عقیدہ ختم نبوت

مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کے چند حیرت انگیز گوشے

تاریخ انبیاء کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ حضرات اپنی سیرت و کردار اور اخلاق کے لحاظ سے روشنی کا ایک مینار تھے۔ وہ اپنی قوم کے لئے جن کے درمیان وہ پیدا ہوئے ایک کامل نمونہ تقلید تھے۔ انبیاء کرام کے ذاتی اخلاق و کردار پر حرف گیری کی جسارت تو کبھی ان کے جانی دشمنوں کو بھی نہ ہوئی۔ وہ خلقت کے اعتبار سے معصوم عن الخطاء تھے، گناہ و بدی کی پرچھائیں بھی ان کے قریب سے نہ گزریں۔ اس تناظر میں مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کو ذرا قریب سے ان کے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو وہ عام اخلاقی معیار سے بھی گرا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے تو درکنار عام انسانوں کے لئے بھی قطعی طور پر قابل رشک اور قابل تقلید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سیرت و کردار کے حامل شخص کو کسی اعتبار سے ایک مصلح یا مذہبی رہنما تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ باب میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ مرزا صاحب انگریز کا خودکاشتہ پودا تھا جس کی آبیاری دنیوی و مادی مفادات سے ہوتی رہی۔ وہ سامراج کی پیداوار تھا جس کا مقصد وحید امت مسلمہ میں انتشار کے بیج بو کر اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا تھا۔ مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق و کردار کے چند حیرت انگیز گوشے درج ذیل ہیں:

آوارہ و گردی و موج مستی

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ’’ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلے گئے۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا، پھر جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔

’’والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین ادھر ادھر پھرتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا، ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچازاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔‘‘

بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1:24، رقم:49

شراب کا بکثرت استعمال

مرزا صاحب شراب کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ اس عادتاً مے نوشی کا جواز فراہم کرنے کے لئے مرزا صاحب اور ان کے حواریوں نے اسے بھی نعوذ باللہ شریعت قرار دے ڈالا۔ ان کا ایک معتقد ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی شراب کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’آپ کو ضعف کے دورے ایسے شدید پڑتے تھے کہ ہاتھ پاؤں سرد ہو جاتے تھے، نبض ڈوب جاتی تھی میں نے خود ایسی حالت میں آپ کو دیکھا ہے کہ نبض کا پتہ نہیں ملتا تھا تو اطباء یا ڈاکٹروں کے مشورے سے آپ نے ٹانک وائن کا استعمال اندریں حالات کیا ہوا ہو تو پس مطابق شریعت ہے، آپ تمام دن تصانیف کے کام میں لگے رہتے تھے، راتوں کو عبادت کرتے تھے، بڑھاپا بھی پڑتا تھا تو اندریں حالات اگر ٹانک وائن بطور علاج پی بھی لی ہو تو کیا قباحت لازم آگئی۔‘‘

اخبار پیغام صلح، 4 مارچ 1935ء

مرزا صاحب کے ایک عقیدت مند حکیم محمد حسین قریشی نے وہ تمام خطوط جمع کر کے شائع کر دیئے جو موصوف نے اس کے نام مختلف اوقات میں لکھے، ان میں سے ایک خط یہ بھی ہے جس میں مرزا نے اسے ٹانک وائن خرید کر بھیجنے کا حکم دیا۔ خط کا متن یہ ہے:

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن ای پلومر کی دکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام

مرزا غلام احمد عفی عنہ‘‘

ٹانک وائن کی حقیقت

حکیم محمد علی صاحب کہتے ہیں: ٹانک وائن کی حقیقت لاہور میں ای پلومر کی دکان سے ڈاکٹر عزیز احمد صاحب کی معرفت معلوم کی گئی تو ڈاکٹر صاحب کو حسب ذیل جواب ملا:

’’ٹانک وائن ایک قسم کی طاقتور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے سربند بوتلوں میں آتی ہے۔‘‘

21 ستمبر 1933، سودائے مرزا :39، حاشیہ حکیم محمد علی صاحب پرنسپل طیبہ کالج امرتسر

افیون کا بطور جزو اعظم دوا میں استعمال

’’حضرت مسیح موعود نے ’’تریاق الٰہی‘‘ دوا خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت بنائی اور اس کا ایک بڑا جز افیون تھا اور یہ دوا افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ اول (حکیم نورالدین) کو حضور (مرزا قادیانی) چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتاً فوقتاً مختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے۔‘‘

محمود احمد قادیانی، اخبار الفضل، جلد: 17، نمبر:4، 9ا جولائی 1929

دوا کا بڑا جز افیون اور پھر اس کا نام ’’تریاقِ الٰہی‘‘ مرزا صاحب کی دماغی اختراع اور ایجاد ہے جس کا سہرا ان کی ناقابلِ فہم حکمت کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے۔

وہ کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے

مرزا صاحب نفسانیت اور شہوت پرستی سے کبھی کبھار حظ اٹھا لیا کرتے تھے لیکن ان کے خلیفہ تو ساری حدیں پھلانگ گئے تھے۔ اس حوالے سے ماہنامہ ’’الفضل‘‘ کی ایک رپورٹ درج ذیل ہے:

’’حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا پھر لکھا ہے، ہمیں حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) پر اعتراض نہیں، کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے، ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔‘‘

روزنامہ الفضل، قادیان دار لأمان مؤرخہ 31 اگست 1938

غیر محرم عورتوں سے اختلاط

مرزا صاحب غیر محرم عورتوں سے اختلاط اور قربت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، قادیانی اخبار الحکم کی ایک خبر دیکھئے:

’’سوال ششم: حضرت اقدس (مرزا قادیانی) غیر عورتوں سے ہاتھ پاؤں کیوں دبواتے تھے؟

جواب: وہ نبی معصوم ہیں ان سے مس کرنا اور اختلاط منع نہیں بلکہ موجب رحمت و برکات ہے۔‘‘

قادیانی اخبار الحکم، قادیان، جلد: 11، نمبر 13۔ 17 اپریل 1907ء

متعدد غیر محرم عورتیں مرزا صاحب کی ذاتی خدمت پر مامور تھیں جو خلوت کے لمحات میں بھی ان کی اطاعت بجا لاتی تھیں، ان کی خواب گاہ میں صبح تک ان کے احکام کی تعمیل کرتیں تھیں۔ وہ اسے ہر گز معیوب خیال نہ کرتے تھے بلکہ اس عمل کو خوب سراہتے تھے۔

ان عورتوں میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:

1۔ مسماۃ بھانو (1)
2۔ زینب بیگم (2)
3۔ مائی رسول بی بی
4۔ اہلیہ بابو شاہ دین
5۔ مائی فجو
6۔ منشیانی اہلیہ منشی محمد دین (3)

(1) بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 3: 210
(2) بشیر احمد قادیانی، سیرت المہدی، 3: 272، 273
(3) بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 3: 213

عشقیہ شاعری

خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے، جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے، غالباً جوانی کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے، جسے میں پہچانتا ہوں، بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں:

عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

کچھ مزا پایا ہے میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں بڑا مزا ہوتا ہے

*

سبب کوئی خداوند بنا دے
کسی صورت میں وہ صورت دکھا دے

کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے

کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شور و غل مچا دے

*

نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا

مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا

دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا

بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 1: 232، 233

دشنام طرازیاں

گالی دینا ایک نازیبا اور مذمو م حرکت ہے۔ خود مرزا صاحب کے نزدیک بھی گالی دینا طریق شرافت نہیں:

’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے۔‘‘

ضمیمہ اربعین نمبر: 4

مرزا صاحب کے نزدیک گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے:

’’ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ست بچن، روحانی خزائن، 10: 133

مگر مرزا صاحب کا عمل اس کے بر عکس نظر آتا ہے۔ وہ مغلوب الغضب ہو کر گاہے گاہے غلیظ گالیوں پر اتر آتے تھے، چند نمونے ملاحظہ ہوں:

1۔ ’’سعد اللہ لدھیانوی بے وقوفوں کا نطفہ اور کنجری کا بیٹا ہے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی : 14

2۔ ’’خدا تعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہر لگا دی۔‘‘

غلام احمد قادیانی، تتمہ حقیقۃ الوحی : 13

3۔ ’’آریوں کا پرمیشور (خدا) ناف سے دس انگل نیچے ہے، سمجھنے والے سمجھ لیں۔‘‘

غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت : 116

4۔ ’’ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے مگر زناکار کنجریوں کی اولاد، جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘

غلام احمد قادیانی، آئینہ کمالات اسلام : 547

5۔ ’’جھوٹے آدمی کی یہی نشانی ہے کہ جاہلوں کے روبرو تو بہت لاف گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت دے کر جاؤ تو جہاں سے نکلے تھے، وہیں داخل ہو جاتے ہیں۔‘‘

حیات احمد، 1:25

6۔ ’’عبدالحق کو پوچھنا چاہئے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا، اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پا گیا یا پھر رجعت قہقری کر کے نطفہ بن گیا، اب تک اس کی عورت کے پیٹ سے ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ضمیمہ انجام آتھم : 27

لعنت کی گردان

’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں، مومن لعان نہیں ہوتا۔‘‘

غلام احمد قادیانی، ازالہ اوہام، 2: 356، مندرجہ روحانی خزائن، 3: 456

مگر مرزا صاحب کا عمل اپنے اس قول کے بر عکس نظر آتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

مرزا قادیانی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے کسی پر لعنت ڈالی تو بجائے یہ کہنے کے کہ تجھ پر ہزار لعنت ہو یا تحریری طور پر اسے اس طرح لکھ دیتا مگر اس نے باقاعدہ لعنت نمبر 1، لعنت نمبر 2، لعنت نمبر 3، لعنت نمبر 1000 تک لکھ دیا۔

غلام احمد قادیانی، نورالحق: 118-122، مندرجہ روحانی خزائن، 8: 158-162

بدمعاش، خبیث، کنجر، سور، حرامزادے، پلید، کتے، ذریۃ البغایا، بدذات بھیڑیئے، کیڑے، کمینے، پاگل، مخبوط الحواس، جاہل، شریر، منحوس اور لعنتی جیسے الفاظ سے تو مرزا رطب اللسان رہا کرتا تھا اور شیطان اس کو دیکھ کر کہتا تھا کہ رشک ہے بازی یہ مجھ سے لے گیا، تقدیر دیکھئے۔

مشتے نمونہ از خروارے، یہ مرزا صاحب کی بدزبانیوں اور دشنام طرازیوں کی چند مثالیں ہیں اگر کوئی مزید دیکھنا چاہے تو ان کی کتب کی طرف رجوع کرے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved