خدمت دین کی اہمیت و فضیلت

احیاء و تجدید دین کے لیے انتہائی جدوجہد کرنے کی فضیلت

فَضْلُ بَذْلِ الْجُهْدِ لِتَجْدِيْدِ الدِّيْنِ وَإِحْيَائِهِ

{اِحیاء و تجدیدِ دین کے لیے انتہائی جد و جہد کرنے کی فضیلت}

اَ لْآيَاتُ الْقُرْآنِيَةُ

(1) وَ اِذَا جَآءَ هُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهِ ط وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهُ مِنْهُمْ ط وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَتُهُ لَا تَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلاًo

(النساء، 4/ 83)

اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو یقینا چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔

(2) وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَآفَّةً ط فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَo

(التوبة، 9/ 122)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔

(3) وَجَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً يَهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَآءَ الزَّکٰوةِ ج وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَo

(الأنبياء، 21/ 73)

اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔

(4) اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ ِللهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo

(الحج، 22/ 41)

(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

(5) وَجَاهِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ ط هُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ط مِلَّةَ اَبِيْکُمْ اِبْرٰهِيْمَ ط هُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا لِيَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللهِ ط هُوَ مَوْلٰـکُمْ ج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُo

(الحج، 22/ 78)

اور (قیامِ اَمن اور تکریمِ اِنسانیت کے لیے ) اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا دین ہے۔ اس (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لیے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اللہ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مدد گار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مدد گار ہے۔

(6) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ط وَاِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo

(العنکبوت، 29/ 69)

اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔

(7) يٰٓااَيُهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo وَ ثِيَابَکَ فَطَهِرْo

(المدثر، 74/ 1-4)

اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَةُ

36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، فِيْمَا أَعْلَمُ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اللهَ عزوجل يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

رَوَاهُ أَبُودَاؤدَ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

36: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب ما يذکر في قدر قرن المائة، 4/ 109، الرقم/ 4291، والحاکم في المستدرک، 4/ 567، 568، الرقم/ 8592، 8593، والطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 223، الرقم/ 6527، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 148، الرقم/ 532، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2/ 61، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 51/ 338، 341.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اُس (علم و معرفت) میں سے جس کی انہوں نے رسول اللہ سے تعلیم پائی، روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لیے ہر صدی کے آغاز میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (اُمت) کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

اس حدیث کو امام ابو داؤد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَعِيْدٍ الْفَرْيَابِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رضي الله عنه : إِنَّ اللهَ يُقَيِّضُ لِلنَّاسِ فِيکُلِّ رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُعَلِّمُهُمُ السُّنَنَ وَيَنْفِي عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْکَذِبَ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَذَکَرَهُ الذَّهَبِيُّ وَالْمِزِّيُّ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ.

أخرجه الخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 2/ 62، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 51/ 338، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 10/ 46، والمزي في تهذيب الکمال، 24/ 365، والعسقلاني في تہذيب التهذيب، 9/ 25.

ایک روایت میں حضرت ابو سعید فریابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آغاز پر لوگوں کے لئے ایک ایسے شخص کو مامور فرماتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹ کی نفی کرتا ہے۔

اس قول کو خطیب بغدادی اور ابنِ عساکر نے روایت کیا ہے جبکہ امام ذہبی، مزی اور ابنِ حجر عسقلانی نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ يُحْیِي بِهِ الْإِسْلَامَ لَمْ يَکُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الأَنْبِيَاءِ إِلَّا دَرَجَةٌ.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.

أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 46.

ایک روایت میں حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام کو زندہ کرنے کے لئے علم سیکھا، اُس کے اور انبیاء کے درمیان سوائے ایک درجے کے کوئی فرق نہیں ہوگا۔

اس حدیث کو ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔

37. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لِبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ: اِعْلَمْ. قَالَ: مَا أَعْلَمُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: اِعْلَمْ، يَا بِلَالُ. قَالَ: مَا أَعْلَمُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيْتَتْ بَعْدِي؛ فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا تُرْضِي اللهَ وَرَسُوْلَهُ؛ کَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

37: أخرجه الترمذی في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5/ 45، الرقم/ 2677، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من أحيا سنة قد أميتت، 1/ 76، الرقم/ 209، والبزار في المسند، 8/ 314.315، الرقم/ 3385، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 120، الرقم/ 289، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 344، الرقم/ 2442.

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن الحارث سے فرمایا: جان لے۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کیا جان لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! جان لے۔ اس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کیا جان لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو مٹ چکی تھی تو اُس کو بعد ازاں اُس پر عمل کرنے والے ہر شخص کی مثل اجر ملے گا، جبکہ اُن (عمل پیرا ہونے والوں) کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ (اسی طرح) جس کسی نے بدعت ضلالہ (یعنی گمراہی کی طرف لے جانے والی نئی چیز) نکالی جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا حاصل نہیں ہوتی تو اُس کو اُس پر اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اُس برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو ہو گا، جبکہ ان لوگوں کے (گناہوں کے) بوجھ میںبھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

38. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائَنَا. قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا خُلَفَاؤُکُمْ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يَأْتُوْنَ مِنْ بَعْدِي يَرْوُوْنَ أَحَادِيْثِي وَسُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

38: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 77، الرقم/ 5846، والديلمي عن علي ابن أبي طالب رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1/ 479، الرقم/ 1960، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 62، الرقم/ 154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، والطبري في رياض النضرة، 1/ 261، الرقم/ 106، والمناوي في فيض القدير، 2/ 149، والسيوطي في تدريب الراوي، 2/ 126.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (یہ دعا کرتے ہوئے) سنا: اے اللہ! ہمارے خلفاء پر رحم فرما۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے، میری احادیث اور سنت بیان کریں گے اور لوگوں کو سکھلائیں گے۔

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: لَا نَبِيَّ بَعْدِي. قَالُوْا: فَمَا يَکُوْنُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: يَکُوْنُ خُلَفَاءُ بَعْضُهُمْ عَلٰی أَثْرِ بَعْضٍ. فَمَنِ اسْتَقَامَ مِنْهُمْ فَفُوْا لَهُمْ بَيْعَتَهُمْ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَقِمْ فَأَدُّوْا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ وَسَلُوا اللهَ الَّذِي لَکُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ رَاهَوَيْهِ.

أخرجه ابن راهويه في المسند، 1/ 257، الرقم/ 223.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: تو پھر کون ہو گا، یا رسول اللہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خلفاء ہوں گے اور پھر ان کے خلفاء ہوں گے۔ اُن میں سے جو سیدھے راستہ پر ہوں اُن کے ساتھ بیعت (عہدِ وفا) نبھاؤ اور جو سیدھی راہ پر نہ رہیں انہیں ان کا حق دے دو اور اپنا حق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔

اِس حدیث کو ابنِ راہویہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : رَحْمَةُ اللهِ عَلَی خُلَفَائِي، ثلَاَثَ مَرَّاتٍ. قَالُوْا: وَمَنْ خُلَفَاؤُکَ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يُحْيُوْنَ سُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ.

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

(1) أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 46، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 51/ 61، والرامهرمزي في المحدث الفاضل، 1/ 163، وذکره الزيلعي في نصب الراية، 1/ 348، والهندي في کنز العمال، 10/ 229، الرقم/ 29209.

ایک روایت میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے تین مرتبہ دعا فرمائی: میرے خلفاء پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون لوگ ہیں؟ فرمایا: وہ جو میری سنت کو زندہ کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔

اس حدیث کو امام ابنِ عبد البر اور ابنِ عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved