بد انتظامی یا عذاب الٰہی! نجات کیسے ممکن ہے؟

بڑی قدرتی آفات ماہ رمضان المبارک میں ہی کیوں؟

بڑی قدرتی آفات ماہ رمضان المبارک میں ہی کیوں؟

اس موقع پر یہ امر قابل غور ہے کہ تمام بڑی بڑی قدرتی آفات ماہ رمضان المبارک میں ہی کیوں آتی ہیں؟

  • 2005ء کا زلزلہ : آغاز ماہِ رمضان المبارک میں
  • 2010ء کا سیلاب : آغاز ماہ رمضان المبارک میں
  • 2011ء کا سیلاب : آغاز ماہ رمضان المبارک میں، اور
  • حالیہ ڈینگی بخار کی وباء : آغاز ماہ رمضان المبارک میں

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ تمام مشکلات اور آفات ہم پر رمضان المبارک میں ہی کیوں آتی رہی ہیں؟

یاد کیجئے، رمضان ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتابِ ہدایت بنی نوع انسان کے لیے نازل کی گئی، جس میں خالقِ کائنات نے ہمیں زندگی کے ہر پہلو پر رہنما اُصول عطا فرما دیے۔ اِسی ماہ مقدس کی ستائیسویں تاریخ کو برصغیر کے مسلمانوں کو جبر و اِستبداد سے نجات دے کر ایک آزاد اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ عطا فرمایا تاکہ ہم کتابِ ہدایت کو اِس آزاد وطن کا دستور اور نظامِ حیات قرار دے کر، اس کی رہنمائی میں، اپنے ملک کو اَمن و سلامتی اور خیر و برکت کا گہوارہ بنا سکیں اور اُس کے شکر گزار بندے بن جائیں۔ لیکن افسوس! ہم نے اس نعمتِ آزادی اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کی قدر نہ کی اور اﷲ رب العزت سے بغاوت اور نا شکری کا راستہ اختیار کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو قوم ناشکر گذار ہو جاتی ہے اُس پر معاشی بدحالی اور خوف مسلط کر دیے جاتے ہیں، جیسا کہ سورۃ النحل میں فرمایا :

وَضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا قَرْيَةً کَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اﷲِ فَاَذَاقَهَا اﷲُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا يَصْنَعُوْنَo (النحل، 16 : 112)

’’اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھےo‘‘

ہمارا وطن عزیز، پاکستان اِس وقت جن آفاتِ ارضی و سماوی میں گِھر چکا ہے یقینا یہ اللہ تعالیٰ کے اَحکامات سے سرکشی اور اُس کی نعمتوں اور اِحسانات کی ناشکری کا نتیجہ ہے۔ اِس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اُس کے شکر گذار اور مومن بندے بن جائیں۔ رب العزت کا ارشاد ہے :

مَا يَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ. (النساء، 4 : 147)

’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved