عمدۃ التصریح في قیام رمضان وصلاۃ التراویحِ

رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نماز تہجد کا بیان

ذِکْرُ صَلَاۃِ تَھَجُّدِ النَّبِيِّ ﷺ فِي رَمَضَانَ

43: 1. عَنْ أَبِي سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّهٗ سَأَلَ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا: کَیْفَ کَانَتْ صَلَاۃُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا کَانَ یَزِیدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَیْرِہٖ عَلٰی إِحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً۔ یُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّي ثَـلَاثًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فقَالَ: یَا عَائِشَۃُ، إِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِي.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التہجد، باب قیام النبي ﷺ باللیل في رمضان وغیرہ، 1: 385، الرقم: 1096، وأیضًا في کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2: 708، الرقم: 1909، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی ﷺ في اللیل، 1: 509، الرقم: 738 (125)، والترمذي في السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في وصف صلاۃ النبي ﷺ باللیل، 2: 302، الرقم: 439، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب في صلاۃ اللیل، 2: 40، الرقم: 1341، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار، باب کیف الوتر بثلاث، 2: 234، الرقم: 1697

ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی کیاکیفیت ہوتی تھی؟ فرمایا: آپ رمضان اور غیر رمضان میں (بشمول وتر) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تو اُن کے حسن ادائیگی اور طوالت کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے حسن ادائیگی اور طوالت کے متعلق نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے (ایک مرتبہ حضور ﷺ کی خدمت میں) عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا: عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

آخِرُ صَلَاۃِ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّیْلِ

{حضور نبی اکرم ﷺ کی رات کی سب سے آخری نماز}

44: 2. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: اجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِکُمْ بِاللَّیْلِ وِتْرًا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوتر، باب لیجعل آخر صلاتہ وترا، 1: 339، الرقم: 953، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی والوتر رکعۃ من آخراللیل، 1: 517، الرقم: 751، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 120، الرقم: 4710، وابن أبی شیبۃ في المصنف، 2: 80، الرقم: 6702، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2: 144، الرقم: 1082، والبیہقي في السنن الکبریٰ، 3: 34، الرقم: 4606

حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی رات کی آخری نماز کو وتر بنا لیا کرو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

45: 3. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: مَنْ صَلّٰی مِنَ اللَّیْلِ فَلْیَجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِہٖ وِتْرًا، فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ کَانَ یَأْمُرُ بِذٰلِکَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی والوتر رکعۃ من آخر اللیل، 1: 517، الرقم: 751، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار، باب وقت الوتر، 3: 230، الرقم: 1682، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 39، الرقم: 4971

ایک اور روایت میں حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جو شخص رات کو نمازِ (تہجد) پڑھے، وہ وتر کو نماز کے آخر میں پڑھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ یہی حکم فرماتے تھے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

46: 4. عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ:کُلَّ اللَّیْلِ أَوْتَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، وَانْتَهٰی وِتْرُهٗ إِلَی السَّحَرِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوتر، باب ساعات الوتر، 1: 338، الرقم: 951، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی ﷺ في اللیل، 1: 512، الرقم: 745، والدارمي في السنن، 4: 450، الرقم: 1587، والنسائي في السنن الکبری، 1: 437، الرقم: 1390، والبیہقي في السنن الکبری، 3: 34، الرقم: 4611

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے اور آپ ﷺ کی نمازِ وتر سحر تک ہوتی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

47: 5. وَعَنْهَا رضی اللہ عنہا قَالَتْ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یُصَلِّي إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً۔ کَانَتْ تِلْکَ صَلَاتَهٗ تَعْنِي بِاللَّیْلِ، فَیَسْجُدُ السَّجْدَۃَ مِنْ ذٰلِکَ قَدْرَ مَا یَقْرَأُ أَحَدُکُمْ خَمْسِینَ آیَۃً قَبْلَ أَنْ یَرْفَعَ رَأْسَهٗ، وَیَرْکَعُ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ، ثُمَّ یَضْطَجِعُ عَلٰی شِقِّهِ الْأَیْمَنِ حَتّٰی یَأْتِیَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلصَّلَاۃِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوتر، باب ما جاء في الوتر، 1: 338، الرقم: 949، وابن حبان في الصحیح، 6: 347، الرقم: 2614

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ (بشمول) وتر گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور یہ آپ ﷺ کی رات کی نماز ہوتی۔ اس میں آپ ﷺ سجدہ ایسا کرتے کہ آپ ﷺ کے سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیتیں پڑھ لیتا۔ آپ ﷺ نمازِ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے۔ پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن نماز کی اطلاع دینے حاضر ہو جاتا۔

اِسے امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

48: 6. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَیْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا: بِکَمْ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُوْتِرُ؟ قَالَتْ: کَانَ یُوْتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَـلَاثٍ، وَسِتٍّ وَثَـلَاثٍ، وَثَمَانٍ وَثَـلَاثٍ، وَعَشْرٍ وَثَـلَاثٍ، وَلَمْ یَکُنْ یُوْتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ وَلَا بِأَکْثَرَ مِنْ ثَـلَاثَ عَشْرَۃَ.

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: زَادَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَلَمْ یَکُنْ یُوتِرُ بِرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ. قُلْتُ: مَا یُوتِرُ؟ قَالَتْ: لَمْ یَکُنْ یَدَعُ ذٰلِکَ وَلَمْ یَذْکُرْ أَحْمَدُ وَسِتٍّ وَثَـلَاثٍ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجہ أبوداود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب في صلاۃ اللیل، 2: 46، الرقم: 1362، والبیہقي في السنن الکبری، 3: 28، الرقم: 4582، والطبراني في مسند الشامیین، 3: 122، الرقم: 1918

عبد الله بن ابی قیس بیان کرتے ہیں: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض گزار ہوا کہ رسول الله ﷺ کتنے وتر پڑھا کرتے تھے؟ فرمایا کہ آپ ﷺ نمازِ شب (تہجد اور وتر) کو طاق بناتے تھے چار اور تین کی صورت میں،کبھی چھ اور تین (کی صورت میں)، کبھی آٹھ اور تین (کی صورت میں) اور کبھی دس اور تین (کی صورت میں؛ یعنی نمازِ شب [تہجد] کبھی مجموعی طور پر جفت رکعات کی صورت میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ ہمیشہ اسے طاق یعنی وتر بناتے تھے)۔ آپ نے سات رکعات سے کم وتر نہیں پڑھے اور نہ تیرہ رکعات سے زیادہ (یعنی بہر صورت وتر تین ہوتے تھے اور بقیہ رکعات نمازِ تہجد کی ہوتی تھیں)۔

ابو داود بیان کرتے ہیں کہ احمد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ فجر کی پہلی دو رکعات کو وتر نہیں بنایا کرتے تھے۔ میں عرض گزار ہوا: وتر نہ بناتے؟ فرمایا کہ انہیں ترک نہ فرماتے تھے اور امام احمد نے چھ اور تین (یعنی نو) رکعات کا ذکر نہیں کیا۔

اسے امام ابو داؤ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved