Arbain: Tafseel e Iman ka Bayan

رسل عظام اور انبیاء علیہ السلام پر ایمان لانا

اَلإِيْمَانُ بِالرُّسُلِ وَالأَنْبِيَاءِ عليهم السلام

الْقُرْآن

  1. اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓـئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ قف لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَيْکَ الْمَصِيْرُo

(البقرة، 2/ 285)

(وہ) رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں: ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔

  1. اِنَّ اللہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰـلَمِيْنَo ذُرِّيَّةً م بَعْضُهَا مِنْم بَعْضٍ ط وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo

(آل عمران، 3/ 33-34)

بے شک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔ یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

  1. وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ط قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِيْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَo

(آل عمران، 3/ 81)

اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔

  1. فَـاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِهِ ج وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo

(آل عمران، 3/ 179)

سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔

  1. يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَمَنْ يَّکْفُرْ باللہِ وَمَلٰٓئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِيْدًاo

(النساء، 4/ 136)

اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بے شک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا۔

  1. وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ج فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُوْنَo

(الأنعام، 6/ 48)

اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے مگر خوش خبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے بنا کر، سو جو شخص ایمان لے آیا اور (عملاً) درست ہوگیا تو ان پرنہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

  1. وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰی قَوْمِهِ ط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ط اِنَّ رَبَّکَ حَکِيْمٌ عَلِيْمٌo وَوَهَبْنَا لَهُٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ط کُلاًّ هَدَيْنَاج وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاؤدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِيْنَo وَزَکَرِيَّا وَيَحْيٰی وَعِيْسٰی وَاِلْيَاسَ ط کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا ط وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰـلَمِيْنَo وَمِنْ اٰبَآئِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ج وَاجْتَبَيْنٰهُمْ وَهَدَيْنٰهُمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo ذٰلِکَ هُدَی اللہ يَهْدِيْ بِهِ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ ط وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo اُولٰٓـئِکَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَج فَاِنْ يَّکْفُرْ بِهَا ھٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِهَا بِکٰـفِرِيْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ هَدَی اللہُ فَبِهُدٰهُمُ اقْتَدِهْ ط قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ط اِنْ هُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِيْنَo

(الأنعام، 6/ 83-90)

اور یہی ہماری (توحید کی) دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی (مخالف) قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔ اور ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو اسحاق اور یعقوب (بیٹا اور پوتا عليهما السلام) عطا کیے، ہم نے (ان) سب کو ہدایت سے نوازا اور ہم نے (ان سے) پہلے نوح (علیہ السلام) کو (بھی) ہدایت سے نوازا تھا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون (عليهم السلام کو بھی ہدایت عطافرمائی تھی)، اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس (عليهم السلام کو بھی ہدایت بخشی)۔ یہ سب نیکو کار (قربت اور حضوری والے) لوگ تھے۔ اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (عليهم السلام کوبھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا)، اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے)تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی۔ اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمادی تھی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے، اور اگر (بالفرض) یہ لوگ شرک کرتے تو ان سے وہ سارے اعمالِ (خیر) ضب ط (یعنی نیست و نابود) ہوجاتے جو وہ انجام دیتے تھے۔ (یہی) وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمِ (شریعت) اور نبوّت عطا فرمائی تھی۔ پھر اگر یہ لوگ (یعنی کفّار) ان باتوں سے انکار کردیں تو بے شک ہم نے ان (باتوں) پر (ایمان لانے کے لیے) ایسی قوم کو مقرر کردیا ہے جو ان سے انکار کرنے والے نہیں (ہوں گے)۔ (یہی) وہ لوگ (یعنی پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے پس (اے رسولِ آخر الزمان!) آپ ان کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کرکے ان) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں ان تمام انبیاء و رسل کے فضائل و کمالات یکجا ہوجائیں)، آپ فرما دیجیے: (اے لوگو!) میں تم سے اس (ہدایت کی فراہمی) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ توصرف جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔

  1. قَالَ يٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَيْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِکَلَامِيْ صل فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِيْنَo

(الأعراف، 7/ 144)

ارشاد ہوا: اے موسیٰ! بے شک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ۔

  1. يٰٓاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهِ يُؤْتِکُمْ کِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

(الحديد،57/ 28)

اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيْدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ … وفيه:

قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ. قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ، وَمَـلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ۔ قَالَ: صَدَقْتَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبيّ صلی الله عليه وآله وسلم عن الإيمان والإسلام والإحسان وعلم السّاعة، 1/ 27، الرقم/ 50، وأيضًا في کتاب التفسير/ لقمان، باب إنّ اللہ عنده علم السّاعة، 4/ 1793، الرقم/ 4499، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1/ 36، الرقم/ 8۔9، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في وصف جبريل للنبي صلی الله عليه وآله وسلم الإيمان والإسلام، 5/ 6، الرقم/ 2601، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 222، الرقم/ 4695، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب نعت الإسلام، 8/ 97، الرقم/ 4990، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1/ 24، الرقم/ 63، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 51، الرقم/ 367، وابن خزيمة في الصحيح، 4/ 127، الرقم/ 2504، وابن حبان في الصحيح، 1/ 389، الرقم/ 168.

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے نہایت سفید تھے۔۔۔ اِس حدیث میں ہے کہ:

اس نے عرض کیا: مجھے (حقیقتِ) ایمان کے بارے میں بیان فرمائیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ وہ (سائل) عرض گزار ہوا: آپ نے سچ فرمایا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي قَـلَابَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَسْلِمْ تُسْلَمْ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہ، وَمَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ تُسْلِمَ ِﷲِ وَيُسْلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِکَ وَيَدِکَ، قَالَ: فَأَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: اَلْإِيْمَانُ قَالَ: وَمَا الْإِيْمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَبِالْبَعْثِ مِنْ بَعْدَ الْمَوْتِ.

رَوَاهُ اللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه اللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 5/ 931، الرقم/ 1683.

حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ قبیلہ اَسلم کے ایک شخص سے، اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام قبول کر لو، تم سلامتی پا جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کر دو اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اس شخص نے پوچھا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (دل سے) ایمان (لانا)، اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں، اُس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ اُٹھائے جانے پر ایمان لاؤ۔

اِسے امام لالکائی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہ، کَمِ الْأَنْبِيَاءُ؟ قَالَ: مِائَةَ أَلْفٍ وَعِشْرُوْنَ أَلْفًا، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہ، کَمِ الرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ وَثَـلَاثَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيْرًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہ، مَنْ کَانَ أَوَّلُهُمْ قَالَ: آدَمُ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہ، أَنَبِيٌّ مُرْسَلٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، خَلَقَهُ اللہُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوْحِهِ وَکَلَّمَهُ قَبْـلًا ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرْبَعَةٌ سَرْيَانِيُوْنَ: آدَمُ، وَشِيْثُ، وَأَخْنُوْخُ. وَهُوَ إِدْرِيْسُ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ. وَنُوْحٌ، وَأَرْبَعَةٌ مِنَ الْعَرَبِ: هُوْدٌ، وَشُعَيْبٌ، وَصَالِحٌ، وَنَبِيُکَ مُحَمَّدٌ ( صلی الله عليه وآله وسلم).

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2/ 76-77، الرقم/ 361، وأيضًا في الثقات، 2/ 119، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 167، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 275، 277، وذکرہ ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 586- 587، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 53.

ایک طویل روایت میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، انبیاء کرام علیہم السلام کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ بیس ہزار۔ میں نے عرض کیا: ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین سو تیرہ (افراد) کا ایک جم غفیر ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ان میں سے سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا وہ نبی مرسل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، ان میں اپنی روح پھونکی اور (سب) انسانوں سے پہلے ان سے کلام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر، چار نبی سریانی تھے، آدم علیہ السلام، شیث علیہ السلام، اخنوخ یعنی ادریس علیہ السلام اور یہ (ادریس علیہ السلام) پہلے نبی تھے جنہوں نے قلم کے ساتھ لکھا اور (چوتھے) نوح علیہ السلام۔ اور چار نبی عربی ہیں: ہود علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، صالح علیہ السلام اور تمہارے نبی محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

اِسے امام ابن حبان، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ قُرُوْنٍ، کُلُّهُمْ عَلٰی شَرِيْعَةٍ مِنَ الْحَقِّ، فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا، بَعَثَ اللہُ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَأَنْزَلَ کِتَابَهُ، فَکَانُوْا أُمَّةً وَاحِدَةً.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 480، الرقم/ 3654، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 6/ 318-319.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس نسلوں کا (ایک طویل) عرصہ ہے۔ (اس دوران) وہ (تمام لوگ) شریعتِ حق پر تھے، جب ان میں اختلافات پیدا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی، پھر وہ ایک امت ہو گئے۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عِکْرِمَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ أَقْرُنٍ، کُلُّهَا عَلَی الإْسْلَامِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 19، الرقم/ 33928.

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان دس نسلوں کا وقفہ ہے اور یہ تمام زمانے اسلام پر تھے۔

اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما فِي قَوْلِهِ: {وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ط اِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاo} (مریم، 19/ 41)، قَالَ: کَانَ الْأَنْبِيَاءُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ إِلَّا عَشْرَةٌ: نُوْحٌ، وَصَالِحٌ، وَهُوْدٌ، وَلُوْطٌ، وَشُعَيْبٌ، وَإِبْرَهِيْمُ، وَإِسْمَاعِيْلُ، وَإِسْحَاقُ، وَيَعْقُوْبُ وَمُحَمَّدٌ عَلَيْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَلَمْ يَکُنْ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَنْ لَهُ اسْمَانِ إِلَّا إِسْرَائِيْلَ وَعِيْسٰی فَإِسْرَائِيْلُ يَعْقُوْبُ وَعِيْسَی الْمَسِيْحُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإْسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 405، الرقم/ 3415، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 276، الرقم/ 11723، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 150، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 210، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 188.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان - {وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ط اِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاo} ’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے‘ - کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام بنی اسرائیل میں سے تھے سوائے دس انبیاء کرام علیہم السلام کے اور وہ یہ ہیں: حضرت نوح علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت اِبراہیم علیہ السلام، حضرت اِسماعیل علیہ السلام، حضرت اِسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اَنبیاءِ کرام علیہم السلام میں سے سوائے حضرت اسرائیل علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کسی کے دو نام نہیں تھے۔ اسرائیل علیہ السلام کا دوسرا نام یعقوب تھا اور عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا نام مسیح تھا۔

اِسے امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے، امام حاکم کہتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : صَلُّوْا عَلٰی أَنْبِيَاءِ اللہ وَرُسُلِهِ فَإِنَّ اللہَ بَعَثَهُمْ کَمَا بَعَثَنِي.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْخَطِيْبُ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 148-149، الرقم/ 131، وأيضًا في الدعوات الکبير/ 121، الرقم/ 160، والخطيب البغدادي عن أنس رضی الله عنه في تاريخ بغداد، 7/ 380، الرقم/ 3909، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 385، الرقم/ 3710، والعسقلاني في المطالب العالية، 13/ 810، الرقم/ 3334.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں پر درود بھیجا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اسی طرح رسول بنا کر بھیجا تھا جس طرح اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔

اسے امام بیہقی، خطیب بغدادی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

اَلإِيْمَانُ بِالْمَـلَائِکَةِ

{فرشتوں پر اِیمان لانا}

الْقُرْآن

  1. وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ط قَالُوٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَـآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیٓ اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَo

(البقرة، 2/ 30)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

  1. مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰٓئِکَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْکٰلَ فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِيْنَo

(البقرة، 2/ 98)

جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہوا تو یقینا اللہ (بھی ان) کافروں کا دشمن ہے۔

  1. اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓـئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ قف لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَيْکَ الْمَصِيْرُo

(البقرة، 2/ 285)

(وہ) رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں: ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔

  1. شَهِدَ اللہُ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلٰٓئِکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًام بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo

(آل عمران، 3/ 18)

اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے۔

  1. اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّکْفِيَکُمْ اَنْ يُمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰـثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُنْزَلِيْنَo بَلٰٓی لا اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا يُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَةِ مُسَوِّمِيْنَo

(آل عمران، 3/ 124-125)

جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔ ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔

  1. يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَمَنْ يَّکْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِيْدًاo

(النساء، 4/ 136)

اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بے شک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا۔

  1. وَهُوَ الْقَهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْکُمْ حَفَظَةً ط حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَo

(الأنعام، 6/ 61)

اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر (فرشتوں کو بطور) نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے (تو) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ خطا (یا کوتاہی) نہیں کرتے۔

  1. وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ج اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہ غَيْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰيٰـتِهِ تَسْتَکْبِرُوْنَo

(الأنعام، 6/ 93)

اور اگر آپ (اس وقت کا منظر) دیکھیں جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف) اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے اور (ان سے کہتے ہونگے)تم اپنی جانیں جسموں سے نکالو۔ آج تمہیں سزا میں ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں کیا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے سرکشی کیا کرتے تھے۔

  1. اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا يَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُوْنَهُ وَلَهُ يَسْجُدُوْنَo

(الأعراف، 7/ 206)

بے شک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں وہ (کبھی بھی) اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور (ہمہ وقت) اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں۔

  1. اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّيْ مُمِدُّ کُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓـئِکَةِ مُرْدِفِيْنَo

(الأنفال، 8/ 9)

(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لیے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔

  1. وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ يَتَوَفَّی الَّذِيْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ج وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِo

(الأنفال، 8/ 50)

اور اگر آپ (وہ منظر) دیکھیں (تو بڑا تعجب کریں) جب فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر (ہتھوڑے) مارتے جاتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ دوزخ کی) آگ کا عذاب چکھ لو۔

  1. لَهُ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْم بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُوْنَهُ مِنْ اَمْرِ اللہ ط اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ط وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْٓءً ا فَـلَا مَرَدَّ لَهُ ج وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهِ مِنْ وَّالٍo

(الرعد، 13/ 11)

(ہر) انسان کے لیے یکے بعد دیگرے آنے والے (فرشتے) ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لیے اللہ کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہے۔

  1. وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلٰٓـئِکَةُ مِنْ خِيْفَتِهِ ج وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيْبُ بِهَا مَنْ يَّشَآءُ وَهُمْ يُجَادِلُوْنَ فِی ﷲِ ج وَهُوَ شَدِيْدُ الْمِحَالِo

(الرعد، 13/ 13)

(بجلیوں اور بادلوں کی) گرج (یا اس پر متعین فرشتہ) اور تمام فرشتے اس کے خوف سے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں، اور وہ کڑکتی بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے گرا دیتا ہے، اور وہ (کفار قدرت کی ان نشانیوں کے باوجود) اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں، اور وہ سخت تدبیر و گرفت والا ہے۔

  1. الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰهُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ طَيِّبِيْنَ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo

(النحل، 16/ 32)

جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و طاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں، (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں: ) تم پر سلامتی ہو، تم جنت میں داخل ہو جاؤ اُن (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھے۔

  1. وَ ِﷲِ يَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّالْمَلٰٓئِکَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَکْبِرُوْنَo يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo

(النحل، 16/ 49-50)

اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتےo وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے (اسے) بجا لاتے ہیں۔

  1. اللہُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ م بَصِيْرٌo

(الحج، 22/ 75)

اللہ فرشتوں میں سے (بھی) اور انسانوں میں سے (بھی اپنا) پیغام پہنچانے والوں کو منتخب فرما لیتا ہے۔ بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔

  1. وَاِنَّهُ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo

(الشعراء، 26/ 192-194)

اور بے شک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے۔ اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے۔ آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔

  1. هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُهُ لِيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًاo

(الأحزاب، 33/ 43)

وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے، اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔

  1. اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo

(الأحزاب، 33/ 56)

بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

  1. اَلْحَمْدُ ِﷲِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ط يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ ط اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo

(فاطر، 35/ 1)

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین (کی تمام وسعتوں) کا پیدا فرمانے والا ہے، فرشتوں کو جو دو دو اور تین تین اور چار چار پَروں والے ہیں، قاصد بنانے والا ہے، اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔

  1. وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًاo فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًاo

(الصافات، 37/ 1-3)

قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی۔ پھر بادلوں کو کھینچ کرلے جانے والی یا برائیوں پر سختی سے جھڑکنے والی جماعتوں کی۔ پھر ذکر الٰہی (یا قرآن مجید) کی تلاوت کرنے والی جماعتوں کی۔

  1. وَ تَرَی الْمَلٰٓئِکَةَ حَآفِّيْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ج وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَo

(الزمر، 39/ 75)

اور (اے حبیب!) آپ فرشتوں کو عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے دیکھیں گے جو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہوں گے، اور (سب) لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کُل حمد اللہ ہی کے لائق ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

  1. اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَيْئٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَکَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِo

(المؤمن، 40/ 7)

جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں (یہ عرض کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے، پس اُن لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی پیروی کی اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

  1. اِذْ يَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌo

(قٓ، 50/ 17-18)

جب دولینے والے (فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو تحریر میں) لے لیتے ہیں (جو) دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مُنہ سے کوئی بات نہیںکہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہے۔

  1. تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍo

(المعارج، 70/ 4)

اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے۔

  1. وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًاo وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًاo وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًاo فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًاo فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًاo

(النازعات، 79/ 1-5)

ان (فرشتوں) کی قَسم جو (کافروں کی جان ان کے جسموں کے ایک ایک انگ میں سے) نہایت سختی سے کھینچ لاتے ہیں۔ اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (مومنوں کی جان کے) بند نہایت نرمی سے کھول دیتے ہیں۔ اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (زمین و آسمان کے درمیان) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو لپک کر (دوسروں سے) آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو مختلف امور کی تدبیر کرتے ہیں۔

  1. اِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِيْمٍo ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِيْنٍo مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍo

(التکوير، 81/ 19-21)

بے شک یہ (قرآن) بڑی عزت و بزرگی والے رسول کا (پڑھا ہوا) کلام ہے۔ جو (دعوتِ حق، تبلیغِ رسالت اور روحانی استعداد میں) قوت و ہمت والے ہیں (اور) مالکِ عرش کے حضور بڑی قدر و منزلت (اور جاہ و عظمت) والے ہیں۔ (تمام جہانوں کے لیے) واجب الاطاعت ہیں (کیوں کہ ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے)، امانت دار ہیں (وحی اور زمین و آسمان کے سب اُلوہی رازوں کے حامل ہیں)۔

  1. کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِo وَ اِنَّ عَلَيْکُمْ لَحٰفِظِيْنَo کِرَامًا کَاتِبِيْنَo يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَo

(الانفطار، 82/ 9-12)

حقیقت تو یہ ہے (اور) تم اِس کے برعکس روزِ جزا کو جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ (جو) بہت معزز ہیں (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں۔ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

  1. کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَo وَ مَآ اَدْرٰ کَ مَا عِلِّيُوْنَo کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌo يَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَo

(المطففین، 83/ 18-21)

یہ (بھی) حق ہے کہ بے شک نیکوکاروں کا نوشتۂ اعمال علّیین (یعنی دیوان خانۂِ جنت) میں ہے۔ اور آپ نے کیا جانا کہ علّیین کیا ہے؟ (یہ جنت کے اعلیٰ درجہ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں ان جنتیوں کے نام اور اعمال درج ہیں جنہیں اعلیٰ مقامات دیے جائیں گے)۔ اس جگہ (اللہ کے) مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں۔

  1. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍo

(القدر، 97/ 3-4)

شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رضی الله عنه - فِي حَدِيْثِ جِبْرِيْلَ - عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ۔ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ، وَمَـلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبي صلی الله عليه وآله وسلم عن الإيمان والإسلام والإحسانِ وعلم الساعة، 1/ 27، الرقم/ 50، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1/ 36، الرقم/ 8-9، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 51، الرقم/ 367، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في وصف جبريل للنبي صلی الله عليه وآله وسلم الإيمان والإسلام، 5/ 6، الرقم/ 2610، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 223، الرقم/ 4695، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب نعت الإسلام، 8/ 97-98، الرقم/ 4990.

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ طویل حدیثِ جبرائیل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: مجھے ایمان کے بارے میں بیان فرمائیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے (کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

  1. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خُلِقَتِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ نُوْرٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب في أحاديث متفرقة، 4/ 2294، الرقم/ 2996، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 153، الرقم/ 25235، وأيضًا، 6/ 168، الرقم/ 25393، وابن حبان في الصحيح، 14/ 25، الرقم/ 6155، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 425، الرقم/ 20904، وابن راهويه في المسند، 2/ 277، الرقم/ 786، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 430، الرقم/ 1479، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 3، الرقم/ 17487، وأيضًا في شعب الإيمان، 1/ 168، الرقم/ 143.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرشتوں کی تخلیق نور سے، جنوں کی آگ کے شعلہ سے اور آدم علیہ السلام کی تخلیق اُس شے سے ہوئی جس کے بارے میں تمہیں پہلے بتایا جاچکا ہے (یعنی سُلٰـلَةٌ مِّنْ طِيْنٍ ’مٹی کے کیمیائی اجزاء کے خلاصہ سے‘)۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابن حبان اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَتَعَاقَبُوْنَ فِيْکُمْ مَـلَائِکَةٌ بِاللَّيْلِ، وَمَـلَائِکَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُوْنَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ، وَصَلَاةِ الْفَجْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِيْنَ بَاتُوْا فِيْکُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ - وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ - کَيْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّوْنَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَمَالِکٌ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید، باب کلام الرب مع جبريل ونداء اللہ الملائکة، 6/ 2721، الرقم/ 7048، والنسائي في السنن الکبری، 1/ 175، الرقم/ 459، ومالک في الموطأ، 1/ 170، الرقم/ 411، وأبو عوانة في المسند، 1/ 315، الرقم/ 1119، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/ 50، الرقم/ 2836.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجرکے وقت اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری تھی وہ آسمان کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت اُن سے دریافت فرماتا ہے — حالانکہ وہ بہتر جانتا ہے — تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے اُنہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم اُن کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

اسے امام بخاری، نسائی اور مالک نے روایت کیا ہے۔

  1. وَعَنْهُ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ ﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَـلَائِکَةً سَيَّارَةً فُضُلًا، يَتَتَبَّعُوْنَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ، فَإِذَا وَجَدُوْا مَجْلِسًا فِيْهِ ذِکْرٌ، قَعَدُوْا مَعَهُمْ، وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ، حَتّٰی يَمْلَئُوْا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا۔ فَإِذَا تَفَرَّقُوْا عَرَجُوْا وَصَعِدُوْا إِلَی السَّمَاءِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعا والتوبة والاستغفار، باب فضل مجالس الذکر، 4/ 2069، الرقم/ 2689، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 252، الرقم/ 7420، وأيضًا، 2/ 382، الرقم/ 8960، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 259، الرقم/ 2316، وأيضًا، 4/ 244، الرقم/ 5523.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو گشت کرتے رہتے ہیں اور (متعین کردہ فرشتوں سے) زائد ہیں۔ وہ مجالسِ ذکر کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جب وہ ذکر کی کوئی مجلس دیکھتے ہیں تو ان (ذاکرین) کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو (اوپر تلے) ڈھانپ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ زمین سے لے کر آسمانِ دنیا تک کی جگہ (ان کے نورانی وجود سے) بھر جاتی ہے۔ پھر جب ذاکرین مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو یہ فرشتے بھی آسمان کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔

اِسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ يُقَاتِـلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ۔ مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: يَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب {إِذَ هَمَّتْ طَائِفَتَانِِ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللّٰهُ وَلِيُهُمَا وَعَلَی اللہ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ}، (آل عمران، 3/ 122)، 4/ 1489، الرقم/ 3828، وأیضًا في کتاب اللباس، باب الثیاب البیض، 5/ 2192، الرقم/ 5488، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في قتال جبریل ومیکائیل عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم یوم أحد، 4/ 1802، الرقم/ 2306، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 171، الرقم/ 1468، والشاشي في المسند، 1/ 185، الرقم/ 133.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے روز میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دو ایسے آدمی دیکھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے لڑ رہے تھے۔ اُنہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور جرات و بہادری سے بر سرِ پیکار تھے۔ میں نے اُنہیں اِس سے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ بعد میں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام مسلم کی بیان کردہ روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ وہ دو اَفراد جبرائیل اور میکائیل علیہم السلام تھے۔

وَفِي رِوَايَةِ رِفاَعَةَ بْنِ رَافِعٍ رضی الله عنه - وَکَانَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، - قَالَ: جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ: مَا تَعُدُّوْنَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيْکُمْ؟ قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِيْنَ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا. قَالَ: وَکَذٰلِکَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه.

وَلَفْظُهُمَا: فَقَالَ: مَا تَعُدُّوْنَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا فِيْکُمْ؟ قَالُوْا: خِيَارَنَا. قَالَ: کَذٰلِکَ هُمْ عِنْدَنَا، خِيَارُ الْمَـلَائِکَةِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدرا، 4/ 1467، الرقم/ 3771، وأحمد بن حنبل في المسند عن رافع بن خديج، 3/ 465، الرقم/ 15858، وابن ماجه في السنن عن رافع بن خديج، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1/ 56، الرقم/ 160، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 364، الرقم/ 36725، 36731، وذکره ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 291، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 24، الرقم/ 58.

ایک روایت میں حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ - جو کہ بدری صحابہ میں سے ہیں - بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دریافت کیا: (یا رسول اللہ!) آپ غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والے (صحابہ) کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اُنہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کرتا ہوں یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ ارشاد فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: غزوئہ بدر میں شمولیت کرنے والے فرشتے بھی (فضیلت کے اعتبار سے) دوسرے فرشتوں میں اِسی طرح ہیں۔

اِسے امام بخاری، احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

امام احمد اور ابن ماجہ کے الفاظ یوں ہیں: جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والوں کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ہمارے بہترین لوگ ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اِسی طرح وہ فرشتے (جنہوں نے غزوئہ بدر میں شرکت کی) ہمارے نزدیک بہترین فرشتے ہیں۔

  1. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَمْشُوْنَ أَمَامَهُ إِذَا خَرَجَ وَيَدَعُوْنَ ظَهْرَهُ لِلْمَـلَائِکَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ: قَالَ أَبُوْ نُعَيْمٍ: لِأَنَّ الْمَلَائِکَةَ يَحْرُسُوْنَهُ مِنْ أَعْدَائِهِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 302، الرقم/ 14274، ابن ماجه في السن، المقدمة، باب من کره أن یوطأ عقباه، 1/ 90، الرقم/ 246، وابن حبان في الصحيح، 14/ 218، الرقم/ 6312، وذکره ابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/ 186، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 514، الرقم/ 2099، والمناوي في فيض القدير، 5/ 161، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 36، الرقم/ 97، والسیوطي في شرحه علی سنن ابن ماجه، 1/ 22، الرقم/ 244.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب باہر تشریف لے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ کے سامنے چلتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کو فرشتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے، (فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلتے تھے)۔

اِسے امام احمد، ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے اور اِس کے رجال ثقہ ہیں۔ اور مناوی فرماتے ہیں کہ امام ابو نعیم نے فرمایا: کیونکہ فرشتے دشمنوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے۔

  1. عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ رضی الله عنه أَنَّ کَعْبًا دَخَلَ عَلٰی عَائِشَةَ، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ فَقَالَ کَعْبٌ: مَا مِنْ يَوْمٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ حَتّٰی يَحُفُّوْا بِقَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَيُصَلُّوْنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، حَتّٰی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذٰلِکَ، حَتّٰی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ يَزِفُّوْنَهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، باب ما أکرم اللہ تعالی نبيه بعد موته، 1/ 57، الرقم/ 94، وذکره ابن القيّم في جلاء الأفهام/ 135، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، في قول اللہ تعالی: هو الذي يصلي عليکم وملائکته، 3/ 518، والسمهودي في وفاء الوفاء، 2/ 559، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4/ 625، والزرقاني في شرح المواهب اللدينية، 12/ 283-284، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 12/ 452-453.

حضرت نُبَیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ صدیقہ j کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اہلِ مجلس نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بھی دن نکلتا ہے (یعنی ہر روز) ستر ہزار فرشتے اُترتے ہیں یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کو (اپنے نورانی وجود سے) گھیر لیتے ہیں، (حصولِ برکت و توسل کے لیے) قبرِ اقدس سے اپنے پَر مس کرتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود (و سلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی آسمانوں پر چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح شام کے وقت بھی اتنے ہی فرشتے مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کا عمل دہراتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب (روزِ قیامت) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک شق ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر میں) تشریف لائیں گے۔

اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه : أَنَّ کَعْبَ الْأَحْبَارِ، قَالَ: مَا مِنْ فَجْرٍ يَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ مِنَ الْمَـلَائِکَةِ حَتّٰی يَحُفُّوْا بِالْقَبْرِ يَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَهَبَطَ مِثْلُهُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی إِذَا انْشَقَّتِ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ يُوَقِّرُوْنَهُ صلی الله عليه وآله وسلم تَسْلِيْمًا کَثِيْرًا.

رَوَاهُ ابْنُ حَيَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ.

أخرجه ابن حيان في العظمة، 3/ 1018-1019، الرقم/ 537، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/ 492-493، الرقم/ 4170، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 390، وابن النجاد في الرد علی من يقول القرآن مخلوق/ 63، الرقم/ 89، وابن الجوزي في الوفا/ 833، الرقم/ 1578.

ایک اور روایت میں حضرت نبیہ بن وہب ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب الاحبار نے فرمایا: کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی جس میں ستر ہزار فرشتے نہ اُترتے ہوں، یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کو اپنے پروں سے گھیر لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب شام ہو جاتی ہے۔ تو وہ آسمانوں کی طرف پرواز کر جاتے ہیں اور اُن جیسے دوسرے فرشتے اُتر کر یہی عمل دہراتے ہیں، یہاں تک کہ (قیامت کے دن) جب (آپ کی قبرِ انور) کی زمین کھُلے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر کی طرف) تشریف لے جائیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے سلام پیش کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر بجا لائیں گے۔

اِسے امام ابن حیان، بیہقی، ابو نعیم اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللہ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً سَيَّاحِيْنَ فِي الْأَرْضِ، يُبَلِّغُوْنِي مِنْ أُمَّتِي السَّـلَامَ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ والدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

16: أخرجه النسائي في السنن کتاب السهو، باب السلام علی النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3/ 43، الرقم/ 1282، وأيضًا في السنن الکبری، 1/ 380، الرقم/ 1205، وأيضًا، 6/ 22، الرقم/ 9894، والدارمي في السنن، 2/ 409، الرقم/ 2774، والحاکم في المستدرک، 2/ 456، الرقم/ 3576، وابن حبان في الصحيح، 3/ 195، الرقم/ 914، وعبد الرزاق في المصنف، 2/ 215، الرقم/ 3116، وابن أبي شيبة في المصنف، 2/ 253، 6/ 316، الرقم/ 8705، 31721.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں (جن کا کام یہی ہے کہ) وہ مجھے میری اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔

اِسے امام نسائی، دارمی، ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی الله عنهما يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : إِنَّ اللہَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَـلَائِقِ، فَـلَا يُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، إِلَّا بَلَغَنِي بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيْهِ، هٰذَا فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ قَدْ صَلّٰی عَلَيْکَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ ابْنُ الْحِمْيَرِيِّ لَا أَعْرِفُهُ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه البزار في المسند، (ابن الحِمْيَرِي)، 4/ 254-255، الرقم/ 1425، 1426، والبخاري في التاريخ الکبير، 6/ 416، الرقم/ 2831، وذکرہ الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 162.

ایک روایت میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے، جسے اس نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے)کی قوت عطا فرمائی ہے چنانچہ قیامت کے دن تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا اور عرض کرے گا: (یا رسول اللہ!) یہ فلاں بن فلاں ہے جس نے آپ پر درود پیش کیا ہے۔

اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔ امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں ابن حمیری (نامی) راوی کو میں نہیں جانتا، اِس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ، صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ عَشَرًا بِهَا، مَلَکٌ مُوَکَّلٌ بِهَا حَتّٰی يُبَلِّغَنِيْهَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، باب الصاد، ما أسند أبو أمامة رضی الله عنه، 8/ 134، الرقم/ 7611، وأيضًا في مسند الشاميين، 4/ 324، الرقم/ 3445، وذکره المنذري في الترغيب والترہيب، 2/ 326، الرقم/ 2569.

ایک روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ایک فرشتہ کے ذمہ یہ کام لگا دیا گیا ہے کہ وہ اس ہدیۂ درود کو میری خدمت میں پیش کیا کرے۔

اِسے امام طبرانی اور منذری نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ ِﷲِ فِي سَمَاءِ الدُّنْيَا مَـلَائِکَةً خُشُوْعًا لَا يَرْفَعُوْنَ رُؤُوْسَهُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ، فَإِذَا قَامَتِ السَّاعَةُ، رَفَعُوْا رُؤُوْسَهُمْ، قَالُوْا: رَبَّنَا مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ، وَإِنَّ ِﷲِ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ مَـلَائِکَةً سُجُوْدًا، لَا يَرْفَعُوْنَ رُؤُوْسَهُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ، فَإِذَا قَامَتِ السَّاعَةُ، رَفَعُوْا رُؤُوْسَهُمْ. ثُمَّ قَالُوْا: رَبَّنَا مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حَيَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

17: أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، باب ومن مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 3/ 93، الرقم/ 4502، وابن حيان في العظمة، 3/ 1015، الرقم/ 534، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 183، الرقم/ 166، وذکره ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 446.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک آسمانِ دنیا پر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو بطورِ عبادت ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سروں کو جھکائے رکھتے ہیں۔ وہ اپنے سر صرف روزِ قیامت ہی اُٹھائیں گے اور (اللہ کی بارگاہ میں) عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔ اور دوسرے آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے سر سجدے میں ہیں اور وہ سجدے سے اپنے سر روزِ قیامت ہی اُٹھائیں گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔

اِسے امام حاکم، ابن حیان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ سَابِطٍ رضی الله عنه قَالَ: يُدَبِّرُ أَمْرَ الدُّنْيَا أَرْبَعَةٌ: جِبْرِيْلُ وَمِکَائِيْلُ وَمَلَکُ الْمَوْتِ وَإِسْرَافِيْلُ. فَأَمَّا جِبْرِيْلُ: فَوُکِّلَ بِالرِّيَاحِ وَالْجُنُوْدِ، وَأَمَّا مِيْکَائِيْلُ: فَوُکِّلَ بِالْقَطْرِ وَالنَّبَاتِ، وَأَمَّا مَلَکُ الْمَوْتِ: فَوُکِّلَ بِقَبْضِ الأَرْوَاحِ، وَأَمَّا إِسْرَافِيْلُ: فَهُوَ يَنْزِلُ بِالأَمْرِ عَلَيْهِمْ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 159، الرقم/ 34969، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 176-177، الرقم/ 158، وابن حيان في العظمة، 3/ 808، 810، الرقم/ 376، 378، وذکره السيوطي في الدر المنثور، 8/ 405.

ایک روایت میں حضرت عبد الرحمن بن ساب ط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا کے اُمور کا انتظام چار فرشتوں کے ذمہ ہے۔ حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل، ملک الموت اور اسرافیل۔ حضرت جبرائیل ہواؤں اور لشکروں پر مقرر ہیں۔ حضرت میکائیل بارش اور نباتات پر اور ملک الموت روحیں قبض کرنے پر مقرر ہیں جبکہ اسرافیل لوگوں پر عذاب نازل کرنے پر مقرر ہیں۔

اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔

  1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : مَا فِي السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ مَوضِعُ قَدَمٍ وَلَا شِبْرٍ وَلَا کَفٍّ إِلَّا وَفِيْهِ مَلَکٌ قَائِمٌ أَوْ مَلَکٌ رَاکِعٌ أَوْ مَلَکٌ سَاجِدٌ، فَإِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ قَالُوْا جَمِيْعًا: سُبْحَانَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ إِلَّا أَنَّا لَمْ نُشْرِکْ بِکَ شَيْئًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2/ 184، الرقم/ 1751، وأيضًا في المعجم الأوسط، 4/ 44، الرقم/ 3568، وذکرہ الھيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 51-52، وأيضًا، 10/ 358، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 446.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سات آسمانوں میں ایک قدم برابر، بالشت برابر اور ہتھیلی برابر بھی کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ حالتِ قیام یا حالتِ رکوع یا حالتِ سجدہ میں نہ ہو۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ تمام فرشتے عرض کریں گے: اے اللہ! تو پاک ہے، ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے مگر (اتنا عرض ہے کہ) بے شک ہم نے کبھی کسی کو تیرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ سَـلَامٍ رضی الله عنه، قَالَ: إِنَّ أَعْظَمَ أَيَّامِ الدُّنْيَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ، وَإِنَّ أَکْرَمَ خَلِيْقَةِ اللہ عَلَی اللہ أَبُو الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم۔ قَالَ: قُلْتُ: يَرْحَمُکَ اللہُ فَأَيْنَ الْمَـلَائِکَةُ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ وَضَحِکَ وَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، هَلْ تَدْرِي مَا الْمَـلَائِکَةُ؟ إِنَّمَا الْمَـلَائِکَةُ خَلْقٌ کَخَلْقِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَالرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ وَسَائِرِ الْخَلْقِ الَّذِي لَا يَعْصِي اللہَ شَيْئًا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 4/ 612، الرقم/ 8698، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 172، الرقم/ 149.

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایامِ دنیا میں سے افضل ترین دن جمعہ کا ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا گیا اور اِسی روز قیامت قائم ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے معزز ابو القاسم (حضرت محمد) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ (راوی بِشر) بیان کرتے ہیں: میں نے (حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی خدمت میں) عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، فرشتوں کا مقام کیا ہے؟ (راوی بِشر) بیان کرتے ہیں: اُنہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ پھر فرمایا: اے بھتیجے! کیا تم جانتے ہو کہ فرشتے کون ہیں؟ فرشتے صرف زمین، آسمان، ہوا، بادل اور دیگر تمام مخلوقات کی طرح (اللہ تعالیٰ کی) ایک مخلوق ہیں جو کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔

اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يُحْمَلُ النَّاسُ عَلَی الصِّرَاطِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَتَقَادَعُ بِهِمْ جَنَبَةُ الصِّرَاطِ تَقَادُعَ الْفَرَاشِ فِي النَّارِ. قَالَ: فَيُنْجِي اللہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ. قَالَ: ثُمَّ يُؤْذَنُ لِلْمَلَائِکَةِ وَالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَاءِ أَنْ يَشْفَعُوْا، فَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَزَادَ عَفَّانُ مَرَّةً، فَقَالَ أَيْضًا: وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً مِنْ إِيْمَانٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 43، الرقم/ 20457، والبزار في المسند، 9/ 122-123، الرقم/ 3671، والطبراني في المعجم الصغير، 2/ 142، الرقم/ 929، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 403، الرقم/ 837، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 359، وقال الألباني: إسناده حسن أو متحمل للتحسين رجاله کلهم ثقات.

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ پل صراط پر چلیں گے تو پل صراط کا کنارہ ان کو پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح اس میں گرائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے گا نجات دے گا۔ پھر فرشتوں، نبیوں، اور شہداء کو اجازت دی جائے گی کہ وہ شفاعت کریں۔ چنانچہ وہ شفاعت کریں گے اور لوگوں کو (دوزخ سے) نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے۔ عفان نے اس میں ایک مرتبہ کا اضافہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے: وہ شفاعت کریں گے اور جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو گا اس کو بھی (دوزخ سے) نکال لیں گے۔

اسے امام احمد، بزار اور ابنِ ابی عاصم نے اور طبرانی نے ’المعجم الصغیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا: اس حدیث کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللہ رضی الله عنه قَالَ: أَوَّلُ شَافِعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، جِبْرَائِيْلُ عليه السلام رُوْحُ الْقُدُسِ، ثُمَّ إِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ عليه السلام، ثُمَّ مُوْسٰی أَوْ عِيْسٰی. قَالَ أَبُوالزَّعْرَاءِ: لَا أَدْرِي أَيُهُمَا قَالَ، قَالَ: ثُمَّ يَقُوْمُ نَبِيُکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم رَابِعًا، فَـلَا يَشْفَعُ أَحَدٌ بِمِثْلِ شَفَاعَتِهِ وَهُوَ وَعْدُهُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي وَعَدَهُ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَالْحَاکِمُ.

(1) أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6/ 382، الرقم/ 11296، والحاکم في المستدرک، 4/ 641، الرقم/ 8772، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 271، الرقم/ 36001، والطبراني في المعجم الکبير، 9/ 356، الرقم/ 9761.

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام، پھر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام شفاعت کریں گے۔ ابو زَعراء کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون شفاعت کرے گا، (راوی) کہتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر چوتھے (اور آخری مرحلے پر) آپ کے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حتمی شفاعت کے لیے) قیام فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت جیسی کوئی بھی شفاعت نہیں کر سکے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا وہ وعدۂ مقام محمود ہے جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کر رکھا ہے۔

اسے امام نسائی، ابنِ ابی شیبہ، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

اَلإِيْمَانُ بِالْوَحْيِ وَبِالْکُتُبِ السَّمَاوِيَّةِ

{وحیِ اِلٰہی اور آسمانی کتب پر اِیمان لانا}

الْقُرْآن

  1. وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo

(البقرة، 2/ 4)

اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔

  1. قُوْلُوْآ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰهيمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْج لَانُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَo

(البقرة، 2/ 136)

(اے مسلمانو!) تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیہا السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔

  1. الٓمَّo اللہُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُ الْقَيُوْمُo نَزَّلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَo مِنْ قَبْلُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللہ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ط وَاللہُ عَزِيْزٌ ذُوْانْتِقَامٍo

(آل عمران، 3/ 1-4)

الف لام میم (حقیقی معنٰی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ اللہ، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہ) ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے۔ (اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے۔ (جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لیے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے سنگین عذاب ہے، اور اللہ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔

  1. قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَالنَّبِيُوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْص لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْز وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَo

(آل عمران، 3/ 84)

آپ فرمائیں: ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں۔

  1. ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّهِ.

(آل عمران، 3/ 119)

آگاہ ہو جاؤ! تم وہ لوگ ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہیں پسند (تک) نہیں کرتے حالاں کہ تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔

  1. اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًاo

(النساء، 4/ 82)

تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔

  1. قُلْ يٰٓـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَيَزِيْدَنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّـآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْيَاناً وَّکُفْرًا ط فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِيْنَo

(المائدة، 5/ 68)

فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقینا ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروہِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں۔

  1. یٰٓـايُهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِيْ الصُّدُوْرِ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَo

(یونس، 10/ 57)

اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)۔

  1. الٓرٰ قف تِلْکَ اٰيٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِيْنِo اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo

(يوسف، 12/ 1-2)

الف لام را (حقیقی معنٰی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔

  1. وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَo

(الأنبياء، 21/ 105)

اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے۔

  1. وَاِنَّهُ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِيْنٍo وَاِنَّهُ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَo

(الشعراء، 26/ 192-196)

اور بے شک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے۔ اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے۔ آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔ (اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے۔ اوربے شک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔

  1. اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ ج وَاِنَّهُ لَـکِتٰبٌ عَزِيْزٌo لاَّ يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْم بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ط تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍo

(حم السجدة، 41/ 41-42)

بے شک جنہوں نے قرآن کے ساتھ کفر کیا جب کہ وہ اُن کے پاس آچکا تھا (تویہ اُن کی بد نصیبی ہے) اور بے شک وہ (قرآن) بڑی باعزت کتاب ہے۔ باطل اِس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے، (یہ) بڑی حکمت والے، بڑی حمد والے (رب) کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔

  1. قَالُوْا يٰـقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍo

(الأحقاف، 46/ 30)

انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! (یعنی اے قومِ جنّات) بے شک ہم نے ایک (ایسی) کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام کی تورات) کے بعد اتاری گئی ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے (وہ) سچّے (دین) اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

  1. وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ کَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْo

(محمد، 47/ 2)

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اللہ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیے اور ان کا حال سنوار دیا۔

  1. اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰیo وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰیo اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰیo

(النجم، 53/ 36-38)

کیا اُسے اُن (باتوں) کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں (مذکور) تھیں؟ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اللہ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

  1. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰo وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلّٰیo بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰیo اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰیo صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰیo

(الأعلی، 87/ 14-19)

بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔ بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ بے شک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔ (جو) ابراہیم اور موسیٰ (عليهما السلام) کے صحائف ہیں۔

  1. رَسُوْلٌ مِّنَ اللہ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَرَةًo فِيْهَا کُتُبٌ قَيِّمَةٌo

(البينة، 98/ 2-3)

(وہ دلیل) اللہ کی طرف سے رسول (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں جو (ان پر) پاکیزہ اوراقِ (قرآن) کی تلاوت فرماتے ہیں۔ جن میں درست اور مستحکم احکام (درج) ہیں۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللہ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ يُسْلِمَ قَلْبُکَ ِﷲِ وَأَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِکَ وَيَدِکَ. قَالَ: فَأَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الإيمان. قَالَ: وَمَا الإيمان؟ قَالَ: تُؤْمِنُ بِاللہِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 114، الرقم/ 17068، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 127، الرقم/ 20107، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 124، الرقم/ 301، والأزدي في الجامع، 11/ 127، الرقم/ 20107، وذکره العسقلاني في المطالب العالية، 12/ 294، الرقم/ 2874، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3/ 207.

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اسلام یہ ہے کہ) تمہارا دل اللہ تعالیٰ کے لیے سراپا تسلیم ہو جائے اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اُس نے عرض کیا: کون سا اِسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جس میں) ایمان کامل ہو۔ اُس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتب، اُس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان رکھو۔

اِسے امام احمد اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْإِيْمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ عليه السلام: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ جِبْرِيْلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ مَعَالِمَ دِيْنِکُمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 28، الرقم/ 191، وأبو يعلی في المسند، 1/ 208، الرقم/ 242، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 235.

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان) یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر، یومِ آخرت اور تقدیر کے اچھا بُرا ہونے پر ایمان رکھو۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم اُس کے خود ہی سوال کرنے اور پھر تصدیق کرنے پر حیران ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ان کے جانے کے بعد) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کے نمایاں پہلو سکھانے آئے تھے۔

اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

  1. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : اَلدِّيْنُ خَمْسٌ لَا يَقْبَلُ اللہُ مِنْهُنَّ شَيْئًا دُوْنَ شَيئٍ، شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، وَالْإِيْمَانُ بِاللہِ، وَمَـلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 201، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 45، والهندي في کنز العمال، 1/ 151، الرقم/ 1380.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ـ دین پانچ باتوں پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنے پر ایمان قبول نہیں کرتا۔ (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: ) اِس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا۔

اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے اور ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے۔

اَلإِيْمَانُ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ

{یومِ آخرت اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر اِیمان لانا}

الْقُرْآن

  1. وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo

(البقرة، 2/ 4)

اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔

  1. کَيْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَـاَحْيَاکُمْ ج ثُمَّ يُمِيْتُکُمْ ثُمَّ يُحْيِيْکُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَo

(البقرة، 2/ 28)

تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالاں کہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

  1. اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئِيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْج وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo

(البقرة، 2/ 62)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کیے، تو ان کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

  1. وَاَتَّقُوْا يَوْمًا لاَّ تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَo

(البقرة، 2/ 123)

اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا او رنہ اس کو (اذنِ الٰہی کے بغیر) کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ (امرِ الٰہی کے خلاف) انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی۔

  1. وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ الِاَّ بِاِذْنِ اللہ کِتٰـبًا مُّؤَجَّلاً ط وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا ج وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ط وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِيْنَo

(آل عمران، 3/ 145)

اور کوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتا (اس کا) وقت لکھا ہوا ہے، اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے۔

  1. وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللہُ ط وَکَانَ اللہُ بِهِمْ عَلِيْمًاo

(النساء، 4/ 39)

اور ان کا کیا نقصان تھا اگر وہ اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لے آتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا تھا اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے اور اللہ ان (کے حال) سے خوب وقف ہے۔

  1. اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَـلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo

(المائدة، 5/ 69)

بے شک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

  1. يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰهَا ط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ج لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلاَّ هُوَ ط ثَـقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط لَا تَاْتِيْکُمْ اِلاَّ بَغْتَةً ط يَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْهَا ط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللہ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo

(الأعراف، 7/ 187)

یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرمادیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرمادیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔

  1. وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًاo

(بني إسرائيل، 17/ 10)

اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

  1. وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰی لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓـئِکَ کَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْکُوْرًاo کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ ط وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo اُنْظُرْ کَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط وَلَـلْاٰخِرَةُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِيْلًاo

(بني إسرائيل، 17/ 19-21)

اور جو شخص آخرت کا خواہش مند ہوا اور اس نے اس کے لیے اس کے لائق کوشش کی اور وہ مومن (بھی) ہے تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش مقبولیت پائے گی۔ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے، اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔ دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے، اور یقینًا آخرت (دنیا کے مقابلہ میں) درجات کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے۔

  1. وَقَالُوْٓا ءَاِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًاo قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًاo اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَکْبُرُ فِيْ صُدُوْرِکُمْ ج فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُعِيْدُنَا ط قُلِ الَّذِيْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ج فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْکَ رُئُوْسَهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰی هُوَ ط قُلْ عَسٰٓی اَنْ يَّکُوْنَ قَرِيْبًاo يَوْمَ يَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًاo

(بني إسرائيل، 17/ 49-52)

اور کہتے ہیں: جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں ازسرِنو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟۔ فرما دیجیے: تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں (ان چیزوں سے بھی) زیادہ سخت ہو (کہ اس میں زندگی پانے کی بالکل صلاحیت ہی نہ ہو)، پھر وہ (اس حال میں) کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ فرما دیجیے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا تھا، پھر وہ (تعجب اور تمسخر کے طور پر) آپ کے سامنے اپنے سر ہلا دیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ فرما دیجیے: امید ہے جلد ہی ہو جائے گا۔ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہو۔

  1. وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَـلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِيْنَo

(الأنبياء، 21/ 47)

اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے سو کسی جان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا (تو) ہم اسے (بھی) حاضر کر دیں گے، اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔

  1. يَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهُ ط وَعْدًا عَلَيْنَا ط اِنَّا کُنَّا فٰعِلِيْنَo

(الأنبياء، 21/ 104)

اس دن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اعادہ) ضرور کرنے والے ہیں۔

  1. وَاِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰـکِبُوْنَo

(المؤمنون، 23/ 74)

اور بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (وہ) ضرور (سیدھی) راہ سے کترائے رہتے ہیں۔

  1. اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَo فَتَعٰـلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ط لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَج رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِيْمِo

(المؤمنون، 23/ 115-116)

سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ پس اللہ جو بادشاهِ حقیقی ہے بلند و برتر ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بزرگی اور عزت والے عرش (اقتدار) کا (وہی) مالک ہے۔

  1. يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo

(النور، 24/ 24)

جس دن (خود) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں انہی کے خلاف گواہی دیں گے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔

  1. اَلَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُوْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَo

(النمل، 27/ 3-5)

جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں۔ بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمالِ (بد ان کی نگاہوں میں) خوشنما کر دیے ہیں سو وہ (گمراہی میں) سرگرداں رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُرا عذاب ہے اور یہی لوگ آخرت میں (سب سے) زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

  1. يَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللہ ط وَمَا يُدْرِيْکَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَکُوْنُ قَرِيْبًاo

(الأحزاب، 33/ 63)

لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمادیجیے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کِس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو۔

  1. يٰـقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌز وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِo

(مؤمن، 40/ 39)

اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی بس (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں اور بے شک آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔

  1. وَاِذَا قِيْلَ اِنَّ وَعْدَ اللہ حَقٌّ وَّالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيْهَا قُلْتُمْ مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَةُ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَo

(الجاثية، 45/ 32)

اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت (کے آنے) میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے، ہم اُسے وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور ہم (اِس پر) یقین کرنے والے نہیں ہیں۔

  1. تَبٰـرَکَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْکُز وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرُo نِالَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ط وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُo

(الملک، 67/ 1-2)

وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔

  1. اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُتْرَکَ سُدًیo اَلَمْ يَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ يُمْنٰیo ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰیo فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیo اَلَيْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتٰیo

(القيامة، 75/ 36-40)

کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ (اپنی اِبتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ (رحم میں جال کی طرح جما ہوا) ایک معلق وجود بن گیا، پھر اُس نے (تمام جسمانی اَعضاء کی اِبتدائی شکل کو اس وجود میں) پیدا فرمایا، پھر اس نے (انہیں) درست کیا۔ پھر یہ کہ اس نے اسی نطفہ ہی کے ذریعہ دو قسمیں بنائیں: مرد اور عورت۔ تو کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مُردوں کو پھر سے زندہ کر دے۔

  1. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰo وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلّٰیo بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰیo اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰیo صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰیo

(الأعلٰی، 87/ 14-19)

بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔ بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ بے شک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔ (جو) ابراہیم اور موسیٰ (علیہا السلام) کے صحائف ہیں۔

  1. اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْo وَ اِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْo وَ اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْo وَ اِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْo عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْo

(الانفطار، 82/ 1-5)

جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔ اور جب سیارے گر کر بکھر جائیں گے۔ اور جب سمندر (اور دریا) ابھر کر بہہ جائیں گے۔ اور جب قبریں زیر و زبر کر دی جائیں گی۔ تو ہر شخص جان لے گا کہ کیا عمل اس نے آگے بھیجا اور (کیا) پیچھے چھوڑ آیا تھا۔

  1. فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ کِتٰـبَهُ بِيَمِيْنِهِo فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًاo وَّ يَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَهْلِهِ مَسْرُوْرًاo وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِيَ کِتٰـبَهُ وَرَآءَ ظَهْرِهِo فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًاo وَّ يَصْلٰی سَعِيْرًاo

(الانشقاق، 84/ 7-12)

پس جس شخص کا نامۂِ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ تو عنقریب اس سے آسان سا حساب لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے اہلِ خانہ کی طرف مسرور و شاداں پلٹے گا۔ اور البتہ وہ شخص جس کا نامۂِ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ تو وہ عنقریب موت کو پکارے گا۔ اور وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللہُ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيْهِ أُخْرٰی فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اللہ تعالی: وإلی مدين أخاهم شعيبا، 3/ 254، الرقم/ 3233، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسٰی عليه السلام، 4/ 1843، الرقم/ 2373، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 448، الرقم/ 11458، وابن حبان في الصحيح، 16/ 301، الرقم/ 7311.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین میں جتنی مخلوق ہے سب بے ہوش ہو جائے گی مگر (وہ نہیں) جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہی اُٹھایا جاؤں گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُوْنَ. قَالَ: أَرْبَعُوْنَ يَوْمًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالَ: أَرْبَعُوْنَ شَهْرًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُوْنَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيئٌ إِلَّا يَبْلٰی، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا، وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: کُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْکُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيْهِ يُرَکَّبُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسیر، باب يوم ينفخ في الصور فتأتون أفواجا، 4/ 1881، الرقم/ 4651، ومسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشرا ط الساعة، باب ما بين نفختين، 4/ 2270، الرقم/ 2955، ونعيم بن حماد في کتاب الفتن، 2/ 649، الرقم/ 1829، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 433، الرقم/ 891.

ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں دفعہ صور پھونکنے کا درمیانی وقفہ چالیس کا ہے۔ کسی نے (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے) پوچھا: کیا چالیس دن کا؟ انہوں نے فرمایا: میں نہیں کہہ سکتا۔ اس نے دوبارہ پوچھا: کیا چالیس مہینے کا؟ فرمایا: کہہ نہیں سکتا۔ اس نے پھر پوچھا: کیا چالیس سال کا؟ فرمایا: کہہ نہیں سکتا۔ فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے ایسی بارش برسائے گا کہ انسان یوں زمین سے نکل آئیں گے جیسے سبزہ اُگتا ہے، (قبر میں) انسان کے تمام اعضاء بوسیدہ ہو جائیں گے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کے سِرے کی ہڈی ہے کہ قیامت کے روز اُسی پر انسان کی (دوبارہ) تخلیق کی جائے گی۔

’صحیح مسلم‘ کی روایت میں ہے: ابن آدم کے تمام اعضاء مٹی کھا جاتی ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے، جس سے اُسے پیدا کیا گیا اور اُسی سے اُسے دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللہُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰی فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَo} (الزمر، 39/ 68)، فَأَکُوْنُ أَوَّلُ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة الزمر، 5/ 373، الرقم/ 3245، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر البعث، 2/ 1428، الرقم/ 4274، وابن حبان في الصحيح، 16/ 301، الرقم/ 7311، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 310، الرقم/ 31686.

ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللہُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰی فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَo} ’اور صور پھونکا جائے گا اور جو بھی زمین و آسمان میں ہوں گے بے ہوش ہو جائیں گے مگر وہ نہیں جسے اللہ چاہے گا، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پھر وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔‘۔ اور میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو (سجدہ سے) سر اُٹھائے گا۔

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : إِذَا أَنْزَلَ اللہُ بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابُ مَنْ کَانَ فِيْهِمْ ثُمَّ بُعِثُوْا عَلٰی أَعْمَالِهِمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب إذا أنزل اللہ بقوم عذابا، 6/ 2602، الرقم/ 6691، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الأمر بحسن الظن باللہ تعالی عند الموت، 4/ 2206، الرقم/ 2879، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 40، الرقم/ 4985، وابن حبان في الصحيح، 16/ 306، الرقم/ 7315، وأبو يعلی في المسند، 9/ 430، الرقم/ 5582.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو قوم کے تمام افراد اس عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ پھر (روزِ قیامت) لوگ اپنے (اچھے یا بُرے) اعمال کے مطابق اُٹھائے جائیں گے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الأمر بحسن الظن باللہ تعالٰی عند الموت، 4/ 2206، الرقم/ 2878، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 331، الرقم/ 14583، وأبو يعلی في المسند، 3/ 415، الرقم/ 1901، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 312، الرقم/ 1013.

ایک روایت میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (روزِ قیامت) ہر شخص اسی (حالت) پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی۔

اِسے امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : يُبْعَثُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاءُ تَطِشُّ عَلَيْهِمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 266، الرقم/ 13841، وأبويعلی في المسند، 7/ 99، الرقم/ 4041، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 314، الرقم/ 355، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 439.

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو اِس حال میں اُٹھایا جائے گا کہ آسمان سے اُن پر بوندا باندی ہو رہی ہوگی۔

اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ أَبِي رَزِيْنٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہ، کَيْفَ يُحْیِ اللہُ الْمَوْتٰی فَقَالَ: أَمَا مَرَرْتَ بِوَادٍ مُمْحِلٍ ثُمَّ مَرَرْتَ بِهِ خَصِيْبًا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: ثُمَّ تَمُرُّ بِهِ خَضِرًا، قَالَ: قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: کَذٰلِکَ يُحْيِ اللہُ الْمَوْتٰی.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 11، الرقم/ 16239، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 346، الرقم/ 602، وابن المبارک في کتاب الزهد/ 31، الرقم/ 121، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 53.

حضرت ابی رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالی مُردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسی وادی سے گزرے ہو جو ویران اور بنجر تھی، پھر تم دوبارہ اس طرف سے گزرے تو وہ سرسبز و شاداب ہوچکی تھی؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (یا رسول اللہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسی طرح اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ فرمائے گا۔

اِسے امام احمد، طبرانی اور ابن المبارک نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ : يُبْعَثُ الْمُؤْمِنُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُرْدًا مُرْدًا مُکَحَّلِيْنَ بَنِي ثَـلَاثِيْنَ سَنَةً.

رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 232، الرقم/ 22077، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 336.

ایک روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز مومن داڑھی مونچھوں کے بغیر سرمگیں آنکھوں والے تیس سالہ نوجوانوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشره، 4/ 452، الرقم/ 2145، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 32، الرقم/ 81، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 66، الرقم/ 443، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 620، الرقم/ 1105.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔ وہ اِس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں مجھے اس نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان لائے۔

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، مقدسی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ سُئِلَ عَنِ الإِيْمَانِ فَقَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنُ بَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 235.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتب پر، اُس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھا یا بُرا ہونے پر ایمان لاؤ۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہ، قَالَ: يُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ، الْمُؤْمِنُ عَلٰی إِيْمَانِهِ وَالْکَافِرُ عَلٰی کُفْرِهِ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5/ 466، الرقم/ 8779.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (روزِ قیامت) ہر شخص (قبر سے) اُسی دین پر اُٹھایا جائے گا جس پر اُس کی وفات ہوئی ہوگی۔ مومن اپنے ایمان کی حالت پر اور کافر اپنے کفر کی حالت پر اٹھایا جائے گا۔

اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّمَا يُبْعَثُ الْمُسْلِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی النِّيَّاتِ.

ذَکَرَهُ الْهَيْثَمِيُّ.

ذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 436، والمناوي في فيض القدير، 3/ 7.

ایک روایت میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت مسلمانوں کو (اُن کی) نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔

اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔

اَلإِيْمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ

{اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا}

الْقُرْآن

  1. وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ط وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلاَّ فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٍo

(الأنعام، 6/ 59)

اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔

  1. يَمْحُوا اللہُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ ج وَعِنْدَهُٓ اُمُّ الْکِتٰبِo

(الرعد، 13/ 39)

اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔

  1. تَبٰـرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهِ لِيَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًاo نِالَّذِيْ لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَکُنْ لَّهُ شَرِيْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيْرًاo

(الفرقان، 25/ 1-2)

(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے۔ وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کے لیے ہے اور جس نے نہ (اپنے لیے) کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ اندازے پر ٹھہرایا ہے۔

  1. اِنَّ اللہَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِج وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ج وَيَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌo

(الروم، 30/ 34)

بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے، (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے)۔

  1. اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ط وَکُلَّ شَيْئٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍo

(يٰس، 36/ 12)

بے شک ہم ہی تو مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو (اعمال) وہ آگے بھیج چکے ہیں، اور اُن کے اثرات (جو پیچھے رہ گئے ہیں) اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔

  1. فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰی فِيْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا ط وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ط ذٰلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِo

(فصلت، 41/ 12)

پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے۔

  1. اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍo وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍم بِالْبَصَرِo

(القمر، 54/ 49-50)

بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔ اور ہمارا حکم تو فق ط یکبارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيْعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ، وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَنَکَّسَ فَجَعَلَ يَنْکُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَةٍ إِلَّا کُتِبَ مَکَانُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَإِلَّا قَدْ کُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيْدَةً فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللہ، أَفَـلَا نَتَّکِلُ عَلٰی کِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ، فَمَنْ کَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيْرُ إِلٰی عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيْرُ إِلٰی عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ؟ قَالَ: أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُوْنَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo} (اللدل، 92/ 5-6).

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله، 1/ 458، الرقم/ 1296، وأيضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب وقوله: وکذب بالحسنی، 4/ 1891، الرقم/ 4665، ومسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کیفیة خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله، 4/ 2039، الرقم/ 2647.

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بقیع غرقد (جنت البقیع) میں ایک جنازے کے ساتھ تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرجھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی زندہ شخص ایسا نہیں کہ اُس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم میں لکھ نہ دیا گیا ہو اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ وہ شقی ہے یا سعید۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم اپنے لکھے ہوئے (یعنی مقدر) پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں، اس طرح جو ہم میں سے سعادت مند ہوگا وہ سعادت مندوں جیسے کام کرے گا اور جو ہم میں سے بدبخت ہوگا وہ بدبختوں جیسے کام کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعادت مندوں کے لیے سعادت کے کام آسان کر دیے جاتے ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی والے اَعمال آسان کر دیے جاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں: {فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo} ’پس جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اُس نے (اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی۔‘۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللہ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ، وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ. اِحْرِصْ عَلٰی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيئٌ فَـلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا. وَلٰـکِنْ قُلْ: قَدَرُ اللہ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ ’لَوْ‘ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب في الأمر بالقوة وترک العجز والاستعانة باللہ، 4/ 2052، الرقم/ 2664، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 31، الرقم/ 79، وأيضًا في کتاب الزھد، باب التوکل واليقين، 2/ 1395، الرقم/ 4168، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 159، الرقم/ 10458، وابن حبان في الصحيح، 13/ 28، الرقم/ 5721، وأبو يعلی في المسند، 11/ 124، الرقم/ 6251، وابن أبي عاصم في السنة، 1/ 157، الرقم/ 356.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے اور تمام میں خیر ہے۔ جو چیز تم کو نفع دے اُس کے حصول میں حرص (پوری کوشش) کرو، اللہ کی مدد چاہو اور تھک کر نہ بیٹھے رہو، اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ البتہ یہ کہو یہ اللہ کی تقدیر ہے، اُس نے جو چاہا کر دیا، یہ ’اگر‘ کا لفظ (مومن کے عقیدہ اور عمل میں) شیطان کی مداخلت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: خَدِمْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ عَشْرَ سِنِيْنَ فَمَا أَرْسَلَنِي فِي حَاجَةٍ قَطُّ فَلَمْ تَتَهَيَّأْ إِلَّا قَالَ: لَوْ قَضَی اللہُ کَانَ وَلَوْ قَدَّرَ کَانَ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 216، الرقم/ 194.

ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی مجھے کسی ضروری کام سے بھیجا اور وہ نہیں ہو سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا تو کام ہو جاتا، اگر اللہ تعالیٰ مقدر کرتا تو ضرور ہو جاتا۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

  1. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ مُشْرِکُوْا قُرَيْشٍ يُخَاصِمُوْنَ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ فِي الْقَدَرِ فَنَزَلَتْ: {يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَo اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍo} (القمر، 54/ 48-49).

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کل شيء بقدر، 4/ 2046، الرقم/ 2656، وابن حبان في الصحيح، 14/ 6، الرقم/ 6139، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 204، الرقم/ 183.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) مشرکین قریش آکر تقدیر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث کرنے لگے، اُس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَo اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍo} ’جس دن وہ لوگ اپنے مُنہ کے بل دوزخ میں گھسیٹے جائیںگے (تو اُن سے کہا جائے گا: ) آگ میں جلنے کا مزہ چکھو۔ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔‘۔

اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اللہَ وَکَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَکًا يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ، عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ، مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ قَالَ: أَذَکَرٌ أَمْ أُنْثٰی، شَقِيٌّ أَمْ سَعِيْدٌ، فَمَا الرِّزْقُ وَالْأَجَلُ؟ فَيُکْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ.

32: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحيض، باب قول اللہ: مخلقة وغير مخلقة (الحج، 22/ 5)، 1/ 121، الرقم/ 312، وأيضًا في کتاب الأنبياء، باب خلق آدم وذريته، 3/ 1213، الرقم/ 3155، والطيالسي في المسند، 1/ 276، الرقم/ 2073، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 179، الرقم/ 670.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (ماں کے) رحم پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے جو (رحم میں بچے کے تخلیقی مراحل میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کرتا ہے: اے رب! اب یہ نطفہ ہے؛ اے رب! اب یہ معلق وجود ہے؛ اے رب! اب یہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اُس کی تخلیق مکمل کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ (فرشتہ) عرض کرتا ہے: (اے رب!) کیا یہ بیٹا ہوگا یا بیٹی، بدبخت ہوگا یا سعادت مند؟ اِس کا رزق کتنا ہے اور عمر کتنی ہے؟ یہ سب کچھ (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) شکم مادر میں ہی لکھ دیا جاتا ہے۔

اِسے امام بخاری اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللہ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ: الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَالسَّعِيْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ … والحدیث فیہ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ:… ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَجَلُهُ؟ فَيَقُوْلُ رَبُّکَ مَا شَاءَ وَيَکْتُبُ الْمَلَکُ ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، رِزْقُهُ؟ فَيَقْضِي رَبُّکَ مَا شَاءَ، وَيَکْتُبُ الْمَلَکُ، ثُمَّ يَخْرُجُ الْمَلَکُ بِالصَّحِيْفَةِ فِي يَدِهِ فَـلَا يَزِيْدُ عَلٰی مَا أُمِرَ وَلَا يَنْقُصُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2037، الرقم/ 2645، وابن حبان في الصحيح، 14/ 52-53، الرقم/ 6177، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 178، الرقم/ 3044، والبيهقي في السنن الکبری، 7/ 422، الرقم/ 15201، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 49، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 10.

ایک روایت میں حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: شقی وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی شقی ہوگیا، اور سعادت مند وہ ہے جو دوسرے کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرلے.... اس کے بعد طویل حدیث میں ہے: میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے:... پھر فرشتہ عرض کرتا ہے: اے رب! اِس کی مدتِ حیات کتنی ہے؟ پھر تمہارا رب جو چاہتا ہے وہ حکم فرما دیتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے، پھر فرشتہ (اُس کے اعمال کی) دستاویز اپنے ہاتھ میں لے کر نکل جاتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اَحکامات میں نہ کوئی زیادتی ہوتی ہے اور نہ کوئی کمی۔

اِسے امام مسلم، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيْدٍ الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ يَقُوْلُ: إِنَّ النُّطْفَةَ تَقَعُ فِي الرَّحِمِ … ثُمَّ يَتَصَوَّرُ عَلَيْهَا الْمَلَکُ قَالَ زُهَيْرٌ: حَسِبْتُهُ قَالَ: الَّذِي يَخْلُقُهَا، فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی فَيَجْعَلُهُ اللہُ ذَکَرًا أَوْ أُنْثٰی ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَسَوِيٌّ أَوْ غَيْرُ سَوِيٍّ فَيَجْعَلُهُ اللہُ سَوِيًّا أَوْ غَيْرَ سَوِيٍّ ثُمَّ يَقُوْلُ: يَا رَبِّ، مَا رِزْقُهُ مَا أَجَلُهُ مَا خُلُقُهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ اللہُ شَقِيًّا أَوْ سَعِيْدًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2038، الرقم/ 2645، وابن عبد البر في التمهيد، 18/ 102، وابن القيم في الحاشية، 12/ 312.

ایک روایت میں حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے اِن دونوں کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: رحم مادر میں جب نطفہ ٹھہر جاتا ہے، پھر فرشتہ اُس کی صورت گری کرتا ہے۔ (راویِ حدیث) زہیر نے کہا: میرا گمان ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ فرشتہ جو اُس کی تخلیق کرتا ہے، پھر وہ عرض کرتا ہے: اے رب! (اسے) مذکر بناؤں یا مؤنث؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ (کے حکم سے فرشتہ) اُسے مذکر یا مؤنث بنا دیتا ہے۔ پھر وہ (فرشتہ) عرض کرتا ہے: اے رب! اس کو کامل الاعضاء بناؤں یا ناقص الاعضاء؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ (کے حکم سے) اسے کامل الاعضاء یا ناقص الاعضاء بنا دیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ عرض کرتا ہے: اے رب! اس کا رزق کتنا ہے؟ اس کی مدتِ حیات کتنی ہے؟ اس کے اخلاق کیسے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ (کے حکم سے) اسے شقی یا سعید بنا دیتا ہے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَدْخُلُ الْمَلَکُ عَلَی النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِي الرَّحِمِ … فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ، أَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيْدٌ، فَيُکْتَبَانِ فَيَقُوْلُ: أَي رَبِّ، أَذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی فَيُکْتَبَانِ وَيُکْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ ثُمَّ تُطْوَی الصُّحُفُ فَـلَا يُزَادُ فِيْهَا وَلَا يُنْقَصُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کیفیة خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2037، الرقم/ 2644، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 53، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1/ 23، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3/ 208، والسیوطي في الدر المنثور، 6/ 10.

ایک اور روایت میں حضرت حذیفہ بن اَسِید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب نطفہ رحم میں ٹھہر جاتا ہے … تو فرشتہ (رحم میں) داخل ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے: اے رب! یہ شقی ہے یا سعید ہے؟ پھر یہ دونوں اُمور لکھ دیے جاتے ہیں۔ پھر فرشتہ عرض کرتا ہے: (اے رب!) یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ پھر یہ دونوں اُمور لکھ دیے جاتے ہیں۔ پھر اُس کے اَعمال، نقوش، مدتِ حیات اور اُس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر دستاویزات لپیٹ دی جاتی ہیں اور اُن میں نہ کوئی اَضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيْلَ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيْلَ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2042، الرقم/ 2651، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 11/ 356، وذکره المناوي في فيض القدير، 2/ 331.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص مدتِ طویل تک اہلِ جنت کے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اُس کا اہلِ دوزخ کے اعمال پر خاتمہ ہوتا ہے اور ایک شخص زمانہ دراز تک اہلِ دوزخ کے عمل کرتا رہتا ہے اور بالآخر اُس کا خاتمہ اہلِ جنت کے اعمال پر ہوجاتا ہے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَهْلٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَی النَّاسُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ لَيَعْمَلُ فِيْمَا يَرَی النَّاسُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيْمِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6/ 147، الرقم/ 5798، وابن الجعد في المسند، 1/ 429، الرقم/ 2929، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 4/ 608، الرقم/ 1086، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 55/ 416، وذکرہ ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 210.

ایک روایت میں حضرت سہل (بن سعد) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ایسے اعمال کرتا ہے جو لوگوں کی نظر میں جنتیوں والے اَعمال ہوتے ہیں حالانکہ اَنجامِ کار وہ ہوتا جہنمیوں میں سے ہے؛ اور کوئی شخص بظاہر ایسے اعمال کرتا ہے جو لوگوں کی نظر میں اہلِ دوزخ کے اعمال ہوتے ہیں، لیکن (آخر کار) وہ ہوتا اہلِ جنت میں سے ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! اَعمال کا دار و مدار خاتمے (یعنی اَنجام) پر ہے۔

اِسے امام طبرانی، ابن جعد اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: کَتَبَ اللہُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب حجاج آدم وموسٰی، 4/ 2044، الرقم/ 2653، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2/ 252، وذکره العسقلاني في فتح الباري، 6/ 289، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 55، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 438، والسيوطي في الدر المنثور، 4/ 403.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھ دیا تھا (یعنی طے کردیا تھا)۔ فرمایا: (اُس وقت) اُس کا عرش پانی پر تھا۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَی اللہُ لَهُ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُهُ اسْتِخَارَةَ اللہ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَی اللہُ لَهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 168، الرقم/ 1444، والترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضا بالقضاء، 4/ 455، الرقم/ 2151، والشاشي في المسند، 1/ 224، الرقم/ 185.

ایک روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا انسان کی سعادت مندی ہے اور اللہ تعالیٰ سے (اپنے حق میں) خیر کی طلب اور دعا نہ کرنا انسان کی بدبختی ہے۔ نیز اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر ناراض ہونا بھی بدبختی ہے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی الله عنه فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيئٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْئٍ لَعَلَّ اللہَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي. قَالَ: لَوْ أَنَّ اللہَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ کَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيْلِ اللہ مَا قَبِلَهُ اللہُ مِنْکَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ، وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ.

قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللہ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 182، الرقم/ 21629، وأبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 225، الرقم/ 4699، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 29، الرقم/ 77، وابن حبان في الصحيح، 2/ 506، الرقم/ 287، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 109، الرقم/ 247، واللالکائي في اعتقاد أھل السنة، 4/ 612، الرقم/ 1093، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 204، الرقم/ 20663، وأيضًا في شعب الإيمان، 1/ 203، الرقم/ 182.

ایک روایت میں ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہ سا واقع ہوگیا ہے، آپ اس بارے میں مجھے کچھ ارشاد فرمائیں، شاید اللہ تعالیٰ یہ (وسوسہ) میرے دل سے دور فرما دے۔ آپ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ تمام اَہلِ آسمان اور اَہلِ زمین کو عذاب دے دے تو اُس کے باوجود وہ اُن کے لیے ظالم نہیں اور اگر وہ اُن پر رحم فرمائے تو اُس کی رحمت اُن کے لیے اُن کے اعمال (کی جزا) سے بہتر ہوگی۔ اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر اللہ کی راہ میں سونا خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول نہیں فرمائے گا، جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤاور یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا وہ رکنے والا نہ تھا اور جو نہیں ملا وہ ملنے والا نہ تھا (یعنی تقدیر پر ایمان لائے بغیر ایمان مکمل نہیں اور ایمان کے بغیر صدقات و خیرات قبول نہیں ہوتے)۔ اگر اس کے سوا کسی اور عقیدے پر تمہیں موت آ جائے گی تو تم جہنم میں داخل ہو جاؤ گے۔

راوی (ابن الدیلمی) کا بیان ہے: پھر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (تو میرے سوال کرنے پر) اُنہوں نے بھی اِسی طرح بیان فرمایا۔ پھر میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔ پھر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُنہوں نے بھی مجھے اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی۔

اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتّٰی يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَهُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشرّه، 4/ 451، الرقم/ 2144، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 678، الرقم/ 1242، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 223، الرقم/ 214.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک بندہ تقدیر کے خیر و شر پر ایمان نہ لائے، مومن نہیں ہوسکتا، اور جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ جو مصیبت اُس پر آئی ہے وہ (تقدیر میں لکھی تھی اور) ٹلنے والی نہ تھی، اور جو مصیبت اُس سے ٹل گئی ہے وہ اُسے پہنچنے والی نہیں تھی۔

اِسے امام ترمذی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيْبُهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 280، الرقم/ 22466، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب العقوبات، 2/ 1334، الرقم/ 4022، وابن حبان في الصحيح، 3/ 153، الرقم/ 872، والحاکم في المستدرک، 1/ 670، الرقم/ 1814، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 109، الرقم/ 29867، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 100، الرقم/ 1442، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 316، الرقم/ 2530.

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر میں اِضافہ صرف نیکی اور حسنِ سلوک سے ہوتا ہے، تقدیر کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے اور آدمی گناہ کے ارتکاب کی بنا پر، اپنے ملنے والے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

اِسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ سَلْمَانَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ : لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء لا يرد القدر إلا الدعاء، 4/ 448، الرقم/ 2139، والطبراني في المعجم الکبير، 6/ 251، الرقم/ 6128، والبزار في المسند، 6/ 502، الرقم/ 2540، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 35، الرقم/ 833، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 316، الرقم/ 2532.

ایک روایت میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی بدل سکتی ہے اور عمر نیکی اور حسنِ سلوک سے ہی بڑھتی ہے۔

اِسے امام ترمذی، طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ نَافِعٍ رضی الله عنه، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رضی الله عنهما جَائَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ فُـلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ کَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَـلَا تُقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: يَکُوْنُ فِي ہٰذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي الشَّکُّ مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضاء بالقضاء، 4/ 456، الرقم/ 2152، وابن القيم في الحاشية، 12/ 298.

حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اُس نے دین (کے بنیادی اُمور) میں کوئی نئی بات پیدا کی ہے (جس کی دین میں کوئی اصل نہیں)۔ اگر ایسا ہی ہے تو اُسے میری طرف سے (جواباً) سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اِس اُمت میں - یا فرمایا: میری اُمت میں (راوی کو شک ہے) - زمین میں دھنسنا یا چہروں کا مسخ ہونا یا پتھر برسنا تقدیر کے منکرین کے لیے ہے۔

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

  1. عَنْ أَبِي حَفْصَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ رضی الله عنه لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيْقَةِ الإِيْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ: اکْتُبْ، قَالَ: رَبِّ، وَمَاذَا أَکْتُبُ؟ قَالَ: اکْتُبْ مَقَادِیرَ کُلِّ شَيئٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَةُ، يَا بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ مَاتَ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا فَلَيْسَ مِنِّي.

رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 225، الرقم/ 4700، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 58، الرقم/ 59، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 204، الرقم/ 20664، وأيضًا في الاعتقاد/ 136، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 274، الرقم/ 336.

حضرت ابو حفصہ سے روایت ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: اے میرے بیٹے! تم حقیقی ایمان کی حلاوت کبھی نہ پا سکو گے جب تک یہ یقین نہ رکھو کہ جو کچھ تجھے ملا ہے وہ تم سے رکنے والا نہ تھا اور جو تجھے نہیں ملا وہ تجھے ملنے والا نہ تھا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: لکھ۔ قلم نے عرض کیا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ فرمایا: قیامت تک جو چیزیں ہوں گی، سب کی تقدیریں لکھ دو۔ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو (تقدیر کے معاملے میں) اِس کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مرا تو اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔

اِسے امام ابو داود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ عَنْ عَطَاءٍ … قَالَ: فَلَقِيْتُ الْوَلِيْدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ صَاحِبَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَسَأَلْتُهُ: مَا کَانَ وَصِيَّةُ أَبِيْکَ عِنْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: دَعَانِي أَبِي فَقَالَ لِي: يَا بُنَيَّ، اتَّقِ اللہَ، وَاعْلَمْ، أَنَّکَ لَنْ تَتَّقِيَ اللہَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِاللہِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ. فَإِنْ مُتَّ عَلٰی غَيْرِ ہٰذَا دَخَلْتَ النَّارَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الرضا بالقضاء، باب (7)، 4/ 457، الرقم/ 2155، والطيالسي في المسند/ 79، الرقم/ 577، وابن الجعد في المسند، 1/ 494، الرقم/ 3444، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 2/ 218، الرقم/ 357.

حضرت عطاء ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں: … میں صحابیِ رسول حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بیٹے ولید سے ملا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کے والد نے وقتِ وصال کیا وصیت فرمائی تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: (میرے والد نے) مجھے بلا کر فرمایا تھا: اے بیٹے! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یہ بات جان لے کہ تو اُس وقت تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ پر اور ہر خیر و شر کے مقدر ہونے پر ایمان نہ لے آئے۔ اگر تم اس کے برعکس (یعنی ایمان بالقدر کے بغیر) وفات پاگئے تو جہنم میں داخل ہوگے۔

اِسے امام ترمذی، طیالسی، ابن جعد اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ وَفِيْهِ: وَلَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَکَ. سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: الْقَدَرُ عَلٰی ہٰذَا، مَنْ مَاتَ عَلٰی غَيْرِ هٰذَا أَدْخَلَهُ اللہُ النَّارَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 250، الرقم/ 6318، وأيضا في مسند الشاميين، 2/ 414، الرقم/ 1608، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8/ 351-352، الرقم/ 429-430، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 198.

ایک اور روایت میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اور تمہارا ہرگز اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک ہر خیر و شر کے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مقدر ہونے پر ایمان نہ لے آؤ۔ اور یہ بات جان لو کہ جو چیزتجھے مل گئی ہے وہ تمہارے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتی تھی اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ تمہیں ملنے والی نہیں تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تقدیر پر ایسا ایمان رکھنا ضروری ہے جو اس کے خلاف (کسی دوسرے عقیدے) پر مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا۔

اسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ عِمْرَانَ رضی الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قِيْلَ: فِيْمَا يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: کُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالی: لقد يسرنا القرآن للذکر فهل من مدکر، 6/ 2745، الرقم/ 7112، ومسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کيفية الخلق الآدمي في بطن أمہ وکتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، 4/ 2041، الرقم/ 2649، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 228، الرقم/ 4709، والنسائي في السنن الکبریٰ، 6/ 517، الرقم/ 11680، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 130، الرقم/ 269، وابن عبد البر في التمهيد، 6/ 10، والبيهقي في الاعتقاد/ 146.

حضرت عمران (بن حصین) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا اہلِ دوزخ سے اہلِ جنت (کی تفریق) کا علم متعین ہوچکا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ کہا: پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے اُس کے لیے وہ عمل آسان کر دیا گیا ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : کُلُّ شَيْئٍ بِقَدَرٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَمَالِکٌ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کل شيء بقدر، 4/ 2045، الرقم/ 2655، ومالک في الموطأ، 2/ 899، الرقم/ 1595، وابن حبان في الصحيح، 14/ 17، الرقم/ 6149، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 205، الرقم/ 20671، وأيضًا في الاعتقاد/ 136، والقضاعي في مسند الشهاب، 1/ 149، الرقم/ 204.

ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز ایک مقررہ مقدار پر بنائی گئی ہے۔

اِسے امام مسلم، مالک اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : ثَـلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الإِيْمَانِ: الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ، وَلَا نُکَفِّرُهُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ (وفيه) وَالإيمان بِالأَقْدَارِ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور، 3/ 18، الرقم/ 2532، وأبو يعلی في المسند، 7/ 287، الرقم/ 4311-4312، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7/ 285، الرقم/ 2741، وسعيد بن منصور في السنن، 2/ 176، الرقم/ 2367، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 156، الرقم/ 18261، وأيضًا في الاعتقاد/ 188، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 7/ 1227، الرقم/ 2301.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں: جس نے لا إلہ إلّا اللہ کہا اُس کے قتل سے ہاتھ روکنا، کسی گناہ کے باعث ہم اُس کی تکفیر نہ کریں اور کسی عمل کے باعث اُسے اسلام سے خارج نہ قرار دیں۔ اور (ان میں آخری) تقدیر پر ایمان لانا ہے۔

اِسے امام ابو داود، ابو یعلی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشره، 4/ 452، الرقم/ 2145، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 32، الرقم/ 81، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 66، الرقم/ 443، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 620، الرقم/ 1105.

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔ وہ اِس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں مجھے اس نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان لائے۔

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، مقدسی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي عَزَّةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : إِذَا قَضَی اللہُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوْتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً، أَوْ قَالَ: بِهَا حَاجَةً.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 227، الرقم/ 22034، والترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء أن النفس تموت حيث ما کتب لها، 4/ 452، الرقم/ 2146، والبزار في المسند، 5/ 275، الرقم/ 1889، والطبراني في المعجم الکبير، 22/ 276، الرقم/ 706، والحاکم في المستدرک، 1/ 102، الرقم/ 127.

حضرت ابو عزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے کسی مقام کو جائے موت مقرر کر دیتا ہے تو اس طرف (یعنی مقررہ وقت پر اُس جگہ پہنچنے) کے لیے کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ) إِلَيْهَا حَاجَۃ کے الفاظ ہیں یا بِهَا حَاجَۃ کے الفاظ روایت کیے گئے۔

اِسے امام احمد نے اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اور حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

  1. عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ کَانَ يُکْثِرُ أَنْ يَدْعُوَ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ وَالأَمَانَةَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد/ 115، الرقم/ 307، والطبراني في الدعا/ 415، الرقم/ 1406، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 217، الرقم/ 195، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 456، الرقم/ 1852، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 54/ 65، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 173، والسيوطي في الدر المنثور، 2/ 318.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! میں تجھ سے صحت، پاک دامنی، امانت داری، حُسنِ خُلق اور تقدیر پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں۔

اِسے امام بخاری نے الأدب المفرد میں، اور طبرانی، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: قَالَ اللہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: مَنْ لَمْ يَرْضَ بِقَضَائِي وَيَصْبِرْ عَلٰی بَـلَائِي فَلْيَلْتَمِسْ رَبًّا سِوَايَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22/ 320، الرقم/ 807، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 218، الرقم/ 200، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 169، الرقم/ 4449، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21/ 60، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 207.

ایک روایت میں حضرت ابو ہند الداری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: جو شخص میرے فیصلے پر راضی نہیں اور میری آزمائش پر صابر نہیں، تو اُسے چاہیے کہ وہ میرے سوا کوئی اور رب تلاش کر لے۔

اِسے امام طبرانی، بیہقی، دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا تُرْضِيَنَّ أَحَدًا بِسُخْطِ اللہ وَلَا تَحْمَدَنَّ أَحَدًا عَلٰی فَضْلِ اللہ وَلَا تَذُمَّنَّ أَحَدًا عَلٰی مَا لَم يُؤْتِکَ اللہُ، فَإِنَّ رِزْقَ اللہ لَا يَسُوْقُهُ إِلَيْکَ حِرْصُ حَرِيْصٍ وَلَا يَرُدُّهُ عَنْکَ کَرَهِيَةُ کَارِهٍ، وَإِنَّ اللہَ تَعَالٰی بِقِسْطِهِ وَعَدْلِهِ جَعَلَ الرَّوْحَ وَالْفَرَحَ فِي الرِّضَا وَالْيَقِيْنِ، وَجَعَلَ الْهَمَّ وَالْحُزْنَ فِي السُّخْطِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10/ 215، الرقم/ 10514، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 221، الرقم/ 208، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 91، الرقم/ 947، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 209، الرقم/ 798، وذکرہ المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 342، الرقم/ 2648، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4/ 71.

ایک روایت میں حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر کسی کو ہرگز راضی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کسی دوسرے کا ہرگز شکر ادا نہ کرنا۔ جو چیز تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ملے، اُس پر کسی اور کو بُرا بھلا ہرگز نہ کہنا۔ کسی خیر خواہ کی خیر خواہی، اللہ تعالیٰ کے رزق کو تیرے پاس کھینچ کر نہیں لاسکتی اور نہ ہی کسی بدخواہ کی بدخواہی اُس (رزقِ مقسوم) کو تجھ سے دور کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے ساتھ راحت اور خوشی کو اپنی رضا اور یقین میں رکھا ہے اور فکر و غم کو اپنی ناراضگی میں رکھا ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا پر سر تسلیم خم کردینے سے راحت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور بھروسہ کرنے پر خوشی ملتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے انسان فکر و غم میں مبتلا ہوجاتا ہے)۔

اِسے امام طبرانی، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الصَّحَابَةِ وَالسَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

قَالَ عَبْدُ اللہ رضی الله عنه : لَا يُؤْمِنُ الْعَبْدُ حَتّٰی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، يَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُخْطِئَهُ، وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَکُنْ لِيُصِيْبَهُ، وَلِأَنْ أَعَضَّ عَلٰی جَمْرَةٍ حَتّٰی تُطْفِيئَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُوْلَ لِأَمْرٍ قَدَّرَهُ اللہُ لَيْتَهُ لَمْ يَکُنْ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 223، الرقم/ 214.

حضرت عبد اللہ (بن عباس) رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ تقدیر پرایمان نہ لے آئے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ جو اُسے مل گیا ہے وہ اُس سے رہنے والا نہیں تھا اور جو اُسے نہیں ملا وہ اُسے ہرگز ملنے والا نہ تھا۔ اگر میں آگ کا انگارا منہ میں رکھ لوں، یہاں تک کہ وہ منہ میں بُجھ جائے تو یہ بات میرے لیے اِس بات سے زیادہ آسان ہے کہ میں کسی ایسے معاملہ میں جسے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا ہے، یہ کہوں: کاش! ایسا نہ ہوتا۔

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه : ذَرْوَةُ الإِيْمَانِ أَرْبَعٌ: الصَّبْرُ لِلْحُکْمِ، وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ، وَالإِخْلَاصُ لِلتَّوَکُّلِ، وَالِاسْتِسْلَامُ لِلرَّبِ.

رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّالَکَاءِيُّ.

أخرجه عبد اللہ بن المبارک في الزهد/ 31، الرقم/ 123، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 219، الرقم/ 202، واللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 4/ 676، الرقم/ 1238، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 65/ 374.

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایمان کی چوٹی چار چیزیں ہیں: اللہ تعالیٰ کے حکم پر صابر رہنا، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا، اللہ تعالیٰ پر اخلاص کے ساتھ توکل کرنا اور رب تعالیٰ کے لیے خود سپردگی (یعنی اس کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر دینا)۔

اِسے امام ابن مبارک، بیہقی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

رُوِيَ لَمَّا وُضِعَ الْمِنْشَارُ عَلٰی رَأْسِ زَکَرِيَّا عليه السلام هَمَّ أَنْ يَسْتَغِيْثَ بِاللہِ تَعَالٰی، فَأَوْحَی اللہُ إِلَيْهِ أَنْ يَّا زَکَرِيَّا، إِمَّا أَنْ تَرْضٰی بِحُکْمِيْ لَکَ، وَإِمَّا أَنْ أُخْرِبَ الْأَرْضَ وَأُهْلِکَ مَنْ عَلَيْهَا؟ فَسَکَتَ حَتّٰی قُطِعَ نِصْفَيْنِ.

ذَکَرَهُ الرِّفَاعِيُّ فِي حَالَةِ أَهْلِ الْحَقِيْقَةِ.

الرفاعي في حالة أهل الحقيقة مع اللہ/ 133.

مروی ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام کے سر اقدس پر آری رکھی گئی تو اُنہیں خیال آیا کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں فریاد کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرمایا: اے زکریا! آیا تو میری تقدیرپر راضی ہوتا ہے یا اِس پر راضی ہوتا ہے کہ میں زمین کو تہ و بالا کر کے اُس کے باشندوں کو ہلاک کر دوں؟ اِس پر وہ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اُن کے دو ٹکڑے کر دیے گئے۔

اِسے امام رفاعی نے حالۃ أھل الحقیقۃ مع اللہ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2025 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved