لشکر مرتضوی میں تھے اور وہی خلافت کے حق دار تھے، اُن لوگوں نے اُن کی بیعت سے رو گردانی کی تھی۔ منقول ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کے معنیٰ میں تاویل کی تھی اور کہا تھا: ’’ہم فئة باغية (وہ باغی گروہ ہیں ) یہ قصاصِ عثمان کے مطالبہ کے معنیٰ میں ہے‘‘۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ تحریف ہے، کیونکہ اس مقام پر ’’بغي‘‘ بمعنی مطالبہ کوئی مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور اُن کے قاتل کی مذمت میں ذکرفرمائی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ ’’وَیح‘‘ سے آیا ہے۔ میں (ملاعلی قاری)کہتا ہوں: لفظ ’’وَیح‘‘ اُس شخص کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جو کسی مصیبت کا شکار ہونے والا ہو، لیکن وہ بے گناہ ہو، اُس پر رحم کھاتے اور افسوس کرتے ہوئے یہ لفظ بولا جاتا ہے، بخلاف لفظ ’’وَیل‘‘ کے، یہ کلمہ اظہار سختی کے لیے اُس شخص کے بارے میں بولاجاتاہے جو اُس سختی کا حقدار ہو اور قابلِ رحم نہ ہو۔ اس لغوی تائیدکے علاوہ اس بات کی تصدیق’’الجامع الصغیر‘‘ میں بروایت امام احمد و امام بخاری، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں ہے: ’’عمار پر رحمت ہو اُسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ اُنہیں جنت کی طرف بلائے گااور وہ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔‘‘ اور یہ حدیث لفظ ’’بغي‘‘ کے معنیٰ کی تعیین میں نص صریح کی مانندہے، ایسا صریح معنی جو بغاوتِ مطلق کے لیے فوری طور پر ذہنوں میں آتاہے، جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡيِ﴾ ’وہ بے حیائی، برائی اور بغاوت سے منع کرتا ہے﴾ اور ارشادالٰہی ہے: ﴿فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ﴾ ’پس اگراُن میں سے ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے ‘۔ لہٰذا لفظ شرعی کا اطلاق اپنے مطلب کے معنی کی طرف پھیرنا عدل سے روگردانی اور ظلم کی طرف میلان ہے۔ ظلم یہ ہے کہ کسی چیز کو اُس کے مقام پر نہ رکھا جائے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ لفظِ ’’بغي‘‘ اپنے شرعی معنی اور عرفی اطلاق کے لحاظ سے ’طلب کرنے‘ کے عمومی معنی کے بجائے ’خروج‘ کے ممنوع اور قبیح شر کے معنیٔ خصوصی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو خلیفۂ زمان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے مطالبے کامعنیٰ پہنانا ہرگز درست نہیں ہے۔

پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس سے بھی زیادہ قبیح تاویل منقول ہے، اُنہوں نے کہا: حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو (معاذ اللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اُن کے گروہ نے قتل کیا، اس لحاظ سے کہ اُنہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جنگ پر ابھارا اور انجام کار وہ جنگ اُن کے قتل کا باعث بنی۔ اُنہیں جواباًکہا گیا ہے: پھر تو سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کے قاتل (العیاذ باللہ تعالیٰ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنتے ہیں کیونکہ آپ ہی نے اُنہیں اس جنگ پر آمادہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا بھی قاتل ہونا لازم آتا ہے،کیونکہ اُسی نے مومنین کو مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ (اسی طرح دیگر شہداء صحابہ کے قتل کا الزام بھی معاذ اللہ! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آئے گا)۔ فی الجملہ یہ کہ اس حدیث میں تین معجزات ہیں: ایک یہ کہ عمارعنقریب شہید کیے جائیں گے، دوسرا یہ کہ وہ مظلوم ہوں گے اور تیسرا یہ کہ اُن کاقاتل باغیوں میں سے ایک باغی ہوگا۔ یہ تمام باتیں سچ اور حق ثابت ہوئیں۔ پھر میں نے شیخ اکمل الدین کے کلام کو دیکھا، اُنہوں نے کہا ہے: ظاہر یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ تاویل اور اُن کی طرف سے جو نقل کیاگیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: حضرت عمار کا قاتل وہ شخص ہے جو اُنہیں میدان میں لایا اور جنگ پر اُبھارا، یہ دونوں باتیں اُن پر بہتان ہیں۔ پہلی بات تحریفِ حدیث کے معنیٰ میں آتی ہے، اور دوسری بات اس لیے غلط ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کسی شخص نے نہیں نکالا تھا، بلکہ وہ ازخود اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ اور ادائیگی فرض کے جذبہ سے نکلے تھے۔ یہ دونوں باتیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگتی ہیں، اس لیے کہ وہ ایسی تاویل میں پڑنے سے زیادہ عقل مندتھے۔ اس تاویل کا فاسد ہونا ہر خاص و عام پر واضح اور ظاہر ہے۔ میں (علی القاری) کہتا ہوں: اس صورت میں تو اُن پر واجب تھا کہ وہ بغاوت کو چھوڑتے ہوئے خلیفۂ برحق کی اطاعت کی طرف رجوع کرتے، مخالفت ترک کر دیتے اور خلافتِ عظمیٰ کی طلب سے باز آ جاتے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ وہ باطن میں باغی تھے اور ظاہراً قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ کی آڑ لے کر دِکھاوا کرنے والے تھے۔ یہ حدیث اُن پر طعن کرنے والی ہے اور ان کی اتباع سے روکنے والی ہے، لیکن وہی ہو کر رہا جو تقدیر میں لکھا تھا۔ سو اُن کے نزدیک جو کچھ قرآن وحدیث میں مرقوم تھا سب متروک ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اُس شخص پر رحمت ہو جس نے انصاف کیا اور تعصب اور بے راہ روی سے کنارہ کیا اور اعتقاد میں اعتدال کو محبوب رکھا، تاکہ وہ رُشد و ہدایت کے راستے سے ہٹ کر رافضیت اور ناصبیت میں مبتلا نہ ہو اور جمیع آل و اصحاب رضی اللہ عنہم سے محبت کرے۔

الملا علي القاري في المرقاة شرح المشكاة، 11/17-18

17. قَالَ الْمُنَاوِيُّ فِي ‹‹فَيْضِ الْقَدِيْرِ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيْرِ››: «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» قَالَ الْقَاضِي فِي شَرْحِ الْمَصَابِيْحِ: يُرِيْدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، وَهَذَا صَرِيْحٌ فِي بَغْيِ طَائِفَةِ مُعَاوِيَةَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْا عَمَّارًا فِي وَقْعَةِ صِفِّيْنَ، وَأَنَّ الْحَقَّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَهُوَ مِنَ الأَخْبَارِ بِالْمُغَيَّبَاتِ «يَدْعُوْهُمْ» أَيْ عَمَّارٌ يَدْعُوْ الْفِئَةَ وَهُمْ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْهُ بِوَقْعَةِ صِفِّيْنَ فِي الزَّمَانِ الْمُسْتَقْبَلِ «إِلَى الْجَنَّةِ» أَيْ إِلَى سَبَبِهَا وَهُوَ طَاعَةُ الإِمَامِ الْحَقِّ «وَيَدْعُوْنَهُ إِلَى» سَبَبِ «النَّارِ» وَهُوَ عِصْيَانُهُ وَمُقَاتَلَتُهُ، قَالُوْا: وَقَدْ وَقَعَ ذَلِكَ فِي يَوْمِ صِفِّيْنَ دَعَاهُمْ فِيْهِ إِلَى الإِمَامِ الْحَقِّ وَقَتَلُوْهُ، فَهُوَ مُعْجِزَةٌ لِلْمُصْطَفَى صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَعَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ نُبُوَّتِهِ.

امام مناوی نے ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں ’’تقتله الفئة الباغیة‘‘ کی تشریح میں کہا ہے: قاضی بیضاوی نے ’’شرح المصابیح‘‘ میں فرمایا ہے: اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کا گروہ مراد ہے، اور یہ حدیث حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے گروہ کے باغی ہونے میں صریح ہے (یعنی اس میں کسی تاویل، شرح اور وضاحت کی کوئی حاجت نہیں ہے)، اُنہوں نے ہی جنگِ صفین میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اور حق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھااور یہ حدیث مبارک غیبی خبروں میں سے ہے۔ ’’یدعوهم‘‘ (وہ اُنہیں بلائے گا) یعنی عماراُس گروہ کو بلائیں گے جو کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی ہوں گے جنہوں نے اُنہیں زمانۂ مستقبل میں صفین میں قتل کرنا تھا۔ ’’إلی الجنة‘‘ جنت کی طرف سے بلانے سے مراد سببِ جنت کی طرف بلاناہے اور وہ امامِ حق کی طرف بلاناہے۔ ’’ویدعونه إلی النار‘‘: اور وہ لوگ اُسے جہنم کی طرف بلائیں گے، اس کا معنیٰ اُس کے سبب کی طرف بلاناہے اور وہ خلیفۂ حق کی نافرمانی اور اُس کے خلاف جنگ کرناہے۔ علماء نے کہاہے: یہ سب کچھ صفین میں وقوع پذیر ہوا، حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے اُنہیں امامِ حق کی طرف بلایا تھااور اُنہوں نے اُنہیں شہید کر دیا تھا۔ یہ ( اس واقعہ کی قبل از وقت خبر دینا) سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامعجزہ اور آپ کی نبوت کے دلائل میں سے ایک بڑی دلیل ہے۔

المناوي في فيض القدير، 6/365

وَقَدْ جَاءَ فِي فَضَائِلِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ أَحَادِيْثُ كَثِيْرَةٌ، فَهُوَ مِنَ السَّابِقِيْنَ الْأَوَّلِيْنَ وَمِنْ أَوَائِلِ الصَّحَابَةِ الَّذِيْنَ أَظْهَرُوْا إِسْلَامَهُمْ، وَقَدْ وَصَفَهُ الرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِالطَيِّبِ الْمُطَيِّبِ.

أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ فِي كِتَابِ الْمَنَاقِبِ، وَابْنُ مَاجَه فِي ‹‹الْمُقَدَّمَةِ›› بِإسْنَادٍ حَسَنٍ.

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ وہ سابقین اولین میں سے تھے اور اُن اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جنہوں نے آغازہی میں اسلام کااظہارکیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں پاکیزہ اور پاک کنندہ فرمایاہے۔

اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی سنن کی ’کتاب المناقب‘ میں اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن کے ’مقدمہ‘ میں سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب مناقب عمار بن ياسر رضی اللہ عنہ، 5/668، الرقم/3798، وابن ماجه في السنن، كتاب في فضائل أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب فضل عمار بن ياسر رضی اللہ عنہ، 1/52، الرقم/146

18. قَالَ الْقَاضِي أَبُوْ بَكْرِ ابْنُ الْعَرَبِيِّ الْمَالِكِيُّ فِي شَرْحِ هَذَا الْحَدِيْثِ: وَقَدْ كَانَ عَمَّارٌ بَرِيْئًا عَنِ الْخُبْثِ مُبَرِّئًا غَيْرَهُ عَنْهُ، وَتَبْرِئَتُهُ لِلْغَيْرِ بِأَنَّ أُمَّةً كَانَ فِيْهَا لَاخُبْثَ عِنْدَهَا، لِأَنَّهُ طَيِّبُهَا، أَيْ شَهِدَ لَهَا بِالطَّيِّبِ بِكَوْنِهِ فِيْهَا، كَمَا شَهِدَ عَلَى الأُخْرَى بِالْبَغْيِ لِكَوْنِهِ عَلَيْهَا، بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِي عَمَّارٍ: تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. أَيْ الطَّالِبَةُ لِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنَّمَا كَانَتْ تَطْلُبُ الدُّنْيَا وَلَكِنْ بِاجْتِهَادٍ.

قاضی ابوبکرابن العربی مالکی نے اس حدیث کی شرح میں لکھاہے: حضرت عمار رضی اللہ عنہ خود خُبث یعنی پلیدی سے پاک تھے اور دوسروں کو پلیدی سے پاک کرنے والے تھے، دوسروں کو پاک اور مبراء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس لشکر میں تھے وہ لشکر نیت کی پلیدی سے دور تھا، اس لیے یہ اُن کے حق میں مطَیِّب (پاکیزہ کرنے والے) تھے، یعنی اِن کی اُس گروہ میں موجودگی اُس گروہ کے پاک ہونے کی عملی گواہی تھی، جیسا کہ ان کا دوسرے گروہ کے خلاف ہونا اس گروہ کے باغی ہونے کی گواہی تھی، اس لیے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: (تجھے باغی گروہ قتل کرے گا) اس کا مطلب ہے: ناحق کو طلب کرنے والا گروہ، اور وہ گروہ محض دنیا کا طالب تھا لیکن اجتہاد سے۔

ابن العربي المالكي في عارضة الأحوذي، 13/169-170

وَفِي حَدِيْثٍ آخَرَ أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ فِي سُنَنِهِ، كِتَابُ الإِيْمَانِ وَشَرَائِعِهِ، بَابُ تَفَاضُلِ أَهْلِ الإِيْمَانِ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: «مُلِئَ عَمَّارٌ إِيْمَانًا إِلَى مَشَاشِهِ».

امام نسائی نے اس موضوع پر اپنی ’’سنن‘‘ کی ’’كتاب الإیمان وشرائعه، باب تفاضل أهل الإیمان‘‘ میں ایک اور روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمار کی ہڈیوں تک میں ایمان بھرا ہوا ہے۔

أخرجه النسائي في السنن، كتاب الإيمان وشرائعه، باب تغافل أهل الإيمان، 8/111، الرقم/ 5007؛ وابن ماجه في السنن، باب في فضائل أصحاب رسول الله، فضل عمار بن ياسر، 1/52، الرقم/147، وذكره ابن الأثير في جامع الأصول، 9/46، الرقم/6585

وَفِي حَدِيْثٍ آخَرَ بِسَنَدٍ مُتَّصِلٍ عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: مَا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَشَاءُ أَنْ أَقُوْلَ فِيْهِ إِلَّا قُلْتُ: إِلَّا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ: «إِنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ حُشِيَ مَا بَيْنَ أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ إِيْمَانًا».

اسی موضوع پر متصل سند کے ساتھ ایک اور حدیث بھی مروی ہے، مسروق نے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایسا کوئی نہیں جس کے بارے میں اگر میں کچھ کہنا چاہوں تو نہ کہہ سکوں، سوائے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: عمار اپنے قدموں کے تلووں سے لے کر کانوں کی لَو تک ایمان سے بھرا ہوا ہے۔

ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب، 3/1138

وَفِي حَدِيْثٍ آخَرَ: مَنْ عَادَى عَمَّارًا عَادَاهُ اللهُ وَمَنْ أَبْغَضَ عَمَّارًا أَبْغَضَهُ اللهُ.

أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ فِي الْمُسْنَدِ، وَالْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ.

ایک اور حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: جس شخص نے عمارسے دشمنی رکھی اللہ تعالیٰ اُس کو دشمن رکھتاہے اور جس نے عمارسے بغض رکھا اللہ تعالیٰ اُس سے بغض رکھتاہے۔

اسے امام احمد بن حنبل نے ’’المسند‘‘ میں اور امام حاکم نے ’’المستدرك‘‘ میں روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/89، الرقم/16860، والحاكم في المستدرك، 3/441، الرقم/5674

وَنَقَلَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي ‹‹الْإِصَابَةِ›› الإِجْمَاعُ عَلَى أَنّهُ قُتِلَ فِي جَيْشِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ بِصِفِّيْنَ سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلَاثِيْنَ لِلْهِجْرَةِ.

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الإصابة‘‘ میں نقل کیا ہے: اس پر اجماع ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور صفین میں 37 ہجری میں شہید کیے گئے۔

ابن حجر العسقلاني في الإصابة، 4/575

19. وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيْرٍ فِي ‹‹الْبِدَايَةِ وَالنِّهَايَةِ››: وَهَذَا مَقْتَلُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ مَعَ أَمْيِرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالَبٍ قَتَلُهُ أَهْلُ الشَّامِ. وَبَانَ وَظَهَرَ بِذَلِكَ سِرُّ مَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ أَنَّهُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، وَبَانَ بِذَلِكَ أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ مُحِقٌّ وَأَنَّ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ بَاغٍ، وَمَا فِي ذَلِكَ مِنْ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ.

حافظ ابن کثیر نے ’’البدایة والنهایة‘‘ میں بیان کیا ہے: اور یہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی قتل گاہ ہے، جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے، انہیں اہل شام نے (یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر نے) قتل کیا، اِس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس حدیث کا راز ظاہر ہو گیا جو آپ نے فرمایا تھا کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، اِس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ صحیح حق دار تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نا حق کے طلب گار تھے۔

ابن كثير في البداية والنهاية، 7/267

20. قَالَ الإْمَامُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ الْقُرْطَبِيُّ فِي ‹‹التَّذْكِرَةِ››: وَالإْجْمَاعُ مُنْعَقِدُ عَلَى أَنَّ طَائِفَةَ الإْمَامِ طَائِفَةُ عَدْلٍ وَالْأُخْرَى طَائِفَةُ بَغْيٍ، وَمَعْلُوْمٌ أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ الإْمَامَ. وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي صَحِيْحِهِ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ فِئْةٌ بَاغِيَةٌ»(1). وَلَهٌ طُرُقٌ غَيْرُ هَذَا فِي صَحِيْح مُسْلِمٍ(2).

امام ابو عبد اللہ قرطبی اپنی کتاب ’’التذکرۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: اس بات پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ امام علی رضی اللہ عنہ والا گروہ ہی انصاف والا گروہ تھا اور دوسرا گروہ باغی تھا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امامِ برحق تھے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ اس حدیث کے صحیح مسلم میں اس کے علاوہ بھی طرق ہیں۔

  1. أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل فيَتَمَنَّى أن يكون مكان الميت من البلاء، 4/2235، الرقم/2915

  2. القرطبي في التذكرة/615

21. وَقَالَ أَبُوْ عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي كِتَابِ الْاِسْتِيْعَابِ لَهُ فِي تَرْجَمَةِ عَمَّارٍ رضی اللہ عنہ: وَتَوَاتَرَتِ الْآثَارُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَهُوَ مِنْ أَصَحِّ الْأَحَادِيْثِ.

امام ابو عمر بن عبد البر نے اپنی کتاب ’’الاستیعاب‘‘ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متواتر روایات میں وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ حدیث احادیث میں صحیح ترین حدیث ہے۔

ابن عبد البر في الاستيعاب، 3/1140

22. وَقَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْمَعَالِي فِي كِتَابِهِ ‹‹الْإِرْشَادِ››: عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ كَانَ إِمَامًا حَقًّا فِي تَوْلِيَتِهِ وَ مُقَاتِلُوْهُ بُغَاةٌ، وَحُسْنِ الظَّنِّ بِهِمْ يَقْتَضِيْ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ قَصْدُ الْخَيْرِ وَإِنْ أَخْطَأُوْهُ، (فَهُوَ آخِرُ فَصْلٍ خَتَمَ بِهِ كِتَابَهُ.) وَحَسْبُكَ مَا يَقُوْلُ سَيِّدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَإِمَامُ الْمُتَّقِيْنَ لِعَمَّارٍ رضی اللہ عنہ: (تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ) وَهُوَ مِنْ أَثْبَتِ الأَحَادِيْثِ كَمَا تَقَدَّمَ.

امام الحرمین ابو المعالی عبد الملک بن عبداللہ الجوینی الشافعی متوفی 478ھ اپنی تصنیف ’کتاب الاِرشاد‘ میں فرماتے ہیں: سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ امام ِحق تھے اور ان کے خلاف لڑنے والے لوگ امام برحق کے باغی تھے، اور ان کے بارے میں حُسن ظن یہ ہے کہ اُن کا ارادہ خیرکا تھا، اگرچہ اُن سے خطا سر زدہوئی۔ (یہ اُن کی کتاب کی آخری فصل ہے، اس پر اُنہوں نے اپنی کتاب کو ختم کردیاہے۔) آپ کو اس سلسلے میں سیدالمرسلین اور امام المتقین کاوہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے جو سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمایا: تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ حدیث ثابت ترین احادیث میں سے ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے۔

ذكره الإمام أبو المعالي في كتاب الإرشاد إلى قواطع الأدلة في أصول الاعتقاد/433، والقرطبي في التذكرة/615، والزيلعي في نصب الراية، 4/ 69

23. قَالَ الإْمَامُ أَبُو الْمُعِيْنِ النَّسَفِيُّ فِي ‹‹تَبْصِرَةِ الْأَدِلَّةِ›› فِي الْمُشَاجَرَةِ بَيْنَ سَيِّدِنَا عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَأَصْحَابِ الْجَمَلِ وَالصِّفِّيْنَ:

إِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ ابْتُلِيَ بِقِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ، وَقِتَالِ أَهْلِ الشَّامِ بِصِفِّيْنَ وَبِالتَّحْكِيْمِ. فَنَتَكَلَّمُ فِي كُلِّ فَصْلٍ عَلَى وَجْهٍ يَتَـبَيَّنُ الصَّوَابُ فِيْهِ وَالْخَطَأُ بِمَشِيْئَةِ اللهِ تَعَالَى وَعَوْنِهِ.

فَأَمَّا الْكَلَامُ فِي قِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ فَنَقُوْلُ: إِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ هُوَ الْمُصِيْبُ فِي ذَلِكَ لِأَنَّ إِمَامَتَهُ قَدْ كَانَتْ ثَبَتَتْ عَلَى مَا بَيَّنَّا، فَكَانَ يَجِبُ لِغَيْرِهِ الْاِنْقِيَادُ لَهُ وَالرُّجُوْعُ إِلَى طَاعَتِهِ، وَمَنْ أَبَى إِلَّا الإِْصْرَارَ عَلَى الْمُخَالَفَةِ كَانَ عَلَى الإْمَامِ أَنْ يَدْعُوْهُ إِلَى الطَّاعَةِ وَيُبَيِّنُ لَهُ خَطَأَ مَا هُوَ عَلَيْهِ مِنَ الرَّأْيِ، وَمَا يَتَوَلَّدُ مِنْ ذَلِكَ مِنَ الضَّرَرِ بِتَفْرِيْقِ كَلِمَةِ الْحَقِّ وَمَا فِيْهِ مِنْ شَقِّ عَصَا الْمُسْلِمِيْنَ، فَإِنْ لَمْ يَرْجِعْ عَنْ ذَلِكَ كَانَ لَهُ أَنْ يُقَاتِلَهُ حَتَّى يَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللهِ. فَهُوَ قَاتَلَهُمْ مُصِيْبًا فِي قِتَالِهِمْ، مُقِيْمًا مَا عَلَيْهِ مِنْ حَقِّ اللهِ، إِذَ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ مُنَازَعَتُهُ فِي ذَلِكَ لِثُبُوْتِ إِمَامَتِهِ بِمَا مَرَّ مِنَ الدَّلَائِلِ.

امام ابو معین النسفی ’تبصرة الأدلة‘ میں ’المشاجرة بین سیدنا علی رضی اللہ عنہ وأصحاب الجمل والصفین‘ [سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب جمل و صفین کے درمیان جھگڑا] کے باب میں لکھتے ہیں:

بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ اصحاب جَمل اور اہلِ شام کے ساتھ صِفیّن کے مقام پر قتال اور تحکیم کے معاملہ میں مبتلا ہوئے۔ اب ہم ذیل میں اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور اس کی مدد و نصرت کے ساتھ ہر فصل میں اس طرح کلام کریں گے کہ اس سے درست اور غلط واضح ہو جائے۔

(اولاً) اصحاب جمل کے ساتھ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) قتال کے بارے میں کلام ہے، سو ہم کہتے ہیں: بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی اس میں حق پر تھے کیونکہ آپ کی امامت قائم ہو چکی تھی جیسا کہ یہ بات ہم پہلے بیان بھی کر چکے ہیں، لہٰذا آپ کے علاوہ لوگوں کے لیے واجب تھا کہ آپ کے تابع فرمان ہوتے اور آپ کی طاعت کی طرف رجوع کرتے، جو شخص آپ کی مخالفت پر ہی مصر رہتا امام وقت کے لیے ضروری تھا کہ اسے اپنی طاعت کی دعوت دے اور جس غلط رائے پر وہ ہو اس کی اس کے لیے وضاحت کرے، ان کے ایسا کرنے سے جو کلمۂ حق میں تفریق اور مسلمانوں کی وحدت کا شیرازہ پارا پارا ہونے کا نقصان پیدا ہونا ہے اس کی بھی وضاحت کر دے، اگر پھر بھی وہ شخص اپنے موقف سے رجوع نہ کرے تو حاکم وقت کے لیے اس سے قتال کرنا ضروری ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے امر کی طرف لوٹ آئے۔ سو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ قتال کیا درآنحالیکہ آپ اپنے قتال میں حق پر تھے، اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ حقِ امامت کو قائم کرنے والے تھے کیونکہ اس حق میں آپ کے ساتھ کسی کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، کیونکہ آپ کی امامت ان دلائل کی بدولت جو پہلے گزر چکے ہیں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی تھی۔

وَكَذَا هَذَا فِي قِتَالِ أَهْلِ صِفِّيْنَ؛ يُحَقِّقُهُ الْمَرْوِيُّ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ لَهُ: «إِنَّكَ تُقَاتِلُ عَلَى التَّأْوِيْلِ كَمَا نُقَاتِلُ عَلَى التَّنْزِيْلِ»، ثُمَّ كَانَ قِتَالُهُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَى التَّنْزِيْلِ وَهُوَ الْحَقَُّ فِيْهِ، فَكَذَا عَلِيُّ رضی اللہ عنہ فِي قِتَالِهِ عَلَى التَّأْوِيْلِ يَكُوْنُ الْحَقُّ فِي قِتَالِهِ.

اسی طرح کا معاملہ اہل صفین کے ساتھ قتال میں بھی پیش آیا، اس کی تصدیق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی حدیث کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’بے شک آپ تاویل پر قتال کرو گے جیسا کہ ہم تنزیل پر قتال کر رہے ہیں۔‘‘ پھر جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنزیل پر قتال کرنے میں حق بجانب تھے، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ تاویل پر قتال کرنے میں حق بجانب تھے۔

وَمَا يَزْعُمُوْنَ أَنْ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ كَانَا مُكْرَهَيْنِ عَلَى الْبَيْعَةِ، فَاسِدٌ لِثُبُوْتِ النَّقْلِ أَنَّ بَيْعَتَهُمَا كَانَتْ عَنْ طَوْعٍ، عَلَى أَنَّ خِلَافَتَهُ قَبْلَ بَيْعَتِهِمَا كَانَتْ ثَابِتَةً.

وَمَا يُرْوَى أَنَّ طَلْحَةَ أَوَّلُ مَنْ صَفَّقَتْ يَدَهُ عَلَى يَدِ عَلِيٍّ، فَالْمُرَادُ مِنْهُ أَوَّلُ يَدٍ صَفَّقَتْ يَدَهُ مِنْ أَيْدِي أَهْلِ الْمَسْجِدِ، أَوْ ظَنَّ هَذَا الرَّاوِي أَنَّهَا أَوَّلُ يَدٍ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ حَضَرَ الْبَيْعَةَ مِمَّنْ سَبَقَ ذِكْرُهُ عِنْدَ الْعِشَاءِ، وَبَيْعَةُ طَلْحَةَ رضی اللہ عنہ كَانَتْ عِنْدَ الْغَدَاةِ مِنْ غَدِ يَوْمِ الْبَيْعَةِ.

اور جو یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو بیعت پر مجبور کیا گیا تو یہ بات بھی فاسد ہے، کیونکہ اس بات پر روایت موجود ہے کہ بے شک ان دونوں کی بیعت باہمی رضا مندی کے ساتھ تھی، اور یہ بات بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ان دونوں ہستیوں کی بیعت سے پہلے ہی ثابت ہو چکی تھی۔

اور یہ جو روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی؛ اس سے مراد ہے کہ اَہلِ مسجد کے ہاتھوں میں سے یہ پہلا ہاتھ تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لیے بڑھا۔ یا اس سے مراد راوی کا یہ گمان بھی ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلا ہاتھ تھا، کیوں کہ عشاء کے وقت بیعت کرنے والوں میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے، مگر انہوں نے دوسرے روز سب سے پہلے بیعت کی تھی۔

(وَمَا رُوِيَ أَنَّهُمْ قَالُوْا: بَايَعْنَاكَ عَلَى أَنْ تَقْتُلَ قَتَلَةَ عُثْمَانَ، شَيْءٌ فَاسِدٌ؛ فَإِنَّ قَتَلَةَ عُثْمَانَ كَانُوْا بُغَاةً، فَكَانَتْ مَنَعَةُ أُوْلَئِكَ ظَاهِرَةً)... وَعِنْدَ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ إِنْ كَانَ يُؤَاخَذُ بِذَلِكَ،... إِنَّمَا يُوْجِبُ عَلَى الإِْمَامِ مُؤَاخَذَتَهُمْ عِنْدَ انْكِسَارِ شَوْكَتِهِمْ وَتَفَرُّقِ مَنَعَتِهِمْ وَوُقُوْعِ الْأَمْنِ عَنْ إِثَارَةِ الْفِتْنَةِ، وَلَمْ يَكُنْ شَيءٌ مِنْ هَذِهِ الْمَعَانِي حَاصِلًا، بَلْ كَانَتِ الشَّوْكَةُ لَهُمْ بَاقِيَةً، وَالْقُوَّةُ لَهُمْ ظَاهِرَةً بَادِيَةً، وَالْمَنَعَةُ عَلَى حَالِهَا قَائِمَةً، وَعَزَائِمُ الْقَوْمِ عَلَى الْخُرُوْجِ عَلَى مَنْ طَالَبَهُمْ بِدَمِهِ دَائِمَةٌ، عِنْدَ تَحَقُّقِ هَذِهِ الْأَسْبَابِ تَقْتَضِي السِّيَاسَةَ الْفَاضِلَةَ وَالتَّدْبِيْرَاتِ الصَّائِبَةَ.

وَبِالْوُقُوْفِ عَلَى هَذِهِ الْجُمْلَةِ ظَهَرَ صِحَّةُ خِلَافَةِ عَلِيِّ رضی اللہ عنہ وَانْدِفَاعُ اللَّائِمَةِ عَنْهُ فِي تَرْكِهِ التَّعْرُّضَ لِقَتَلَةِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ.

اور جو یہ روایت کیا جاتا ہے کہ لوگوں نے کہا: ہم نے اس بات پر آپ کی بیعت کی ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کریں تو یہ بات بھی فاسد ہے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل باغی تھے، اور ان کی طاقت و سطوت ظاہر و باہر تھی۔۔ ۔۔ اور بعض فقہاء کے نزدیک اگر اس باغی گروہ کا مؤاخذہ بنتا بھی ہو۔۔ ۔۔ تب بھی امام پر ان کا مؤاخذہ اس وقت واجب ہوگا جب ان کی طاقت و شوکت ٹوٹ جائے اور ان کا شیرازہ بکھر جائے اور مزید فتنہ انگیزی کا خطرہ در پیش نہ ہو۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اس طرح کی کوئی شے ابھی حاصل نہ ہوئی تھی بلکہ ان کی طاقت ابھی باقی تھی اور ان کی قوت ابھی ظاہر وباہر تھی اور طاقت ابھی اپنی حالت پر قائم و دائم تھی، اور جن سے لوگ قصاص عثمان کا مطالبہ کر رہے تھے ان کے خلاف قوم کے خروج کے عزائم مسلسل پائے جا رہے تھے، ان اسباب کی موجودگی عمدہ سیاست اور درست تدبیروں کی متقاضی ہوتی ہے۔

ان تمام احوال کا بغور جائزہ لینے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا برحق ہونا اور آپ کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کے در پے نہ ہونے پر عدمِ ملامت ظاہر ہوتی ہے۔

فَأَمَّا أَمْرُ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ فَقَدْ كَانَ خَطَأً عِنْدَنَا، فَكَانَا مُجْتَهِدَيْنِ أَخْطَئَا فِي اجْتِهَادِهُمَا، ثُمَّ لَاحَ لَهُمَا الْأَمْرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَانْحَازَا عَنِ الْمَرْكَزِ وَنَدِمَ الزُّبَيْرُ رضی اللہ عنہ عَلَى ذَلِكَ وَكَذَا طَلْحَةُ رضی اللہ عنہ، وَكَذَا أُمُّ الْمُوْمِنِيْنَ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا نَدِمَتْ عَلَى ذَلِكَ، وَكَانَتْ تَبْكِي حَتَّى تُبَلِّل خِمَارَهَا وَكَانَتْ تَقُوْلُ: ‹‹وَدِدْتُ لَوْ كَانَ لِي عِشْرُوْنَ وَلَدًا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ كُلُّهُمْ مِثْلُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِتَابِ بْنِ أُسَيْدٍ وَأَنَّنِي ثَكِلْتُهُمْ وَلَمْ يَكُنْ مِنِّي مَا كَانَ يَوْمَ الْجَمَلِ››.

اور رہا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کا معاملہ تو وہ بھی ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کیونکہ وہ دونوں مجتہد کے مقام پر فائز تھے مگر ان سے بھی ان کے اجتہاد میں خطا واقع ہوئی، پھر اس کے بعد ان کے لیے اصل معاملہ واضح ہوا تو دونوں اپنے فکر کے محور سے ہٹ گئے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور اسی طرح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ پر ندامت اور افسردگی ہوئی، اسی طرح اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس واقعہ پر بہت شرمندگی اور افسردگی ہوئی تھی اور آپ روتی رہتی تھیں یہاں تک کہ اپنی اوڑھنی تر کر دیا کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں: ’’میری خواہش ہے کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے بیس بیٹے ہوتے، وہ سارے کے سارے عبد الرحمن بن عتاب بن اسید کی طرح ہوتے اور میں ان سب کو کھو دیتی تو یہ صدمہ میرے لئے ہلکا تھا لیکن مجھ سے وہ کچھ نہ ہوتا جو جمل والے دن ہوا تھا۔‘‘

وَرُوِيَ أَنَّ طَلْحَةَ قَالَ لِشَابٍّ مِنْ عَسْكَرِ عَلِيٍّ وَهُوَ يَجُوْدُ بِنَفْسِهِ: ‹‹امْدُدْ يَدَكَ أَبَايِعْكَ لِأَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ››، أَرَادَ أَنْ يَمُوْتَ وَهُوَ فِي بَيْعَةِ إِمَامٍ عَادِلٍ. وَأَنَّ بَعْضَ مُتَكَلِّمِي أَهْلِ الْحَدِيْثِ كَانَ يَقُوْلُ: كُلُّ مَا كَانَ مِنْهُمْ كَانَ مَبْنِيًّا عَلَى الْاِجْتِهَادِ، وَكُلٌّ مُصِيْبٌ، فَكَانَ عَلَى رَأْيِ هَذَا كُلُّهُمْ مُصِيْبُوْنَ، إِذْا كَانَ مِنْ مَذْهَبِهِ أَنَّ كُلَّ مُجْتَهِدٍ فِي فُرُوْعِ الدِّيْنِ مُصِيْبٌ، وَعِنْدَنَا لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ وَكَانَ سَيِّدُنَا عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ هُوَ الْمُصِيْبُ دُوْنَ غَيْرِهِ، إِلَّا أَنَّهُمْ لَمْ يَبْلُغُوْا فِي خَطَائِهِمْ مَبْلَغَ الْفِسْقِ.

یہ بھی مروی ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک نوجوان کو اس وقت کہا جب آپ جان بلب تھے کہ اپنا ہاتھ بڑھاؤ میں تم سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلوں۔ ’’ آپ نے چاہا کہ آپ کا وصال اس حال میں ہو کہ آپ امام عادل کی بیعت میں ہوں۔‘‘ علماء حدیث کے بعض اہل کلام کہا کرتے تھے کہ ان سب میں سے جو کچھ بھی سرزد ہوا وہ اجتہاد پر مبنی تھا، اور ان میں سے ہر ایک درست ہے، لہٰذا اس رائے کے مطابق وہ سارے برحق تھے، کیونکہ اس مذہب کے مطابق دین کے فروغ میں ہر اجتہاد کرنے والا درست ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک حقیقت اس طرح نہیں ہے بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے، سب نہیں، مگر یہ کہ دوسرے لوگ اپنی غلطی میں فسق کے مقام کو نہیں پہنچے تھے۔

وَقَدْ رُوِيَ أَنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا لَمْ تُحَارِبْ عَلِيًّا وَلَا حَارَبهَاَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ، وَإِنَّمَا قَصَدَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا الإْصْلَاحَ بَيْنَ الطَّائِفَتَيْنِ فَوَقَعَ الْحَربُ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ أَكْرَمَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا وَرَدَّهَا إِلَى الْمَدِيْنَةِ مُكَرَّمَةً مَصُوْنَةً.

یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا سے جنگ کی، بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دو گروہوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے نکلی تھیں۔ مگر (بعض فتنہ پرور فسادیوں کی شر انگیزی سے) ان دونوں گروہوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی حسب شان عزت دی اور انہیں عزت و حمایت کے ساتھ واپس مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔

وَرَوَى أَبُوْ بَكْرٍ الْبَاقِلاَّنِيُّ أَحَدُ مُتَكَلِّمِي أَهْلِ الْحَدِيْثِ عَنْ بَعْضِ الْأَجِلَّةِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْوَاقِعَةَ بَيْنَهُمْ كَانَتْ عَلَى غَيْرِ عَزِيْمَةٍ عَلَى الْحَرْبِ، بَلْ كَانَتْ فُجْأَةً وَعَلَى سَبِيْلِ دَفْعِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِيْقَيْنِ عَنْ أَنْفُسِهِمْ لِظَنِّهِ أَنَّ الْفَرِيْقَ الآخَرَ غَدَرَ بِهِ، لِأَنَّ الْأَمْرَ كَانَ قَدْ انْتَظَمَ بَيْنَهُمْ، وَتَمَّ الصُّلْحُ وَالتَّفَرُّقُ عَلَى الرِّضَا، فَخَافَ قَتَلَةُ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ مِنَ التَّمَكُّنِ مِنْهُمْ وَالْإِحَاطَةِ بِهِمْ فَاجْتَمَعُوْا وَتَشَاوَرُوْا وَاخْتَلَفُوْا، ثُمَّ اتَّفَقَتْ آرَاؤُهُمْ عَلَى أَنْ يَصِيْرُوْا فِرْقَتَيْنِ وَيَبْدَأُوْا الْحَرْبَ بَيْنَ الْعَسْكَرَيْنِ وَيَخْتَلِطُوْا وَيَصِيْحُ الْفَرِيْقُ الَّذِي فِي عَسْكَرِ عَلِيَّ رضی اللہ عنہ: غَدَرَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ، وَيَصِيْحُ الْفَرِيْقُ الثَّانِي: غَدَرَ عَلِيٌّ، فَتَمَّ لَهُمْ ذَلِكَ وَنَشَبَتِ الْحَرْبُ، فَكَانَ كُلُّ فَرِيْقٍ مِنْهُمْ مُدَافِعًا عَنْ نَفْسِهِ، وَهَذَا صَوَابٌ مِنَ الْفَرِيْقَيْنِ. قَالَ أَبُوْ بَكْرٍ الْبَاقِلَّانِيُّ: هَذَا هُوَ الصَّحِيْحُ، وَعَلَى هَذَا الرَّأْيِ انْدَفَعَتِ اللَّائِمَةُ عَنِ الْفَرِيْقَيْنِ.

ثُمَّ كَيْفَ دَارَتِ الْقِصَّةُ فَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ عَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ رضی اللہ عنہما كَانُوْا مِنَ الْعَشْرَةِ الَّذِيْنَ بُشِّرُوْا بِالْجَنَّةِ، وَكَذَا عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا كَانَتْ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ مِنَ الدَّرَجَةِ الرَّفِيْعَةِ، فَمَنْ بَسَطَ لِسَانَهُ فِيْهِمْ بِالطَّعْنِ فَهُوَ الْمَطْعُوْنُ فِي دِيْنِهِ، الْمَحْكُوْمِ عَلَيْهِ بِالضَّلَالِ وَالْبِدْعَةِ، عَصَمَنَا اللهُ تَعَالَى عَنْ ذَلِكَ.

وَبِالإِْحَاطَةِ بِهَذِهِ الْجُمْلَةِ يُعْرَفُ خَطَأُ عَمْرِو بْنِ عُبَيْدٍ وَوَاصِلِ بْنِ عَطَاءٍ فِي التَّوَقُّفِ فِي أَمْرِهِمْ وَقَوْلِهِمَا: لَا نَدْرِي مَنِ الْمُصِيْبُ مِنْهُمْ وَمَنِ الْمُخْطِيءُ، وَخَطَأُ ضَرَّارٍ وَمَعْمَرٍ وَأَبِي الْهُذَيْلِ فِي قَوْلِهِمْ: نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَهُمَا مُصِيْبٌ وَالآخَرُ مُخْطِيءٌ، وَنَتَوَلَّى كِلَا الْفَرِيْقَيْنِ عَلَى الْاِنْفِرَادِ لِمَا ثَبَتَ بِالإْجْمَاعِ عَدَالَتُهُمْ فَلَا تُزَالُ بِالْاِخْتِلَافِ.

وَهَذَا مَعَ مَا فِيْهِ مِنَ الْفَسَادِ لِلتَّوَقُّفِ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ مَعَ ظُهُوْرِ دَلَائِلِ إِصْابَتِهِ، فَاسِدٌ جِدَّا؛ إِذْ مُوَالَاةُ أَحَدِ الشَّخْصَيْنِ عَلَى الْاِنْفِرَادِ مَعَ الْعِلْمِ أَنَّ أَحَدَهُمَا غَيْرُ مُسْتَحِقٍّ لِذَلِكَ بَاطِلٌ.

محدث متکلمین میں سے امام ابوبکر الباقلانی نے اجل اہل علم میں سے کسی ایک سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہونے والا یہ واقعہ جنگ کے عزم و ارادہ کے بغیر تھا، بلکہ یہ اچانک صادر ہو گیا، اس صورت میں کہ فریقین میں سے ہر ایک اپنا دفاع کر رہا تھا یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے گروہ نے اس پر حملہ کر دیا ہے، کیونکہ معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان طے پا چکا تھا، لیکن (عین اس وقت) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں اور باغیوں کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ ان پر قابو پا لیا جائے گا اور وہ گھیر لیے جائیں گے۔ سو وہ فوری طور پر جمع ہوئے، باہمی مشاورت کی اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے لگے، پھر ان سب کی آراء اس نکتہ پر متفق ہو گئیں کہ وہ دو گروہ بن جائیں اور فریقین کے درمیان لڑائی شروع کرا دیں، اور ان میں گھل مل جائیں، اور جو گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ہو وہ پکار پکار کر کہے: طلحہ اور زبیر نے غداری کر دی اور دوسرا گروہ پکار پکار کر کہے: علی نے غداری کر دی۔ ان کا یہ منصوبہ مکمل ہوا اور یوں جنگ چھڑ گئی، اس دوران ان میں سے ہر گروہ اپنے اپنے دفاع میں لڑ رہا تھا اور یہ دونوں گروہ اپنے اپنے لحاظ سے درست کر رہے تھے۔ ابوبکر باقلانی کہتے ہیں: یہ حق بات ہے اور اسی وجہ سے دونوں گروہ ملامت سے بچتے ہیں۔

پھر یہ قصہ کیسے چلا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بے شک حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جنہیں جنت کی بشارت سنائی گئی تھی، اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نہایت بلند درجہ کی حامل تھیں، لہٰذا جس شخص نے ان مقدس ہستیوں کے بارے میں زبان طعن دراز کی، وہ اپنے دین میں مطعون ہوگا اور اس پر گمراہی اور بدعت کا حکم لگایا جائے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

ان ساری معلومات کا احاطہ کرنے کے بعد عمرو بن عبید اور واصل بن عطا کی اس غلطی کا پتہ چلتا ہے، جو انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس معاملہ میں توقف کرکے کی اور یہ کہا کہ ہم نہیں جانتے ان میں سے کون درست ہے اور کون غلط ہے۔ اسی طرح ضرّار، معمر اور ابو الہذیل کی بھی اس بارے میں غلطی کا اندازہ ہوتا ہے یعنی ان کا یہ قول بھی غلط ہے کہ: ہم جانتے ہیں کہ (بغیر تعین کئے) ان میں ایک گروہ درست ہے اور دوسرا غلط ہے، ہم دونوں گروہوں کو الگ الگ لیں گے کیونکہ اجماع سے ان کی عدالت ثابت ہے پس وہ باہمی اختلاف سے ختم نہیں ہوگی۔

اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں توقف اختیار کرنا، باوجود اس کے کہ آپ کے حق پر ہونے کے دلائل ظاہر و باہر ہیں، فساد کا باعث ہے، اور یہ نہایت بیکار بات ہے، کیونکہ دو بندوں میں سے الگ الگ ہر ایک کی دوستی کا دم بھرنا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان میں سے صرف ایک اس کا حق دار ہے، باطل ہے۔

وَقَالَ أَيْضًا فِي مَعْرِكَةِ صِفِّيْنَ: وَكَذَا الْكَلَامُ فِي قِتَالِ أَهْلِ الشَّامِ بِصِفِّيْنَ عَلَى هَذَا: فَإِنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ هُوَ الْحَقَّ الْمُصِيْبَ، وَالْأَمْرُ فِيْهِ أَظْهَرُ. أَنَّ الْمُنَازَعَةَ حَدَثَتْ بَعْدَ انْعِقَادِ إِمَامَتِهِ وَتَقَرُّرِ خِلَافَتِهِ، وَبَيْعَةِ غَيْرِهِ وُجِدَتْ بَعْدَ بَيْعَتِهِ، فَلَمْ تَكُنِ الثَّانِيَةُ مُنْعَقِدَةً، ثُمَّ لَا ارْتِيَابِ لِأَحَدٍ لَهُ مِنَ الْعِلْمِ حَظٌّ فِي تَفَاوُتِ مَا بَيْنَ عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہما فِي الْفَضْلِ وَالْعِلْمِ وَالشَّجَاعَةِ وَالْغِنَى وَالسَّابِقَةِ فِي الإْسْلَامِ، وَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ كَانَ خَطَأُ مُعَاوِيَةَ ظَاهِراً إِلَّا أَنَّهُ فَعَلَ مَا فَعَلَ أَيْضًا عَنْ تَأْوِيْلٍ، فَلَمْ يَصِرْ بِهِ فَاسِقًا عَلَى مَا قَرَّرْنَا، ثُمَّ لَا شَكَّ أَنَّ مَنْ حَارَبَ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ مِنَ الصَّحَابَةِ وَمِنْ غَيْرِهِمْ عَلَى التَّأْوِيْلِ لَمْ يَصِرْ بِهِ كَافِراً وَلَا فَاسِقًا. وَلِهَذَا قَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فِيْهِمْ: ‹‹إِخْوَانُنَا بَغَوا عَلَيْنَا››. وَقَالَ لِابْنِ طَلْحَةَ: أَنَا وَأَبُوْكَ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الآيَةِ: ﴿وَنَزَعۡنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنۡ غِلٍّ إِخۡوَٰنًا عَلَىٰ سُرُرٖ مُّتَقَٰبِلِينَ﴾ [الحجر، 15/47].

اسی طرح امام ابو معین النسفی نے معرکہ صفین کے بارے میں کہا ہے: صِفّین کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اہل شام کے ساتھ قتال کرنے کے بارے میں بھی کلام اسی طرح (یعنی جنگ جمل کی طرح) ہی ہے۔ بے شک امام علی e حق پر اور درست تھے اور آپ کا معاملہ ظاہر و روشن تھا۔ تنازع آپ کی امامت کے منعقد ہو جانے اور آپ کی خلافت کے مقرر ہو جانے کے بعد پیدا ہوا، اور آپ کے علاوہ کسی کی بھی بیعت آپ کی بیعت کے بعد پائی گئی، لہٰذا بعد میں ہونے والی بیعت (شرعاً) سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئی، پھر وہ شخص جو تھوڑی سی بھی علمی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اسے ذرہ سا بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان فضل، علم، شجاعت، غنا اور اسلام میں سبقت لے جانے کا کس قدر تفاوت پایا جاتا ہے، جب معاملہ یوں ہے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی ظاہر و عیاں ہے، لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ تاویل کے ساتھ کیا، اس وجہ سے وہ فاسق نہ ہوئے جیسا کہ ہم یہ اُصول بیان کر چکے ہیں، پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صحابہ اور غیر صحابہ میں سے جنہوں نے بھی تاویل کی بنا پر قتال کیا وہ اس وجہ سے کافر ہوئے نہ فاسق۔ اسی لیے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے کہا تھا: یہ ہمارے بھائی ہیں، جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی ہے، اور آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ کے بیٹے سے کہا تھا: میں اور تمہارا باپ اس آیت ﴿وَنَزَعۡنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنۡ غِلٍّ إِخۡوَٰنًا عَلَىٰ سُرُرٖ مُّتَقَٰبِلِينَ﴾ ’اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گےo‘ کے مصداق ہیں۔

ثُمَّ اخْتَلَفَ مُتَكَلِّمُوْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ فِي تَسْمِيَةِ مَنْ خَالَفَ عَلِيًّا بَاغِيًا. فَمِنْهُمْ مَنِ امْتَنَعَ عَنْ ذَلِكَ فَلَا يَجُوِّزُ إِطْلَاقَ اسْمِ الْبَاغِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، وَيَقُوْلُ: لَيْسَ ذَا مِنْ أَسْمَاءِ مَنْ أَخْطَأَ فِي اجْتِهَادِهِ. وَمِنْهُمْ مَنْ يُطْلِقُ ذَلِكَ الاسْمَ وَيَسْتَدِلُّ بِقَوْلِهِ تَعَالَي: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ﴾ [الحجرات، 49/9]، وَبِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَبِقَوْلِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ: ‹‹إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا›› غَيْرَ أَنَّهُمْ يَمْتَنِعُوْنَ عَنْ تَسْمِيَتِهِمْ فُسَّاقًا لِمَا مَرَّ.

پھر اہل سنت وجماعت کے متکلمین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے والے کو باغی کہنے میں اختلاف کیا ہے۔ ان میں سے بعض اس سے باز رہے ہیں، اُنہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر باغی کے نام کا اطلاق جائز قرار نہیں دیا، اور کہا ہے: یہ نام اس شخص کے ناموں میں سے نہیں ہے جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرے۔ جب کہ اُن میں سے بعض نے اس نام کا اطلاق کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٱقۡتَتَلُواْ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَهُمَاۖ فَإِنۢ بَغَتۡ إِحۡدَىٰهُمَا عَلَى ٱلۡأُخۡرَىٰ﴾ ’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے‘، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی نسبت اس ارشاد: ’’تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ ‘‘ (کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول: ’’ إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا‘‘ ( ہمارے بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی ہے) سے استدلال کیا ہے۔ مگریہ کہ وہ انہیں فساق کا نام نہیں دیتے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔

24. وَقَالَ الإْمَامُ مُحِيِ الدِّيْنِ الرَّحْمَاوِيُّ فِي ‹‹شَرْحِ الْفِقْةِ الْأَكْبَرِ›› فِي حُسْنِ الظَّنِ فِيْهِمْ، وَالْكَفِّ عَنِ الطَّعْنِ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ: وَهَذَا الْقَدَرُ يَكْفِيْنَا فِي مَا أَرَدْنَا بَيَانَهُ مِنْ وُجُوْبِ مَحَبَّتِهِمْ، وَالْكَفِّ عَنْهُمْ، وَالْاِجْتِنَابِ عَنْ مَطَاعِنِهِمْ، وَحُسْنِ الظَّنِّ بِهِمْ، وَحَمْلِ كُلِّ مَا نُقِلَ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ إِلَى الْخَيْرِ وَالصَّلَاحِ، وَإِنْ كَانَ ظَاهِرُهُ خِلَافَ ذَلِكَ. وَمَا شَجَرَ فِيْمَا بَيْنَهُمْ مِنَ الْمُخَالَفَاتِ وَالْمُنَازَعَاتِ وَالْمُحَارَبَاتِ، فَبَعْضُهَا اجْتِهَادِيَّاتٌ وَبَعْضُهَا اتَّفَاقِيَّاتٌ صَدَرَتْ مِنِ اخْتِلَافِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ بَيْنَهُمْ وَفِتْنَتِهِمْ كَحَرْبِ الْجَمَلِ. فَإِنَّهُ وَقَعَ عَلَى الصَّحِيْحِ مِنْ فِتْنَةِ قَتْلِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ وَاخْتِلَاطِهِمْ بِالْفَرِيْقَيْنِ وَمُبَاشَرَتِهِمُ الْحَرْبَ، فَتَوَهَّمَ كُلٌّ مِنَ الْفَرِيْقَيْنِ قَصْدَ الْفَرِيْقِ الآخَرِ إِلَى الْحَرْبِ، فَكَانَ مَا كَانَ وَالْحُكْمُ ِللهِ.

وَأَمَّا حَرْبُ صِفِّيْنَ فَكَانَ بَغْيًا مِنَ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ وَأَحْزَابِهِ وَمَا كَانَ مَعَهُمْ مِنْ كِبَارِ الصَّحَابَةِ وَ عُلَمَائِهِمْ، غَيْرَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ.

وَأَمَّا حَرْبُ نَهْرَوَانَ فَكَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ الْمَارِقِيْنِ عَنِ الدِّيْنِ، وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي الْوَقْعَاتِ الثَّلَاثِ، أَيْنَمَا دَارَ دَارَ الْحَقُّ مَعَهُ يَشْهَدُ بِهِ قَوْلُهُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: (إِنَّكَ سَتَقْتُلُ النَّاكِثِيْنَ وَالْمَارِقِيْنَ وَالْقَاسِطِيْنَ).

امام محی الدین الرحماوی نے ’شرح الفقه الأکبر‘ کے باب: حسن الظن فیهم والكف عن الطعن فیما شجر بینهم، میں کہا ہے: اس قدر بیان ہمارے لیے کافی ہے اس چیز میں جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم ان کی محبت کے وجوب، ان کی شان میں گستاخی کرنے سے باز رہنے، ان میں طعن کرنے سے دور رہنے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھنے کو بیان کریں۔ اور اس طرح بیان کریں کہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں جو کچھ منقول ہے اسے خیر اور صلاح پر محمول کیا جائے، اگرچہ اس کا ظاہر اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اختلافات، تنازعات اور جنگیں ہوئیں، ان میں سے بعض اجتہادی تھیں اور بعض اتفاقی، جو ان کے درمیان خواہش پرست لوگوں کے اختلافات اور ان کے فتنوں سے صادر ہوئیں، جیسا کہ جنگ جَمل، یہ بلاشبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے فتنہ کا تسلسل ہے، جو قاتلوں کے دونوں گروہوں کی سازش کے طور پر باہم گھل مل جانے اور ان کے براہ راست جنگ چھیڑنے سے برپا ہوئی۔ دونوں گروہوں نے یہ گمان کیا کہ دوسرے گروہ نے جنگ کا ارادہ کر کے ان پر حملہ کر دیا ہے، پھر وہی ہوا جو ہوا اور اصل فیصلہ اور بادشاہت اللہ ہی کی ہے۔

رہی جنگ صفین تو یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے (خلیفۃ المسلمین کی) اطاعت سے انحراف تھا اور ان کے ساتھ کبار صحابہ اور اجل علماء نہیں تھے، سوائے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے۔

رہی نہروان کی جنگ تو یہ دین سے خروج کر جانے والے خوارج کے ساتھ تھی۔ ان تینوں واقعات میں حضرت علی المرتضی کرّم اﷲ وجہہ حق پر تھے، اور آپ جس طرف بھی گئے حق آپ کے ساتھ گیا اور اس کی گواہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان دیتا ہے: إِنَّكَ سَتَقْتُلُ النَّاکِثِیْنَ وَالْمَارِقِیْنَ وَالْقَاسِطِیْنَ (بے شک آپ عہد شکنوں، خارجیوں اور ظالموں کو قتل کریں گے۔)

25. وَقَالَ الْإِمَامُ السَّرَخْسِيُّ: وَلَمَّا اسْتُشْهِدَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ بِصِفِّيْنَ قَالَ: لَا تَغْسِلُوْا عَنِيْ دَمًا وَلَا تَنْزِعُوَا عَنِيْ ثَوْبًا، فَإِنِّيْ أَلْتَقِيْ وَمُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ بِالْجَادَةِ، وَهَكَذَا نُقِلَ عَنْ حُجْرٍ بْنِ عَدِيٍّ رضی اللہ عنہ.

امام سرخسی بیان کرتے ہیں: جب سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں شہید ہونے لگے تو انہوں نے فرمایا: میرے بدن سے خون دھونا اور نہ میرا لباس اتارنا(بلکہ مجھے اسی حالت میں دفن کر دینا)کیونکہ میں میدانِ حشر میں اسی حال میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کروں گا اور حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

السرخسي في المبسوط، 2/50

26. وَقَالَ أَيْضًا: وَيُصْنَعُ بِقَتْلَى أَهْلِ الْعَدْلِ مَا يُصْنَعُ بَالشَّهِيْدِ، فَلَا يُغْسَلُوْنَ وَيُصَلَّى عَلَيْهِمْ، هَكَذَا فَعَلَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ بِمَنْ قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَبِهِ أَوْصَى عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ وَحُجْرُ بْنُ عَدِيٍّ وَزَيْدُ بَنُ صَوْحَانَ رضی اللہ عنہم حِيْنَ اسْتُشْهِدُوْا، وَقَدْ رَوَيْنَاهُ فِيْ كَتَابِ الصَّلَاةِ: وَلَا يُصَلَّى عَلَى قَتْلَى أَهْلِ الْبَغْيِ.

امام سرخسی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: اہلِ عدل کے مقتولین کے ساتھ(تجہیز و تکفین کا) وہی معاملہ کیا جائے گا جو ایک شہید کے ساتھ کیا جاتا ہے (یعنی ان کو اسی لباس میں دفنایا جائے گاجس میں شہید ہوئے)، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے مقتولین کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا تھا، اورحضرت عمار بن یاسر،حضرت حجر بن عدی اورحضرت زید بن صوحان رضی اللہ عنہم نے بھی جب انہیں شہید کیا جانے لگا اسی قسم کی وصیت کی تھی۔ ہم (المبسوط کی) کتاب الصلوٰۃ میں بیان کر چکے ہیں کہ باغیوں کے مقتولین کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی۔

السرخسي في المبسوط، 10/131

27. وَقَالَ الْإِمَامُ الْكَاسَانِيُّ: وَلَنَا مَا رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ، أَنَّهُ لَمَّا اسْتُشْهِدَ بِصِفِّيْنَ تَحْتَ رَايَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: لَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَلَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، فَإِنِّيْ أَلْتَقِيْ وَمُعَاوِيَةُ بِالْجَادَةِ، وَكَانَ قَتِيْلَ أَهْلِ الْبَغْيِ، عَلَى مَا قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ».

امام کاسانی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت ہی ہماری دلیل ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پرچم تلے (باغیوں کے خلاف لڑتے ہوئے) شہید ہونے لگے تو انہوں نے فرمایا:میرے بدن سے خون دھونا اورنہ میرا لباس اتارنا،کیونکہ میں اورمعاویہ میدانِ محشر میں اِسی حال میں ملیں گے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(ان کے قاتلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا تھا: ’’(اے عمار!) تجھے باغی گروہ قتل کرے گا‘‘۔

الكاساني في بدائع الصنائع، 1/323

28. وَقَالَ ابْنُ مَازَةَ الْحَنَفِيُّ: وَكَذَلِكَ مَنْ قُتِلَ فِيْ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ، لَأَنَّهُ إِنَّمَا حَارَبَ لإِعْزَازِ دِيْنِ اللهِ تَعَالَى، فَصَارَ كَالْمُحَارِبِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ، وَقَدْ صَحَّ أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ قُتِلَ بِصِفِّيْنَ، فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، وَارْمَسُوْنِيْ فِي التُّرَابِ رَمْسًا، فَإِنِّيْ رَجُلٌ مُحَاجٌّ أُحَاجُّ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَزَيْدُ بْنُ صَوْحَانَ رضی اللہ عنہ قُتِلَ يَوْمَ الْجَمَلِ فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ مُخَاصِمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَة، وَعَنْ صَخْرِ بْنِ عَدِيٍّ أَنَّهُ قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ، وَكَانَ مُقَيَّدًا فَقَالَ: لَا تَنْزِعُوْا عَنِّيْ ثَوْبًا، وَلَا تَغْسِلُوْا عَنِّيْ دَمًا، فَإِنِّيْ وَمُعَاوِيَةُ مُلْتَقِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى الْجَادَّةِ.

امام ابن مازہ حنفی بیان کرتے ہیں: جو شخص باغیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید کر دیا گیا تو اس کا بھی یہی حکم ہے (کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا)۔ چونکہ اُس نے فقط دینِ الٰہی(اسلام)کے غلبہ کی خاطر جنگ کی ہے، سو وہ اہل حرب کے ساتھ لڑنے والوں کی طرح ہو گیا، اور حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگِ صفین میں شہید کر دیئے گئے، لہٰذا انہوں نے(شہادت پانے سے قبل) فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا اورمجھے اسی حالت میں مٹی میں دفن کر دینا، کیونکہ میں قیامت کے دن معاویہ کے ساتھ جھگڑا کروں گا، اسی طرح حضرت زید بن صوحان رضی اللہ عنہ جب جنگ جمل میں قتل کیے گئے تو اُنہوں نے فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا، میں قیامت کے دن اُن کے ساتھ جھگڑوں گا، اسی طرح حضرت صخر بن عدی رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں شہید کیا اس حال میں کہ وہ پابند سلاسل تھے۔(شہادت سے قبل) اُنہوں نے بھی فرمایا: مجھ سے میرا لباس جدا کرنا اور نہ ہی میرے بدن سے خون دھونا، کہ میں اورمعاویہ میدان حشرمیں ملاقات کریں گے۔

ابن مازة في المحيط البرهاني في فقه النعماني، 2/161

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved