اسلام: دین امن یا دین فساد؟ (سوال و جواب)

حصہ دوم: فتنۂ داعش کا ظہور (احادیث نبویہ کی روشنی میں)

سوال نمبر 12: کیا پیغمبرِ اِسلام ﷺ نے اُمت کو داعش یا ایسے فکر و عمل کے حامل گروہوں کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے؟

جواب:

داعش (ISIS) نے اپنی فکر اور نظریے سے اختلاف رکھنے والے ہر شخص کے بارے میں انتہائی بے رحمانہ اور سخت طرزِ عمل اختیار کیا ہے۔ اس نے غیر مسلموں کو ذبح کیا ہے مگر اس کے ظلم و ستم کے زیادہ شکار وہ مسلمان خواتین و حضرات ہوئے ہیں جنہوں نے اختلاف رائے رکھتے ہوئے ان کی وفاداری کا حلف اٹھانے اور اتھارٹی کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ اِسلام کا نام استعمال کرنے والے تمام دہشت گرد گروہ یہی روش اختیار کرتے ہیں۔ طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ظلم و ستم کا شکار بھی زیادہ تر مسلمان ہوتے ہیں۔

اِس اَمر کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ISIS اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ایسے تمام اقدامات یکسر اِسلام کی تعلیمات کے برعکس ہیں اور قرآن مجید ایسے تمام ظالمانہ اقدامات کو کلیتا ردّ کرتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید ایک شخص کے قتل کو ساری نسل انسانی کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.

 المائدة، 5: 32

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

اسلام ستم و آزار اور فتنہ پروری کو زمین پر سب سے بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.

 البقرة، 2: 217

اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے۔

اسلام امن و انصاف اور انسانی حقوق کے احترام پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ یہ ضمیر کی آزادی کی پرزور حمایت کرتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے آشکار ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مذہبی انتہا پسندی کے اس دور میں فروغ پانے والے فتنہ سے بالتفصیل متنبہ کر دیا تھا۔ چودہ صدیاں قبل آپ ﷺ نے پیش گوئی فرمائی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اسی طرح قرآن مجید کے نام کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا۔ مساجد شاندار اور آراستہ ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان بعد میں آنے والے وقتوں میں اسلام کی حقیقی روح اس سے نکل جائے گی اور مذہب کا بیشتر حصہ محض رسم بن کر رہ جائے گا۔ آپ ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ علماء بددیانت ہو جائیں گے.

 اِس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تالیف کردہ اَربعین ’’علاماتِ قیامت اور فتنوں کا ظہور {الْقَوْلُ الْحَسَن فِي عَلَامَاتِ السَّاعَۃِ وَظُہُوْرِ الْفِتَن}‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

یہ حقیقت بھی روایات سے مترشح ہوتی ہے کہ مختلف دہشت گرد گروہ اسلامی عقیدے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس نزاع اور جھگڑے کے وقت نوجوانوں کا ایک گروہ نمودار ہوگا جو سمجھ بوجھ سے عاری اور بے وقوف ہوں گے۔ وہ اگرچہ بڑی خوب صورت گفتگو کریں گے لیکن ان کے اعمال انتہائی بہیمانہ اور قبیح ہوں گے۔ بظاہر عبادت کرنے اور روزہ رکھنے میں اس قدر پابند ہوں گے کہ مسلمان عبادت گزار ان کے معاملے میں خود کو غیر اَہم اور کمتر محسوس کریں گے۔ وہ لوگوں کو قرآن مجید کی دعوت دیں گے لیکن حقیقت میں ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھتے ہوں گے، محض اس کے مخصوص نکات کو زبان سے دہرا رہے ہوں گے۔ انہی کے بارے میں پیغمبرِ اِسلام ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے۔

مزید صراحت کے لیے ایک اور حدیث مبارک کا مطالعہ کریں جسے خلیفۃ المسلمین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ ان لوگوں کے لمبے بال ہوں گے، سیاہ گھنی داڑھیاں ہوں گی، ان کے دل لوہے کی طرح سخت ہوں گے اور وہ ایک ریاست (الدولہ) کے ساتھی ہوں گے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ISIS خود کو Islamic State یا الدولہ کہتے ہیں۔ یہ حدیث مبارکہ مزید بیان کرتی ہے کہ وہ معاہدات توڑیں گے، سچ نہیں بولیں گے اور ان کے نام شہروں سے موسوم ہوں گے۔ جیسا کہ ISIS کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کا نام ذہن میں آتا ہے۔ (یہ حدیث مبارک اگلے سوال کے ذیل میں درج ہے۔)

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسے ملامت زدہ لوگوں کے بارے میں ہی فرمایا کہ مسلمان ان کے برے اعمال سے آگاہ رہیں اور ان کے خلاف جنگ کریں اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ جو ان سے جنگ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان سے کہیں بہتر ہے۔

اس اہم نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی داعش اسلام کے نام پر قتل عام کرتی ہے وہ قرآن مجید کی پیروی کا دعویٰ کرتی ہے؛ یا رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو دنیا میں انارکی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں.

 اِس موضوع پر مکمل تفصیلات کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف ISIS (Exposed Through the Prophetic Traditions) ملاحظہ فرمائیں۔

حاصلِ کلام

مختصر یہ کہ اسلام امن، حفاظت اور تحفظ سے عبارت ہے۔ یہ اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ اہل ایمان تمام بنی نوع انسان مردوں، عورتوں اور بچوں سمیت سب کی حفاظت کریں خواہ ان کا کوئی بھی مذہب کلچر یا نسل ہو۔ کسی شخص کی جان لینا اسلام کے نزدیک انتہائی غیر انسانی اور ظالمانہ فعل ہے۔ اسلام واضح اور حتمی طور پر تشدد، انتہا پسندی اور اس کی کسی بھی شکل کو سختی سے رد کرتا ہے، بلکہ اس کے برعکس مسلمان افواج کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ ان کے خلاف برسرِپیکار ہو جائیں جو دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں اور سوسائٹی میں انتشار اور بدنظمی پھیلاتے ہیں۔

سوال نمبر 13: کیا پیغمبرِ اِسلام ﷺ نے کسی ایسے دہشت گرد گروہ کے نام کا بھی اِشارہ فرمایا ہے، تاکہ لوگ اُنہیں پہچان سکیں؟

جواب:

عام لوگوں کے لیے یہ اَمر حیرانگی کا باعث ہوگا کہ حضور ﷺ نے ISIS دہشت گرد گروہ کا نام اپنی احادیث مبارکہ میں بیان فرمایا تھا جو کہ وہ اپنی سلطنت کو دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی حکومت کو الدولۃ کا نام دیں گے جو کہ لغوی معنی میں اسلامی ریاست کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّایَاتِ السُّوْدَ فَالْزَمُوا الْأَرْضَ فَـلَا تُحَرِّکُوا أَيْدِیَکُمْ، وَلَا أَرْجُلَکُمْ۔ ثُمَّ یَظْهَرُ قَوْمٌ ضُعَفَاءُ لَا یُؤْبَهٗ لَهُمْ، قُلُوبُهُمْ کَزُبَرِ الْحَدِیدِ، هُمْ أَصْحَابُ الدَّوْلَةِ، لَا یَفُوْنَ بِعَهْدٍ وَلَا مِيْثَاقٍ، یَدْعُوْنَ إِلَی الْحَقِّ وَلَيْسُوا مِنْ أَهْلِهٖ، أَسْمَاؤُهُمُ الْکُنٰی، وَنِسْبَتُهُمُ الْقُرٰی، وَشُعُوْرُهُمْ مُرْخَاةٌ کَشُعُوْرِ النِّسَاءِ، حَتّٰی یَخْتَلِفُوا فِيْمَا بَيْنَهُمْ، ثُمَّ یُؤْتِي اللهُ الْحَقَّ مَنْ یَشَاءُ.

نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 210، رقم: 573

جب تم سیاہ جھنڈے (والوں کو) دیکھو تو زمین سے چپک جانا اور اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کو حرکت نہ دینا۔ پھر غربت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ ظاہر ہوگا کہ جنہیں معاشرے میں کوئی اہمیت نہ دیتا ہوگا۔ اُن کے دل لوہے کی تختیوں کی طرح سخت ہوں گے۔ وہ (نام نہاد اور خود ساختہ) ریاست کے علم بردار ہوں گے۔ وہ کسی عہد و پیمان کا پاس نہیں کریں گے۔ وہ حق کی دعوت دیں گے جب کہ وہ خود اہلِ حق میں سے نہیں ہوں گے۔ ان کے نام کنیتوں کی صورت میں ہوں گے اور ان کی نسبت دیہات کی طرف ہوگی۔ اُن کے بال عورتوں کے بالوں کی طرح دراز ہوں گے۔ پھر اُن کا آپس میں ہی اختلاف ہو جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا حق کا راستہ عطا فرما دے گا۔

سوال نمبر 14: کیا روایات میں دہشت گرد گروہ داعش یا ان کے مماثل خوارج کے لیڈروں کے ناموں کے حوالے سے بھی کچھ بیان ہوا ہے؟

جواب:

جی ہاں! روایات میں آیا ہے کہ یہ دہشت گرد اپنے اصلی ناموں کی بجائے اپنے فرضی ناموں (nicknames) سے پہچانے جائیں گے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أَسْمَاؤُهُمُ الْکُنٰی، وَنِسْبَتُهُمُ الْقُرٰی.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 210، رقم: 573

اُن کے نام کنیتوں پر ہوں گے (جیسے ابو فلاں، ابو فلاں) اور اُن کی نسبت دیہات کی طرف ہو گی۔

امام زہری بیان کرتے ہیں:

أَصْحَابُ شُعُوْرٍ، أَنْسَابُهُمُ الْقُرٰی، وَأَسْمَاؤُهُمُ الْکُنٰی.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 206، رقم: 564

وہ لمبے بالوں والے ہوں گے، اُن کی نسبت دیہات کی طرف ہوگی اور اُن کے نام کنیتوں پر ہوں گے (یعنی ابو فلاں بن فلاں)۔

روایات میں بیان کردہ یہ نشانیاں عصر حاضر کے دہشت گرد گروہ داعش پر صادق آتی ہیں، ان کے نام بھی کنیت پر ہیں اور ان کا تعلق بھی دیہات سے ہے۔ بطور ثبوت چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔ ابو بکر البغدادی

اِس کا اصل نام ابراہیم عواد ابراہیم علی البدری السامرائی ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم داعش کا سربراہ ہے، جو الدولۃ الإسلامیۃ في العراق والشام کے نام سے جانی جاتی ہے۔

2۔ ابو عبد الرحمن البیلاوی

اِس کا اصل نام عدنان اسماعیل نجم ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم داعش کی ملٹری کونسل اور شوریٰ کونسل کا سربراہ رہ چکا ہے۔ اسے ابو اسامہ البیلاوی بھی کہتے ہیں۔

3۔ ابو بلال المشدانی

اِس کا اصل نام سمیر عبد محمد نیل الخلیفاوی تھا۔ یہ داعش کی ملٹری کونسل کا ذمہ دار تھا۔

4۔ ابو ایمن العراقی

یہ شام میں داعش کا اہم رہنما ہے۔

5۔ ابو علی الانباری

یہ داعش کی خود ساختہ شریعہ کورٹ کا سربراہ ہے اور آج کل رقہ میں ہے۔

6۔ ابو لقمان

اس کا اصل نام علی موسیٰ الشوواخ ہے۔

7۔ ابو مصعب الحلوس

اپنے ہمسایوں اور گاؤں میں یہ ابو ذیاب کے نام سے مشہور ہے۔ رقہ میں داعش کی بنیاد اسی نے رکھی اور اس کی پالیسی بنانے میں بھی خصوصی کردار ادا کیا۔ اسی نے داعش کے لیے بیعت لینے کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔

8۔ ابو عمر قرداش

اپنی تنظیم میں یہ المدمر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ شام اور عراق میں داعش کے سیکیورٹی آلات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔

9۔ ابو ناصر الامنی

اس کا اصل نام محمد الخادر ابو محمد الجزراوی (ابو حمزہ ریادات) ہے۔

10۔ ابو عبد الرحمن الامنی

یہ رقہ کے قریب واقع گاؤں جائف سے تعلق رکھتا ہے۔

11۔ ابو علی الشرعی

اس کا اصل نام فواز العلی ہے۔ یہ رقہ کے قریب واقع علاقہ کرامہ سے تعلق رکھتا ہے۔

12۔ ابو انس العراقی

یہ شام میں داعش کا اہم عسکری سربراہ ہے۔

13۔ ابو عمر الشیشانی

اس کا اصل نام ترخان تیمورزوچ بیترشولی ہے۔ یہ داعش کے اہم عسکری قائدین میں سے ہے۔

14۔ ابو الاثیر

یہ حلب (شام) میں داعش کا لیڈر ہے۔

15۔ ابو مصعب الترکی

16۔ ابو جاسم العراقی

17۔ ابو عمر الملاقم

18۔ ابو لقمان

19۔ ابو جلال الجبوری

20۔ ابو خلیفہ

21۔ ابو بصیر

سوال نمبر 15: حضور ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دہشت گرد گروہ داعش یا ان جیسے دیگر خوارج کی علامات کیا ہیں؟

جواب:

روایات میں داعش کے قاتلوں کی علامات اتنی واضح ہیں کہ کوئی بھی شخص انہیں پڑھنے کے بعدانہیں پہچاننے سے انکار نہیں کر سکتا۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خارجی گروہ کی علامات کو تفصیل سے بیان کیا ہے جو عصرِ حاضر میں سو فیصد داعش کے گروہ سے ملتی ہیں۔ انہیں حافظ ابو عبد اللہ نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’الفتن (1: 210، رقم: 375)‘ میں روایت کیا ہے اور اسی روایت کو امام سیوطی اور امام علاء الدین ہندی نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔

اِس روایت میں داعش کی جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  1. داعش اپنے گروپ کی پہچان کے لیے سیاہ جھنڈے استعمال کریں گے۔
  2. اُن کے دل انتہائی سخت ہوں گے گویا کہ لوہے کے ٹکڑے ہوں۔
  3. وہ اسلامی ریاست کے قیام کا دعویٰ کریں گے۔
  4. وہ کسی اخلاقی یا بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔
  5. ظاہراً وہ لوگوں کو اسلام کی حاکمیت کی طرف بلانے کا دعویٰ کریں لیکن حقیقت میں اپنے اس دعویٰ میں سچے نہیں ہوں گے۔
  6. اُن کا ظہور عراق کے صحراؤں اور اُن سے متصل علاقوں سے ہو گا۔
  7. اُن کے بال عورتوں کی طرح لمبے ہوں گے۔
  8. ان کی قیادت ایسے آدمی کریں گے جن کے سر اُونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔
  9. دورانِ جنگ اُن کا نعرہ یہی ہو گا: مار دو، قتل کر دو۔
  10. ان کا یہ عقیدہ ہوگا کہ خون بہانا، قتل کرنا، لوٹ مار کرنا، لوگوں کا مال و دولت چھین لینا اور جنسی زیادتی کرنا جائز ہے۔
  11. جب یہ گروہ نکلے گا تو اُس وقت عراق حالتِ جنگ میں ہوگا۔
  12. شام خانہ جنگی کی وجہ سے مختلف خطوں میں بٹ چکا ہوگا۔
  13. یہ جنگی صورت حال عراق اور شام کو شدید متاثر کرے گی۔
  14. مصر سیاسی کشیدگی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔
  15. یہ دہشت گرد گروہ دمشق پر خونخوار حملہ کرے گا اور لوگوں کو قتل کرے گا۔
  16. یہ جنگ تمام خطۂ عرب کو متاثر کرے گی۔
  17. شامی دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر جائیں گے۔
  18. اس تحریک میں جیل سے فرار ہونے والے قیدی، باغی، صحرا نورد اور جرائم پیشہ لوگ خطۂ عرب سے، اور دیگر ممالک اور خطوں سے شامل ہوں گے۔
  19. یہ لوگ پہلے مرحلہ میں مسلمانوں میں فتنہ پیدا کریں گے، پھر گمراہی پھیلائیں گے اور تیسرے مرحلہ میں اُن کو ایمان کی دولت سے بھی محروم کر دیں گے یعنی اُنہیں کفر تک پہنچا دیں گے۔

اِن صریح علامات کو جان لینے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی روایات عصر حاضر کے دہشت گرد گروہ داعش کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

سوال نمبر 16: کیا حضور ﷺ نے داعش کے سیاہ جھنڈوں کے بارے میں بھی کچھ فرمایا ہے؟

جواب:

دہشت گرد گروہ داعش اگست 2014ء میں سیاہ جھنڈوں کے ساتھ نمودار ہوا، لیکن اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ نے چودہ صدیاں قبل ہی ان کی ظاہری علامات اور ان کے جھنڈے کے رنگ تک کی پیش گوئی فرما دی تھی۔ درج ذیل روایات میں سیاہ جھنڈوں کے نمودار ہونے کی پیش گوئی اسی گروہ کے نمودار ہونے کی طرف اشارہ ہے:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: کیا میں آپ کو وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: ضرور بیان کرو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

إِذَا خَرَجَتِ الرَّایَاتُ السُّودُ فَإِنَّ أَوَّلَهَا فِتْنَةٌ، وَأَوْسَطَهَا ضَلَالَةٌ، وَآخِرَهَا کُفْرٌ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 203، رقم: 551

جب سیاہ جھنڈے ظاہر ہوں گے تو اُن کی ابتداء فتنہ، اُن کا وسط گمراہی اور اُن کا اختتام کفر پر ہوگا۔

2۔ حضرت رجاء بن ابی سلمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عقبہ بن ابی زینب امن اور سلامتی کی تلاش میں بیت المقدس تشریف لائے تو میں نے اُن سے پوچھا: کیا آپ مغرب (شمالی افریقہ) کے لوگوں سے خوف زدہ ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا:

لَا، إِنَّ فِتْنَتَهُمْ لَنْ تَعْدُوْهُمْ مَا لَمْ تَخْرُجِ الرَّایَاتُ السُّودُ، فَإِذَا خَرَجَتِ الرَّایَاتُ السُّودُ فَخَفْ شَرَّهُمْ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 201، رقم: 546

نہیں، اُن کا فتنہ اُنہی تک محدود رہے گا جب تک کہ سیاہ جھنڈے نمودار نہ ہو جائیں۔ جب سیاہ جھنڈے نمودار ہو جائیں تو پھر تمہیں اُن کے شر سے ڈرنا چاہیے۔

3۔ امام زہری بیان کرتے ہیں:

تُقْبِلُ الرَّایَاتُ السُّوْدُ مِنَ الْـمَشْرِقِ، یَقُوْدُهُمْ رِجَالٌ کَالْبُخْتِ الْـمَجَلَّلَةِ، أَصْحَابُ شُعُوْرٍ، أَنْسَابُهُمُ الْقُرٰی، وَأَسْمَاؤُهُمُ الْکُنٰی، یَفْتَتِحُوْنَ مَدِيْنَةَ دِمَشْقَ، تُرْفَعُ عَنْهُمُ الرَّحْمَةُ ثَـلَاثَ سَاعَاتٍ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 206، رقم: 564

مشرق (عراق اور اُس کے اردگرد کے علاقوں) سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے۔ اس گروہ کی قیادت ایسے لوگ کریں گے جن کے سر ایسے ہوں گے جیسے اونٹ کی کوہان ہوتی ہے۔ اُن کی نسبتیں دیہات کی طرف ہوں گی، اُن کے نام کنیتوں پر ہوں گے (جیسے ابو فلاں بن فلاں)، وہ دمشق شہر کو فتح کریں گے۔ اُن پر سے رحمت تین گھڑیاں دور تک اُٹھا لی جائے گی (یعنی رحم دلی اور شفقت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوگا)۔

4۔ ابن ابو ہریرہ اپنے والد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ حضرت علی بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا:

یَدْخُلُوْنَ دِمَشْقَ بِرَایَاتٍ سُوْدٍ عِظَامٍ، فَیَقْتَتِلُونَ فِيْهَا مَقْتَلَةً عَظِيْمَةً، شِعَارُهُمْ: بُکُش بُکُش.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 207، رقم: 565

یہ لوگ بہت بڑے بڑے سیاہ جھنڈوں کے ساتھ دمشق شہر میں داخل ہوں گے۔ وہاں بہت بڑی لڑائی لڑیں گے اور کثیر لوگوں کو قتل کریں گے۔ دورانِ جنگ اُن کا نعرہ ہو گا: مار دو، قتل کر دو۔

5۔ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

یَنْصِبُ عَلَامَاتٍ سُوْدًا، أَوَّلُهَا نَصْرٌ، وَآخِرُهَا کُفْرٌ، یَتْبَعُهٗ خُشَارَةُ الْعَرَبِ، وَسَفِلَةُ الْـمَوَالِي، وَالْعَبِيْدُ الْأبَّاقُ، وَمُرَّاقُ الْآفَاقِ، سِيْمَاهُمُ السَّوَادُ، وَدِيْنُهُمُ الشِّرْکُ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 212، رقم: 580

وہ سیاہ جھنڈے نصب کرے گا۔ اُس (فتنہ) کی ابتداء کامیابی اور انتہاء کفر پر ہوگی، اس کی اقتداء عرب کے دھتکارے ہوئے لوگ، گھٹیا اور بھگوڑے غلام اور دنیا بھر کے ملحدین کریں گے۔ اُن کی نشانی سیاہ جھنڈے ہوں گے اور اُن کا دین شرک ہو گا۔

6۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِذَا الْتَقَتِ الرَّایَاتُ السُّوْدُ وَالرَّایَاتُ الصُّفْرُ فِي سُرَّةِ الشَّامِ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ مِنْ ظَهْرِهَا.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 274، رقم: 792

جب سیاہ اور زرد (پیلے) جھنڈے دمشق کی سرزمین پر آپس میں مل جائیں گے تو زمین کا اندرونی حصہ بیرونی حصے سے بہتر ہوگا (یعنی ایسے فتنے کی موجودگی میں موت زندگی سے بہتر ہوگی)۔

7۔ حضرت ارطاۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِذَا اصْطَکَّتِ الرَّایَاتُ الصُّفْرُ وَالسُّوْدُ فِی سُرَّةِ الشَّامِ، فَالْوَيْلُ لِسَاکِنِهَا مِنَ الْجَيْشِ الْمَهْزُومِ؛ ثُمَّ الْوَيْلُ لَهَا مِنَ الْجَيْشِ الْهَازِمِ، وَيْلٌ لَهُمْ مِنَ الْمُشَوَّهِ الْمَلْعُونِ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 275، رقم: 795

جب زرد اور سیاہ جھنڈے دمشق میں مل جائیں گے تو وہاں رہنے والے شکست خوردہ لشکر کے ہاتھوں ہلاک ہوں گے۔ پھر اُس شکست دینے والے لشکر کے ہاتھوں دمشق کی ہلاکت و بربادی ہوگی۔ پھر اُن کے لیے بگڑے ہوئے (قبیح شکل و صورت والے) ملعون کی جانب سے ہلاکت ہے۔

سوال نمبر 17: حضور ﷺ نے فرمایا: ’دہشت گرد نجد اور مشرق سے نمودار ہوں گے‘۔ ان احادیث میں نجد اور مشرق سے مراد کون سے علاقے لیے گئے ہیں؟

جواب:

نجد اور مشرق سے مراد عراق اور اس کے ارد گرد کے علاقے ہیں، جہاں سے دہشت گرد گروہ داعش نمودار ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ مشرق (عراق) دنیا میں پیدا ہونے والے بہت بڑے فتنے کا مرکز ہوگا۔

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا:

أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا - یُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ - مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.

  • بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبة الیمن إلی إسماعیل، 3: 1293، رقم: 3320
  • مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905
  • أحمد بن حنبل، المسند، 2: 73، رقم: 5428
  • مالک، الموطأ، کتاب الاستئذان، باب ما جاء في المشرق، 2: 975، رقم: 1757

آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے۔ - آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: - یہیں سے شیطان کا سینگ (یعنی شیطان کا گروہ) ظاہر ہوگا۔

2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو مشرق کی جانب چہرۂ مبارک کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا:

أَ لَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.

  • بخاری، الصحیح، کتاب الفتن، باب قول النبي ﷺ : الفتنة من قبل المشرق، 6: 2598، رقم: 6680
  • مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2228، رقم: 2905
  • أحمد بن حنبل، المسند، 2: 91، رقم: 5659

آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر (یعنی مشرق کی طرف) ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔

3۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عائشہ کے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

رَأسُ الْکُفْرِ مِنْ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، یَعْنِي الْـمَشْرِقَ.

 مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905

کفر کی چوٹی وہاں سے نکلے گی جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا، یعنی مشرق سے۔

4۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں:

إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَامَ عِنْدَ بَابِ حَفْصَةَ فَقَالَ: - بِیَدِهٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ - الْفِتْنَةُ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔ قَالَهَا: مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا.

 مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905

رسول اللہ ﷺ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر کھڑے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: فتنہ اُدھرہے، جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا، یہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا۔

5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مشرق کی طرف منہ کر کے فرمایا:

هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.

 مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905

بے شک فتنہ یہاں ہے، بے شک فتنہ یہاں ہے، بے شک فتنہ یہاں ہے جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔

6۔ ابن فضیل بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے والد سے سنا، اور انہوں نے حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

یَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، مَا أَسْأَلَکُمْ عَنِ الصَّغِيْرَةِ وَأَرْکَبَکُمْ لِلْکَبِيْرَةِ، سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيئُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَوْمَأَ بِیَدِهٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ، وَأَنْتُمْ یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

 مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905

اے اہل عراق! ایک چھوٹے جرم (پسو کے قتل) کے متعلق تم سوال کرتے ہو اور ایک بڑے جرم (صحابہ، اخیار، تابعین بشمول حضرات حسنین l کے قتل) پر تم کو کس نے برانگیختہ کیا؟ میں نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فتنہ یہاں سے نمودار ہوگا۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: شیطان کے دو سینگ یہاں سے طلوع ہوں گے اور تم ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہو (یعنی تم خارجی لوگ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہو)۔

7۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں:

إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا ویَمَنِنَا۔ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَفِي مَشْرِقِنَا، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مِنْ هُنَالِکَ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، وَلَهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ.

  • أحمد بن حنبل، المسند، 2: 90، رقم: 5642
  • طبراني، المعجم الأوسط، 2: 249، رقم: 1889
  • رویاني، المسند، 2: 421، رقم: 1433

رسول اللہ ﷺ نے دو بار دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما۔ ایک شخص نے عرض کیا: ـ یا رسول اللہ! اور ہمارے مشرق میں بھی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہوگا۔

8۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهَ ﷺ عِنْدَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رضى الله عنها یَدْعُو: اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَیَمَنِنَا۔ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْمَشْرِقَ فَقَالَ: مِنْ ھَاھُنَا یَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَالزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَمِنْ ھَاھُنَا الْفَدَّادُونَ.

  • طبراني، المعجم الأوسط، 7: 252، رقم: 7421
  • أبو نعیم، المسند المستخرج، 4: 44، رقم: 3183

میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے قریب دعا کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ عرض کر رہے تھے: اے اللہ! ہمارے مد اور ہمارے صاع (یعنی غلہ ماپنے کے دو آلات) میں برکت ڈال اور ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما۔ پھر آپ ﷺ نے مشرق کی طرف رُخِ انور پھیرا اور فرمایا: یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور (یہیں سے) زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے اور یہیں سے سخت گفتار، تکبر کے ساتھ چلنے والے (لوگ ظاہر) ہوں گے۔

محدثین اور مؤرخین نے تفصیل سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ احادیث مبارکہ میں مذکور الفاظ نجد اور مشرق سے مراد خطۂ عراق ہے۔

1۔ امام خطابی (م388ھ) بیان کرتے ہیں:

نجْد: ناحیة المشرق، ومن کان بالمدینة کان نجده بادیة العراق ونواحیها، وهي مشرق أهلها.

 خطابی، أعلام الحدیث في شرح صحیح البخاري، کتاب الفتن، باب الفتنة من قبل المشرق، 4: 2330، رقم: 1216/7094

نجد مشرق کی طرف ہے۔ جو کوئی مدینہ منورہ میں ہو گا اُس کا نجد عراق کا صحرائی علاقہ اور اُس کے گرد و نواح کا علاقہ ہے، کیونکہ یہ مدینہ منورہ کے لوگوں کے لیے مشرق ہے۔

2۔ امام ابن بطال (م449ھ) بیان کرتے ہیں:

القرن في الحیوان یضرب به المثل فیما لا یحمد من الأمور، کقوله ﷺ : - فی الفتنة وطلوعها من ناحیة المشرق- ومنه یطلع قرن الشیطان۔ والقرن: الأمة من الناس یُحدثون بعد فناء آخرین، فأخبره ﷺ : أن الفتنة تکون من تلک الناحیة، إلی قوله: … ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق.

 ابن بطال، شرح صحیح بخاری، کتاب الفتن، بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ : الفِتْنَةُ مِنْ قِبَلِ الـمَشْرِقِ، 10: 40

سینگ جانور کا ہوتا ہے، مگر کسی کام کی برائی بیان کرنے کے لیے بطور محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے حضور ﷺ نے مشرق کی طرف سے ظاہر ہونے والے فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔ سینگ ایسی قوم کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو پہلے گزر جانے والی نسل کے بعد آتی ہے۔ لہٰذا اس حدیث مبارک میں حضور ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو آگاہ فرمایا کہ فتنہ اس علاقے سے نمودار ہوگا۔ سو حضور ﷺ کی اسی پیش گوئی کے تناظر میں نجد، عراق اور اس سے ملحقہ مشرقی علاقوں سے (دہشت گرد) خارجی گروہ نمودار ہوا ہے۔

3۔ قاضی عیاض (م544ھ) إکمال المعلم بفوائد المسلم میں بیان کرتے ہیں:

وقال الخطابي: القرن یضرب به المثل فیما لا یحمد من الأمور، وقد ذهب بعض المتکلمین علی الحدیث أن المراد بهذا ما طلع من جهة المشرق ببلاد العراق من الفتن.

 قاضی عیاض، إکمال المعلم بفوائد المسلم، 1: 297-298

خطابی نے کہا ہے: عربی زبان میں قرن کا لفظ کسی قابلِ مذمت اَمر کے لیے بطور مثال استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض متکلمین نے حدیث کی تشریح میں کہا ہے کہ اس سے مراد مشرق سے ظاہر ہونے والے فتنے ہیں جن کا مرکز عراق ہے۔

4۔ علامہ ابن الجوزی (م597ھ) کشف المشکل من حدیث الصحیحین میں بیان کرتے ہیں:

’أَلا إِنَّ الْفِتْنَة هَاهُنَا - یُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ - مِنْ حَيْثُ یطلع قرن الشَّيْطَان‘ … وَأما ذکر قرن الشَّيْطَان فعلی سَبِیل الْمثل، کَأَن إِبْلِیس یطلع رَأسه بالفتن من تِلْکَ النواحي۔ … قَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ: نجد نَاحیَة الْمشرق، وَمن کَانَ بِالْمَدِيْنَةِ کَانَ نجده بادیة الْعرَاق ونواحیها، وَهِي مشرق أَهلهَا.

ابن الجوزي، کشف المشکل من حدیث الصحیحین، 2: 493

فتنہ اس علاقے سے نمودار ہوگا۔ - آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا - جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔ یہاں شیطان کے سینگ کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے یعنی شیطان مشرقی علاقوں میں فتنے پھیلاتے ہوئے اپنا سر نکالے گا۔ ابو سلیمان کہتے ہیں: نجد (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت واقع ہے۔ پس جو کوئی مدینہ منورہ میں ہوگا اُس کا نجد عراق کا دیہاتی علاقہ اور اُس کے گرد و نواح کا علاقہ ہے، اور یہی اہل مدینہ کا مشرقی علاقہ ہے۔

5۔ امام کرمانی (م786ھ) الکواکب الدراري في شرح صحیح البخاري میں بیان کرتے ہیں:

ومن کان بالمدینة الطیبة - صلی اللہ علی ساکنها - کان نجده بادیة العراق ونواحیها وهي مشرق أهلها۔ … فأخبر أن الفتنة تکون من ناحیتهم۔ … وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والاها کانت من المشرق.

 کرمانی، الکواکب الدراري في شرح صحیح البخاري، 12: 79

جو کوئی مدینہ طیبہ میں رہائش پذیر ہے - اللہ تعالیٰ اس کے ساکنین پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے - اُس کا نجد عراق کے دیہات اور اس کا نواحی علاقہ ہے اور یہی اہل مدینہ کا مشرق ہے۔ … حضور ﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ فتنہ اسی طرف سے ظہور پذیر ہوگا۔ خوارج (، ISIS اور ان کے مماثل دہشت گرد گروہوں) کا ظہور بھی اہل نجد، عراق اور اُس سے ملحقہ علاقوں سے ہوا اور یہ مدینہ کے مشرق میں واقع ہیں۔

6۔ امام ابن الملقن (م804ھ) التوضیح لشرح الجامع الصحیح میں بیان کرتے ہیں:

وقیل: معنی قرنه: أهل حزبه وإرادته۔ وقیل: القرن: القوة، أي: یطلع من حیث قوة الشیطان۔ وفي الصحاح: وقیل: أراد به قومًا أحداثًا؛ لقوله علیه السلام في الفتنة: وطلوعها من ناحیة المشرق ومنه یطلع قرن الشیطان، والقرن: الأمة من الناس یحدثون۔ فأخبر علیه السلام: أن الفتنة تکون من تلک الناحیة؛ … ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق۔

وکان سیدنا رسول اللہ ﷺ یحذر من ذلک ویعلم به قبل وقوعه، وذلک من دلالات نبوته ﷺ۔

(وقوله): والفتنة هنا: الکفر۔

قال الخطابي: نجد: ناحیة المشرق، ومن کان بالمدینة کان نجده بادیة العراق ونواحیها۔

وقال الداودي: نجد من ناحیة العراق.

 ابن الملقن، التوضیح لشرح الجامع الصحیح، 32: 356-358

کہا گیا ہے کہ شیطان کے قرن سے مراد ’اُس کے چیلے اور اُس کے ناپاک عزائم کو تکمیل تک پہنچانے والے کارندے‘ ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرن سے مراد قوت ہے؛ یعنی وہاں سے شیطان کی قوت ظاہر ہوگی۔ اور صحاح میں ہے کہ کہا گیا ہے: اس سے مراد کسی نئے گروہ کا ظاہر ہونا ہے جیسا کہ فتنہ کے ظہور کے متعلق آپ ﷺ کا فرمان ہے: یہ مشرق کی جانب سے ظاہر ہو گا اور اسی میں شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔ اور قرن سے مراد لوگوں کا ایسا گروہ بھی ہوتا ہے جو نئے عقائد گڑھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ خبر دی کہ فتنہ اس سمت سے نمودار ہوگا۔ … پھر خوارج (، ISIS اور ان کے مماثل دہشت گرد گروہوں) کا ظہور خطۂ نجد، عراق اور اُس سے آگے مشرق کی سمت واقع علاقوں میں ہو گا۔

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس فتنے سے خبردار فرمایا ہے، جب کہ آپ ﷺ اس فتنے کے ظہور پذیر ہونے سے قبل ہی اس کے بارے میں جانتے تھے۔ لہٰذا یہ آپ ﷺ کی نبوت کے معجزات میں سے ہے۔

آپ ﷺ کے فرمان ’فتنہ وہاں ہے‘ سے مراد کفر ہے۔

امام خطابی فرماتے ہیں: نجد مشرق کی طرف ہے۔ جو کوئی مدینہ منورہ میں ہوگا اُس کا نجد عراق کا دیہاتی اور نواحی علاقہ ہے۔

امام داودی فرماتے ہیں: نجد عراق کی سمت واقع ہے۔

7۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) فتح الباري میں بیان کرتے ہیں:

قَوْلُهٗ: بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ الْفِتْنَةُ مِنْ قِبَلِ الْـمَشْرِقِ أَيْ مِنْ جِهَتِهٖ۔ ذَکَرَ فِيْهِ ثَـلَاثَةَ أَحَادِيْثَ:

عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهٗ قَامَ إِلٰی جَنْبِ الْمِنْبَرِ فَقَالَ: الْفِتْنَةُ هَا هُنَا، الفِتْنَةُ هَا هُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنه أَنَّهٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْمَشْرِقَ، یَقُوْلُ: أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

قَوْلُهُ: الْفِتْنَةُ هَا هُنَا، الْفِتْنَةُ هَا هُنَا کَذَا فِيْهِ مَرَّتَيْنِ۔ وَفِي رِوَایَةِ یُوْنُسَ: هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا۔ أَعَادَهَا ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، قَوْلُهٗ: مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ: هَا هُنَا أَرْضُ الْفِتَنِ وَأَشَارَ إِلَی الْـمَشْرِقِ یَعْنِي حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔ وَلِـمُسْلِمٍ مِنْ رِوَایَةِ عِکْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ سَالِمٍ سَمِعْتُ بْنَ عُمَرَ رضى الله عنه یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یُشِيْرُ بِیَدِهٖ نَحْوَ الْـمَشْرِقِ، وَیَقُوْلُ: هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا - ثَـلَاثًا - حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔ وَلَهُ مِنْ طَرِيْقِ حَنْظَلَةَ عَنْ سَالِمٍ مِثْلُهُ لٰـکِنْ قَالَ: إِنَّ الْفِتْنَة هَا هُنَا - ثَـلَاثًا۔ وَلَهٗ مِنْ طَرِيْقِ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ یَقُوْلُ: یَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، مَا أَسْأَلُکُمْ عَنِ الصَّغِيْرَةِ وَأَرْکَبُکُمُ الْکَبِيْرَة، سَمِعْتُ أَبِي یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيئُ مِنْ هَا هُنَا وَأَوْمَأَ بِیَدِهٖ نَحْوَ الْـمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ۔

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ ﷺ : اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهٗ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: هُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

فَأَخْبَرَ ﷺ أَنَّ الْفِتْنَةَ تَکُوْنُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَةِ فَکَانَ کَمَا أَخْبَرَ وَکَذٰلِکَ الْبِدَعُ نَشَأَتْ مِنْ تِلْکَ الْـجِهَةِ.

 ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، 13: 46-47

امام بخاری نے باب ’حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان: فتنہ مشرق سے یعنی اس سمت سے ہوگا‘ میں تین احادیث ذکر کی ہیں:

حضور نبی اکرم ﷺ منبر کی جانب جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: فتنہ ادھر ہے، فتنہ ادھر ہے، جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جب کہ آپ ﷺ مشرق کی جانب چہرہ مبارک کرکے فرما رہے تھے: آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔

آپ ﷺ نے ایک روایت میں دو دفعہ فرمایا: فتنہ ادھر ہے، فتنہ ادھر ہے۔ اور یونس کی روایت میں ہے: بے شک فتنہ یہاں ہے۔ اسے آپ ﷺ نے تین بار فرمایا اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔

عبد الرزاق کی روایت میں ہے: فتنوں کی سرزمین وہاں ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا یعنی جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ اور امام مسلم نے حضرت عکرمہ بن عمار سے، اُنہوں نے سالم سے روایت کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہوئے سنا: فتنہ کا ظہور وہاں سے ہوگا -یہ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا - جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ نیز امام مسلم نے ہی حنظلہ کے طریق سے امام سالم سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے، لیکن اُس میں تین بار یہ فرمایا کہ فتنہ وہاں سے ظہور پذیر ہو گا۔ اور امام مسلم نے ہی فضیل بن غزوان کے طریق سے روایت بیان کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’اے اہل عراق! تم ایک چھوٹے جرم (پسو کے قتل) کے متعلق تو سوال کرتے ہو مگر ایک بڑے جرم (صحابہ، اخیار، تابعین بشمول حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کے قتل) پر تم کو کس نے برانگیختہ کیا؟ میں نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ فرمایا: فتنہ یہاں سے نمودار ہوگا، آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: شیطان کے دو سینگ یہاں سے طلوع ہوں گے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ ﷺ نے (پھر) دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی۔ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے نمودار ہوگا۔

اس طرح حضور ﷺ نے آگاہ فرما دیا کہ فتنہ اس (مشرقی) سمت سے ظاہر ہوگا، اور جیسے آپ ﷺ نے فرمایا تھا ویسے ہی فتنہ اُسی طرف سے ظہور پذیر ہوا۔

8۔ امام بدر الدین عینی (م855ھ) عمدۃ القاري میں بیان کرتے ہیں:

وَقِيْلَ: الْقَرْنُ الْقُوَّة أَي: تطلع حِین قُوَّة الشَّيْطَان، وَإِنَّمَا أَشَارَ إِلَی الْمشرق۔ فَأخْبر أَن الْفِتْنَة تکون من تِلْکَ النَّاحِیَة، … ثُمَّ ظُهُوْرُ الْخَوَارِج فِي أَرض نجد وَالْعراق وَمَا وَرَائَهَا من الْمشرق۔

قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: هُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

وَأَشَارَ بقوله: هُنَاکَ إِلٰی نجد، ونجد من الْمشرق.

 بدر الدین العیني، عمدة القاري شرح صحیح البخاري، 24: 199-200

کہا گیا ہے: قرن سے مراد قوت ہے۔ یعنی وہاں سے شیطان کی قوت ظاہر ہوگی، اور آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ گویا آپ ﷺ نے خبر دی کہ فتنہ اس سمت سے وقوع پذیر ہوگا۔ پھر نجد، عراق اور اُس کے نواحی علاقوں سے - جو کہ مشرق کی سمت ہیں - خوارج ظاہر ہوئے۔

(بعض) لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ ﷺ نے (پھر) دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے نکلے گا۔

آپ ﷺ نے اپنے فرمان میں جو اشارہ فرمایا وہ سرزمین نجد کی طرف تھا اور نجد مدینہ منورہ کے مشرق میں واقع ہے۔

9۔ امام قسطلانی (م923ھ) إرشاد الساري میں بیان کرتے ہیں:

وفي الترمذي عن معمر أن النبي ﷺ قام علی المنبر (فقال): (الفتنة هاهنا الفتنة هاهنا) بالتکرار مرتین (من حیث یطلع قرن الشیطان)۔

ولمسلم من طریق فضیل بن غزوان عن سالم بلفظ: إن الفتنة تجيء من هاهنا وأومأ بیده نحو المشرق۔ وإنما أشار علیه الصلاة والسلام إلی المشرق۔ فأخبر أن الفتنة تکون من تلک الناحیة وکذا وقع … ثم ظهور الخوارج في أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق۔ وهذا علم من أعلام نبوته ﷺ .

 قسطلانی، إرشاد الساري، 15: 40-41، رقم: 320

سنن ترمذی میں معمر کے طریق سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: فتنہ وہاں ہے، فتنہ وہاں ہے۔ ایسا تکرار کے ساتھ دو مرتبہ فرمایا۔ (پھر فرمایا: ) جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا۔

اور امام مسلم نے فضیل بن غزوان کے طریق سے حضرت سالم سے ان الفاظ میں روایت بیان کی ہے: (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ) فتنہ وہاں سے آئے گا اور اپنے دست اقدس سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔ گویا حضور نبی اکرم ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنہ اس سمت سے ظاہر ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس سے آگے مشرق کی سمت علاقوں میں ہوا۔ آپ ﷺ کا یہ خبر دینا علمِ نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔

10۔ علامہ ابو العلاء محمد عبد الرحمن مبارک پوری (م1353ھ) تحفۃ الأحوذي میں بیان کرتے ہیں:

نَجْدٌ مِنْ جِهَةِ الْـمَشْرِقِ وَمَنْ کَانَ بِالْـمَدِینَةِ کَانَ نَجْدُهُ بَادِیَةَ الْعِرَاقِ نَوَاحِیَهَا وَهِيَ مَشْرِقُ أَهْلِ الْـمَدِینَةِ۔ قَالَ الْـحَافِظُ بَعْدَ نَقْلِ کَلَامِ الْـخَطَّابِيِّ هٰذَا وَعُرِفَ بِهٰذَا وَهُوَ مَا قَالَهُ الدَّاوُدِيُّ إِنَّ نَجْدًا مِنْ نَاحِیَةِ الْعِرَاقِ.

 مبارک پوری، تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي، 10: 314

نجد مشرق کی طرف ہے۔ جو کوئی مدینہ منورہ میں ہوگا اُس کا نجد عراق کا دیہاتی اور اُس کے گرد و نواح کا علاقہ ہے۔ یہ اہل مدینہ کے مشرق کی سمت واقع ہے۔ حافظ ابن حجر امام خطابی کا یہ کلام نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ بات ایسے ہی جانی جاتی ہے اور داودی نے بھی یہی کہا ہے کہ نجد عراق کی سمت ہے۔

11۔ علامہ شبیر احمد عثمانی (م1369ھ) فتح الملھم میں بیان کرتے ہیں:

قوله ﷺ : إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔ وذکر السیوطي أن المراد من قرن الشیطان حزبه وأعوانه، یعني: من هذا یخرج أعوان الشیطان کذا في المرقاة۔

وتکلم العلماء في ما هو المراد من جهة المشرق۔ فقال أکثرهم: إن المراد بها نجد۔ وقال بعضهم: إن المراد منها العراق۔ قَالَ الْـخَطَّابِيُّ: نَجْدٌ مِنْ جِهَةِ الْـمَشْرِقِ وَمَنْ کَانَ بِالْـمَدِینَةِ کَانَ نَجْدُهٗ بَادِیَةَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیهَا، وَهِيَ مَشْرِقُ أَهْلِ الْـمَدِيْنَةِ۔

ولکن الراجح أن المراد بها النجد۔ وذلک لما أخرجه البخاري في الفتن عن ابن عمر رضى الله عنه : قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ: اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَّھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا۔ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَفِي نَجْدِنَا۔ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَ الْفِتَنُ، وَ بِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔

وکأن هذا الحدیث مفسر لحدیث الباب، وبه تبین أن أرض نجد من أراضي الفتن التي إشار إلیها رسول الله ﷺ ولکن تدخل في حدیث الباب أرض العراق أیضا، لأنها کانت في جهة المشرق من المدینة، وإن کانت مائلة إلی الشمال، ویؤیده ما سیأتي سالم بن عبد الله أنه أدخل أرض العراق في مصداق حدیث الباب۔

وقال الحافظ في الفتح الباري: فَأَخْبَرَ ﷺ أَنَّ الْفِتْنَةَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَةِ فَکَانَ کَمَا أَخْبَرَ وَأَوَّلُ الْفِتَنِ کَانَ مِنْ قِبَلِ الْـمَشْرِقِ فَکَانَ ذَلِکَ سَبَبًا لِلْفُرْقَةِ بَيْنَ الْـمُسْلِمِینَ وَذَلِکَ مِمَّا یُحِبُّهُ الشَّيْطَانُ وَیَفْرَحُ بِهٖ، وَکَذٰلِکَ الْبِدَعُ نَشَأَتْ مِنْ تِلْکَ الْـجِهَةِ۔

قوله: إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيئُ مِنْ هَاهُنَا: هذا یدل علی أن سالم بن عمر حمل جهة المشرق في حدیث الباب علی العراق.

 شبیر أحمد العثماني، فتح الملهم بشرح صحیح المسلم، 6: 161-163

آپ ﷺ کا فرمان ہے: فتنہ وہاں سے ظاہر ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔ امام سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ شیطان کے سینگ سے مراد اُس کا گروہ اور اس کے مددگار ہیں؛ یعنی وہاں سے شیطان کے مددگار نکلیں گے۔ اسی طرح ’مرقاۃ المفاتیح‘ میں ہے۔

علماء نے اس پر بحث کی ہے کہ مشرق کی سمت سے کیا مراد ہے۔ اُن میں سے اکثر نے کہا ہے کہ اس سے مراد نجد ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد عراق ہے۔ امام خطابی نے کہاہے کہ نجد مشرق کی سمت ہے۔ جو کوئی مدینہ منورہ میں ہوگا اُس کا نجد عراق کا دیہاتی اور نواحی علاقہ ہے۔ یہ اہل مدینہ کے مشرق کی سمت واقع ہے۔

لیکن راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد نجد ہے۔ اسی کے بارے میں ایک حدیث امام بخاری نے کتاب الفتن میں روایت کی ہے: ’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ ﷺ نے (پھر) دعا کی: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہیں سے نکلے گا۔‘

یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث اپنے حدیث الباب کی تفسیر ہے۔ اس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ نجد کی سرزمین فتنوں کی جگہ ہے، جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے۔ لیکن حدیث الباب میں سرزمین عراق کا معنی بھی شامل ہے کیونکہ یہ مدینہ منورہ کی مشرقی سمت ہے۔ اگرچہ وہ مائل بہ شمال ہے۔ اس کی تائید حضرت سالم بن عبد اللہ کی آئندہ ذکر کردہ حدیث بھی کرتی ہے جس میں اُنہوں نے سرزمین عراق کو حدیث الباب کا مصداق قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ خبر دی کہ فتنہ اُس سمت سے ظاہر ہوگا۔ جیسے آپ ﷺ نے خبر دی ویسے ہی ہوا۔ پہلا فتنہ جو ظہور پذیر ہوا اُس کا مرکز (مدینہ منورہ کا) مشرق تھا۔ یہی فتنہ مسلمانوں میں تفرقہ کا باعث بنا، جسے شیطان پسند کرتا ہے اور اس سے خوش ہوتا ہے، یوں اُسی سمت سے بدعات کی ابتداء بھی ہوئی۔

حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’فتنہ اُسی سمت سے ظہور پذیر ہوگا۔‘ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت سالم بن عمر نے حدیث الباب میں مذکور مشرقی سمت کو عراق پر محمول کیا ہے۔

12۔ علامہ صفی الرحمن مبارک پوری منۃ المنعم في شرح صحیح مسلم میں بیان کرتے ہیں:

الحدیث: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ، وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْـمَشْرِقِ، یَقُوْلُ: أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ۔ … أن المراد بالمشرق هنا العراق (من حیث یطلع قرن الشیطان)۔ المراد بطلوع قرن الشیطان ظهور فتنته الکبیرة، وقوة استیلائه بأنواع من الاغواء والتضلیل في أمور الدنیا والدین، واتباع الناس لهذه الفتن، وخوضهم فیها، وعدم تغلبهم علیها۔ وقد وقع في العراق کل من هذه الأمور بقدر یفوق الوصف، … ثم ظهرت الخوارج أیضًا من العراق، وقد کانت لهم جولة وصولة بالفتک والقتل والنهب والسلب وهتک الأعراض في ربوع العراق والشام، وفي کثیر من بلاد العالم الإسلامي، ولم تزل الفتن تتوالی في العراق حتی إلی زماننا هذا، وقد توالت فتنة الخوارج في العراق أیضًا مرة بعد أخری مما هو معلوم في التاریخ.

 صفی الرحمان مبارک پوری، منة المنعم في شرح صحیح مسلم، 4: 357

حدیث مبارکہ میں حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، جب کہ آپ ﷺ مشرق کی جانب چہرہ مبارک کر کے فرما رہے تھے: آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے۔ آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔ … یہاں مشرق سے مراد عراق کا علاقہ ہے کہ جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا۔ شیطان کا سینگ نکلنے سے مراد بہت بڑے فتنے کا ظہور ہے جو دنیاوی اور دینی اُمور میں گمراہی اور جہالت کی بنا پر غلبہ پا لے گا۔ لوگ ان فتنوں میں مبتلا ہو جائیں گے اور اس کی پیروی کریں گے، ان پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ عراق میں یہ تمام واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ … پھر خوارج (داعش) کا ظہور بھی عراق میں ہی ہوا۔ اُنہوں نے عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری، لوٹ مار اور عزتوں کی پامالی کا بازار گرم رکھا۔ یہ فتنے عراق میں تواتر کے ساتھ نمودار ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ ہمارے زمانے میں بھی ان کا ظہور ہوگا۔ اور یہ بات تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ خطۂ عراق میں فتنہ خوارج (، ISIS اور ان کے مماثل دہشت گرد گروہوں) کا ظہور یکے بعد دیگرے ہوتا رہے گا۔

سوال نمبر 18: کیا حضور ﷺ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ دہشت گرد عراق سے نکلیں گے؟

جواب:

جی ہاں! حضور نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ دہشت گرد عراق سے نکلیں گے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا:

أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا - یُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ - مِنْ حَيْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.

  • بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبة الیمن إلی إسماعیل، 3: 1293، رقم: 3320
  • مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حیث یطلع قرنا الشیطان، 4: 2229، رقم: 2905
  • أحمد بن حنبل، المسند، 2: 73، رقم: 5428
  • مالک، الموطأ، کتاب الاستئذان، باب ما جاء في المشرق، 2: 975، رقم: 1757

آگاہ ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے۔ - آپ ﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: - یہیں سے شیطان کا سینگ (یعنی شیطان کا گروہ) ظاہر ہوگا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی یہ پیش گوئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں حقیقت بن کر سامنے آئی جب خوارج کا پہلا گروہ عراق سے نکلا جو کہ مدینہ منورہ کا مشرقی علاقہ تھا۔ وہیں سے اُنہوں نے دہشت گردی کا قابل مذمت عمل شروع کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس سے بھی آگاہ کیا تھا کہ وہ ہر زمانے میں نکلتے رہیں گے۔

مذکورہ حدیث کی شرح میں ائمہ کرام نے لکھا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث میں لفظ ’مشرق‘ سے مراد خطۂ عراق ہے (جیسا کہ گزشتہ صفحات میںبالتفصیل تصریحات بیان کی گئی ہیں)۔

سوال نمبر 19: کیا کتبِ حدیث میں دہشت گرد گروہ داعش یا ان کے مماثل خوارج کی طرف سے پھیلائی جانے والی تباہی کا ذکر ملتا ہے؟

جواب:

جی ہاں! اسلامی لٹریچر میں انتہا پسند گروہ داعش کی طرف سے پھیلائی جانے والی تباہی کا ذکر ملتا ہے۔

امام نعیم بن حماد کی کتاب ’الفتن‘ میں اس کے بارے پیش گوئی ملتی ہے جو بالکل واضح ہے اور موجودہ دور میں ہم عراق اور شام میں وسیع تباہی و بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

1۔ حکم بن نافع ابو یمان حمصی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں جراح نے حدیث بیان کی، وہ ارطاۃ بن منذر سے، وہ تبیع سے اور وہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا:

لَیُوشِکَنَّ الْعِرَاقُ یُعْرَکُ عَرْکَ الْأَدِیمِ، وَیَشُقُّ الشَّامُ شَقَّ الشَّعْرِ، وَتُفَتُّ مِصْرُ فَتَّ الْبَعْرَةِ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 213، رقم: 585

عنقریب عراق شدید جنگ کا شکار ہوگا۔ شام خانہ جنگی کی وجہ سے تقسیم ہو جائے گا، جب کہ مصر (سیاسی کشمکش کی وجہ سے) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تَأتِيْکُمْ بَعْدِي أَرْبَعُ فِتَنٍ، الْأوْلٰی: یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ، وَالثَّانِیَةُ: یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ، وَالثَّالِثَةُ: یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ وَالْفُرُوْجُ، وَالرَّابِعَةُ: صَمَّاءُ عَمْیَاءُ مُطْبِقَةٌ، تَمُوْرُ مَوْرَ الْمَوْجِ فِي الْبَحْرِ، حَتّٰی لَا یَجِدَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ مِنْهَا مَلْجَأ، تُطِيْفُ بِالشَّامِ، وَتَغْشَی الْعِرَاقَ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 56، رقم: 89

میرے بعد تم چار فتنے حملہ آور ہوں گے۔ پہلا فتنہ جب ظاہر ہوگا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت) حلال کر دیا جائے گا۔ دوسرا فتنہ جب ظاہر ہوگا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت گری) اور مال (لوٹنے کو) حلال کر دیا جائے گا۔ تیسرا فتنہ جب ظاہر ہوگا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت)، مال (لوٹنا) اور عورتوں کی عزتیں پامال کرنا حلال کر دیا جائے گا۔ جب چوتھا فتنہ ظاہر ہو گا تو یہ ایسا بہرہ اور اندھا ہو گا کہ وہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ یہ ہمہ جہت ہو گا اور یہ ایسے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا جیسے سمندر کی موجیں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔

عصر حاضر میں دہشت گردوں کی تباہی اور خوف و ہراس بھی ہمہ گیر ہے۔ عرب اور غیر عرب سب اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

3۔ یحییٰ بن ابی عمرو السیبانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَرْبَعُ فِتَنٍ تَکُوْنُ بَعْدِي، الْأوْلٰی: تُسْفَکُ فِيْهَا الدِّمَاءُ، وَالثَّانِیَةُ: یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ، وَالثَّالِثَةُ: یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ وَالْفُرُوْجُ، وَالرَّابِعَةُ: عَمْیَاءُ صَمَّاءُ، تُعْرَکُ فِيْهَا أمَّتِي عَرْکَ الْأَدِيْمِ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 55، رقم: 88

میرے بعد چار فتنے ہوں گے۔ پہلے فتنہ میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت) حلال کر دیا جائے گا۔ دوسرے فتنہ میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت) اور مال (لوٹنا) حلال کر دیا جائے گا۔ تیسرے فتنہ میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت)، مال (لوٹنا) اور عورتوں کی عزتیں پامال کرنا حلال کر دیا جائے گا۔ چوتھا فتنہ تو بہرہ اور اندھا ہو گا جو میری پوری اُمت کو کچل کر رکھ دے گا۔

4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَرْبَعُ فِتَنٍ، تَأتِي الْفِتْنَةُ الْأوْلٰی، فَیُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ، وَالثَّانِیَةُ یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ، وَالثَّالِثَةُ یُسْتَحَلُّ فِيْهَا الدِّمَاءُ وَالْأَمْوَالُ وَالْفُرُوجُ، وَالرَّابِعَةُ عَمْیَاءُ مُظْلِمَةٌ، تَمُوْرُ مَوْرَ الْبَحْرِ، تَنْتَشِرُ حَتّٰی لَا یَبْقَی بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 56، رقم: 90

تم پر چار فتنے حملہ آور ہوں گے۔ پہلا فتنہ جب ظاہر ہو گا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت) حلال کر دیا جائے گا۔ دوسرا فتنہ جب ظاہر ہو گا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت) اور مال (لوٹنا) حلال کر دیا جائے گا۔ تیسرا فتنہ جب ظاہر ہو گا تو اُس میں بے گناہوں کا خون (قتل و غارت)، مال (لوٹنا) اور عورتوں کی عزتیں پامال کرنا حلال کر دیا جائے گا۔ جبکہ چوتھا فتنہ تو اندھا اور اندھیری رات جیسا ہو گا۔ یہ سمندر کی لہر کی طرح پھیلے گا۔ یہ ایسے پھیلے گا کہ عرب کے ہر گھر میں داخل ہو جائے گا۔

5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

اَلْفِتْنَةُ الرَّابِعَةُ عَمْیَاءُ مُظْلِمَةٌ تَمُوْرُ مَوْرَ الْبَحْرِ، لَا یَبْقٰی بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ إِلَّا مَلَأَتْهُ ذُلًّا وَخَوْفًا، تُطِيْفُ بِالشَّامِ، وَتَغْشٰی بِالْعِرَاقِ، وَتَخْبِطُ بِالْجَزِيْرَةِ بِیَدِهَا وَرِجْلِهَا، تُعْرَکُ الْأمَّةُ فِيْهَا عَرْکَ الْأَدِيْمِ، وَیَشْتَدُّ فِيْهَا الْبَلَاءُ حَتّٰی یُنْکَرَ فِيْهَا الْـمَعْرُوْفُ، وَیُعْرَفَ فِيْهَا الْـمُنْکَرُ، لَا یَسْتَطِيْعُ أَحَدٌ یَقُوْلُ: مَهْ مَهْ؛ وَلَا یَرْقَعُوْنَهَا مِنْ نَاحِیَةٍ إِلَّا تَفَتَّقَتْ مِنْ نَاحِیَةٍ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيْهَا مُؤْمِنًا وَیُمْسِي کَافِرًا، وَلَا یَنْجُوْ مِنْهَا إِلَّا مَنْ دَعَا کَدُعَاءِ الْغَرَقِ فِي الْبَحْرِ.

 نعیم بن حماد المروزي، کتاب الفتن، 1: 238-239، رقم: 676

چوتھا فتنہ تو اندھا اور اندھیری رات جیسا ہوگا۔ یہ سمندر کی لہر کی طرح ایسے پھیلے گا کہ عرب و عجم کا کوئی گھر نہیں بچے گا جو خوف اور ذلت میں مبتلا نہ ہو جائے۔ یہ شام کو باہر سے متاثر کرے گا اور عراق کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے گا۔ یہ جزیرۂ عرب کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے روند ڈالے گا۔ یہ پوری اُمت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس عرصے کے دوران مصائب اور آزمائشیں اتنی بڑھ جائیں گی کہ اچھائی کو بُرا سمجھا جائے گا اور برائی کو اچھا سمجھا جائے گا۔ کسی کو بھی اس میں مدد مانگنے کی مہلت نہیں ملے گی۔ ایک طرف سے اس فتنہ کو ختم کیا جائے گا تو پھر دوسری طرف سے ظاہر ہو جائے گا۔ اس میں ایک شخص صبح ایمان کی حالت میں ہو گا لیکن شام کو کفر اختیار کر لے گا۔ اس فتنہ سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا، سوائے اس شخص کے جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کو اس طرح مدد کے لیے پکارتا رہے جیسے سمندر میں ڈوبنے والا شخص مدد کے لیے پکارتا ہے۔

سوال نمبر 20: کیا داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد گروہ ایک ہی دفعہ ظاہر ہوں گے یا بار بار نکلتے رہیں گے؟

جواب:

داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد گروہ ہمیشہ اور ہر زمانے میں نکلتے رہیں گے۔ ان کا پہلا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ظاہر ہوا جبکہ ان کا آخری گروہ دجال کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ اگرچہ ان دہشت گرد گروہوں کے نام مختلف ہوں گے لیکن ان کا نظریہ اور مقصد ایک ہی ہو گا اور وہ فساد پیدا کریں گے اور اور قتل و غارت گری کریں گے۔

1۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

سَیَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَھُمْ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْھُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْھُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّھَا زِیَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْھُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی یَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِھِمْ.

  • أحمد بن حنبل، المسند، 2: 198، رقم: 6871
  • حاکم، المستدرک، 4: 533، رقم: 8497
  • نعیم بن حماد، الفتن، 2: 532
  • ابن راشد، الجامع، 11: 377
  • آجري، الشریعة: 113، رقم: 260

میری اُمت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا وہ (فوجی آپریشن کی صورت میں) ختم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا (ریاستی اِدارے) ان کا خاتمہ کر دیں گے۔ (یہ قُطِعَ کا معنی مرادی ہے۔ قطع کر دیے جانے کی معنوی مناسبت فوجی آپریشن کے ساتھ زیادہ بنتی ہے۔) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا اور فرمایا: ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جب بھی نکلے گا اسے کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل میں دجال نکلے گا۔

2۔ ایک اور روایت میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ دہشت گرد گروہ بیس بار نکلیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ، أَکْثَرَ مِنْ عِشْرِینَ مَرَّةً، حَتَّی یَخْرُجَ فِي عِرَاضِهِم الدَّجَّالُ.

 ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فی ذکر الخوارج، 1: 61، رقم: 174

گروہِ خوارج جب بھی ظاہر ہوگا اسے ختم کر دیا جائے گا۔ ایسا بیس سے زائد بار ہوگا، حتیٰ کہ (سب سے) آخری (گروہ) میں دجال ظاہر ہوگا۔

علامہ ابنِ تیمیہ نے بھی اسے بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

وهؤلاء الخوارج لیسوا ذلک المعسکر المخصوص المعروف في التاریخ، بل یخرجون إلی زمن الدجّال۔(1) وتخصیصه ﷺ للفئة التي خرجت في زمن علي بن أبي طالب، إنما هو لمعان قامت بهم، وکل من وجدت فیه تلک المعاني ألحق بهم، لأن التخصیص بالذکر لم یکن لاختصاصهم بالحکم، بل لحاجة المخاطبین في زمنه علیه الصلاة والسلام إلی تعیینهم۔(2)

  • (1) ابن تیمیه، مجموع فتاوٰی، 28: 495، 496
  • (2) ابن تیمیه، مجموع فتاوٰی، 28: 476، 477

اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میںمعروف ہے بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ کا اُس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی حاجت تھی۔

سوال نمبر 21: دہشت گرد گروہ داعش یا اس کے مماثل خوارج اور ان کے حواریوں کا آخری طبقہ کب ظاہر ہوگا؟

جواب:

دہشت گردوں کا آخری گروہ دجال کے زمانے میں ظاہر ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لَا یَزَالُوْنَ یَخْرُجُوْنَ حَتّٰی یَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.

  • أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421، رقم: 19798
  • نسائي، السنن، کتاب تحریم الدم، باب من شهر سیفه ثم وضعه في الناس، 7: 119، رقم: 4103
  • حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 160، رقم: 2647

خوارج کے یہ گروہ بغیر انقطاع کے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔

اِس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’خوارج کے یہ گروہ بغیر انقطاع کے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے۔‘ لہٰذا آپ ﷺ نے یہ فرما کر اس شک کو رفع کر دیا کہ یہ دہشت گرد ایک ہی دفعہ ظاہر ہوں گے۔

خلاصہ کلام

عہد حاضر میں داعش (ISIS) کا ظہور دراصل حضور نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں کی صداقت کی دلیل ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میںبالتفصیل بیان ہوچکا ہے۔ داعش نے بلا تمیز مذہب مسلمانوں اور غیر مسلموں کا بے رحمانہ قتل کیا ہے۔ انہوں نے صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا حالاں کہ حالتِ جنگ میں بھی اِن کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی خصوصی نبوی تعلیمات ہیں۔ اسلام انسانی حقوق کی فراہمی، اَمن و محبت، صلح و آشتی، رواداری، عدل و انصاف، تحمل و بردباری اور برداشت کے رویوں پر زور دیتا ہے، لیکن یہ دہشت گرد عناصر مکمل طور پر اِسلامی تعلیمات سے منحرف ہوکر لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے کھیل رہے ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved