مختلف مہینوں اور دنوں کے فضائل و برکات

عرفہ کے دنوں کی فضیلت

فَضْلُ يَوْمِ عَرَفَةَ

اَلْقُرْآن

﴿ٱلۡيَوۡمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَٱخۡشَوۡنِۚ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِيْناً﴾

[المائدة، 5: 3]

آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہوگئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔

اَلْحَدِيْث

209. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُوْدِ قَالَ لَهُ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُوْنَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُوْدِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيْدًا، قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ: ﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِيناً﴾ [المائدة، 5: 3]. قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيْهِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1: 25، الرقم: 45، وأيضًا في كتاب المغازي باب حجة الوداع، 4: 1600، الرقم: 4145، وأيضًا في كتاب تفسير القرآن، باب قوله: اليوم أكملت لكم دينكم، 4: 1683، الرقم: 4330، وأيضًا في كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، 6: 2653، الرقم: 6840، ومسلم في الصحيح، كتاب التفسير، 4: 2313، الرقم: 3017، والترمذي في السنن، كتاب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5: 250، الرقم: 3043، والنسائي في السنن، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8: 114، الرقم: 5012.

حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه سے روایت ہے: ایک یہودی نے اُن سے کہا: اے امیر المومنین! آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ آیت ہم گروہِ یہود پر اُترتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن بنا لیتے۔ آپ رضی الله عنه نے پوچھا: کون سی آیت؟ اُس نے کہا: ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمْ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾﴾ 'آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بہ طورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘۔ حضرت عمر رضی الله عنه نے فرمایا: جس دن اور جس جگہ یہ آیت حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہم اس کو پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ اُس وقت جمعہ کے دن عرفات کے مقام پر کھڑے تھے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

210. عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: ﴿ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِيناً﴾ [المائدة، 5: 3]. وَعِنْدَهُ يَهُودِيٌّ، فَقَالَ: لَوْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَهَا عِيدًا. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّهَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدَيْنِ: فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

أخرجه الترمذي في السنن، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5: 250، الرقم: 3044، والطيالسي في المسند، 1: 353، الرقم: 2709، والطبراني في المعجم الكبير، 12: 184، الرقم: 12835، والطحاوي في شرح مشكل الآثار، 6: 308..

حضرت عمار بن ابی عمار سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی الله عنهما نے آیت مبارکہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ ’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا‘۔ پڑھی تو پاس کھڑے ایک یہودی نے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کا دن عید کے طورپر مناتے۔ حضرت (عبد الله) بن عباس رضی الله عنهما نے فرمایا: بے شک یہ آیت دو عیدوں یعنی جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے۔

اِسے امام ترمذی، طیالسی، طبرانی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

211. عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رضی الله عنها: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيْهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُوْلُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الحج، باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة، 2: 982، الرقم: 1348، والنسائي في السنن الكبرى، 2: 420، الرقم: 3996، وابن خزيمة في الصحيح، 4: 259، الرقم: 2827، والطبراني في المعجم الأوسط، 9: 64، الرقم: 9134، وأبو عوانة في المسند، 2: 373، الرقم: 3478.

حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی دن بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا۔ (اُس دن) اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں سے) قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ بندے کس ارادے سے آئے ہیں؟

اِسے امام مسلم، نسائی، ابن خزیمہ، طبرانی اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

212. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ يَوْمٍ أَفْضَلُ عِنْدَ اللهِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ. يَنْزِلُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُبَاهِي بِأَهْلِ الأَرْضِ أَهْلَ السَّمَاءِ، فَيَقُوْلُ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي شُعْثًا غُبْرًا ضَاحِيْنَ. جَاؤُوْا مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ. يَرْجُوْنَ رَحْمَتِي، وَلَمْ يَرَوْا عَذَابِي.

فَلَمْ يُرَ يَوْمٌ أَكْثَرُ عِتْقًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَى.

أخرجه ابن حبان في الصحيح، كتاب الحج، باب الخروج من مكّة إلى منى، ذكر رجاء العتق من النار لمن شهد عرفات يوم عرفة، 9: 164، الرقم: 3853، وأبويعلى في المسند، 4: 69، الرقم: 2090، والهيثمي في موارد الظمأن، 1: 248، الرقم: 1006، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 128، الرقم: 1790.

حضرت جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک یومِ عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی فضیلت والا نہیں ہے۔ اس دن الله تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے اور اہلِ زمین کے ساتھ اہلِ آسمان پر فخر فرماتا ہے۔ وہ فرماتا ہے: میرے ان بندوں کی طرف دیکھو جو بکھرے بالوں کے ساتھ، گرد و غبار سے اٹے ہوئے، دھوپ کی تمازت سہتے دور دراز کے راستوں سے آئے ہیں۔ وہ میری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا۔ یومِ عرفہ سے زیادہ کسی اور دن لوگوں کو جہنم سے آزادی نہیں ہوتی۔

اِسے امام ابن حبان اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔

213. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضی الله عنه قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ يَوْمِ عَرَفَة. فَقَالَ: يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة، 2: 819، الرقم: 1162، وأبوداود في السنن، كتاب الصوم، باب في صوم الدهر تطوعا، 2: 321، الرقم: 2425، والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة، 3: 124، الرقم: 749.

حضرت ابو قتادہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے یوم عرفہ (نویں ذو الحجہ کے روزہ) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یوم عرفہ کا روزہ) گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

اِسے امام مسلم، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ لِلتِّرْمِذِيِّ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.

امام ترمذی کی روایت کے الفاظ ہیں (کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے الله تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اسے گزشتہ اور آئندہ سال( کی لغزشوں) کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

214. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ، غُفِرَ لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ وَسَنَةٌ بَعْدَهُ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَى.

أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب صيام يوم عرفة، 1: 551، الرقم: 1731، والنسائي في السنن الكبرى، 2: 151، الرقم: 2801، وأبو يعلى في المسند، 13: 542، الرقم: 7548، والطبراني في المعجم الكبير، 6: 179، الرقم: 5923.

حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے پچھلے سال کے اور آنے والے سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

اِسے امام ابن ماجہ، نسائی اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے۔

215. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ لَهُ ذَنْبُ سَنَتَيْنِ مُتَتَابِعَتَيْنِ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَى وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه أبو يعلى في المسند، 13: 542، الرقم: 7548، والطبراني في المعجم الكبير، 6: 179، الرقم: 5923، وعبد بن حميد في المسند، 1: 170، الرقم: 464، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 189، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2: 68، الرقم: 1519.

حضرت سہل بن سعد رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جو شخص یوم عرفہ کا روزہ رکھتا ہے اس کے مسلسل دو سالوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

اِسے امام ابو یعلی ٰاور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

216. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ كَصِيَامِ أَلْفِ يَوْمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7: 44، الرقم: 6802، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 357، الرقم: 3764، وابن عبد البر في التمهيد، 12: 158، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 69، الرقم: 1522، والسيوطي في الدر المنثور، 1: 154.

حضرت عائشہ رضی الله عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یوم عرفہ کا روزہ ہزار دن کے روزوں کی طرح ہے۔

اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے، اور مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔

217. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: لَا يَبْقَى أَحَدٌ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ. فَقَالَ رَجُلٌ: أَلِأَهْلِ مَعَرِّفٍ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً؟ فَقَالَ: بَلْ للِنَّاسِ عَامَّةً.

رَوَاهُ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه عبد بن حميد في المسند، ص: 265، الرقم: 842، وذكره العسقلاني في الأمالي المطلقة، ص: 16، وابن الجوزي في التبصرة، 2: 136.

حضرت (عبد الله) بن عمر رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عرفہ کے دن کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں بچتا جس کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہو، مگر یہ کہ الله تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا یہ خوش خبری صرف اہلِ عرفہ کے لیے ہے یا سارے لوگوں کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ عامۃ الناس کے لیے۔

اسے امام عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔

218. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَقِفُ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَوْقِفِ فَيَسْتَقْبِلُ الْقِبْلَةَ بِوَجْهِهِ، ثُمَّ يَقُوْلُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ؛ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيْرٌ؛ مِائَةَ مَرَّةٍ ثُمَّ يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ، مِائَةَ مَرَّةٍ؛ ثُمَّ يَقُوْلُ: اَللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَآلِ اِبْرَاهِيْمَ؛ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ، مِائَةَ مَرَّةٍ؛ إِلَّا قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا مَلَائِكَتِي، مَا جَزَاءُ عَبْدِي هَذَا؟ سَبَّحَنِي وَهَلَّلَنِي وَكَبَّرَنِي وَعَظَّمَنِي وَعَرَفَنِي وَأَثْنَى عَلَيَّ وَصَلَّى عَلَى نَبِيِّي. اشْهَدُوْا مَلَائِكَتِي، أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُ وَشَفَّعْتُهُ فِي نَفْسِهِ. وَلَوْ سَأَلَنِي عَبْدِي هَذَا لَشَفَّعْتُهُ فِي أَهْلِ الْمَوْقِفِ كُلِّهِمْ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ. وَقَالَ الْبَيْهَقِيُّ: لَيْسَ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُّنْسَبُ إِلَى الْوَضْعِ. واللهُ أَعْلَمُ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 463، الرقم: 4074، وأيضًا في فضائل الأوقات، 1: 375، الرقم: 196، والديلمي في مسند الفردوس، 4: 15، الرقم: 6044، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 133، الرقم: 1804، والسيوطي في الدر المنثور، 1: 548.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو بھی مسلمان وقوفِ عرفہ کی رات قبلہ رُخ کھڑا ہو کر سو (100) مرتبہ یوں کہتا ہے: ﴿لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِیْكَ لَهُ؛ لَهُ الْمُلْكُ وَلهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيءٍ قَدِیْر﴾ ’اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘۔ پھر سو (100) مرتبہ سورہ اِخلاص پڑھتا ہے، پھر سو (100) مرتبہ یوں کہتا ہے: ﴿اَللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَآلِ اِبْرَاهِیْم؛ إِنَّكَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ، وَعَلَیْنَا مَعَهُمْ﴾ ’اے اللہ! تو درود بھیج حضرت محمد ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر جیساکہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیه السلام اور ان کی آل پر، بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بہت زیادہ بزرگی والا ہے اور ان کے ساتھ ہم پر بھی درود بھیج‘۔ تو (الله تعالیٰ پوچھتا ہے:) اے میرے فرشتو! میرے اس بندے کے لیے کیا اجر ہونا چاہئے؟ اس نے میری تسبیح و تحلیل اور تکبیر و تعظیم اور تعریف و ثناء بیان کی اور میرے نبی مکرم ﷺ پر درود بھیجا ہے۔ اے میرے فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے اپنے اس بندے کو بخش دیا ہے اور اس (کے حق میں اپنے حبیب ﷺ ) کی شفاعت (قبول) فرما لی ہے۔ اگر میرا یہ بندہ مجھ سے شفاعت طلب کرے تو میں میدانِ عرفات میں موجود تمام لوگوں کے ساتھ اس کی شفاعت (قبول) کر لوں گا۔

اِسے امام بیہقی، دیلمی اور منذری نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے فرمایا کہ اس کی سند میں ایسا کوئی راوی نہیں کہ جس پر وضع حدیث کا الزام ہو اور الله تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved