Arbain: Aqida e Khatm e Nabuwwat

ختم نبوت سے متعلق ائمہ تصوف کے اقوال

ختم نبوت کے بارے میں آئمہ سلوک و تصوف کا عقیدہ ہ مذکورہ بالا آئمہ کے عقائد سے کچھ مختلف نہیں۔ اس کا اندازہ چند آئمہ کی درج ذیل آراء سے بخوبی ہو جاتاہے:

(1) امام غزالی (م 505ھ)

امام غزالی فرماتے ہیں:

إِنَّ الْأُمَّۃَ فَھِمَتْ بِالْإِجْمَاعِ مِنْ ھٰذَا اللَّفْظِ وَمِنْ قَرَائِنِ أَحْوَالِهٖ أَنَّهُ أُفْھِمَ عَدَمُ نَبِيٍّ بَعْدَهُ أَبَدًا وَعَدَمُ رَسُوْلِ اللهِ أَبَدًا وَأَنَّهُ لَیْسَ فِیْهٖ تَأْوِیْلٌ وَلَا تَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ھٰذَا لَا یَکُوْنُ إِلَّا مُنْکِرَ الْإِجْمَاعِ.

الغزالي في الاقتصاد في الاعتقاد: 160

بیشک تمام اُمت محمدیہ ﷺ نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لا نبي بعدي) سے اور قرائن احوال سے یہی سمجھا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کبھی بھی نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول، نیز یہ کہ اس میں کسی قسم کی نہ کوئی تاویل ہو سکتی ہے نہ تخصیص۔ پس اس کا منکر اجماعِ امت کا منکر ہے۔

(2) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (م 638ھ)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اپنے موقف کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

فَمَا بَقِيَ لِلْأَوْلِیَاءِ الْیَوْمَ إِلَّا التَّعْرِیْفَاتُ وَانْسَدَّتْ أَبْوَابُ الْأَوَامِرِ الْإِلٰھِیَّۃِ وَالنَّوَاھِي فَمَنِ ادَّعَاھَا بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ فَھُوَ مُدَّعِ شَرِیْعَۃٍ أُوْحِيَ بِھَا إِلَیْہِ سَوَائٌ وَافَقَ بِھَا شَرْعَنَا أَوْ خَالَفَ فَإِنْ کَانَ مُکَلَّفًا ضَرَبْنَا عُنُقَهُ وَإِلَّا ضَرَبْنَا عَنْهُ صَفْحًا.

ابن العربي في الفتوحات المکیۃ، 3: 51، والشعرانی في الیواقیت والجواہر في بیان عقائد الاکابر، 2: 373

رفعِ نبوت کے بعد اب اولیاء کے لیے تعریفات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اور الوہی اوامر و نواہی کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں پس جو کوئی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا تو وہ (بزعم خویش) اپنی طرف وحی کردہ نئی شریعت کا مدعی ہوگا، برابر ہے کہ وہ ہماری شریعت کے موافق ہویا مخالف، پس اگر وہ مکلف یعنی عاقل بالغ ہے تو ہم (اہل قضا)اسے قتل کی سزا دیں گے اور اگر مجنون ہے تو ہم اس سے درگزر کرتے ہوئے کنارا کشی اختیار کریں گے۔

علامہ شعرانی، شیخ اکبر ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شیخ نے ’فتوحات‘ میں فرمایا ہے:

ھٰذَا بَابٌ أُغْلِقَ بَعْدَ مَوْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَلَا یُفْتَحُ لِأَحَدٍ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.

ذکرہ الشعراني في الیواقیت والجواہر، المبحث الخمس والثلاثون، 2: 371

حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد وحی کا باب بند ہو چکا ہے جو قیامت تک کسی کے لیے نہیں کھلے گا۔

(3) امام عبد الوھاب شعرانی (م 973ھ)

امام عبد الوھاب شعرانی فرماتے ہیں:

اِعْلَمْ أَنَّ الْإِجْمَاعَ قَدِ انْعَقَدَ عَلٰی أَنَّهُ ﷺ خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن کَمَا أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

الشعراني في الیواقیت والجواہر، 2: 37

جان لو کہ اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے سلسلہ رسل ختم فرما دیا ہے جس طرح آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء ختم فرمایا ہے۔

(4) حضرت مجدد الف ثانی (م 1034ھ)

حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں:

1۔ باید دانست کہ منصب نبوت ختم بر ختم الرسل شدہ است علیہ وعلی اٰلہ الصلوات والتسلیمات

مجدد الف ثاني، مکتوبات، دفتر اول، حصہ چہارم: 110، مکتوب نمبر260

جان لینا چاہیے کہ منصب نبوت ختم الرسل حضرت محمد ﷺ پر ختم ہو چکا ہے۔

2۔ خاتمِ انبیاء محمد رسول الله است صلی الله تعالیٰ و سلّم وعلٰی اٰلہ و علیھم اجمعین و دینِ او ناسخِ ادیانِ سابق ست و کتابِ او بہترین کتب ما تقدم ست و شریعتِ او را ناسخے نخواہد بود بلکہ تا قیامِ قیامت خواہد ماند و عیسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصّلٰوۃ و السّلام کہ نزولِ خواہد نمود عمل بشریعتِ او خواہد کرد و بعنوان امتِ او خواہد بود.

مجدد الف ثانی، مکتوبات، دفتر دوم، حصہ ہفتم: 49، مکتوب نمبر: 67

محمد رسول الله ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کے خاتم اور آپ ﷺ کا دین ادیانِ سابقہ کا ناسخ ہے اور آپ ﷺ کی کتاب پہلی کتب سے بہترین ہے، آپ ﷺ کی شریعت کا ناسخ کوئی نہیں ہو گا اور قیامت تک یہی شریعت رہے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو نزول فرمائیں گے وہ بھی آپ ﷺ کی شریعت ہی پر عمل کریں گے اور آپ ﷺ کے امتی کی حیثیت سے رہیں گے۔

3۔ نبوت عبارت از قرب الٰہی است جل سلطانہ کہ شائبہ ظلیت ندارد و عروجش رو بحق دارد جل وعلا و نزولش رو بخلق این قرب بالاصالۃ نصیب انبیاء است علیھم الصلوات و التسلیم و این منصب مخصوص باین بزرگواران است وخاتم این منصب سید البشر است علیہ و علی اٰلہ الصّلوٰۃ والسّلام حضرت عیسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصّلوۃُ والتحیّۃ بعد از نزول متابع شریعتِ خاتم الرسل خواھدبود علیہ الصّلوۃ و السّلام.

مجدد الف ثانی، مکتوبات، دفتر اول، حصہ پنجم: 148، مکتوب نمبر: 301

نبوت قرب الٰہی سے عبارت ہے جس میں ظلیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اس کا عروج حق کی طرف اور نزول مخلوق کی طرف ہوتاہے، قرب کا یہ درجہ اِصالتاً انبیاء علیہم السلام کا حصہ ہے اور یہ انہیں معزز ہستیوں کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ اس منصب کے ختم فرمانے والے سید البشر حضرت محمد ﷺ ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نزول کے بعد آپ ﷺ کی شریعت کی اتباع کریں گے۔

4۔ در شان فاروق رضی اللہ عنہ فرمودہ است علیہ وعلی الہ الصّلٰوۃ والسّلام: لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ یعنی لوازم و کمالاتے کہ در نبوت درکار است ہمہ را عمر رضی اللہ عنہ دارد امّا چوں منصبِ نبوت بخاتمِ الرُّسُل ختم شدہ است علیہ وعلی الہ الصّلٰوۃ والسّلام بدولتِ منصبِ نبوت مشرف نگشت.

مجدد الف ثانی، مکتوبات، دفتر سوم، حصہ ہشتم: 69، 70، مکتوب نمبر: 24

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرہوتے یعنی تمام لوازمات و کمالات نبوت ان کے اندر موجود ہیں لیکن چونکہ منصبِ نبوت حضور انور ﷺ پر تمام ہوچکا ہے اس لیے وہ اس منصب سے سرفراز نہیں ہوسکتے۔

اسی مکتوب میں ہے:

5۔ مقرر است ہیچ ولی امتے بمرتبۂ صحابی آں امت نرسد فکیف بہ نبی آں امت.

مجدد الف ثانی، مکتوبات، دفتر سوم، حصہ ہشتم: 70، مکتوب نمبر: 24

یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی امت کا ولی اس امت کے صحابی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا چہ جائیکہ ایک امتی اس امت کے نبی کے درجہ تک رسائی حاصل کرے۔

ماحصل کلام

اَئمہ امت کی مذکورہ بالا تصریحات، تشریحات اور دلائل و اقوال سے ثابت ہو گیا کہ امت نے خاتم النبیین کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ حضور سیدنا محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک ہر قسم کی نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے اور پھر اس دعویٰ کے بارے میں کتنی ہی تاویلیں کیوں نہ کرے، اپنی نبوت کو ظلی، بروزی، لغوی ثابت کرنے کے لاکھ جتن کرے، بالاجماع اسے کافر، مرتد اور زندیق ہی سمجھا جائے گا اور صرف اسے ہی نہیں بلکہ اسے سچا ماننے والوں کو بھی اس دائرہ میں شامل کیا جائے گا حتیٰ کہ جو اس دجال اور اس کے ماننے والوں کے کفر میں شک بھی کرے اسے بھی خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔

مذکورہ بالا صفحات میں جن اَئمہ کی تصریحات پیش کی گئیں ہیں ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنینِ وفات بھی دے دئیے ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ ہر دور اور ہر صدی کے اکابرینِ امت خاتم النبیین سے مراد ’’آخری نبی‘‘ ہی لیتے رہے ہیں اورپہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک تمام اُمتِ مسلمہ کا عقیدہ یہی رہا ہے نیز ان اہل علم و دانش کا تعلق ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک اور ترکی سے لے کر یمن تک دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں سے تھا جس سے ثابت ہوتاہے کہ ہر صدی میں دنیا کے ہر خطہ کے مسلمانوں کا موقف یہی رہا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved