قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک اَئمہ و محدّثین اور علماء و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں۔
اکثر اَئمہ و محدّثین اور اَکابر علماء نے اَحادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ اَبواب باندھے ہیں۔ مثلاً اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی ﷺ ‘‘ قائم کیا ہے۔ ابن اِسحاق (85۔ 151ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں، ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں، ابن سعد (168۔230ھ) نے الطبقات الکبری میں، ابو نعیم (336۔ 430ھ) نے دلائل النبوۃ میں، بیہقی (384۔ 458ھ) نے دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں، ابو سعد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے کتاب شرف المصطفیٰ ﷺ میں، ابن اثیر (555۔ 630ھ) نے الکامل فی التاریخ میں، طبری (224۔ 310ھ) نے تاریخ الامم والملوک میں، ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے البدایۃ والنھایۃ میں، ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں، الغرض تمام اَجل اَئمہ و علماء نے اپنی اپنی کتب میں میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ نیز اِمام محمد بن یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ ‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے اَنبار لگا دیئے ہیں۔ اِمام ابو عبد الله بن الحاج مالکی (م 737ھ) نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔ اِمام زرقانی (1055۔ 1122ء) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ) نے ’’ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں اور اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) نے ’’حجۃ الله العالمین فی معجزات سید المرسلین ﷺ ‘‘ اور ’’جواھر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺ ‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
ذیل میں میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر لکھی جانے والی چند معروف کتب درج کی جارہی ہیں:
ابو العباس احمد بن معد بن عیسی اقلیشی اندلسی (م 550ھ) نے الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم ﷺ کے عنوان سے کتاب تالیف کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے دس فصول قائم کی ہیں۔
باشا بغدادي، ايضاح المکنون: 451
عبدالرحمان بن علی بن محمود بن علی بن عبد اللہ بن حمادی قرشی حنبلی جن کا لقب جمال الدین ہے۔ 510ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 597 ہجری میں اسی شہر میں انتقال فرمایا۔ ابتدائی علوم پر صغر سنی میں ہی دسترس حاصل کر کے وعظ و تبلیغ میں لگ گئے۔ پھر حدیث میں مہارت اور پختگی حاصل کی تو حافظ اور محدّث کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں سے اکثر حدیث، تاریخ اور مواعظ پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے میلاد النبی ﷺ پر دو مستقل کتب لکھیں:
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس
ابو خطاب عمر بن حسن بن علی بن محمد بن دحیہ کلبی اندلس میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حصولِ علم کے لیے شام، عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور مصر میں قیام فرما رہے۔ آپ مشہور محدّث، معتمد مؤرّخ اور مایہ ناز ادیب تھے۔ بہت سی کتب لکھیں اور شاندار علمی ورثہ چھوڑا۔ میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر آپ کی تصنیف ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ بھی ہے۔
ابو الخیر شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری شافعی (م 1262ء) اپنے وقت کے امام القراء اور محدّث تھے۔ مولد النبی ﷺ پر آپ کی ایک کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔
شیخ ابو بکر محمد بن عبد الله بن محمد بن محمد بن احمد عطار جزائری نے ’’المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعین ﷺ ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔
اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر اَدفوی نے اپنے ملک مراکش میں جشنِ میلاد کی تقریبات کے حوالے سے بہت سی تفصیلات اپنی کتاب ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں جمع کی ہیں۔
محمد بن مسعود بن محمد سعید الدین الکازرونی نے ’’مناسک الحجز المنتقی من سیر مولد المصطفیٰ ﷺ ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔
ابو سعید خلیل بن کیکلدی بن عبد الله لاعلائی دمشقی شافعی نے الدرۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ کے نام سے کتاب تالیف کی۔
میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول الله ﷺ ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔
سلیمان بن عوض باشا بن محمود برسوی حنفی 780ھ کے قریب فوت ہوئے۔ آپ سلطان بایزید عثمانی کے دور میں بہت بڑے امام تھے۔ اُنہوں نے ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔
اِمام عبد الرحیم بن اَحمد برعی یمانی (م 1400ء) نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر رسالہ تالیف کیا ہے جو کہ ’’مولد البرعي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمٰن مصری عراقی یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار، محافظ اسلام، مرجع خلائق اور دانش وَر محقق تھے۔ انہوں نے حدیث، اسناد اور ضبط روایات میں کمال رسوخ حاصل کیا۔ علم حدیث سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا ہر شخص ان کے علم و فضل سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس جلیل القدر امام نے جشنِ میلاد کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا جس کا نام ’’المورد الھنی فی المولد السنی‘‘ رکھا۔
حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2: 1910)‘‘ میں لکھا ہے کہ سلیمان برسونی 808ھ کے بعد فوت ہوئے۔ اُنہوں نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا جو کہ روم کی مجالسِ میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔
اِمام ابو طاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم فیروزآبادی ایک بہت بڑے اِمام ہو گزرے ہیں۔ آپ نے بے شمار کتب لکھیں، جن میں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس، الصلات والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیر البشر ﷺ اور لغت کی معروف کتاب القاموس المحیط شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر النفحۃ العنبریۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ لکھی۔
میلاد النبی ﷺ پر لکھنے والے جلیل القدر آئمہ میں سے ایک حافظ شمس الدین محمد بن ابی بکر بن عبد اللہ قیسی شافعی المعروف حافظ ابن ناصر الدین دمشقی ہیں۔ آپ اعلیٰ پائے کے مؤرّخ تھے۔ لاتعداد کتب ان کی نوک قلم سے نکلیں، بے شمار حواشی تحریر کیے اور مختلف علوم و فنون میں طبع آزمائی کی۔ آپ دمشق کے الشرفیہ دار الحدیث کے شیخ الحدیث بنے۔ آپ نے میلاد النبی ﷺ کے بارے میں کئی کتب تحریر کیں۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2: 1910)‘‘ میں ان کی درج ذیل تین کتب کا تذکرہ کیا ہے جو صرف اِسی موضوع پر ہیں:
1. جامع الآثار في مولد النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم (تين جلدوں پر مشتمل ہے)
2. اللفظ الرائق في مولد خير الخلائق صلي الله عليه وآله وسلم
3. مورد الصادي في مولد الهادي صلي الله عليه وآله وسلم
شیخ عفیف الدین محمد بن سید محمد بن عبد الله حسینی تبریزی شافعی نے مدینہ منورہ میں 855ھ میں وفات پائی۔ آپ نے اِمام نووی (631۔ 677ھ) کی الاربعین اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) کی الشمائل المحمدیۃ کا حاشیہ لکھا۔ آپ نے مولد النبی ﷺ کے نام سے کتاب لکھی۔
شیخ شمس الدین ابو القاسم محمد بن فخر الدین عثمان لؤلؤی دمشقی حنبلی ’’اللؤلؤ ابن الفخر‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اُنہوں نے میلاد شریف کے موضوع پر الدر المنظم فی مولد النبی المعظم ﷺ لکھی۔ بعد ازاں اُنہوں نے اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیل ﷺ کے نام سے اس کی تلخیص کی۔
سید اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ہروی نے درج الدرر فی میلاد سید البشر ﷺ کے نام سے کتاب تالیف کی۔
اِمام اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن حسینی شیرازی نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب بہ عنوان ’’درج الدرر فی میلاد سید البشر ﷺ ‘‘ لکھی۔ اِس کا ذکر حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون (1: 745)‘‘ میں کیا ہے۔
ابو الحسن علاء الدین علی بن سلیمان بن احمد بن محمد مرداوی دمشق میں حنبلی فقہ کے بہت بڑے شیخ ہو گزرے ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر المنھل العذب القریر فی مولد الھادی البشیر النذیر ﷺ نامی کتاب تالیف کی۔
برہان الدین ابو الصفاء ابن ابی الوفاء نے فتح الله حسبی وکفی فی مولد المصطفیٰ ﷺ کے نام سے کتاب تالیف کی۔
شیخ عمر بن عبد الرحمان بن محمد بن علی بن محمد بن احمد باعلوی حضرمی نے ’’کتاب مولد النبی ﷺ ‘‘ لکھی۔
امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان بن محمد قاہری سخاوی کا شمار اکابر اَئمہ میں ہوتا ہے۔ ایک عالم نے کہا کہ ’’حافظ ذہبی کے بعد ان جیسے ماہر علوم و فنونِ حدیث شخص کا وجود نہیں ملتا اور انہی پر فنِ حدیث ختم ہو گیا۔‘‘ امام شوکانی کا کہنا ہے کہ اگر حافظ سخاوی کی ’’الضوء اللامع‘‘ کے علاوہ کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو یہی ایک کتاب ان کی امامت پر بڑی دلیل تھی۔
آپ نے میلاد النبی ﷺ کے بارے میں ایک کتاب ’’الفخر العلوی فی المولد النبوی ﷺ ‘‘ تصنیف کی، اور اس کا ذکراپنی کتاب ’’الضوء اللامع (8: 18)‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ آپ نے الضوء اللامع میں اُن اَئمہ کرام کی فہرست بھی دی ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد شریف کے بارے میں کتب و رسائل تالیف کیے ہیں۔
حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 2: 1910
میلاد کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک اور کتاب ’’المورد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ ‘‘ ہے۔ اِس کے مصنف اِمام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد الله بن احمد حسینی شافعی سمہودی ہیں جنہیں تاریخِ مدینہ کے لکھنے والوں میں مستند درجہ حاصل ہے۔
امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی کا علمی مقام آفتاب کی طرح ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ آپ کے تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سات سو (700) کے قریب پہنچتی ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے جواز میں ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کے نام سے رسالہ لکھاجو پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ رسالہ آپ کی تصنیف ’’الحاوی للفتاوي‘‘ میں بھی شامل ہے۔
عائشہ بنت یوسف باعونیہ دمشقیہ شافعیہ مشہور عالمہ و صوفیہ اور کثیر التصانیف محققہ تھیں۔ اُنہوں نے منظوم ’’مولود النبی ﷺ ‘‘ تصنیف کیا۔
ابو بکر بن محمد بن ابی بکر حبیشی حلبی نے الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ کے نام سے کتاب رقم کی۔
ملا عرب الواعظ نے مولد النبی ﷺ کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔
حافظ وجیہ الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد شیبانی شافعی، ابن دیبع کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایک سو (100) سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا اور ایک مرتبہ چھ روز میں بخاری شریف کو ختم کیا۔ آپ نے میلاد النبی ﷺ کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے۔
شیخ عبد الکریم ادرنتوی خلوتی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا تھا۔
امام الحرمین، ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی شافعی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ،‘‘ ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان،‘‘ ’’الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقۃ‘‘ اور ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم ﷺ ‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ کتب آپ کے علمی شاہکار ہیں۔ آپ علومِ حدیث میں شیخ الاسلام زکریا مصری کے شاگردِ خاص تھے۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی آپ کے دادا استاد تھے۔ علامہ ملا علی قاری اور بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فرزند علاؤ الدین علی متقی ہندی (صاحبِ کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال) آپ ہی کی مسند اِرشاد و تدریس کے فیض یافتہ تھے۔ آپ نے میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں:
1. تحرير الکلام في القيام عند ذکر مولد سيد الأنام صلي الله
عليه وآله وسلم
2. تحفة الأخيار في مولد المختار صلي الله عليه وآله وسلم
3. اتمام النعمة علي العالم بمولد سيد ولد آدم صلي الله عليه وآله وسلم
4. مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم
علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ‘‘ میں بھی اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ کیاہے۔
اِمام شمس الدین محمد بن احمد خطیب شربینی نے مولد النبی ﷺ پر پچاس (50) صفحات کا محظوطہ تحریر کیا ہے۔
ابو الثناء احمد بن محمد بن عارف زیلی رومی حنفی نے مولد النبی ﷺ کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔
جشن میلاد النبی ﷺ پر لکھنے والوں میں حافظِ حدیث، مجتہد الزمان امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد ہروی بھی ہیں۔ امام شوکانی نے ’’البدر الطالع‘‘ میں ان کے حالات نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ علوم نقلیہ کے جامع، سنت نبوی میں دسترس رکھنے والے، عالم اسلام کے بطلِ جلیل اور قوتِ حفط و فہم میں نام وَر تھے۔ اُنہوں نے میلاد النبی ﷺ کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’المورد الروی فی مولد النبوی ﷺ ونسبہ الطاھر‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف علماء کے اَقوال اور مختلف اِسلامی ممالک میں جشنِ میلاد کی تقریبات کا حال بیان کیا ہے۔
’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘اور ’’شرح الشمائل علی جمع الوسائل‘‘ کے مصنف و نام وَر اِمام عبد الرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین مناوی (1545۔ 1621ء) نے میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک رِسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’مولد المناوي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
محی الدین عبد القادر بن شیخ بن عبد الله عیدروسی نے المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰ ﷺ تالیف کی۔
سیرتِ طیبہ کی مشہور کتاب۔ ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کے مصنف اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی حلبی قاہری شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب ’’الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیر ﷺ ‘‘ لکھی ہے۔ اُنہوں نے ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔
اِمام محمد علی بن محمد بن علان بکری صدیقی علوی (1588۔ 1647ء) نام وَر مفسر و محدّث تھے۔ اُنہوں نے ’’مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ ﷺ ‘‘ نامی مولود نامہ تالیف کیا۔
شیخ زین العابدین محمد بن عبد الله عباسی مدینہ منورہ کے نام وَر خطیب تھے۔ آپ خلیفتی کے لقب سے معروف تھے۔ آپ نے میلاد شریف پر الجمع الزاھر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر ﷺ نامی کتاب لکھی۔
شیخ عبد الغنی نابلسی بڑے جلیل القدر اِمام تھے۔ آپ نے ’’المولد النبوی ﷺ ‘‘ کے عنوان سے مختصر اور جامع مولود نامہ لکھا ہے۔
شیخ جمال الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن سعید بن مسعود المکی الظاہر نے مولد النبی ﷺ کے نام سے کتاب لکھی۔
سلیمان بن عبد الرحمان بن صالح نحیفی رومی۔ جنہوں نے مولانا روم (604۔ 672ھ) کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ بھی لکھا۔
عبد الله حلمی بن محمد بن یوسف بن عبد المنان رو می حنفی مقری ایک نام وَر محدث تھے۔ آپ ’’یوسف زادہ شیخ القرائ‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ اُنہوں نے اِختلافِ قرات پر الائتلاف فی وجود الاختلاف فی القراء ۃ کے نام سے کتاب لکھی۔ میلاد شریف کے موضوع پر ان کی کتاب کا نام الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰ ﷺ ہے۔
علامہ حسن بن علی بن احمد بن عبد اللہ منطاوی جوکہ مدابغی کے نام سے معروف تھے، اُنہوں نے 1170 ہجری میں مصر میں وفات پائی۔ اُنہوں نے رسالۃ فی المولد النبوی ﷺ کے نام سے ایک رِسالہ تالیف کیا۔
عبد الله بن محمد کاشغری بندائی نقشبندی زاہدی قسطنطنیہ میں درس و تدریس کرتے تھے۔ آپ وہاں سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ آپ نے مولد النبی ﷺ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔
احمد بن عثمان دیاربکری آمدی حنفی نے مولد النبی ﷺ تالیف کی۔
سید جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی شافعی مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور مشہور محدث تھے۔ عربی لغت کی مشہور کتاب۔ تاج العروس من جواھر القاموس۔ کے مصنف سید مرتضیٰ زبیدی (1145۔ 1205ھ) نے آپ سے ملاقات کی اور مسجد نبوی میں ہونے والے آپ کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ کی میلاد النبی ﷺ پر مشہور و معروف کتاب ’’عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر ﷺ ‘‘ہے، جوکہ ’’مولود البرزنجی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ عرب و عجم میں اکثر لوگ اس رسالہ کو حفظ کرتے ہیں اور دینی اجتماعات کی مناسبت کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہیں۔ یہ میلاد نامہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مختصر سیرت، آپ ﷺ کی بعثت و ہجرت، اَخلاق و غزوات اور آپ ﷺ کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس میلاد نامہ کے ابتداء میں یہ تحریر کیا ہے:
أبتدئ الإملاء باسم الذات العلية، مستدرّا فيض البرکات علي ما أناله وأولاه.
’’میں ( الله تعالیٰ کی) بزرگ و برتر ذات کے نام سے لکھنا شروع کرتا ہوں، اُس سے برکتوں کے فیض کے نزول کا طلب گار ہوں ان نعمتوں پر جو اس نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘
اس کتاب کی شرح شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ) نے کی ہے اور یہ شرح بہت ہی جامع اور مفید ہے اس کا نام ’’القول المنجی علی مولد البرزنجی‘‘ ہے۔ یہ مصر سے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس شرح کو ان کے پوتے علامہ فقیہ و مورخ سید جعفر بن اسماعیل بن زین العابدین برزنجی (م 1317ھ)۔ جوکہ مدینہ منورہ میں مفتی تھے۔ نے منظوماً تحریر کر کے 198 ابیات میں بیان کیا ہے۔ اِس کے شروع میں وہ فرماتے ہیں:
بدأت باسم الذات عالية الشأن
بها مستدراً فيض جود وإحسان
اس منظوم میلاد نامہ کا نام ’’الکوکب الانوار علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر ﷺ ‘‘ ہے۔
سید محمد بن حسین مدنی علوی حنفی جعفری نے خلفاء راشدین اور اہلِ بیتِ اَطہار کے مناقب پر کافی کتب لکھیں، جن میں الفتح والبشری فی مناقب سیدۃ فاطمۃ الزھراء، قرۃ العین فی بعض مناقب سیدنا الحسین، مناقب الخلفاء الاربعۃ، المواھب العزار فی مناقب سیدنا علی الکرار شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف کے موضوع پر مولد النبی ﷺ تالیف کی۔
شیخ احمد بن محمد بن احمد عدوی مالکی مصری ’’دردیر‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ کا مولد النبی ﷺ پر مختصر رسالہ مصر سے شائع ہوا جو ’’مولد الدردیر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ کے علمی مرتبہ کے پیش نظر جامعہ اَزہر کے علماء و مدرسین یہ مولود نامہ درساً پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ الجامعۃ الازہر ابراہیم بن محمد بن احمد بیجوری (م 1198۔ 1277ھ) نے اِس کے اوپر بہت مفید حاشیہ بھی لکھا ہے۔
عبد القادر نجیب الدین بن شیخ عز الدین احمد ’’اشرف زادہ برسوی حنفی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کا ترکی زبان میں شعری دیوان ہے۔ ان کی تصوف پر لکھی گئی کتاب کا نام ’’سر الدوران فی التصوف‘‘ ہے۔ آپ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔
محمد شاکر بن علی بن حسن عقاد السالمی نے تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبوی ﷺ لکھا۔
عبد الرحمان بن محمد نحراوی مصری مقری نے حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) کے رسالۃ فی المولد النبوی ﷺ کی شرح لکھی، جس کا عنوان حاشیۃ علی مولد النبی ﷺ للمدابغی ہے۔
مصطفیٰ بن اِسماعیل شرحی اَزمیری سلامی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔
محمد بن علی مصری اَزہری شافعی شنوانی نے میلاد شریف کے موضوع پر الجواھر السنیۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف کیا۔
عبد الله بن علی بن عبد الرحمان دملیجی ضریر مصری شاذلی جو کہ سویدان کے لقب سے معروف تھے، اُنہوں نے مطالع الانوار فی مولد النبی المختار ﷺ لکھی۔
سید علی بن ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر صنعانی 1171ھ میں پیدا ہوئے اور 1236ھ کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ اُنہوں نے تانیس ارباب الصفا فی مولد المصطفیٰ ﷺ کے نام سے میلاد نامہ لکھا۔
اِمام محمد مغربی نام وَر محقق و صوفی اور اکابر اَولیاء میں سے تھے۔ اُنہوں نے ’’المولد النبوي ﷺ ‘‘ کے عنوان سے مولود نامہ تصنیف کیا ہے جو محدثین کی روایات اور صوفیاء کے اَقوال سے مزین ہے۔
شیخ ابراہیم بن محمد باجوری شافعی مصری نے تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر تالیف کیا۔
ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) نے جشنِ میلاد شریف کے جواز پر ’’اثبات المولد والقیام‘‘ نامی ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔
سید ابو الفوز احمد بن محمد بن رمضان مکی مالکی مرزوقی حرمِ مکہ کے مدرّس تھے۔ آپ نے 1281ھ میں ’’بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانام ﷺ فی شرح مولد احمد البخاری‘‘ تالیف کیا۔ علاوہ ازیں ’’عقیدۃ العوام‘‘ کے نام سے ایک مولود نامہ بھی تحریر کیا، جس کی شرح بھی آپ نے خود ’’تحصیل نیل المرام‘‘ کے نام سے کی۔
شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1884ء) نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک رسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’الرسالۃ السعیدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
شیخ عبد الہادی اَبیاری مصری نے ’’مولد النبی ﷺ ‘‘ پر ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے۔
عبد الفتاح بن عبد القادر بن صالح دمشقی شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر سرور الابرار فی مولد النبی المختار ﷺ تالیف کیا۔
غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے میلاد شریف کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ ﷺ ۔‘‘
ابراہیم بن سید علی طرابلسی حنفی منظوم میلاد نامہ لکھا جس کا عنوان ہے: منظومۃ فی مولد النبی ﷺ
ہبۃ الله ابو الفرح محمد بن عبد القادر بن محمد صالح دمشقی شافعی نے مولد النبی ﷺ کے عنوان سے رسالہ تالیف کیا۔
ابو عبد المعطی محمد نویر بن عمر بن عربی بن علی نووی جاوی نے بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام ﷺ تالیف کی۔
مفتی اَدرنہ محمد فوزی بن عبد الله رومی نے اثبات المحسنات فی تلاوۃ مولد سید السادات ﷺ کے عنوان سے میلاد نامہ لکھا۔
سید اَحمد بن عبد الغنی بن عمر عابدین دمشقی فقہ حنفی کے نام وَر عالم و محقق اور ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ کے مؤلّف اِمام محمد بن محمد امین بن عابدین شامی دمشقی (1198۔ 1252ھ) کے بھانجے تھے۔ اُنہوں نے اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) کی میلاد شریف کے موضوع پر لکھی کتاب کی ضخیم شرح ’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔
اِمام احمد رضا بن نقی علی خاں قادری بریلوی (1886۔ 1921ء) میلاد شریف کے موضوع پر درج ذیل دو کتب تالیف کی ہیں:
1. نطق الهلال بارخ ولادة الحبيب والوصال
2. إقامة القيامة علي طاعن القيام لنبي تهامة صلي الله عليه وآله وسلم
عارف باللہ سید شریف محمد بن جعفر کتانی بہت بڑے محدث اور معتمد تھے۔ آپ کا مولد النبی ﷺ پر ایک رسالہ ’’الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد‘‘ ہے۔ یہ ساٹھ (60) صفحات پر مشتمل اور جدید و تاریخی تحقیقات سے بھرپور رسالہ ہے۔
عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے مولد النبی ﷺ پر ’’جواہر النظم البدیع فی مولد الشفیع ﷺ ‘‘ کے عنوان سے منظوم کتاب لکھی ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر دیوبندی عالم تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ ۔ کے آغاز میں ہی تخلیقِ نورِ محمدی ﷺ اور واقعاتِ ولادت بالتفصیل ذکر کیے گئے ہیں۔ آپ نے ’’طریقۂ مولود‘‘ بھی ترتیب دیا ہے۔
شیخ محمود بن محمد رشید عطار حنفی دمشق کے نام وَر عالم و محدّث تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے کبار اساتذہ وشیوخ سے علم حاصل کیا اور دمشق کے علماء کا شمار آپ کے شاگردوں یا آپ کے شاگردوں کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک رسالہ ’’استحاب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ تالیف کیا ہے۔
عالم عرب کی معروف علمی شخصیت علامہ مجدد اِمام محمد زاہد کوثری نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے جواز پر مختلف مقالہ جات لکھے ہیں۔
عبد الله بن محمد شیبی عبدری ہرری حبشی (م 1969ء) نے جشنِ میلاد النبی ﷺ کی بابت دو رسائل تالیف کیے ہیں:
1. کتاب المولد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. الروائح الزکية في مولد خير البرية صلي الله عليه وآله وسلم
مصر کے معروف مؤرّخ، مشہور محقق، محدث، مفسر اور تاریخ دان شیخ محمد رشید رضا نے میلاد پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے: ’’ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ وحقیقۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔‘‘
مکہ مکرمہ کے نام وَر محدث اور عالم شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 2004ء) نے میلاد شریف کی بابت اجل اَئمہ کرام کے درج ذیل تین رسائل کامجموعہ تالیف کرکے طبع کرایا ہے:
1۔ ابن کثیر، ذکر مولد رسول الله ﷺ و رضاعہ
2۔ ملا علی قاری، المورد الروی فی المولد النبوی ﷺ (اِس رسالہ پر اِمام علوی مالکی
کی تعلیقات و تحقیق بھی شامل ہے۔)
3۔ ابن حجر ہیتمی مکی، مولد النبی ﷺ
اُنہوں نے میلاد النبی ﷺ سے متعلق ایک رسالہ بہ عنوان ’’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف ﷺ ‘‘ بھی تالیف کیا ہے۔ علاوہ ازیں جشنِ میلاد النبی ﷺ کے جواز پر مختلف ائمہ و علماء کے فتاوی جات کا مجموعہ بھی ترتیب دیا ہے، جس کا عنوان ہے: ’’الاعلام بفتاوی ائمۃ الاسلام حول مولدہ علیہ الصلاۃ والسلام۔‘‘
شیخ عبد العزیز بن محمد ایک عظیم محقق اور وزارت ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے رئیس العام تھے۔ انہوں نے جشنِ میلاد پر ایک کتاب بہ عنوان’’بعثۃ المصطفیٰ ﷺ فی مولد المصطفیٰ ﷺ ‘‘ لکھی۔
آپ نے میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ’’بشائر الاخیار فی مولد المختار‘‘ لکھی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے نورِ نبوت کی تخلیق اور ظہور کا ذکر کیا ہے۔ آپ ﷺ کی رضاعت، نبوت اور دیگر انبیائے کرام پر آپ ﷺ کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کا میلاد شریف منانے پر بھی دلائل دیے ہیں۔
آپ نے میلاد کے موضوع پر ایک رسالہ بہ عنوان ’’الاسرار الربانیۃ المعروف ب: مولد النبی ﷺ ‘‘ لکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد شریف کے بیان پر مشتمل اِس رسالہ میں آپ ﷺ کے نسب و ولادت اور حیاتِ طیبہ کے دیگر پہلؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
(1) میلاد شریف کے موضوع پر لکھی جانے والی تصانیف کا براہِ راست حوالہ دینے کے ساتھ ساتھ ہم نے درج ذیل مصادر کی طرف بھی رجوع کیا ہے:
1. ابن نديم، کتاب الفهرست
2. حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون
3. باباني، هدية العارفين
4. ادوارد فنديک، اکتفاء القنوع بما هو مطبوع
5. خوارزمي، مفاتيح العلوم
6. باشا بغدادي، ايضاح المکنون
7. عبد الحي کتاني، فهرس الفهارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشيخات والمسلسلات
8. اليان سرکيس، معجم المطبوعات العربية والمعربة
9. قنوجي، أبجد العلوم الوشي المرقوم في بيان أحوال العلوم
10. کتاني، الرسالة المستطرفة لبيان مشهور کتب السنة المصنفة
مذکورہ بالا صفحات میں ہم نے ایک سو سولہ (116) اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس (125) سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر کیا گیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں۔ جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے میلاد کے واقعات اور جشنِ میلاد کی کیفیت کی حامل تالیفات و مولود ناموں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے، اور ایسی کتب اُردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندی، فارسی، انگریزی الغرض دنیا کی ہر اُس زبان میں پائی جاتی ہیں جو مومنین بولتے ہیں۔
اِس تمام تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حبیبِ خدا حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد شریف منانا اور آپ ﷺ کے میلاد کے واقعات بیان کرنا، آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ بیان کرنا، آپ ﷺ کی مدح خوانی کرنا کوئی ایسا عمل نہیں جو عصرِ حاضر یا ماضی قریب کے مسلمانوں نے کسی مخصوص خطہ میں شروع کیا ہے۔ بلکہ اِس عمل پر ہمیشہ اور ہر جگہ مسلمانوں نے مداومت اِختیار کی ہے اور جشنِ میلاد کی تقاریب کا اِنعقاد مسلمانوں میں ثقافتی پہچان اور جذبہ ایمانی بیدار کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ اگر یہ عمل (معاذ الله ) بدعتِ سیئہ ہوتا۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ تو کبھی بھی اتنی کثیر تعداد میں کبار اَئمہ اور اَجل محدّثین اِس کا اِہتمام نہ کرتے نہ اِس موضوع کو اپنی تصانیف کا حصہ بناتے۔ چند لوگوں کا اِس مقدس و بابرکت کام کی مخالفت میں دلائل دینا اور اِسے ناجائز قرار دینا اُن کا اپنا خیال ہوسکتا ہے جو اُن کے اُس طبعی گھٹن کے سبب پیدا ہوتا ہے جو بدقسمتی سے بعض لوگوں کو محسنِ اِنسانیت پیغمبرِ اِسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالہ سے لاحق رہتا ہے۔ توحید کی آڑ میں رِسالتِ محمدی ﷺ کے فیوض و برکات سے عوام و خواص کو روکنا ہر دور میں اِبلیسی وطیرہ رہا ہے۔ باقی رہ گیا یہ کہ بعض کم فہم لوگوں نے اِس میں بہت سی خرافات جمع کردی ہیں تو ان خرافات کا اِزالہ ہونا چاہیے نہ کہ جشن میلاد کو کلیتاً ناجائز قرار دیا جائے اور اِسے منانے والوں کو بدعتی یا مشرک کے لقب سے نوازا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved