سیاست نہیں - ریاست بچاؤ!

ابتدائیہ

مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانانِ برصغیر کی عظیم جد و جہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ حکیم الامت علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا خواب اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو؛ معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں؛ جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں؛ جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو؛ جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو؛ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو؛ جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتے تھے اور اُس قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی جب کہ آج 65 برس بعد ملک موجود ہے مگر اِس ملک کو قوم کی تلاش ہے۔ 1947ء میں ہم ایک قوم تھے، اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال ہوئی اور اُس قوم کی متحدہ جد و جہد کے نتیجے میں ہمیں یہ ملک ملا۔ ابھی 25 برس بھی نہیں گزرے تھے کہ ہم نے باہمی اِختلافات کے باعث آدھا ملک کھو دیا۔ آج آدھا ملک موجود ہے مگر کس قدر دکھ کی بات ہے کہ قوم مفقود ہے۔ آج ہماری قوم منتشر ہو کر کروڑوں اَفراد کا بے ہنگم ہجوم بن چکی ہے، ہماری قومیت گم ہوگئی ہے، محبت کا جو جذبہ ہم اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں دیکھا کرتے تھے وہ بھی ناپید ہوگیا ہے؛ ہم دوبارہ اس قوم کو وحدت میں پرونا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کو اِس کے باسیوں کی اُمیدوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کچھ جرات مندانہ کام کرنے پڑیں گے اور کچھ احتیاطیں برتنی پڑیں گی۔ ہمیں سنجیدہ ہو کر اس ملک میں جاری نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ پاکستانی قوم کو بے شعور بنا دیا گیا ہے۔ اِنصاف اس وقت مقتدر طبقات کی لونڈی ہے، جمہوریت ان کی عیاشی ہے، اِنتخابات اِن کا کاروبار ہیں اور عوام ان کے غلام ہیں جنہیں 5 سال کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے یہ کسی طرح بھی جمہوریت نہیں ہے۔ نہ یہ حقیقی نظامِ اِنتخابات ہے اور نہ ہی اس طریقے سے کبھی تبدیلی (change) آئے گی۔ آپ اگر ’تبدیلی (change)‘ چاہتے ہیں تو اس کا راستہ الگ ہے، اور یہ ’بیداریِ شعور‘ کے بغیر ناممکن ہے۔

تحریکِ بیداریِ شعور کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ قوم عرصہ دراز سے جس تذبذب، سیاسی و فکری اِنتشار، سماجی خلفشار، عدمِ استحکام اور معاشی زبوں حالی بلکہ تباہ حالی میں مبتلا ہے اسے آگہی ہو کہ اس مرض کا اصل سبب کیا ہے۔ اور مرض کی تشخیص کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس کا صحیح علاج کیا ہے۔ یہ ایک نئی فکر اور بالکل مختلف approach ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکرز، تجزیہ کار، مفکرین اور بہت سے کالم نگار میری بات سے اختلاف کریں گے اور اس پر توجہ بھی نہ دیں گے کیونکہ یہ سوچ روایتی سیاسی سوچ سے بالکل مختلف بھی ہے اور متصادم بھی۔ یہ دعوتِ فکر بہت سے زعما اور اہل فکر کی سوچ سے بھی مختلف یا متصادم ہے مگر ہماری اُن سے گذارش ہے کہ اِس پر خوب غور و خوض کیا جائے۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ تمام سیاسی اَحباب ہر حال میں موجودہ اِنتخابی و سیاسی عمل کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں اور ان کا viewpoint یہ ہے کہ تبدیلی اس نظام کے ذریعے اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے لائی جائے۔ یہی وجہ ہے ٹی وی پروگرامز میں اور اخبارات کے اداریوں اور آرٹیکلز میں زیادہ تر ایک ہی آپشن زیر بحث لائی جاتی ہے کہ اِسی نام نہاد جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی لائی جائے؛ یا چینلز پر یہ دکھایا اور discuss کیا جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کو اپنا لیں یا فلاں لیڈر اپنی خدمات بہتر طریقے سے deliverکرسکتا ہے یا فلاں پارٹی بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ لیکن سوچ کا وہ رُخ جو ایک عرصے سے میں دکھا رہا ہوں تاحال قومی سطح پر discussion کے لیے اس قدر open نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے۔ میں دلائل کے ساتھ اپنی فکر قوم اور اہلِ فکر و نظر تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ اگر سسٹم اور نظامِ انتخاب یہی رہا تو کوئی بھی پارٹی یا لیڈر دگرگوں حالات میں بنیادی تبدیلی نہیں لا سکتا بلکہ جولیڈر، پارٹی یا لوگ اس نظام کا حصہ بنیں گے یہ نظام انہیں کھاجائے گا۔ اگر قوم اِسی نظامِ اِنتخابات کے ساتھ انتخابات میں گئی تو جو بھی نئی پارلیمان بنے گی اس پارلیمان کے ماتھے پر تبدیلی نہیں بلکہ پھر مایوسی کا لفظ لکھا نظر آئے گا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved