حضور ﷺ کے شمائل مبارکہ

حضور ﷺ کے سینہ اقدس اور قلب اطہر کا بیان

بَابٌ فِي وَصْفِ صَدْرِه صلی الله عليه واله وسلم وَقَلْبِه

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینہ اَقدس اور قلبِ اَطہر کا بیان}

113 /1. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم سَوَاءَ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ، عَرِيْضَ الصَّدْرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

1: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية /37، الرقم: 8، وابن حبان في الثقات، 2 /145.146، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /155.156، الرقم: 414، وأيضًا في أحاديث الطوال، 1 /245، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /154.155، الرقم: 1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /422.

’’حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بطنِ اقدس اور سینہ مبارک برابر تھے اور سینہ مبارک چوڑا تھا۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں اور ابن حبان، طبرانی نے روایت کیا ہے۔

114 /2. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ:…کَانَ عَرِيْضَ الصَّدْرِ، مَمْسُوْحَه کَأَنَّهُ الْمَرَايَا فِي شِدَّتِهَا وَاسْتِوَائِهَا، لَا يَعْدُوْ بَعْضُ لَحْمِه بَعْضًا، عَلٰی بَيَاضِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

2: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 1 /304.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سینہ اقدس فراخ اور آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا، کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا اور سفیدی اور آب و تاب میں چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔‘‘

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

115 /3. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التهجد، باب قيام النبي صلی الله عليه واله وسلم بالليل في رمضان وغيره، 1 /385، الرقم: 1096، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل وعدد رکعات النبي صلی الله عليه واله وسلم في الليل، 1 /509، الرقم: 738، والترمذي في السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في وصف صلاة النبي صلی الله عليه واله وسلم بالليل، 2 /302، الرقم: 439، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في صلاة اليل، 2 /40، الرقم: 1341، والنسائي في السنن، کتاب قيام اللّيل وتطوع النهار، باب کيف الوتر بثلاث، 3 /234، الرقم: 1697، ومالک في الموطأ، کتاب صلاة الليل، باب صلاة النبي صلی الله عليه واله وسلم في الوتر، 1 /120، الرقم: 263، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /36، الرقم: 24119.

’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

116 /4. عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه أَنَّه حَدَّثَهُمْ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ لَه رَجُلٌ: کَيْفَ کَانَ أَوَّلُ شَأْنِکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: کَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا، وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، اِذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا، فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَکَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ، فَأَقْبَلَ طَائِرَانِ أَبْيَضَانِ کَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ الأخَرُ: نَعَمْ. فَأَقْبَـلَا يَبْتَدِرَانِي، فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي لِلْقَفَا، فَشَقَّا بَطْنِي ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي، فَشَقَّاهُ فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اِئْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ، فَغَسَلَ بِه جَوْفِي، ثُمَّ قَالَ: اِئْتِنِي بِمَاءِ بَرْدٍ. فَغَسَلَ بِه قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ: اِئْتِنِي بِالسَّکِيْنَة. فَذَرَّه فِي قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِه: حُصْهُ، فَحَاصَه وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اجْعَلْهُ فِي کَفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِه فِي کَفَّةٍ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَی الْأَلْفِ فَوْقِي أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ أُمَّتَه وُزِنَتْ بِه لَمَالَ بِهِمْ. ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَکَانِي. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : وَفَرِقْتُ فَرَقاً شَدِيْدًا ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلٰی أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيْتُ، فَأَشْفَقَتْ أَنْ يَکُوْنَ قَدِ الْتُبِسَ بِي فَقَالَتْ: أُعِيْذُکَ بِاﷲِ. فَرَحَّلَتْ بَعِيْرًا لَهَا فَجَعَلَتْنِي عَلَی الرَّحْلِ وَرَکِبَتْ خَلْفِي حَتّٰی بَلَّغَتْنَا إِلٰی أُمِّي فَقَالَتْ: أَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي. وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيْتُ، فَلَمْ يَرُعْهَا ذَالِکَ، وَقَالَتْ: إِنِّي رَأَيْتُ حِيْنَ خَرَجَ مِنِّي يَعْنِي نُوْرًا أَضَائَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُ أَحْمَدَ حَسَنٌ.

4: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب کيف کان أول شأن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 1 /20، الرقم: 13، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /184، الرقم: 17685، والحاکم في المستدرک، 2 /673، الرقم: 4230، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 3 /56، الرقم: 1369، والطبراني في مسند الشاميين، 2 /198، الرقم: 1181، وابن معين في التاريخ (برواية الدارمي)، 3 /57، الرقم: 220، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /465، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /222.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابی حضرت عتبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں ایک شحص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کی (علاماتِ) نبوت کی ابتداء کیسے ہوئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میری رضاعی والدہ (حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا) قبیلہ بنو سعد بن بکر سے تھیں، پس (ایک دن) میں اور ان کا بیٹا (میرا رضاعی بھائی) اپنی بکریوں کے بچے کو چرا رہے تھے، اور ہم نے اپنا زادِ راہ ساتھ نہ لیا تھا، تو میں نے کہا: اے میرے بھائی! جاؤ اور ہماری (رضاعی) ماں سے کچھ کھانے پینے کے لئے لے آؤ۔ پس میرا بھائی گیا اور میں بکریوں کے بچوں کے پاس ہی ٹھہرا رہا، اُسی دوران دو سفید پرندے آئے (ضخامت میں ایسے) گویا وہ گدھ ہوں، اُن میں ایک نے دوسرے سے پوچھا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرے نے کہا: ہاں! پھر وہ پرندے تیزی سے آگے بڑھے اور مجھے پشت کے بل لٹا دیا اور میرا شکم چاک کر کے میرا دل نکالا، پھر اُسے چاک کیا اور اس میں سے دو سیاہ دانے نکالے، پس اُن میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ٹھنڈا پانی لاؤ۔ پھر اس پانی کے ساتھ اس نے میرا پیٹ دھویا۔ پھر کہا: ٹھنڈا پانی لاؤ، اور اس سے میرا دل دھویا۔ پھر کہا: سکینہ لاؤ، اور اسے میرے دل میں چھڑکا۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: اب شکمِ اقدس کو دوبارہ سی دو، تو اُس نے اُسے دوبارہ سی دیا، اور اس پر ختم نبوت کی مہر لگائی۔ پھر اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اِنہیں ترازو کے ایک پلڑے میں اور اِن کی اُمت میں سے ہزار اُمتیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اُن ہزار اُمیتوں کو (ترازوں کے پلڑے میں اُن کے ہلکے ہونے کی وجہ سے) دیکھ رہا تھا اور خدشہ محسوس کر رہا تھا کہ اُن میں سے بعض میرے اُوپر نہ گر جائیں۔ پس اس (فرشتہ) نے کہا: اگر ان کی ساری اُمت کا ان کے ساتھ وزن کیا جاتا تو بھی یہ اُن پر بھاری ہوتے۔ پھر وہ دونوں (فرشتے) چلے گئے اور مجھے وہیں چھوڑ دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں سخت گھبرا گیا اور میں اپنی رضاعی والدہ کے پاس چلا گیا، اور جو واقعہ میرے ساتھ پیش آیا تھا انہیں بتایا تو وہ بھی ڈر گئیں کہ شاید مجھے کوئی جن وغیرہ چمٹ گیا ہے، تو انہوں نے کہا: میں تجھے اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں، انہوں نے اُسی وقت اپنے اونٹ پر کجاوہ رکھا اور مجھے اُس کجاوے میں بٹھا کر خود میرے پیچھے سوار ہو گئیں (اور مکہ کی طرف چل پڑیں) یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں اپنی والدہ (سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا) کے پاس پہنچا دیا اور میری والدہ سے کہا: میں نے اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ اور پھر وہ واقعہ بھی بیان کیا جو میرے ساتھ پیش آیا تھا، لیکن اس واقعہ نے میری والدہ کو بالکل خوفزدہ نہ کیا اور انہوں نے فرمایا: اس وقت جب یہ میرے بطن سے پیدا ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن سے ایک ایسا نور نمودار ہوا ہے، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے تھے۔‘‘رمی، احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: امام احمد کی اسناد حسن ہے۔۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved