Arbain: Asma wa Sifat e Elahiya

اللہ تعالیٰ کی شان قدرت

شَأْنُ قُدْرَتِهِ تَعَالٰی

اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت

اَلْقُرْآن

  1. يَکَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَهُم ط کُلَّمَآ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِ قلا وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْا ط وَلَوْ شَآءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِم ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo

(البقرة، 2/ 20)

یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لیے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کرلیتا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

  1. اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِيْ تَجْرِيْ فِی الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُوْنَo

(البقرة، 2/ 164)

بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لیے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔

  1. قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ط بِيَدِکَ الْخَيْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo تُوْلِجُ الَّيْلَ فِی النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍo

(آل عمران، 3/ 26-27)

(اے حبیب! یوں) عرض کیجیے: اے اللہ! سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بے شک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔ تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اورمُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے (اپنی نوازشات سے) بہرہ اندوز کرتا ہے۔

  1. قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰی اَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ يَلْبِسَکُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ط اُنْظُرْ کَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَo

(الانعام، 6/ 65)

فرما دیجیے: وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے (خواہ) تمہارے اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تمہیں فرقہ فرقہ کرکے آپس میں بھڑائے اور تم میں سے بعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھادے۔ دیکھئے! ہم کس کس طرح آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ یہ (لوگ) سمجھ سکیں۔

  1. اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰی اَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ ط فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا کُفُوْرًاo

(بني إسرائيل، 17/ 99)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اس بات پر (بھی) قادر ہے کہ وہ ان لوگو ں کی مثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے انکار کر دیا ہے مگر (یہ) ناشکری ہے۔

  1. وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ط وَکَانَ اللهُ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ مُّقْتَدِرًاo

(الکهف، 18/ 45)

اور آپ انہیں دنیوی زندگی کی مثال (بھی) بیان کیجیے (جو) اس پانی جیسی ہے جسے ہم نے آسمان کی طرف سے اتارا تو اس کے باعث زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا پھر وہ سوکھی گھاس کا چورا بن گیا جسے ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں، اور اللہ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے۔

  1. قُلْ مَنْم بِيَدِهِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَيْئٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

(المومنون، 23/ 88)

آپ (ان سے) فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے دستِ قدرت میں ہر چیز کی کامل ملکیت ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور جس کے خلاف (کوئی) پناہ نہیں دی جا سکتی، اگر تم (کچھ) جانتے ہو؟

  1. قُلْ سِيْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللهُ يُنْشِئُ النَّشْةَ الْاٰخِرَةَ ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo

(العنکبوت، 29/ 20)

فرمادیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لیے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر(ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشوونما دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔

  1. اَلْحَمْدُ ِللهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰئِکَةِ رُسُلًا اُولِيْ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ط يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo مَا يَفْتَحِ اللهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَـلَا مُمْسِکَ لَهَا ج وَمَا يُمْسِکْ فَـلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْم بَعْدِهِ ط وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo

(فاطر، 35/ 1-2)

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین (کی تمام وسعتوں) کا پیدا فرمانے والا ہے، فرشتوں کو جو دو دو اور تین تین اور چار چار پَروں والے ہیں، قاصد بنانے والا ہے، اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ اللہ انسانوں کے لیے (اپنے خزانہ) رحمت سے جو کچھ کھول دے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے، اور جو روک لے تو اس کے بعد کوئی اسے چھوڑنے والا نہیں، اور وہی غالب ہے بڑی حکمت والا ہے۔

  1. وَمِنْ اٰيٰـتِهِ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍ ط وَهُوَ عَلٰی جَمْعِهِمْ اِذَا يَشَآءُ قَدِيْرٌo

(الشوریٰ، 42/ 29)

اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور اُن چلنے والے (جانداروں) کا (پیدا کرنا) بھی جو اُس نے اِن میں پھیلا دیے ہیں، اور وہ اِن (سب) کے جمع کرنے پر بھی جب چاہے گا بڑا قادر ہے۔

  1. اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّنَهَرٍo فِيْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيْکٍ مُّقْتَدِرٍo

(القمر، 54/ 54-55)

بے شک پرہیزگار جنتوں اور نہروں میں (لطف اندوز) ہوں گےo پاکیزہ مجالس میں (حقیقی) اقتدار کے مالک بادشاہ کی خاص قربت میں (بیٹھے) ہوں گے۔

  1. سَبَّحَ ِللهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج يُحْی وَيُمِيْتُ ج وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ج وَهُوَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌo

(الحديد، 57/ 1-3)

اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہی بڑی عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہی جِلاتا اور مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

  1. اَلَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط مَا تَرٰی فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍo ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌo

(الملک، 67/ 3-4)

جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو۔ تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی۔

اَلْحَدِيْث

  1. عَنْ مُغِيْرَةَ بْنِ شُعْبَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْلُ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ مَکْتُوبَةٍ. (وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْلُ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ إِذَا سَلَّمَ. وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: کَانَ إِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ وَسَلَّمَ، قَالَ:) لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ قَدِيْرٌ. اَللَّهُمَّ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب الذکر بعد الصلاة، 1/ 289، الرقم/ 808، وايضًا في کتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلاة، 5/ 2332، الرقم/ 5971، وايضًا في کتاب القدر، باب لا مانع لما أعطی اللہ، 6/ 2439، الرقم/ 6341، ومسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب الذکر بعد الصلاة وبيان صفة، 1/ 414، الرقم/ 593، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 97، 245-247، 250، 254-255، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل إذا سلم، 2/ 82، الرقم/ 1505، والترمذي نحوه في السنن، کتاب الصلاة، باب ما يقول إذا أسلم من الصلاة، 2/ 96، الرقم/ 299.

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یوں کہا کرتے تھے۔ بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یوں کہا کرتے تھے، اور مسلم کی روایت کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیرتے تو اس کے بعد یہ کلمات کہتے: {لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ قَدِيْرٌ. اَللَّهُمَّ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ} ’اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جسے تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیری گرفت سے بچانے کے لیے دولت نفع نہیں دے گی‘۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَةَ فِي الْامُوْرِ کُلِّهَا کَمَا يُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُوْلُ: إِذَا هَمَّ اَحَدُکُمْ بِالْاَمْرِ فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيْضَةِ، ثُمَّ لْيَقُلْ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي اَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ. فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللّٰهُمَّ، إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ خَيْرٌ لِيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ. اَوْ قَالَ: عَاجِلِ اَمْرِيْ وَآجِلِهِ، فَاقْدُرْهُ لِيْ وَيَسِّرْهُ لِيْ ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِيْهِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِيْ فِيْ دِيْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِيْ. اَوْ قَالَ: فِيْ عَاجِلِ اَمْرِيْ وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ. قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

اخرجه البخاري في الصحيح، ابواب التطوع، باب ما جاء في التطوع مثنی مثنی، 1/ 391، الرقم/ 1113، وايضًا في کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارة، 5/ 2345، الرقم/ 6019، وابو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في الاستخارة، 2/ 89، الرقم/ 1538، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، 2/ 345، الرقم/ 480، والنسائي في السنن، کتاب النکاح، باب کيف الاستخارة، 6/ 80، الرقم: 3253، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، 1/ 440، الرقم/ 1383.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم اس طرح دیا کرتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے: جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل نماز ادا کرے، پھر یوں کہے: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي اَسْتَخِيْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَاَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيْمِ. فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ. اَللّٰهُمَّ، إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ اَمْرِي. اَوْ قَالَ: عَاجِلِ اَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيْهِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ هٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِيْنِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ اَمْرِي. (اَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ اَمْرِي وَآجِلِهِ)، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِي} ’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے طاقت چاہتا ہوں اور تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو چھپی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اُخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر فرما دے اور اسے میرے لیے آسان کر دے، پھر تُو اس میں مجھے برکت بھی عطا کر دے اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، میری معاش، میرے اخروی معاملے یا انجام کار میں میرے لیے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور فرما اور میرے لیے بھلائی کو مقرر فرما خواہ وہ کہیں بھی ہو۔ پھر مجھے اس بھلائی سے راضی بھی فرما دے‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور (پھر) اپنی حاجت کا نام لے۔

اِسے امام بخاری، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيِّ رضي الله عنه، اَنَّهُ شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَجَعًا، يَجِدُهُ فِي جَسَدِهِ مُنْذُ اَسْلَمَ۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : ضَعْ يَدَکَ عَلَی الَّذِي تَاَلَّمَ مِنْ جَسَدِکَ وَقُلْ: بِاسْمِ اللهِ ثَـلَاثًا وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ: اَعُوْذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاحَاذِرُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب استحباب وضع يده علی موضع الالم مع الدعاء، 4/ 1728، الرقم/ 2202، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 21، 217، الرقم/ 16312، 17932، وابو داود في السنن، کتاب الطب، باب کيف الرقی، 4/ 11، الرقم/ 3891، والترمذي في السنن، کتاب الطب، باب (29)، 4/ 408، الرقم/ 2080، وايضًا فيکتاب الدعوات، باب في الرقية إذا اشتکی، 5/ 574، الرقم/ 3588، وابن ماجه في السنن، کتاب الطب، باب ما عوّذ به النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما عوذ به، 2/ 1163، الرقم/ 3522.

حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں اپنی تکلیف بیان کی کہ جب سے وہ اسلام لائے ہیں، ان کے جسم میں درد رہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے جسم میں جہاں درد ہے اس جگہ ہاتھ رکھو اور تین بار بسم اللہ اور سات بار(یہ کلمات) کہو: {اَعُوْذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاحَاذِرُ} ’میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی قدرت سے (ہر) اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کا دکھ میں اٹھا رہا ہوں اور جس (کے لاحق ہونے) سے میں ڈرتا ہوں‘۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود، ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَالَ اللهُ: يَسُبُّ بَنُوْ آدَمَ الدَّهْرَ وَاَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الادب، باب لا تسبوا الدهر، 5/ 2286، الرقم/ 5827، ومسلم في الصحيح، کتاب الالفاظ من الادب وغیرها، باب النهي عن سب الدهر، 4/ 1762، الرقم/ 2246، وابن حبان في الصحيح، 13/ 22، الرقم/ 5714، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 457، الرقم/ 11486.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آدم کی اولاد زمانے کو گالیاں دیتی ہے، حالانکہ میں زمانہ (کا خالق اور مدبر) ہوں، رات اور دن میرے قبضہ قدرت میں ہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُوْلُ: يَاخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَاَرْضَهُ بِيَدِهِ، وَقَبَضَ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا، ثُمَّ يَقُوْلُ: اَنَا الْجَبَّارُ، اَيْنَ الْجَبَّارُوْنَ؟ اَيْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ؟ قَالَ: وَيَتَمَيَلُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ يَمِيْنِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّکُ مِنْ اَسْفَلِ شَيئٍ مِنْهُ، حَتّٰی إِنِّي اَقُوْلُ اَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالنَّسَائِيُّ.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، 4/ 2148، الرقم/ 2788، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فيما انکرت الجهمية، 1/ 71، الرقم/ 198، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 406، الرقم/ 7709، وابن حبان في الصحيح، 16/ 316، الرقم/ 7324.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو قیامت کے دن اپنے دستِ قدرت میں لے گا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (صحابہ کرام l کو سمجھانے کے لیے) اپنا دست مبارک بند کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے کبھی کھولنے اور کبھی بند کرنے لگے، (پھر فرمایا:) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، آج دنیا کے جابر اور متکبر (لوگ) کہاں ہیں؟ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (یہ بیان کرتے ہوئے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی اپنے دائیں طرف جھکتے اور کبھی بائیں طرف، میں نے منبر کو دیکھا تو وہ نیچے سے ہل رہا تھا۔ حتیٰ کہ مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت کہیں گر نہ جائے۔

اِسے امام مسلم نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ سے اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: اَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ قُلُوْبَ بَنِي آدَمَ کُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ، صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَزَّارُ.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب تصريف اللہ تعالی القلوب کيف شاء، 4/ 2045، الرقم/ 2654، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 168، 173، الرقم/ 6569، 6610، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 414، 443، الرقم/ 7737-7739، 7861.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تمام بنی آدم کے دل (اللہ) رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک ہی دل کی مانند ہیں، وہ جس طرف چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: {اَللّٰهُمَّ، مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ} ’اے اللہ! اے دلوں کے پھیرنے والے (ربّ)! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔‘

اِسے امام مسلم، احمد، نسائی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved