Takhliq-e-Kainat:

عرض مترجم

اﷲ ربّ العزّت نے قرآنِ مجید میں سینکڑوں مقامات پر کائنات میں غوروفکر کرنے اور اُس میں پوشیدہ اَسرار و رُموز سے آگہی کے نتیجے میں خدائے بزرگ و برتر کی معرفت کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنی بے ثبات حیثیّت کا تعین کرنے کا حکم بھی دِیا ہے۔اگر ہم قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کریں تو صحیح معنوں میں قرآنی علوم کے نور سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔

آسمان کی وُسعت میں کروڑوں اربوں ستاروں سمیت بے شمار اَجرامِ فلکی موجود ہیں۔ اُن کے مُشاہدے کے دَوران دَراصل ہم اُن کے ماضی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے سب ماضی ہے۔ ہر ستارہ ہمیں اپنے ماضی کی مختلف جھلک دِکھاتا ہے جو دُوسرے ستاروں کے قابلِ دِید زمانے سے یکسر مختلف ہوتی ہے، گویا ہم کائنات کے مختلف گوشوں میں واقع کئی اَدوار کا بیک وقت مُشاہدہ کرتے ہیں۔ رہی بات ہمارے ’ آج‘ کی! تو اِسے ہماری آئندہ نسلیں لاکھوں کروڑوں سال بعد۔ ۔ ۔ اگر نسلِ انسانی سلامت ہوئی تو۔ ۔ ۔ دیکھنے پر قادِر ہوں گی۔ آج کی حقیقت لاکھوں سال بعد دِکھائی دے گی۔

کائنات کو ایک وقت تک تین اَبعاد پر مشتمل تصوّر کیا جاتا رہا۔ آئن سٹائن نے نہ صرف وقت کو چوتھی جہت کے طور پر متعارف کروایا بلکہ زمان و مکان کی مطلق حیثیت کو بھی ردّ کر دیا، چنانچہ اِنسان کو راہِ راست نظر آئی اور زمان و مکان اِضافی قرار پائے۔ یہی اِسلام کی تعلیم ہے کہ حقیقتِ مطلقہ فقط ذاتِ خدا ہے اور زمان و مکان سمیت ہر قسم کی مخلوقات محض اِضافی وُجود رکھتی ہیں۔ یہ حقیقت ہمیں فلسفۂ وحدتُ الوُجود کے خاصا قریب لے آتی ہے۔ اِسلامی تعلیمات کے مطابق یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات کی جہات لامحدُود ہیں۔

اﷲ ربُّ العزّت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں اِنسان کے لئے ناقابلِ شمار نشانیاں ہیں کہ وہ اُن میں غوروفکر کرے اور کائنات کے خالق و مالک کو سمجھے۔ سائنسی تحقیقات کی موجودہ سُرعتِ رفتار نے کائناتِ ارض و سما میں چھپے بے شمار حقائق کو حضرتِ اِنسان کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ کل کا اِنسان جو کچھ سوچتا تھا آج کا اِنسان اُس پر عمل کر رہا ہے۔ صدی جب کروَٹ بدلتی ہے تو ایک ممکن کو حقیقت کا رُوپ مل چکا ہوتا ہے۔ سائنسی تحقیقات کا دائرۂ کار اَنفس و آفاق کی تخلیق و اِرتقاء سے متعلق ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس قبل اِنسانیت جہلِ مرکب میں مبتلا تھی اور اپنی جہالت پر بھی فخر کرتی تھی۔ اَیسے میں قرآنی تعلیمات کے ذرِیعے ہزارہا حقائقِ کائنات اِس قدر درُستگی کے ساتھ منظرِ عام پر آئے کہ آج کی جدید سائنس بھی اُن کی صحت پر اَنگشت بدنداں ہے۔

مسلمان اُس وقت تک عالم پر چھائے رہے جب تک علم اُن کا سرمایۂ حیات رہا۔ یہی تقدیرِ اِلٰہی ہے کہ جو قوم علمی روِش سے رُوگردانی کرے گی وقت کی رَو میں کُچلی جائے گی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم علم کے راستے سے کنارہ کشی اِختیار کرتی ہے تو لامحالہ کوئی دُوسری قوم اس متاعِ حیات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہے۔

اُندلس کی یونیورسٹیوں سے علم یورپ تک پھیل گیا، مگر شومئی قسمت کہ مسلمان علمی روِش بھلا بیٹھے اور تحقیق و جستجو کے چمن زار سے ایسے نکلے کہ اپنی عظمتِ رفتہ کو بھی فراموش کر بیٹھے۔ آج کا مسلمان طالبِ علم اپنے اَسلاف کے عظیم علمی کارناموں سے بھی آگاہ نہیں۔ دُوسری طرف اَہلِ مغرب کی تنگ ظرفی و تنگ نظری دیکھئے کہ وہ اِسلامی سائنس کے دَور کاقطعاً اِعتراف نہیں کرتے اور اگر کہیں مجبوراً کریں بھی تو ڈھکے چھپے اَنداز میں، جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ مغربی سائنس کا خمیر براہِ راست یونانی دَور سے اُٹھایا گیا ہے، حالانکہ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ یہ اِنصاف سے پرے کی بات ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی: ’’مسلمان سائنسدانوں نے یونان و ہند کے اَربابِ علم و دانش کے لئے جذباتِ تشکر و اِمتنان کے اِظہار و اِعتراف میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِس کے برعکس یورپ نے موجودہ سائنس مسلمانوں سے حاصل کی لیکن اُن کے ہاں کلمۂ اِعتراف تلاش کرنا جوئے شِیر لانے کے مُترادف ہے‘‘۔

مسلمان تو آج تک اپنی تحقیقات کے تحت کئے جانے والے بیش بہا اِضافوں کے باوُجود اپنی طب کو یونان سے منسوب کرتے چلے آئے ہیں۔ بلکہ ایک حد تک یہ بات خواہ مخواہ کی کسرِ نفسی کی حد کو جا چھوتی ہے اور آج کا نوجوان اِس کا مطلب اُلٹا یہ سمجھتا ہے کہ شاید مسلمانوں نے اِس میں کوئی خاص اِضافہ ہی نہیں کیا۔

ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں جدید عصری علوم کے پس منظر میں مطالعۂ قرآن کی خاص طور پر ضرورت ہے کیونکہ یہ بات عام مُشاہدے میں آئی ہے کہ جو جتنا عصری علوم سے آگاہ ہے وہ اُسی قدر بہتر قرآنِ مجید کو سمجھ سکتا ہے۔ ایسے میں ’جدید علمِ کلام‘ کی ضرورت سے بھی اِنکار نہیں کیا جا سکتا۔ اِس بات کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ مغربی اَہلِ فکر و دانش کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے عقلی اِعتراضات کے جواب کے لئے باقاعدہ ’جدید علمِ کلام‘ اپنایا جائے اور اُن کے تمام ممکنہ سوالات و اِعتراضات کے جدید سائنسی زبان میں تسلی بخش جوابات فراہم کئے جائیں۔ اِس سے نہ صرف مسلمانوں میں مغربی اَفکار کی یلغار کی وجہ سے اپنے عقائد و نظریات کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو گا بلکہ جدید تعلیم یافتہ غیرجانبدار غیرمسلموں کو بھی اِسلام کی طرف ترغیب ملے گی۔

عالمِ اِسلام کے موجودہ ہمہ گیر زوال کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے فرار کا رویہ اور جاہل حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا ہے۔ عالمِ اِسلام کے دوبارہ عروج کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے سب سے پہلے مسلم نوجوانوں کے اندر مغربی اَفکار کے بارے میں پیدا ہونے والے ’اِحساسِ مرعوبیت‘ اور اِسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے ’اِحساسِ کمتری‘ کا بیک وقت خاتمہ ضروری ہے۔ مُسلم نوجوانوں کی ذہانت عالمی محکومی کی وجہ سے دَب کر رہ گئی ہے اور اکثر اُس کا رُخ منفی سِمت اِختیار کر چکا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آج کے مسلم نوجوان کے ڈگمگاتے اِیمان کو ’قرآنی آیات کی سائنسی تفسیر و تفہیم‘ کی صورت میں سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے، اَسلاف کے علمی کارناموں سے آگاہی دِلا کر اُس کا اِحساسِ کمتری ختم کیا جائے اور اُس کی سوچ کو مثبت راستہ مہیا کیا جائے تاکہ وہ اپنے اَسلاف کی اِتباع میں علمی و تحقیقی روِش اپنا کر پھر سے غلبۂ دینِ حق کی بحالی میں اپنا رول پلے کر سکے۔ وطنِ عزیز پاکستان اِس سلسلے میں خاصا زرخیز واقع ہوا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لینے سے اُس کے دِماغوں میں پوشیدہ علمی و سائنسی صلاحیت کی بجا طور پر غمازی ہوتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی و فکری خدمات کا ایک عالم مُعترِف ہے۔ اُنہوں نے جس کمال اَنداز سے اِنتہائی مختصر عرصے میں دُنیا بھر سے دادِتحسین حاصل کی تاریخِ عالم میں اَیسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ خصوصاً مغربی دُنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے بے شمار عصری موضوعات پر کام کیا، جس سے نہ صرف مخصوص مغربی ماحول اور عیسائیت کے دھوکے میں تمام مذاہب کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کے باعث پیغامِ اِسلام کے بارے میں تشکیک کا شکار مسلمانوں میں اِسلام سے والہانہ لگاؤ کا جذبہ عود کر آیا بلکہ بے شمار غیرمسلم بھی دائرۂ اِسلام میں شمولیت کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ زیرِ نظر کتاب بھی مصنف کی طرف سے اَہلِ مغرب کو اِسلام کی طرف ترغیب دِلانے کے سلسلے میں کی جانے والی کاوِشوں میں سے ایک ہے، جس میں اُنہوں نے قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو پیش کیا ہے تاکہ نہ صرف اَہلِ اِسلام بلکہ غیرمسلم بھی قرآنی علوم کے نور سے فیضیاب ہو سکیں۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے لئے بھی نہایت اَہمیت کی حامل ہے جو سائنس اور اِسلام کے باقاعدہ طالبِ علم نہیں ہیں، کیونکہ یہ ایک مسلمان کو سائنسی حقائق کی روشنی میں اﷲ ربُّ العزّت کی وحدانیت کا یقین دِلاتی نظر آتی ہے۔

ترجمہ کے دوران اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اصل کتاب کا مفہوم کہیں بھی تبدیل نہ ہونے پائے۔ تاہم بعض اَیسے مقامات جہاں محض ترجمے کے ذرِیعے مفہوم کا کامل اِبلاغ ممکن نہ تھا وہاں چند ناگزیر اِضافے بھی کئے گئے ہیں۔

فرید ملت (رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ میں مختلفُ النوّع تحقیقی کاموں کے دوران تقریباً گزشتہ سال بھر سے ترجمے اور فٹ نوٹس کی شکل میں اُس میں کئے جانے والے اِضافہ جات پر بھی وقتاً فوقتاً کام جاری رہا۔ میرا یہ خیال تھا اور ہے کہ اصل کتاب(Quran on Creation and Expansion of the Universe) کی تصنیف کے وقت مصنف کے سامنے انگریزی دان طبقہ اور خاص طور پر مغربی دُنیا کے مسلمان اور غیر مسلم قارئین تھے۔ چونکہ یہ کتاب سائنسی معاشرے کو مدِّنظر رکھ کر لکھی گئی اِس لئے اِس میں بہت سے اَیسے حقائق و اِصطلاحات کو واضح کرنا ضروری خیال نہیں کیا گیا جو سائنسی معاشروں کے لئے بالکل نارمل سی حقیقتیں ہیں، حالانکہ اُن سے پاکستانی معاشرہ اور اُردو دان طبقہ شرحِ خواندگی کے شرمناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے عام طور پر ناآشنا ہے۔ خیال تو تھا کہ یہ ترجمہ ہر ایسے مقام کی مکمل وضاحت کرے جس میں عام کم پڑھے لکھے طبقے کو دِقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم ترجمے کا کام بار بار تعطّل و اِلتواء کا شکار ہوتا آیا اور دفتر کی طرف سے ملنے والے دِیگر اُمور کو اِس پر ترجیح ملتی رہی۔ فٹ نوٹس کی صورت میں چند اہم سائنسی اِصطلاحات و معلومات کو بھی کسی حد تک واضح کیا گیا ہے۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ ربیع الاوّل کامبارک مہینہ قریب آ گیا، چنانچہ جس قدر کام ہو چکا تھا اُسی کے ساتھ اسے شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئندہ ایڈیشن میں اِنشاء اﷲ دِیگر ناگزیر اِضافہ جات کا بھی اِہتمام کیا جائے گا۔

عزیز قاری! دورانِ مطالعہ آپ کو درمیانِ عبارت دو قسم کی بریکٹس مُشاہدے کو ملیں گی۔ سادہ بریکٹس یعنی ( ) کے درمیان لکھی عبارت مصنف کی طرف سے ہے، جسے اُنہوں نے اصل کتاب میں بھی اِنہی قوسوں کے مابین پیش کیا ہے، جبکہ دُوسری بریکٹس یعنی { } میں مُترجم کی طرف سے اصل انگریزی عبارت کی اُردو ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے تفہیمِ عبارت کے لئے کیا گیا اِضافہ ہے۔

کتاب کی تیاری میں جن اَحباب نے میرے ساتھ معاونت کی اُن کا ذِکر نہ کرنا زیادتی ہو گا۔ محترم محمد فاروق رانا صاحب (ریسرچ سکالر، فرید ملت (رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ، لاہور) نے جس بے لوث محنت کے ساتھ ترجمے پر نظر ثانی کی اس پر میں اُن کا حد درجہ شکرگزار ہوں۔ اگر وہ اِس تندہی سے میری مدد نہ کرتے تو شاید اِس ترجمے میں بیسیوں سُقم بچ رہتے۔ نظرِثانی کا کام اُنہوں نے میرے ساتھ اِس قدر محنت اور دِلجمعی سے کیا کہ اصل کتاب کے ایک ایک جملے کو اُردو جملے کے ساتھ ملا کر پڑھا تاکہ اُس میں کسی قسم کا سُقم باقی نہ رہے۔

سائنس کا باقاعدہ طالبِ علم نہ ہونے کے ناطے عین ممکن ہے کہ میں ترجمے اور اُس میں ہونے والے اِضافہ جات سے اِنصاف نہ کر سکا ہوں، جس کے لئے میں مصنّف اور اَہلِ فن سے معذرت کا خواستگار ہونے کے ساتھ ساتھ اِس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ہر طرح کی کمی کجی سے آگاہ کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھیں گے تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اُن کا اِزالہ کیا جا سکے۔

اﷲ ربُّ العزّت سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اِسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قرونِ اُولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے علم و فکر کے دَر ہم پر وَا کر دے۔

عبدالستّار منہاجین

(ریسرچ سکالر)
فرید ملت (رح) ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ
28May 2000 Sun

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved