حضور ﷺ کے خصائل مبارکہ

حضور ﷺ کی دنیا سے بے رغبتی اور خشیت الٰہی کا بیان

بَابٌ فِي وَصْفِ زُہْدِہٖA فِي الدُّنْیَا وَخَشْیَتِہٖ ِﷲِ تَعَالٰی

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا سے بے رغبتی اور خشیتِ الٰہی کا بیان}

50 / 1۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا قَالَتْ : مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وآله وسلم منْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَـلَاثَ لَیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

1 : أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأصحابہ وتخلیھم من الدنیا، 5 / 2371، الرقم : 6089، ومسلم في الصحیح، کتاب الزہد والرقائق، 4 / 2281، الرقم : 2970، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 150، الرقم : 6637، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب خبز الشعیر، 2 / 1110، الرقم : 3346، وأبو یعلی في المسند، 8 / 33، الرقم : 4539، وابن راھویہ في المسند، 3 / 880، الرقم : 1552، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 402۔

''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت مدینہ منورہ میں آئے ہیں، اُنہوں نے کبھی تین دن متواتر سیر ہو کر گندم کا کھانا نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

51 / 2۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا أَنَّہَا قَالَتْ : مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وآله وسلم مِنْ خُبْزِ شَعِیْرٍ، یَوْمَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، حَتّٰی قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ۔

رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

2 : أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزہد والرقائق، 4 / 2282، الرقم : 2970، والترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأھلہ، 4 / 579، الرقم : 2357، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 129، الرقم : 150، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 98، الرقم : 24709۔

''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کے وصال تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل نے کبھی دو دن متواتر سیرہو کر جو کی روٹی نہیں کھائی۔''

اِس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

52 / 3۔ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ رضي الله عنه قَالَ : مَا کَانَ یَفْضُلُ عَنْ أَہْلِ بَیْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم خُبْزُ الشَّعِیْرِ۔

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

3 : أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأھلہ، 4 / 580، الرقم : 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 267، الرقم : 22350، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 163، الرقم : 7680۔

''حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کے ہاں کبھی جو کی روٹی نہیں بچی۔''

اِس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

53 / 4۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنہما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یَبِیْتُ اللَّیَالِي الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا وَأَہْلُہٗ لَا یَجِدُوْنَ عَشَائً وَکَانَ أَکْثَرُ خُبْزِہِمْ خُبْزَ الشَّعِیْرِ۔

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

4 : أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الزہد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأھلہ، 4 / 580، الرقم : 2360، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 127، الرقم : 146، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأطعمۃ، باب خبز الشعیر، 2 / 1111، الرقم : 3347، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 255، الرقم : 2303، والطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 328، الرقم : 11900، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 204، الرقم : 592، والبیھقي في شعب الإیمان، 7 / 312، الرقم : 10419۔

''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل کئی راتیں فاقہ سے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والوں کے پاس شام کا کھانا نہ ہوتا اور عام طور پر اُن کا کھانا، جو کی روٹی ہوتی تھی۔''

اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

54 / 5۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه قَالَ : مَا شَبِعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَأَہْلُہٗ ثَـلَاثًا تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ حَتّٰی فَارَقَ الدُّنْیَا۔

رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔

5 : أخرجہ الترمذي في السنن،کتاب الزہد، باب ما جاء في معیشۃ النبی صلى الله عليه وآله وسلم وأھلہ، 4 / 579، الرقم : 2358، وابن حبان في الصحیح، 14 / 256، الرقم : 6346، وأبو یعلی في المسند، 11 / 35، الرقم : 6175، وابن جریر الطبري في تھذیب الآثار، 2 / 704، الرقم : 1025۔

''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل خانہ نے کبھی بھی تین دن مسلسل گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے۔''

اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

55 / 6۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ رضي الله عنه خَتَنِ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم أَخِي جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ رضي اﷲ عنہا قَالَ : مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْہَمًا، وَلَا دِیْنَارًا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا أَمَۃً، وَلَا شَیْئًا إِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَاءَ، وَسِـلَاحَہٗ، وَأَرْضًا جَعَلَہَا صَدَقَۃً۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ۔

6 : أخرجہ البخاري في الصحیح،کتاب الوصایا، باب الوصایا وقول النبي صلى الله عليه وآله وسلم : وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ، 3 / 1005، الرقم : 2588، وابن خزیمۃ في الصحیح، 4 / 120، الرقم : 2489، والحاکم في المستدرک، 1 / 580، الرقم : 1528، وقال : ھذا حدیث صحیح، والترمذي في الشمائل المحمدیۃ / 341، الرقم : 400، وابن الجعد في المسند، 1 / 369، الرقم : 2537، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 316۔

''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادرِ نسبتی یعنی امّ المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث کے بھائی، حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بوقتِ وصال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترکہ میں درہم، دینار اور لونڈی غلام وغیرہ قسم کی کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی۔ ماسوائے اپنے سفید خچر، اپنے جنگی ہتھیاروں اور ایک قطعہ زمین کے، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فرما دی تھی۔''

اِس حدیث کو امام بخاری اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔

56 / 7۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا قَالَتْ : صَنَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم شَیْئًا، فَرَخَّصَ فِیْہِ، فَتَنَزَّہَ عَنْہٗ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَخَطَبَ، فَحَمِدَ اﷲَ، ثُمَّ قَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَنَزَّہُوْنَ عَنِ الشَّيئِ أَصْنَعُہٗ، فَوَاﷲِ، إِنِّي لَأَعْلَمُہُمْ بِاﷲِ وَأَشَدُّہُمْ لَہٗ خَشْیَۃً۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

7 : أخرجہ البخاري في الصحیح،کتاب الأدب، باب من لم یواجہ الناس بالعتاب، 5 / 2263، الرقم : 5750، وأیضًا في کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من التعمق والتنازع في العلم والغلو في الدین، 6 / 2662، الرقم : 6871، ومسلم في الصحیح،کتاب الفضائل، باب علمہ باﷲ تعالٰی وشدۃ خشیتہ، 4 / 1829، الرقم : 2356، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 67، الرقم : 10063، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 45، 181، الرقم : 24226، 25521، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 256، الرقم : 2021۔

''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اُس کے کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی، لیکن لوگوں نے اُس کام سے کنارہ کشی اختیار کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کے بعد فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اُس کام سے بچتے ہیں جو میں (نبی ہو کر) کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کی قسم! مجھے اللہ تعالیٰ کا لوگوں کی نسبت زیادہ علم ہے اور میں لوگوں کی نسبت زیادہ خشیتِ الٰہی رکھتا ہوں۔''

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

57 / 8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنھما قَالَ : قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه : یَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ شِبْتَ، قَالَ : شَیَّبَتْنِي ہُوْدٌ، وَالْوَاقِعَۃُ، وَالْمُرْسَلَاتُ، وَعَمَّ یَتَسَائَلُوْنَ، وَإِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَالْحَاکِمُ۔

8 : أخرجہ الترمذي في السنن،کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الواقعۃ، 5 / 402، الرقم : 3297، وأیضًا في الشمائل المحمدیۃ / 57، الرقم : 41، وأبو یعلی في المسند، 1 / 102، الرقم : 107، والحاکم في المستدرک، 2 / 374، الرقم : 3314، والطبراني في المعجم الکبیر، 17 / 286، الرقم : 790، والہیثمي في مجمع الزوائد، 7 / 37۔

''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ تو بوڑھے ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے سورہ ھود، سورہ المرسلات، سورہ عم یتسائلون اور سورہ التکویر نے بوڑھا کر دیا ہے (چونکہ ان سورتوں میں قیامت کے ہولناک واقعات بیان کیے گئے ہیں)۔'' اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

58 / 9۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : إِقْرَأْ عَلَيَّ۔ قَالَ : قُلْتُ : أَقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ أُنْزِلَ؟ قَالَ : إِنِّي أَشْتَہِي أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِي۔ قَالَ : فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتّٰی إِذَا بَلَغْتُ : {فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓـؤُلَائِ شَہِیْدًا} ]النساء، 4 : 41[۔ قَالَ لِي : کُفَّ أَوْ أَمْسِکْ فَرَأَیْتُ عَیْنَیْہِ تَذْرِفَانِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

9 : أخرجہ البخاري في الصحیح،کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قرائۃ القرآن، 4 / 1927، الرقم : 4768، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل إستماع القرآن وطلب القراء ۃ من حافظہ للإستماع، 1 / 551، الرقم : 800، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 29، الرقم : 8079، والطبراني في المعجم الکبیر، 9 / 80، الرقم : 8459، والبیہقي في شعب الإیمان، 2 / 363، الرقم : 2052۔

''حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یارسول اﷲ!) میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری یہ خواہش ہے کہ میں اسے اپنے سوا کسی اور سے بھی سنوں۔ حضرت عبد اللہص بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورہ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت مبارکہ پر پہنچا : فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًا ''پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔'' تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : رک جاؤ، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس سے آنسو رواں تھے۔''

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

59 / 10۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَعِنْدَہٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه وَرَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَلٰی سَرِیْرٍ شَرِیْطٍ، لَیْسَ بَیْنَ جَنْبِ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَبَیْنَ الشَّرِیْطِ شَيئٌ، قَالَ : وَکَانَ أَرَقَّ النَّاسِ بِشْرَۃً، فَانْحَرَفَ انْحَرَافَۃً وَقَدْ أَثَّرَ الشَّرِیْطُ بِبَطْنِ جِلْدِہٖ أَوْ بِجَنْبِہٖ، فَبَکَی عُمَرُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : مَا یُبْکِیْکَ؟ قَالَ : أَمَا، وَاﷲِ، مَا أَبْکِي، یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنْ لَا أَکُوْنَ أَعْلَمُ أَنَّکَ أَکْرَمُ عَلَی اﷲِ مِنْ قَیْصَرَ وَکِسْرٰی، إِنَّھُمَا یَعِیْشَانِ فِیْمَا یَعِیْشَانِ فِیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَأَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالْمَکَانِ الَّذِي أَرَی، فَقَالَ : یَا عُمَرُ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَنَا الْآخِرَۃُ وَلَھُمُ الدُّنْیَا، قَالَ : بَلٰی، قَالَ : فَإِنَّہٗ کَذَالِکَ۔ رَوَاہُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَاللَّفْظُ لَہٗ۔

10 : أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 139140، الرقم : 12440، وأبو یعلی في المسند، 5 / 167، الرقم : 2782۔

''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی وہاں حاضر تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضبوط بٹی ہوئی پٹی کی چارپائی پر تشریف فرما تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پہلوؤں اور رسی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی (یعنی چارپائی پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہ تھی)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم و نازک جلد والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلو بدلا تو (نظر آیا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم و نازک جلد اور پہلوؤں میں پٹی کے دھنسنے کے نشانات ہیں۔ پس (یہ دیکھ کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! بخدا میں نہ روتا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے ہاں قیصر و کسری سے زیادہ معزز ہیں۔ وہ تو دنیا میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اﷲ کے رسول ہیں اور اِس حالت میں ہیں جسے میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! کیا تم اِس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لئے آخرت اور اُن کے لئے دنیا ہو۔ اُنہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں (یا رسول اﷲ!)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک بات یہی ہے۔''

اِس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

60 / 11۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَالُوْا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم حِیْنَ أَفَاءَ اﷲُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ صلى الله عليه وآله وسلم مِنْ أَمْوَالِ ہَوَازِنَ مَا أَفَاءَ فَطَفِقَ یُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ الْمِائَۃَ مِنَ الْإِبِلِ فَقَالُوْا : یَغْفِرُ اﷲُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یُعْطِي قُرَیْشًا وَیَدَعُنَا وَسُیُوْفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِہِمْ، قَالَ أَنَسٌ : فَحُدِّثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِمَقَالَتِہِمْ فَأَرْسَلَ إِلَی الْأَنْصَارِ فَجَمَعَہُمْ فِي قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، وَلَمْ یَدْعُ مَعَہُمْ أَحَدًا غَیْرَہُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوْا جَائَہُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا کَانَ حَدِیْثٌ بَلَغَنِي عَنْکُمْ، قَالَ لَہٗ فُقَہَاؤُہُمْ : أَمَّا ذَوُوْ آرَائِنَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَلَمْ یَقُوْلُوْا شَیْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِیْثَۃٌ أَسْنَانُہُمْ، فَقَالُوْا : یَغْفِرُ اﷲُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یُعْطِي قُرَیْشًا وَیَتْرُکُ الْأَنْصَارَ وَسُیُوْفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِہِمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : إِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِیْثٌ عَہْدُہُمْ بِکُفْرٍ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُوْا إِلٰی رِحَالِکُمْ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَوَاﷲِ، مَا تَنْقَلِبُوْنَ بِہٖ خَیْرٌ مِمَّا یَنْقَلِبُوْنَ بِہٖ، قَالُوْا : بَلٰی، یَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ رَضِیْنَا، فَقَالَ لَہُمْ : إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَۃً شَدِیْدَۃً، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوْا اﷲَ وَرَسُوْلَہٗ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَی الْحَوْضِ، قَالَ أَنَسٌ : فَلَمْ نَصْبِرْ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔

11 : أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبي صلى الله عليه وآله وسلم یعطي المؤلفۃ قلوبھم وغیرھم من الخمس، 3 / 1147، الرقم : 2978، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 88، الرقم : 8335، وابن حبان في الصحیح، 16 / 267، الرقم : 7278، والطبراني في مسند الشامیین، 4 / 131132، الرقم : 2920، والبیھقي في السنن الکبری، 7 / 17، الرقم : 12960۔

''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے بعض لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس طرزِ عمل پر، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو (فتح) ہوازن کی دولت مالِ فئے میں عطا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے بعض افراد کو سو سو اُونٹ تک مرحمت فرما دیئے، تو یہ کہنے لگے : اللہ اپنے رسول کو معاف فرمائے جو قریش کو مالا مال کرتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ کفار کا خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت میں کسی نے اِس بات کا ذکر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کو بلایا، اور اُنہیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع فرمایا، اُن کے علاوہ کسی اور کو نہیں بلایا۔ جب وہ جمع ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : کیا یہ اچھی بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھ تک پہنچی ہے؟ اُن میں سے سمجھ دار حضرات نے عرض کیا : یا رسول اللہ! جو ہم میں سوجھ بوجھ والے ہیں اُنہوں نے قطعاً ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن جو ہم میں کم عمر ہیں اُنہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو معاف فرمائے وہ قریش کو تو مالا مال کردیتے ہیں لیکن انصار کو نظر انداز فرماتے ہیں۔ حالانکہ کفار کا خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جن لوگوں کو مال دیتا ہوں اُن کے کفر کا زمانہ زیادہ دور نہیں، کیا تم اِس بات پر راضی نہیں کہ دوسرے لوگ مال لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں رسول اﷲ کو لے جاؤ، خدا کی قسم، جو کچھ تم لے کر اپنے گھروں کو لوٹو گے وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ (مال لے جانے والے) لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ سب انصار عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ یقینًا ہم اِس پر راضی ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم عنقریب میرے بعد بہت زیادہ خود غرضی دیکھو گے لیکن اُس پر صبر کرنا یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے ملاقات کرو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لیکن (آپ کے بعد) ہم سے صبر نہ ہوسکا۔'' اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

61 / 12۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّۃٍ، فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَکُوْنُوْا ثُلُثَ أَھْلِ الْجَنَّۃِ؟ قُلْنَا : نَعَمْ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ، إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ تَکُوْنُوْا نِصْفَ أَھْلِ الْجَنَّۃِ؟ وَذَالِکَ أَنَّ الْجَنَّۃَ لَا یَدْخُلُھَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَھْلِ الشِّرْکِ إِلَّا کَالشَّعْرَۃِ الْبَیْضَائِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ کَالشَّعْرَۃِ السَّوْدَائِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔

12 : أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر، 5 / 2392، الرقم : 6163، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب کون ہذہ الأمۃ نصف أھل الجنۃ، 1 / 200، الرقم : 221، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صف أھل الجنۃ، 4 / 684، الرقم : 2547، وَقَالَ : ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْح، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد صلى الله عليه وآله وسلم ، 2 / 1432، الرقم : 4283، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 409، الرقم : 11339، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 386، الرقم : 3661، والبزار في المسند، 5 / 237، الرقم : 1850۔

''حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہم ایک قبہ (یعنی مکان) میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ اہلِ جنت کا تہائی حصہ تم (میں سے) ہو؟ ہم نے عرض کیا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد مصطفی کی جان ہے! مجھے اُمید ہے کہ تم (تعداد میں) اہل جنت میں سے نصف ہو گے اور وہ یوں کہ جنت میں مسلمان کے سوا کوئی داخل نہیں ہو گا اور مشرکوں کے مقابلے میں تم یوں ہو جیسے کالے بیل کی جلد پرایک سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پرایک کالا بال۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved