سلسلہ تعلیمات اسلام 5: طہارت اور نماز (فضائل و مسائل)

غسل اور اسکے مسائل

سوال نمبر 38: غسل سے کیا مراد ہے؟

جواب: شریعت کی رو سے غسل سے مراد ’’پاک پانی کا تمام بدن پر خاص طریقے سے بہانا ہے۔‘‘ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُوْا.

المائدۃ، 5: 6

’’اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔‘‘

سوال نمبر 39: غسل کی کتنی اقسام ہیں؟

جواب: غسل کی تین اقسام ہیں:

1۔ غسلِ فرض

درج ذیل صورتوں میں غسل فرض ہوجاتا ہے:

  1. جنبی کے لیے۔
  2. عورت کا حیض و نفاس سے فارغ ہونے کے بعد۔
  3. شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا۔

2۔ غسلِ مسنون

درج ذیل امور کی ادائیگی کے لیے غسل کرنا سنت ہے:

1۔ جمعہ کی نماز کے لیے۔

حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

اَلْغُسْلُ یَوْمَ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُحْتَلِمٍ.

بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب الطیب للجمعۃ، 1: 300، رقم: 840

’’ہر بالغ پر جمعہ کا غسل لازم ہے۔‘‘

2۔ عیدین کی نماز کے لیے۔

ابن ابی شیبۃ، المصنف، 1: 500، رقم: 5771

3۔ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے۔

ترمذی، الجامع، أبواب الحج، باب ماجاء في الاغتسال عند الإِحرام، 2:181، رقم: 830

4۔ حج کرنے والوں کے لیے میدان عرفات میں زوال کے بعد۔

ابن ابی شیبۃ، المصنف، 2: 68

3۔ غسلِ مستحب

درج ذیل امور کے لیے غسل کرنا مستحب ہے:

  1. جو آدمی پاکیزگی کی حالت میں مسلمان ہوا ہو۔
  2. جو بچہ عمر کے اعتبار سے بالغ ہو۔
  3. جو شخص جنون کے عارضہ سے صحت یاب ہوا ہو۔
  4. نشتر لگوانے یعنی جسم سے گندہ خون نکلوانے کے بعد۔
  5. میت کو غسل دینے کے بعد۔
  6. شبِ برات میں عبادت کے لیے۔
  7. لیلۃ القدر میں بطورِ خاص عبادت کے لیے۔
  8. مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے۔
  9. مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کے لیے۔
  10. قربانی کے دن مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے۔
  11. طوافِ زیارت کے لیے۔
  12. سورج گرہن کی نماز کے لیے۔
  13. نمازِ اِستقاء کے لیے۔
  14. خوف کے وقت۔
  15. دن میں سخت اندھیرے کے وقت۔
  16. تیز آندھی کے وقت۔

سوال نمبر 40: غسل کے فرض ہونے کی کیا صورت ہے؟

جواب: غسل کے فرض ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:

  1. منی شہوت کی وجہ سے نکل جائے تو غسل فرض ہے اور اگر محنت و مشقت کی وجہ سے نکلے تو غسل لازم نہیں البتہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
  2. اگر پتلی منی پیشاب کے ساتھ بغیر شہوت کے نکلی تو غسل فرض نہیں۔
  3. سو کر اٹھنے کے بعد کپڑوں پر کچھ نشانات پائے گئے تو اس پر غسل کی چند صورتیں ہیں:

(1) اگر اس کے ودی یا مذی دونوں میں سے ایک کے ہونے کا یقین یا اِحتمال ہو تو غسل واجب نہیں۔

(2) اگر یقین ہے کہ منی یا مذی نہیں کچھ اور ہے تو غسل واجب نہیں۔

(3) اگر منی ہونے کا یقین ہے مگر مذی کا شک ہے اور اگر خواب میں احتلام ہونا یاد نہیں تو غسل ضروری نہیں ورنہ ہے۔

  1. مجامعت سے مرد اور عورت پر غسل فرض ہو جاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
  2. عورت حیض سے فارغ ہو تو اس پر غسل فرض ہے۔
  3. عورت نفاس سے فارغ ہو تو اس پر غسل فرض ہے۔

سوال نمبر 41: غسل کا مسنون اور مستحب طریقہ کیا ہے؟

جواب: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے۔ پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔

مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، 1: 253، رقم: 316

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے:

  1. نیت کرے۔
  2. بسم اللہ سے ابتداء کرے۔
  3. دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔
  4. اگر بدن پر نجاست لگی ہو تو اسے دھوئے۔
  5. استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
  6. پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔
  7. تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
  8. پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔
  9. اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
  10. پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
  11. وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔

سوال نمبر 42: تالاب یا نہر میں غسل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: تالاب یا نہر میں غسل کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:

آپ دریا یا نہر میں نہائیں تو پہلے کلی کریں پھر ناک میں پانی ڈال کر خوب صاف کریں اور تھوڑی دیر اس میں ٹھہرنے سے غسل کی سب سنتیں ادا ہو جائیں گی۔ اور اگر تالاب اور حوض یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائیں تو بدن کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے غسل ہو جائے گا۔

سوال نمبر 43: کیا شاور کے ذریعے غسل کرنے سے اس کے واجبات ادا ہو جاتے ہیں؟

جواب: غسل کے فرائض تین ہیں:

وفرض الغسل: المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن.

فتح القدیر، فصل فی الغسل، 1 :50

’’غسل کے فرائض یہ ہیں:

  1. کلی کرنا
  2. ناک میں پانی ڈالنا
  3. پورے بدن پر پانی بہانا۔‘‘

شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کر لی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈال لیا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔ غسلِ واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے جیسا کہ ’نور الایضاح (ص: 23)‘ میں ہے:

وغسل نجاسة لوکانت بانفرادها.

’’اگر جسم پر نجاست ہو تو اُسے الگ سے دھوئے۔‘‘

سوال نمبر 44: سر کے بال اگر گوندھے ہوئے ہوں تو کیا غسل میں ہر بال کی جڑ سے نوک تک پانی پہنچانا ضروری ہے؟

جواب: اگر غسل کرنے والی عورت کے سر کی جڑوں تک پانی بالوں کو کھولے بغیر پہنچ جائے تو اس کے لیے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:

’’حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! میں اپنے سر پر بہت کس کر مینڈھیاں باندھتی ہوں کیا میں غسل جنابت کے لیے انہیں کھول لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تمہارے لیے سر پر صرف تین چلو پانی بہا لینا کافی ہے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہا لو تو تم پاک ہو جاؤ گی۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، 1:259، رقم: 330

جمہور فقہاء کے نزدیک اگر گوندھے ہوئے بالوں تک پانی نہ پہنچے تو پھر بالوں کا کھولنا واجب ہے۔

سوال نمبر 45: کیا غسل کے دوران قرآنی آیات اور مختلف دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے؟

جواب: غسل کرتے ہوئے انسان بالعموم ننگا ہوتا ہے اس لیے اس دوران قرآنی آیات یا دیگر کوئی دعا وغیرہ پڑھنا جائز نہیں یہاں تک کہ کوئی دنیوی کلام کرنا بھی منع ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں:

ویستحب أن لا یتکلم بکلام معه ولو دعاء، لأنه فی مصب الاقذار، ویکره مع کشف العورة.

طحطاوی، مراقی الفلاح: 57

’’مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے والا کسی قسم کا کوئی کلام نہ کرے اگرچہ وہ دعا ہی ہو اس لیے کہ وہ گندگی کی جگہ پر ہے۔ بے پردگی کی حالت میں (کوئی کلام کرنا یا دعا پڑھنا) مکروہ ہے۔‘‘

سوال نمبر 46: جنبی کے بارے میں شریعت کے کیا احکامات ہیں؟

جواب: جنبی (حالتِ جنابت میں مبتلا شخص) کے بارے میں شریعت کے احکامات درج ذیل ہیں:

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

لَا تَقْرَإ الْحَائِضُ، وَلَا الجُنُبُ شَیْئًا مِّنَ الْقُرْآنِ.

ترمذی، السنن، أبواب الطھارۃ، باب ماجاء فی الجنب والحائض أنھما لا یقران القران، 1:174، رقم: 131

’’جنبی اور حائضہ قرآن مجید سے کچھ نہ پڑھے (نہ تھوڑا نہ بہت)۔‘‘

  1. کوئی ایسا شرعی کام جو بغیر وضو کے نہیں کیا جاسکتا حالتِ جنابت میں اس کا کرنا حرام ہے جیسا کہ ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا حرام ہے خواہ نفل نماز ہو یا فرض۔
  2. جس گھر میں جنبی ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، لہٰذا جلد اَز جلد پاکیزگی حاصل کرنی چاہیے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لَا تَدْخُلُ الْمَلآئِکَةُ بَیْتًا فِیْهِ صُوْرَةٌ وَلَا کَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ.

ابوداؤد، السنن، کتاب اللباس، باب في الصور: 4:43، رقم: 4152

’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر یا کتا یا جنبی ہو۔‘‘

  1. جنبی کے لیے قرآن حکیم کو پڑھنا اور چھونا حرام ہے۔
  2. جنبی کے لیے ایسی انگوٹھی اور لاکٹ (ہار) کو جس پر قرآنی آیت یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں پہننا حرام ہے۔
  3. جنبی کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔

ا م ا لمؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

وَجِّهُوْا هَذِهِ الْبُیُوْتَ عَنِ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ.

ابوداؤد، السنن، کتاب الطہارۃ، باب فی الجنب یدخل المسجد، 1:98، رقم: 232

’’تم مسجد کی طرف سے گھروں کے دروازے بند کر دو کیونکہ میں حائض اور جنبی کے مسجد میں داخل ہونے کو حلال نہیں کروں گا۔‘‘

  1. جنبی کا دینی کتابوں کو طہارت کے بغیر ہاتھ لگانا اور پکڑنا حرام ہے۔
  2. جنبی نماز نہیں پڑھ سکتا، البتہ روزہ رکھ سکتا ہے؛ جب کہ حائضہ اور نفاسہ عورت نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔

سوال نمبر 47: جُنب اور جنابت میں کیا فرق ہے؟

جواب: جس شخص پر نہانا فرض ہو اسے جُنب یا جُنبی کہتے ہیں اور جن اسباب کی وجہ نہانا فرض ہو اسے جنابت کہتے ہیں۔

سوال نمبر 48: حیض و نفاس کی مدت کیا ہے؟

جواب: حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں جبکہ نفاس کی کم از کم مدت کوئی نہیں اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے۔

ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الطھارۃ، باب ماجاء في کم تَمکثُ النُّفَسائ؟، 1:182، رقم: 139

سوال نمبر 49: حائضہ عورت کا لباس پاک ہوتا ہے یا ناپاک؟

جواب: ایامِ حیض میں عورت کے ہاتھ، پاؤں، منہ اور پہنے ہوئے کپڑے پاک ہوتے ہیں بشرطیکہ خشک ہوں۔ البتہ جس جگہ، بدن یا کپڑے پر خون لگ جائے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ دوسری عورتوں کا، اس کی اولاد کا، اس کے محرموں کا اٹھنا بیٹھنا منع نہیں یہ یہودیوں اور ہندوؤں میں دستور ہے کہ حیض والی عورت کو اچھوت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ وہ کسی برتن کو ہاتھ لگائے نہ وہ کسی کپڑے کو چھوئے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔

حضرت فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا سے حدیث مبارکہ مروی ہے:

عَنْ أَسْمَآءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ إنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ رَّسُوْلَ اللهِﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، اَرَاَیْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الْحَیْضَةِ کَیْفَ تَصْنَعُ؟ قَالَ: إِذَا أَصَابَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحَیْضِ فَلْتَقْرِصْہٗ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ لِتُصَلِّ.

ابوداؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب المراۃ تغسل ثوبھا الذی تلبسہ فی حیضھا، 1:150، رقم: 361

’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک عورت حضور نبی اکرمﷺ سے عرض گذار ہوئیں: یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا: جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دے پھر اسے پانی سے دھو دے اور پھر نماز پڑھ لے۔‘‘

امام ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں:

’’حیض والی عورت کا کھانا پکانا، اس کے چھوئے ہوئے آٹے اور پانی وغیرہ کو استعمال کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بستر کو علیحدہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ یہودیوں کے فعل کے مشابہ ہے، حیض والی عورت کو علیحدہ کر دینا کہ جہاں وہ ہو وہاں کوئی نہ جائے، ایسا کرنا درست نہیں۔‘‘

شامی، رد المحتار علی در المختار، 1: 194

سوال نمبر 50: اگر کوئی عورت معلمہ ہو تو بحالتِ حیض و نفاس کس طرح قرآن حکیم کی تعلیم دے؟

جواب: بحالتِ حیض و نفاس عورت قرآن حکیم کا ایک ایک کلمہ سکھائے اور کلموں کے درمیان وقفہ کرے۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا جائز ہے۔

سوال نمبر 51: کیا عورت حالت حیض میں مہندی لگا سکتی ہے؟

جواب: جی ہاں! عورت حالت حیض میں مہندی لگا سکتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ مُعَاذَةَ أَنَّ اِمْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: تَخْتَضِبُ الْحَائِضُ؟ فَقَالَتْ: قَد کُنَّا عِندَ النَّبِیِّ ﷺ وَنَحْنُ نَخْتَضِبُ فَلَمْ یَکُن یَنْهَانَا عَنْه.

ابن ماجہ، السنن، کتاب الطہارۃ وسننھا، باب الحائض تختضب، 1: 357، رقم: 656

’’حضرت معاذہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں مہندی لگاتیں تھیں، آپ ہمیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔‘‘

سوال نمبر 52: اِستحاضہ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا اَحکامات ہیں؟

جواب: اگر کسی عورت کو تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آئے تو اسے اِستحاضہ کہتے ہیں۔ اِسی طرح نفاس میں چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو اسے بھی اِستحاضہ کہتے ہیں۔ اور اگر کسی عورت کو اپنی عادت سے زیادہ دن خون آئے تو یہ بھی اِستحاضہ ہے؛ مثلاً کسی عورت کو پانچ دن خون آتا ہے اور پانچ دن اُس کی عادت بن گئی ہے، اب اگر اسے کسی وقت دس دن خون آیا تو پانچ دن حیض کے ہوں گے اور پانچ دن اِستحاضہ کے ہوں گے۔

اِستحاضہ کے اَحکام درج ذیل ہیں:

  1. اِستحاضہ میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے مگر ہر نماز کے لیے الگ وضو کرے گی؛ جب کہ حالتِ حیض و نفاس میں عورت نماز ادا نہیں کر سکتی اور نہ ہی بعد میں اُس پر قضا لازم ہے۔
  2. حالتِ اِستحاضہ میں عورت روزہ رکھ سکتی ہے؛ جب کہ حالتِ حیض و نفاس میں عورت روزہ نہیں رکھے گی لیکن بعد میں روزوں کی قضا کرے گی۔
  3. حالتِ اِستحاضہ میں عورت تمام اَحکام ادا کرسکتی ہے بخلاف حیض و نفاس کے۔

سوال نمبر 53 :میت کو غسل دینے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیري کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما یستحب ان یغسل وتراً، 1: 423، رقم:1196

میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں۔ پھر اس پر میت کو لٹاکر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے، پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پہ کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے لیکن میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اورناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے وضو کی ابتدا زندوں کے لیے ہے۔ چونکہ میت کو دوسرا شخص غسل کراتا ہے، اس لیے کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ناک کو صاف کیا جائے پھر سر اور داڑھی کے بال ہو تو پاک صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں طرف سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر بائیں طرف اسی طرح پانی بہائیں۔ اگر بیری کے پتوں کا اُبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ خارج ہو تو دھو ڈالیں۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔ اس طرح کرنے سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اس کے بعد اگر دو غسل اور دیئے تو سنت ادا ہوجائے گی ان کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو دوسری بار بائیں کروٹ لٹایا جائے اور پھر دائیں پہلو پر تین بار اسی طرح پانی ڈالا جائے جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ پھر نہلانے والے کو چاہیے کہ میت کو بٹھائے اور اس کو اپنے سہارے پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے۔ اگر کچھ خارج ہو تو اس کو دھو ڈالے یہ دوسرا غسل ہوگیا۔ اسی طرح میت کو تیسری بار غسل دیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی۔

ابتدائی دو غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے / صابن کے ساتھدیئے جائیں۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کرلیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved