Arbain: Takwini Umoor main Tasarrufaat e Mustafa (PBUH)

حضور ﷺ کے درختوں اور نباتات پر اختیارات اور تصرفات

إِخْتِیَارُهٗ ﷺ وَتَصَرُّفُهٗ عَلَی الْأَشْجَارِ وَالنَّبَاتَاتِ

حضور ﷺ کے درختوں اور نباتات پر اِختیارات اور تصرفات

17. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَا أَجْعَلُ لَکَ شَیْئًا تَقْعُدُ عَلَیْهِ، فَإِنَّ لِي غُـلَامًا نَجَّارًا۔ قَالَ: إِنْ شِئْتِ۔ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ قَعَدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ، فَصَاحَتِ النَّخْلَۃُ الَّتِي کَانَ یَخْطُبُ عِنْدَھَا، حَتّٰی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَتّٰی أَخَذَھَا، فَضَمَّھَا إِلَیْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِیْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي یُسَکَّتُ، حَتَّی اسْتَقَرَّتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنوا دوں جس پر آپ (خطبہ کے وقت) تشریف فرما ہوسکیں؟ کیونکہ میرا ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو (تو بنوا دو)۔ راوی نے کہا: اُس عورت نے آپ ﷺ کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ پھر جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو (آپ ﷺ کے لیے) تیار کیا گیا تھا کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراقِ رسول ﷺ میں) چیخ اُٹھا یہاں تک کہ (غمِ فراق میں) پھٹ جاتا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ منبر مبارک سے نیچے تشریف لے آئے اور کھجور کے ستون کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح ہچکیاں لینے لگا جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے قرار مل گیا۔

اِسے امام بخاری، احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

18. عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ رضی اللہ عنهما عَنْ أَبِیْهِ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ فَکَانَ یَشُقُّ عَلَیْهِ قِیَامُهٗ فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَهٗ وَأُقِیْمَ إِلٰی جَنْبِهٖ قَائِمًا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِیَامُ عَلَیْهِ اسْتَنَدَ إِلَیْهِ فَاتَّکَأَ عَلَیْهِ فَبَصُرَ بِهٖ رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلٰی جَنْبِ ذٰلِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ یَلِیْهِ مِنَ النَّاسِ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ یَرْفُقُ بِهٖ لَصَنَعْتُ لَهٗ مَجْلِسًا یَقُوْمُ عَلَیْهِ، فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ، وَإِنْ شَاءَ قَامَ۔ فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: ائْتُوْنِي بِهٖ۔ فَأَتَوْهُ بِهٖ فَأُمِرَ أَنْ یَصْنَعَ لَهٗ هٰذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلاَثَ أَوِ الْأَرْبَعَ هِيَ الْآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِیْنَةِ فَوَجَدَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ذٰلِکَ رَاحَةً، فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ ﷺ الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلٰی هٰذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَهٗ جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَۃُ حِیْنَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ ﷺ.

فَزَعَمَ ابْنُ بُرَیْدَةَ رضی الله عنه عَنْ أَبِیْهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِیْنَ سَمِعَ حَنِیْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَیْهِ فَوَضَعَ یَدَهٗ عَلَیْهِ وَقَالَ: اخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِیْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُیُوْنِهَا فَیَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَیَأْکُلَ أَوْلِیَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ. فَزَعَمَ أَنَّهٗ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ یَقُوْلُ لَهٗ: نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ. مَرَّتَیْنِ فَسَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: اخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهٗ فِي الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنهما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے۔ دورانِ خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ ﷺ کی طبیعت مقدسہ پر گراں ہوتی، تب (آپ ﷺ کی سہولت کے لیے) زمین کھود کر اُس میں کھجور کا خشک تنا نصب کر دیا گیا۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے اور آپ ﷺ کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ ﷺ کھجور کے اس تنے کا سہارا لے کر اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ پھر ایک شخص نے جو (کہیں سے) مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، آپ ﷺ کو کھجور کے اِس تنے کے ساتھ کھڑے دیکھا تو اُس نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی ﷺ میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو آپ ﷺ کے لیے آرام دہ ہوگی تو میں ان کے لیے ایک ایسی مسند تیار کردوں جس پر آپ ﷺ قیام فرما ہوں؛ اس پر آپ ﷺ جتنی دیر چاہیں تشریف فرما ہوں اور جتنی دیر چاہیں کھڑے ہو جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لے آؤ۔ صحابہ کرام l اسے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے آئے تو اس شخص کو حکم دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے۔ یہ آج بھی منبر المدینہ میں موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس منبر (پر تشریف فرما ہونے) میں راحت محسوس کی۔ جب آپ ﷺ نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اپنے لیے بنائے گئے اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو خشک لکڑی کا وہ تنا غمناک ہو گیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے اشتیاق اور غم میں اس طرح رونے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لیے روتی ہے۔

حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنهما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا اور فرمایا: تم چاہو تو میں تمہیں اسی جگہ دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ویسے ہی سرسبز و شاداب ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (میری اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے کچھ عرصہ سر انجام ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کی نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری نشوونما بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تمھارا پھل کھائیں، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسا کر دیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے اسے دو مرتبہ فرمایا: ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم ﷺ سے اس کے بارے میں عرض کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھجور کے اس تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگا دوں۔

اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ عَمْرِو بْنِ سَوَادٍ السَّرْحِيِّ، قَالَ: قَالَ الشَّافِعِيُّ رضی الله عنه: مَا أَعْطَی اللهُ نَبِیًّا مَا أَعْطٰی مُحَمَّدًا ﷺ. فَقُلْتُ: أَعْطٰی عِیْسٰی علیہ السلام إِحْیَاءَ الْمَوْتٰی، فَقَالَ: أَعْطٰی مُحَمَّدًا ﷺ الْجِذْعَ الَّذِي کَانَ یَخْطُبُ إِلٰی جَنْبِهٖ حَتّٰی هُیِّیَٔ لَهُ الْمِنْبَرُ حَنَّ الْجِذْعُ حَتّٰی سُمِعَ صَوْتُهٗ، فَهٰذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَاکَ.

رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَاللَّفْظُ لَهٗ.

ایک روایت میں حضرت عمرو بن سواد السِّرحی، امام شافعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جو (مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت) عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا۔ تو میں نے ان سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا ہے۔ امام شافعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو کھجور کے اس (خشک) تنے کا معجزہ عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ ﷺ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کے لیے منبر تیار کیا گیا تو کھجور کا وہ خشک تنا (فراقِ رسول ﷺ میں) یوں رویا کہ اس کے رونے کی آواز بھی سنائی دی اور یہ مردے زندہ کرنے کے معجزہ سے بھی بڑا معجزہ ہے۔

اِسے امام بیہقی نے اور ابو نعیم نے مذکورہ الفاظ میں روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَایةِ بُرَیْدَةَ رضی الله عنه: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَسْتَنِدُ إِلٰی جِذْعٍ فِي الْمَسْجِدِ إِذَا خَطَبَ، فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ تَحَوَّلَ إِلَیْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِیْنًا، رَقَّ لَهٗ أَهْلُ الْمَسْجِدِ، فَأَتَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَتّٰی وَضَعَ یَدَهٗ عَلَیْهِ فَسَکَنَ، فَقَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنْ شِئْتَ رَدَدْتُکَ إِلَی الْحَائِطِ الَّذِي کُنْتَ فِیْهِ، فَکُنْتَ کَمَا کُنْتَ، تَنْبُتُ لَکَ عُرُوْقُکَ، وَیَکْمُلُ خَلْقُکَ، وَیُجَدَّدُ لَکَ خُوْصٌ وَثَمَرَةٌ، وَإِنْ شِئْتَ غَرَسْتُکَ فِي الْجَنَّةِ، فَیَأْکُلُ أَوْلِیَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرِکَ۔ ثُمَّ أَصْغٰی إِلَیْهِ النَّبِيُّ ﷺ رَأْسَهٗ لِیَسْتَمِعَ مَا یَقُوْلُ، قَالَ: بَلْ تَغْرِسُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَیَأْکُلُ مِنِّي أَوْلِیَاءُ اللهِ، وَأَکُوْنُ فِي مَکَانٍ لَا أَبْلٰی فِیْهِ، فَسَمِعَهٗ مَنْ یَلِیْهِ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ، فَعَادَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الْمِنْبَرِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: خَیَّرْتُهٗ کَمَا سَمِعْتُمْ، فَاخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهٗ فِي الْجَنَّةِ، فَاخْتَارَ دَارَ الْبَقَاءِ عَلٰی دَارِ الْفَنَاءِ.

رَوَاهُ أَبُوْ سَعْدٍ النَّیْسَابُوْرِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں (یوں) ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں جب خطبہ ارشاد فرماتے تو ایک کھجور کے خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پھر جب آپ ﷺ کے لیے وہاں منبر رکھ دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف تشریف لے گئے اس پر کھجور کا تنا آپ ﷺ کے شوق اور محبت میں دھاڑیں مار کر رونے لگا جس سے اہل مسجد کے دل بھی بھر آئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے آئے۔ اور اپنا دست شفقت اس پر رکھا تو وہ خاموش ہوگیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: اگر تو چاہتا ہے تو میں تجھے اسی باغ میں دوبارہ لگا دوں جس میں تو پہلے تھا اور تو ویسا ہی ہو جائے جیسے کہ تو (کٹنے سے پہلے) تھا، تمہاری جڑیں اگادی جائیں، تمہاری خلقت مکمل کر دی جائے اور نئے سرے تمہاری شاخیں نکلیں اور پھل لگ جائے۔ اور اگر تو چاہے تو میں تجھے جنت میں لگا دوں اور وہاں اولیاء اللہ تیرا پھل کھائیں، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر انور اس کی طرف جھکایا تاکہ اس کی بات سماعت فرمائیں، اس نے عرض کیا: بلکہ مجھے جنت میں گاڑ دیں تاکہ اولیاء اللہ میرا پھل کھائیں اور میں ایسی جگہ پر رہوں جہاں میں بوسیدگی سے محفوظ ہو جاؤں آپ ﷺ کے پاس والے صحابہ بھی اس (درخت کی بات) سن رہے تھے، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں نے ایسا ہی کردیا ہے، رسول اللہ ﷺ منبر کی طرف لوٹ آئے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں نے اسے اختیار دیا ہے جیسا کہ تم نے سنا ہے اور اس نے یہ بات اختیار کی کہ میں اسے جنت میں لگا دوں، اس نے دار البقاء کو دار الفناء پر ترجیح دی ہے۔

اِسے امام ابو سعد نیشاپوری اور قاضی عیاض نے بیان کیا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ الْبَیْهَقِيُّ: هٰذِهِ الْأَحَادِیْثُ الَّتِي ذَکَرْنَاهَا فِي أَمْرِ الْحَنَّانَةِ کُلُّهَا صَحِیْحَةٌ، وَأَمْرُ الْحَنَّانَةِ مِنَ الْأُمُوْرِ الظَّاهِرَةِ، َوالْأَعْـلَامِ النَّیِّرَةِ الَّتِي أَخَذَهَا الْخَلَفُ عَنِ السَّلَفِ، وَرِوَایَۃُ الْأَحَادِیْثِ فِیْهِ کَالتَّکْلِیْفِ، وَالْحَمْدُ ِﷲِ عَلَی الإِسْلَامِ وَالسُّنَّةِ، وَبِهِ الْعِیَاذُ وَالْعِصْمَۃُ.

امام بیہقی نے فرمایا: یہ احادیث جو ہم نے ستونِ حنانہ کے معاملہ میں ذکر کی ہیں یہ ساری کی ساری صحیح ہیں۔ اور ستونِ حنانہ والا معاملہ اُن ظاہری اُمور اور روشن دلائل میں سے ایک ہے، جنہیں بعد میں آنے والوں (خَلَف) نے پہلے گزر جانے والوں (سَلَفْ)سے لیا اور اس کے بارے میں احادیث کو روایت کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ضروری شرعی اَمر کو بجا لانا۔ اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اسلام اور سنت کی نعمت سے نوازا اور پناہ اور عصمت اسی کی ہے۔

قَالَ الْقَاضِي عِیَاضٌ الْمَالِکِيُّ فِي ’الشِّفَا‘: وَیَعْضُدُ هٰذِهِ الْأَخْبَارَ حَدِیْثُ أَنِیْنِ الْجِذْعِ، وَهُوَ فِي نَفْسِهٖ مَشْهُوْرٌ مُنْتَشَرٌ، وَالْخَبَرُ بِهٖ مُتَوَاتِرٌ، قَدْ خَرَّجَهٗ أَهْلُ الصَّحِیْحِ، وَرَوَاهُ مِنَ الصَّحَابَةِ بِضْعَةَ عَشَرَ، مِنْهُمْ: أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، وسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَأَبُوْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيُّ، وَبُرَیْدَۃُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ، وَالْمُطَّلِبُ بْنُ أَبِي وَدَاعَةَ l، کُلُّهُمْ یُحَدِّثُ هٰذَا الْحَدِیْثَ، قَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَحَدِیْثُ أَنَسٍ صَحِیْحٌ.

قاضی عیاض المالکی ’الشفا‘ میں فرماتے ہیں: یہ سب احادیث ستون کے رونے والی حدیث کو تقویت دیتی ہیں۔ اور یہ حدیث بذاتِ خود مشہور و معروف اور تواتر کے ساتھ مروی ہے۔ ائمہ صحاح نے اسے بیان کیا ہے اور دس سے زیادہ صحابہ کرام l نے اسے روایت کیا ہے، جن میں حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت سہل بن سعد، حضرت ابو سعید خدری، حضرت بریدہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت مطلب بن ابی وداعہ l شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات اس حدیث کو معناً روایت کرتے ہیں۔ اور امام ترمذی نے (اس حدیث کے حوالے سے) کہا ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے۔

19. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه فِي رِوَایَةٍ طَوِیْلَةٍ قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتّٰی نَزَلْنَا وَادِیًا أَفْیَحَ. فَذَھَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقْضِي حَاجَتَهٗ. فَاتَّبَعْتُهٗ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ. فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَلَمْ یَرَ شَیْئًا یَسْتَتِرُ بِهٖ. فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِیئِ الْوَادِي. فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلٰی إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ. فَانْقَادَتْ مَعَهٗ کَالْبَعِیْرِ الْمَخْشُوْشِ. الَّذِي یُصَانِعُ قَائِدَهٗ. حَتّٰی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرٰی. فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَهٗ کَذٰلِکَ. حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَیْنَهُمَا، لَأَمَ بَیْنَهُمَا، (یَعْنِي جَمَعَهُمَا)، فَقَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا.

قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ یُحِسَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِقُرْبِي فَیَبْتَعِدَ - وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ: فَیَتَبَعَّدَ - فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي. فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَہٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُقْبِـلًا. وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا. فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلٰی سَاقٍ. فَرَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَقَفَ وَقْفَةً. فَقَالَ بِرَأْسِهٖ هٰکَذَا - وَأَشَارَ أَبُوْ إِسْمَاعِیْلَ بِرَأْسِهٖ یَمِیْنًا وَشِمَالًا - ثُمَّ أَقْبَلَ. فَلَمَّا انْتَهٰی إِلَيَّ قَالَ: یَا جَابِرُ، ھَلْ رَأَیْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَیْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. فَأَقْبِلْ بِھِمَا. حَتّٰی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ یَمِیْنِکَ وَغُصْنًا عَنْ یَسَارِکَ.

قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُهٗ وَحَسَرْتُهٗ. فَانْذَلَقَ لِي. فَأَتَیْتُ الشَّجَرَتَیْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتّٰی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ یَمِیْنِي وَغُصْنًا عَنْ یَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهٗ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَیْنِ یُعَذَّبَانِ. فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِي، أَنْ یُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَیْنِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں پانی کا برتن لے کر آپ ﷺ کے پیچھے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ ﷺ کو پردہ کے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، رسول اللہ ﷺ ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ ﷺ نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح فرماں بردار ہو کر آپ ﷺ کے ساتھ چلنے لگا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ مہار پکڑنے والے کے تابع ہو۔ پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ ﷺ کے تابع ہو کر ساتھ چلنے لگا یہاں تک کہ جب آپ ﷺ دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ ﷺ نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس خیال سے نکلا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے قریب دیکھ کر کہیں مزید دور نہ چلے جائیں، - اور محمد بن عباد کی روایت میں ہے: مزید دور نہ ہوجائیں - میں وہاں بیٹھا اپنے دل سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت ایک دوسرے سے الگ ہو کر اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر جا کھڑے ہوئے۔ میں نے دیکھا لمحہ بھر کے لیے رسول اللہ ﷺ وہاں کھڑے رہے، پھر آپ ﷺ نے اپنے سر مبارک سے اس طرح اشارہ کیا: - (اشارہ کی کیفیت بتانے کے لیے) راوی ابو اسماعیل نے بھی اپنے سر سے دائیں بائیں اشارہ کیا - (حضرت جابر فرماتے ہیں) پھر آپ ﷺ میری طرف آنے لگے، جب آپ ﷺ میرے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اُٹھ کر ایک پتھر لیا اور اسے توڑکر تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر رسول اللہ ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی اور حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر (کیا میں جان سکتا ہوں کہ) اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں گی ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔

اِسے امام مسلم، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: بِمَ أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هٰذَا الْعِذْقَ مِنْ هٰذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَجَعَلَ یَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتّٰی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ صَحِیْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس کے خوشے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ ﷺ نے اسے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے (نباتات پر حضور اکرم ﷺ کا یہ تصرف) دیکھ کر اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔

اِسے امام ترمذی، حاکم، طبرانی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے: یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

21. عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِیْرٍ لَهٗ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْیَتَیْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرٰی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلٰی مَنَابَتِھِمَا، وَجَاءَ بَعِیْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهٖ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَهٗ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَتَدْرُوْنَ مَا یَقُوْلُ الْبَعِیْرُ؟ إِنَّهٗ یَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهٗ یُرِیْدُ نَحْرَهٗ فَبَعَثَ إِلَیْهِ النَّبِيُّ ﷺ، فَقَالَ: أَوَاهِبُهٗ أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، قَالَ: اسْتَوْصِ بِهٖ مَعْرُوْفًا، فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُهٗ یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَتٰی عَلٰی قَبْرٍ یُعَذَّبُ صَاحِبُهٗ فَقَالَ: إِنَّهٗ یُعَذَّبُ فِي غَیْرِ کَبِیْرٍ، فَأَمَرَ بِجَرِیْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی قَبْرِهٖ فَقَالَ: عَسٰی أَنْ یُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً.

رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: إِسْنَادُهٗ حَسَنٌ.

حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ ﷺ نے ایک جگہ قضاے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے کھجور کے دو چھوٹے چھوٹے پودوں کو حکم دیا۔ وہ آپ ﷺ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ ﷺ کے لیے پردہ بن گئے۔) پھر آپ ﷺ نے اُنہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔ پھر ایک اُونٹ آپ ﷺ کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر گھسیٹتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اُس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اُونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اِس کا خیال ہے کہ اِس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس کے مالک کو بلابھیجا۔ (جب وہ آ گیا تو) آپ ﷺ نے اُس سے فرمایا: کیا یہ اُونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اِس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں (کیوں کہ یہ اب آپ کا ہوگا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے اِس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اُس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اِس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی قبر (کے پاس) سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِسے گناهِ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا تھا (بلکہ صغیرہ گناہوں سے نہ بچنا عذاب کا باعث ہے)۔ پھر آپ ﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اُسے اُس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اِسے عذاب میں تخفیف رہے گی۔

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اسناد حسن ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیْهِ، قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ. فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَتَهٗ، فَقَالَ لِي: ائْتِ تِلْکَ الْأَشَائَتَیْنِ - قَالَ وَکِیْعٌ: یَعْنِي النَّخْلَ الصِّغَارَ - فَقُلْ لَهُمَا: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا. فَاجْتَمَعَتَا. فَاسْتَتَرَ بِهِمَا. فَقَضٰی حَاجَتَهٗ، ثُمَّ قَالَ لِي: ائْتِهِمَا، فَقُلْ لَهُمَا: لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا إِلٰی مَکَانِهَا فَقُلْتُ لَهُمَا. فَرَجَعَتَا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَغَوِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادَیْنِ، وَالطَّبَرَانِيُّ بِنَحْوِهٖ، وَأَحَدُ إِسْنَادَي أَحْمَدَ رِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: وَلَهٗ طُرُقٌ أُخْرٰی عِنْدَ أَحْمَدَ مِنْ رِوَایَةِ یَعْلَی بْنِ سَبَابَةَ نَحْوَهٗ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهٖ.

حضرت یعلی بن مرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے حاجت کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا: ان دو درختوں کو بلا لاؤ - وکیع بیان کرتے کہ الْأَشَائَتَیْن سے مراد کھجور کے چھوٹے درخت ہیں - حضرت مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان درختوں کے پاس گیا اور ان سے کہا: تمہیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ اکٹھے ہو جاؤ۔ (یہ سنتے ہی) وہ دونوں درخت اکٹھے ہوگئے اور آپ ﷺ نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ ﷺ حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا: جاؤ ان دونوں درختوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں، میں نے جاکر ان سے (اپنی سابقہ جگہوں کی طرف لوٹنے کے لیے) کہا تو وہ اپنی (پہلی) جگہ واپس چلے گئے۔

اِسے امام احمد نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ سے اور ابن ابی شیبہ، ابن ابی عاصم اور بغوی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام احمد نے دو سندوں سے روایت کیا ہے، اور ان ہی کی طرح طبرانی نے بھی اسے روایت کیا ہے؛ امام احمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور کنانی نے کہا ہے: امام احمد کے پاس یعلی بن لبابہ کی روایت سے ایسی سند کے ساتھ جس پرکچھ کلام نہیںاس حدیث کے دیگر طرق بھی ہیں۔ البانی نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَرَأَیْتُ مِنْهُ شَیْئًا عَجَبًا، نَزَلْنَا مَنْزِلًا فَقَالَ: انْطَلِقْ إِلٰی هَاتَیْنِ الشَّجَرَتَیْنِ فَقُلْ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لَکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا۔ فَانْطَلَقْتُ فَقُلْتُ لَهُمَا ذٰلِکَ. فَانْتُزِعَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِنْ أَصْلِهَا، فَمَرَّتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ إِلٰی صَاحِبَتِهَا، فَالْتَقَیَا جَمِیْعًا، فَقَضٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَاجَتَهٗ مِنْ وَرَائِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: انْطَلِقْ فَقُلْ لَهُمَا لِتَعُوْدَ کُلُّ وَاحِدَةٍ إِلٰی مَکَانِهَا. فَأَتَیْتُهُمَا، فَقُلْتُ ذٰلِکَ لَهُمَا، فَعَادَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ إِلٰی مَکَانِهَا.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَذَکَرَهُ ابْنُ تَیْمِیَّةَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ: صَحِیْحٌ، وَالْحَدِیْثُ بِهٰذِهِ الْمُتَابَعَاتِ جَیِّدٌ.

حضرت یعلی بن مرہ کی ایک روایت میں ہے، آپ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر کیا تو میں نے آپ ﷺ سے ایک عجیب بات (کا ظہور) دیکھا ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان دو درختوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: تمہیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ تم دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو جاؤ۔ (حضرت مرہ کہتے ہیں:) میں اُن دونوں درختوں کے پاس گیا اور انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کا پیغام سنایا۔ (کیا دیکھتا ہوں کہ) اُن دونوں نے اپنے آپ کو اپنی جگہ سے نکالا اور (حضور ﷺ کے حکم کے مطابق) وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھے اور ایک جگہ اکٹھے ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ نے اُن دونوں درختوں کی اوٹ میں پیچھے اپنی ضرورت پوری کی۔ پھر (مجھے) فرمایا: جاؤ اور ان دونوں سے کہو کہ ہر ایک اپنی جگہ واپس چلا جائے۔ میں اُن کے پاس گیا اور انہیں یہ پیغام سنایا تو ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ واپس چلا گیا۔

اسے امام حاکم اور ابن اسحاق نے روایت کیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی اسے بیان کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے: یہ حدیث صحیح سند والی ہے اور البانی نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے اور ان متابعات کے ساتھ جید ہے۔

وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه: قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَرَأَیْتُ مِنْهُ ثَـلَاثَةَ أَشْیَاءَ عَجِیْبَةً، قَالَ: نَزَلْنَا بِأَرْضٍ فِیْهَا شَجَرٌ کَثِیْرٌ فَقَالَ لِي: اذْهَبْ إِلٰی تِیْکَ الشَّجَرَتَیْنِ، فَقُلْ لَهُمَا: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا، فَذَهَبْتُ إِلَیْهِمَا، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا، فَاجْتَمَعَتَا، فَقَضٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَاجَتَهٗ، وَقَالَ: اذْهَبْ فَقُلْ لَهُمَا: یَتَفَرَّقَانِ۔ فَقُلْتُ لَهُمَا فَتَفَرَّقَتَا، وَجَائَتِ امْرَأَةٌ بِصَبِيٍّ، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ هٰذَا یُصْرَعُ فِي الشَّهْرِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، قَالَ: أَدْنِیْهِ مِنِّي، فَتَفَلَ فِي فِیْهِ، وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللهِ، أَنَا رَسُوْلُ اللهِ، ثُمَّ قَالَ لَهَا: إِذَا رَجَعْتِ فَأَعْلِمِیْنِي مَا صَنَعَ۔ فَلَمَّا رَجَعَ اسْتَقْبَلَتْهُ بِکَبْشَیْنِ وَشَيئٍ مِنْ سَمْنٍ وَأَقِطٍ، فَقَالَ لِي: خُذْ مِنْهَا أَحَدَ الْکَبْشَیْنِ وَمَا مَعَهَا قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا رَأَیْتُ مِنْهُ ذَاکَ، قَالَ: فَأَتَاهُ بَعِیْرٌ فَرَأٰی عَیْنَیْهِ تَسِیْـلَانِ، فَقَالَ: لِمَنْ هٰذَا؟ فَقَالُوْا: لِآلِ فُـلَانٍ فَبَعَثَ إِلَیْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا لِهٰذَا الْبَعِیْرِ یَشْکُوکُمْ؟ قَالُوْا: کَانَ لَنَا نَاضِحًا فَکَبِرَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَهٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ذَرُوْهُ فِي الإِبِلِ فَذَرُوْهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

حضرت یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ایک مرتبہ) میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا، میں نے آپ سے تین عجیب اشیاء دیکھیں۔ آپ فرماتے ہیں: ہم ایسی سر زمین پر اترے جہاں درخت کثیر تعداد میں تھے، پس مجھے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اُن دو درختوں کے پاس جاؤ اور انہیں کہو: تم دونوں کو رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ تم دونوں آپس میں مل جاؤ۔ (حضرت یعلی بن مرہ فرماتے ہیں:) میں ان دونوں درختوں کے پاس گیا اور ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ تم دونوں کو حکم فرماتے ہیں کہ تو تم آپس میں مل جاؤ۔ (یہ پیغام سنتے ہی) وہ دونوں آپس میں مل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے (ان کی اوٹ میں) رفع حاجت کی۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: ان درختوں کے پاس جاؤ اور انہیں (منتشر ہونے کے لیے) کہو وہ منتشر ہو جائیں گے چنانچہ میں نے انہیں جا کر کہا تو وہ دونوں الگ الگ ہوگئے۔ (دوسرا عجیب واقعہ یہ ہے کہ) ایک مرتبہ ایک عورت اپنے (بیمار) بچے کو لے کر بارگاهِ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی: یارسول اللہ! اس بچے پر مہینے میں سات مرتبہ دورہ پڑتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے میرے قریب کرو۔ پھر آپ ﷺ نے اس بچے کے منہ میں تین مرتبہ لعابِ دہن ڈالا اور فرمایا: اے اللہ کے دشمن نکل جا (اور سن لے کہ) میں اللہ کا رسول ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے اس خاتون سے فرمایا: جب میں واپس آؤں تو مجھے بتانا کہ بچے کا کیا حال ہے۔ پھر جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو اُس عورت نے دو بکروں، کچھ گھی اور پنیر کے ساتھ استقبال کیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اس خاتون سے دو بکروں میں سے ایک تم لے لو اور جو کچھ اس کے ساتھ ہے (گھی وغیرہ) وہ بھی لے لو۔ اس خاتون نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں نے اپنے بچے میں وہ بیماری (دوبارہ) نہیں دیکھی۔ (تیسری عجیب بات یہ تھی کہ ) حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایک اونٹ حاضر ہوا اور اس کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: فلاں شخص کا ہے۔ آپ ﷺ نے اُسے طلب فرمایا اور پوچھا: یہ اونٹ تمہارا شکوہ کر رہا ہے، معاملہ کیا ہے؟ تو ان لوگوں نے عرض کیا: یہ ہمارے لیے جوان تھا پھر بوڑھا ہو گیا (اور کام کاج کے قابل نہیں رہا)، تو ہم نے اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے اونٹوں میں چھوڑ دو۔ تو اُن لوگوں نے اسے چھوڑ دیا۔

اِسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه، قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ حُنَیْنٍ، فَأَرَادَ أَنْ یَتَبَرَّزَ، وَکَانَ إِذَا أَرَادَ ذٰلِکَ یَتَبَاعَدُ حَتّٰی لَا یَرَاهُ أَحَدٌ، قَالَ: انْظُرْ هَلْ تَرٰی شَیْئًا؟ فَنَظَرْتُ فَرَأَیْتُ إِشَاءَةً وَاحِدَةً، فَأَخْبَرْتُهٗ، فَقَالَ: انْظُرْ هَلْ تَرٰی شَیْئًا؟ فَنَظَرْتُ إِشَائَةً أُخْرٰی مُتَبَاعِدَةً مِنْ صَاحِبَتِهَا، فَأَخْبَرْتُهٗ، فَقَالَ لِي: قُلْ لَهُمَا: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا، فَقُلْتُ لَهُمَا ذٰلِکَ، فَاجْتَمَعَا، ثُمَّ أَتَاهُمَا فَاسْتَتَرَ بِهِمَا.

ثُمَّ قَامَ فَلَمَّا قَضٰی حَاجَتَهُ انْطَلَقَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا إِلٰی مَکَانِهَا، ثُمَّ أَصَابَ النَّاسَ عَطَشٌ شَدِیْدٌ فِي تِلْکَ الْغَزْوَةِ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللهِ: الْتَمِسْ لِي، یَعْنِي الْمَاءَ، فَأَتَیْتُهٗ بِفَضْلِ مَاءٍ، وَجَدْتُهٗ فِي إِدَاوَةٍ، فَأَخَذَهٗ فَصَبَّهٗ فِي رِکْوَةٍ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَهٗ فِیْهَا وَسَمّٰی، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَنْحَدِرُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِهٖ، فَشَرِبَ النَّاسُ وَتَوَضَّؤُوْا مَا شَاءُ وْا، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ بَرَکَةٌ فَجَعَلْتُ أَشْرَبُ مِنْهُ، وَأُکْثِرُ، أَلْتَمِسُ بَرَکَتَهٗ. وَفِي رِوَایَةٍ: غَزْوَۃُ خَیْبَرَ.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْأَصْبَهَانِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: وَفِي إِسْنَادِ الْأَوْسَطِ: زَمْعَۃُ بْنُ صَالِحٍ، وَقَدْ وُثِّقَ عَلٰی ضَعْفِهٖ، وَبَقِیَّۃُ رِجَالِهٖ حَدِیْثُهُمْ حَسَنٌ.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ہم غزوۂ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے رفع حاجت کا ارادہ فرمایا، آپ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ جب رفع حاجت کا ارادہ فرماتے تو لوگوں سے دور ہوجاتے تاکہ کوئی آپ ﷺ کو نہ دیکھ پائے۔ آپ ﷺ نے (مجھے) فرمایا: دیکھو (اوٹ کے لیے) کوئی چیز ہے؟ میں نے کھجور کا ایک چھوٹا پودا دیکھا تو آپ ﷺ کو بتا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دیکھو (پردے کے لیے مزید) کوئی اور چیز بھی ہے؟ میں نے کھجور کا ایک اور چھوٹا پودا اس پودے سے دور دیکھا تو آپ ﷺ کے گزارش کر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں سے کہو: تمہیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ تم دونوں اکٹھے ہو جاؤ۔ میں نے ان دونوں پودوں سے ایسا ہی کہا تو وہ دونوں آپس میں مل گئے، پھر آپ ﷺ تشریف لائے اور ان دونوں کی اوٹ لی، جب آپ ﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو وہ دونوں پودے اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے۔

پھر اُس غزوہ میں لوگوں کو شدید پیاس لاحق ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے لیے پانی تلاش کرو۔ میں آپ ﷺ کے پاس ضرورت سے زائد پانی ایک برتن میں لایا۔ آپ ﷺ نے اسے لے کر ایک پیالے میں ڈالا، پھر اپنا دست مبارک اس میں ڈالا اور اللہ کا نام لیا، تو پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹنے لگا۔ تب لوگوں نے سیر ہو کر پیا اور وضو کیا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے جان لیا کہ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی برکت ہے۔ چنانچہ میں برکت کی نیت سے اس پانی کو زیادہ سے زیادہ پینے لگا۔ اور ایک روایت میں غزوہ حنین کی جگہ غزوۂ خیبر کا نام ہے۔

اسے امام بزار، طبرانی اور اصبہانی نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے کہا: المعجم الأوسط کی سند میں زمعہ بن صالح کو ضعیف کہا گیا ہے، جب کہ باقی رجال کی حدیث حسن ہے۔

وَفِي رِوَایَةِ عَطَاءٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ مُسَافِرًا فَذَهَبَ یُرِیْدُ أَنْ یَتَبَرَّزَ أَوْ یَقْضِيَ حَاجَتَهٗ، فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یَتَوَارٰی بِهٖ مِنَ النَّاسِ، فَرَأٰی شَجَرَتَیْنِ بَعِیْدَتَیْنِ، فَقَالَ لِابْنِ مَسْعُوْدٍ: اذْهَبْ فَقُمْ بَیْنَهُمَا فَقُلْ لَهُمَا: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَرْسَلَنِي إِلَیْکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا حَتّٰی یَقْضِيَ حَاجَتَهٗ وَرَائَکُمَا، فَذَهَبَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ فَقَالَ لَهُمَا، فَأَقْبَلَتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرٰی فَقَضٰی حَاجَتَهٗ وَرَائَهُمَا.

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.

ایک روایت میں حضرت عطاء سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: مجھے یہ حدیث پہنچی کہ حضور نبی اکرم ﷺ سفر میں تھے، آپ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے ایسی کوئی چیز نہ پائی جس کے ذریعے آپ ﷺ اوٹ لے سکیں، پس آپ ﷺ نے دو ایسے درخت دیکھے جو ایک دوسرے سے دور تھے، آپ ﷺ نے حضرت (عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں کے درمیان کھڑے ہوکر ان سے کہو: مجھے رسول اللہ ﷺ نے تمہاری طرف بھیجا ہے (اور یہ حکم فرمایا ہے) کہ تم دونوں مل جاؤ تاکہ وہ تمہاری اوٹ میں قضائے حاجت کرلیں۔ پس حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ (اُن دونوں پودوں کی طرف گئے) اور انہیں یہ پیغام دیا تو ایک درخت دوسرے کی طرف بڑھا (اور جب دونوں آپس میں مل گئے) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے (ان درختوں کی اوٹ میں) قضائے حاجت سے فراغت پائی۔

اِسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

23. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ کَأَنَّهٗ یُدَاوِي وَیُعَالِجُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَقُوْلُ أَشْیَاءَ، هَلْ لَکَ أَنْ أُدَاوِیَکَ؟ قَالَ: فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی اللهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَکَ أَنْ أُرِیَکَ آیَةً؟ وَعِنْدَهٗ نَخْلٌ وَشَجَرٌ. فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عِذْقًا مِنْهَا، فَأَقْبَلَ إِلَیْهِ وَهُوَ یَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهٗ وَیَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهٗ حَتَّی انْتَهٰی إِلَیْهِ ﷺ، فَقَامَ بَیْنَ یَدَیْهِ. ثُمَّ قَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ارْجِعْ إِلٰی مَکَانِکَ. فَقَالَ الْعَامِرِيُّ: وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُکَ بِشَيئٍ تَقُوْلُهٗ أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: یَا آلَ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُهٗ بِشَيئٍ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَالْبَیْهَقِيُّ. وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ غَیْرَ إِبْرَاهِیْمَ بْنِ الْحَجَّاجِ الشَّامِيِّ وَهُوَ ثِقَةٌ.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ اُس نے کہا: اے محمد (مصطفی!) آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراهِ تمسخر کہا:) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دی پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی دلیل اور علامتِ حق دکھاؤں؟ آپ ﷺ کے آس پاس کھجور اور کچھ دیگر درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے گچھے کو اپنی طرف بلایا۔ وہ گچھا (کھجور سے جدا ہو کر) آپ ﷺ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اُٹھاتے، پھر سجدہ کرتے اور سر اُٹھاتے ہوئے آیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے قریب پہنچ گیا، پھر آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلا جائے۔ (یہ واقعہ دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اُس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اُس نے برملا اعلان کر کے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں ان کی کسی بات میں تکذیب نہیں کرتا (یعنی ان کی ہر بات سچ ہے)۔

اِسے امام ابن حبان، ابو یعلی، طبرانی، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح (مسلم) کے رجال ہیں سوائے ابراہیم بن حجاج الشامی کے جو کہ ثقہ ہیں۔

24. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ بِالْحَجُوْنِ، وَهُوَ کَئِیْبٌ حَزِیْنٌ، فَقَالَ: اللّٰهُمَّ، أَرِنِي الْیَوْمَ آیَةً لَا أُبَالِي مَنْ کَذَّبَنِي بَعْدَهَا مِنْ قَوْمِي، فَنَادٰی شَجَرَةً مِنْ قِبَلِ عَقَبَةِ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ، فَنَادَاهَا فَجَائَتْ تَشُقُّ الْأَرْضَ حتَّی انْتَهَتْ إِلَیْهِ، فَسَلَّمَتْ عَلَیْهِ، ثُمَّ أَمَرَهَا فَذَهَبَتْ، قَالَ: مَا أُبَالِي مَنْ کَذَّبَنِي بَعْدَهَا مِنْ قَوْمِي.

رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَزَّارُ وَالْبَیْهَقِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْیَعْلٰی، وَإِسْنَادُ أَبِي یَعْلٰی حَسَنٌ.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجون کے مقام پر حزن و ملال کی کیفیت میں تشریف فرما تھے، آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! آج کے دن مجھے ایسی نشانی دکھا جس کے بعد اپنی قوم میں سے کسی کے جھٹلانے کی پرواہ نہ رہے (تو جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ!) آپ عقبہ اہل مدینہ کی طرف کسی درخت کو بلائیں۔ آپ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت زمین کو چیرتا ہوا آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا پھر اس نے آپ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم فرمایا تو وہ واپس چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، تب حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس کے بعد مجھے اپنی قوم میں سے کسی کے جھٹلانے کی پرواہ نہیں۔

اِسے امام ابو یعلی، بزار اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے، اور ابو یعلی کی اسناد حسن ہے۔

25. عَنْ بُرَیْدَةَ رضی الله عنه، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَأَرِنِي شَیْئًا أَزْدَدْ بِهٖ یَقِیْنًا، قَالَ: مَا الَّذِي تُرِیْدُ؟ قَالَ: ادْعُ تِلْکَ الشَّجَرَةَ فَلْتَأْتِکَ. قَالَ: اذْهَبْ، فَادْعُهَا قَالَ: فَأَتَاهَا الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ: أَجِیْبِي رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فَمَالَتْ عَلٰی جَانِبٍ مِنْ جَوَانِبِهَا فَقَطَعَتْ عُرُوْقَهَا ثُمَّ مَالَتْ عَلَی الْجَانِبِ الْآخَرِ فَقَطَعَتْ عُرُوْقَهَا ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَنْ عُرُوْقِهَا وَفُرُوْعِهَا مُغْبَرَّةً فَقَالَتْ: عَلَیْکَ السَّـلَامُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: حَسْبِي حَسْبِي یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي فَرَجَعَتْ فَحَامَتْ عَلٰی عُرُوْقِهَا وَفُرُوْعِهَا کَمَا کَانَتْ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَرِجْلَکَ، فَأَذِنَ لَهٗ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَسْجُدَ لَکَ. فَقَالَ: لَا یَسْجُدُ أَحَدٌ لِأَحَدٍ.

رَوَاهُ ابْنُ الْمُقْرِيِّ وَالْحَاکِمُ وَالرَّوْیَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ. وَقَالَ الزَّیْلَعِيُّ وَالْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ فِي مُسْنَدِهٖ وَقَالَ فِیْهِ: فَقَبَّلَ رَأْسَهٗ وَیَدَیْهِ وَرِجْلَیْهِ.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! بے شک میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن آپ مجھے کوئی ایسی نشانی دکھائیں جس سے میرے یقین میں مزید اضافہ ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: اُس درخت کو پکاریں کہ وہ آپ کی خدمت میں (خود چل کر) حاضر ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (تم خود) جاؤ اور اُسے بلاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ اعرابی اُس درخت کے پاس آیا اور کہا: اے درخت! حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم پر لبیک کہو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ درخت اپنی ایک جانب جھکا اور اُس نے اپنی جڑوں کو اُکھاڑا پھر دوسری جانب جھکا اور اپنی (باقی ماندہ) جڑوں کو اُکھاڑا، پھر اپنی جڑوں اور شاخوں کے ساتھ غبار آلود حالت میں گیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اعرابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اتنا ہی کافی ہے، مجھے اتنا ہی کافی ہے۔ آپ ﷺ نے درخت سے فرمایا: واپس لوٹ جاؤ، تو وہ واپس لوٹ گیا اور اپنی جڑوں اور شاخوں پر اُسی طرح کھڑا ہوگیا جیسے وہ پہلے سے تھا۔ اعرابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں آپ کا سرِ انور اور قدم مبارک چوموں، آپ ﷺ نے اُسے اجازت عنایت فرما دی۔ پھر اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں آپ کو سجدہ کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو سجدہ نہ کرے۔

اِسے امام ابن مقری، حاکم اور رویانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ امام زیلعی اور ہیثمی نے فرمایا: اسے امام بزار نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، اور اس روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ کیا ہے: اُس اعرابی نے (فرطِ محبت میں) آپ ﷺ کا سرِ انور، دستِ مبارک اور قدم مبارک چوم لیے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved