Huzur Nabi Akram (PBUH) se Tawassul awr Tabarruk

باب 12 :حضور ﷺ کے آثار مبارکہ سے حصول برکت

بَابٌ فِي التَّبَرُّکِ بِآثَارِهِ صلی الله عليه وآله وسلم الشَّرِيْفَةِ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارِ مبارکہ سے حصولِ برکت}

234 / 1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : تُوُفِّيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَا فِي بَيْتِي مِنْ شَيئٍ يَأکُلُهُ ذُوْ کَبِدٍ إِلَّا شَطْرُ شَعِيْرٍ فِي رَفٍّ لِي فَأَکَلْتُ مِنْهُ حَتَّی طَالَ عَلَيَّ فَکِلْتُهُ فَفَنِيَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فرض الخمس، باب : نفقة نساء النبي بعده صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1129، الرقم : 2930، وفي کتاب : الرقاق، باب فضل الفقر، 5 / 2370، الرقم : 6086، ومسلم في الصحيح، کتاب : الزهد والرقائق، 4 / 2284، الرقم : 2973، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأطعمة، باب : خبز الشعير، 2 / 1110، الرقم : 3345، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 47، الرقم : 13094، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 139، الرقم : 139، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 101، الرقم : 4985، والعيني في عمدة القاري، 11 / 247.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس وقت میرے گھر میں کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکتا مگر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوڑے ہوئے) کچھ جَو تھے جنہیں میں نے ایک الماری میں ڈال رکھا تھا۔ ایک مدت تک میں ان میں سے ہی سے کھاتی رہی تھی، (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہ کبھی ختم نہ ہوئے) لیکن ایک روز میں نے انہیں ماپ لیا تو وہ ختم ہو گئے۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔۔

235 / 2. عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيْعَةَ، عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ. وفي رواية : قَالَ عُمَرُ : شَيئٌ صَنَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَتْرُکَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه.

2 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : الحج، باب : ما ذُکر فی الحجر الأسود، 2 / 579، الرقم : 1520، 1528، ومسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، 2 / 925، الرقم : 1270، وأبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : في تقبيل الحجر، 2 / 175، الرقم : 1873، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : کيف يقبل، 5 / 227، الرقم : 2938، وابن ماجه في السنن، باب : استلام الحجر، 2 / 981، الرقم : 2943، ومالک في الموطأ، 1 / 367، الرقم : 818، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 16، الرقم : 99، والبزار في المسند، 1 / 949، الرقم : 139، وابن حبان في الصحيح، 4 / 212، الرقم : 2711..

’’حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ وہ کام ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔

236 / 3. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ أبَيٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُهُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَعْطِنِي قَمِيْصَکَ أکَفِّنْهُ فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ فَقَالَ : آذِنِّي أصَلِّي عَلَيْهِ فَآذَنَهُ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رضی الله عنه فَقَالَ : أَلَيْسَ اﷲُ نَهَاکَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی الْمُنَافِقِيْنَ فَقَالَ : أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ قَالَ : {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اﷲُ لَهُمْ} التوبة، 9 : 80 فَصَلَّی عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ : {وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا}. التوبة، 9 : 84. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : الکفن في القميص الذي يکف أو لا يکف ومن کفن بغير قميص، 1 / 427، الرقم : 1210، وفي کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة، 4 / 1715، الرقم : 4393، ومسلم في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2141، الرقم : 2774، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عمر ص، 4 / 1865، الرقم : 2400، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ومن سورة التوبة، 5 / 279، الرقم : 3098، وقال أبو عيسی : هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود نحوه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : في العبادة، 3 / 184، الرقم : 3094، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : القميص في الکفن، 4 / 36، الرقم : 1900، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء في الجنائز، باب : في الصلاة علی أهل القبلة، 1 / 487، الرقم : 1523، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم : 4680، وابن حبان في الصحيح، 7 / 447، الرقم : 3175.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب (رئیس المنافقین) عبد اﷲ بن اُبی فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے (حضرت عبد اﷲ جو کہ صحابی تھے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! مجھے اپنی قمیص عطا فرمائیے کہ اس سے میں اپنے والد کو کفن دوں اور اس پر نماز پڑھئیے اور اس کے لئے دعائے مغفرت بھی فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی قمیض عطا فرما دی اور فرمایا : (جنازہ کے وقت) مجھے اطلاع کر دینا تاکہ اس پر نماز پڑھوں۔ پس اطلاع دی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا اور عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے دونوں باتوں کا اختیار دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لیے سترّ مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی تو وحی نازل ہوئی : ’’اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں۔‘‘ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔۔۔

237 / 4. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِبُرْدَةٍ فَقَالَ سَهْلٌ لِلْقَوْمِ : أَتَدْرُوْنَ مَا الْبُرْدَةُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : هِيَ الشَّمْلَةُ فَقَالَ سَهْلٌ : هِيَ شَمْلَةٌ مَنْسُوْجَةٌ فِيْهَا حَاشِيَتُهَا فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَکْسُوْکَ هَذِهِ، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَلَبِسَهَا، فَرَآهَا عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَحْسَنَ هَذِهِ فَاکْسُنِيْهَا فَقَالَ : نَعَمْ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَامَهُ أَصْحَابُهُ قَالُوْا : مَا أَحْسَنْتَ حِيْنَ رَأَيْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَخَذَهَا مُحْتَاجًا إِلَيْهَا ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَاهَا وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا يُسْأَلُ شَيْئًا فَيَمْنَعَهُ فَقَالَ : رَجَوْتُ بَرَکَتَهَا حِيْنَ لَبِسَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَلِّي أکَفَّنُ فِيْهَا. وفي رواية : قَالَ سَهْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ الطَّبَرَانِيُّ : قَالَ قُتَيْبَةُ : کَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ص...

4 : أخرجه البخاري في الصحيح کتاب : الآداب، باب : حسن الخلق والسخاء وما يکره من البخل، 5 / 2245، الرقم : 5689، وفي کتاب : الجنائز، باب : من استعد الکفن في زمن النبي صلی الله عليه وآله وسلم فلم ينکر عليه، 1 / 429، الرقم : 1218، وفي کتاب : البيوع، باب ذکر النساج، 2 / 737، الرقم : 1987، وفي کتاب : اللباس، باب : البرود والحبرة والشملة، 5 / 2189، الرقم : 5473، والنسائي في السنن، کتاب : الزينة، باب : لبس البرود، 8 / 204، الرقم : 5321، وفي السنن الکبری، 5 / 480، الرقم : 9659، وابن ماجه في السنن، کتاب : اللباس، باب : لباس رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 2 / 1177، الرقم : 3555، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الرقم : 22876، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 170، الرقم : 462، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 143، 169، 200، الرقم : 5785، 5887، 5997، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 404، الرقم : 6489، وفي شعب الإيمان، 5 / 170، الرقم : 6234، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 454، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 33، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 161.

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک عورت چادر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ حضرت سہل نے دوسرے حضرات سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چادر کیسی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ شملہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ایسی شملہ ہے جس پر حاشیے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عرض گزار ہوئی : یا رسول اللہ! میں اسے آپ کے اوڑھنے کی خاطر لائی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ قبول فرما لی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت چادر کی ضرورت بھی تھی اور اسے پہننے کا شرف بخشا، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر پر دیکھا تو اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ تو بہت اچھی ہے لہٰذا یہ مجھے اوڑھا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا لو (اور اسے چادر عطا فرما دی)۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر تشریف لے گئے تو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ کیونکہ جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چادر کی ضرورت بھی ہے اس کے باوجود تم نے وہی مانگ لی جبکہ تم یہ جانتے بھی تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا کہ میں اس سے برکت کا امیدوار ہوں کیونکہ اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے کا شرف حاصل ہو گیا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اسی میں کفن دیا جاؤں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر وہی چادر اس صحابی کا کفن بنی۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

’’اور امام طبرانی نے بیان کہ امام قتیبہ نے فرمایا : وہ (بطور تبرک چادر مانگنے والے شخص) جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘

238 / 5. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ الْأَوْدِيِّ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : يَا عَبْدَ اﷲِ بْنَ عُمَرَ، اِذْهَبْ إِلَی أمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَقُلْ : يَقْرَأ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْکِ السَّـلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ : کُنْتُ أرِيْدُهُ لِنَفْسِي فَـلَأوْثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَی نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ : مَا لَدَيْکَ قَالَ : أَذِنَتْ لَکَ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، قَالَ : مَا کَانَ شَيئٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِکَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُوْنِي ثُمَّ سَلِّمُوْا ثُمَّ قُلْ : يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُوْنِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلَی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ … الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في قبر النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأبي بکر وعمر رضي اﷲ عنهما ،1 / 469، الرقم : 1328، وفي کتاب : المناقب، باب : قصة البيعة والاتفاق علی عثمان بن عفان ص، 3 / 1353. 1355، الرقم : 3497، وابن أبي شيبة نحوه في المصنف، 3 / 34، الرقم : 11858، 7 / 435.436، الرقم : 37059، 37074، والحاکم في المستدرک، 3 / 99، الرقم : 4519، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 7 / 1333، الرقم : 2541، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 338، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 44 / 416.

’’حضرت عمرو بن میمون اَودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمرص نے (بوقتِ وصال اپنے صاحبزادے سے) فرمایا : اے عبداﷲ بن عمر! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس جاؤ اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ مجھے میرے دونوں رفقاء کے ساتھ (روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے جب اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ درخواست پیش کی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : وہ جگہ میں اپنے لیے رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں انہیں (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو) اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما واپس لوٹے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا : کیا خبر لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : اے امیر المومنین! انہوں نے آپ کے لیے اجازت دے دی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس (متبرک و مقدس) مقام سے زیادہ میرے لے (بطور آخری آرام گاہ) کوئی جگہ اہم نہیں تھی۔ سو جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے اٹھا کر وہاں لے جانا اور سلام عرض کرنا۔ پھر عرض کرنا (آقا!) عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر مجھے اجازت مل جائے تو وہاں دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دینا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔۔۔

239 / 6. عَنْ أَبِي بُرْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَدِمْتُ الْمَدِيْنَةَ فَلَقِيَنِي عَبْدُ اﷲِ بْنُ سَـلَامٍ رضی الله عنه فَقَالَ لِي : انْطَلِقْ إِلَی الْمَنْزِلِ فَأَسْقِيَکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَتُصَلِّي فِي مَسْجِدٍ صَلَّی فِیهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَسَقَانِي سَوِيْقًا وَأَطْعَمَنِي تَمْرًا وَصَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِهِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما ذکر النبي صلی الله عليه وآله وسلم وحض علی اتفاق أهل العلم وما اجتمع عليه الحرمان مکة والمدينة، 6 / 2673، الرقم : 6910، والبيهقي في السنن الکبری، 5 / 349، الرقم : 10708، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 131، الرقم : 3603، وفي تغليق التعليق، 5 / 32، والعيني في عمدة القاري، 25 / 61، الرقم : 7342.

’’حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے۔ انہوں نے مجھے فرمایا کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو تاکہ میں (بطورِ تبرک) تمہیں اس پیالے میں پلاؤں جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوش فرمایا کرتے تھے اور اس مسجد میں نماز پڑھاؤں جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔ پس میں ان کے ساتھ چلا گیا تو اُنہوں نے مجھے (اس متبرک پیالے میں) ستُّو پلائے اور کھجوریں کھلائیں اور میں نے اُن کی مسجد میں نماز بھی پڑھی۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے۔

240 / 7. عن مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما يَتَحَرَّی أَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِيْقِ فَيُصَلِّي فِيْهَا وَيُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُصَلِّي فِيْهَا وَأَنَّهُ رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فِي تِلْکَ الْأَمْکِنَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : المساجد التي علی طريق المدينة والمواضع التي صلّی فيها النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 / 183، الرقم : 469، والعيني في عمدة القاري، 4 / 268.

’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے) کو دیکھا کہ وہ (دوران سفر) راستے میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبرک) مقامات تلاش کر کے ان میں نماز پڑھا کرتے تھے اور بتایا کرتے کہ ان کے والد ماجد (یعنی حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بھی) ان مقامات پر (اپنے سفر کے دوران باقاعدگی سے) نماز پڑھا کرتے کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان مقامات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

241 / 8. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه مَوْلَی أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما في رواية طويلة قَالَ : أَخْبَرَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما عَنْ جُبَّةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : هَذِهِ جُبَّةُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ کِسْرَوَانِيَةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيْبَاجٍ وَفَرْجَيْهَا مَکْفُوْفَيْنِ بِالدِّيْبَاجِ فَقَالَتْ : هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها حَتَّی قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَی يُسْتَشْفَی بِهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ..

8 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علی الرجال، 3 / 1641، الرقم : 2069، وأبو داود في السنن، کتاب : اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 / 49، الرقم : 4054، وأحمد بن حنبل فيالمسند، 6 / 347، الرقم : 26987، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 423، الرقم : 4010، وفي شعب الإيمان 5 / 141، الرقم : 6108، وأبو عوانة في المسند، 1 / 230، الرقم : 511، وابن راهويه في المسند، 5 / 134، الرقم : 2248، وابن سعد فيالطبقات الکبری، 1 / 454، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 / 251، الرقم : 308، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 79.

’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما کے غلام حضرت عبد اﷲ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا : یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبّہ مبارک ہے اور پھر انہوں نے ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب ہے) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے سنجاف تھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا اور یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے (ان بیماروں کے لئے) شفا طلب کی جاتی ہے۔‘‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

242 / 9. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أُمَّ مَالِکٍ کَانَتْ تُهْدِي لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي عُکَّةٍ لَهَا سَمْنًا. فَيَأْتِيْهَا بَنُوْهَا فَيَسْأَلُوْنَ الْأدْمَ. وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ شَيئٌ، فَتَعْمِدُ إِلَی الَّذِي کَانَتْ تُهْدِي فِيْهِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَتَجِدُ فِيْهِ سَمْنًا. فَمَا زَالَ يُقِيْمُ لَهَا أُدْمَ بَيْتِهَا حَتَّی عَصَرَتْهُ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : عَصَرْتِيْهَا؟ قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ : لَوْ تَرَکْتِيْهَا مَا زَالَ قَائِمًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في معجزات النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1784، الرقم : 2280، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 340، 347، الرقم : 14705، 14782، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 505، الرقم : 2984، وفي فتح الباري، 11 / 281، وفي الإصابة، 8 / 298، الرقم : 12239.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اُمّ مالک رضی اﷲ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک چمڑے کے برتن میں گھی بھیجا کرتی تھیں، ان کے بیٹے آ کر ان سے سالن مانگتے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، تو جس چمڑے کے برتن میں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے گھی بھیجا کرتیں اس کا رخ کرتیں اس میں انہیں گھی مل جاتا، ان کے گھر میں سالن کا مسئلہ اسی طرح حل ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن اس چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا (تو اس میں سے گھی ختم ہو گیا) پھر وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں (اور سارا ماجرا عرض کیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسے اسی طرح رہنے دیتیں تو اس سے ہمیشہ (گھی) ملتا رہتا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

243 / 10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ : خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأخُذَ مِنْهُ شَيْئًا، فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ، فَخُذْهُ، وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِکَ التَّمْرِ کَذَا وَ کَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لاَ يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّی کَانَ يَوْمَ قَتْلِ عُثْمَانَ رضی الله عنه فَإِنَّهُ انْقَطَعَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ..

10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : مناقب لأبي هريرة ص، 5 / 685، الرقم : 3839، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 352، الرقم : 8613، وابن حبان في الصحيح، 14 / 467، الرقم : 6532، وابن راهوية في المسند، 1 / 75، الرقم : 3، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 527، الرقم : 2150، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 117، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 231، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 85.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا : انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ لو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو (لیکن) اسے جھاڑنا نہیں۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں) سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں اور ہم خود بھی اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے (لیکن اس میں سے کھجوریں کبھی ختم نہ ہوئیں۔) اور کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

244 / 11. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : تُوُفِّيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيْرٍ فَأَکَلْنَا مِنْهُ مَا شَائَ اﷲُ ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ : کِيْلِيْهِ فَکَالَتْهُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ قَالَتْ : فَلَوْ کُنَّا تَرَکْنَاهُ لَأَکَلْنَا مِنْهُ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

11-12 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (31) منه، 4 / 643، الرقم : 2467، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 108، الرقم : 24812، وابن حبان في الصحيح، 14 / 325، الرقم : 6415.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ہمارے پاس (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے) کچھ جو تھے ہم اس میں سے (کافی عرصہ تک) جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا کھاتے رہے پھر (ایک دفعہ) میں نے لونڈی سے کہا کہ انہیں ماپو تو سہی۔ اس نے انہیں ماپ لیا تو کچھ ہی عرصہ بعد وہ جو ختم ہو گئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : اگر ہم انہیں (نہ ماپتے اور) ویسے ہی چھوڑے رکھتے تو ہم اور زیادہ عرصہ تک (جتنا چاہتے) اس میں سے کھاتے رہتے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

245 / 12. وفي رواية : قَالَتْ : وَمَا فِي رَفِّي مِنْ طَعَامٍ يَأْکُلُهُ ذُوْکَبِدٍ إِلاَّ قَرِيْبٌ مِنْ شَطْرِ شَعِيْرٍ فَأَکَلْتُ مِنْهُ حَتَّی طَالَ عَلَيَّ لاَ يَفْنَی فَکِلْتُهُ فَفَنِيَ فَلَيْتَنِي لَمْ کِلْتُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’اور ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میری الماری میں کسی جاندار کے کھانے کی کوئی شے نہیں تھی سوائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوڑے ہوئے تھوڑے سے جو کے جن میں سے میں کھاتی رہی یہاں تک کہ کافی وقت گزر گیا اور یہ ختم نہیں ہوتے تھے لیکن ایک مرتبہ میں نے انہیں ماپا تو وہ ختم ہو گئے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ کاش کہ میں انہیں نہ ماپتی (تو وہ جَو کبھی بھی ختم نہ ہوتے)۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

246 / 13. عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ أَبَا مُوْسَی رضی الله عنه کَانَ بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ فَصَلَّی الْعِشَاءَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی رَکْعَةً أَوْتَرَ بِهَا فَقَرَأَ فِيْهَا بِمِائَةِ آيَةٍ مِنَ النِّسَاءِ ثُمَّ قَالَ : مَا أَلَوْتُ أَنْ أَضَعَ قَدَمَيَّ حَيْثُ وَضَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدَمَيْهِ وَأَنَا أَقْرَأُ بِمَا قَرَأَ بِهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ..

13 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : قيام الليل وتطوع النهار، باب : القرائة في الوتر، 3 / 243، الرقم : 1728، وفي السنن الکبري، 1 / 446، الرقم : 1424، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 419، الرقم : 19775، والطيالسي في المسند، 1 / 69، الرقم : 512، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 25، الرقم : 4566، والمقريزي في مختصر کتاب الوتر، 1 / 94.

’’حضرت ابو مجلز رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان عشاء کے وقت دو رکعت نماز پڑھی پھر وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز وتر ادا کی جس میں سورہ نساء کی سو (100) آیات تلاوت کیں اور پھر فرمایا : میں نے (حصولِ برکت کے لئے) اپنی پوری پوری کوشش کی ہے کہ میرے قدم وہیں پڑیں جہاں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک پڑتے تھے اور میں انہی آیات کی تلاوت کروں جن کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس مقام پر) تلاوت فرمائی تھی۔‘‘

اس حدیث کو امام نسائی اور احمد نے رویت کیا ہے۔

247 / 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِحَلَقَةِ بِابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا قَالَ أَنَسٌ ص : کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُحَرِّکُهَا وَصَفَ لَنَا سُفْيَانُ کَذَا وَجَمَعَ أَبُوْ عَبْدِ اﷲِ أَصَابِعَهُ وَحَرَّکَهَا قَالَ : وَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ : مَسَسْتَ يَدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَأَعْطِنِيْهَا أُقَبِّلُهَا. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

14-15 : أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب : ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 50، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم : 12115، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 338، الرقم : 974، وأبو يعلی في المسند، 6 / 212، الرقم : 3493، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 229، الرقم : 1605، والقرشي في الإخوان، 1 / 197، الرقم : 146، والمقدسي في أطراف الغرائب والأفراد، 2 / 47، الرقم : 722.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جو سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا (یعنی میرے لئے ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا)۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (یہ حدیث بیان کرتے ہوئے) فرمایا : گویا میں (اب بھی تصور میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دستِ مبارک حرکت دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔(راوی بیان کرتے ہیں) ہمیں سفیان نے اسی طریقے سے اشارہ کر کے بیان کیا اور حضرت ابو عبد اللہ نے بھی اپنی انگلیاں جمع کیں اور انہیں (اسی طرح) حرکت دی۔ اور راوی کہتے ہیں کہ حضرت ثابت نے ان سے (یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے) عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو اپنے ہاتھ سے مَس کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا : ہاں۔ تو حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : پھر مجھے اپنا ہاتھ دکھائیں تاکہ میں (بطور تبرک) اس ہاتھ کا بوسہ لے سکوں (جس ہاتھ سے دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَس ہوا ہے)۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی، احمد اور بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔

248 / 15. وفي رواية : عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ : حَدَّثَتْنِي جَمِيْلَةُ رضي اﷲ عنها مَوْلَاةُ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ الْأَنْصَارِيُّ : وَقَدْ رَأَيْتُ جَمِيْلَةَ قَالَتْ : کَانَ ثَابِتٌ إِذَا جَاءَ قَالَ أَنَسٌ رضی الله عنه : يَا جَمِيْلَةُ، نَاوِلِيْنِي طِيْبًا أَمَسُّ بِهِ يَدِي فَإِنَّ ابْنَ أُمِّ ثَابِتٍ لاَ يَرْضَی بَشَيئٍ حَتَّی يُقَبِّلَ يَدِي وَيَقُوْلُ : قَدْ مَسَسْتَ يَدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی.

’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیز حضرت اُمّ جمیلہ رضی اﷲ عنہا نے بیان کیا جن کی زیارت کا شرف مجھے حاصل ہوا انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوتے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ مجھ سے فرماتے : اے اُمّ جمیلہ! لاؤ مجھے خوشبو دو تاکہ میں اسے اپنے ہاتھ پر مل لوں کیونکہ اُمّ ثابت کا بیٹا میرا ہاتھ چومے بغیر خوش نہیں ہو گا (اور میرے منع کرنے پر) کہتا ہے کہ بے شک آپ نے اس ہاتھ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو مَس کیا تھا (تو میں اس متبرک ہاتھ کو کیوں نہ چوموں)۔‘‘

اس حدیث کو امام بیہقی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

249 / 16. عَنْ حَيَانَ أَبِي النَّضْرِ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه عَلَی أَبِي الْأَسْوَدِ الْجَرْشِيِّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيْهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَجَلَسَ قَالَ : فَأَخَذَ أَبَوُ الْأَسْوَدِ يَمِيْنَ وَاثِلَةَ رضی الله عنه فَمَسَحَ بِهَا عَلَی عَيْنَيْهِ وَوَجْهَهُ لِبَيْعَتِهِ بِهَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيَّ : رِجَالُ أَحْمَدَ ثِقَاتٌ..

16-17 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 491، الرقم : 16059، وابن حبان في الصحيح، 2 / 407، الرقم : 641، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 6، الرقم : 1006، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 56، الرقم : 7951، وفي المعجم الکبير، 22 / 89، الرقم : 215، وفي مسند الشاميين، 2 / 226، 384، الرقم : 1235، 1546، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 306، وابن تمام الرازي في الفوائد، 1 / 80، الرقم : 182، وابن أبي الدنيا في المحتضرين، 1 / 31، الرقم : 16، والبيهقي في الأربعون الصغری، 1 / 175، الرقم : 124، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 15 / 373، 65 / 114.116، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 136، الرقم : 5130، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 318.

’’حضرت حیان ابو نضر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابو الاسود الجرشی کے پاس ان کی مرض وفات میں (عیادت کے لئے) گیا۔ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو الاسود نے حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کا دایاں ہاتھ پکڑا اور اسے (بطور تبرک) اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا کیونکہ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے اس ہاتھ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی (اور اس سے مَس کیا تھا)۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔

250 / 17. وفي رواية عنه : فَقُلْتُ : إِنَّ هَذَا وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه أَخُوْکَ قَالَ : فَأَبْقَی اﷲُ مِنْ عَقْلِهِ أَنْ سَمِعَ أَنَّ وَاثِلَةَ رضی الله عنه قَدْ جَاءَ فَمَدَّ يَدَهُ فَجَعَلَ يَلْتَمِسُ بِهَا فَعَلِمْتُ مَا يُرِيْدُ فَأَخَذْتُ کَفَّ وَاثِلَةَ رضی الله عنه فَجَعَلْتُهَا فِي کَفِّهِ وَإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِ وَاثِلَةَ رضی الله عنه ذَلِکَ لِمَوْضِعِ يَدِ وَاثِلَةَ مِنْ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَجَعَلَ يَضَعُهَا مَرَّةً عَلَی صَدْرِهِ (وفي رواية : وَمَرَّةً عَلَی فُؤَادِهِ) وَمَرَّةً عَلَی وَجْهِهِ وَمَرَّةً عَلَی فِيْهِ.رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

’’ایک اور روایت میں حضرت حیان ابو نضر ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا : یہ تمہارے بھائی حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی عقل کو سلامت رکھے کہ انہوں نے جب یہ سنا کہ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کے دستِ اقدس کو مَس کرنا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں تب میں نے حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے ان کے ہاتھ میں دے دیا اور اس عمل سے ان کا صرف یہی ارادہ کیا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اس جگہ رکھیں جہاں حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں رکھا تھا اور وہ ان کے اس ہاتھ کو کبھی (حصولِ برکت کے لئے) اپنے سینے پر رکھتے (اور ایک روایت میں ہے : اور کبھی اپنے دل پر رکھتے) اور کبھی اپنے چہرے پر ملتے اور کبھی اپنے منہ پر ملتے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔۔۔

251 / 18. عَنْ ثَابِتٍ قَالَ : کُنْتُ إِذَا أَتَيْتُ أَنَسًا رضی الله عنه … فَآخُذُ بِيَدَيْهِ فَأُقَبِّلُهُمَا وَأَقُوْلُ : بِأَبِي هَاتَيْنِ الْيَدَيْنِ اللَّتَيْنِ مَسَّتَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأُقَبِّلُ عَيْنَيْهِ وَأَقُوْلُ : بِأَبِي هَاتَيْنِ الْعَيْنَيْنِ اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ..

18 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 6 / 211، الرقم : 3491، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 325.

’’حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب کبھی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔۔۔ تو ان کے دونوں دستِ مبارک (فرط محبت و عقیدت سے) اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا اور انہیں بار بار چومتا اور عرض کرتا : میرے باپ کی قسم! یہ دونوں وہ مبارک ہاتھ ہیں کہ جنہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (جسدِ اقدس کو) چھونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اور میں ان کی دونوں آنکھیں چوم کر عرض کرتا : میرے باپ کی قسم! یہ وہ خوش بخت آنکھیں ہیں جنہیں (جاگتے ہوئے) رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

252 / 19. عَنْ أَبِي وَائِل أَنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه أَوْصَی أَنْ يُجْعَلَ فِي حَنُوْطِهِ مِسْکٌ وَقَالَ : هُوَ فَضْلُ حَنُوْطِ النَّبِيِِّ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ الْمُنْذَرِ.

19-21 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 461، الرقم : 11036، وابن المنذر في الأوسط، 2 / 295، الرقم : 891، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 183، والعسقلاني في الإصابة، 1 / 127، وفي تلخيص الحبير، 2 / 107، الرقم : 742، والعيني في عمدة القاري، 8 / 41.

’’حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ میری (میت کو لگانے والی) خوشبووں میں کستوری کو شامل کیا جائے (جو ان کے پاس محفوظ تھی) اور فرمایا کہ یہ کستوری وہ خوشبو تھی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وصال مبارک کے وقت لگائی جانے والی خوشبوؤں میں سے بچ گئی تھی (جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بطورِ تبرک اپنے لئے سنبھال رکھا تھا)۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابن منذر نے روایت کیا ہے۔

253 / 20. وذکر العسقلاني في ’’الإصابة‘‘ : عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ لِي أَنَسٌ رضی الله عنه : هَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِي تَحْتَ لِسَانِهِ.

’’امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابۃ میں بیان کیا کہ حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : انہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (اپنی وفات کے وقت) فرمایا : یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک میں سے ایک بال مبارک ہے۔ (میری وفات کے بعد) تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ان کے وصال کے بعد) میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ موئے مبارک حضرت انس رضی اللہ عنہ (کی وصیت کے مطابق ان) کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ موئے مبارک ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘‘

254 / 21. وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ أَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلَ رحمة اﷲ عليه قَالَ : رَأَيْتُ أَبِي آخِذًا شَعْرَةً مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَيَضَعُهَا عَلَی فِيْهِ يُقَبِّلُهَا وَأَحْسِبُ أَنِّي رَأَيْتُهُ يَضَعُهَا عَلَی عَيْنَيْهِ وَيُغْمِسُهَا فِي الْمَاءِ ثُمَّ يَشْرَبُهُ ثُمَّ يَسْتَشْفِي بِهَا وَرَأَيْتُهُ قَدْ أَخَذَ قَصْعَةً لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَغَسَلَهَا فِي جُبِّ الْمَاءِ ثُمَّ شَرِبَ فِيْهَا وَرَأَيْتُهُ غَيْرَ مَرَّّةٍ يَشْرَبُ مَاءَ زَمْزَمَ يَسْتَشْفِي بِهِ وَيَمْسَحُ بِهِ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.

’’اور عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اکثر اپنے والد (یعنی امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ) کو دیکھا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک موئے مبارک (جو انہوں نے بطور تبرک سنبھال رکھا تھا) لیتے اور اسے اپنے منہ پر رکھتے اور اسے چومتے اور میرا خیال ہے میں نے انہیں اس حالت میں بھی دیکھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس موئے مبارک کو (بار بار) اپنی دونوں آنکھوں پر رکھتے تھے اور اسے پانی میں ڈبو کر شفاء کے لئے وہ پانی پیا کرتے تھے اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (استعمال شدہ) ایک پیالہ مبارک تھا وہ تالاب کے پانی سے اس پیالے کو دھو کر اس کا دھون پیا کرتے تھے اور میں نے انہیں کئی بار یہ بھی کرتے دیکھا کہ وہ شفاء کے لئے آبِ زمزم پیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھوں اور اپنے چہرے پر ملتے تھے۔‘‘

اسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

255 / 22. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَی أُمِّ سُلَيْمٍ رضي اﷲ عنها وَفِي الْبَيْتِ قِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِيْهَا أَي مِنْ فَمِ الْقِرْبَةِ. وَهُوَ قَائِمٌ قَالَ أَنَسٌ ص : فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ فَمَ الْقِرْبَةِ فَهُوَ عِنْدَنَا.

وفي رواية : وَإِنَّهُ لَعِنْدِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِی شَيْبَةَ وَالطَّحَاوِيُّ..

22-23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 119، الرقم : 12209، 6 / 376، 431، الرقم : 27159، 27470، وابن أبي شيبة نحوه في المصنف، 5 / 103، الرقم : 24130، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 274، وابن الجعد في المسند، 1 / 329، 393، الرقم : 2255، 2686، والترمذي في الشمائل المحمدية، 1 / 176، الرقم : 215، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 204، الرقم : 654، وفي المعجم الکبير، 25 / 126، الرقم : 307، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 118 الرقم : 6027، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 295، الرقم : 2750، والحارث في المسند، 2 / 585، الرقم : 542، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 79، والعيني في عمدة القاري، 9 / 279، 21 / 192، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8 / 428، والعظيم آبادي في عون المعبود، 10 / 131، والشوکاني في نيل الأوطار، 9 / 85.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُمّ سلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور (ان کے) گھر میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دہانہ سے منہ لگا کر پانی پیا، اس حالت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُمِّ سلیم رضی اﷲ عنہا نے (اسی وقت) اس مشکیزہ کا دہانہ کاٹ کر رکھ لیا جو ہمارے گھر میں اب بھی محفوظ ہے یا فرمایا : بے شک وہ اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

256 / 23. وفي رواية : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : وَصَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْتًا وَقِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَشَرِبَ مِنْهَا. وَهُوَ قَائِمٌ. فَقَامَتْ أُمِّي فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَةِ وَقَالَتْ : لَا يَشْرَبْ مِنْهَا أَحَدٌ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ..

’’ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ہمارے) گھر میں تشریف لائے وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس میں سے پانی پیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد) میری والدہ اٹھیں اور انہوں نے اس مشکیزے کا منہ کاٹ کر رکھ لیا اور کہا : (یہ میں نے اس لیے کیا ہے) تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس مشکیزے سے کوئی اور پانی نہ پی سکے (اور یہ ہمارے پاس بطور تبرک محفوظ رہے)۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابن جعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

257 / 24. عَنْ مِسْوَرِ بْنِ مَخَْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ (في حديث صلح الحديبية) أَنَّ عُرْوَةَ قَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ رَأَی مَا يَصْنَعُ بِهِ أَصْحَابُهُ لاَ يَتَوَضَّأُ وُضُوْءً ا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلاَ يَبْسُقُ بُسَاقًا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلاَ يَسْقُطُ مِنْ شَعَرِهِ شَيئٌ إِلاَّ أَخَذُوْهُ، فَرَجَعَ إِلَی قُرَيْشٍ فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي جِئْتُ کِسْرَی فِي مُلْکِهِ وَجِئْتُ قَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيَّ فِي مُلْکِهِمَا وَاﷲِ، مَا رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَصْحَابِهِ وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسْلِمُوْنَهُ لِشَيئٍ أَبْدًا فَرُوْا رَأْيَکُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

24 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 323. 324، الرقم : 18930، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 69، وقال : رواه أحمد..

’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے (صلح حدیبیہ والی طویل روایت میں) مروی ہے کہ (مشرکین کا قاصد) عروہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے واپسی کے لئے اٹھا تو اس نے صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کے چشم کشاں واقعات دیکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو نہیں کرتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس وضو کے پانی کی طرف لپکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعاب مبارک نہیں پھینکتے مگر یہ اس کی طرف بھاگتے ہیں تاکہ وہ زمین پر نہ گرنے پائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو موئے مبارک بھی گرتا ہے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ وہ قریش کی طرف واپس گیا اور کہا : اے قومِ قریش! میں کسریٰ کے ملک میں اس کے پاس اور قیصر اور نجاشی کے پاس ان کے ملکوں میں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں پایا جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام میں ہیں اور میں نے (عاشقان کی) ایسی قوم دیکھی ہے کہ وہ انہیں کسی بھی صورت تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔۔

258 / 25. عَنْ أَبِي قِرَادٍ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَعَا بِطَهُوْرٍ، فَغَمَسَ يَدَهُ فِيْهِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَتَتَبَّعْنَاهُ، فَحَسَوْنَاهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا حَمَلَکُمْ عَلَی مَا صَنَعْتُمْ؟ قُلْنَا : حُبُّ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ يُحِبَّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ فَأَدُّوْا إِذَا أُئْتَمِنْتُمْ، وَأَصْدِقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَحْسِنُوْا جَوَارَ مَن جَاوَرَکُمْ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ..

25 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 320، الرقم : .، 6517، والشيباني في الآحاد والمثاني،3 / 81، الرقم : 1397، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 665، الرقم : 4438، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 287، الرقم : 764، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 331، الرقم : 10412، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 145، 8 / 271، والمناوي في فيض القدير، 3 / 28.

’’حضرت ابو قراد سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طہارت کے لئے پانی منگوایا اور اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیا پھر (مکمل) وضو فرمایا۔ ہم نے اس پانی کو حاصل کیا اور اسے تھوڑا تھوڑا پی لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا : اس کام پر تمہیں کس چیز نے ابھارا؟ ہم نے عرض کیا : اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول بھی تم سے محبت کریں تو جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو اور جب بولو تو سچ بولو اور جو تمہارے پڑوس میں رہتا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔۔

259 / 26. عَنْ يَحْيَ بْنِ الْحَارِثِ الذَّمَارِيِّ قَالَ : لَقِيْتُ وَاثِلَةَ بْن الْأَسْقَعِ رضی الله عنه فَقُلْتُ : بَايَعْتَ بِيَدِکَ هَذِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَقَالَ : نَعَمْ، فَقُلْتُ : أَعْطِنِي يَدَکَ أُقَبِّلُهَا، فَأَعْطَانِيْهَا فَقَبَّلْتُهَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ فِي ’’الثِّقَاتِ‘‘، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ..

26 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 94، الرقم : 226، والشيباني في الأحاد والمثاني، 2 / 175، الرقم : 913، وابن حبان في الثقات، 5 / 530، الرقم : 6080، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 57 / 364، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 42.

’’حضرت یحییٰ بن حارث ذماری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے ملا تو ان سے عرض کیا : حضرت کیا آپ نے اپنے ان ہاتھوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی سعادت حاصل کی تھی؟ انہوں نے فرمایا : ہاں۔ میں نے عرض کیا : میری طرف اپنا ہاتھ مبارک بڑھائیے تاکہ میں (حصولِ برکت کے لئے) اسے چوم لوں۔انہوں نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو میں نے (نہایت محبت و عقیدت سے) ان کے دستِ مبارک کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کی۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے اور ابن حبان نے الثقات میں روایت کیاہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں۔

260 / 27. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوْقَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : أَتَيْتُ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ أَتَکَارَی مِنْهُ بَيْتًا فِي دَارِهِ فَقَالَ : تَکَارَّ فَإِنَّهَا مُبَارَکَةٌ عَلَی مَنْ سَکَنَهَا فَقُلْتُ : مِنْ أَيِّ شَيئٍ ذَلِکَ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ نُحِرَتْ جَزُوْرٌ وَقَدْ أَمَرَ بِقِسْمَتِهَا فَقَالَ لِلَّذِي يَقْسِمُهَا : أَعْطِ عَمْرًوا مِنْهَا قِسْمًا فَلَمْ يُعْطِنِي وَأَغْفَلَنِي فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَبَيْنَ يَدَيْهِ دَرَاهِمُ فَقَالَ : أَخَذْتَ الْقِسْمَ الَّذِي أَمَرْتُ لَکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَعْطَانِي شَيْئًا قَالَ : فَتَنَاوَلَ کَفًّا مِنْ دَرَاهِمَ ثُمَّ أَعْطَانِيْهَا فَجِئْتُ بِهَا إِلَی أُمِّي فَقُلْتُ : خُذِي هَذِهِ الدَّرَاهِمَ أَخَذَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ تمَّ أَعْطَانِيْهَا أَمْسِکِيْهَا حَتَّی نَنْظُرَ فِي أَيِّ شَيئٍ نَضَعُهَا ثُمَّ ضَرَبَ الدَّهْرَ ضَرْبًا بِهِ حَتَّی اشْتَرَيْتُ هَذِهِ الدَّارَ قَالَتْ أُمِّي : إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْقُدَ ثَمَنَهَا فَـلَا تَنْقُدَ حَتَّی تَدْعُوَنِي أَدْعُوْ لَکَ بِالْبَرَکَةِ فَدَعَوْتُهَا حِيْنَ هَيَأْتُهَا فَقَالَتْ لِي : خُذْ هَذِهِ الدَّرَاهِمَ فَنَثَرْتُهَا فِيْهَا ثُمَّ خَلَطَتْهَا بِهَا وَقَالَتْ : اذْهَبْ بِهَا. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی.

27 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 3 / 48، الرقم : 1471، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 112، وقال : رواه الطبراني في الکبير وأبو يعلی..

’’امام محمد بن سوقہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں کرایہ پر گھر لینے کے لئے حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے (اپنا ایک گھر دکھا کر) فرمایا : (میرا) یہ گھر کرائے پر لے لو کیونکہ یہ گھر اپنے مکینوں کے لئے بہت بابرکت ہے۔ میں نے عرض کیا : اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (تو دیکھا کہ) وہاں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا گوشت تقسیم کرنے کا حکم فرمایا۔ اور اس تقسیم کرنے والے شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمرو کو بھی اس (گوشت) میں سے حصہ دے دینا۔ تقسیم کرنے والا غفلت میں مجھے حصہ دینا بھول گیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بہت سے درہم ڈھیر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا (کل) تم نے (گوشت میں سے) اپنا حصہ وصول کر لیا تھا جس کا میں نے حکم دیا تھا؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں دیا۔ وہ کہتے ہیں : (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مٹھی بھر درہم لئے اور مجھے عطا فرمائے۔ میں درہم لے کر اپنی ماں کے پاس آیا اور عرض کیا : یہ درہم لے لیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے پکڑ کر مجھے عطا فرمائے ہیں اور انہیں سنبھال کر رکھیں اور جب وقت آیا تو ہم ان کا مصرف سوچیں گے۔ پھر وقت پر وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ میں نے یہ گھر خریدنے (کا ارادہ کیا) تو میری والدہ نے مجھے کہا : جب تم (اس گھر کو خریدنے کے لئے) رقم الگ کرو تو اس وقت تک الگ نہ کرنا جب تک مجھے نہ بلا لو میں اس رقم پر تمہارے لئے برکت کی دعا کروں گی۔ (وہ بیان کرتے ہیں کہ) جب میں نے وہ رقم تیار کر لی تو میں نے اپنی والدہ محترمہ کو بلایا تو انہوں نے مجھے کہا : لو یہ (وہ) درہم ہیں (جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے مس فرمایا تھا) پھر انہوں نے وہ درہم ساری رقم کے اوپر، پھیلا کر انہیں آپس میں خلط ملط کر دیا اور فرمایا : اب جاؤ اور اس (بابرکت) رقم سے مکان خریدو۔‘‘‘

اسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

261 / 28. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِیِ أَنَّهُ نَظَرَ إِلَی ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما وَضَعَ يَدَهُ عَلَی مَقْعَدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِثُمَّ وَضَعَهَا عَلَی وَجْهِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ حِبَّانَ فِي ’’الثِّقَاتِ‘‘.

28 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 254، وابن حبان في الثقات، 4 / 9، الرقم : 1606، والقاضي عياض في الشفا، 2 / 62...

’’حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبدالقاری رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نشست کو (بطور تبرک) اپنے ہاتھوں سے (بار بار) چھوتے اور پھر اسے اپنے چہرے پر مل لیتے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن سعد اور ابن حبان نے الثقات میں روایت کیا ہے۔

262 / 29. عَنْ أَبِي قُسَيْطٍ وَالْعُتْبِيُّ رضي اﷲ عنهما کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا خَـلَا الْمَسْجِدَ حَسُّوْا رُمَّانَةَ الْمِنْبَرِ الَّتِي تَلِيَ الْقَبْرَ بِمَيَامِهِمْ ثُمَّ اسْتَقْبَلُوْا الْقِبْلَةَ يَدْعُوْنَ. ذَکَرَهُ الْقَاضِي عَيَاضُ.

29 : أخرجه القاضي عياض في الشفا،2 / 62...

’’حضرت ابو قسیط اورحضرت عتبی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مسجد نبوی میں ہوتے تو وہ منبر مبارک جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے ملا ہوا تھا اس پر (حصول تبرک کے لئے) اپنے ہاتھ پھیرتے (پھر اپنے چہرے پر ملتے) اور پھر قبلہ رخ ہو کر دعا کرتے۔‘‘ اسے قاضی عیاض نے ذکر کیا ہے۔

263 / 30. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَذْکُرُ عَنْ جَدِّي رضی الله عنه أَنَّهُ أَوَّلَ وَفْدٍ وَفَدَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَنِي حَنِيْفَةَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْسِلُ رَأْسَهُ فَقَالَ : اقْعُدْ يَا أَخَا أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَاغْسِلْ رَأْسَکَ فَفَعَلْتُ فَغَسَلْتُ رَأْسِي بِفَضْلَةِ غَسْلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ شَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، ثُمَّ کَتَبَ لِي کِتَابًا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَعْطِنِي قِطْعَةً مِنْ قَمِيْصِکَ أَسْتَأْنِسُ بِهَا فَأَعْطَانِي، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ رضي اﷲ عنهما : فَحَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهَا کَانَتْ عِنْدَنَا نَغْسِلُهَا لِلْمَرِيْضِ يَسْتَشْفِي بِهَا. رَوَاهُ ابْنُ عَدِيٍّ.

30 : أخرجه ابن عدي في الکامل، 6 / 153، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 234، الرقم : 3628...

’’حضرت محمد بن جابر رضی اﷲ عنہما بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ بنو حنیفہ کے قبیلہ سے جو پہلا وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو میں بھی اس وفد میں شامل تھا جب ہم پہنچے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر انور دھو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے یمامہ سے آنے والے بھائی بیٹھ جاؤ اور تم بھی اپنا سر دھو لو۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی سے اپنا سر دھویا پھر میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے ایک مکتوب تحریر فرمایا۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی قمیض مبارک کے کپڑے کا کوئی ٹکڑا مجھے عنایت کیجئے کہ میں اس سے انس (وبرکت) حاصل کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی قمیص مبارک کا ٹکڑا عطا فرمایا۔ امام محمد بن جابر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا کہ وہ قمیض کا ٹکڑا (بطور تبرک) ہمارے پاس تھا اور ہم اسے دھو کر اس کا پانی کسی بیمار کو پلاتے تو اس (کی برکت سے) سے وہ بیمار (اسی وقت مکمل طور پر) شفایاب ہو جاتا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن عدی نے روایت کیا ہے۔

264 / 31. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنِّطُوْنِي وَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَيْتِ الَّذِي فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاسْتَأْذَنُوْا فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحُ فَادْخُلُوْا بِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلَی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ حَتَّی يَحْکُمَ اﷲُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِّنَ وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذُنُ إِلَی الْبَابِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَأْذِنٌ فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تَفَتَّحَ وَسَمِعْتُ قَائِـلًا يَقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِيْبِ إِلَی حَبِيْبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيْبَ إِلَی الْحَبِيْبِ مُشْتَاقٌ. رَوَاهُ بْنُ عَسَاکِرَ.

31 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 30 / 436، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 492..

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے (بھی وہی) خوشبو لگانا اور (میری میت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے (یعنی قیامت نہ آ جائے۔ اور پھر ان کی خواہش کے مطابق ہی) انہیں غسل اور (متبرک خوشبو والا) کفن دیا گیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سب سے پہلے میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول اﷲ ! یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘

اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved