تعلیماتِ اِسلام سیریز 11: بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار

عصری تعلیم و تربیت

سوال 126: بچوں کی ابتدائی تعلیم کس زبان میں ہونی چاہیے؟

جواب: بچوں کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے کیونکہ یہ بچے کے ذہن، فہم، حافظے کی استعداد اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ زبان کے اثرات بچے پر کسی بھی بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ بچہ جب اسکول جانا شروع کرتا ہے تو وہ ذہنی و جسمانی اور جذباتی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔ اس عمر میں فطری استعداد کے مطابق سیکھنے کی مکمل آزادی دینی چاہیے تاکہ بچہ دباؤ کا شکار نہ ہو، لیکن اگر والدین اپنے بچوں کے ذہن، سمجھ، عقل و حافظے کی استعداد اور فطرت کے خلاف تعلیم دلوانے کی کوشش بھی کر لیں تو اُس کے نتیجے میں سیکھنے کا عمل جبری ہو گا۔ یہ آگے چل کر اُن کے اسکول سے بھاگنے کا محرک بھی بن سکتا ہے۔

سوال 127: بچے کو کس عمر میں عصری تعلیم دی جائے؟

جواب: بچے کی عصری تعلیم کا آغاز اس کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کو مدنظر رکھ کر اڑھائی سے تین سال کی عمر میں ہو جانا چاہیے، کیونکہ اس عمر میں بچے کا ذہن سیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہو چکا ہوتا ہے۔ کھیل ہی کھیل میںتعلیم کے آغاز سے اس کا علمی شعور بیدار ہوتا ہے۔

سوال 128: بچوں کو سبق کیسے یاد کروایا جائے؟

جواب: بچوں کو درج ذیل تجاویز پر عمل کر کے سبق یاد کروایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے حافظہ کی کمزوری بھی دور ہوجاتی ہے اور ان کی ذہنی نشو و نما میں بھی مدد ملتی ہے۔

1۔ بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا ہے۔ دلچسپ انداز اور کہانی کی صورت میں بچے کو سبق اچھی طرح یاد کروایا جا سکتا ہے۔

2۔ بچے کو وقفے وقفے سے سبق یاد کروایا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بچے کو ایک نظم ایک وقت میں دس بار پڑھائی جائے اور یہ خیال ہو کہ اسی وقت بچہ نظم یاد کرلے تو اس سے مایوسی ہوگی۔ اس کی بجائے بہتر ہے کہ بچے کو جب وہ تازہ دم ہو تو وقفے وقفے سے پڑھائی جائے۔ اس طرح بچے کو وہی نظم بغیر کسی مشکل کے یاد ہو جائے گی۔

3۔ بچے کو اگر کوئی بات ایک یا دو مرتبہ بھول جائے تو اسے کند ذہن یا نالائق کہہ کر اُس کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی نہ کی جائے، بلکہ اس وقت مختلف انداز سے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بچے کی یادداشت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہر بچہ ہر مضمون میں اول نہیں آ سکتا۔ کمزور یادداشت والے بچوں کو یہ باور نہ کروایا جائے کہ وہ خاص شفقت اور توجہ کے محتاج ہیں۔ محض بھول جانے کی عادت یا کمزوری کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی سختی کرنے یا اُنہیں برا بھلا کہنے سے ان پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

4۔ بچے پر کام کا حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ تھکاوٹ عارضی طور پر بچے کی یادداشت اور اعصاب پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اگر بچے کو آرام، کھیل کود اور تفریح کے لیے مناسب وقت فراہم کیا جائے تو بعد میں بچہ آسانی سے سبق یاد کر سکتا ہے۔

5۔ بچے کی رات کی نیند ضرور پوری ہونی چاہیے۔ جو بچہ شام کے وقت کوئی چیز یاد نہیں کرسکتا جب رات کی پرسکون نیند کے بعد صبح تازہ دم اُٹھے گا تو وہی چیز اُسے با آسانی یاد ہو جائے گی۔

6۔ سبق یاد کرنے کے لیے بچے کا صحت مند ہونا ضروری ہے، اس لیے بچے کو سادہ، زود ہضم اور قوت بخش غذا دینی چاہیے۔ بچے کو ایسی چیزیں کھانے پر مجبور نہ کیا جائے جن کو وہ پسند نہیں کرتا۔ ہر وقت یا بار بار بچہ اگر کچھ کھاتا پیتا رہے تو اس سے بھی اس کے معدہ اور صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا بچے کے کھانے کے اوقات میں اتنا وقفہ ضرور ہونا چاہیے کہ پہلی غذا ہضم ہوجائے، ورنہ وہ بچہ غبی اور کند ذہن ہو جائے گا۔

7۔ بعض اوقات اولاد کی بیماریوں سے والدین کی غفلت بھی بچوں کی یادداشت پر اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا بچوں کا علاج کسی اچھے ڈاکٹر سے بروقت کروانا چاہیے۔ اس طرح بچے کا مرض دور ہوتے ہی، اس کی یادداشت کی قوت بحال ہو جاتی ہے۔

سوال 129: نصاب سے کیا مراد ہے؟

جواب: نصاب سے مراد وہ تمام مواد ہے جو کتابوں اور ورک بک کی صورت میں کسی بھی سکول میں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ علم جو کسی نہ کسی صورت میں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا جائے۔ پوری دنیا میں نصابِ تعلیم ہر ملک کی روایات، مذہب، معاشرت اور طرزِ بود و باش کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کا خاص طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ نصاب کا کوئی بھی حصہ مذہب یا روایات کے منافی یا متصادم نہ ہو۔ ایک معیاری نصاب تعلیم نہ صرف کسی قوم کا ورثہ نسل در نسل منتقلی کا ذریعہ ہے جبکہ دوسرے لفظوں میں اِسے قوم کی اساس بھی کہا جا سکتا ہے۔

سوال 130: کیا ہمارا نصاب تعلیم بچوں کی ذہنی استطاعت کے عین مطابق ہے؟

جواب: جی نہیں، ہمارا نصاب تعلیم بچوں کی ذہنی سطح کے عین مطابق نہیں ہے۔ یہ مختلف جہات میں بٹا ہوا ہے اور آئے دن تجربات کی زد پر رہتا ہے۔ سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب ہر سال تبدیل ہوتا ہے اور اس کا معیار بلند ہونے کی بجائے، اساتذہ اور طلباء کی مشکلات میں نہ صرف اضافہ کرتا ہے بلکہ مستزاد یہ کہ مددگار کتب کے نام پر طلبہ و طالبات کو مہنگی کتب خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو ہر ایک طالبِ علم کے بساط کی بات نہیں۔ موجودہ نصاب تعلیم قومی اور بین الاقوامی تقاضوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملکی ماہرینِ تعلیم نصاب کا تنقیدی و تقابلی جائزہ لے کر بچوں کی ذہنی سطح اور عمر کی استعداد کے مطابق نصابِ تعلیم مرتب کریں۔ طریقۂ تدریس میں بھی اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ ابلاغ آسان فہم ہو اور بچوں کے لیے دل چسپی پیدا ہو۔

سوال 131: کیا ہمارے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے؟

جواب: جی نہیں! ہمارے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج نہیں ہے بلکہ اس وقت وطنِ عزیز میں بیک وقت کئی نصاب تعلیم رائج ہیں۔ زیادہ تر سکولوں میں چار طرح کے نصاب پڑھائے جارہے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1۔ مخلوط نصاب تعلیم

مغربی طرز کا یہ نصاب زیادہ تر پرائیویٹ سکولوں میں رائج ہے۔ اس میں زیادہ حصہ انگلش کتب پر مبنی ہے جس میں انگریزی ادب نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طرز کے نصاب میں ایک مضمون اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور اردو کا رکھا گیا ہے۔ ان مضامین میں بھی اسلامیات اور مطالعہ پاکستان انگلش زبان میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اس نصاب میں ہر سکول مختلف ناشران کی شائع کردہ کتب پڑھا رہا ہے۔ ان کتب کے پڑھائے جانے کا معیار ان میں معیاری علمی مواد ہونے کی بجائے سکول مالکان کی پسند و ناپسند ہے۔ تقریباً ہر سکول کانصاب دوسرے سکول کے نصاب سے یکسر مختلف ہے۔

2۔ سرکاری نصاب تعلیم

یہ نصاب سرکاری اور نیم سرکاری سکولوں میں رائج ہے۔ اس کی بھی دو شاخیں ہیں:

(1) انگلش میڈیم

(2) اردو میڈیم

اردو میڈیم سکولوں میں تقریباً تمام کتب اردو میں جبکہ انگلش میڈیم سکولوں میں بعض کتب اردو اور بعض انگریزی میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ تاہم 2008ء میں سرکاری سکولوں میں انگلش اور اردو میڈیم کے نصاب کے فرق کو ختم کر دیا گیا۔ گورنمنٹ (صوبوں کی زیر نگرانی کام کرنے والے) سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ شائع کرتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے کا اپنا ایک الگ تعلیمی بورڈ ہے جس کا اپنا الگ نصاب ہے۔

وفاق کے زیر نگرانی چلائے جانے والے سکولوں میں وفاقی ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہ نصاب عرصہ دراز سے بنا کسی رد و بدل کے پڑھایا جا رہا ہے۔ وفاق کے زیرِ نگرانی کام کرنے والے سکولوں میں یکساں نصابِ تعلیم رائج ہے۔ اسی طرح فوج کے زیرِ نگرانی کام کرنے والے سکول پورے ملک میں کام کر رہے ہیں اور ملک بھر میں اے پی ایس سکولوں کا نصاب یکساں ہے۔

3۔ کیمبرج نصابِ تعلیم

یہ کیمرج سسٹم کا نصابِ تعلیم ہے۔ اس سسٹم کے تحت اے لیول اور او لیول کے امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس طرزِ تعلیم میں تمام کتب غیر ملکی نصاب پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس سسٹم میں اسلامیات، اسلامی تاریخ اور مطالعہ پاکستان کا مضمون نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور بعض اداروں میںتو یہ سرے سے ہی نہیں ہوتا۔

4۔ مذہبی نصابِ تعلیم

یہ مکمل طور پر مذہبی تعلیم پر مشتمل نصاب ہے۔ اِس نصاب تعلیم میں فقہ، حدیث، نحو اور تجوید وغیرہ پڑھائی جاتی ہے۔ اس طرز کے نصاب میں دنیوی تعلیم کا عمل دخل سطحی سا ہوتا ہے۔ یہ نصابِ تعلیم زیادہ تر مدارس میں رائج ہے۔ 2008ء میں پہلی بار مدارس کے بورڈز کا قیام عمل میں لایا گیا اور تمام مدارس کو اس ادارے کے تحت اپنا نصاب وضع کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ اس سے پہلے نہ تو ان مدارس میں کوئی دنیوی مضمون پڑھایا جاتا تھا اور نہ ہی عصری حوالوں سے ان مدارس کی ڈگریوں کی کوئی حیثیت تھی۔ دینی مدارس کے بورڈز کے قیام کے بعد ملک میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر مدارس کے نصاب میں بعض عصری مضامین بھی شامل کیے گئے۔ تاہم ابھی بھی ملک میں کئی ایسے مدارس موجود ہیں جو کہ اپنا الگ کام کر رہے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام نصابِ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچے چونکہ مختلف ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ اس ماحول اور تعلیمی نصاب کا یہ تضاد انہیں الگ الگ نوعیت کی ذہنیت اور شخصیت عطا کرتا ہے اور یہ تفاوت ہمارے بچوں کو کئی طبقات میں بانٹ رہی ہے۔ ان میں سے ہر طبقے کی سوچ دوسرے طبقے کی فکر سے مختلف اور بعض اوقات متصادم ہو جاتی ہے۔

ان تمام تضادات کے پنپنے کی بنیادی وجہ ہی نصاب تعلیم ہے اور جب تک پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج نہیں ہو جاتا تب تک قومی اتحاد کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ بچوں کا ذہن نازک ہوتا ہے اور بچپن میں جو کچھ بھی ان کو پڑھا دیا جاتا ہے، وہ ذہن پر نقش ہو کرساری زندگی کے لیے ان کی عادات اور سوچ کا حصہ بن جاتا ہے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے والا سٹوڈنٹ مدرسے سے علم حاصل کرنے والے کو دقیانوسی سمجھنے لگتا ہے جبکہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم سکول کے طالب علم کو کافر گرداننے لگتا ہے۔ اس طرح ایک ہی ملک کے رہنے والے بچوں کے درمیان آپس میں چپقلش اور نفرت جنم لینے لگتی ہے جو کہ بعد ازاں معاشرے میں نفاق اور انتشار کا سبب بنتی ہے۔

سوال 132: بچوں کے تعلیمی معیار کو کیسے پرکھا جائے؟

جواب: بچوں کے تعلیمی معیار کو پرکھنے کا انحصار نظام تعلیم اور بچے کی تخلیقی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور مشکلات سے نمٹنے کی قوت پر ہوتا ہے۔ بچپن ہی سے شروع ہونے والی تخلیقی، تجزیاتی، تجرباتی اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے والی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے والی تعلیم آنے والے بڑے امتحانات میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

بچوں میں بڑھتے ہوئے تعلیمی معیار کو جانچنے کے لئے رائج ہر نظام تعلیم میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ تجرباتی اور تجزیاتی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے بچوں میں تخلیقی اور جدت پسندی کا رحجان ختم ہو گیا ہے۔ اس سے صرف اور صرف رٹا سسٹم نے جنم لیا ہے جس سے بچوں میں خود غرضی کا رحجان پیدا ہوتا ہے ۔ اس طریقہ کار سے دوسرے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے، لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ رٹہ سسٹم کی بجائے بچوں میں نقادی تجزیاتی صلاحیتیں بیدار ہوں تاکہ زندگی پر محیط تعلیمی کوشش میں اضافہ ہو۔

سوال 133: بچوں کو طبقاتی نظامِ تعلیم کے تفرقے سے کیسے بچایا جائے؟

جواب: ملک بھر کے سکولوں اور مدارس کے لیے یکساں نصاب وضع کر کے بچوں کو تعلیمی تفرقے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم کے فروغ سے ملک میں اتحاد و یگانگت اور ایک مضبوط قوم کی تکمیل ممکن ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے:

1۔ تمام گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں یکساں نصابِ تعلیم بنانے کی ذمہ داری HEC ( ہائر ایجوکیشن کمیشن )کے سپرد کر دی جائے جو ملک کے نامور ماہر تعلیم افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے ایسا نصاب تعلیم وضع کرے، جو ملکی روایات، تاریخ اور دین اسلام کا امین ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے قابل قبول ہو۔ اگر ٹھان لیا جائے تو یہ کام چنداں مشکل نہیں ہے۔ اس ارض پاک میں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بہترین اہل علم موجود ہیں جو معیاری نصابِ تعلیم وضع کرنے کی کامل دسترس رکھتے ہیں۔

2۔ HEC کو یکساں نصابِ تعلیم وضع کرنے کے ساتھ ساتھ نصاب میں رد و بدل یا کسی بھی مواد کے اضافے اور تمام تعلیمی اداروں میں اس نصاب کے نفاذ کا مکمل اختیار بھی حاصل ہونا چاہیے۔

3۔ معیاری نصابِ تعلیم کے معاملے میں قانون سازی بھی نہایت ضروری ہے، تاکہ کوئی ایسا قانون ملک میں موجود ہو جس کے تحت نصاب تعلیم کے اصول کی خلاف ورزی پر سزا کا تعین کیا جا سکے اور ایسا کوئی بھی مواد نصاب تعلیم میں شامل کرنے سے روکا جا سکے جو کہ ملکی روایات اور دین اسلام کے منافی یا متصادم ہو۔

سوال 134: تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آج کا بچہ پیچھے کیوں ہے؟

جواب: حقائق کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آج کا بچہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر پیچھے ہے:

1۔ اکثر والدین چاہتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے اور جیسے بھی ممکن ہو میرے بچے کی پوزیشن ہر صورت اول ہی آنی چاہیے۔ وہ اپنی اس خواہش کی تسکین کے لیے بھاری فیسیں ادا کر کے بچے کو ٹیوشن بھیجتے ہیں۔ ان ٹیوشن سنٹرز میں بچے کو فقط امتحانی نقطہ نظر سے منتخب اسباق کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس طریقۂ تدریس سے بچہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور رٹے لگا لگا کر صرف پوزیشن لینے کی تیاری کرتا ہے۔

2۔ دوسری وجہ والدین کی حد سے زیادہ مصروفیت ہے جس کے باعث بچے نظر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ والدین خود تو اپنے بچوں پر توجہ نہیں دے پاتے اور مصروفیت کے باعث ان کے ساتھبہت کم وقت گزارتے ہیں۔ وہ انہیں ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال کروا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے دنیا سے ہم آہنگ چل رہے ہیں۔ انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ بچے جدید سہولیات کے غلط استعمال سے دین اور اخلاقیات سے کتنے دور ہو رہے ہیں۔

3۔ تیسری وجہ بعض والدین کا بچوں کو تمام سہولیات اور اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آنا ہے۔ ایسے بچے سہمی سہمی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے دل میں والدین کا خوف بیٹھ جاتا ہے۔ وہ ہر وقت کی ڈانٹ، ڈپٹ، نصیحت اور روک ٹوک سے والدین سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ گھر میں والدین اور اسکول میں استاد کی سختی سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مہنگے اسکولز میں جانے کے باوجود بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔

سوال 135: بچوں کی ذہنی تربیت کیسے کی جائے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس وجہ سے تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے وہ اس کی خیر و شر میں تمیز کرنے کی قوت ہے۔ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا والدین اور اساتذہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگرچہ ہربچے کے دماغ کی ساخت الگ الگ ہوتی ہے اور اس میں زیادہ تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں ہوتی، مگر غور و فکر اور مختلف ذرائع سے ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشی جا سکتی ہے۔ ذہنی تربیت کے بغیر بچے کی زندگی کے معاملات احسن طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ والدین کو نہایت احتیاط سے بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے درج ذیل نکات پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

1۔ بچوں کی عمر و استعداد کو مد نظر رکھ کر انہیں تعمیری اور اصلاحی لٹریچر فراہم کیا جائے۔ نصابی کتب کے علاوہ غیرنصابی کتب کا بھی مطالعہ کروایا جائے تاکہ بچوں کو وافر معلومات بھی حاصل ہوں اور ان کا ذہن استفادے کا عادی بھی بنے۔ اس عمل سے بچوں کی نہ صرف علمی صلاحیت بڑھے گی بلکہ ان کے ذہن کو بھی نئی جِلا ملے گی۔

2۔ بچے کا شعوری دائرہ محدود ہوتا ہے۔ اس لئے بیک وقت بچے کو زیادہ باتیں نہ بتائی جائیں کیونکہ اس طرح وہ تذبذب اور ذہنی انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ تکان، پریشانی، جھنجلاہٹ یا بیماری کی حالت میں بچے کے ذہن پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے اور نہ ہی اس وقت سیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ مسلسل ذہن کو کام میں لگانا بھی مناسب نہیں ہے۔ ذہن کو آرام دینا اور مختلف ذہنی ورزشوں کے درمیان مناسب وقفے کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے۔

3۔ بچے کو نئی چیز ذہن نشین کرانے کے لئے یاد کی ہوئی چیز سے مشابہت دے کر یا اس سے مربوط کرکے یاد کروائی جائے تاکہ بچے کو وہ چیز بھی یاد رہے اور خود اس میں ربط و مماثلت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی پروان چڑھے۔ مثلا خرگوش کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ فارسی زبان کے دو الفاظ خر اور گوش کا مجموعہ ہے۔ فارسی میں گدھے کو خر اور کانوں کو گوش کہا جاتا ہے۔ اب بچے کو بتایا جائے کہ خرگوش کی شکل گدھے کے کانوں جیسی ہوتی ہے۔ اب وہ ان دو الفاظ کے ساتھ ساتھ کتنی اور چیزیں بھی سیکھیں گے۔ پھر جب کبھی خرگوش کا تذکرہ آئے گا تو بچے کے ذہن میں وہ سب کچھ تازہ ہو جائے گا۔

4۔ بچے سے مختلف سوالات پوچھ کر اسے سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر بچے سے سوال کیا جائے کہ ایک بچہ ایک آنکھ سے ایک میل دیکھتا ہے تو وہ دو آنکھوں سے کتنے میل دیکھے گا؟ بچہ فوراً کہے گا۔ ’’دو میل‘‘ اب بچے سے اگلا سوال کیا جائے کہ ایک آنکھ سے ایک کھلونا نظر آتا ہے تو دو آنکھوں سے کتنے کھلونے نظر آئیں گے؟ تو ایک کھلونا ہاتھ میں لے لیا جائے اور بچے کی ایک آنکھ بند کرکے پوچھا جائے، بیٹا! بتاؤ یہ کتنے کھلونے ہیں؟ بچہ کہے گا: ’’ایک کھلونا‘‘ اب اس کی دوسری آنکھ کھول کر اس سے پوچھا جائے کہ بتاؤ اب کتنے کھلونے نظر آ رہے ہیں؟ بچہ کہے گا: ’’ایک‘‘ اب بچہ خود سمجھ جائے گا کہ ایک آنکھ یا دو آنکھ سے فاصلہ یا عدد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح کے سوالات میں بچے کی عمر کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہیے۔

5۔ اسی طرح کی پہیلیاں بوجھا کر بچے کو انہیں حل کرنے کا موقع دیا جائے۔ پہیلیاں بوجھنے میں بچے کی رہنمائی ضرور کی جائے۔ مختلف اشاروں اور طریقوں سے اسے جواب کے قریب لے جایا جائے۔ اگر وہ پہیلی کا جواب نہ دے سکے تو اسے سوچنے کے لئے وقت دیا جائے۔ پھر بھی اگر وہ نہ بتا سکے تو درجہ بہ درجہ اسے جواب کے قریب لے جایا جائے۔ اس طرح جواب سن کر اسے اپنے ذہن کے کئی دریچے کھلتے محسوس ہوں گے۔

6۔ بچہ جب اپنے ذہن کو کام میں لا رہا ہو یا اپنے ذہن سے کچھ نئے تجربات کر رہا ہو تو اس میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بچہ اپنی امی کو دو تین رنگ ملا کر اپنا دوپٹہ رنگتے دیکھتا ہے پھر وہ بچہ رنگوں کی پڑیاں کھول کر ایک تناسب سے پانی میں دو تین رنگ ملاتا ہے تو اس دوران ماں کو بچے پر غصہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اس لئے برداشت کرنا چاہیے کہ وہ جان بوجھ کر نقصان نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کا ذہن بھی وہی تجربہ کرنا چاہتا ہے جو اس کی ماں نے عملی طور پر کیا ہے۔ اس طرح کے مواقع پر تھوڑے بہت مالی نقصان کو نظر انداز کرکے بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے دینا چاہیے۔

7۔ کبھی بھی بچے سے یہ نہ کہا جائے آپ میں تو عقل ہی نہیں ہے، یا آپ بے وقوف، غبی اور کند ذہن ہو۔ اس طرح کے جملوں سے بچہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر غور و فکر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

8۔ بچوں کے ذہنی ارتقاء کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں شرعی طور پر ممنوعہ چیزوں سے دور رکھا جائے کیونکہ نشہ آور چیزیں بچوں کے ذہن و فکر اور عقل و دماغ پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

سوال 136: مربوط تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے؟

جواب: تعلیمی ترقی کے لئے تعلیمی نظام کا مربوط ہونا بے حد ضروری ہے۔ مربوط تعلیمی نظام درج ذیل درجات پر مشتمل ہونا چاہیے:

1۔ مربوط نظام تعلیم سائنسی، پروفیشنل، جنرل تعلیم اور ووکیشنل پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی موقع پر طالب علم کو وقت کے ساتھ پیدا ہونے والے رجحان کی وجہ سے ایک شعبہ سے دوسرے شعبہ کی طرف منتقل ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔ اس طرح با اعتماد، بنیادی سوچ اور تجزیاتی قوت سے آراستہ افراد تیار ہو کر مفید شہری کا کردار ادا کر سکیں۔

2۔ مربوط تعلیمی نظام کا نصابی ڈھانچہ اس طرح بنایا جائے کہ اس میں رہتے ہوئے طالبِ علم اپنے رجحان کے مطابق اپنے عملی شعبہ کا تعین کر سکے۔

3۔ مربوط تعلیمی نظام کا نصاب کلاس اوّل سے کلاس ہشتم تک اس طرح بنایا جائے کہ وہ سیکنڈری سکول تعلیمی بورڈ اور ٹیکنکل ایجوکیشن بورڈ کے امتحانات سے متعلق ہو۔

4۔ مربوط تعلیمی نظام کے نصاب کی ملکی اور بین الاقوامی افادیت کے لئے پیشہ ورانہ مارکیٹ میں تبدیلیوں کو نظر میں رکھا جائے تاکہ تعلیمی نظام صحیح بنیادوں پر استوار رہے۔

5۔ مربوط تعلیمی نظام انتظامی سربراہوں کے لئے معلومات فراہم کرنے والا تیز اور صحیح نظام ترتیب دینے والا ہونا چاہئے، جو اساتذہ کی تربیت اور ان کی استعداد کار میں بھی اضافہ کرے۔

سوال 137: پاکستان کے تعلیمی نظام کو کتنے درجات میں تقسیم کیا گیا ہے؟

جواب: پاکستان کے تعلیمی نظام کو درج ذیل درجات میں تقسیم کیا گیا ہے :

1۔ ابتدائی (مونٹیسوری سے پریپ تک)

2۔ پرائمری (کلاس اوّل سے پانچویں تک)

3۔ مڈل (کلاس ششم سے ہشتم تک)

4۔ سیکنڈری اسکول (میٹرک)

5۔ ہائر سکینڈری اسکول/ انٹرمیڈیٹ (ایف اے)

6۔ گریجویٹ (بی اے)

7۔ پوسٹ گریجویٹ (ایم اے)

8۔ ایم فِل

9۔ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی)

3۔ معاشرتی تعلیم و تربیت

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved