‘Aqida Khatm-e-Nubuwwat

باب 2 :مرزائے قادیاں کا ختم نبوت کی نسبت ابتدائی عقیدہ

اس سے پہلے ہم معروف ائمہ لغت، ائمہ تفسیرو حدیث اور اکابر علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں لفظِ خاتم النبیین کے معنی ’’آخری نبی اور سلسلۂ نبوت و رسالت کو ختم کرنے والا‘‘بیان کر چکے ہیں جس پر تمام امتِ مسلمہ کا ہمیشہ سے اجماع چلا آرہا ہے۔ دعویٰ نبوت کا ارادہ کرنے سے پہلے مرزا صاحب مسلکِ حق اہلِ سنت و جماعت سے وابستہ تھے اور ان کا عقیدہ بھی وہی تھا جو قرآن و سنت پر مبنی جمہور مسلمانوں اور ائمہ اعلام کا عقیدہ ہے۔ وہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کرتے اور ختم نبوت سے آخری نبوت مراد لیتے تھے۔ ان کے نزدیک بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد مدعئ نبوت کافر، کذّاب، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج تھا۔ جب انہوں نے شیطان کے بہکا وے میں آکر خود دعویٰ نبوت کا ارادہ کر لیا جو ان کے اپنے خبثِ باطن اور پراگندہ ذہن کی پیداوار تھا یا بین الاقوامی طاغوتی و سامراجی طاقتوں کے اس منصوبے کا حصہ تھا جو وہ اسلام کو نقصان پہنچانے اور وحدتِ امت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے پروان چڑھا رہے تھے یا داخلی اور خارجی دونوں عوامل اس میں بیک وقت جمع ہوگئے تھے۔ غرض اس کے پیچھے عوامل چاہے جو بھی کارفرما ہوں، یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے باطن میں خود ساختہ باطل نبوت کے دعویٰ کا ارادہ کر لیا تھا، اسی بنا پر انہوں نے براہ راست دعویٰ نبوت سے پہلے ختم نبوت کے معنی کو بدلا اور خاتم النبیین کے معنی کی نئی تعبیر شروع کی۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے پر قطعیت کے ساتھ وہ جوکچھ لکھ چکے تھے اور اس کے منکر کو خارج از اسلام قرار دے چکے تھے، چونکہ یہ سب کچھ ریکارڈ پر تھا، لهٰذا اب نئی باطل نبوت کے دعویٰ کو جواز فراہم کرنے کے لیے انہوں نے اپنے پچھلے بیان کردہ موقف اور نئے عزائم اور ارادوں کے درمیان ایک تسلسل قائم کرنا ضروری سمجھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی تحریروں میں ختم نبوت کے بیان کردہ معنی و مفہوم سے تدریجاً انحراف کیا اور اپنی جھوٹی نبوت کی راہ ہموار کرنے کے لیے بتدریج پہلے مؤقف سے منحرف ہوگئے اور بالآخر معنوی انحراف کرتے ہوئے اسے نئے معنی پہنائے اور ایک ایسا موقف اختیار کرلیا جو سابقہ مؤقف سے یکسر متضاد تھا۔ یہ تحریف اس لیے کی تاکہ ختم نبوت اور خاتم النبیین کا نیا معنی ان کے اپنے اقوال اور وضاحتوں سے ان کو ماننے والے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ اس کا ذکر ہم اگلے باب میں کریں گے کہ کس طرح ان کی نئی تحریریں سابقہ موقف سے انحراف پر دلالت کرتی ہیں۔

اس باب میں ہم مرزائے قادیان کی ان تحریروں سے ماخوذ چند عبارات بطور حوالہ پیش کرتے ہیں جن میں انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار اور اس پر ایمان کا بڑی شدت سے اظہار کیا یہاں تک کہ اس کے منکر کو خارج از اسلام اور کافر قرار دیا۔

لفظِ خاتم کی معنوی تفسیر: جس کے بعد کوئی نہ آئے

ابتدائی دور میں مرزا صاحب کے نزدیک خاتم کا معنی کیا تھا وہ ان کی درج ذیل عبارت سے ظاہر ہے اور اس کے واضح ہونے میں کسی کو کوئی کلام نہیں ہوسکتا:

’’میرے ساتھ (جڑواں) ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اس لیے میں ان کے لیے خاتم الاولاد تھا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، تریاق القلوب: 351

مرزا صاحب کے مذکورہ بیان سے صاف واضح ہورہا ہے کہ ان کے نزدیک آخر کے معنی ’’سب سے آخر میں آنے والا، جس کے بعد کوئی دوسرا نہ ہو‘‘ ہی تھے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر محکم ایمان

دعوی نبوت سے قبل مرزا صاحب جیسا کہ ان کی تحریروں سے واضح ہے حضور نبی مکرّم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آخری نبی مانتے تھے۔ ان کا خود اپنا تحریر کردہ موقف ملاحظہ ہو:

1۔ ’’نہ مجھے دعوی نبوت و خروج از امت اور نہ میں منکر معجزات و ملائکہ اور نہ لیلۃ القدر سے انکاری ہوں میں آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا قائل ہوں اور یقین کامل سے جانتا ہوں۔ اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ خاتم الانبیاء اور حضور ﷺ کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا نیا ہو یا پرانا اور قرآن کا ایک شوشہ ایک نقطہ منسوخ نہیں ہوگا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، نشان آسمانی: 30، مندرجہ روحانی خزائن، 4: 390

2۔ مرزا صاحب کے ابتدائی موقف کا حتمی اظہار ان کی درج ذیل تحریر سے بھی ہوتا ہے:

ولایجیٔ نبی بعد رسول اللہ ﷺ وھو خاتم النبیین بعد وما کان لأحد أن ینسخ القرآن بعد تکمیلہ۔

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری: 32، مندرجہ روحانی خزائن، 7: 199

’’پھر رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آسکتا کیونکہ آپ خاتم انبیاء ہیں اور کوئی قرآن کو اس کی تکمیل کے بعدمنسوخ نہیں کرسکتا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری، مترجم: 76

3۔ ختم نبوت سے متعلق ایک حد یث اور قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’آنحضرت ﷺ نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّيْنَ سے بھی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی ﷺ پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ حاشیہ: 99، 100، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 217، 218

4۔ اپنی کتاب ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں ختمِ نبوتِ محمدی ﷺ سے جو وہ مراد لیتے تھے اس کو یوں بیان کیا:

’’ایسا ہی آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ اور آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ میں صریح نبوت آنحضرت ﷺ پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ۔‘‘

غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 88، مندرجہ روحانی خزائن، 17: 174

5۔ اپنی کتاب ’’اِزالہ اوہام‘‘ میں اسی موقف کی وضاحت میں مزید لکھا:

’’اکیسویں آیت یہ ہے: مَاکَانَ مُحَمَّدٌ أبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللہ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ یعنی محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔ یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی ﷺ کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا پس اس سے بھی بکمال وضاحت ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم دنیا میں نہیں آسکتا کیونکہ مسیح ابن مریم رسول ہے اور رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرائیل حاصل کرے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 614، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 432

6۔ اپنی کتاب ’’اَیامِ صلح‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بہ کمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق یہ شرارت ہے۔ نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لانبی بعدی میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرات اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی منقطع ہو چکی تھی پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کر دیا جائے کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلاشبہ نبوت کی وحی ہو گی۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ایام صلح: 146، مندرجہ روحانی خزائن، 14: 392، 393

7۔ مرزاصاحب ایک جگہ بطور گواہی اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’اور اصل حقیقت جس کی میں عَلٰی رُؤُسِ الْاَشْهَادِ گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا۔‘‘

 غلام احمد قادیانی، انجام آتھم حاشیہ: 27

8۔ ختمِ نبوت کا ثبوت فرمانِ رسول ﷺ - لا نبی بعدی - کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایسا ہی آپ نے لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ کہہ کر کسی نئے نبی یا دوبارہ آنے والے نبی کا قطعاً دروازہ بند کردیا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 152

9۔ ختم نبوت پر اپنے ایمان کا اظہارمزید ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، اربعین نمبر 4: 6

10۔ حقیقۃ الوحی میں کسی شک و شبہ کا امکان رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین ہے اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفی ﷺ کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، حقیقۃ الوحی: 145

11۔ اپنی کتاب چشمۂ معرفت میں حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ لکھتے ہیں:

’’آنحضرت ﷺ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 82، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 90

12۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت پر اپنے عقیدہ کے بارے میں یقین دہانی کراتے ہوئے اسی کتاب میں اپنے اسی موقف کی تائید میں لکھتے ہیں:

’’ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ واقعی اور حقیقی طور پر یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت، حاشیہ: 325، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 340

13۔ جامع مسجد دہلی میں عقیدۂ ختم نبوت کا اقرار کرتے ہوئے کہا:

’’ان تمام امور میں میرا وہی مذھب ہے جو دیگر اہلِ سنت و الجماعت کا مذہب ہے … اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانۂ خدا (جامع مسجد دہلی) میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء ﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کامنکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘

1۔ غلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات، 1: 255
2۔ تبلیغ رسالت، 2: 44، مولفہ میر قاسم علی قادیانی
3۔ غلام احمد قادیانی، آسمانی فیصلہ: 2، مندرجہ روحانی خزائن، 4: 313

14۔ سلسلہ رسالت کے حضور نبی اکرم ﷺ پر ختم ہونے کا اعلان اور اس پر اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’میں ایمان لاتا ہوں اس پر کہ ہمارے نبی محمد خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب قرآن کریم ہدایت کا وسیلہ ہے … اور میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ ہمارے رسول آدم کے فرزندوں کے سردار اور رسولوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا۔‘‘

1۔ مرزا غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 21
2۔ مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن‘5: 21

’’اللہ کو شایان نہیں کہ خاتم النبیین کے بعد نبی بھیجے‘‘

مرزا صاحب خود کسی اور نبوت سے انکار اور ختم نبوت پر اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اور اللہ کو شایان نہیں کہ خاتم النبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہیں شایان کہ سلسلہ نبوت کو دوبارہ از سرنو شروع کر دے۔ بعد اس کے کہ اسے قطع کرچکا ہو اور بعض احکام قرآن کریم کے منسوخ کر دے اور ان پر بڑھا دے۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام: 377

حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد انقطاع وحی پر یقین کا اظہار

1۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد وحی ربّانی کے انقطاع پر یقین کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ــ’’میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب محمد ﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘

غلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات، 1: 230، مورخہ 2 اکتوبر، 1891ء

2۔ اپنی کتاب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ میں اپنا عقیدہ پہلے عربی اور پھر اردو میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ما کان محمّد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین۔ الا تعلم انّ الربّ الرّحیم المتفضل سمّی نبیّنا صلّی اللہ علیہ وسلّم خاتم الأنبیاء بغیر إستثناء وفسرہ نبیّنا فی قولہ لا نبي بعدی ببیان واضح للطّالبین ولو جوّزنا ظہور نبیّ بعد نبیّنا صلّی اللہ علیہ وسلّم لجوزّنا ظہورالفتاح باب وحی النبوّۃ بعد تغلیقھا وھذا خلاف کما لا یخفی علی المسلمین۔ و کیف یجیٔ نبیّ بعد رسولنا صلّی اللہ علیہ وسلّم وقد انقطع الوحی بعد وفاتہ وختم اللہ بہ النبیین۔

(1) غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری: 34

مذکورہ بالا عبارت کا ترجمہ مرزا صاحب کے الفاظ میں ہی ملاحظہ ہو:

’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ ہاں وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی ﷺ کا نام بغیر کسی استثناء کے خاتمِ انبیاء رکھا اور آنحضرت ﷺ نے لا نبی بعدی کے طالبوں کے لیے بیان واضح سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو ہم وحی نبوت کے دروازہ کو بند ہونے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے جو بالبداہت باطل ہے جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں اور ہمارے رسولؐ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے جبکہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اللہ نے آپؐ کے ذریعے نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری (مترجم): 81-84

3۔ اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں مرزا صاحب قیامت تک وحی نبوت کے انقطاع کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ یہ آیت بھی صاف دلالت کرتی ہے کہ بعد ہمارے نبی ﷺ کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا اور اب وحی و رسالت تا قیامت منقطع ہے۔‘‘

غلام احمدقادیانی، ازالہ اوہام: 614

4۔ اسی کتاب میں مزید لکھتے ہیں:

’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل کو بعد وفاتِ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسول ہمارے نبی ﷺ کے بعد ہر گز نہیں آسکتا۔‘‘

غلام احمدقادیانی، ازالہ اوہام: 577، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 412

5۔ مرزا صاحب ’’ازالہ اوہام‘‘میں مزید لکھتے ہیں:

’’قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرئیل ملتا ہے اور باب نزول جبرئیل بہ پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔‘‘

(2) مرزا غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 761، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 511

6۔ وحی رسالت پر مہر لگنے کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اور کیونکر ممکن تھا کہ خاتم النبیین کے بعد کوئی اور نبی اسی مفہوم تام اور کامل کے ساتھ جو نبوت تامہ کی شرائط میں سے ہے آ سکتا۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے نبی کی نبوت تامہ کے لوازم جو وحی اور نزول جبریل ہے اس کے وجود کے ساتھ لازم ہونی چاہئے کیونکہ حسب تصریح قرآن کریم رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبریل کے ذریعہ سے حاصل کیے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے۔ کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی۔‘‘

1۔ مرزا غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 534
2۔ مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 3: 387

مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت سے صریحاً انکار

1۔ مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کا انکار کرتے ہوئے وضاحت کی:

’’میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں، یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے۔ میں تو محمدی اور کامل طور پر اللہ اور رسول کا متبع ہوں اور ان نشانیوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانیوں کا نام کرامات ہے جو اللہ کے رسول کی پیروی سے دیئے جاتے ہیں۔‘‘

غلام احمد قادیانیِ، جنگ مقدس: 74، روحانی خزائن، 6: 156

2۔ ’’میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر … اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔‘‘

1۔ تبلیغ رسالت، 2: 22، مولفہ، میر قاسم علی قادیانی
2۔ مجموعہ اشتہارات، 1: 230، مورخہ 2 اکتوبر 1891ء

3۔ ’’میں جانتا ہوں کہ ہر وہ چیز جو مخالف ہے قرآن کے وہ کذب و الحاد و زندقہ ہے۔ پھر میں کس طرح نبوت کا دعویٰ کروں جب کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘

1۔ مرزا غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری: 96
2۔ مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 7؛ حاشیہ: 297

حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کی ضرورت ہی نہیں

1۔ مرزا صاحب اپنا مبنی برحق موقف تحریر کرتے ہیں:

’’پس اگر ہمارے رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم کو سب آئندہ زمانوں سے اور ان کے رہنے والوں سے علاج اور اصلاح کے لحاظ سے مناسبت نہ ہوتی تو یہ نبی عظیم ان کی اصلاح اور علاج کے لیے قیامت تک کے لیے مبعوث نہ ہوتے۔ پس محمد ﷺ کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کی برکات نے ہر زمانہ کا احاطہ کر لیا ہے۔‘‘

1۔ مرزا غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشریٰ (مترجم): 179-180
2۔ مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، 7: 243، 244

2۔ اکمال دین کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے کوئی ابہام نہ رہنے دیا اور اپنے عقیدے کو یوں بیان کیا:

’’حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہوچکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام: 137، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 169-170

3۔ مرزا صاحب نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ختمیت کے حوالے سے مزید تاکید کے ساتھ کہا:

’’پس بلا شبہ ہمارے نبی ﷺ روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار و بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کی تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، لیکچر اسلام سیالکوٹ: 6، مندرجہ روحانی خزائن، 20: 207

4۔ نبوتِ محمدی ﷺ کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کو بیان کرتے ہوئے کہا:

’’تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گذر چکیں ان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہ ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ ہی اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لیے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہیے تھا کیونکہ جس چیز کے لیے ایک آغاز ہے اس کے لیے ایک انجام بھی ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، الوصیت: 13، روحانی خزائن، 20: 311

5۔ حضور نبی اکرم کی تعلیمات کو کامل قرآن کو خاتم الکتب اور آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیتے ہوئے کہا:

’’انبیاء علیہم السلام کی تعلیم وقت اور موقعہ کے حسب حال ہوتی ہے، لیکن آنحضرت ﷺ کے وقت چونکہ ہر قسم کے فساد کمال تک پہنچ چکے تھے اس لیے ان کی اصلاح کے لیے جو تعلیم دی گئی وہ کامل تھی یہی وجہ ہے کہ خاتم الکتب قرآن مجید نازل ہوا اور آپ پر نبوت ختم ہوگئی۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ملفوظات احمدیہ، 9: 78

حضور ﷺ کے بعد ہر مدعیِ نبوت دائرۂ اسلام سے خارج ہے

اس مضمون کی توضیح میں کہ دعوی نبوت سے قبل مرزا صاحب کس طرح سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کے منکر اور آپ ﷺ کے بعد نبوت کے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے:

1۔ اس حوالے سے بشرح صدر لکھتے ہیں:

’’اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت و الجماعت مانتے ہیں۔ میں کلمۂ طیبہ - لاَ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ - کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ اس کے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، آسمانی فیصلہ: 2

2۔ مرزا صاحب دوسری جگہ اپنے خیالات کا اظہار مزید وضاحت کے ساتھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’ان تمام امور میں میرا وہی مذھب ہے جو دیگر اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے …اب میں مفصلاً ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا (جامع مسجد دہلی) میں کرتا ہوں کہ میں خاتم الانبیاء ﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات، 1: 255

حضور ﷺ کے بعد ہر مدعیِ نبوت کافر و کذّاب ہے

1۔ مرزا صاحب کے نزدیک حضور ختمی مرتبت ﷺ کی شانِ ختمیت کا منکر کافر اور کذاب ہے وہ اس باب میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں:

’’میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جواہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جوقرآن و حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیںاور سیدنا و مولانا حضرت محمدا ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی رسالت کو کافر اور کاذب جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جانب محمدا پر ختم ہو گئی۔‘‘

1۔ اشتہار مرزا ٖغلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات، 1: 230، مورخہ 2 اکتوبر 1891ء
2۔ تبلیغ رسالت، 2: 2

2۔ ایک اور مقام پر مرزا صاحب مستقبل میں کیے جانے والے دعویٔ نبوت کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ما کان لی أن أدعی النبوۃ وأخرج من الإسلام والحق بقوم کافرین۔

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری: 96

’’میرے لیے جائز نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے نکل جاؤں اور کافروں سے مل جاؤں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری، مترجم: 282، مندرجہ روحانی خزائن، 7: 297

3۔ اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں دعویٰ نبوت کو افترا پردازی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت و نبوت کا دعویٰ کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے اور آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرت ﷺ کے بعد نبی اور رسول ہوں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، انجام آتم: 27، مندرجہ روحانی خزائن، 11: 27، حاشیہ

’’مرزا صاحب قرآن حکیم کو خاتمِ کتبِ سماوی مانتے تھے

1۔ قرآن حکیم کو آخری وحی اور کتب سماویہ کی خاتم قرار دیتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اوار ایک شعشہ یا نکتہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا اور اب کوئی ایسی وحی اور ایسا الہام من جانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کو تبدیل یا تغیرکر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے خیال سے جماعت مومنین سے خارج اور کافر اور ملحد ہے۔‘‘

(1) غلام احمد قادیانی، ازالہ اوھام، 137۔ 138، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 169۔ 170

کوئی قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتا

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن حکیم ہدایتِ ابدی کی حامل آخری کتاب ہے۔ کوئی اسے کسی طرح بھی منسوخ نہیں کرسکتا، اس میں ترمیم یا تحریف نہیں کرسکتا۔ دعویٰ نبوت سے قبل مرزا صاحب کا عقیدہ بھی یہی تھا، ان کی تحریر ملاحظہ ہو:

ولا نبي بعد رسول اللہ ﷺ و ھو خاتم النبین و ما کان لأحد ان ینسخ القرآن بعد تکمیلہ۔

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشریٰ، مترجم: 76

’’پھر رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی بھی نہیں آسکتا کیونکہ آپ خاتم انبیاء ہیں اور کوئی قرآن کو اس کی تکمیل کے بعد منسوخ نہیں کرسکتا۔‘‘

لَا نَبِيَّ بَعْدِی میں لَا نفیِ عموم کے لیے ہے

مرزا صاحب حدیث لا نبی بعدی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حدیث پاک میں لا نفی عموم کے لیے ہے، اس لیے آپ ﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آسکتا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بہ کمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق یہ شرارت ہے۔ نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لانبی بعدی میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرات اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی منقطع ہو چکی تھی پھر سلسلہ وحی نبوت کا جاری کر دیا جائے کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلاشبہ نبوت کی وحی ہو گی۔‘‘

مرزا غلام احمد قادیانی، ایام صلح: 146، مندرجہ روحانی خزائن، 14: 392۔ 393

مرزا صاحب کی اس تحریر سے ان کا وفات مسیح اور انکار نزول مسیح کا عقیدہ ظاہر ہو رہا ہے۔ ہم نے ان کے اس بے بنیاد عقیدے کا رد الگ باب میں تفصیلی دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے جو آگے آرہا ہے۔

دعویٰ نبوت سے اللہ کی پناہ

اس اوائل دور میں مرزا صاحب غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ اس دور میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں ان کے اور جملہ مسلمانوں کے عقیدے میں کامل ہم آہنگی پائی جاتی تھی جس کا اظہار ان کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہے:

فلا تظن یا اخی انی قلت کلمۃ فیہ رائحۃ ادعاء النبوۃ کما فہم المتہورون فی ایمانی و عرضی بل کلما قلت انما قلتھا تبیینًا لمعارف القرآن و دقائقہ انما الاعمال بالنیات و معاذ اللہ ان ادعی النبوۃ بعد ما جعل اللہ نبینا و سیدنا محمد المصطفی ﷺ خاتم النبیین۔

غلام احمد قادیانی، حمامۃ البشری، مترجم: 294

’’اے میرے بھائی تو یہ خیال نہ کر کہ میں نے کوئی ایسی بات کی ہے جس میں دعوی نبوت کی بوبھی پائی جاتی ہو جیسا کہ میرے ایمان اور میری عزت پر حملہ کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ جب کبھی میں نے یہ کلمہ کہا ہے تو وہ معارف اور دقائق قرآنیہ کو بیان کرنے کے لیے کہا ہے اور اعمال کادارومدار نیات پر ہے اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نبوت کا دعوی کروں بعداس کے کہ اللہ تعالی نے ہمارے نبی اور آقا محمد مصطفی ﷺ کو خاتم النبیین قرار دیا۔‘‘

مدعی نبوت پر لعنت

ایک اشتہار (مورخہ 20 شعبان 1314ھ/1897ء) میں مدعی نبوت کو لعنت کا حقدار سمجھتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت ﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب ﷺ اولیاء کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں۔‘‘

1۔ تبلیغ رسالت، 6: 2، 3۔ مولفہ میر قا سم علی قادیانی
2۔ مجموعہ اشتہارات، 2: 297، 298

یہ تھا مرزا ئے قادیان کا ابتدئی عقیدہ جو کسی طرح جماعت اہل سنت اور جمیع امت مسلمہ کے عقیدے سے قطعاً مختلف نہیں مگر بعد میں بتدریج مختلف ادوار میں پہلے موقف سے انحراف کی راہ اختیار کرتے ہوئے مختلف دعوے کیے جن کی تفصیل آئندہ صفحات میں دی جارہی ہے۔

مرزا صاحب کا دعوی 1900ء سے قبل امام الزمان، محدَّث، مہدی معہود اور مسیح موعود تک محدود تھا اور وہ حضور نبی محتشم حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے تھے۔ موصوف کا یہ نظریہ اس شعر سے بھی عیاں ہورہا ہے:

ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت را برو شد تمام

غلام احمد قادیانی، سراج منیر (1897ء)

بعد میں انہوں نے کیاکیا پینترے بدلے اور اپنے سابقہ موقف سے کس طرح دست بردار ہو گئے اس کی تفصیل اگلے باب میں بیان کی جا رہی ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved