حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت اور اختیارات

حضور ﷺ کے دست اقدس سے ہی انعامات الٰہی تقسیم ہونے کا بیان

بَابٌ فِي أَنَّ اﷲَ عزوجل جَعَلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم قَاسِمًا لِنِعَمِهِ تَعَالَی

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس سے ہی انعاماتِ الٰہی تقسیم ہونے کا بیان}

71 / 1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکْتَنُوْا بِکُنْيَتِي فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

وفي رواية لهما : فَإِنَّمَا بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيَنَکُمْ.

71 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فرض الخمس، باب : قول اﷲ تعالی : فأن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1133، الرقم : 2946، ومسلم في الصحيح، کتاب : الآداب، باب : النهي عن التکني بأبی القاسم، 3 / 1682، الرقم : 2133، وأبوداود نحوه في السنن، کتاب : الآداب، باب : في الرجل يتکنی بأبی القاسم، 4 / 291، الرقم : 4965، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 303، الرقم : 14288، والحاکم في المستدرک، وقال : هذا حديث صحيح، 4 / 308، الرقم : 7735، وأبو يعلي في المسند، 3 / 424، الرقم : 1915.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا نام رکھو اور میری کنیت (ابو القاسم) نہ رکھو، میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور میں ہی تم میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

اور بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں فرمایا : ’’میں قاسم بنا کر ہی بھیجا گیا ہوں اور میں ہی تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔‘‘

72 / 2. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَن يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ يُعْطِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

وفي رواية لِمسلمٍ : وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اﷲُ.

72 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : العلم، باب : من يرد اللَّه به خيرا يفقّهه فی الدين، 1 / 39، الرقم : 71، وفی أبواب : فرض الخمس، باب : قول اللَّه تعالی : فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1134، الرقم : 2948، وفی کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم : لا تزال طائفة من أمتی ظاهرين علی الحق وهم أهل العلم، 6 / 2667، الرقم : 6882، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : النهی عن المسألة، 2 / 718، الرقم : 1037، والترمذی عن ابن عباس فی السنن، کتاب : العلم عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : إذا أراد اﷲ بعبد خيرًا فقهه فی الدين، 5 / 28، الرقم : 2645، وابن ماجه عن معاوية وأبی هريرة رضی اﷲ عنهما فی السنن، المقدمة، باب : فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 / 80، الرقم : 220. 221، والنسائی فی السنن الکبری، 3 / 425، الرقم : 5839، ومالک فی الموطأ، 2 / 900، الرقم : 1599، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 234، الرقم : 793، والدارمی فی السنن، 1 / 85، الرقم : 224. 22.

’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ بخاری کے ہیں۔

اور امام مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں ہی تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘

73 / 3. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَمُّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکَنَّوْا بِکُنْيَتِي فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.

وَقَالَ حُصَيْنٌ (قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم) : بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وفي رواية لهما : فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.

73 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فرض الخمس، باب : قول اﷲ تعالی : فإن ﷲ خمسه وللرسول، 3 / 1133، الرقم : 2946، وفي کتاب الأدب، باب : من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2290، الرقم : 5843، وفي الأدب المفرد، 1 / 292، الرقم : 839، الرقم : 5843، ومسلم في الصحيح، کتاب : الآداب، باب : النهي عن التکني بأبي القاسم، 3 / 1683، الرقم : 2133، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 313، 269، الرقم : 14403، 15006، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 338، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 264، الرقم : 25927، وأبو يعلی في المسند، 3 / 434، الرقم : 1923، والحاکم في المستدرک، 4 / 308، الرقم : 7735، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 38.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا نام رکھو اور میری کنیت نہ رکھو، پس بے شک میں ہی قاسم (تقسیم کرنے والا) بنایا گیا ہوں ، اور میں ہی تم میں (اللہ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں اور حضرت حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے قاسم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے، میں ہی تمہارے درمیان (اللہ تعالیٰ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

اور بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک میں تو قاسم ہی ہوں اور تمہارے درمیان (اللہ تعالیٰ کی نعمتیں) بانٹتا ہوں۔‘‘

74 / 4. عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّمَا أَنَا خَازِنٌ فَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ طِيْبِ نَفْسٍ فَيُبَارَکُ لَهُ فِيْهِ وَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ وَشَرَهٍ کَانَ کَالَّذِي يَأْکُلُ وَلَا يَشْبَعُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحَمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی.

74 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : النهي عن المسألة، 2 / 718، الرقم : 1037، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 99.100، الرقم : 16956.16965، وفي فضائل الصحابة، 1 / 372، الرقم : 555، وابن حبان في الصحيح، 8 / 193، الرقم : 3401، وأبو يعلی في المسند، 13 / 340، الرقم : 7354، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 370.371، الرقم : 869، 872.873، وفي مسند الشاميين، 3 / 129، الرقم : 1933، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 337، الرقم : 1243.

’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں ہی تو (اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا) خزانچی ہوں، پس جس شخص کو میں اپنی خوشی سے عطا کرتا ہوں، تو اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور جس شخص کو میں اس کے سوال کرنے اور اس کے طمع کرنے کی وجہ سے دیتا ہوں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کھانا کھاتا ہو لیکن اس کی بھوک نہ مٹتی ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

75 / 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا أُوْتِيْکُمْ مِنْ شَيئٍ وَمَا أَمْنَعُکُمُوْهُ إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

75 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الخراج والإمارة والفي، باب : فيما يلزم الإمام من أمر الرعية والحجبة عنه، 3 / 135، الرقم : 2949، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 314، ، الرقم : 8140، وابن راهويه في المسند، 1 / 425، الرقم : 486.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں کوئی شے دیتا ہوں نہ اسے تم سے روکتا ہوں۔ میں ہی (اﷲ تعالیٰ کے خزانوں کا) خزانچی ہوں۔ میں (ہر چیز کو وہیں) رکھتا ہوں جہاں مجھے (اسے رکھنے کا) حکم دیا گیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

76 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَاهُ؟ قَالَ : ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُهُ، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضُمَّهُ. فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

76 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : العلم، باب : حفظ العلم، 1 / 56، الرقم : 119، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبی هريرة الدوسی رضی الله عنه، 4 / 1939، الرقم : 2491، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب لأبی هريرة رضی الله عنه، 5 / 684، الرقم : 3834.3835، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 247، الرقم : 881، وأبو يعلی فی المسند، 11 / 121، الرقم : 6248.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میں آپ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں) چُلّو بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگالو۔ میں نے ایسا ہی کیا : پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ بخاری کے ہیں۔

77 / 7. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْـلًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ : يَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ وَکَانَ عَامِرٌ رَجُـلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُوْ بِالْقَوْمِ يَقُوْلُ :

اَللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا

فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ هَذَا السَّائِقُ قَالُوْا : عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ : يَرْحَمُهُ اﷲُ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : وَجَبَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

77 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة خيبر، 4 / 1537، الرقم : 3960، وفي کتاب : الأدب، باب : مايجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5 / 2277، الرقم : 5796، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة خيبر، 3 / 1427، الرقم : 1802، والبيهقي في السنن الکبري،10 / 227، الرقم : 20823، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 32، الرقم : 6294، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 101، الرقم : 5.

’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی جانب نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے (میرے بھائی) حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا۔ اے عامر! آپ ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے :

’’اے اﷲ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت (بھی) نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔‘‘

تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا : عامر بن اکوع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کہنے لگے کہ ان کے لئے شہادت (اور جنت) واجب ہو گئی۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

78 / 8. عَنْ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : نَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا قَرِيْبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَتَبَسَّمُ فَقُلْتُ : مَا أَضْحَکَکَ قَالَ : أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوْا عَلَيَّ يَرْکَبُوْنَ هَذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ کَالْمُلُوْکِ عَلَی الْأَسِرَّةِ قَالَتْ : فَادْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا فَقَالَتْ : مِثْلَ قَوْلِهَا فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا فَقَالَتْ : ادْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ : أَنْتِ مِنْ الْأَوَّلِيْنَ فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه غَازِيًا أَوَّلَ مَا رَکِبَ الْمُسْلِمُوْنَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ فَلَمَّا انْصَرَفُوْا مِنْ غَزْوِهِمْ قَافِلِيْنَ فَنَزَلُوْا الشَّأْمَ فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْکَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

78 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : فضل من يصرع في سبيل اﷲ فمات فهو منهم، 3 / 1030، الرقم : 2646، وفي باب : غزوة المرأة في البحر، 3 / 1055، الرقم : 2722، 2737، ومسلم في الصحيح کتاب : الإمارة، باب : فضل الغزو في البحر، 3 / 1518، الرقم : 1912، والترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجهاد عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في غزو البحر،4 / 178، الرقم : 1645، وأبوداود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل الغزو في البحر، 3 / 6، الرقم : 2490، والنسائي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل الجهاد في البحر، 6 / 40، الرقم : 3171.3172، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل غزوة البحر، 2 / 927، الرقم : 2776، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 264، الرقم : 13816، 6 / 361، الرقم : 2077.

’’حضرت اُمّ حرام بنت ملحان رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز میرے گھر میں آرام فرما تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے بیدار ہوئے میں عرض گزار ہوئی کہ (یارسول اﷲ!) آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے کچھ لوگ پیش کئے گئے جو اس سمندر پر اس طرح سوار ہیں۔ جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر وہ عرض گزار ہوئیں : (یارسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شمار فرمالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کر دی اور پھر دوبارہ سوگئے۔ اس دفعہ بھی پچھلے واقعہ کی طرح نظر آیا اور سوال و جواب ہوا۔ وہ پھر عرض گزار ہوئیں کہ بارگاہِ الٰہی میں دعا کیجئے مجھے اس گروہ میں شامل فرمادے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم پہلے گروہ میں ہو۔ پس یہ اپنے خاوند حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلیں جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں نے پہلی دفعہ سمندری سفر کیا جب وہ اپنے جہاد سے فارغ ہو کر قافلوں کی صورت میں واپس لوٹے تو ملک شام میں اترے۔ ان (ام حرام) کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا پھر یہ اس سے گر کر اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

79 / 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ فَأَخَذَ النَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْأُمَّةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ النَّفَرُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْعَشَرَةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ وَحْدَهُ فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ قُلْتُ : يَا جِبْرِيْلُ، هَؤُلَاءِ أُمَّتِي قَالَ : لَا وَلَکِنْ انْظُرْ إِلَی الْأُفُقِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ کَثِيْرٌ قَالَ : هَؤُلَاءِ أُمَّتُکَ وَهَؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ قُلْتُ : وَلِمَ؟ قَالَ : کَانُوْا لَا يَکْتَوُوْنَ وَلَا يَسْتَرْقُوْنَ وَلَا يَتَطَيَرُوْنَ وَعَلَی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَ فَقَامَ إِلَيْهِ عُکَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ : ادْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ : ادْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ سَبَقَکَ بِهَا عُکَّاشَةُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

79 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : يدخل الجنة سبعون ألفا بغير حساب، 5 / 2396، الرقم : 6175. 6176، ومسلم في الصحيح کتاب : الإيمان، باب : الدليل علی دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب، 1 / 197، الرقم : 216، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (16) منه، 4 / 631، الرقم : 2446، وقال أبوعيسی : هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 378، الرقم : 7604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 271، الرقم : 2448، 3819، والدارمي في السنن، 2 / 422، 430، الرقم : 2807، 2823، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 408، الرقم : 19519.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ پس ایک ایک نبی گزرنے لگا اور اس کے ساتھ اس کی امت تھی، ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک ہی امتی تھا۔ ایک نبی کے ساتھ دس آدمی۔ ایک نبی کے ساتھ پانچ سو۔ ایک نبی صرف تنہا۔ میں نے نظر دوڑائی تو ایک بڑی جماعت نظر آئی۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل! کیا یہ میری امت ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ نہیں بلکہ آپ افق کی جانب توجہ فرمائیں۔ میں نے دیکھا تو وہ بہت ہی بڑی جماعت تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور یہ جو ستر ہزار ان کے آگے ہیں، ان کا نہ حساب ہے نہ عذاب۔ میں نے پوچھا کہ کس وجہ سے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے، غیر شرعی جھاڑ پھونک نہیں کرتے تھے، شگون نہیں لیتے تھے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عکاشہ بن محصن کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں شامل فرما۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : (یا رسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں شامل فرما لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عکاشہ تم سے سبقت لے گیا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

80 / 10. عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَکَا إِلَيْهِ الْفَاقَةَ ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَکَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيْلِ فَقَالَ يَا عَدِيُّ : هَلْ رَأَيْتَ الْحِيْرَةَ قُلْتُ : لَمْ أَرَهَا وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا قَالَ : فَإِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اﷲَ قُلْتُ : فِيْمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّيئٍ الَّذِيْنَ قَدْ سَعَّرُوا الْبِـلَادَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ کُنُوْزُ کِسْرَی قُلْتُ : کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ؟ قَالَ : کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَـلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ … قَالَ عَدِيٌّ : فَرَأَيْتُ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّی تَطُوْفَ بِالْکَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اﷲَ وَکُنْتُ فِيْمَنِ افْتَتَحَ کُنُوْزَ کِسْرَی بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِکُمْ حَيَاةٌ لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم : يُخْرِجُ مِلْئَ کَفِّهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

80 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1316، الرقم : 3400، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 96، الرقم : 91، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 225، الرقم : 9911، والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 83.

’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر فاقہ کی شکایت کی پھر دوسرا شخص آیا اور ڈاکہ زنی کا شکوہ کیا۔ (ان کے مسائل حل کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عدی! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھ لوگے کہ ایک بڑھیا حیرہ سے چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے خدا کے سوا کسی دوسرے کا خوف نہیں ہو گا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اس وقت قبیلہ طے کے ڈاکوؤں کو کیا ہو گا جنہوں نے آج شہروں میں آگ لگا رکھی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو ضرور تم کسریٰ کے خزانوں پر قابض ہو جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا : کیا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں کسریٰ بن ہرمز کے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھو گے کہ آدمی ہتھیلی کے برابر سونا لے کر نکلے گا یا چاندی لے کر تلاش کرے گا کہ کوئی اسے قبول کرے لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ ۔۔۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھ لیا کہ ایک بڑھیا نے حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ تھا اور میں ان حضرات میں خود شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو فتح کیا تھا اور میری عمر نے اگر وفا کی تو حضور نبی اکرم ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ایک آدمی ہتھیلی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا (لیکن اسے لینے والا کوئی نہیں ہو گا)، ضرور اسے بھی دیکھ لوں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

81 / 11. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ رضی الله عنه قَالَ : سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ : يَا حَکِيْمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُوْرِکَ لَهُ فِيْهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَکْ لَهُ فِيْهِ کَالَّذِي يَأکُلُ وَلَا يَشْبَعُ. الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَی. قَالَ حَکِيْمٌ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَکَ شَيْئًا حَتَّی أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه يَدْعُوْ حَکِيْمًا إِلَی الْعَطَائِ فَيَأبَی أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رضی الله عنه دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَی أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ : إِنِّي أُشْهِدُکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ، عَلَی حَکِيْمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيئِ فَيَأبَی أَنْ يَأخُذَهُ فَلَمْ يَرْزَأ حَکِيْمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی تُوُفِّيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

81 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الاستعفاف عن المسألة، 2 / 535، الرقم : 1403، وفي کتاب : الوصايا، باب : تأويل قول اﷲ تعالی : من بعد وصية يوصي بها أو دين، 3 / 1010، الرقم : 2599، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : بيان أن اليد العليا خير من اليد السفلی، 2 / 717، الرقم : 1035، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (29)، 4 / 641، الرقم : 2463، والنسائي في السنن، کتاب : الزکاة، باب : اليد العليا، 5 / 60، الرقم : 2531، والدارمي في السنن، 1 / 475، الرقم : 1650.

’’حضرت عُروہ بن زُبیر اور سعید بن مسیب رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر عطا فرمایا میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر عطا فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حکیم! یہ مال سرسبز اور شیریں ہے۔ جو اسے نفس کی لا تعلقی سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے قلبی لالچ سے لیتا ہے تو اس میں اسے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہے کہ کھائے اور سیر نہ ہو۔ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ دنیا کو خیر باد کہہ دوں پھر (اپنے دورِ خلافت میں) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت حکیم کو مال دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے گروہ مسلمین! میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس مال فئی سے حضرت حکیم کو ان کا حق دیا لیکن انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سے بھی مال لینا قبول نہیں کیا یہاں تک کہ (اسی حال میں) وفات پا گئے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

82 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ : {اَلنَّبِيُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} الأحزاب، 33 : 6 فَأَيُمَا مُؤْمِنٍ تَرَکَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ کَانُوْا، فَإِنْ تَرَکَ دَيْنًا، أَوْ ضِيَاعًا فَلْيَأْتِنِي وَأَنَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

82 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : التفسير / الأحزاب، باب : النبيّ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، 4 / 1795، الرقم : 4503، والدارمی فی السنن، 2 / 341، الرقم : 2594، والبيهقی فی السنن الکبری، 6 / 238، الرقم : 12148.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘ "الاحزاب، 33 : 6" سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا خاندان ہو گا وہی اس کا وارث ہو گا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

83 / 13. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا : لَيْسَ عِنْدَنَا مَائٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

83 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3383، وفی کتاب : المغازی، باب : غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3921.3923، وفی کتاب : الأشربة، باب : شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم : 5316، وفی کتاب : التفسير / الفتح، باب : إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4 / 1831، الرقم : 4560، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 329، الرقم : 14562، وابن خزيمة فی الصحيح، 1 / 65، الرقم : 125، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 480، الرقم : 6542، والدارمی فی السنن، 1 / 21، الرقم : 27، وأبويعلی فی المسند، 4 / 82، الرقم : 2107، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 / 272، وابن جعد فی المسند، 1 / 29، الرقم : 82.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا : لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

84 / 14. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ، فَنَزَحْنَاهَا حَتَّی لَمْ نَتْرُکْ فِيْهَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی شَفِيْرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَائٍ، فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ، فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّی رَوِيْنَا، وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

84 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1311، الرقم : 3384.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے) سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا : اس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

85 / 15. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْزِعُوْهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

85 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة فی الإسلام، 3 / 1312، الرقم : 3387، وفی کتاب : البيوع، باب : الکيل علی البائع والمعطي، 2 / 748، الرقم : 2020، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 365، الرقم : 14977.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ) وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ سو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اس کی ادائیگی کے لئے) کچھ بھی نہیں ماسوائے جو کھجور کے (چند) درختوں سے پیداوار حاصل ہوتی ہے اور ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا : قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاؤ سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

86 / 16. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيِّ أَنَّهُ أَتَی عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ : فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُوْنَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوْا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَا فِيْهِمْ قَالَ : أَنْتِ فِيْهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُوْنَ مَدِيْنَةَ قَيْصَرَ مَغْفُوْرٌ لَهُمْ فَقُلْتُ : أَنَا فِيْهِمْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : لَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

86 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : ما قيل في قتال الروم، 3 / 1069، الرقم : 2766، والطبراني في المعجم الکبير، 25 / 133، الرقم : 323، وفي المعجم الأوسط، 7 / 48، الرقم : 6812، وفي مسند الشامين، 1 / 257، الرقم : 444. 445، والحاکم في المستدرک، 4 / 599، الرقم : 8668، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 662، الرقم : 284، والشيباني في الآحاد والمثاني، 6 / 98، الرقم : 3313، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 62، 5 / 156، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 41، الرقم : 92، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 10 / 93.

’’عمیر بن اسود عنسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ ساحل حمص پر اپنے مکان میں فروکش تھے ان کے ساتھ (ان کی اہلیہ) حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا بھی تھیں۔ حضرت عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت ام حرام کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے جو گروہ سب سے پہلے بحری جہاد کرے گا، ان کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ حضرت ام حرام رضی اﷲ عنہا عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہاں تم ان میں ہو۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر روم کے پایہ تخت میں جنگ کرے گا اس کی مغفرت فرما دی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

87 / 17. عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي : سَلْ، فَقُلْتُ : أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ : أَوْ غَيْرَ ذَلِکَ؟ قُلْتُ : هُوَ ذَاکَ، قَالَ : فَأَعِنِّي عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

87 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : فضل السجود والحث عليه، 1 / 353، الرقم : 489، وأبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : وقت قيام النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الليل، 2 / 35، الرقم : 1320، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : فضل السجود، 2 / 227، الرقم : 1138، وفي السنن الکبری، 1 / 242، الرقم : 724، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 59، والطبراني في المعجم الکبير،5 / 56، الرقم : 4570، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 486، الرقم : 4344، والمنذري فی الترغيب والترهيب، 1 / 152، الرقم : 564 .

’’حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لئے پانی لاتا ایک مرتبہ (میری خدمت سے خوش ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : ’’مانگ کیا مانگتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میں آپ سے جنت میں بھی آپ کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘ میں نے عرض کیا : مجھے یہی کافی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (جاؤ جنت تو عطا کر دی اب) تم بھی کثرتِ سجود سے اپنے معاملہ میں میری مدد کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

88 / 18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ : خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِکَ التَّمْرِ کَذَا وَکَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لاَ يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّی کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ رضی الله عنه فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

88 : أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب لأبي هريرة رضی الله عنه، 5 / 685، الرقم : 3839، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 352، الرقم : 8613، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 467، الرقم : 6532، وابن راهويه فی المسند، 1 / 75، الرقم : 3، والهيثمی فی موارد الظمآن، 1 / 527، الرقم : 2150، وابن کثير فی البداية والنهاية، 6 / 117، والذهبی في سير أعلام النبلاء، 2 / 231، والسيوطی فی الخصائص الکبری، 2 / 85.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا : انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ دو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی کھجوریں ختم نہ ہوئیں) یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے، اور امام ابو عیسی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

89 / 19. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَبُوْبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ.

89 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب عبد الرحمن بن عوف الزهري ص، 5 / 647، الرقم : 3747، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضائل العشرة ث، 1 / 48، الرقم : 133، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 56، الرقم : 8194، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 193، الرقم : 1675، و في فضائل الصحابة، 1 / 229، الرقم : 278، وابن حبان في الصحيح، 15 / 463، الرقم : 7002، وأبو يعلی في المسند، 2 / 147، الرقم : 835، و خيثمة بن سليمان من حديث خيثمة، 1 / 93، 95.

’’حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر جنتی ہے، عمر جنتی ہے، عبد الرحمن بن عوف جنتی ہے، سعد جنتی ہے، سعید (بن زید) جنتی ہے اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی نے اور ابن ماجہ نے اسے سعید بن زید سے روایت کیا ہے۔

90 / 20. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ : أَبُوبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، وَأَبُوعُبَيْدَةَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍث، قَالَ : فَعَدَّ هَوُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَکَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَوْمُ : نَنْشُدُکَ بِاﷲِ يَا أَبَا الْأَعْوَرِ، مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُوْنِي بِاﷲِ أَبُوْ الْأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هُوَ أَصَحُّ.

90 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنه، 5 / 648، الرقم : 3748، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 56، الرقم : 8195، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم : 1631، وابن حبان في الصحيح، 15 / 463، الرقم : 7002، والحاکم في المستدرک، 3 / 498، الرقم : 5858، والشاشي في المسند، 1 / 247، الرقم : 210، والطيالسي في المسند، 1 / 32، الرقم : 236، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 332، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 102، الرقم : 903.

’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، (اور وہ یہ ہیں) ابوبکر، عمر، عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبدالرحمن، ابو عبیدہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم جنتی ہیں، راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہو گئے۔ لوگوں نے کہا : ابو اعور! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں (بتائیے) دسواں آدمی کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دی ہے، (دسواں) ابو اعور (یعنی سعید بن زید خود بھی) جنتی ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ابوعیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث اصح (صحیح ترین) ہے۔

91 / 21. عَنِ الزُّبَيْرِ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ فَنَهَضَ إِلَی صَخْرَةٍ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ تَحْتَهُ طَلْحَةَ فَصَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی اسْتَوَی عَلَی الصَّخْرَةِ فَقَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَوْجَبَ طَلْحَةُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

91 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب طلحة بن عبيد اﷲ، 5 / 643، الرقم : 3738، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 165، الرقم : 1417، وابن حبان في الصحيح، 15 / 436، الرقم : 6979، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 376، الرقم : 32160، والحاکم في المستدرک، 3 / 328، 421، الرقم : 4312، 5602.5623، والشاشي في المسند، 1 / 94، الرقم : 31، وأبو يعلی في المسند، 2 / 33، الرقم : 670، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 370، الرقم : 12878، 9 / 46، والبزار في المسند، 3 / 188، الرقم : 972، وابن المبارک في الجهاد، 1 / 80، الرقم : 93.

’’حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگِ اُحد کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو زرہیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن نہ چڑھ سکے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو نیچے بٹھا کر اوپر چڑھے، یہاں تک کہ چٹان پر تشریف فرما ہوئے، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے (اپنے لیے جنت) واجب کر لی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام ابوعیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

92 / 22. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ : طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالْبَزَّارُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

92 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب طلحة بن عبيد اﷲ، 5 / 644، الرقم : 3741، والحاکم في المستدرک، 3 / 409، الرقم : 5562، وأبويعلی في المسند، 1 / 395، الرقم : 515، والبزار في المسند، 3 / 60، الرقم : 818، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 560.564، الرقم : 1309، 1320، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 453، الرقم : 3949.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے کانوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ مبارک سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : طلحہ اور زبیر جنت میں میرے پڑوسی ہوں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم، ابویعلی اور بزار نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

93 / 23. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ رضی الله عنه أَنَّهُ کَانَ فِي الْمَسْجِدِ فَذَکَرَ رَجُلٌ عَلِيًا عليه السلام فَقَامَ سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ رضی الله عنه فَقَالَ : أَشْهَدُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُوْلُ : عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ : اَلنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُوْبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ وَلَو شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ قَالَ : فَقَالُوْا : مَنْ هُوَ؟ فَسَکَتَ. قَالَ : فَقَالُوْا : مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ : هُوَ سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ. رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

93 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الخلفائ، 4 / 211، الرقم : 4649، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم : 1631، وابن حبان في الصحيح، 15 / 454، الرقم : 6993، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 351، الرقم : 31953، والشاشي في المسند، 1 / 235، الرقم : 192، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 339، الرقم : 4374.

’’حضرت عبد الرحمن بن اخنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ مسجد میں تھے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا (غلط انداز سے) تذکرہ کیا تو حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : دس آدمی جنتی ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سب سے پہلے) جنتی ہیں اور ابوبکر جنتی ہیں، اور عمر جنتی ہیں، اور عثمان جنتی ہیں، اور علی جنتی ہیں، اور طلحہ جنتی ہیں، اور زبیر بن عوام جنتی ہیں، اور سعد بن مالک جنتی ہیں، اور عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں اور اگر میں چاہوں تو یقینا دسویں آدمی کا نام لے سکتا ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں پس لوگوں نے عرض کیا : دسواں آدمی کون ہے؟ وہ خاموش رہے، راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے دوبارہ عرض کیا : دسواں آدمی کون ہے؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ سعید بن زید ہے (یعنی خود اپنا نام لیا)۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

94 / 24. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ رضی الله عنه قَالَ : شَهِدْتُ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رضی الله عنه عِنْدَ الْمُغِيْرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضی الله عنه فَذَکَرَ مِنْ عَلِيٍّ شَيْئًا. فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : عَشَرَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ فِي الْجَنَّةِ : أَبُوْبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرٍو فِي الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.

94 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5 / 60، الرقم : 8210، وفي فضائل الصحابة، 1269، 1274، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 350، الرقم : 2201، وفي المعجم الصغير، 1 / 59، الرقم : 62، والحميدي في المسند، 1 / 45، الرقم : 84، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 / 215، الرقم : 94.

’’حضرت عبد الرحمن بن اخنس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ہاں دیکھا، پس انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی چیز کا تذکرہ کیا تو حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا : قریش کے دس آدمی جنتی ہیں : ابو بکر جنتی ہے، اور عمر جنتی ہے، اور علی جنتی ہے، اور عثمان جنتی ہے، اور طلحہ جنتی ہے اور زبیر جنتی ہے اور عبد الرحمن جنتی ہے اور سعد بن ابی وقاص جنتی ہے اور سعید بن زید بن عمرو جنتی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا اور امام طبرانی نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے۔

95 / 25. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ رَوَاحَةَ : لَوْحَرَکْتَ بِنَا الرِّکَابَ فَقَالَ : قَدْ تَرَکْتُ قَوْلِي. قَالَ لَهُ عُمَرُ رضی الله عنه : أَسْمِعْ وَأَطِعْ قَالَ :

اَللَّهُمَّ لَولَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا

وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا

فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا

وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا

فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبََةَ وَابْنُ سَعْدٍ.

95 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5 / 69، الرقم : 8250، وفي فضائل الصحابة، 1 / 44، الرقم : 146، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 395، الرقم : 32327، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 527، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 381، الرقم : 264، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 146، الرقم : 389، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 28 / 104، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 236.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا : کاش تم (اپنے اشعار کے ساتھ) ہماری سواریوں کو (تیزی سے) حرکت دیتے۔ حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سناؤ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کی اطاعت بجا لاؤ۔ انہوں نے شعر سنائے۔

’’اے اﷲ اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت (بھی) نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب ہم دشمن سے نبرد آزما ہوں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔‘‘

پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (اس کے لئے جنت) واجب ہو گئی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

96 / 26. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهُ عَلَی وَجْنَتِهِ، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : لاَ، فَدَعَا بِهِ، فَغَمَزَ حَدَقَتَهُ بِرَاحَتِهِ، فَکَانَ لاَ يُدْرَی أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی.

96 : أخرجه أبو يعلی فی المسند،3 / 120، الرقم : 1549، وأبوعوانة فی المسند، 4 / 348، الرقم : 6929، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 187، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 2 / 333، والعسقلانی فی تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم : 814، وفی الإصابة، 4 / 208، الرقم : 4888، وابن قانع فی معجم الصحابة، 2 / 361، وابن کثير فی البداية والنهاية، 3 / 291.

’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

97 / 27. عَنْ أُمِّ حَرَامٍ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم غَزَاةَ الْبَحْرِ فَقَالَ : لِلْمَائِدِ أَجْرُ شَهِيْدٍ وَلِلْغَرِيْقِ أَجْرُ شَهِيْدَيْنِ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ : اَللَّهُمَّ اجْعَلْهَا مِنْهُمْ. فَرَکِبَتِ الْبَحْرَ فَلَمَّا خَرَجَتْ رَکِبَتْ دَابَّةً فَسَقَطَتْ فَمَا تَتْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحُمَيْدِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

97 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 133، الرقم : 324، والحميدي في المسند، 1 / 169، الرقم : 349، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 664، الرقم : 286، والشيباني في الآحاد والمثاني، 6 / 100، الرقم : 3315.

’’حضرت اُمّ حرام رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمندر میں جہاد کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مائد (یعنی وہ شخص جو سمندری سفر میں سمندر کے پانی کی بدبو اور تلاطم امواج کی وجہ سے متلاہٹ اور درد سر میں مبتلا ہو کر) شہید ہو جائے اس کے لئے ایک ثواب اور غریق (سمندر میں ڈوب کر فوت ہوجانے والے) کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! اسے بھی ان میں سے بنا۔ پس وہ کشتی پر سوار ہوئیں، اور جب سمندر سے باہر آئیں تو اپنی سواری پر سوار ہوتے ہوئے اس سے گر کر فوت ہو گئیں۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی، حمیدی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved