Masail e Zakat

انسان کا معاشی مسئلہ

انسان کا معاشی مسئلہ

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشوونما کے لئے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی، خوراک، پوشاک، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول و وافر انتظام کیا ہے کہ اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کئے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کررکھا ہے۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں۔ اللہ کے رزق سے وہ بھی متمع ہوں، وہ عزت و وقار سے زندہ رہیں۔ یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَO وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُO فَكُّ رَقَبَةٍO أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍO يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍO أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍO ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِO أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِO

’’پھر بے تامل گھاٹی میں نہ کودا۔ اور تم نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے۔ کسی مملوک کی گردن چھڑانا، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا، رشتہ دار یتیم کو، یا خاک نشین مسکین کو، پھر ہوجائے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے آپس میں صبر کی وصیتیں کیں اور آپس میں مہربانی کی وصیتیں کیں۔ یہی دائیں طرف والے (جنتی) ہیں‘‘۔

 (البلد، 90 : 11، 18)

دیکھا، غربت، بھوک، تنگی، پسماندگی، بیماری ولاچاری میں گرفتار انسانوں کی طرف توجہ کرنا اور ان کے مسائل ومصائب کو حل کرنا کتنا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے گویا دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا ہے۔

قیامت کے منکر

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِO فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَO وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO

’’تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پھر وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا‘‘۔

 (الماعون، 107 : 1، 3)

جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے۔

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَO قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَO وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَO

’’تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ بو لے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے‘‘۔

 (المدثر، 74 : 42۔ 44)

جھٹلانے والے مالدار

قرآنی نظام ربویت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہذا جو امیر کبیر مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں، وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بدخواہ، وہ چاہتے ہیں ہم بلا روک ٹوک اللہ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہیں اور عوام دانے دانے کو ہمارے محتاج ہوں۔ ان کی عزت، آبرو، آزادی، یہاں تک کے ان کی زندگی و موت بھی ہمارے ہاتھوں میں گروی ہو۔ اس ظالمانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے۔

وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًاO

’’مجھے اور ان جھٹلانے والے مالداروں کو چھوڑ دو، اور ان کو تھوڑی مہلت دو‘‘۔

 (المزمل، 73 : 11)

مال کے پجاری

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍO يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَO

’’اے ایمان والو! بے شک بہت پادری اور جوگی، لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں خوشخبری سنادو درد ناک عذاب کی جس دن وہ (مال) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں، پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جسے تم نے اپنے لئے جوڑ رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا‘‘۔

 (التوبہ، 9 : 34، 35)

کیا کچھ خرچ کریں؟؟؟

وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوِ

 ’’اور (یا رسول اللہ) تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ تم فرماؤ جو ضرورت سے زائد بچ جائے‘‘۔

 (البقرہ، 2 : 219)

ضرورت سے زائد حاجت مندوں کو دو تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔

غریبی وجہ کفر ہوسکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

کادا الفقر ان یکون کفرا۔

’’قریب ہے غریبی کفر ہوجائے‘‘۔

 (بیہقی)

زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة.

’’بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ (بھی) حق ہے‘‘۔

 (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

امیروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے۔

وَفِیْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ

’’اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور بے نصیب کا‘‘۔

 (الذاریت، 51 : 19)

مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے کہہ کر بتادیا کہ ضرورت مند کو لینے میں عار نہیں اور مالدار کو دینے میں احسان نہیں۔ وہ اپنا حق لے رہا ہے یہ اپنا فرض ادا کررہا ہے۔

غریبوں پر ترس نہ کرنے والوں کیلئے مقام تفکر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

عذبت إمراة فی هرة امسکتها حتی ماتت من الجوع فلم تکن تطعمها ولا ترسلها فتاکل من خشاش الارض۔

’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ جسے اس نے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ بھوک سے مرگئی، نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ چھوڑتی کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی‘‘۔

 (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوۃ : 168)

جانوروں پر رحم بھی مغفرت کا باعث ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

غفرلا مراة موسة مرت بکلب علی رأس رکی یلهث کاد یقتله العطش فنزعت خفها و ثقة بخمارها فنزعت له من الماء فغفرلها بذلک قیل ان لنا فی البهائم اجرا قال فی کل ذات کبدرطبة اجر۔

’’ایک بدکار عورت کی بخشش ہوگئی صرف اتنی بات پر کہ اس کا گذر ایک کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کے کنارے گیلی مٹی پر منہ مار رہا تھا، لگتا تھا کہ پیاس اسے مار دیگی، عورت نے اپنا موزہ (یا جوتا) اتارا، اسے اپنے دوپٹے سے باندھا اس کے لئے پانی نکالا (اور پلایا) اسی سے اس کی بخشش ہوگئی۔ عرض کی گئی کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لئے اجرو ثواب ہے؟ فرمایا ہر دھڑکتے دل والی (زندہ) چیز کی خدمت میں اجرو ثواب ہے‘‘۔

 (متفق علیہ بحوالہ مشکوۃ، 147)

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved