مذہبی و غیر مذہبی علوم کے اصلاح طلب پہلو

پیش لفظ

پیش لفظ

دورِ زوال سے قبل اِسلام کی تاریخ میں ایک ہی نظامِ تعلیم رائج تھا جس میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں علوم پڑھائے جاتے تھے۔ دینی مدارس میں غیر مذہبی علوم بھی درسِ نظامی کا حصہ تھے۔ مذہبی علوم میں تفسیر و اُصولِ تفسیر، حدیث، فقہ، اُصولِ حدیث، اُصولِ فقہ، علم الکلام و علومِ معانی شامل تھے اور غیر مذہبی علوم میں طب، ہندسہ، ریاضی، جیومیٹری، جغرافیہ، ہیئت، منطق اور فلکیات شامل تھے۔ موازنہ کیا جائے تو یہ دونوں الگ الگ میادینِ علم تھے لیکن ایک ساتھ چلتے تھے اور یہ سارا دینی نصاب کہلاتا تھا کیوں کہ اس دور میں علماء کے ذہن میں مذہبی و غیر مذہبی علوم کا جداگانہ تصور کوئی نہ تھا۔ مگر شومئی قسمت کہ بعد میں سائنس اور انگریزی تعلیم کو مذہبی تعلیم سے علیحدہ تصور کیا جانے لگا اور انہیں حاصل کرنے والے کو کافر کہا جانے لگا اور یہ تصور کیا جانے لگا کہ شاید ان علوم کو حاصل کرنے والے کا مذہبی علوم اور دین کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں۔

یہ اَمر واقع ہے کہ دورِ اُولی میں فارابی، ابن سینا جیسے لوگ پیدا ہوئے جو بہ یک وقت بہت بڑے محقق اور سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم عالمِ دین بھی تھے۔ عالمِ دین ہوتے ہوئے بھی اُن کی سائنس کے علوم میں اتنی زیادہ دست رَس تھی کہ آج کی سائنس بھی اُن سے مستفیض ہو رہی ہے۔ اُس دور کے علما کے لیے ضروری تھا کہ سائنس کو ساتھ لے کر چلیں۔ اگر وہ مکمل سائنس نہ پڑھتے تو مکمل عالمِ دین نہ بنتے بلکہ ان سائنسی علوم کے بغیر کوئی عالمِ دین ہی نہیں کہلاتا تھا۔ آج سے اڑھائی تین سو سال قبل جب جدید علوم (modern sciences) یعنی فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی وغیرہ کا وجود نہ تھا تو ان کی جگہ فلسفہ، منطق، طب، فلکیات وغیرہ داخلِ نصاب تھے۔ بعد میں مضامین وُسعت پذیر ہونے کی وجہ سے طبیعات، کیمیا، حیاتیات وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہو گئے مگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں ڈھلتے ہی یہ علوم دینی و مذہبی ذہن کے لیے اَجنبی بن گئے اور دائرہ دین سے خارج متصوّر ہونے لگے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج کے بدلے دور کے تقاضوں کے تحت صرف قرآن حکیم کا دیا ہوا تعلیمی و تربیتی منہاج ہی ہمیں زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے اُٹھا کر اس منصبِ جلیلہ پر فائز کر سکتا ہے کہ ہم ایک طرف اپنے ملی و قومی وجود کو حیاتِ تازہ عطا کریں تو دوسری طرف اَغیار کے تعلیمی و تربیتی فکر کے سرابی محلات کو مسمار کر دیں۔

زیرِ نظر کتابچہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی نے مذہبی اور غیر مذہبی علوم کے وہ اِصلاح طلب پہلو بیان کیے ہیں جو ان علوم کے مابین کھینچی گئی حدِ فاصل کو ختم کر کے انہیں پھر سے یک جا کر سکتے ہیں اور جن کی باہمی درس و تدریس سے اُمتِ مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتی ہے۔

محمد فاروق رانا
ڈپٹی ڈائریکٹر فرید ملّت رح رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
6 ستمبر، 2007

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved