Ahl Bayt Athar (R.A.) ke Fazail-o-Manaqib

باب 5 :امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے مناقب

الْبَابُ الْخَامِسُ :

مَنَاقِبُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنهن

(امہات المومنین رضی اﷲ عنہن کے مناقب)

1. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ خَدِيْجَة بِنْتِ خُوَيْلَدٍ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

272 / 1. عَنْ عَائِشَة رضي الله عنه قَالَتْ : مَا غِرْتُ عَلَي امْرَأة لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم مَا غِرْتُ عَلَي خَدِيْجَة، هَلَکَتْ قَبْلَ أنْ يَتَزَوَّجَنِي، لِمَا کُنْتُ أسْمَعُهُ يَذْکُرُهَا، وَ أمَرَهُ اﷲُ أنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَ إِنْ کَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاة فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا پر، حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا (کثرت سے) ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے جو اُنہیں کفایت کر جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3605، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 58، الرقم : 24355، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 307، الرقم : 14574.

273 / 2. عَنْ أبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَالَ : أتَي جِبْرِيْلُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَذِهِ خَدِيْجَة قَد أتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيْهِ إِدَامٌ أوْ طَعَامٌ أوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أتَتْکَ فَاقْرَأ عَلَيْهَا السَّلْامَ مِنْ رَّبِّهَا وَمِنِّي، وَ بَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّة مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبَ فِيْهِ وَلَا نَصَبَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3609، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2432، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32287.

274 / 3. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ : قُلْتُ لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِي أوْفَي رضي الله عنه : بَشَّرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم خَدِيْجَة؟ قَالَ : نَعَمْ. بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت اسماعیل سے مروی ہے کہ حضرت عبداﷲ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو بشارت دی تھی؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (جنت میں) ایسے محل کی بشارت دی تھی جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں نہ شورو غل ہوگا اور نہ کوئی اور تکلیف ہو گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3608، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم : 2433، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32288.

275 / 4. عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أبِيْهِ قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اﷲِ بْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أبِي طالب رضي اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ وَ خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيْجَة. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم : 3604، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1886، الرقم : 2430، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32289.

276 / 5. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتِ : اسْتَأذَنَتْ هَالَة بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيْجَة عَلَي رَسُولِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيْجَة فَارْتَاعَ لِذَلِکَ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَالَة، قَالَتْ : فَغِرْتُ فَقُلْتُ : مَا تَذْکُرُ مِنْ عَجُوْزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ، حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ، هَلَکَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أبْدَلَکَ اﷲُ خَيْرًا مِنْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا اجازت طلب کرنا سمجھ کر کچھ لرزہ براندام سے ہوگئے۔ پھر فرمایا : خدایا! یہ تو ہالہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رشک ہوا۔ پس میں عرض گزار ہوئی کہ آپ قریش کی ایک سرخ رخساروں والی بڑھیا کو اتنا یاد فرماتے رہتے ہیں، جنہیں فوت ہوئے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے کیا اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ان کا نعم البدل عطا نہیں فرما دیا ہے؟‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3610، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2437، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 7 / 307، الرقم : 14573.

277 / 6. عَن عَائِشَة رضي الله عنه قَالَتْ : مَا غِرْتُ عَلَي أحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم مَا غِرْتُ عَلَي خَدِيْجَة، وَ مَا رَأيْتُهَا، وَلَکِنْ کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يُکْثِرُ ذِکْرَهَا وَ رُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاة ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيْجَة فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ : کَأنَّهُ لَمْ يَکُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأةٌ إِلَّا خَدِيْجَة؟ فَيَقُولُ : إِنَّهَا کَانَتْ وَ کَانَتْ وَ کَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ پر اتنا رشک نہیں آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا پر، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں ہے، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے رہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کے اعضاء کو علیحدہ علیحدہ کر کے انہیں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی ملنے والی عورتوں کے ہاں بھیجتے۔ کبھی میں اتنا عرض کر دیتی کہ دنیا میں کیا حضرت خدیجہ کے سوا اور کوئی عورت نہیں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہاں وہ ایسی ہی یگانہ روزگار تھیں اور میری اولاد بھی ان سے ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : تزويج النبي صلي الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم : 3607.

278 / 7. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : مَا غِرْتُ عَلَي نِسَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلاَّ عَلَي خَدِيْجَة، وَ إِنِّي لَمْ أُدْرِکْهَا، قَالَتْ : وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَبَحَ الشَّاة فَيَقُولُ : أرْسِلُوا بِهَا إِلَي أصْدِقَاءِ خَدِيْجَة. قَالَتْ : فَأغْضَبْتُهُ يَوْمًا فَقُلْتُ : خَدِيْجَة! فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، سوائے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے (یعنی میں ان پر رشک کیا کرتی تھی) اور میں نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا زمانہ نہیں پایا۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیج دو۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا : خدیجہ، خدیجہ ہی ہو رہی ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدیجہ کی محبت مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘ اس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 7 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 467، الرقم : 7006.

279 / 8. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : لَمْ يَتَزَوَّجِ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي خَدِيْجَة حَتَّي مَاتَتْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 8 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2436، و الحاکم في المستدرک، 3 / 205، الرقم : 4855، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 429، الرقم : 1475.

280 / 9. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : مَا غِرْتُ لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي امْرَأة مِنْ نِسَائِهِ مَا غِرْتُ عَلَي خَدِيْجَة لِکَثْرَة ذِکْرِهِ إِيَاهَا، وَ مَا رَأيْتُهَا قَطُّ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا پر رشک کیا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے حالانکہ میں نے ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم : 2435.

281 / 10. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : مَا غِرْتُ عَلَي امْرَأة مَا غِرْتُ عَلَي خَدِيْجَة وَ لَقَدْ هَلَکَتْ قَبْلَ أنْ يَتَزَوَّجَنِي بِثَلاَثِ سِنِيْنَ. لِمَا کُنْتُ أسْمَعُهُ يَذْکُرُهَا، وَلَقَدْ أمَرَهُ رَبُّهُ عزوجل أنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّة، وَ إِنْ کَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاة ثُمَّ يُهْدِيْهَا إِلَي خَلَائِلِهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت پر اس قدر رشک نہیں کیا جس قدر کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا پر رشک کیا اور حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا میری شادی سے تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں (اور میں یہ رشک اس وقت کیا کرتی تھی) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے حکم فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کو جنت میں خولدار موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دے دو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی سہیلیوں کو گوشت بھیجا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم : 2435.

282 / 11. عَنْ أنَسٍ رضي الله عنه : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : حَسْبُکَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِيْنَ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَ خَدِيْجَة بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَ فَاطِمَة بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَ آسِيَة امْرَأة فِرْعَوْنَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے کے) لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

الحديث رقم 11 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل خديجة، 5 / 702، الرقم : 3878، و أحمد في المسند، 3 / 135، الرقم : 12414، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 464، الرقم : 7003، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4745.

283 / 12. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : لَمَّا بَعَثَ أهْلُ مَکَّة فِي فِدَاءِ أسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي فِدَاءِ أبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيْعِ بِمَالٍ، وَ بَعَثَتْ فِيْهِ بِقِلَادَة لَهَا کَانَتْ لِخَدِيْجَة أدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَي أبِي الْعَاصِ. قَالَتْ : فَلَمَّا رَآهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَقَّ لَهَا رِقَّة شَدِيْدَة، وَ قَالَ : إِنْ رَأيتُمْ أنْ تُطْلِقُوا لَهَا أسِيْرَهَا وَ تَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا، فَقَالُوا : نَعَمْ، وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أخَذَ عَلَيْهِ أوْ وَعَدَهُ أنْ يُخَلِّيَ سَبِيْلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ وَ بَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم زَيْدَ بْنَ حَارِثَة وَ رَجُلاً مِنَ الْأنْصَارِ فَقَالَ : کُوْنَا بِبَطْنِ يَأجَجَ حَتَّي تَمُرَّ بِکُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّي تَأتِيَا بِهَا.

رَوَاهُ أبُوْدَاوُدَ وَ أَحْمَدُ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا وہ ہار بھی تھا جو انہیں (حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی طرف سے) جہیز میں ملا تھا جب ابو العاص سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرط غم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوگئی فرمایا : اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب) کے قیدی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا مال اسے واپس دے دیا جائے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ابو العاص) سے عہد و پیمان لیا کہ زینب کو آنے سے نہیں روکے گا چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم یاجج کے مقام پر رہنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ پہنچے۔ پس اسے ساتھ لے کر یہاں آ پہنچنا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 12 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في فداء الأسير بالمال، 3 / 62، الرقم : 2692، وأحمد في المسند، 6 / 276، الرقم : 26405، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 428، الرقم : 1050.

284 / 13. عَنْ أنَسٍ قَالَ : جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عِنْدَهُ خَدِيْجَة قَالَ : إِنَّ اﷲَ يُقْرِئ خَدِيْجَة السَّلَامَ. فَقَالَتْ : إِنَّ اﷲَ هُوَ السَّلَامُ، وَ عَلَي جِبْرِيْلَ السَّلَامُ، وَ عَلَيْکَ السَّلَامُ وَ رَحْمَة اﷲِ وَ بَرَکَاتُهُ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ فِي الْکُبْرَي وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا بھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے اس پر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : بیشک سلام اﷲ تعالیٰ ہی ہے اور جبرئیل علیہ السلام پر سلامتی ہو اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے السنن الکبریٰ میں اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

الحديث رقم13 : أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 101، الرقم : 10206، و الحاکم في المستدرک، 3 / 206، الرقم : 4856.

285 / 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : خَطَّ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي الْأرْضِ أرْبَعَة خُطُوْطٍ، قَالَ : أتَدْرُوْنَ مَا هَذَا؟ فَقَالُوا : اﷲُ وَ رَسُولُهُ أعْلَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أفْضَلُ نِسَاءِ أهْلِ الْجَنَّة : خَدِيْجَة بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَ فَاطِمَة بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَ آسِيَة بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأة فِرْعَوْنَ، وَ مَريَمُ ابْنَة عِمْرَانَ، رَضِيَ اﷲُ عَنْهُنَّ أجْمَعِيْنَ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار خطوط کھینچے اور دریافت فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کی بہترین عورتیں ہیں جو کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت فاطمہ بنت محمد، آسیہ بنت مزاحم جو کہ فرعون کی بیوی ہے اور حضرت مریم بنت عمران رضی اﷲ عنھن ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، امام ابن حبان اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

الحديث رقم14 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، الرقم : 2668، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 470، الرقم : 7010، و الحاکم في المستدرک، 2 / 539، الرقم : 3836.

286 / 15. عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ : کَانَتْ خَدِيْجَة أوَّلَ مَنْ آمَنَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ النَّسَاءِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’امام ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 15 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 203، الرقم : 4844، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 367، الرقم : 12859، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 30، الرقم : 16.

287 / 16. عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ : کَانَتْ خَدِيْجَة رضي اﷲ عنها أوَّلَ مَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَ صَدَّقَ بِرَسُوْلِهِ. صلي الله عليه وآله وسلم قَبْلَ أنْ تُفْرَضَ الصلاة. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’امام ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہونے سے پہلے خدیجہ رضی اﷲ عنہا سب سے پہلی خاتون تھیں جو اﷲ پر ایمان لائیں اور اس کے رسول، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے برحق ہونے) کی تصدیق کی۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 16 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4845، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 249، الرقم : 1099، و ابن عبدالبر في التمهيد، 8 / 51، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والزهري في الطبقات الکبري، 8 / 18، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 220.

288 / 17. عَنْ رَبِيْعَة السَّعْدِيِّ قَالً : أتَيْتُ حُذَيْفَة بْنَ الْيَمَانِ وَ هُوَ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : خَدِيْجَة بِنْتُ خُوَيْلَدٍ سَابِقَة نِسَائِ الْعَالَمِيْنَ إِلَي الإيمان بِاﷲِ وَ بِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’حضرت ربیعہ سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنہا تمام جہاں کی عورتوں سے پہلے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 17 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم : 4846، والمناوي في فيض القدير، 3 / 431، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 116.

289 / 18. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَکَرَ خَدِيْجَة أثْنَي عَلَيْهَا فَأحْسَنَ الثَّنَاءَ. قَالَتْ : فَغِرْتُ يَوْمًا فَقُلْتُ : مَا أکْثَرَ مَا تَذْکُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ قَدْ أبْدَلَکَ اﷲُ عزوجل بِهَا خَيْرًا مِنْهَا. قَالَ : مَا أبْدَلَنِيَ اﷲُ عزوجل خَيْرًا مِنْهَا : قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ، وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ کَذَّبَنِيَ النَّاسُ، وَ وَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِيَ النَّاسُ وَ رَزَقَنِيَ اﷲُ عزوجل وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أوْلَادَ النِّسَاءِ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے : آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں حالانکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے الکبير میں روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 117، الرقم : 24908، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 22، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 8، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 604، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224.

290 / 19. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَتْ عَائِشَة : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا ذَکَرَ خَدِيْجَة لَمْ يَکُنْ يَسْأمُ مِنْ ثَنَاءٍ عَلَيْهَا وَالإِْسْتِغْفَارِ لَهَا. فَذَکَرَهَا ذَاتَ يَوْمٍ وَاحْتَمَلَتْنِي الْغِيْرَة إِلَي أنْ قُلْتُ قَدْ عَوَّضَکَ اﷲُ مِنْ کَبِيْرَة السِّنِّ. قَالَتْ : فَرَأيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَضِبَ غَضْبًا سَقَطَ فِي جِلْدِي، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي : اللَّهُمَّ، إِنَّکَ إِنْ أذْهَبْتَ عَنِّي غَضْبَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمْ أذْکُرْهَا بِسُوْءٍ فَلَمَّا رَأي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الَّذِي لَقِيْتُ، قَالَ : کَيْفَ قُلْتِ؟ وَاﷲِ، لَقَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ، وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ کَذَّبَنِيَ النَّاسُ وَ رُزِقَتْ مَنِّيَ الْوَلَدُ إِذْ حُرِمْتِيْهِ مِنِّي، فَغَدَا بِهَا عَلَيَّ وَ رَاحَ شَهْرًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا ذکر فرماتے تھے تو ان کی تعریف اور ان کے لئے استغفار و دعائے مغفرت کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ پس ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا تذکرہ فرمایا تو مجھے غصہ آ گیا یہاں تک کہ میں نے یہ کہہ دیا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس بڑھیا کے عوض (حسین و جمیل) بیویاں عطا فرمائی ہیں۔ پس میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شدید جلال میں آ گئے، (یہ صورتحال دیکھ کر) میں نے اپنے دل میں کہا : اے اﷲ! اگر آج تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ کو ٹھنڈا کر دے تو میں کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا برے لفظوں میں تذکرہ نہیں کروں گی۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا : تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو؟ حالانکہ، خدا کی قسم! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور میری اولاد بھی ان کے بطن سے پیدا ہوئی جبکہ تو اس سے محروم ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ تک اسی حالت (یعنی قدرے ناراضگی کی حالت میں) صبح و شام آتے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 19 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم : 21، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 112، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 31، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224.

291 / 20. عَنْ أنَسٍ، قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا أُتِيَ بِالشَّيئِ يَقُوْلُ : اذْهَبُوْا بِهِ إِلَي فُلَانَة، فَإِنَّهَا کَانَتْ صَدِيْقَة خَدِيْجَة، اذْهَبُوْا بِهِ إِلَي بَيْتِ فُلَانَة، فَإِنَّهَا کَانَتْ تُحِبُّ خَدِيْجَة. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأدَبِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ کی سہیلی ہے، اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ سے محبت رکھتی تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 20 : أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 90، الرقم : 232، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 41، الرقم : 40.

2. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَة بِنْتِ أبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

292 / 21. عَنْ أبِي سَلَمَة : إِنَّ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمًا : يَا عَائِشَة، هَذَا جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ. فَقُلْتُ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَة اﷲِ وَ بَرَکَاتُة، تَرَي مَا لَا أرَي تُرِيدُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ (یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 21 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم : 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم : 2693.

293 / 22. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أرَي أَنَّکِ فِي سَرَقَة مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ : هَذِهِ امْرَأتُکَ، فَاکْشَفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اﷲِ يُمْضِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 22 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي عائشة، 3 / 1415، الرقم : 3682، و في کتاب : النکاح، باب : قول اﷲ ولا جناح عليکم فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم : 2438، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 41، الرقم : 24188.

294 / 23. عَنْ أبِي عُثْمَانَ : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَي جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ : فَأتَيْتُهُ فَقُلْتُ : أيُّ النَّاسِ أحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : عَائِشَة. قُلْتُ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ : أبُوْهَا. قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَة أنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر فرمایا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟ فرمایا : اس کا والد، میں نے عرض کیا : ان کے بعد کون ہے؟ فرمایا : عمر، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے نام لئے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584، الرقم : 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل عائشة، 5 / 706، الرقم : 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم : 6885.

295 / 24. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَة وَ إِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي. قَالَتْ : فَقُلْتُ : وَ مِنْ أيْنَ تَعْرِفُ ذَلِکَ؟ فَقَالَ : أمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَة فَإِنَّکِ تَقُولِيْنَ : لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَ إِذَا کُنْتِ غَضْبَي قُلْتِ : لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ : قُلْتُ : أجَلْ وَاﷲِ، يَا رَسُولَ اﷲِ، مَا أهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ یہ بات آپ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ رب محمد کی قسم! اور جب تم ناخوش ہوتی ہو تو کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم! وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ خدا کی قسم! یارسول اﷲ! اس وقت میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 24 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : غيرة النساء ووجدهن، 5 / 2004، الرقم : 4930، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل عائشة، 4 / 1890، الرقم : 2439، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 49، الرقم : 7112، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 61، الرقم : 24363.

296 / 25. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها : أنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَة يَبْتَغُوْنَ بِهَا أوْ يَبْتَغُوْنَ بِذَلِکَ مَرْضَاة رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس عمل سے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 25 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب : قبول الهدية، 2 / 910، الرقم : 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم : 2441، و النسائي في السنن، کتاب : عشرة النساء، باب : حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم : 3951، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم : 11723.

297 / 26. عَنْ عَائِشَة، قَالَتْ : إِنْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَيَتَعَذُّرُ فِي مَرَضِهِ أيْنَ أنَا الْيَوْمَ؟ أيْنَ أنَا غَدًا؟ اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَة فَلَمَّا کَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اﷲُ بَيْنَ سَحْرِي وَ نَحْرِي وَ دُفِنَ فِي بَيْتِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ میں آج کہاں رہوں گا؟ کل میں کہاں رہوں گا؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرانور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ قبض کرلی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 26 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 486، الرقم : 1323، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة رضي اﷲ عنها، 4 / 1893، الرقم؛ 2443.

298 / 27. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : رَأيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ وَ أنَا أنْظُرُ إِلَي الْحَبَشَة يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّي أکُوْنَ أنَا الَّتِي أسْأمُ فَاقْدُرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَة الْحَدِيْثَة السِّنِّ الْحَرِيْصَة عَلَي اللَّهْوِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے لیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کھیل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں ان کا کھیل دیکھتی رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شائق ہو وہ کب تک دیکھے گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 27 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : نظر المرأة إلي الحبش و نحوهم من غير ريبة، 5 / 2006، الرقم : 4938، و مسلم في الصحيح، کتاب : صلاة العيدين، باب : الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 / 608، الرقم : 892، و النسائي في السنن، کتاب : صلاة العيدين، باب : اللعب في المسجد يوم العيد و نظر النساء إلي ذلک، 3 / 195، الرقم : 1595، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 85، الرقم : 24596، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 179، الرقم : 282.

299 / 28. عَنِ ابْنِ أبِي مُلَيْکَة. قَالَ : اسْتَأذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قُبَيْلَ مَوْتِهَا عَلَي عَائِشَة وَهِيَ مَغْلُوْبَةٌ. قَالَتْ : أخْشَي أنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيْلَ : ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ مِنْ وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَتْ : ائْذَنُوا لَهُ؟ فَقَالَ : کَيْفَ تَجِدِيْنَکِ؟ قَالَتْ : بِخَيْرٍ إِنْ اتَّقَيْتُ. قَالَ : فَأنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اﷲُ تَعَالَي، زَوْجَة رَسُولِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَلَمْ يَنْکِحْ بِکْرًا غَيرَکِ وَ نَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ السَّمَائِ، وَ دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ فَقَالَتْ : دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأثَنَي عَلَيَّ وَ وَدِدْتُ أنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف کریں گے۔ حاضرین نے کہا : یہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : اچھا انہیں اجازت دے دو۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ جواب دیا : اگر پرہیزگار ہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : ان شاء اﷲ بہتر ہی رہے گا کیونکہ آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضرت عبد اﷲ بن عباس آئے تھے وہ میری تعریف کررہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 28 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التفسير، باب : ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779، الرقم : 4476.

300 / 29. عَنْ عُرْوَة بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها لَا تُمْسِکُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ هَا مِنْ رِزْقِ اﷲِ تَعَالَي إِلَّا تَصَدَّقَتْ بِهِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 29 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قريش، 3 / 1291، الرقم : 3314.

301 / 30. عَنْ أنَسٍ : أنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارِسِيًّا کَانَ طَيِّبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ : وَ هَذِهِ لِعَائِشَة فَقَالَ : لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ هَذِهِ قَالَ : لَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ هَذِهِ، قَالَ : نَعَمْ، فِي الثَّالِثَة، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتَّي أتَيَا مَنْزِلَهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَحْمَدُ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے عرض کیا : نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے عرض کیا : نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اس شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی، اس نے عرض کیا : ہاں یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 30 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الأشربة، باب : ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم : 2037، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم : 12265.

302 / 31. عَنْ عَائِشَة : أنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَة حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم : 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6، الرقم : 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم : 1237، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141.

303 / 32. عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ : مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَة إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَن صَحِيْحٌ.

’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

الحدیث الرقم 32 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم : 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.

304 / 33. عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَة، قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

’’حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم : 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12، الرقم : 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم : 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال : رجاله رجال الصحيح.

305 / 34. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها في رواية طويلة : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِفَاطِمَة : إِنَّهَا (أي عَائِشَة) حِبَّة أبِيْکَ وَ رَبِّ الْکَعْبَة. الحديث. رَوَاهُ أبُودَاوُدَ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل حدیث میں روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : رب کعبہ کی قسم! بے شک عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داود نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 34 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : في الانتصار، 4 / 274، الرقم : 4898، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 322.

306 / 35. عَنْ ذَکْوَانَ حَاجِبِ عَائِشَة : أنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأذِنُ عَلَي عَائِشَة. فَقَالَتْ : ائْذِنْ لَهُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ : فَأدْخَلْتُهُ فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ : أبْشِرِي، فَقَالَتْ : أيْضًا، فَقَالَ : مَا بَيْنَکِ وَ بَيْنَ أنْ تَلْقَي مُحَمَّدًا صلي الله عليه وآله وسلم وَ الْأحِبَّة إِلَّا أنْ تَخْرُجَ الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ، کُنْتِ أحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَ لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَة الْأبْوَاءِ فَأصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأنْزَلَ اﷲُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أنْزَلَ اﷲُ عزوجل لِهَذِهِ الْأُمَّة مِنَ الرُّخْصَة، وَ أنْزَلَ اﷲُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأمِيْنُ، فَأصْبَحَ لَيْسَِﷲِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اﷲِ يُذْکَرُ اﷲُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ : دَعْنِي مِنْکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًا.

رَوَاهُ أحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُويَعْلَي.

’’حضرت ذکوان جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ملنے کی اجازت طلب کرنے کیلئے تشریف لائے۔ تو آپ نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو تو انہیں اجازت دے دو، راوی بیان کرتے ہیں پھر میں ان کو اندر لے آیا پس جب وہ بیٹھ گئے تو عرض کرنے لگے : اے ام المومنین! آپ کو خوشخبری ہو، آپ نے جواباً فرمایا : اور تمہیں بھی خوشخبری ہو، پھر انہوں نے عرض کیا : آپ کی آپ کے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میں سوائے آپ کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے کے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ازواج مطہرات سے بڑھ کر عزیز تھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے پاکیزہ چیز کے کسی کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور ابوا والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ’’پس تیمم کرو پاکیزہ مٹی کے ساتھ۔‘‘ اور یہ سارا آپ کے سبب ہوا اور یہ جو رخصت اللہ تعالیٰ نے (تیمم کی شکل میں) نازل فرمائی (یہ بھی آپ کی بدولت ہوا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے حضرت جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے پس اب اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جس میں اس (سورۂ براءت) کی رات دن تلاوت نہ ہوتی ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : اے ابن عباس! بس کرو میری اور تعریف نہ کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی (جسے کوئی نہ جانتا ہوتا)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 276، الرقم : 2496، و ابن حبان في الصحيح في الصحيح، 16 / 41، 42، الرقم : 7108، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 321، الرقم : 10783، و أبو يعلي في المسند، 5 / 5765، الرقم : 2648.

307 / 36. عَنْ عَائِشَة، قَالَتْ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَة فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ : رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلَي مَعْرَفَة فَرَسِ دِحْيَة الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ : وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ : نَعَمْ قَالَ : ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ، قَالَتْ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَة اﷲِ وَ بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اﷲُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے یہ منظر دیکھا؟ آپ نے عرض کیا : ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے، پس کتنا ہی اچھا دوست (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس) اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 36 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم : 24506، 2 / 871، الرقم : 1635، و الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم : 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20.

308 / 37. عَنْ عَائِشَة : أنَّهَا قَالَتْ : لَمَّا رَأيْتُ مِنَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيِّبَ نَفْسٍ قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ لِي، فَقَالَ : اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِعَائِشَة مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهَا وَ مَا تَأخَّرَ مَا أسَرَّتْ وَمَا أعْلَنَتْ فَضَحِکَتْ عَائِشَة حَتَّي سَقَطَ رَأسُهَا فِي حِجْرِهَا مِنَ الضِّحْکِ، قَالَ لَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أيَسُرُّکِ دُعَائِي، فَقَالَتْ : وَمَا لِي لَا يَسُرُّنِي دُعَاؤُکَ، فَقَالَ صلي الله عليه وآله وسلم : وَاﷲِ، إِنَّهَا لَدُعَائِي لِأُمَّتِي فِي کُلِّ صَلَاة. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَة.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہری و باطنی، تمام گناہ معاف فرما (ایسا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرائے مزاح فرمایا) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا (یعنی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں) اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کیلئے خاص ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 37 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 6 / 48، الرقم : 7111، الحاکم في المستدرک، 4 / 13، الرقم : 6738، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم : 32285، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 498، الرقم : 2032، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 145، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243.

309 / 38. عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَة أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّة. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 38 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم : 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.

310 / 39. عَنْ عُرْوَة، قَالَ : مَا رَأيْتُ أحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَة، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَة. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَة.

’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 39 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم : 26044، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18.

311 / 40. عَنِ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّة فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عِلْمُ عَائِشَة أَکْثَرُ مِنْ عِلْمِهِنَّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 40 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم : 299، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال : رجال هذا الحديث ثقات.

312 / 41. عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ : قَالَ مُعَاوِيَة : مَا رَأَيْتُ خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 41 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم : 298، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 398، الرقم : 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243.

313 / 42. عَنْ عُرْوَة، قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَ لَا بِفَرِيْضَة وَلَا بِحَلَالٍ وَ لَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ.

’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں کی باتیں، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 42 : أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 49، 50، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32.

314 / 43. عَنْ أُمِّ ذَرَّة وَ کَانَتْ تَغْشَي عَائِشَة، قَالَتْ : بَعَثَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا بِمَالٍ فِي غَرَارَتَيْنِ ثَمَانِيْنَ أوْ مِائَة ألْفٍ فَدَعَتْ بِطَبْقٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صَائِمَةٌ فَجَلَسَتْ تَقْسِمُ بَيْنَ النَّاسِ فَأمْسَتْ وَ مَا عِنْدَهَا مِنْ ذَلِکَ دِرْهَمٌ فَلَمَّا أمْسَتْ، قَالَتْ : يَا جَارِيَة، هَلُمِّي فِطْرِي فَجَاءَ تْهَا بِخُبْزٍ وَ زَيْتٍ، فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ ذَرَّة : أمَا اسْتَطَعْتِ مِمَّا قَسَمْتِ الْيَوْمَ أنْ تَشْتَرِي لَنَا لَحْمًا بِدِرْهَمٍ نَفْطُرُ عَلَيْهِ، قَالَتْ : لاَ تُعَنِّفِيْنِي، لَوْ کُنْتِ ذَکَرْتِيْنِي لَفَعَلْتُ. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَابْنُ سَعْدٍ.

’’حضرت ام ذرہ، جو کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لئے) ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہو گئی تو آپ نے فرمایا : اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا : کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : اب میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابونعیم اور امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 43 : أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 67.

315 / 44. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ : مَا رَأيْتُ امْرَأ تَيْنِ أجْوَدَ مِنْ عَائِشَة وَ أسْمَاءَ وَ جُوْدُهُمَا مَخْتَلِفٌ : أمَّا عَائِشَة، فَکَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْئ إِلَي الشَّيْيئِ حَتَّي إِذَا کَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ وَ أمَّا أسْمَاءُ فَکَانَتْ لَا تُمْسِکُ شَيْئًا لِغَدٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأدَبِ.

’’حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اﷲ عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہو جاتیں تو آپ انہیں (غربا اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں، جبکہ حضرت اسماء (بھی) اپنے پاس کل کیلئے کوئی چیز نہیں بچا کر رکھتی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے الادب المفرد میں بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 44 : أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 106، الرقم : 286، و ابن الجوزی في صفوة الصفوة، 2 / 58، 59.

316 / 45. عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ : بَعَثَ مُعَاوِيَة إِلَي عَائِشَة بِطَوْقٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيْهِ جَوْهَرٌ قُوِّمَ بِمِائَة ألْفٍ، فَقَسَّمَتْهُ بَيْنَ أزْوَاجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم

رَوَاهُ هُنَادُ وَابْنُ الْجَوزِيِّ.

’’حضرت عطا سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو سونے کا ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ہناد اور ابن الجوزی نے روایت کیا ہے۔

الحديث الرقم 45 : أخرجه هناد في الزهد، 1 / 337، الرقم : 618، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 29.

317 / 46. عَنْ عُرْوَة : أنَّ عَائِشَة رضي اﷲ عنها، کَانَتْ تَسْرَدُ الصَّوْمَ. وَ عَنِ الْقَاسِمِ، أنَّ عَائِشَة کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّهْرَ وَ لاَ تَفْطُرُ إِلَّا يَوْمَ أضْحَي أوْ يَوْمَ فِطْرٍ.

و في رواية عنه : قَالَ : کُنْتُ إِذَا غَدَوْتُ أبْدَأُ بِبَيْتِ عَائِشَة أُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَغَدَوْتُ يَوْمًا فَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تَسَبِّحُ وَ تَقْرَأُ : (فَمَنَّ اﷲُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) وَ تَدْعُوْ وَ تَبْکِي وَ تُرَدِّدُهَا فَقُمْتُ حَتَّي مَلَلْتُ الْقِيَامَ فَذَهَبْتُ إِلَي السُّوْقِ لِحَاجَتِي ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هِي قَائِمَةٌ کَمَا هِيَ تُصَلِّي وَ تَبْکِي. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ الْجَوزِيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عید الاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں۔

اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ) اور دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام عبدالرزاق، امام بیہقی اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے یہ الفاظ ابن جوزی کے ہیں۔

الحديث رقم 46 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم : 4048، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 375، الرقم : 2092، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 31.

3. فَصْلٌ فِي مَنَاقِب أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ حَفْصَة بِنْتِ عُمَرَ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

318 / 47. عَنْ عَائِشَة، قَالَتْ : کُنْتُ أنَا وَ حَفْصَة صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأکَلْنَا مِنْهُ فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَة وَ کَانَتْ ابْنَة أبِيْهَا فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلُ اﷲِ، إِنَّا کُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأکَلْنَا مِنْهُ. قَالَ : اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَکَانَهُ.

رَوَاهُ التِرْمِِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور حفصہ روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا جس کی ہمیں طلب بھی تھی ہم نے اس سے کھا لیا اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے، حضرت حفصہ گفتگو میں مجھ سے سبقت لے گئیں اور (ایسا کیوں نہ ہوتا) وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح جری تھیں) کہنے لگیں : یا رسول اﷲ! ہم دونوں نے روزہ رکھا ہوا تھا پھر ہمارے پاس کھانا آیا جس کی ہمیں تمنا تھی تو ہم نے اس سے کھا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی دوسرے دن اس کی قضاء کر لینا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 47 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصوم، باب : ما جاء في إيجاب القضاء عليه، 3 / 112، الرقم : 735، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 247، الرقم : 3291، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 263، الرقم : 26310، و أبويعلي في المسند، 8 / 101، الرقم : 4639، و ابن راهويه في المسند، 2 / 353، الرقم : 885.

319 / 48. عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم طَلَّقَ حَفْصَة بِنْتَ عُمَرَ فَدَخَلَ عَلَيْهَا خَالَاهَا قُدَّامَة وَ عُثْمَانُ ابْنَا مَظْعُوْنٍ فَبَکَثْ وَ قَالَتْ : وَاﷲِ، مَا طَلَّقَنِي عَنْ شِبَعٍ وَ جَاءَ النَّبِيُّ. صلي الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : قَالَ لِي جِبْرِيْلُ عليه السلام : رَاجِعْ حَفْصَة فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ وَ إِنَّهَا زَوْجَتُکَ فِي الْجَنَّة.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’حضرت قیس بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمر رضی اﷲ عنہما کو طلاق دی، پس آپ کے ماموں قدامہ اور عثمان جو کہ مظعون کے بیٹے ہیں آپ کو ملنے آئے تو آپ رو پڑیں اور کہا : خدا کی قسم! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غصہ اور غضب کی وجہ سے طلاق نہیں دی، اسی دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر تشریف لائے اور فرمایا : جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا ہے : ’’آپ حفصہ کی طرف رجوع کر لیں۔ بے شک وہ بہت زیادہ روزے رکھنے اور قیام کرنے والی ہیں اور بے شک وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 48 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 16، الرقم : 6753، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 365، الرقم : 934، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 50، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 : 84، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 559، الرقم : 7356، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 914، الرقم : 1000.

320 / 49. عَنْ أنَسٍ، قَالَ : قَال النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا حَفْصَة، أتَانِي جِبْرِيْلُ آنِفًا فَقَالَ : فَإِنَّهَا صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ وَ هِيَ زَوْجَتُکَ فِي الْجَنَّة.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأوْسَطِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حفصہ! ابھی ابھی جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھے کہا : بے شک وہ (حضرت حفصہ ) بہت زیادہ روزے دار اور قیام کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 49 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 55، الرقم : 151، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 94، الرقم : 2507، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 244.

4. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ أُمِّ سَلَمَة رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

321 / 50. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ : أُنْبِئْتُ : أنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام أتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَة فَجَعَلَ يُحَدِّثُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لأُمِّ سَلَمَة : مَنْ هَذَا؟ أوْ کَمَا قَالَ. قَالَ : قَالَتْ : هَذَا دِحْيَة. قَالَتْ أُمُّ سَلَمَة : ايْمُ اﷲِ! مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَاهُ، حَتَّي سَمِعْتُ خُطْبَة نَبِيِّ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُخْبِرُ عَنْ جِبْرِيْلَ أوْ کَمَا قَالَ فَقُلْتُ لِأبِي عُثْمَانَ : مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ : مِنْ أُسَامَة بْنِ زَيْدٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’ابو عثمان بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں، پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے رہے پھر چلے گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت فرمایا : یہ کون تھے؟ یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہوں نے جواب دیا کہ دحیہ تھے، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے انہیں دحیہ قلبی ہی سمجھا تھا، لیکن میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران خطبہ بتایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے، یا جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، معمر کے والد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عثمان سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کس سے سنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 50 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1330، الرقم : 3435، وفي کتاب : فضائل القرآن، باب : کيف نزول الوحي، 4 / 1905، الرقم : 4695، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أم سلمة، 4 / 1906، الرقم : 2451، و البزار في المسند، 7 / 55، الرقم : 2602.

322 / 51. عَنْ أُمِّ سَلَمَة : أنَّ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمَّا تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَة أقَامَ عِنْدَهَا ثَلَاثاً وَ قَالَ : إِنَّهُ لَيْسَ بِکِ عَلَي أهْلِکِ هَوَانٌ، إِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، وَ إِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِنِسَائِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے نکاح کرنے کے بعد ان کے پاس تین دن رہے پھر فرمایا : تمہاری اہمیت اور چاہت اپنے شوہر کی نظروں میں ہرگز کم نہیں ہوئی، اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس ایک ہفتہ قیام کر لوں اور اگر میں تمہارے پاس ایک ہفتہ رہا تو میں اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 51 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الرضاع، باب : قدر ما تستحقه البکر و الثيب من إقامة الزوج عندها عقب الزفاف، 2 / 1083 الرقم : 1460، وأبوداود في السنن، کتاب : النکاح، باب : في المقام عند البکر، 2 / 240، الرقم : 2122، و ابن حبان في الصحيح، 10 / 10، الرقم : 4210، و الدارمي في السنن، 2 / 194، الرقم : 2210.

323 / 52. عَنْ أُمِّ سَلَمَة : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عِنْدَهَا فِي بَيْتِهَا ذَاتَ يَوْمٍ فَجَاءَوتِ الْخَادِمُ، فَقَالَتْ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَة بِالسَّدَّة، فَقَالَ : تَنَحِّي لِي عَنْ أهْلِ بَيْتِي فَتَنَحَّتْ فِي نَاحِيَة الْبَيْتِ فَدَخَلَ عَلِيٌّ، وَ فَاطِمَة، وَ حَسَنٌ، وَ حُسَيْنٌ فَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ وَ أخَذَ عَلِيًّا بِإِحْدَي يَدَيْهِ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ وَ أخَذَ فَاطِمَة بِالْيَدِ الْأُخْرَي فَضَمَّهَا إِلَيْهِ وَ قَبَّلَهُمَا وَ أغْدَفَ عَلَيْهِمْ خَمِيْصَة سَوْدَاءَ ثُمَّ قَالَ : الَّلهُمَّ، إِلَيْکَ لَا إِلَي النَّارِ، أنَا، وَ أهْلُ بَيْتِي، قَالَتْ : فَنَادَيْتُهُ، فَقُلْتُ : وَ أنَا، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : وَ أنْتِ.

رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَة.

’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ان کے پاس ان کے گھر تشریف فرما تھے پس خادم آیا اور عرض کیا : حضرت علی اور فاطمہ رضی اﷲ عنہما (گھر کی) دہلیز پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے لئے میرے گھر والوں کے راستے سے ہٹ جایا کرو (یعنی ان کو بلااجازت گھر آنے دیا کرو) پس وہ خادم گھر کے ایک کونے میں چلا گیا، پس حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھم اندر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسوں کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا ایک دست مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رکھا اور ان کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنا دوسرا دست اقدس حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پر رکھا اور انہیں بھی اپنے ساتھ ملایا اور ان دونوں کو چوما اور پھر ان سب پر اپنی کالی کملی بچھا دی پھر فرمایا : اے اﷲ! تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف، میں اور میرے اہل بیت، حضرت امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر عرض کیا : اور میں بھی یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم بھی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 52 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32104، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 296، الرقم : 26582، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 393، الرقم : 939، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 166.

5. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ أُمِّ حَبِيْبَة بِنْتِ أبِي سُفْيَانَ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

324 / 53. عَنْ أُمِّ حَبِيْبَة تَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ صَلَيَ اثْنَتَي عَشْرَة رَکْعَة فِي يَوْمٍ وَ لَيْلَة بُنِيَ لَهُ بِهِنَّ بَيْتٌ فِي الْجَنَّة، قَالَتْ أُمُّ حَبِيْبَة فَمَا تَرَکْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو مسلمان بندہ ہر روز اﷲ تعالیٰ کے لئے بارہ رکعات نفل پڑھے گا اس کے لئے ان کے بدلہ میں جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دن کے بعد کبھی بھی یہ بارہ رکعات ترک نہیں کیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 53 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين و قصرها، باب : فضل السنن الراتبة قبل الفرائض و بعدهن و بيان عددهن، 1 / 502، الرقم : 728، و ابن خزيمة في الصحيح، 2 / 203، الرقم : 1187، و ابن راهويه في المسند، 1 / 233، و أبو يعلي في المسند، 13 / 44، الرقم : 7124.

325 / 54. عَنِ الزُّهْرِيِّ : أنَّ النَّجَاشِيَّ زَوَّجَ أُمَّ حَبِيْبَة بِنْتَ أبِي سُفْيَانَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي صَدَاقِ أرْبَعِ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَ کَتَبَ بِذَلِکَ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَبِلَ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ.

’’امام زہری بیان کرتے ہیں کہ نجاشی نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اﷲ عنہا کی شادی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چار ہزار درہم حق مہر پر کی اور اس کی خبر بذریعہ خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 54 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : النکاح، باب : الصداق، 2 / 235، الرقم : 2108، و الشوکاني في نيل الأوطار، 6 / 313.

326 / 55. عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ : لَمَّا قَدِمَ أبُوْ سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ الْمَدِيْنَة جَاءَ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ يُرِيْدُ غَزْوَ مَکَّة فَکَلَّمَهُ أنْ يَزِيْدَ فِي هَدْنَة الْحُدَيْبِيَة فَلَمْ يَقْبَلْ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ، فَقَامَ، فَدَخَلَ عَلَي ابْنَتِهِ أُمِّ حَبِيْبَة، فَلَمَّا ذَهَبَ لِيَجْلِسَ عَلَي فِرَاشِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَوَتْهُ دُوْنَهُ، فَقَالَ : يَا بُنَيَة، أرَغِبْتِ بِهَذَا الْفِرَاشِ عَنِّي أوْ بِي عَنْهُ، فَقَالَتْ : بَلْ هُوَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اﷲِ، وَ أنْتَ امْرَؤٌ نَجِسٌ مُشْرِکٌ، فَقَالَ : يَا بُنَيَة، لَقَدْ أصَابَکِ بَعْدِيْ شَرٌّ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

’’امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان بن حرب مدینہ آیا تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھی حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ ابوسفیان نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں توسیع کے لئے گزارش کی لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار فرما دیا، پس وہ کھڑا ہوا اور اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا لیکن جب وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے کے لئے بڑھا تو ام المومنین حضرت امّ حبیبہ رضي اﷲ عنہا نے اس کے بیٹھنے سے پہلے ہی وہ بستر لپیٹ دیا۔ اس نے کہا : اے میری بیٹی! کیا تو اس بستر کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرتی ہے یا میری وجہ سے اس بستر سے؟ انہوں نے کہا یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر ہے اور تم ایک نجس اور مشرک انسان ہو (یہ سن کر) اس نے کہا : اے میری بیٹی! البتہ میرے بعد تم شر میں مبتلا ہو گئی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 55 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 100، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 223، و ابن الجوزي في صفوة الصوة، 2 / 46، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 653.

6. فَصْلٌ فِي مُنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ سَوْدَة بِنْتِ زَمْعَة رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

327 / 56. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا أرَادَا سَفَرًا أقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأيَتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ وَ کَانَ يَقْسِمُ لِکُلِّ امْرَأة مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَ لَيْلَتَهَا، غَيْرَ أنَّ سَوْدَة بِنْتَ زَمْعَة وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَ لَيْلَتَهَا لِعَائِشَة زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم تَبْتَغِي بِذَالِکَ رِضَا رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جانے کیلئے کس کے نام قرعہ نکلتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے درمیان ایک رات دن کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی، ماسوائے اس کے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو دی ہوئی تھی اور اس سے ان کا مقصود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضامندی تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 56 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الهبة و فضلها، باب : هبة المرأة لغير زوجها و عتقها، 1 / 181، الرقم : 2453، وفي کتاب : الشهادات، باب : في المشکلات، 2 / 955، الرقم : 2542، و أبو داود في السنن، کتاب : النکاح، باب : في القسم بين النساء 2 / 243، الرقم : 2138، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 292، الرقم : 8923.

328 / 57. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : مَا رَأيْتُ امْرَأة أحَبَّ إِلَيَّ أنْ أکُوْنَ فِي مِسْلاَخِهَا مِنْ سَوْدَة بِنْتِ زَمْعَة مِنْ امْرَأة فِيْهَا حِدَّةٌ قَالَتْ : فَلَمَّا کَبِرَتْ جَعَلَتْ يَوْمَهَا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَائِشَة قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ جَعَلْتُ يَوْمِي مِنْکَ لِعَائِشَة، فَکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ لِعَائِشَة يَوْمَيْنِ يَوْمَهَا وَ يَوْمَ سَوْدَة. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہا عزیز تھیں، میری تمنا تھی کہ کاش میں ان کے جسم میں ہوتی، حضرت سودہ بنت زمعہ کے مزاج میں تیزی تھی، جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن کی باری حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو دے دی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنی باری عائشہ کو دے دی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہتے تھے، ایک دن حضرت عائشہ کی باری کا اور ایک دن حضرت سودہ کی باری کا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 57؛ أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الرضاع، باب : جواز هبتها نوبتها لضربتها، 2 / 1085، الرقم : 1463، و ابن حبان في الصحيح، 10 / 12، الرقم : 4211، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 301، الرقم : 8934، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 74، الرقم : 13211.

7. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

329 / 58. عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ : ذُکِرَ تَزْوِيْجُ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ عِنْدَ أنَسٍ فَقَالَ : مَا رَأيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم أوْلَمَ عَلَي أحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أوْلَمَ عَلَيْهَا، أوَلَمَ بِشَاة. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ثابت کا بیان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا کے نکاح کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی زوجہ مطہرہ کا ان کے ولیمہ جیسا کسی کا ولیمہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 58 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : الوليمة و لو بشاة، 5 / 1983، الرقم : 4876، و مسلم في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : زواج زينب بنت جحش، 2 / 1049، الرقم : 1428، و أبوداود في السنن، کتاب : الأطعمة، باب : في استحباب الوليمة عند النکاح، 3 / 341، الرقم : 3743، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 258، الرقم؛ 14277.

330 / 59. عِنْ عِيْسَي بْنِ طَهْمَانَ، قَالَ : سَمِعْتُ أنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضي الله عنه يَقُولُ : نَزَلَتْ آيَة الْحِجَابِ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَ أطْعَمَ عَلَيْهَا يَوْمَئِذٍ خُبْزًا وَ لَحْمًا، وَ کَانَتْ تَفْخَرُ عَلَي نِسَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ تَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ أنْکَحَنِي فِي السَّمَاءِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’امام عیسیٰ بن طہمان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پردے کی آیت حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا کے حق میں نازل ہوئی اور ان کے ولیمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روٹی اور گوشت کھلایا اور یہ (حضرت زینب رضی اﷲ عنہا) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے میرا نکاح آسمان پر کیا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 59 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : وکان عرشه علي الماء، 6 / 2700، الرقم : 6985.

331 / 60. عَنْ أنَسٍ قَالَ : کَانَتْ زَيْنَبُ تَفْخَرُ عَلَي أزْوَاجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم تَقُولُ : زَوَّجَکُنَّ أهَالِيْکُنَّ وَ زَوَّجَنِيَ اﷲُ تَعَالَي مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات سے فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 60 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : وکان عرشه علي الماء، 6 / 2699، الرقم : 6984، والنسائي في السنن الکبري مختصرًا، 5 / 291، الرقم : 8918.

332 / 61. عَنْ عَائِشَة أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أسْرَعُکُنَّ لَحَاقًا بِي أطْوَلُکُنَّ يَدًا، قَالَتْ : فَکُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أيَتُهُنَّ أطْوَلُ يَدًا قَالَتْ : فَکَانَتْ أطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ لِأنَّهَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَ تَصَدَّقُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری وفات کے بعد جنت میں) تم سب سے زیادہ جلد وہ بیوی ملے گی، جس کے ہاتھ تم سب میں سے زیادہ لمبے ہوں گے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں پھر ہم سب اپنے اپنے ہاتھ ناپنے لگیں کہ کس کے ہاتھ سب سے زیادہ لمبے ہیں، لیکن سب سے زیادہ لمبے ہاتھ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے تھے، کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کیا کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 61 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل زينب أم المؤمنين، 4 / 1907 الرقم : 2452، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 50، الرقم : 6665.

333 / 62. عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها في رواية طويلة : فَأرْْسَلَ أزْوَاجُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهِيَ الَّتِي کَانَتْ تُسَامِيْنِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَة عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَلَمْ أرَ امْرَأة قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّيْنِ مِنْ زَيْنَبَ، وَ أتْقَيﷲِ، وَ أصْدَقَ حَدِيْثًا، وَ أوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَ أعْظَمَ صَدَقَة، وَ أشَدَّ ابْتِذَالاً لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَ تَقَرَّبُ بِهِ إِلَي اﷲِ تَعَالَي، مَا عَدَا سَوْرَة مِنْ حِدَّة کَانَتْ فِيْهَا، تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْءَة. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا ایک طویل حدیث میں بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا کو آپ کے پاس بھیجا اور وہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مرتبہ میں میرے برابر تھیں اور میں نے حضرت زینب سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، صدقہ و خیرات کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی، اور نہ ان سے زیادہ تواضع کرنے والی کوئی عورت دیکھی ہے، اس عمل میں جس کے ذریعے وہ صدقہ کرتیں اور اللہ کا قرب حاصل کرتیں تھیں، البتہ وہ زبان کی تیز تھیں لیکن اس سے بھی وہ بہت جلد رجوع کر لیتی تھیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 62 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، 4 / 1891 الرقم : 2442، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 299، الرقم : 14526.

334 / 63. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَدَّادٍ : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعُمَرَ : إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ أوَّاهَةٌ، قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ مَا الْأوَّاهَة؟ قَالَ : الْخَاشِعَة. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَابْنُ عَبْدُ الْبَرِّ وَالذَّهْبِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

’’حضرت عبداللہ بن شداد بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بے شک زینب بنت جحش ’’اوّاہہ‘‘ ہے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! اوّاہہ کا کیا مطلب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خاشعہ (خشوع و خضوع کرنے والی)۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابن عبدالبر اور ذہبی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ذہبی کے ہیں۔

الحديث رقم 63 : أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 54، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1852، الرقم : 3355، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 217.

8. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ مَيْمُوْنَة بِنْتِ الْحَارِثِ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

335 / 64. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : الْأخَوَاتُ مُؤمِنَاتٌ : مَيمُونَة زَوْجُ النَّبِيِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَ أُخْتُهَا أُمُّ الفَضْلِ بِنْتُ الْحَارِثِ، وَ أُخْتُهَا سَلْمَي بِنْتُ الْحَارِثِ امْرَأة حَمْزَة، وَ أسْمَاءُ بِنْتُ عَمِيْسٍ أُخْتُهُنَّ لِأُمِّهِنَّ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمام مومن عورتیں آپس میں بہنیں ہیں (پھر فرمایا) ام المومنین میمونہ، اس کی بہن ام فضل بنت حارث، اور اس کی بہن سلمی بنت حارث حمزہ کی بیوی اور اسماء بنت عمیس ان کی اخیافی بہن ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی، حاکم، اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز الفاظ امام حاکم کے ہیں۔

الحديث رقم 64 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 35، الرقم : 6801، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 103، الرقم : 8387، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 415، الرقم : 12178، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 249.

9. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ جُوَيْرِيَة بِنْتِ الْحَارِثِ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

336 / 65. عَنْ جُوَيْرِيَة : أنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُکْرَة حِيْنَ صَلَّي الصُّبْحَ وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أنْ أضْحَي وَهِيَ جَالِسَةٌ. فَقَالَ : مَا زِلْتِ عَلَي الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُکِ عَلَيْهَا؟ قَالَتْ : نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَکِ أرْبَعَ کَلِمَاتٍ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ : سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَ رِضَا نَفْسِهِ، وَ زِنَة عَرْشِهِ، وَ مِدَادَ کَلِمَاتِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمْ وَابْنُ ماجة وَالنَّسَائِيُّ.

’’حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر پڑھنے کے بعد علی الصبح ہی ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ اس وقت اپنی نماز کی جگہ میں بیٹھی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن چڑھے تشریف لائے اور وہ وہیں بیٹھی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس وقت سے میں تم کو چھوڑ کر گیا ہوں تم اسی طرح بیٹھی ہو، حضرت جویریہ نے عرض کیا : جی ہاں! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہارے بعد چار ایسے کلمات تین بار کہے ہیں کہ جو کچھ تم نے صبح سے اب تک پڑھا ہے اگر اس کا ان کلمات کے ساتھ وزن کرو تو ان کلمات کا وزن زیادہ ہو گا : وہ کلمات یہ ہیں : ( سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَ رِضَا نَفْسِهِ، وَ زِنَة عَرْشِهِ، وَ مِدَادَ کَلِمَاتِهِ) ’’اللہ کی حمد اور تسبیح ہے، اس کی مخلوق کے عدد اور اس کی رضا اور اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 65 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار، باب : التسبيح أول النهار و عند النوم، 4 / 2090، الرقم : 2726، و ابن ماجة في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل التسبيح، 2 / 1251، الرقم : 3808، و النسائي في السنن الکبري، 6 / 48، الرقم : 9989، و ابن حبان في الصحيح، 3 / 110، الرقم : 828.

337 / 66. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَتْ جُوَيْرِيَة اسْمُهَا بَرَّة، فَحَوَّلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم اسْمَهَا جُوَيْرِيَة، وَ کَانَ يَکْرَهُ أنْ يُقَالَ : خَرَجَ مِنْ عِنْدِ بَرَّة. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جویریہ کا نام پہلے برّہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام تبدیل کر کے جویریہ رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ناپسند فرماتے تھے کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص برّہ (نیکی) کے پاس سے نکل گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 66 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الآداب، باب : استحباب تغيير الاسم القبيح إلي حسن، 3 / 1687، الرقم : 2140، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 316، الرقم : 2902، و البيهقي في شعب الإيمان، 1 / 424، الرقم : 604.

10. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ صَفِيَة بِنْتِ حُيَيٍّ بْنِ أخْطَبَ رضي اﷲ عنها

(اُمّ المؤمنین حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کے مناقب کا بیان)

338 / 67. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أعْتَقَ صَفِيَة وَ جَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صفیہ کو رہا فرمایا اور ان کی رہائی کو ان کا حق مہر بنایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 67 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : من جعل عتق الأمة صداقها، 5 / 1956، الرقم : 4798، و مسلم في الصحيح، کتاب : النکاح، باب : فضيلة إعتاقه أمة ثم يتزوجها، 2 / 1045، الرقم : 1365، و عبد الرزاق في المصنف، 7 / 269، الرقم : 13107.

339 / 68. عَنْ أنَسٍ، قَالَ : بَلَغَ صَفِيَة : أنَّ حَفْصَة قَالَتْ : بِنْتُ يَهُوْدِيٍّ، فَبَکَتْ فَدَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هِيَ تَبْکِي، فَقَالَ : مَا يُبْکِيْکِ؟ فَقَالَتْ : قَالَتْ لِي حَفْصَة : إِنِّي بِنْتُ يَهُوْدِيٍّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّکِ لَابْنَة نَبِيٍّ وَ إِنَّ عَمَّکِ لَنَبِيٌّ وَ إِنَّکِ لَتَحْتَ نَبِيٍّ، فَفِيْمَ تَفْخَرُ عَلَيْکِ، ثُمَّ قَالَ : اتَّقِي اﷲَ يَا حَفْصَة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأحْمَدُ.

وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کو پتہ چلا کہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے انہیں یہودی کی بیٹی کہا ہے۔ وہ روپڑیں اتنے میں ان کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ وہ رو رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیوں رو رہی ہو؟ عرض کیا : حفصہ نے مجھے یہودی کی بیٹی کہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نبی کی بیٹی ہو، تمہارے چچا نبی ہیں اور نبی کی بیوی ہو۔ پس وہ کس بات میں تم پر فخر کرتی ہیں۔ پھر فرمایا : حفصہ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو (اور اس طرح کی باتیں نہ کیا کرو)۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

الحديث رقم 68 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ، باب : فضل أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 709، الرقم : 3894، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 135، الرقم : 12415، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 268.

340 / 69. عَنْ صَفِيَة بِنْتِ حُيَيِّ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ قَدْ بَلَغَنِي عَنْ حَفْصَة وَ عَائِشَة کَلَامٌ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ : ألَا قُلْتِ : فَکَيْفَ تَکُوْنَانِ خَيْرًا مِنِّي وَزَوْجِي مُحَمَّدٌ وَ أبِي هَارُوْنُ وَ عَمِّي مُوسَي. الحديث. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

’’حضرت صفیہ بنت حیی رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ مجھے حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرف سے ایک بات پہنچی تھی۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم دونوں مجھ سے کیسے بہتر ہو سکتی ہو جبکہ میرے شوہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میرے باپ حضرت ہارون علیہ السلام، اور میرے چچا حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 69 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 708، الرقم : 3892، والحاکم في المستدرک، 4 / 31، الرقم : 6790، والطبراني في المجم الأوسط، 8 / 236، الرقم : 8503، وفي المعجم الکبير، 24 / 75، الرقم : 196.

341 / 70. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ : کَانَتْ صَفِيَة مِنَ الصَّفِيِّ.

رَوَاهُ أبُوْدَاوُدَ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت صفیہ مالِ غنیمت کا وہ حصہ ہیں جنہیں آقا علیہ السلام نے اپنے لئے منتخب فرمایا۔‘‘ اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 70 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الخراج و الأمارة و الفيء، باب : ما جاء في سهم الصفي، 3 / 152، الرقم : 2994، و ابن حبان في الصحيح، 11 / 151، الرقم : 4822، و الحاکم في المستدرک، 3 / 42، الرقم : 4345، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 304، الرقم : 12534.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved