Rahmat-e-Ilahi par Iman Afroz Ahadith Mubaraka ka Majmu‘a

باب اول :اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

بَابٌ فِي اَنَّ رَحْمَةَ اﷲِ تَعَالَی غَالِبَةٌ عَلَی غَضَبِهِ

{بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے}

1/ 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اﷲُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ وَهُوَ يَکْتُبُ عَلَی نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَی الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالی: ويحذّرکم اﷲ نفسه، 6/ 2694، الرقم: 6969، ومسلم في الصحيح، کتاب:التوبة-، باب: في سعة- رحمة- اﷲ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4/ 2107، الرقم: 2751، والتّرمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ ، باب: خلق اﷲ مائة- رحمة-، 5/ 549، الرقم: 3543، وقال أبو عيسی: هذا حديث حسن صحيح، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ما يرجی من رحمة- اﷲ يوم القيامة-، 2/ 1435، الرقم: 4295، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 417، الرقم: 7751.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2/ 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ لَمَّا قَضَی الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسائِيُّ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: وکان عرشه علی الماء وهو رب العرش العظيم، 6/ 2700، الرقم: 6986، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 418، الرقم: 7757، والطبراني في مسند الشاميين، 4/ 275، الرقم:3270.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش کے اوپر اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا: بے شک میری رحمت میرے غضب سے بڑھ گئی ہے۔‘‘ اسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

3/ 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ حِيْنَ خَلَقَ الْخَلْقَ کَتَبَ بِيَدِهِ عَلَی نَفْسِهِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِی.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

3: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ ، باب: خلق اﷲ مائة- رحمة، 5/ 549، الرقم: 3543، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 417، الرقم:7751، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 60، الرقم: 34199، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 433، الرقم: 9595.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے دست قدرت سے اپنی ذات کے لئے لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

4/ 4. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْمَا رَوَی عَنِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّهُ قَالَ: يَا عِبَادِي، إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَـلَا تَظَالَمُوْا يَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُوْنِي أَهْدِکُمْ. يَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُوْنِي أُطْعِمْکُمْ. يَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ کَسَوْتُهُ فَاسْتَکْسُوْنِي أَکْسُکُمْ. يَا عِبَادِي، إِنَّکُمْ تُخْطِؤنَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِي أَغْفِرْ لَکُمْ. يَا عِبَادِي، إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضَرِّي فَتَضُرُّوْنِي وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِي فَتَنْفَعُوْنِي. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِي مُلْکِي شَيْئًا. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِي شَيْئًا. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِي صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا کَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ. يَا عِبَادِي، إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِيْهَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّيْکُمْ إِيَاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اﷲَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِکَ فَـلَا يَلُوْمَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والآداب، باب: تحريم الظلم، 4/ 1994، الرقم: 2577، والترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ ، باب: منه، 4/ 656، الرقم: 2495، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 72، الرقم: 29557، وعبد الأعلی بن مسهر في نسخة أبي مسهر، 1/ 23، الرقم: 1.

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے یہ روایت کیا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا، لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، سو تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں، پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھلاؤں گا، اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہٰذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا، اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں کہ مجھے نفع پہنچا سکو، اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میری بادشاہت سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے) اس میں کمی ہوتی ہے، اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا دوں گا، پس جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جسے خیر کے سوا کوئی چیز (مثلاً آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔‘‘

اسے امام مسلم، ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

5/ 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَبْتُ فَاغْفِرْ لِي فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ، أَذْنَبْتُ أَوْ أَصَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَرُبَّمَا قَالَ: أَصَابَ ذَنْبًا قَالَ: قَالَ: رَبِّ، أَصَبْتُ أَوْ قَالَ: أَذْنَبْتُ آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَـلَاثًا فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالی يريدون أن يبدلوا کلام اﷲ، 6/ 2725، الرقم: 7068، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 405، الرقم: 9245، والحاکم في المستدرک، 4/ 270، الرقم: 7608، وقال الحاکم: هذا حديث صحيح علی شرط الشيخين، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 188، الرقم: 20553، وأيضًا في الأربعون الصغری، 1/ 30، الرقم: 9.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے گناہ کیا (راوی نے کبھی یہ الفاظ کہے کہ ایک شخص سے گناہ سر زد ہوا) تو وہ عرض گزار ہوا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (کبھی یہ الفاظ کہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا) پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اُس کے رب نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ گناہ سے باز رہا، پھر اُس نے گناہ کیا (یا اس سے گناہ سرزد ہو گیا) تو اس نے عرض کیا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (یا مجھ سے گناہ ہو گیا) پس مجھے بخش دے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، پس میں نے اپنے بندے کو پھر بخش دیا۔ پھر وہ ٹھہرا رہا جب تک اللہ نے چاہا، پھر اس نےگناہ کیا (اور کبھی یہ کہا کہ مجھ سے گناہ ہوگیا)۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پھر عرض گزار ہوا: اے رب! مجھ سے گناہ ہو گیا یا میں پھر گناہ کر بیٹھا، پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے سبب پکڑتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو تیسری دفعہ بھی بخش دیا۔ پس جو چاہے کرے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔

6/ 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ فِيْمَا يَحْکِي عَنْ رَبِّهِ قَالَ: أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَي رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: عَبْدِي أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَي رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَی: لَا أَدْرِي أَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ: اعْمَلْ مَا شِئْتَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

6: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: قبول التوبة من الذنوب، 4/ 2112، الرقم: 2758، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 492، الرقم: 10384، وابن حبان في الصحيح، 2/ 392، الرقم: 625، وأبو يعلی في المسند، 11/ 408، الرقم: 6534، والحاکم في المستدرک، 4/ 270، الرقم: 7608، وقال: هذا حديث صحيح علی شرط الشيخين.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ایک بندے نے گناہ کیا پھر (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کیا:اے اللہ! میرے گناہ کو بخش دے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اُسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، (سُو اﷲ تعالیٰ اُسے بخش دیتا ہے) پھر دوبارہ وہ بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اُسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے، (سو وہ اُسے پھر بخش دیتا ہے) وہ بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرے گناہ کو معاف کر دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے (سو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے) تم جو چاہو کرو، میں نے تمہاری مغفرت کر دی، راوی حدیث عبدا لاعلیٰ نے کہا مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا تھا: جو چاہو کرو۔‘‘

اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

7/ 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُهُمَا فَقَالَ الرَّبُّ ل: أَخْرِجُوْهُمَا فَلَمَّا أُخْرِجَا قَالَ لَهُمَا: لِأَيِّ شَيئٍ اشْتَدَّ صِيَاحُکُمَا؟ قَالَا: فَعَلْنَا ذَلِکَ لِتَرْحَمَنَا قَالَ: إِنَّ رَحْمَتِي لَکُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَکُمَا حَيْثُ کُنْتُمَا مِنَ النَّارِ فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُهُمَا نَفْسَهُ فَيَجْعَلُهَا عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا وَيَقُوْمُ الْآخَرُ فَـلَا يُلْقِي نَفْسَهُ فَيَقُوْلُ لَهُ الرَّبُّ : مَا مَنَعَکَ أَنْ تُلْقِيَ نَفْسَکَ کَمَا أَلْقَی صَاحِبُکَ؟ فَيَقُوْلُ: يَا رَبِّ إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ لَا تُعِيْدَنِي فِيْهَا بَعْدَ مَا أَخْرَجْتَنِي فَيَقُوْلُ لَهُ الرَّبُّ: لَکَ رَجَاوُکَ فَيَدْخُـلَانِ جَمِيْعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.

7: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب: صفة جهنم عن رسول اﷲ ، باب: منه، 4/ 714، الرقم: 2599، وابن المبارک في المسند، 1/ 68، الرقم: 111.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے دو آدمی زور زور سے چلانے لگیں گے۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اِن دونوں کو نکالو۔ اُنہیں نکالا جائے گا تو اﷲ تعالیٰ اُن سے پوچھے گا: تم لوگ اتنا کیوں چیخ رہے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم نے یہ اس لئے کیا ہے تاکہ تو ہم پر رحم فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: میری تم لوگوں پر رحمت یہی ہے کہ جاؤ اور دوبارہ خود کو دوزخ میں ڈال دو۔ وہ دونوں جائیں گے اور (ان میں سے) ایک اپنے آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ اﷲ تعالیٰ اس پر آگ کو سرد اور سلامتی والی بنا دے گا۔ دوسرا وہیں کھڑا رہے گا اور اپنے آپ کو جہنم میں نہیں ڈالے گا۔ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو بھی اپنے آپ کو اسی طرح ڈالتا جس طرح تیرے ساتھی نے ڈالا۔ وہ کہے گا: اے رب! مجھے اُمید ہے کہ تو ایک مرتبہ دوزخ سے نکالنے کے بعد دوبارہ نہیں لوٹائے گا۔ اﷲ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: تیرے ساتھ تیری اُمید کے مطابق معاملہ ہو گا۔ پس دونوں اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن مبارک نے روایت کیا ہے۔

8/ 8. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی: يَا عِبَادِي کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَسَلُونِي الْهُدَی أَهْدِکُمْ. وَکُلُّکُمْ فَقِيْرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ فَسَلُوْنِي أَرْزُقْکُمْ وَکُلُّکُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ فَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ أَنِّي ذُوْ قُدْرَةٍ عَلَی الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أُبَالِي وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَحَيَکُمْ وَمَيِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَيَابِسَکُمُ اجْتَمَعُوْا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا زَادَ ذَلِک فِي مُلْکِي جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَحَيَکُمْ وَمَيِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَيَابِسَکُمُ اجْتَمَعُوْا عَلَی أَشْقَی قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِي جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَحَيَکُمْ وَمَيِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَيَابِسَکُمْ اجْتَمَعُوْا فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْکُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَتُهُ فَأَعْطَيْتُ کُلَّ سَائِلٍ مِنْکُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِي إِلَّا کَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيْهِ إِبْرَةً ثُمَّ رَفَعَهَا إِلَيْهِ. ذَلِکَ بِأَنِّي جَوَّادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيْدُ عَطَائِي کَـلَامٌ وَعَذَابِي کَلَامٌ إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيئٍ إِذَا أَرَدْتُهُ أَنْ أَقُوْلَ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

8: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب: منه، 4/ 656، الرقم: 2495، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر التوبة، 2/ 1422، الرقم: 4257، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 154، الرقم: 21405.

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم سب بھٹکے ہوئے ہو مگر جسے میں ہدایت دوں (وہ ہی ہدایت یافتہ ہے) پس مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہاری راہ نمائی کروں گا۔ تم سب محتاج ہو، مگر جسے میں نے مالدار کیا (وہ ہی امیر ہے) پس مجھ سے اپنا رزق مانگو میں تمہیں رزق دونگا۔ تم سب گنہگار ہو، مگر جسے میں معافی دوں پس جسے معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں وہ مجھ سے بخشش مانگے، میں بخش دونگا اور مجھے اس کی پرواہ نہیں اور اگر تمہارے پہلے، پچھلے، زندہ، مردہ اور تر و خشک سب کے سب میرے بندوں میں سے بڑے پرہیزگار بندے کے دل پر جمع ہو جائیں تو میری حکومت میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کر سکیں گے۔ اگر تمہارے اول، آخر، جن، انسان، زندہ، مردہ اور تر و خشک ایک زمین میں جمع ہوجائیں پھر ہر انسان اپنی آرزو کے مطابق سوال کرے اور میں ہر سائل کو اُس کی خواہش کے مطابق دوں تو بھی میری حکومت و سلطنت میں کچھ کم نہ ہوگا مگر اتنا کہ اگر تم میں سے کوئی سمندر کے پاس سے گزرے اور اس میں سوئی ڈال کر پھر اسے اپنی طرف اُٹھا لے۔ یہ اس لئے کہ میں سخی ہوں، بزرگی والا ہوں، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں، میرا عطا کرنا بھی (محض) کہنا ( حکم دینا) ہے اور میرا عذاب بھی ایک کلام (حکم) ہی ہے۔ میرا حکم کسی چیز کے لئے یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہوں تواسے کہتا ہوں: ’’ہو جا‘‘ پس وہ ہو جاتا ہے۔‘‘

اسے مام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

9/ 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ عَلَی مَا کَانَ فِيْکَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ، لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُکَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.

وَقَالَ: أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

9: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ ، باب: في فضل التوبة والاستغفار، 5/ 548، الرقم: 3540، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 315، الرقم: 4305، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 2/ 231.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسان! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور اُمید رکھتا رہے گا، میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی لے کر میرے پاس آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے اس کے برابر بخشش عطا کروں گا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

10/ 10. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَاءً وَنَارًا فَأَمَّا الَّذِي يَرَی النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ فَمَائٌ بَارِدٌ وَأَمَّا الَّذِي يَرَی النَّاسُ أَنَّهُ مَائٌ بَارِدٌ فَنَارٌ تُحْرِقُ فَمَنْ أَدْرَکَ مِنْکُمْ فَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَی أَنَّهَا نَارٌ فَإِنَّهُ عَذْبٌ بَارِدٌ قَالَ حُذَيْفَة: وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: إِنَّ رَجُـلًا کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَتَاهُ الْمَلَکُ لِيَقْبِضَ رُوْحَهُ فَقِيْلَ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ قَالَ: مَا أَعْلَمُ قِيْلَ لَهُ: انْظُرْ قَالَ: مَا أَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ أَنِّي کُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا وَأُجَازِيْهِمْ فَأُنْظِرُ الْمُوْسِرَ وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمُعْسِرِ فَأَدْخَلَهُ اﷲُ الْجَنَّةَ فَقَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: إِنَّ رَجُـلًا حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَلَمَّا يَئِسَ مِنَ الْحَيَاةِ أَوْصَی أَهْلَهُ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَاجْمَعُوْا لِي حَطَبًا کَثِيْرًا وَأَوْقِدُوْا فِيْهِ نَارًا حَتَّی إِذَا أَکَلَتْ لَحْمِي وَخَلَصَتْ إِلَی عَظْمِي فَامْتُحِشَتْ فَخُذُوْهَا فَاطْحَنُوْهَا ثُمَّ انْظُرُوْا يَوْمًا رَاحًا فَاذْرُوْهُ فِي الْيَمِّ، فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَهُ اﷲُ فَقَالَ لَهُ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِکَ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِکَ فَغَفَرَ اﷲُ لَهُ قَالَ عُقْبَة بْنُ عَمْرٍو: وَأَنَا سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ ذَاکَ وَکَانَ نَبَّاشًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: أحاديث الأنبياء، باب: ما ذکر عن بني إسرائيل، 3/ 1272، الرقم: 3266، وأيضًا فيکتاب: البيوع، باب: من أنظر موسرا، 2/ 731، الرقم: 1971.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دجال کے ساتھ پانی ہو گا اور آگ بھی۔ پس جسے لوگ دیکھیں گے کہ یہ آگ ہے وہ حقیقت میں ٹھنڈا پانی ہو گا اور جسے لوگ ٹھنڈا پانی سمجھیں گے وہ جلانے والی آگ ہوگی۔ پس جو کوئی تم میں سے اس کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اُس کی آگ میں چلا جائے کیونکہ وہ میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: گذشتہ زمانوں کے کسی آدمی کے پاس ملک الموت اُس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا: کیا تجھے اپنی کوئی نیکی معلوم ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میرے علم میں تو کوئی نہیں۔ اس سے کہا گیا، ذرا اور توجہ سے دیکھ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے علم تو کوئی چیز نہیں سوائے اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کرتا تھا تو مالدار کو مہلت دے دیا کرتا اور غریب آدمی سے درگزر کرتا رہتا تھا۔ اِس نیک عمل کے سبب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے یہ بھی روایت کی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: ایک آدمی کی جب موت قریب آئی اور اُسے زندگی سے مایوسی ہوگئی تو اس نے اپنے اہل و عیال کو وصیت کی: جب میں مر جاؤں تو میرے لئے بہت سا ایندھن لے کر اس میں آگ لگا دینا۔ جب وہ میرے گوشت کے ساتھ ہڈیوں کو بھی جلا دے تو انہیں جمع کرکے پیس لینا اور جس روز تیز ہوا چلے اس روز وہ راکھ کسی دریا میں ڈال دینا۔ اس کے خویش و اقارب نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام اجزا اکٹھے کر کے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ جواب دیا: تیرے ڈر سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے اور وہ آدمی مردے دفنانے کا کام کرتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

11/ 11. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ رَجُـلًا کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَهُ اﷲُ مَالًا فَقَالَ لِبَنِيْهِ لَمَّا حُضِرَ: أَيَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ؟ قَالُوْا: خَيْرَ أَبٍ. قَالَ: فَإِنِّي لَمْ أَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِي ثُمَّ اسْحَقُوْنِي ثُمَّ ذَرُّوْنِي فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَهُ اﷲُ ل فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ؟ قَالَ: مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاهُ بِرَحْمَتِهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِي وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب: أحاديث الأنبيائ، باب: حديث الغار، 3/ 1282، الرقم: 3291، وأيضًا في کتاب: الرِّقاق، باب: الخوف من اﷲ، 5/ 2378، الرقم: 6116، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 69، الرقم: 11682، وايضًا الرقم: 11753، وابن حبان في الصحيح، 2/ 417، الرقم: 649، وأبو يعلی في المسند، 2/ 314، الرقم: 1047، والطبراني في المعجم الکبير، 19/ 423، الرقم: 1026.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے وافر مال عطا فرمایا تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنے بیٹوں سے کہنے لگا: میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے جواب دیا، آپ بہت اچھے باپ ہیں۔ کہنے لگا: میں نے نیکی کا کبھی کوئی کام نہیں کیا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر مجھے پیس ڈالنا اور جس روز تیز ہوا چلے تو میری راکھ کو بھی اُڑا دینا۔ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُس کے ذرات کو جمع کر کے دریافت فرمایا: تجھے اِس پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اُس نے جواب دیا: تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

12/ 12. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ رَجُـلًا حَضَرَهُ الْمَوْتُ لَمَّا أَيِسَ مِنَ الْحَيَاةِ أَوْصَی أَهْلَهُ: إِذَا مُتُّ فَاجْمَعُوْا لِي حَطَبًا کَثِيْرًا ثُمَّ أَوْرُوْا نَارًا حَتَّی إِذَا أَکَلَتْ لَحْمِي وَخَلَصَتْ إِلَی عَظْمِي فَخُذُوْهَا فَاطْحَنُوْهَا فَذَرُّوْنِي فِي الْيَمِّ فِي يَوْمٍ حَارٍّ أَوْ رَاحٍ فَجَمَعَهُ اﷲُ فَقَالَ: لِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: خَشْيَتَکَ فَغَفَرَ لَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَزَّارُ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب: أحاديث الأنبياء، باب: حديث الغار، 3/ 1283، الرقم: 3292، والبزار في المسند، 7/ 244، الرقم: 2822، والبيهقي في شعب الإيمان، 5/ 430، الرقم: 7160، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 522، الرقم: 3294، والعيني في عمدة القاري، 16/ 62، الرقم: 9743، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 583.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کی جب موت کا وقت آیا اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا تو اُس نے اپنے اہل و عیال کو وصیت کی: جب میں مر جاؤں تو میرے لئے بہت سا ایندھن اکٹھا کر کے آگ جلانا (اور مجھے جلا دینا)، جب آگ میرے گوشت کو جلا کر ہڈیوں تک پہنچ جائے تو میرے جسم کو لے کر پیس ڈالنا اور کسی گرم ترین دن میں یا جس روز تیز ہوا چلے تو میری راکھ کو دریا میں ڈال دینا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کے اجزا کو جمع کیا اور فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے جواب دیا: محض تجھ سے ڈرتے ہوئے، پس اﷲ تعالیٰ نے اُس کی مغفرت فرما دی۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور بزار نے روایت کیا ہے۔

13/ 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَإِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوْهُ وَاذْرُوْا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ، فَوَاﷲِ، لَئِنْ قَدَرَ اﷲُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِيْنَ فَأَمَرَ اﷲُ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيْهِ وَأَمَرَ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيْهِ ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِکَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ فَغَفَرَ لَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالی: يريدون أن يبدلوا کلام اﷲ، 6/ 2725، الرقم: 7067، ومسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في سعة رحمة اﷲ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4/ 2109، الرقم: 2756، ومالک في الموطأ، 1/ 240، الرقم: 570.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص، جس نے کوئی نیکی نہیں کی تھی کہا: جب وہ مر جائے تو اُسے جلا دیا جائے، پھر اُس کی آدھی راکھ خشکی میں اور آدھی سمندر میں بہا دی جائے۔ کیونکہ خدا کی قسم، اگر اللہ تعالیٰ نے اُس پر قابو پایا تو ضرور اُسے اتنا عذاب دے گا جتنا ساری دنیا میں کسی کو عذاب نہ دیا ہو گا۔ (سو اُس کے اہلِ خانہ نے ایسا ہی کیا) پس اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو اس نے اس کے سارے ذرے اکٹھے کر دیئے اور خشکی کو حکم دیا تو جو ذرے اس کے اندر تھے اس نے جمع کر دیئے پھر اُس سے دریافت فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے عرض کیا: (اے اﷲ!) تو اچھی طرح جانتا ہے، تجھ سے ڈرتے ہوئے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اُسے بخش دیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

14/ 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَی نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْصَی بَنِيْهِ فَقَالَ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِي ثُمَّ اسْحَقُوْنِي ثُمَّ اذْرُوْنِي فِي الرِّيحِ فِي الْبَحْرِ، فَوَاﷲِ، لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبُنِي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ بِهِ أَحَدًا قَالَ: فَفَعَلُوْا ذَلِکَ بِهِ فَقَالَ لِلْأَرْضِ: أَدِّي مَا أَخَذْتِ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ فَقَالَ لَهُ: مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ فَقَالَ: خَشْيَتُکَ يَا رَبِّ أَوْ قَالَ مَخَافَتُکَ فَغَفَرَ لَهُ بِذَلِکَ.

رََوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.

14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في سعة رحمة اﷲ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4/ 2110، الرقم: 2756، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر التوبة، 2/ 1421، الرقم: 4255، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 269، الرقم: 7635، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 283، الرقم: 20548.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے اپنی جان پر زیادتی کی (یعنی زندگی بھر گناہوں میں لت پت رہا)۔ جب اُس کی موت کا وقت آیا تو اُس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی جب میں مر جاؤں تو مجھے آگ میں جلا دینا، پھر مجھے راکھ کر کے ہوا اور سمندر میں منتشر کر دینا کیونکہ بخدا اگر میرے رب نے گرفت کی تو وہ مجھے اتنا عذاب دے گا کہ کوئی کسی کو اتنا عذاب نہیں دے سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا تو نے (اُس کے ذرّات میں سے) جو کچھ لیا ہے اُس کو واپس کر دے، وہ شخص (سلامت ہو کر) کھڑا ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھ کو اِس وصیت پر کس چیز نے برانگیختہ کیا تھا، اُس شخص نے عرض کیا: اے رب! تیری خشیت نے یا اُس نے کہا: اے رب تیرے خوف نے۔ پس اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ، احمد اور عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔

15/ 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمُوْمِنُ مَا عِنْدَ اﷲِ مِنَ الْعُقُوْبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ وَلَوْ يَعْلَمُ الْکَافِرُ مَا عِنْدَ اﷲِ مِنَ الرَّحْمَةِ مَا قَنَطَ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وأَحْمَدُ.

15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: التوبة، باب: في سعة رحمة اﷲ تعالی وأنّها سبقت غضبه، 4/ 2109، الرقم:2755، والترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ ، باب: خلق اﷲ مائة رحمة، 5/ 549، الرقم: 3542، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 334، الرقم: 8396، وأبو يعلی في المسند، 11/ 392، الرقم: 6507، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 349، الرقم: 5056، والقرشي في حسن الظن باﷲ، 1/ 29، الرقم: 19.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر مسلمان کو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کس قدر سزا ہے تو کوئی بھی اُس کی جنت کی اُمید نہ رکھتا۔ اگر کافر کو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کس قدر رحمت ہے تو کوئی (کافر) بھی اُس کی جنت سے نا اُمید نہ ہوتا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved