حسنین کریمین علیہما السلام کے فضائل و مناقب

حصہ اول

فصل 1: تسمية النبي ﷺ الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ کا اپنے شہزادوں کا نام حسن و حسین علیہما السلام رکھنا)

1. عن علی رضی الله عنه قال : لما ولد حسن سماه حمزة، فلما ولد حسين سماه بإسم عمه جعفر. قال : فدعاني رسول اللہ ﷺ و قال : إني اُمرت أن أغير إسم هٰذين. فقلت : ألله و رسوله أعلم، فسماهما حسنا و حسيناً.

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 159
2. ابو يعلي، المسند، 1 : 384، رقم : 498
3. حاکم، المستدرک، 4 : 308، رقم : 7734
4. مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 352، رقم : 734
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 7 : 116
7. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 247
8. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 399، رقم : 1323

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو اس کا نام حمزہ رکھا اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکھا. (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) مجھے نبی اکرم ﷺ نے بلا کر فرمایا : مجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ پس آپ ﷺ نے ان کے نام حسن و حسین رکھے۔‘‘

2. عن سلمان رضي الله عنه قال : قال النبي ﷺ : سميتهما يعني الحسن والحسين باسم ابني هارون شبرا و شبيرا.

1. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 263، رقم : 6168
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52
3. ديلمي، الفردوس، 2 : 339، رقم : 3533
4. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 563

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے ان دونوں یعنی حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

3. عن سالم رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : اني سميت ابني هذين حسن و حسين بأسماء ابني هارون شبر و شبير.

1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 774، رقم : 1367
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 379، رقم : 32185
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 97، رقم : 2777

’’حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے ان دونوں بیٹوں حسن اور حسین کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

4. عن عکرمة قال : لما ولدت فاطمة الحسن بن علی جاءت به الی رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فسماه حسنا، فلما ولدت حسينا جاء ت به الى رسول اللہ ﷺ فقالت : يا رسول اللہ صلى اللہ عليک وسلم! هذا أحسن من هذا تعني حسينا فشق له من اسمه فسماه حسينا.

1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 335، رقم : 7981
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 119
3. ذهبي، سير أعلام النبلا، 3 : 48
4. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 224

’’حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حسن بن علی علیہما السلام کی ولادت ہوئی تو وہ انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لائیں، لہٰذا آپ ﷺ نے ان کا نام حسن رکھا اور جب حسین کی ولادت ہوئی تو انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لا کر عرض کیا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! یہ (حسین) اس (حسن) سے زیادہ خوبصورت ہے لہٰذا آپ ﷺ نے اس کے نام سے اخذ کرکے اُس کا نام حسین رکھا۔‘‘

5. عن جعفر بن محمد عن ابيه أن النبي ﷺ اشتق اسم حسين من حسن و سمي حسنا و حسينا يوم سابعهما.

1. محب طبري، ذخائر العقبیٰ، 1 : 119
2. دولابی، الذرية الطاهره، 1 : 85، رقم : 146

’’حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسین کا نام حسن سے اخذ کیا اور آپ ﷺ نے دونوں کے نام حسن اور حسین علیہما السلام ان کی پیدائش کے ساتویں دن رکھے۔

6. عن علی بن ابی طالب رضی الله عنه قال : لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا فقال : بل هو حسن فلما ولدت الحسين جاء رسول اللہ ﷺ فقال : أروني ابني ما سميتموه؟ قال : قلت : سميته حربا قال : بل هو حسين ثم لما ولدت الثالث جاء رسول اللہ ﷺ قال : أروني ابني ما سميتموه؟ قلت : سميته حربا. قال : بل هو محسن. ثم قال : إنما سميتهم بإسم ولد هارون شبر و شبير و مشبر.

1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4773
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118، رقم : 935
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 410، رقم : 6985
4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 96، رقم : 2773، 2774
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 52
6. عسقلاني، الاصابه، 6 : 243، رقم : 8296

عسقلانی نے اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

7. بخاری، الادب المفرد، 1 : 286، رقم : 823

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسن ہے پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔‘‘

فصل 2: الحسن والحسين من أسماء الجنة حجبهما اللہ

(حسن اور حسین جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حجاب میں رکھا)

7. عن المفضل قال : إن اللہ حجب اسم الحسن والحسين حتي سمي بهما النبي ﷺ ابنيه الحسن والحسين.

1. نبهاني، الشرف المؤبد : 424
2. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 162، رقم : 118
3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 13

’’مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔‘‘

8. عن عمران بن سليمان قال : الحسن و الحسين اسمان من أسماء أهل الجنة لم يکونا في الجاهلية.

1. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 68، رقم : 99
2. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه : 192
3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 25
4. مناوي، فيض القدير، 1 : 105

’’عمران بن سليمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جو کہ دورِ جاہلیت میں پہلے کبھی نہیں رکھے گئے تھے۔‘‘

فصل 3: قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : الحسن والحسين هما أبناي

(حضور ﷺ نے فرمایا : حسنین کریمین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں)

9. عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما قال : رأيت رسول اللہ ﷺ أخذ بيد الحسن والحسين و يقول : هذان أبناي.

1. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 284
2. ديلمي، الفردوس، 4 : 336، رقم : 6973
3. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 124

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘

10. عن فاطمة سلام اللہ عليها قالت : أن رسول اللہ ﷺ أتاها يوما. فقال : أين ابناي؟ فقالت : ذهب بهما علي، فتوجه رسول اللہ ﷺ فوجدهما يلعبان في مشربة و بين أيدهما فضل من تمر. فقال : يا علیّ! ألا تقلب ابني قبل الحر.

1. حاکم، المستدرک، 3 : 180، رقم : 4774
2. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 104، رقم : 193

’’سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا : علی رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے گئے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ ان کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔‘‘

11. عن المسيب بن نجبة قال : قال علیّ بن أبي طالب : قال النبي ﷺ : إن کل نبي اعطي سبعة نجباء أو نقباء، و أعطيت أنا أربعة عشر. قلنا : من هم؟ قال : أنا و أبناي و جعفر و حمزة و أبوبکر و عمر و مصعب بن عمير و بلال و سلمان والمقداد و حذيفة و عمار و عبد اللہ بن مسعود.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 123، کتاب المناقب، رقم : 3785
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 142، رقم : 1205
3. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 189، رقم : 244
4. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 215، رقم : 6047
5. ابن موسي، معتصر المختصر، 2 : 314
6. طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 1 : 225، رقم : 7، 8
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب في معرفة الاصحاب، 3 : 1140
8. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 390
9. ابن احمد خطيب، وسيلة الاسلام، 1 : 77

’’مسیب بن نجبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر نبی کو سات نجیب یا نقیب عطا کئے گئے جبکہ مجھے چودہ عطا کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتایا : میں، میرے دونوں بیٹے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم۔‘‘

12. عن علی رضی الله عنه قال : ان اللہ جعل لکل نبی سبعة نجباء و جعل لنبينا أربعة عشر، منهم : أبوبکر و عمر و علیّ و الحسن والحسين و حمزة و جعفر و أبوذر و عبداللہ بن مسعود و المقداد و عمار و سلمان و حذيفة و بلال.

1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 484، رقم : 6957
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 228، رقم : 276
3. دارقطني، العلل، 3 : 262، رقم : 395
4. ابن جوزي، العلل المتناهية، 1 : 282، رقم : 455

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کے سات نجباء بنائے جبکہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کو چودہ نجیب عطا کئے۔ ان میں ابوبکر، عمر، علی، حسن، حسین، حمزہ، جعفر، ابوذر، عبداللہ بن مسعود، مقداد، عمار، سلمان، حذیفہ اور بلال رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔‘‘

فصل 4: الحسن و الحسين عليهما السلام أهل البيت

(حسنین کریمین علیہما السلام اہل بیت ہیں)

13. عن أم سلمة رضی اللہ عنها أن رسول اللہ ﷺ جمع فاطمة و حسنا و حسينا ثم أدخلهم تحت ثوبه ثم قال : اللهم هؤلاء أهل بيتي.

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 53، رقم : 2663
2. طبراني، المعجم الکبير، 23 : 308، رقم : 696
3. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، 2 : 266
4. حاکم، المستدرک، 3 : 158، رقم : 4705
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8
6. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 486

’’ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘

14. عن سعد بن ابي وقاص رضی اللہ عنه قال : لما نزلت هذه الاية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ) دعا رسول اللہ ﷺ : عليا و فاطمة و حسنا و حسينا فقال : اللهم هؤلاء اهلي.

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1871، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2404
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 225، کتاب تفسير القرآن، رقم : 2999
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 185، رقم : 1608
4. حاکم، المستدرک، 3 : 163، رقم : 4719
5. بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 63، رقم : 13170
6. دورقي، مسند سعد، 1 : 51، رقم : 19
7. محب طبري، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 25

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘

15. عن ابي سعيد الخدري رضی اللہ عنه في قوله (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قال : نزلت في خمسة في رسول اللہ ﷺ و علي و فاطمة والحسن والحسين.

(15) 1. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 80، رقم : 3456
2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 23، رقم : 325
3. ابن حيان، طبقات المحدثين، 3 : 384
4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 278
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 6

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’اے نبی کے گھر والو! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : یہ آیت مبارکہ ان پانچ ہستیوں کے بارے میں نازل ہوئی : حضور نبی اکرم، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام۔‘‘

فائدہ : انہی پانچ ہستیوں کی متذکرہ تخصیص کے باعث عامۃ المسلمین میں ’’پنج تن‘‘ کی اِصطلاح مشہور ہے۔ جو شرعاً درست ہے اس میں کوئی مبالغہ یا اعتقادی غلو ہرگز نہیں۔

فصل 5: النبي ﷺ هو عصبتهما و وليهما و أبوهما

(حضور نبی اکرم ﷺ ہی حسنین کریمین علیہما السلام کا نسب، ولی اور باپ ہیں)

16. عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه قال : سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : کل بني انثي فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمة، فإني أنا عصبتهم و أنا أبوهم.

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2631
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 224
3. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 139
4. صنعاني، سبل السلام، 4 : 99

اس روایت میں بشر بن مہران کو ابن حبان نے ’(الثقات، 8 : 140)‘ میں ثقہ شمار کیا ہے۔

5. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 144، رقم : 1314
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 121

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہر عورت کے بیٹوں کی نسبت ان کے باپ کی طرف ہوتی ہے ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، کہ میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘

17. عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه قال : سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : کل سبب و نسب منقطع يوم القيامة ما خلا سببي و نسبي کل ولد أب فان عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمه فإني أنا ابوهم و عصبتهم.

1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 626، رقم : 1070
2. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 145، رقم : 1316
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 169

مختصراً يہ روايت درج ذيل محدثین نے روایت کی ہے :

4. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 164، رقم : 10354
5. بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 64، رقم : 13172
6. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 357، رقم : 6609
7. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2633
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 272

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا. ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولادِ فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔‘‘

18. عن جابر رضی اللہ عنه قال : قال رسول اللہ ﷺ لکل بني أم عصبة ينتمون اليهم إلا إبني فاطمة فأنا و ليهما و عصبتهما.

1. حاکم، المستدرک، 3 : 179، رقم : 4770
2. ابو يعلیٰ، المسند، 2 : 109، رقم : 6741
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2632
4. سخاوي، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول و ذوي الشرف : 130

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘

19. عن فاطمة الکبري سلام اللہ عليها قالت : قال رسول اللہ ﷺ : لکل بني أنثي عصبة ينتمون إليه إلا ولد فاطمة، فأنا وليهم و أنا عصبتهم.

1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 423، رقم : 1042
2. ابويعلیٰ، المسند، 12 : 109، رقم : 6741
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 224
4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 11 : 285
5. ديلمي، الفردوس، 3 : 264، رقم : 4787
6. مزي، تهذيب الکمال، 19 : 483
7. عجلوني، کشف الخفا، 2 : 157، رقم : 1968

’’سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر عورت کے بیٹوں کا خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں ماسوائے فاطمہ کی اولاد کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘

فصل 6: إن الحسن و الحسين عليهما السلام خير الناس نسباً

(حسنین کریمین علیہما السلام لوگوں میں سے سب سے بہتر نسب والے ہیں)

20. عن ابن عباس رضي اللہ عنهما قال : قال رسول اللہ ﷺ : أيها الناس! ألا أخبرکم بخير الناس جدا و جدة؟ ألا أخبرکم بخير الناس عما و عمة؟ ألا أخبرکم بخير الناس خالا و خالة؟ ألا أخبرکم بخير الناس أباً و أماً؟ هما الحسن و الحسين، جدهما رسول اللہ، و جدتهما خديجة بنت خويلد، و أمهما فاطمة بنت رسول اللہ، و أبوهما علي بن أبي طالب، و عمهما جعفر بن أبي طالب، و عمتهما أم هاني بنت أبي طالب، و خالهما القاسم بن رسول اللہ، و خالاتهما زينب و رقية و أم کلثوم بنات رسول اللہ، جدهما في الجنة و أبوهما في الجنة و أمهما في الجنة، و عمهما في الجنة و عمتهما في الجنة، و خالاتهما في الجنة، و هما في الجنة.

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682
2. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 229
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184
5. هندي، کنز العمال، 12 : 118، رقم : 34278
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 130

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) نانا نانی کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے نہ بتاؤں جو (اپنے) چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو (اپنے) ماموں اور خالہ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو (اپنے) ماں باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسین ہیں، ان کے نانا اللہ کے رسول، ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد، ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہ، ان کے والد علی بن ابی طالب، ان کے چچا جعفر بن ابی طالب، ان کی پھوپھی ام ہانی بنت ابی طالب، ان کے ماموں قاسم بن رسول اللہ اور ان کی خالہ رسول اللہ کی بیٹیاں زینب، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔ ان کے نانا، والد، والدہ، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ (سب) جنت میں ہوں گے اور وہ دونوں (حسنین کریمین) بھی جنت میں ہوں گے۔‘‘

فصل 7: الحسن و الحسين عليهما السلام هما ريحانتاي من الدنيا

(حسنین کریمین علیہما السلام ہی میرے گلشن دُنیا کے پھول ہیں)

21. عن ابن ابي نعم : سمعت عبداللہ ابن عمر رضي اللہ عنهما و سأله عن المحرم، قال شعبة : أحسبه بقتل الذباب، فقال : أهل العراق يسألون عن الذباب و قد قتلوا ابن ابنة رسول اللہ ﷺ، و قال النبي ﷺ : هما ريحا نتاي من الدنيا.

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1371، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 3543
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 85، رقم : 5568
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 425، رقم : 6969
4. طيالسي، المسند، 1 : 260، رقم : 1927
5. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 70
6. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 7 : 168
7. بيهقي، المدخل، 1 : 54، رقم : 129

’’ابن ابونعم فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں (محرم کے) مکھی مارنے کے بارے میں پوچھا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اہل عراق مکھی مارنے کا حکم پوچھتے ہیں حالانکہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے نواسے (حسین) کو شہید کر دیا تھا اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : وہ دونوں (حسن و حسین علیہما السلام) ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘

22. عن عبدالرحمن بن ابی نعم : أن رجلا من أهل العراق سأل ابن عمر رضي اللہ عنهما عن دم البعوض يصيب الثوب؟ فقال ابن عمر رضي اللہ عنهما : انظروا إلي هذا يسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن رسول اللہ ﷺ، و سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : ان الحسن و الحسين هما ريحانتي من الدنيا.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3770
2. بخاري، الصحيح، 5 : 2234، کتاب الادب، رقم : 5648
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 50، رقم : 8530
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 93، رقم : 5675
5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 114، رقم : 5940
6. ابو يعلیٰ، المسند، 10 : 106، رقم : 5739
7. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 127، رقم : 2884
8. حکمي، معارج القبول، 3 : 1201

’’حضرت عبدالرحمن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ ایک عراقی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس کی طرف دیکھو، مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھتا ہے حالانکہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بیٹے (حسینں) کو شہید کیا ہے اور میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین ہی تو میرے گلشن دُنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘

23. عن أبي أيوب الأنصاري رضی اللہ عنه قال : دخلت علي رسول اللہ ﷺ والحسن والحسين عليهما السلام يلعبان بين يديه أو في حجره، فقلت : يا رسول اللہ صلى اللہ عليک وسلم أتحبهما؟ فقال : و کيف لا أحبهما وهما ريحانتي من الدنيا أشمهما.

1. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 155، رقم : 3990
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
3. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 99
4. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 6 : 32
5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 282

’’حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ ﷺ کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم : کیا آپ ﷺ ان سے محبت کرتے ہیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشن دُنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک کو سونگھتا رہتا ہوں (اُنہی پھولوں کی خوشبو سے کیف و سرور پاتا ہوں)۔‘‘

فصل 8: تأذين النبي ﷺ في أُذن الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ کا حسنین کریمین علیہما السلام کے کانوں میں اَذان کہنا)

24. عن أبي رافع رضي الله عنه : أن النبي ﷺ أذن في أذن الحسن والحسين عليهما السلام حين ولدا.

1. روياني، المسند، 1 : 429، رقم : 708
2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 313، رقم : 926
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 31، رقم : 2579
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 60
5. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 392، رقم : 2713
6. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 230
7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 100

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے خود ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘

25. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اللہ ﷺ اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 97، کتاب الاضاحي، رقم : 1514
2. ابوداؤد، السنن، 4 : 328، کتاب الادب، رقم : 5105
3. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 391
4. روياني، المسند، 1 : 455، رقم : 682
5. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 315، رقم : 931
6. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 336، رقم : 7986
7. بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ کے ہاں حسن بن علی کی ولادت ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان دی۔‘‘

26. عن ابي رافع رضي الله عنه قال : رايت رسول اللہ ﷺ اذن في اذن الحسين حين ولدته فاطمة. هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه.

1. حاکم، المستدرک، 3 : 197، رقم : 4827

حاکم نے اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی۔

2. عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 149، رقم : 1985
3. ابن ملقن انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 391، رقم : 2713
4. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 229

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے فاطمہ کے ہاں حسین کی ولادت پر ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘

فصل 9: عقيقة النبي ﷺ عن الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ کا حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف سے عقیقہ کرنا)

27. عن ابن عباس رضي اللہ عنهما : أن رسول اللہ ﷺ عق عن الحسن و الحسين کبشاً کبشاً.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 3 : 107، کتاب الصحايا، رقم : 2841
2. ابن جارود، المنتقي، 1 : 229، رقم : 12 - 911
3. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 302
4. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 316، رقم : 11856
5. ابن عبدالبر، التمهيد، 4 : 314
6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 151، رقم : 5302
7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 97
8. ابن رشد، بداية المجتهد، 1 : 339
9. ابن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 276

28. عن أنس رضي اللہ عنه : أن النبي ﷺ عق عن الحسن و الحسين بکبشين.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین کی طرف سے دو دنبے عقیقہ کے لئے ذبح کئے۔‘‘

1. ابويعلي، المسند، 5 : 323، رقم : 2945
2. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 246، رقم : 1878
3. مقدسي، الاحاديث المختاره، 7 : 85، رقم : 2490
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 57
5. وادياشي، تحفة المحتاج، 2 : 538، رقم : 1701

29. عن ابن عباس رضي اللہ عنهما قال : عق رسول اللہ ﷺ عن الحسن و الحسين بکبشين کبشين.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح کئے۔‘‘

1. نسائی، السنن، 7 : 165، کتاب العقيقه، رقم : 4219
2. نسائي، السنن الکبري، 3 : 76، رقم : 4545
3. سيوطي، تنوير الحوالک، 1 : 335، رقم : 1071
4. زرقاني، شرح الموطا، 3 : 130
5. شوکاني، نيل الاوطار، 5 : 227
6. مبارکپوري، تحفة الاحوذی، 5 : 87
7. صنعاني، سبل السلام، 4 : 98

30. عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن النبي ﷺ عق عن الحسن و الحسين، عن کل واحد منهما کبشين اثنين مثلين متکافئين.

’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ہی جیسے دو دو دنبے عقیقہ میں ذبح کئے۔‘‘

حاکم، المستدرک، 4 : 265، رقم : 7590

31. عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت : عق رسول اللہ ﷺ عن حسن شاتين و عن حسين شاتين، ذبحهما يوم السابع.

’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح کیں۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 330، رقم : 7963
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 58
3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 127، رقم : 5311
4. وادياشي، تحفة المحتاج، 2 : 537، رقم : 1700
5. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 260، رقم : 1056
6. دولابي، الذرية الطاهرة، 1 : 85، رقم : 148

32. عن علي رضي الله عنه أن رسول ﷺ عق عن الحسن و الحسين.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقہ کیا۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 29، رقم : 2572
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 58

فصل 10: الحسن والحسين عليهما السلام کانا أشبه بالنبي ﷺ

(حسنین کریمین علیہما السلام . . . سراپا شبیہ مصطفیٰ ﷺ تھے)

33. عن علي رضي الله عنه قال : الحسن أشبه برسول اللہ ﷺ ما بين الصدر إلي الراس، والحسين أشبه بالنبي ﷺ ما کان أسفل من ذلک.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن سینہ سے سر تک رسول اللہ ﷺ کی کامل شبیہ تھے اور حسین سینہ سے نیچے تک حضور ﷺ کی کامل شبیہ تھے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 660، ابواب المناقب، رقم : 5779
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 99، رقم : 774
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 430 : رقم : 6974
4. طيالسي، المسند، 1 : 91، رقم : 130
5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 774، رقم : 1366
6. مقدسي، الاحاديث المختارة، 2 : 394، رقم : 780، 781
7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 553، رقم : 2235
8. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763
9. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 250

34. عن علي رضی الله عنه، قال : من سره أن ينظر الي أشبه الناس برسول اللہ ﷺ ما بين عنقه الي وجهه فلينظر إلي الحسن بن علي، و من سره أن ينظر إلي أشبه الناس برسول اللہ ﷺ ما بين عنقه الي کعبه خلقا و لونا فلينظر إلي الحسين بن علي.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے چہرے تک حضور نبی اکرم ﷺ کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسن بن علی کو دیکھ لے اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگت اور صورت دونوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔‘‘

طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 95، رقم : 2768، 2759

35. عن انس رضی الله عنه قال : کان الحسن و الحسين أشبههم برسول اللہ ﷺ .

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔‘‘

عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 77، رقم : 1726

36. عن محمد بن الضحاک الحزامي قال : کان وجه الحسن بن علي يشبه وجه رسول اللہ ﷺ و کان جسد الحسين يشبه جسد رسول اللہ ﷺ .

’’محمد بن ضحاک حزامی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی علیہما السلام کا چہرہ مبارک حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرۂ اقدس کی شبیہ تھا اور حسین کا جسم مبارک حضور نبی اکرم ﷺ کے جسم اقدس کی شبیہ تھا۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 127

فصل 11: يرث الحسن والحسين عليهما السلام أوصاف النبي ﷺ

(حسنین کریمین علیہما السلام . . . وارثان اوصافِ مصطفیٰ ﷺ )

37. عن فاطمة بنت رسول اللہ ﷺ : أنها أتت بالحسن والحسين أباها رسول اللہ ﷺ في شکوة التي مات فيها، فقالت : تورثهما يا رسول اللہ شيئاً. فقال : أما الحسن فله هيبتي و سؤددي و أما الحسين فله جراتي و جودي.

’’سیدہ فاطمہ صلوات اللہ علیھا سے روایت ہے کہ وہ اپنے بابا حضور رسول اکرم ﷺ کے مرض الوصال کے دوران حسن اور حسین کو آپ ﷺ کے پاس لائیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسن میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا۔‘‘

1. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 299، رقم : 408
2. شيباني، الآحاد والمثاني، 5 : 370، رقم : 2971
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 423، رقم : 1041
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 185
5. شوکاني، درالسحابه : 310
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 : 129
7. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 560

38. عن أم أيمن رضي الله عنها قالت : جاءَ ت فاطمة بالحسن و الحسين إلي النبي ﷺ، فقالت : يا نبي اللہ صلى اللہ عليک وسلم! انحلهما؟ فقال : نحلت هذا الکبير المهابة والحلم، و نحلت هذا الصغير المحبة والرضي.

’’حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حسنین کریمین علیہما السلام کو ساتھ لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! ان دونوں بیٹوں حسن و حسین کو کچھ عطا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے اس بڑے بیٹے (حسن) کو ہیبت و بردباری عطا کی اور چھوٹے بیٹے (حسین) کو محبت اور رضا عطا کی۔‘‘

1. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 280، رقم : 6829
2. هندي، کنز العمال، 13 : 760، رقم : 37710

39. عن زينب بنت أبي رافع : أتت فاطمة بابنيها إلي رسول اللہ ﷺ في شکواه الذي توفي فيه، فقالت لرسول اللہ ﷺ : هذان ابناک فورثهما شيئا. قال : أما حسن فان له هيبتي و سؤددي، و أما حسين فإن له جراتي و جودي.

’’حضرت زینب بنت ابی رافع سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضور ﷺ کے مرض الوصال کے دوران اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یہ آپ کے بیٹے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حسن کے لئے میری ہیبت و سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری جرات و سخاوت کی وراثت۔‘‘

1. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299، رقم : 615
2. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 7 : 674، رقم : 11232
3. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 400

40. عن أبي رافع رضي الله عنه قال : جاء ت فاطمة بنت رسول اللہ ﷺ بحسن و حسين إلي رسول اللہ ﷺ في مرضه الذي قبض فيه، فقالت : هذان ابناک فورثهما شيئا. فقال لها : أما حسن فان له ثباتي و سؤددي، و أما حسين فان له حزامتي و جودي.

’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضور نبی اکرم ﷺ کے مرض الوصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض پرداز ہوئیں : یہ آپ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حسن کے لئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 222
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 185

فصل 12: الحسن و الحسين عليهما السلام سيدا شباب أهل الجنة

(حسنین کریمین علیہما السلام تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں)

41. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ ﷺ : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3768
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 50، رقم : 8169
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 412، رقم : 6959
4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 3، رقم : 11012
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32176
6. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 347، رقم : 2190
7. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 10، رقم : 5644
8. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4778
9. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 551، رقم : 2228

10. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 201)‘ میں اس کے رواۃ کو صحیح قرار دیا ہے۔

11. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 5 : 489
12. نسائي، خصائص علي، 1 : 142، رقم : 129
13. حکمي، معارج القبول، 3 : 1200

42. عن حذيفة رضي الله عنه قال : سألتني أمي : متي عهدک تعني بالنبي ﷺ فقلت : ما لي به عهد منذ کذا و کذا، فنالت مني، فقلت لها : دعيني آتي النبي ﷺ فأصلي معه المغرب و أسأله أن يستغفرلي ولک، فأتيت النبي ﷺ، فصليت معه المغرب، فصلي حتي صلي العشاء ثم أنفتل فتبعته فسمع صوتي فقال : من هذا؟ حذيفة! قلت : نعم، قال : ما حاجتک؟ غفر اللہ لک ولأمک. قال : ان هذا ملک لم ينزل الأرض قط قبل هذه الليلة، استأذن ربه أن يسلم علي و يبشرني بأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة و أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری کا میرا معمول کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنے دنوں سے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ وہ مجھ سے ناراض ہوئیں۔ میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ابھی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں، ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھوں گا اور ان سے عرض کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ پس میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نوافل ادا فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی پھر حضور نبی اکرم ﷺ گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں آپ ﷺ کے پیچھے چلنے لگا۔ آپ ﷺ نے میری آواز سنی تو فرمایا یہ کون ہے؟ حذیفہ! میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پوچھا تمہاری کیا حاجت ہے؟ اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری ماں کو بخش دے پھر فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو اس سے پہلے دنیا میں کبھی نہیں اترا۔ اس نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ مجھ پر سلام عرض کرے اور مجھے بشارت دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 660، ابواب المناقب، رقم : 3781
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 413، رقم : 6960
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 80، رقم : 8298
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 391، رقم : 23377
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32177
6. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 37، رقم : 2606
7. حاکم، المستدرک، 3 : 439، رقم : 5630
8. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 551، رقم : 2229
9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 183
10. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 560

43. عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ ﷺ : الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32179
2. بزار، المسند، 3 : 102، رقم : 885
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 36، رقم : 3601
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 4182

4. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : نحن ولد عبدالمطلب سادة أهل الجنة : أنا و حمزة و علي و جعفر والحسن والحسين والمهدي.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم عبدالمطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہیں جن میں میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی شامل ہیں۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، 2 : 1368، کتاب الفتن، رقم : 4087
2. حاکم، المستدرک، 3 : 233، رقم : 4940
3. ابن حيان، طبقات المحدثين بأصبهان، 2 : 290، رقم : 177
4. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 204، رقم : 1452
5. ديلمي، الفردوس، 1 : 53، رقم : 142
6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 7 : 283، رقم : 544
7. مزي، تهذيب الکمال، 5 : 53

45. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أن النبي ﷺ قال : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 35، رقم : 2598

طبرانی نے ’المعجم الاوسط (5 : 243، رقم : 5208)‘ میں حضرت اُسامہ بن زید سے مروی حدیث بھی بیان کی ہے۔

2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 132
3. هثيمي، مجمع الزوائد، 9 : 182

46. عن ابن عمر رضي اللہ عنهما قال : قال رسول اللہ ﷺ : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، 1 : 44، باب فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ، رقم : 118
2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4780
3. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 133
4. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 20، رقم : 48
5. ذهبي، ميزان الاعتدال، 6 : 474

47. عن الحسين بن علي رضي اللہ عنهما قال سمعت جدي رسول اللہ ﷺ يقول : لا تسبوا الحسن والحسين، فانهما سيدا شباب أهل الجنة من الأولين والأخرين.

’’حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنے نانا حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : حسن اور حسین کو گالی مت دینا کیونکہ وہ پہلی اور پچھلی تمام امتوں کے جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 131

2. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 184)‘ میں اِسے مختصراً روایت کیا ہے۔

3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 118، رقم : 366
4. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابه والصحابه : 301

48. عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما قال : قال رسول اللہ ﷺ : الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4779
2. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 58
3. ابن عساکر، تاريخِ دمشق الکبير، 14 : 133

49. عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اللہ ﷺ قال : إن ملکا من السماء لم يکن زارني، فأستأذن اللہ عزوجل في زيارتي، فبشرني أن الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آسمان کے ایک فرشتے نے (اس سے پہلے) میری زیارت کبھی نہیں کی تھی، اس نے میری زیارت کے لئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 36، رقم : 2604
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 146، رقم : 8515
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 183
4. مزي، تهذيب الکمال، 26 : 391
5. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 167
6. ذهبي، ميزان الاعتدال، 6 : 329

50. عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما قال : قال رسول اللہ ﷺ : خير شبابکم الحسن و الحسين.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے جوانوں میں سے سب سے بہتر (جوان) حسن اور حسین ہیں۔‘‘

1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 391، رقم : 2280
2. هندي، کنز العمال، 12 : 102، رقم : 34191
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 167

فصل 13: الحسن و الحسين عليهما السلام طهرهما اللہ تطهيرا

(اللہ تعالیٰ نے حسنین کریمین علیہما السلام کو کمالِ تطہیر کی شانِ عظیم سے نواز دیا)

51. عن صفية بنت شيبة قالت : قالت عائشة رضي الله عنها : خرج النبي ﷺ غداة و عليه مرط مرحل من شعر أسود. فجاء الحسن بن علي فأدخله، ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاء ت فاطمة فأدخلها، ثم جاء علي فأدخله، ثم قال : (إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت و يطهرکم تطهيرا).

’’حضرت صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ ﷺ نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاؤوں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حسن بن علی علیہما السلام آئے تو آپ ﷺ نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا پھر حسین آئے اور آپ کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں، آپ ﷺ نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا، پھر علی آئے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دور کر دے اور تم کو کمال درجہ طہارت سے نواز دے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1883، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2424
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 370، رقم : 36102
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 672، رقم : 149
4. ابن راهويه، المسند، 3 : 678، رقم : 1271
5. حاکم، المستدرک، 3 : 159، رقم : 4705
6. بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 149
7. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 6، 7
8. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 529
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 485
10. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 6 : 605
11. مبارک پوري، تحفة الأحوذي، 9 : 49

52. عن ام سلمة رضي الله عنها قالت : قال رسول اللہ ﷺ : ألا! لا يحل هذا المسجد لجنب و لا لحائض إلا لرسول اللہ و علي و فاطمة و الحسن و الحسين. ألا! قد بينت لکم الأسماء أن لا تضلوا.

’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خبردار! یہ مسجد کسی جنبی اور حائضہ (عورت) کے لئے حلال نہیں، سوائے رسول اللہ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔ ان برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ کسی کے لئے مسجد نبوی میں آنا جائز نہیں، آگاہ ہو جاؤ! میں نے تمہیں نام بتا دیئے ہیں تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 65، رقم : 13178، 13179
2. هندي، کنز العمال، 12 : 101، رقم : 34183
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 166
4. ابن کثير، فصول من السيرة، 1 : 273
5. سيوطي، خصائص الکبري، 2 : 424

53. عن عمر بن أبي سلمة ربيب النبي ﷺ قال : لما نزلت هذه الآية علي النبي ﷺ (اِنَّمَا يرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا). في بيت أم سلمة، فدعا فاطمة و حسنا و حسينا، فجللهم بکساء، و علي خلف ظهره فجلله بکساء، ثم قال : اللهم! هؤلاء أهل بيتي، فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهيرا.

’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ جب ام سلمہ کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 351، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3205
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8
3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 17
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 21

54. عن ام سلمة رضي الله عنها ان النبي ﷺ ! جلل علي الحسن و الحسين و علي و فاطمة کساء ثم قال : اللهم هؤلاء اهل بيتي و خاصتي اذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهيرا.

’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہم پر چادر پھیلائی اور فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت اور مقرب ہیں، ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں اچھی طرح پاکیزگی و طہارت سے نواز دے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 699، کتاب المناقب، رقم : 3871
2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 304، رقم : 26639
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 54، رقم : 2668
4. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 22 : 8
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 485
6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 297

فصل 14: قال النبي ﷺ : من أحبني فليحب هذين

(حضور ﷺ نے فرمایا : جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے)

55. عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما قال : قال النبي ﷺ : من أحبني فليحب هذين.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے مجھ سے محبت کی، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔‘‘

1. نسائي، السنن الکبري، 5 : 50، رقم : 8170
2. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 67
3. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 48، رقم : 887
4. بزار، المسند، 5 : 226، رقم : 1834
5. شاشي، المسند، 2 : 113، رقم : 638
6. ابويعلیٰ، المسند، 9 : 250، رقم : 5368
7. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
8. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 17

56. عن ابن عباس رضي اللہ عنهما قال : لما نزلت (قُلْ لَا أَسْألُکُمْ عَلَيْهِ أجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی) قالوا : يا رسول اللہ صلى اللہ عليک وسلم! ومن قرابتک هؤلاء الذين و جبت علينا مودتهم؟ قال : علي و فاطمة و أبناهما.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچھ صلہ نہیں چاہتا بجز اہل قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ کے وہ کون سے قرابت دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2641
2. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 444، رقم : 12259
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 103

57. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول اللہ ﷺ يقول في الحسن والحسين : من أحبني فليحب هذين.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حسن اور حسین علیہما السلام کے متعلق فرماتے ہوئے سنا : جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے۔‘‘

1. طيالسي، المسند، 1 : 327، رقم : 2052
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180

58. عن زر بن جيش قال : قال النبي ﷺ : من أحبني فليحب هذين.

’’حضرت زر بن جیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت رکھنا واجب ہے۔‘‘

1. ابن ابي شيبه، المصنف : 6 : 378، رقم : 32174
2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237

فصل 15: من أحب الحسن والحسين عليهما السلام فقد أحبني

(جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی)

59. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ ﷺ : من أحب الحسن والحسين فقد أحبني.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، باب في فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ، 1 : 51، رقم : 143
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 49 : رقم : 8168
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 288، رقم : 7863
4. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 102، رقم : 4795
5. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2645
6. ابو يعلي، المسند، 11 : 78، رقم : 2615
7. ابويعلي، المسند، 11 : 78 : رقم : 6215
8. ابن راهويه، المسند، 1 : 248، رقم : 211
8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 65
9. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 21، رقم : 52
10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 141

60. عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنهما أن النبي ﷺ قال للحسن والحسين : من أحبهما فقد أحبني.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن و حسین علیہما السلام کے لئے فرمایا : جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘

1. بزار، المسند، 5 : 217، رقم : 1820
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180
3. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 254، 284
4. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 763

ہیثمی نے اس کی اسناد کو درست قرار دیا ہے۔

61. عن أبی حازم قال : شهدت حسينا حين مات الحسن و هو يدفع في قفا سعيد بن العاص و هو يقول : تقدم، فلولا السنة ما قدمتک، و سعيد امير علي المدينة يومئذ، قال : فلما صلوا عليه قام أبوهريرة فقال : أتنفسون علي ابن نبيکم تربة يدفنونه فيها، ثم قال : سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : من أحبهما فقد أحبني.

’’ابوحازم بیان کرتے ہیں : میں حسن کی شہادت کے وقت حسین کے پاس حاضر تھا وہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو گردن سے پکڑ کر آگے کرتے ہوئے کہہ رہے تھے : (نماز جنازہ پڑھانے کے لئے) آگے بڑھو، اگر سنت مصطفیٰ ﷺ نہ ہوتی تو میں آپ کو آگے نہ کرتا، اور سعید ان دنوں مدینہ کے امیر تھے۔ جب سب نے نمازِ جنازہ ادا کر لی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اُنہوں نے فرمایا : تم کس دل سے اپنے نبی کے صاحبزادے کو زمین میں دفنا کر ان پر مٹی ڈالو گے اور ساتھ انہوں نے (غم میں ڈوب کر) یہ بھی کہا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے ان سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 71، رقم : 6369
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 531
3. حاکم، المستدرک، 3 : 187، رقم : 4799
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 28، رقم : 6685
5. ذهبي، سيرأعلام النبلاء، 3 : 276
6. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 260
7. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 254

فصل 16: من أحب الحسن و الحسين عليهما السلام فقد أحبه اللہ

(جس نے حسنین علیہما السلام سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی)

62. عن سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول اللہ ﷺ يقول : من أحبهما أحبني، ومن أحبني أحبه اللہ، ومن أحبه اللہ أدخله الجنة.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی، اور جس سے اللہ نے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل کردیا۔‘‘

حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4776

63. عن سلمان رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ ﷺ للحسن و الحسين : من أحبهما أحببته، ومن أحببته أحبه اللہ، ومن أحبه اللہ أدخله جنات النعيم.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن و حسین علیہما السلام کے لئے فرمایا : جس نے ان سے محبت کی اس سے میں نے محبت کی، اور جس سے میں محبت کروں اس سے اللہ محبت کرتا ہے، اور جس کو اللہ محبوب رکھتا ہے اسے نعمتوں والی جنتوں میں داخل کرتا ہے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2655
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
3. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 307

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved