حسنین کریمین علیہما السلام کے فضائل و مناقب

حصہ دوم

فصل 17: قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : من أحب هذين کان معي يوم القيامة

(حضور ﷺ نے فرمایا : جس نے ان دونوں سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہو گا)

64. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أن رسول الله ﷺ أخذ بيد حسن و حسين، فقال : من أحبني و أحب هذين و أباهما و أمهما کان معي في درجتي يوم القيامة.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 641، ابواب المناقب، رقم : 3733
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 77، رقم : 576
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 693، رقم : 1185
4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2654
5. مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 45، رقم : 421
6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 13 : 287، رقم : 7255
7. دولابي، الذرية الطاهره، 1 : 120، رقم : 234
8. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
9. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258، رقم : 528

65. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال : أنا و فاطمة و حسن و حسين مجتمعون، و من أحبنا يوم القيامة نأکل و نشرب حتي يفرق بين العباد.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں، فاطمہ، حسن، حسین اور جو ہم سے محبت کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ہی مقام پر جمع ہوں گے، ہمارا کھانا پینا بھی اکٹھا ہو گا تاآنکہ لوگ (حساب و کتاب کے بعد) جدا جدا کر دیئے جائیں گے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 41، رقم : 2623
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 227
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 174

66. عن ابن عباس رضي الله عنهما رفعه : أنا شجرة، و فاطمة حملها، و علی لقاحها، والحسن والحسين ثمرتها، والمحبون أهل البيت ورقها، من الجنة حقاً حقا.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’میں درخت ہوں، فاطمہ اس کی ٹہنی ہے، علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں، یہ سب جنت میں ہوں گے، یہ حق ہے حق ہے۔‘‘

1. ديلمي، الفرودس بمأ ثور الخطاب، 1 : 52، رقم : 135
2. سخاوي، استجلاب ارتقاء الغرف بحب اقرباء الرسول ﷺ و ذوي الشرف : 99

فصل 18: قال النبي ﷺ : اللهم إني أحبهما فأحبهما

(حضور ﷺ نے فرمایا : اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر)

67. عن البراء رضي الله عنه قال : أن النبي ﷺ أبصر حسنا و حسينا، فقال : اللهم! إني أحبهما فأحبهما.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا : اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 661، ابواب المناقب، رقم : 3782
2. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 252
3. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 140

ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔

68. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال، قال رسول الله ﷺ : اللهم! اني أحبهما فأحبهما.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 446، رقم : 9758
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 775، رقم : 1371
3. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 378، رقم : 32175
4. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 6951
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180

69. عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنهما : أن النبي ﷺ قال للحسن و الحسين : اللهم! اني أحبهما فأحببهما.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

1. بزار، المسند، 5 : 217، رقم : 1820

2. بزار نے ’المسند (8 : 253، رقم : 3317)‘ میں اسے ابن قرہ سے بھی روایت کیا ہے۔
3. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 180)‘ میں بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل کی ہیں۔
4. شوکانی نے بھی ’درالسحابہ فی مناقب القرابۃ والصحابہ (ص : 305، 306)‘ میں بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل کی ہیں۔

70. عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال، قال النبي ﷺ : اللهم! إني أحبهما فأحبهما و أحب من يحبهما.

’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی: اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔‘‘

1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3769
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 423، رقم : 6967
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 39، رقم : 2618
4. مقدسي، الاحاديث المختاره، 4 : 113، رقم : 1324

71. عن عبدالله بن عثمان بن خثيم يرويه عن النبي ﷺ اخذ رسول الله ﷺ يوما حسنا و حسينا فجعل هذا علي هذا الفخذ و هذا علي هذا الفخذ، ثم اقبل علي الحسن فقبله ثم اقبل علي الحسين فقلبه ثم قال : اللهم! اني أحبهما فأحبهما.

’’عبداللہ بن عثمان بن خثیم حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دن حسنین کریمین علیہما السلام کو پکڑ کر اپنی رانوں پر بٹھایا پھر حسنں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں بوسہ دیا پھر حسینں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں بوسہ دیا، پھر فرمایا : اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

ابن راشد، الجامع، 11 : 140

72. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه أن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول الله ﷺ، فلما جاء أحدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا ثم قبّل هذا، ثم قال : اللهم! إني أحبهما فأحبهما.

’’یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسنین کریمین علیہما السلام حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف چل کر آئے، پس ان میں سے جب ایک پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنا بازو اس کے گلے میں ڈالا، پھر دوسرا پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنا دوسرا بازو اس کے گلے میں ڈالا، بعد ازاں ایک کو چوما اور پھر دوسرے کو چوما اور فرمایا : اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703
3. قصاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26
4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 255

73. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : سئل رسول الله ﷺ : أي أهل بيتک أحب إليک؟ قال : الحسن و الحسين.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : آپ کو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3772
2. ابويعلیٰ، المسند، 7 : 274، رقم : 4294
3. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابه و الصحابه : 301

فصل 19: من أبغض الحسن و الحسين عليهما السلام فقد أبغضني

(جس نے حسنین کریمین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا)

74. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ : من أبغضهما فقد أبغضني.

’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، باب في فضائل اصحاب رسول الله ﷺ، 1 : 51، رقم : 143
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 49 : رقم : 8168
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 288، رقم : 7863
4. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 102، رقم : 4795
5. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2645
6. ابويعلي، المسند، 11 : 78، رقم : 6215
7. ابن راهويه، المسند، 1 : 248، رقم : 211
8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 65
9. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 21، رقم : 52
10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 141

75. عن عبداللہ بن مسعود رضي الله عنهما قال : قال رسول الله ﷺ : من أبغضهما فقد أبغضني.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘

ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 284

76. عن عبداللہ بن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله ﷺ : من أبغضهما فقد أبغضني.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘

ابن عدي، الکامل، 3 : 434

فصل 20: من أبغض الحسن و الحسين عليهما السلام أبغضه اللہ

(جس نے حسنین علیہما السلام سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا)

77. عن سلمان رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله ﷺ يقول : من أبغضهما أبغضني، و من أبغضني أبغضه اللہ، ومن أبغضه اللہ أدخله النار.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں مبغوض ہوا، اُسے اللہ نے آگ میں داخل کر دیا۔‘‘

حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4776

78. عن سلمان رضي الله عنه، قال : قال رسول الله ﷺ للحسن و الحسين من أبغضهما أو بغي عليهما أبغضته، ومن أبغضته أبغضه اللہ، ومن أبغضه اللہ أدخله عذاب جهنم وله عذاب مقيم.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسن و حسین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : جس نے ان سے بغض رکھا یا ان سے بغاوت کی وہ میرے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو میرے ہاں مبغوض ہو گیا وہ اللہ کے غضب کا شکار ہو گیا اور جو اللہ کے ہاں غضب یافتہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے عذاب میں داخل کرے گا (جہاں) اس کے لئے ہمیشہ کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2655
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
3. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه والصحابه : 307

فصل 21: قال النبي ﷺ : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم

(حضور ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ)

79. عن أم سلمة رضي اللہ عنها قالت : جاء ت فاطمة بنت النبي ﷺ إلي رسول الله ﷺ متورکة الحسن و الحسين، في يدها برمة للحسن فيها سخين حتي أتت بها النبي ﷺ فلما وضعتها قدامه، قال لها : أين أبو الحسن؟ قالت : في البيت. فدعاه، فجلس النبي ﷺ و علي و فاطمة و الحسن و الحسين يأکلون، قالت أم سلمة رضي اللہ عنها : وما سامني النبي ﷺ وما أکل طعاما قط إلا و أنا عنده إلا سامنيه قبل ذلک اليوم، تعني سامني دعاني إليه، فلما فرغ التف عليهم بثوبه ثم قال : اللهم عاد من عاداهم و وال من والاهم.

’’اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بنت رسول الله ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کو پہلو میں اٹھائے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور آپ کے ہاتھ میں پتھر کی ہانڈی تھی جس میں حسن کے لئے گرم سالن تھا۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جب اسے حضور ﷺ کے سامنے لا کے رکھا تو آپ ﷺ نے پوچھا : ابوالحسن (علی) کہاں ہے تو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : گھر میں ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں بلایا نبی اکرم ﷺ، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم بیٹھ کر کھانا تناول فرمانے لگے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے مجھے نہ بلایا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے میری موجودگی میں کھانا کھایا ہو اور مجھے نہ بلایا ہو۔ پھر جب آپ ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو ان سب کو اپنے کپڑے میں لے لیا اور فرمایا : اے اللہ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ۔‘‘

1. ابويعلیٰ، المسند، 12 : 383، رقم : 6915
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166
3. حسيني، البيان والتعريف، 1 : 149، رقم : 396

فصل 22: النبي ﷺ حرب لمن حارب الحسن والحسين عليهما السلام

(جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے جنگ کی اس سے حضور ﷺ نے اعلان جنگ فرما دیا)

80. عن زيد بن أرقم رضي اللہ عنه، أن رسول الله ﷺ قال لعلي و فاطمة و الحسن و الحسين رضي الله عنهم : أنا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘

1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 699، ابواب المناقب، رقم : 3870
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 52، رقم : 145
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32181
5. حاکم، المستدرک، 3 : 161، رقم : 4714
6. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 20 - 2619
7. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 184، رقم : 31 - 5030
8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 182، رقم : 5015
9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 555، رقم : 2244
10. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ : 62
11. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 125
12. مزي، تهذيب الکمال، 13 : 112

81. عن زيد بن ارقم رضي الله عنه ان النبي ﷺ قال لفاطمة و الحسن و الحسين : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم (تینوں) سے فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 179، رقم : 2854
3. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 53، رقم : 767

4. ہيثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔

5. هيثمي، موارد الظمآن : 555، رقم : 2244
6. محاملي، الامالي : 447، رقم : 532
7. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 7 : 220

82. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : نظر النبي ﷺ إلي علي و فاطمة و الحسن و الحسين، فقال : أنا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہما السلام کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 442
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 767، رقم : 1350

3. حاکم نے ’المستدرک (3 : 161، رقم : 4713)‘ میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے اس میں کوئی جرح نہیں کی۔

4. طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 2621
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 137
6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 122
7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 58 - 257

8. ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 169)‘ میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی تلیدبن سلیمان میں اختلاف ہے جبکہ اس کے بقیہ رجال حدیث صحیح کے رجال ہیں۔

83. عن أبی بکر الصديق رضي الله عنه قال : رأيت رسول الله ﷺ خيم خيمة و هو متکئ علي قوس عربية و في الخيمة علي و فاطمة والحسن والحسين فقال : معشر المسلمين أنا سلم لمن سالم أهل الخيمة حرب لمن حاربهم ولي لمن والاهم لا يحبهم إلا سعيد الجد طيب المولد ولا يبغضهم إلا شقي الجد ردئ الولادة.

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا اور آپ ﷺ ایک عربی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور خیمہ میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین بھی موجود تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت جو اہل خیمہ سے صلح کرے گا میری بھی اس سے صلح ہو گی جو ان سے لڑے گا میری بھی اس سے لڑائی ہو گی۔ جو ان کو دوست رکھے گا میری بھی اس سے دوستی ہو گی، ان سے صرف خوش نصیب اور برکت والا ہی دوستی رکھتا ہے اور ان سے صرف بدنصیب اور بدبخت ہی بغض رکھتا ہے۔‘‘

محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 154

فصل 23: قال النبي ﷺ : بأبي و أمي أنتما

(حضور ﷺ نے فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان)

84. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي ﷺ فجاء ت ام ايمن فقالت : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! لقد ضل الحسن و الحسين، قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول الله ﷺ : ’’قوموا فاطلبوا ابني.‘‘ قال : و اخذ کل رجل تجاه وجهه و اخذت نحو النبي ﷺ فلم يزل حتي اتي سفح جبل و إذا الحسن و الحسين ملتزق کل واحد منهما صاحبه، و إذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فاسرع اليه رسول الله ﷺ، فالتفت مخاطبا لرسول الله ﷺ، ثم انساب فدخل بعض الأحجرة، ثم اتاهما فافرق بينهما و مسح وجههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما على اللہ.

’’سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکلا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چل پڑا، آپ ﷺ مسلسل چلتے رہے حتی کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ ﷺ اس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا پھر آپ ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور ان کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
3. شوکاني، درالسحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309

85. عن عبداللہ بن مسعود رضي الله عنهما قال : کان النبي ﷺ يصلي و الحسن و الحسين علي ظهره، فباعدهما الناس، و قال النبي ﷺ دعوهما بأبي هما و أمي.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2644
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 426، رقم : 6970
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32174
4. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2233

فصل 24: فزع النبي ﷺ ببکاء الحسن والحسين عليهما السلام

(حسنین کریمین علیہما السلام کے رونے سے حضور ﷺ پریشان ہو گئے)

86. عن يحيي بن أبي کثير : أن النبي ﷺ سمع بکاء الحسن و الحسين، فقام فزعا، فقال : إن الولد لفتنة لقد قمت إليهما و ما أعقل.

’’یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسن و حسین علیہما السلام کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بے شک اولاد آزمائش ہے، میں ان کے لئے بغیر غور کئے کھڑا ہو گیا ہوں۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 379، رقم : 32186

87. عن يزيد بن أبي زياد قال : خرج النبي ﷺ من بيت عائشة فمر علي فاطمة فسمع حسينا يبکي، فقال : ألم تعلمي أن بکاء ه يؤذيني.

’’یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو حسینں کو روتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 116، رقم : 2847
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 201
3. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 284

فصل 25: نزل النبی صلی الله عليه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر اپنے منبر شریف سے نیچے اتر آئے)

88. عن أبي بريدة رضي الله عنه يقول : کان رسول الله ﷺ يخطبنا إذ جاء الحسن و الحسين عليهما السلام، عليهما قميصان أحمران يمشيان و يعثران، فنزل رسول الله ﷺ من المنبر فحملهما و وضعهما بين يديه، ثم قال : صدق اللہ : (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذين الصبيين يمشيان و يعثران، فلم أصبر حتي قطعت حديثي و رفعتهما۔

’’حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (صغرسنی کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد سچ ہے : (بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔ ) میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 658، ابواب المناقب، رقم : 3774
2. نسائي، السنن، 3 : 192، کتاب صلاة العيدين، رقم : 1885
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 345
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 770، رقم : 1358
5. ابن حبان، الصحيح، 13 : 403، رقم : 6039
6. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 218، رقم : 5610
7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2230
8. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 143
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 377
10. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 403
11. ابن جوزي، التحقيق، 1 : 505، رقم : 805

فصل 26: الحسن والحسين عليهما السلام کانا يمصّان لسان النبي ﷺ

(حسنین کریمین علیہما السلام حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک چوستے تھے)

89. عن أبي هريرة رضي الله عنه فقال : أشهد لخرجنا مع رسول الله ﷺ حتي إذا کنا ببعض الطريق سمع رسول الله ﷺ صوت الحسن و الحسين، و هما يبکيان و هما مع أمهما، فأسرع السير حتي أتاهما، فسمعته يقول لها : ما شأن ابني؟ فقالت : العطش قال : فاخلف رسول الله ﷺ الي شنة يبتغي فيها ماء، و کان الماء يومئذ أغدارا، و الناس يريدون الماء، فنادي : هل أحد منکم معه مائ؟ فلم يبق أحد الا أخلف بيده الي کلابه يبتغي الماء في شنة، فلم يجد أحد منهم قطرة، فقال رسول الله ﷺ : ناوليني أحدهما، فناولته اياه من تحت الخدر، فأخذه فضمه الي صدره و هو يطغو ما يکست، فأدلع له لسانه فجعل يمصه حتي هدأ أو سکن، فلم أسمع له بکاء، و الآخر يبکي کما هو ما يسکت فقال : ناوليني الآخر، فناولته اياه ففعل به کذلک، فسکتا فما أسمع لهما صوتا۔

’’حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ ﷺ نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ ﷺ اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ ﷺ کو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم ﷺ پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے دے دیا۔ پس آپ ﷺ نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ ﷺ نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور ﷺ نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دیں تو سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور ﷺ کے حوالے کر دیا حضور ﷺ نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2656
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181

ہیثمی نے اس کے راوۃ ثقہ قرار دیئے ہیں۔

3. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 231
4. ابن عساکر، تاريخِ دمشق، 13 : 221
5. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 298
6. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابه و الصحابه : 306
7. سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 1 : 106

فصل 27: الحسن والحسين عليهما السلام کانا يلعبان علي بطن النبي ﷺ

(حسنین کریمین علیہما السلام حضور ﷺ کے شکم مبارک پر کھیلتے تھے)

90. عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال : دخلت علي رسول الله ﷺ والحسن والحسين يلعبان علي بطنه، فقلت : يا رسول الله ﷺ ! أتحبهما؟ فقال : و مالي لا أحبهما و هما ريحانتاي.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ ﷺ کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘

1. بزار، المسند، 3 : 287، رقم : 1079
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
3. شوکاني، درالسحابه : 307

ہیثمی نے اس کے رواۃ صحیح قرار دیئے ہیں۔

91. عن انس بن مالک رضي الله عنه قال : دخلت أو ربما دخلت علي رسول الله ﷺ والحسن والحسين يتقلبان علي بطنه، قال : و يقول : ريحانتي من هذه الأمة.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا (اور دیکھتا کہ) حسن و حسین علیہما السلام آپ ﷺ کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے ہوتے : یہ دونوں ہی تو میری امت کے پھول ہیں۔‘‘

1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 49، رقم : 8167
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 150، رقم : 8529

فصل 28: رکب الحسن والحسين عليهما السلام علي ظهر النبي ﷺ خلال الصلوة

(حسنین کریمین علیہما السلام دورانِ نماز حضور ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے )

92. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول الله ﷺ العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقا و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلاته، أقعدهما علي فخذيه.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ ﷺ نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ ﷺ دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹھا لیا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659
3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615
6. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 256
7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258
8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124
9. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 136
10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 152

93. عن زر بن جيش رضي الله عنه قال : کان رسول الله ﷺ ذات يوم يصلي بالناس فأقبل الحسن و الحسين عليهما السلام و هما غلامان، فجعلا يتوثبان علي ظهره إذا سجد فأقبل الناس عليهما ينحيانهما عن ذلک، قال : دعوهما بأبي و أمي.

’’زر بن جیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ حسنین کریمین علیہما السلام جو اس وقت بچے تھے آئے۔ جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو وہ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہونے لگے، لوگ انہیں روکنے کے لئے آگے بڑھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں! انہیں چھوڑ دو۔ ۔ ۔ یعنی سوار ہونے دو۔‘‘

بيهقي، السنن الکبریٰ، 2 : 263، رقم : 3237

94. عن عبداللہ بن مسعود رضي الله عنهما قال : کان النبي ﷺ يصلي فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا أرادوا أن يمنعوهما أشار إليهم أن دعوهما، فلما صلي وضعهما في حجره.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدے میں گئے تو حسنین کریمین علیہما السلام آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو اشارہ فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو. یعنی سوار ہونے دو، پھر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ ﷺ نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘

1. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 50، رقم : 8170
2. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122

95. عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال : کان النبي ﷺ يصلي فجاء الحسن و الحسين عليهما السلام (أو أحدهما)، فرکب علي ظهره فکان إذا سجد رفع رأسه أخذ بيده فأمسکه أو أمسکهما، ثم قال : نعم المطية مطيتکما۔

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نماز پڑھاتے تو حسن و حسین علیہما السلام دونوں میں سے کوئی ایک آکر آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتا جب آپ ﷺ سجدے میں ہوتے، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے اگر ایک ہوتا تو اس کو یا دونوں ہوتے تو بھی آپ ﷺ ان کو تھام لیتے، پھر آپ ﷺ فرماتے : تم دو سواروں کے لئے کتنی اچھی سواری ہے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 205، رقم : 3987
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182

96. عن أنس بن مالک رضي الله عنه قال : کتب النبي ﷺ لرجل عهدا فدخل الرجل يسلم علي النبي ﷺ يصلي، فرأي الحسن والحسين يرکبان علي عنقه مرة و يرکبان علي ظهره مرة و يمران بين يديه و من خلفه، فلما فرغ الصلاة قال له الرجل : ما يقطعان الصلاة؟ فغضب النبي ﷺ فقال : ناولني عهدک. فأخذه فمزقه، ثم قال : من لم يرحم صغيرنا و لم يؤقر کبيرنا فليس مناولا أنا منه.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی شخص کو عہدنامہ لکھ کر دیا تو اس شخص نے حاضر ہو کر آپ ﷺ کو حالت نماز میں سلام عرض کیا، پھر اس نے دیکھا کہ حسن اور حسین علیہما السلام کبھی آپ ﷺ کی گردن مبارک اور کبھی پشت مبارک پر سوار ہوتے ہیں اور حالت نماز میں آپ ﷺ کے آگے پیچھے سے گزر رہے ہیں۔ آپ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا : کیا وہ دونوں آپ ﷺ کی نماز نہیں توڑتے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے جلال میں آ کر فرمایا : مجھے اپنا عہد نامہ دو۔ آپ ﷺ نے اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔‘‘

محب طبري، ذخائر العقبیٰ، 1 : 132

97. عن بن عباس رضي الله عنهما قال : صلي رسول الله ﷺ صلاة العصر، فلما کان في الرابعة أقبل الحسن والحسين حتي رکبا علي ظهر رسول الله ﷺ، فلما سلم وضعهما بين يديه و أقبل الحسن فحمل رسول الله ﷺ الحسن علي عاتقه الأيمن والحسين علي عاتقه الأيسر.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازِ عصر ادا کی جب آپ ﷺ چوتھی رکعت میں تھے تو حسن و حسین علیہما السلام آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو ان دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا حسن رضی اللہ عنہ کے آگے آنے پر آپ ﷺ نے اسے اپنے دائیں کندھے پر اور حسین رضی اللہ عنہ کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 298، رقم : 6462
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 66، رقم : 2682
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184

فصل 29: قال النبي ﷺ للحسنين : نعم الراکبان هما

(حضور ﷺ کا حسنین کریمین علیہما السلام سے فرمانا : یہ دونوں کیسے اچھے سوار ہیں)

98. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول الله ﷺ و معه حسن و حسين هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ کے ایک کندھے پر حسنں اور دوسرے کندھے پر حسینں سوار تھے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 440، رقم : 9671
2. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777

حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔

3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32

ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔

99. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : رأيت الحسن والحسين عليهما السلام علي عاتقي النبي ﷺ، فقلت : نعم الفرس تحتکما۔ قال : و نعم الفارسان هما۔

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ کے کندھوں پر (سوار) دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے! آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنے اچھے ہیں۔‘‘

1.بزار، المسند، 1 : 418
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181

ہيثمی نے ابو یعلیٰ کی بیان کردہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

3. حسيني، البيان والتعريف، 2 : 263، رقم : 1672
4. شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة و الصحابه : 308
5. ابن عدي، الکامل، 2 : 362

100. عن سلمان رضي الله عنه قال : کنا حول النبي ﷺ فجاء ت أم أيمن فقالت : يا رسول الله لقد ضل الحسن و الحسين عليهما السلام قال : و ذلک راد النهار يقول ارتفاع النهار. فقال رسول الله ﷺ : قوموا فاطلبوا ابني. قال : و أخذ کل رجل تجاه وجهه و أخذت نحو النبي ﷺ فلم يزل حتي أتي سفح جبل و اذا الحسن والحسين عليهما السلام ملتزق کل واحد منهما صاحبه و اذا شجاع قائم علي ذنبه يخرج من فيه شه النار، فأسرع اليه رسول الله ﷺ فالتفت مخاطبا لرسول الله ﷺ ثم انساب فدخل بعض الأحجرة ثم أتاهما فأفرق بينهما و مسح و جههما و قال : بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما علي اللہ ثم حمل أحدهما علي عاتقه الأيمن والآخر علي عاتقه الأيسر فقلت : طوباکما نعم المطية مطيتکما فقال رسول الله ﷺ : و نعم الراکبان هما۔

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے پاس تھے۔ ام ایمن آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السلام گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں، دن خوب نکلا ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا : چلو میرے بیٹوں کو تلاش کرو، راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور ﷺ کے ساتھ چل پڑا آپ ﷺ مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اُس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ ﷺ اُس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر سکڑ گیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا۔ پھر آپ ﷺ ان (حسنین کریمین علیہما السلام) کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور اُن کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا : میرے ماں باپ تم پر قربان، تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو پھر آپ ﷺ نے ان میں سے ایک کو اپنے دائیں کندھے پر اور دوسرے کو بائیں کندھے پر اُٹھا لیا۔ میں نے عرض کیا : تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ بھی تو دیکھو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘

1.طبراني، المعجم الکبير، 3 : 65، رقم : 2677
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
3.شوکاني، در السحابه في مناقب القرابة والصحابه : 309

101. عن أبي جعفرص قال : مر رسول الله ﷺ بالحسن و الحسين عليهما السلام و هو حاملهما علي مجلس من مجالس الأنصار، فقالوا : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! نعمت المطية قال : و نعم الراکبان.

’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! کیا خوب سواری ہے! آپ ﷺ نے فرمایا : سوار بھی کیا خوب ہیں۔‘‘

ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32185

102. عن جابر رضي الله عنه قال دخلت علي النبي ﷺ و هو يمشي علي أربعة، و علي ظهره الحسن و الحسين عليهما السلام، و هو يقول : نعم الجمل جملکما، و نعم العدلان أنتما۔

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضي اللہ عنہما بيان کرتے ہيں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ ﷺ چار (دو ٹانگوں اور دونوں ہاتھوں کے بل) پر چل رہے تھے اور آپ ﷺ کی پشت مبارک پر حسنین کریمین علیہما السلام سوار تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 52، رقم : 2661
2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 266، رقم : 227
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 182
4. رامهرمزي، امثال الحديث : 128 رقم : 98
5. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256
6. قزويني، التدوين في اخبار قزوين، 2 : 109
7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 132

103. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : وقف رسول الله ﷺ علي بيت فاطمة فسلم، فخرج إليه الحسن و الحسين عليهما السلام، فقال له رسول الله ﷺ : ارق بأبيک أنت عين بقة و أخذ بأصبعيه فرقي علي عاتقه، ثم خرج الآخر الحسن او الحسين مرتفعة احدي عينيه، فقال له رسول الله ﷺ : مرحبا بک ارق بأبيک أنت عين البقة و أخذ بأصبعيه فاستوي علي عاتقه الآخر.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمۃ الزھراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور ﷺ کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور ﷺ کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور ﷺ نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور ﷺ کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 49، رقم : 2652
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 180

فصل 30: کان يُطيل النبي ﷺ السجود للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور اکرم ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کی خاطر سجدوں کو لمبا کر لیتے تھے)

104. عن أنس رضي الله عنه قال : کان رسول الله ﷺ يسجد فيجئ الحسن أو الحسين فيرکب علي ظهره فيطيل السجود. فيقال : يا نبي اللہ! أطلت السجود، فيقول : ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.

’’حضرت انس بن مالک رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السلام آتے اور آپ ﷺ کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ ﷺ سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اے اللہ کے نبی ﷺ ! کیا آپ نے سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا۔‘‘

1. ابو يعلیٰ، المسند، 6 : 150، رقم : 3428
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181

105. عن عبداللہ بن شداد عن أبيه قال : خرج علينا رسول الله ﷺ في احدي صلاتي العشاء و هو حامل حسناً أو حسيناً فتقدم رسول الله ﷺ فوضعه ثم کبر للصلاة فصلي، فسجد بين ظهراني صلاته سجدة أطالها۔ قال أبي : فرفعت رأسي و اذا الصبي علي ظهر رسول الله ﷺ وهو ساجد فرجعت الي سجودي، فلما قضي رسول الله ﷺ الصلاة، قال الناس : يا رسول الله انک سجدت بين ظهراني صلاتک سجدة أطلتها حتي ظننا أنه قد حدث أمر أو أنه يوحي إِليک. قال : ذلک لم يکن ولکن ابني ارتحلني فکرهت أن أعجله حتي يقضي حاجته.

عبداللہ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن ھاد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور ﷺ نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور ﷺ نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور ﷺ نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔

1. نسائي، السنن، 2 : 229، کتاب التطبيق، رقم : 1141
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 493
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 380، رقم : 32191
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 270، رقم : 7107
5. شيباني، الآحاد والمثاني، 2 : 188، رقم : 934
6. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 263، رقم : 3236
7. حاکم، المستدرک، 3 : 181، رقم : 4775
8. ابن موسي، معتصر المختصر، 1 : 102
9. ابن حزم، المحلي، 3 : 90
10. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 299

فصل 31: کان النبي ﷺ يضمّ الحسن والحسين عليهما السلام إليه تحت ثوبه

(حضور ﷺ دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر سے چمٹا لیتے تھے)

106. عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال : طرقت النبي ﷺ ذات ليلة في بعض الحاجة فخرج النبي ﷺ وهو مشتمل علي شئ لا أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت : ما هذا الذي أنت مشتمل عليه؟ فکشفه فإذا حسن و حسين علي و رکيه فقال : هذان أبناي.

’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول الله ﷺ آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکھی ہے؟ آپ ﷺ نے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ حسن و حسین علیہما السلام دونوں رانوں تک آپ ﷺ سے چمٹے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 656، ابواب المناقب، رقم : 3769
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 149، رقم : 8524
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 423، رقم : 6967
4. بزار، المسند، 7 : 31، رقم : 2580
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 32182
6. مقدسي، الاحاديث المختارة، 4 : 94، رقم : 1307
7. هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 552، رقم : 2234
8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 404

107. عن أنس بن مالک رضي الله عنه يقول : کان رسول الله ﷺ يقول لفاطمة : أدعي أبني فيشمهما و يضمهما إليه.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا کرتے : میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ ان دونوں (پھولوں) کو سونگھتے اور اپنے سینۂ اقدس کے ساتھ چپکا لیتے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 657، ابواب المناقب، رقم : 3772
2. ابويعلیٰ، المسند، 7 : 274، رقم : 4294
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 121

فصل 32: أوّل من يدخل الجنة مع النبي ﷺ هو الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ کے ساتھ جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے وہ حسنین کریمین علیہما السلام ہیں)

108. عن علي رضي الله عنه قال : أخبرني رسول الله ﷺ : ان أول من يدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسين. قلت : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! فمحبونا؟ قال : من ورائکم.

’’حضرت علي رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں، میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ خود)، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پیچھے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 173
3. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34166

4. ابن حجر مکی نے ’الصواعق المحرقہ (2 : 448)‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد نے بھی روایت کیا ہے۔

5. محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ 1 : 123

109. عن علیّ بن أبي طالب رضي الله عنه قال : شکوت الي رسول الله ﷺ حسد الناس اياي، فقال : أما ترضي أن تکون رابع أربعة أول من يدخل الجنة : أنا و أنت و الحسن و الحسين.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے شکایت کی کہ لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتھے تم ہو (وہ چار) میں، تم، حسن اور حسین ہیں۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 624
2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 319، رقم : 950
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 41، 2624
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 131، 174
5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 16 : 22
6. محب طبري، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، 1 : 90
7. ابن حجر مکی، الصواعق المحرقه، 2 : 466

فصل 33: تزيين اللہ عزوجل الجنة بالحسن و الحسين عليهما السلام

(اللہ تعالیٰ کاحسنین کریمین علیہما السلام کی موجودگی کے ذریعے جنت کو آراستہ کرنا)

110. عن عقبة بن عامررضي الله عنه، أن رسول الله ﷺ قال : الحسن و الحسين شنفا العرش و ليسا بمعلقين، و إن النبي ﷺ قال : إذا استقر أهل الجنة في الجنة، قالت الجنة : يا رب! وعدتني أن تزينني برکنين من أرکانک! قال : أولم أزينک بالحسن و الحسين؟

’’عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی : اے پروردگار! تو نے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 108، رقم : 337
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184
3. ذهبي، ميزان الاعتدال، 1 : 278
4. عسقلاني، لسان الميزان، 1 : 257، رقم : 804
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 2 : 239، رقم : 697
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228
7. مناوي، فيض القدير، 3 : 415
8. ابن حجر مکي، الصواعق المحرقه، 2 : 562

111. عن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ : فخرت الجنة علي النار فقالت : أنا خير منک، فقالت النار : بل أنا خير منک، فقالت لها الجنة إستفهاما : و ممه؟ قالت : لأن في الجبابرة و نمرود و فرعون فأسکتت، فأوحي اللہ اليها : لا تخضعين، لأزينن رکنيک بالحسن و الحسين، فماست کما تميس العروس في خدرها.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک مرتبہ جنت نے دوزخ پر فخر کیا اور کہا میں تم سے بہتر ہوں، دوزخ نے کہا : میں تم سے بہتر ہوں۔ جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے؟ دوزخ نے کہا : اس لئے کہ مجھ میں بڑے بڑے جابر حکمران فرعون اور نمرود ہیں۔ اس پر جنت خاموش ہو گئی، اللہ تعالیٰ نے جنت کی طرف وحی کی اور فرمایا : تو عاجز و لاجواب نہ ہو، میں تیرے دو ستونوں کو حسن اور حسین کے ذریعے مزین کر دوں گا۔ پس جنت خوشی اور سرور سے ایسے شرما گئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 148، رقم : 7120
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 184

اس حديث کے ایک راوی ’’عباد بن صہیب‘‘ پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل، ابوداؤد، عبدان اھوازی نے اس کو صادق قرار دیا اور یحییٰ بن معین نے ابو عاصم النبیل سے اس کی روایت ثابت کی ہے۔

1. ابن شاهين، تاريخ اسماء الثقات، 1 : 171
2. ذهبي، المغني في الضعفاء، 1 : 326
3. ابن عدي، الکامل، 4 : 347

112. عن العباس بن زريع الأزدي عن أبيه مرفوعا، قال : قالت الجنة : يا رب! حسنتني فحسن أرکاني، قال : قد حسنت أرکانک بالحسن و الحسين.

’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جنت نے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بھی حسین بنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السلام کے ذریعے حسین و جمیل بنا دیا ہے۔‘‘

1. عسقلاني، لسان الميزان، 6 : 241، رقم : 848
2. ذهبي، ميزان الاعتدال، 7 : 157، رقم : 9458
3. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 287

فصل 34: يکون الحسن و الحسين عليهما السلام في قبة تحت العرش يوم القيامة

(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن عرش الہٰی کے گنبد کے نیچے ہوں گے)

113. عن أبي موسي الأشعري رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ : أنا و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسين يوم القيامة في قبة تحت العرش.

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں، علی، فاطمہ، حسن اور حسین قیامت کے دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘

1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 174
2. هندي، کنز العمال، 12 : 100، رقم : 34177
3. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 94
4. زرقاني، شرح الموطا، 4 : 443

114. عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال : قال رسول الله ﷺ : إن فاطمة و عليا و الحسن و الحسين في حظيرة القدس في قبة بيضاء سقفها عرش الرحمن.

’’حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بیشک فاطمہ، علی، حسن اور حسین جنت الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چھت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘

1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 61
2. هندي، کنز العمال، 12 : 98، رقم : 34167

115. عن علیّ رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال : في الجنة درجة تدعي الوسلية؟ فإذا سألتم اللہ فسلوا لي الوسيلة؟ قالوا : يا رسول الله! من يسکن معک؟ قال : علي و فاطمة و الحسن و الحسين.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں، پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے ساتھ کون رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور حسین و حسین (وہاں پر میرے ساتھ رہیں گے)۔‘‘

1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 45
2. هندي، کنز العمال، 12 : 103، رقم : 34195

فصل 35: يکون الحسن و الحسين عليهما السلام مع رسول الله ﷺ يوم القيامة

(حسنین کریمین علیہما السلام قیامت کے دن حضور ﷺ کے ساتھ رہیں گے)

116. عن علي رضي الله عنه قال : دخل علي رسول الله ﷺ و انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسين قال فقام النبي ﷺ الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ه الحسن فنحاه النبي ﷺ فقالت فاطمة : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! کانه احبهما اليک قال : لا ولکنه استسقي قبله، ثم قال : إني و اياک و هذين و هذا الراقد في مکان واحد يوم القيامة.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ ﷺ ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دودھ والی تھی۔ پس آپ ﷺ نے اس کا دودھ نکالا تو اس نے بہت زیادہ دودھ دیا، پس حسنں آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا : یا رسول الله ﷺ لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا پھر فرمایا : میں، آپ، یہ دونوں اور یہ سونے والا (حضرت علی رضی اللہ عنہ کیونکہ وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 101، رقم : 792
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 228
3. شيباني، السنة، 2 : 598، رقم : 1322
4. بزار، المسند، 3 : 30، رقم : 779
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 170
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 692، رقم : 1183
7. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 25

117. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : ان النبي ﷺ دخل علي فاطمة رضي اللہ عنها فقال : أني و اياک و هذا النائم. . . يعني عليا. . . و هما. . . يعني الحسن و الحسين. . . لفي مکان واحد يوم القيامة.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور فرمایا : میں، تم اور یہ سونے والا (یعنی علی وہ ابھی سو کر اٹھے ہی تھے) اور یہ دونوں یعنی حسن اور حسین علیہما السلام قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 147، رقم : 4664
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 405، رقم : 1016
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 171

حاکم نے اس روايت کي اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔

118. عن أبي فاختة رضي الله عنه قال : کان النبي ﷺ و علي و فاطمة و الحسن و الحسين في بيت فاستسقي الحسن، فقام رسول الله ﷺ في جوف الليل، فسقاه، فسأله الحسين فأبي أن يسقيه، فقيل : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! کأن حسنا أحب اليک من حسين؟ قال : لا ولکنه استسقاني قبله، ثم قال النبي ﷺ : يا فاطمة! أنا و انت و هذين و هذا الراقد (لعلي) في مقام واحد يوم القيامة.

’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن علاقہ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ، علی، فاطمہ، اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم گھر پر تھے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے آدھی رات کو اُٹھ کر اسے پانی پلایا۔ (اسی دوران جبکہ حضور ﷺ حضرت حسنں کو پانی پلانے ہی والے تھے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب کیا، جسے حضور ﷺ نے پہلے دینے سے انکار فرمایا (کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تھے اور حضور ﷺ اسی ترتیب سے دینا چاہتے تھے یہ بغرض تعلیم و تربیت تھا)۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن محبوب ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ وجہ نہیں بلکہ حسن نے حسین سے پہلے مانگا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے فاطمہ! میں، تم، یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے والا (یعنی علی) قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق، 13 : 227، رقم : 3204

فصل 36: إستعاذة النبي ﷺ للحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے خصوصی دم فرمانا )

119. عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : کان النبي ﷺ يعوذ الحسن و الحسين، و يقول : إن أباکما کان يعوذ بها إسماعيل و إسحاق : أعوذ بکلمات اللہ التامة من کل شيطان وهامة و من کل عين لامة.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حسن و حسین علیہما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوذ کے ساتھ دم فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کے لئے ان کلمات کے ساتھ تعوذ کرتے تھے ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1233، کتاب الانبياء، رقم : 3191
2. ابن ماجه، السنن، 2 : 1164، کتاب الطب، رقم : 3525

120. عن علي رضي الله عنه قال : کان النبي ﷺ يعوذ حسنا و حسينا، فيقول : أعيذکما بکلمات اللہ التامات من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. قال : و قال النبي ﷺ : عوذوا بها أبنائکم، فإن إبراهيم کان يعوذ بها ابنيه إسماعيل و إسحاق.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حسن و حسین علیہما السلام کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے : میں تمہارے لئے اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں، اور آپ ﷺ نے (امت کیلئے بھی) فرمایا : تم اپنے بیٹوں کو انہی الفاظ کے ساتھ دم کیا کرو کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام) کو ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 4 : 336، رقم : 7987
2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 79
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113

121. عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال کان النبي ﷺ يعوذ الحسن و الحسين : أعيذکما بکلمات اللہ التامة من کل شيطان و هامة و من کل عين لامة. ثم يقول : کان أبوکم يعوذ بهما إسماعيل و إسحاق.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حسن و حسین علیہما السلام کو (ان کلمات کے ساتھ) دم کیا کرتے تھے : میں تمہیں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اور ہر نظر بد سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، پھر ارشاد فرماتے : تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) انہی کلمات کے ساتھ اپنے بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیھما السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔‘‘

1. ابوداؤ، السنن، 4 : 235، کتاب السنة، رقم : 4737
2. نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 250، رقم : 10845
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 236، رقم : 2112
4. ابن حبان، الصحيح، 3 : 291، رقم : 1012
5. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4781
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 47، رقم : 23577
7. ابن راهويه، المسند، 1 : 36، رقم : 4
8. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 101، رقم : 4793
9. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 31، رقم : 727
10. بخاري، خلق افعال العباد، 1 : 97
11. ابن جوزي، تلبيس ابليس، 1 : 48

122. عن عبداللہ بن مسعود رضي الله عنهما قال : کنا جلوسا مع رسول الله ﷺ إذ مر به الحسن و الحسين و هما صبيان، فقال : هاتوا ابني أعوذ هما بما عوذ به إبراهيم إبنيه إسماعيل و إسحاق، قال : أعيذکما بکلمات اللہ التامة من کل عين لامة و من کل شيطان و هامة.

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام جو کہ ابھی بچے تھے، آپ ﷺ کے پاس سے گزرے آپ ﷺ نے فرمایا : میرے دونوں بیٹوں کو لاؤ، میں انہیں دم کر دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام) کو دم کیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے، ہر وسوسہ انداز شیطان و بلا سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 72، رقم : 9984
2. بزار، المسند، 4 : 304، رقم : 1483
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 224
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 113
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 187

123. عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : إني سمعت رسول الله ﷺ يقول : اللهم! أستودعکهما و صالح المؤمنين يعني الحسن و الحسين.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! میں ان دونوں حسن و حسین کو اور نیک مومنین کو تیری حفاظت خاص میں دیتا ہوں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 85، رقم : 5037
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 194
3. هندي، کنز العمال، 12 : 119، رقم : 34281

فصل 37: ضوء الطريق للحسن و الحسين عليهما السلام ببرقة

(آسماني بجلی کا حسنین کریمین علیہما السلام کے لئے راستہ روشن کرنا)

124. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : کنا نصلي مع رسول الله ﷺ العشاء، فإذا سجد وثب الحسن و الحسين علي ظهره، فإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه اخذاً رفيقاً و يضعهما علي الأرض، فإذا عاد، عادا حتي قضي صلا ته، أقعدهما علي فخذيه، قال : فقمت إليه، فقلت : يا رسول الله ! أردهما فبرقت برقة، فقال : لهما : الحقا بأمکما، قال : فمکث ضوئها حتي دخلا.

’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ نمازِ عشاء ادا کر رہے تھے، جب آپ سجدے میں گئے تو حضرت حسن اور حسین علیہما السلام آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب آپ ﷺ نے سجدے سے سر اٹھایا تو ان دونوں کو اپنے پیچھے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا۔ جب آپ ﷺ دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السلام نے دوبارہ ایسے ہی کیا حتی کہ آپ ﷺ نے نماز مکمل کرنے کے بعد دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹھا لیا۔ میں نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چھوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک آسمانی بجلی چمکی اور آپ ﷺ نے (حسنین کریمین علیہما السلام) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 513، رقم : 10669
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 51، رقم : 2659
3. حاکم، المستدرک، 3 : 183، رقم : 4782
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 181
5. ابن عدي، الکامل، 6 : 81، رقم : 1615
6. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 3 : 256
7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 2 : 258
8. شوکاني، نيل الاوطار، 2 : 124

فصل 38: تشجيع النبي ﷺ و جبريل عليه السلام للحسنين عليهما السلام علي المصارعة

(حضور ﷺ اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السلام کو داد دینا)

125. عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي ﷺ قال : کان الحسن و الحسين عليهما السلام يصطرعان بين يدي رسول الله ﷺ، فکان رسول الله ﷺ يقول : هي حسن. فقالت فاطمة سلام اللہ عليها : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال : إن جبريل يقول : هي حسين.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو. سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے تھے۔‘‘

1. ابويعلیٰ، المعجم، 1 : 171، رقم : 196
2. عسقلاني، الاصابه، 2 : 77، رقم : 1726
3. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 2 : 26
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 134
5. ابن عدي، الکامل، 5 : 18، رقم : 1191

126. عن محمد بن علي رضي الله عنهما قال : اصطرع الحسن و الحسين رضي الله عنهما عند رسول الله ﷺ، فجعل رسول الله ﷺ يقول : هي حسن. قالت له فاطمة : يا رسول الله صلى الله عليک وسلم! تعين الحسن کانه أحب إليک من الحسين؟ قال : إن جبريل يعين الحسين و أنا أحب أن أعين الحسن.

’’محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے حسنین کریمین علیہما السلام کشتی لڑ رہے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : حسن جلدی کرو۔ آپ ﷺ سے سیدہ فاطمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تھے اسلئے میں نے چاہا کہ حسن کی مدد کروں۔‘‘

1. هيثمي، مسند الحارث، 2 : 910، رقم 992
2. سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 465
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 : 134

127. عن بن عباس رضي الله عنهما قال : اتخذ الحسن والحسين عند رسول الله ﷺ، فجعل يقول : هي يا حسن! خذ يا حسن! فقالت عائشة : تعين الکبير علي الصغير. فقال : إن جبريل يقول : خذ يا حسين.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں حسن و حسین علیہما السلام ایک دوسرے کو پکڑنے میں کوشاں تھے کہ آپ ﷺ فرمانے لگے حسن جلدی کرو! حسن پکڑ لو تو اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ چھوٹے کے مقابلے میں بڑے کی مدد فرما رہے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اس لئے کہ) جبرئیل امین (پہلے سے ہی) حسین کو حوصلہ دلاتے ہوئے پکڑلو، پکڑلو کہہ رہے تھے۔‘‘

ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 13 : 223

فصل 39: کان النبي ﷺ يقبل الحسن و الحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کا بوسہ لیتے تھے)

128. عن ابی هريره رضي الله عنه قال : خرج علينا رسول الله ﷺ و معه حسن و حسين، هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه، وهو يلثم هذا مرة و يلثم هذا مرة.

’’حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ کے ساتھ حسنین کریمین علیہما السلام تھے ایک (شہزادہ) ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پرآپ ﷺ دونوں کو باری باری چوم رہے تھے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 400، رقم : 9671
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 777، رقم : 1376
3. حاکم، المستدرک، 3 : 182، رقم : 4777
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179
5. مزي، تهذيب الکمال، 6 : 228
6. عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 2 : 71
7. مناوي، فيض القدير، 6 : 32

129. عن أبي المعدل عطية الطفاوي عن أبيه أن أم سلمة حدثته قالت : بينما رسول الله ﷺ في بيتي يوما اذ قالت الخادم أن عليا و فاطمة بالسدة، قالت : فقال لي : قومي فتنحي لي عن أهل بيتي، قالت : فقمت فتنحيت في البيت قريبا، فدخل علیّ و فاطمة و معهما الحسن و الحسين و هما صبيان صغيران، فأخذ الصبيين فوضعهما في حجره فقبلهما.

’’ابو معدل عطيہ طفاوی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن جب حضور نبی اکرم ﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے خادم نے عرض کیا : دروازے پر علی اور فاطمہ علیہما السلام آئے ہیں۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : آپ ﷺ نے حکم فرمایا : ایک طرف ہو جاؤ اور مجھے اپنے اہل بیت سے ملنے دو۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں پاس ہی گھر میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی، پس علی، فاطمہ اور حسنین کریمین علیہم السلام داخل ہوئے اس وقت وہ کم سن تھے تو آپ ﷺ نے دونوں بچوں کو پکڑ کر گود میں بٹھا لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 296، رقم : 26582
2. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 3 : 485
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 166
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 22

130. عن يعلي بن مرة رضي الله عنه قال : إن حسنا و حسينا أقبلا يمشيان إلي رسول الله ﷺ، فلما جاء احدهما جعل يده في عنقه، ثم جاء الآخر فجعل يده الأخري في عنقه، فقبّل هذا، ثم قبّل هذا.

’’حضرت يعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حسن و حسین علیہما السلام حضور ﷺ کی طرف چلتے ہوئے آئے، جب ان میں سے ایک آپ ﷺ کے پاس پہنچ گیا تو آپ ﷺ نے اپنے ایک بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر جب دوسرا پہنچا تو دوسرے بازو سے اسے گلے لگا لیا، پھر دونوں کو باری باری چومنے لگے۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 32، رقم : 2587
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 274، رقم : 703
3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 50، رقم : 26
4. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربیٰ، 1 : 122

131. عن عتبة بن غزوان رضي الله عنه قال : بينما رسول الله ﷺ جالس إذ جاء الحسن و الحسين فرکبا ظهره، فوضعهما في حجره فجعل يقبل هذا مرة و هذا مرة.

’’عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آپ ﷺ تشریف فرما تھے کہ حسن و حسین علیہما السلام آئے اور آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘

ابن قانع، معجم الصحابة، 2 : 265، رقم : 786

فصل 40: ذهب النبي ﷺ للمباهلة و معه الحسن والحسين عليهما السلام

(حضور ﷺ مباھلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے گئے)

132. عن الشعبي رضي الله عنه قال : لما أراد رسول الله ﷺ أن يلا عن أهل نجران، أخذ بيد الحسن والحسين و کانت فاطمة تمشي خلفه.

’’حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اہل نجران کے ساتھ مباھلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے لیا اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔‘‘

1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 389، رقم : 36184
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 426، رقم : 37014
3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 94، رقم : 4119

133. عن ابن زيد قال : قيل لرسول الله ﷺ : لو لاعنت القوم بمن کنت تأتي حين قلت : ابناء نا و ابناء کم قال : حسن و حسين.

’’ابن زيد سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ ﷺ کا عیسائی قوم کے ساتھ مباھلہ ہو جاتا تو آپ ﷺ اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن کو اپنے ساتھ لاتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : حسن اور حسین کو۔‘‘

طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 3 : 301

134. عن علباء بن احمر اليشکري قال : لما نزلت هذه الأية (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَ أَبْنَاءَ کُمْ وَ نِسَاءَ نَا وَ نِسَاءَ کُمْ. . . ) أرسل رسول الله ﷺ الي علي و فاطمة و ابنيهما الحسن والحسين.

’’علباء بن احمر یشکری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت. . . اے حبیب فرما دیجئے! آؤ بلاتے ہیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو. . . نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت علی، سیدہ فاطمہ اور ان کے بیٹوں حسن و حسین علیہم السلام کو بلا بھیجا۔‘‘

1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13 : 301
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 233

135. عن جابر رضي الله عنه أن وفد نجران اتوا النبي ﷺ فقالوا : ما تقول في عيسي بن مريم؟ فقال : هو روح اللہ و کلمته و عبد اللہ و رسوله. قالوا له : هل لک أن نلاعنک؟ إنه ليس کذلک. قال : و ذاک أحب إليکم؟ قالوا : نعم. قال : فإذا شئتم فجاء النبي ﷺ و جمع ولده والحسن والحسين.

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروي ہے کہ نجران کا ایک وفد حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کی عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا رائے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ روح اللہ، کلمۃ اللہ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس وفد نے آپ ﷺ سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ مباھلہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ ایسے نہ تھے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہی چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جیسے تمہاری مرضی۔ پھر آپ ﷺ گھر تشریف لائے اور اپنے بیٹوں حسن و حسین علیہما السلام کو ساتھ لے جانے کے لئے جمع کیا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 2 : 649، رقم : 4157
2. سيوطي، الدر المنثور، 2 : 231

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved