محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہ حالتِ قیام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر سلام عرض کرنا محبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ ہے اور یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اہلِ اسلام پر واجب تھی اور صحابہ کرام نہایت محتاط رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے، اسی طرح آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اُمت پر واجب ہے۔ محفلِ میلاد یا محفلِ نعت کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھتے وقت اِحتراماً کھڑے ہونا اسی ادب و تعظیم کا تسلسل ہے۔ جس محفل میں تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہو کر قیام کیا جائے اس پر یقینا اَنوار و برکاتِ اِلٰہیہ کا نزول ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و اِحترام میں قیام کرنے کو بھی باعثِ نزاع اَمر بنا دیا ہے اور اُن کے نزدیک یہ غیر شرعی اَمر ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالہ سے چند ضروری اُمور زیرِ بحث لائیں گے :
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قیام ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ ان کے نزدیک قیام عبادت ہے اور عبادت صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ لہٰذا کسی اور کے لیے قیام شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی محفل میں قیام ناجائز ہے۔ یہ اِعتراض لغو اور بیہودہ ہے۔ اس لیے کہ اگر قیام عبادت کا حصہ ہے اور صرف خدا کے لیے ہے تو پھر قعود (بیٹھنا) اور لیٹنا بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونا چاہیے کیوں کہ یہ بھی تو قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ.
’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اﷲ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 191
اس آیہ کریمہ میں عبادت اور ذکرِ الٰہی کرنے کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں : اٹھنا، بیٹھنا اور لیٹنا۔ اگر قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو پھر بیٹھنا اور لیٹنا کس کے لیے ہے؟ آیت کی رُو سے بیٹھنا بھی اﷲتعالیٰ کے لیے خاص ہو گیا اور لیٹنا بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے خاص ہو گیا، اگر قیام کو شرک مان لیا جائے تو قعود اور لیٹنے کی حالتیں بھی شرک قرار پائیں گی کیوں کہ یہ بھی ذکر الٰہی اور عبادتِ الٰہی کا جزو ہیں، پھر باقی کیا بچا؟ اس طرح تو سارا نظامِ حیات درہم برہم ہوکر رہ جائے گا اور انسان کا اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے اٹھنا، بیٹھنا اور لیٹنا سب شرک ہو جائے گا۔ لہٰذا اِن حرکات و سکنات کو صرف عبادت اور ذکر الٰہی کے لیے خاص کردینا ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
عبادت اور تعظیم کے درمیان فرق کی مزید وضاحت درج ذیل ہے :
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حالتیں فی نفسہ عبادت ہیں نہ ان کا شرک سے کوئی تعلق ہے کیوں کہ عبادت میں اصل چیز نیت ہے اور نیت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
إنما الأعمال بالنيات.
’’اَعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب کيف کان بدء الوحي إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1
: 3، رقم : 1
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله إنما الأعمال بالنية وأنه يدخل فيه
الغزو وغيره من الأعمال، 3 : 1515، رقم : 1907
کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں، لہٰذا دورانِ قیام ہاتھ باندھنے کا بھی عبادت سے کوئی تعلق نہیں جب تک کہ اس میں نیت کو شامل نہ کر لیا جائے۔ اَز رُوئے فقہ و شرع قیام کے فرائض و واجبات میں یہ شامل نہیں کہ قیام محض کھڑے ہونے کی حالت کو کہتے ہے۔ یہ ایک جداگانہ عمل ہے جس کا ہاتھ باندھنے یا نہ باندھنے سے کوئی تعلق نہیں۔ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی طریقوں میں وہ جس طرح بھی قیام کریں سب حالتیں فقہ کی رُو سے جائز ہیں۔ ایک کے نزدیک ہاتھ باندھنا اللہ کے لیے عبادت ہے اور دوسرے کے نزدیک ہاتھ کھلے چھوڑے رکھنا، بشرطیکہ اس میں نیت کا عنصر شامل ہو۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا قیام عملِ عبادت ہے اور تمہارا ’’قیام برائے تعظیم‘‘ شرک ہے، کیوں کہ تعظیم میں عبادت کی نیت ہی شامل نہیں تو وہ شرک کیوں کر ہوگا۔ کون سی حالت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور کون سی اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں، اس کے تعین کا دار و مدار نیت پر ہے، اگر قیام عبادت کی نیت سے کیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک ہوگا، اگر تعظیم کے لیے ہو تو پھر شرک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عبادت اور تعظیم میں یہ فرق بہر حال ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ یہ حالت عبادت کے لیے ہے اور یہ تعظیم کے لیے۔ اِس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ عبادت کا تعلق نیت سے ہے قیام سے نہیں، قیام مطلق کھڑے ہونا ہے، اس کا ہاتھوں کے ساتھ تعلق نہیں، کھولے جائیں یا باندھے جائیں برابر ہے۔
اگر ہم اَرکانِ نماز پر غور کریں تو نماز کی حالتوں میں قیام کے بعد رکوع و سجود، قومہ اور قعدہ اس کا حصہ ہیں۔ قیام نماز کا حصہ ہے تو قعود بھی نماز کا حصہ ہے، قیام عبادت ہے تو قعود (بیٹھنا) بھی عبادت ہے، قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے تو قعود بھی اُسی کے لیے ہے۔ یہ سب حالتیں نماز کے فرائض و واجبات میں شامل ہیں اور قابل غور بات یہ ہے کہ تشہد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنا بھی شامل کر دیا ہے اور اسے نماز کا جزوِ لاینفک بنا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ حالتیں غیر خدا کے لیے شرک ہوتیں تو آپ نماز میں شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے مگر ایسا نہیں کیوں کہ یہ حالتِ قعود و قیام اﷲ تعالیٰ کے لیے عبادتاً ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تعظیماً ہیں، اگر دورانِ نماز حالتِ قعود میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام عبادتِ اِلٰہی شمار نہیں ہوا تو نماز سے باہر قیام کو عبادتِ الٰہی کیسے تصور کر لیا جائے؟
نماز میں دورانِ قیام ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جاتے ہیں، اگر کوئی نماز کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے ایسا کرے گا، جیسا کہ مغربی دنیا میں کسی کی خاطر ادب بجالانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، تو کچھ لوگ کہیں گے : اَسْتَغْفِرُ اﷲَ الْعَظِيْم، یہ عمل تو عبادت ہے لہٰذا شرک ہے۔ لیکن وہ فقہ مالکی اور جعفری کے لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو قیام کی حالت میں اپنے ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان مذاہب میں ارسال الیدین یعنی ہاتھوں کو کھلا چھوڑ کر قیام کرنا ہی عبادت ہے۔ تو کیا ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ان مذاہب میں اگر وہ نماز کے علاوہ کسی اور کے لیے ایسا کرتے ہیں تو شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔؟ بالکل نہیں، کیوں کہ ایسا کہنا فقدانِ علم کا نتیجہ ہوگا۔
گزشتہ بحث سے واضح ہوگیا ہے کہ قیام فی نفسہ عبادت نہیں، اِس کے عبادت قرار پانے کا دار و مدار نیت پر ہے۔ قیام ایک جائز عمل ہے خواہ وہ تعظیم کے لیے ہو یا نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا قیام ایک مسنون عمل ہے یا صرف جائز ہے؟ ذیل میں درج کی گئی تفصیلات میں اِس کا اِثبات براہِ راست اَحادیث سے کیا گیا ہے کہ قیام اَز رُوئے سنت جائز ہے :
اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دوسروں کے لیے قیام کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور قیام کرنے کی مختلف وجوہ اور اَسباب ہیں۔ اِس مضمون کے پیشِ نظر متعدد اَحادیث کے بالاستیعاب مطالعہ سے قیام کی درج ذیل سات صورتیں سامنے آتی ہیں :
یہ درجہ بندی اِس مضمون کی تفہیم کو زیادہ آسان اور باضابطہ بنانے کے لیے کی گئی ہے۔
کسی معزز و محترم شخصیت یا رہنمائے ملت کی آمد پر کھڑے ہو کر استقبال کرنا قیامِ استقبال کہلاتا ہے اور اس کے جواز کی اَصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ماخوذ ہے۔
1. غزوۂ اَحزاب کے موقع پر یہود کے قبیلہ بنو قریظہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف کفار و مشرکین کی مدد کی۔ غزوہ کے بعد ان کو سزا دینے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ان کے حسبِ منشا فیصلہ کے لیے ان کے حلیف قبیلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
فأرسل النّبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي سعد فأتي علي حمار، فلمّا دني من المسجد قال للأنصار : قوموا إلي سيّدکم، أو خيرکم.
’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد کو بلا بھیجا، تو وہ درازگوش پر سوار ہو کر آئے۔ پس جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَنصار سے فرمایا : (اے قبیلے والو!) تم اپنے سردار یا اپنے سے بہتر کے لیے تعظیماً کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرجع النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحزاب، 4
: 1511، رقم : 3895
2. بخاري، الصحيح، کتاب الاستئذان، باب قول النبي صلي الله عليه وآله
وسلم : قوموا إلي سيدکم، 5 : 2310، رقم : 5907
3. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب جواز قتال من نقض العهد، 3 : 1388، رقم : 1768
4. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب ماجاء في القيام، 4 : 355، رقم : 5215
روایت کے الفاظ خیرکم اِس اَمر کے براہ راست مظہر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جس قیام کا حکم دیا وہ قیامِ استقبال تھا۔ اسے قیامِ تعظیم پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طبیعت ناساز تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے بعض کو حکم دیا کہ وہ کھڑے ہو کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو نیچے اترنے میں مدد دیں؟ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتنے لوگوں کو حکم دیا ہوگا؟ ایک دو یا تین کو کسی کی ناسازیء طبع کے باعث اُسے بلانے کے لیے صرف ایک یا دو آدمیوں کا بھیجا جانا ہی کافی ہوتا ہے، جب کہ یہاں حدیث کے الفاظ ہیں : قال للانصار : قوموا الٰی سیدکم (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَنصار سے فرمایا : (اے قبیلے والو!) تم اپنے سردار کے لیے تعظیماً کھڑے ہو جاؤ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ لہٰذا یہ گمان کرنا کہ یہ قیام تعظیم اور اِستقبال کے لیے نہیں بلکہ ایک بیمار شخص کی اِعانت کے لیے تھا، متنِ حدیث کے خلاف ہے۔ یہ ارشاد تو اس معنیٰ میں ہے کہ سیادت کی وجہ سے ان کا استقبال کرو اگران کو اتارنا مقصود ہوتا۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ تو ایک یا دو اَفراد کو مامور کر دیاجاتا، تمام لوگوں کو کھڑا ہونے کا حکم نہ دیا جاتا۔ حدیث کے آخری اَلفاظ او خیرکم بھی قیامِ اِستقبال پر ہی دلالت کر رہے ہیں۔
امام ابو داؤد (202۔ 275ھ) نے یہ حدیث اپنی السنن میں ’’کتاب الادب‘‘ کے باب ’’ما جاء فی القیام‘‘ کے تحت بیان کی ہے جس میں انہوں نے دوسرے لوگوں کے لیے کھڑے ہونے کے آداب پر اَحادیث بیان کی ہیں۔ لہٰذا یہ اِعتراض بالکل بے بنیاد ہے کیوں کہ اگر مذکورہ بالا قیام علالت کی بناء پر تھا تو محدثین اِس حدیث کو آدابِ قیام کے باب کے ذیل میں بیان نہ کرتے۔
قیام محبت کے اِظہارکے لیے بھی ہوتا ہے، اسے قیام فی المحبۃ یا قیام فی الحب کہتے ہیں۔ والدین کا قیام اپنی اولاد کے لیے، استاد کا شاگرد کے لیے، شیخ کا اپنے خاص مرید کے لیے، یا کسی بڑے کا قیام چھوٹے کے لیے اس قسم کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ قیام تین چار یا پانچ چھ سال کی عمر کے معصوم بچے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ قیام کی یہ صورت خود سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ اِس حوالہ سے چند اَحادیث درج ذیل ہیں :
1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
ما رأيت أحداً أشبه سمتاً ودلاً وهدياً برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في قيامها وقعودها من فاطمة بنت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . وکانت إذا دخلت علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم قام إليها فقبّلها وأجلسها في مجلسه، وکان النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إذا دخل عليها قامت من مجلسها فقبّلته وأجلسته في مجلسها.
’’میں نے فاطمہ سلام اﷲ علیھا سے زیادہ کسی کو طور طریقہ، روش اور نیک خصلتی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا، (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا ان امور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں). جس وقت وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اَقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے لیے کھڑے ہو جاتے، ان کی پیشانی چومتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی نشست سے کھڑی ہو جاتیں، دستِ اَقدس کا بوسہ لیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل فاطمة، 6 : 175، رقم : 3872
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في القيام، 4 : 355، رقم : 5217
3. نسائي، السنن الکبري، 5 : 96، رقم : 8369
4. ابن حبان، الصحيح، 15 : 403، رقم : 9953
5. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 174، رقم : 4753
6. ابن راهويه، المسند، 1 : 8، رقم : 6
اس حدیث میں سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اﷲ علیھا کا اِظہارِ محبت و تعظیم میں اپنے ابا جان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار محبت و فرحت میں اپنی لختِ جگر کے لیے کھڑا ہونا ثابت ہے۔ اس ایک حدیث میں قیام للفرحۃ والمحبۃ اور قیام للتعظیم دونوں کا ذکر موجود ہے۔
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
رأي النبي صلي الله عليه وآله وسلم النساء والصبيان مقبلين. قال : حسبت أنه قال. من عرس، فقام النبي صلي الله عليه وآله وسلم ممثلاً، فقال : اللّهم! أنتم من أحبّ الناس إليّ، قالها ثلاث مرار.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کو آتے ہوئے دیکھا۔ راوی بیان کرتے ہیں : میرا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’شادی سے آتے ہوئے (دیکھا)۔‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بخدا! تم (اَنصار) مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔ یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابه، باب قول النبي صلي الله عليه وآله
وسلم للأنصار : أنتم أحبّ
الناس إليّ، 3 : 1379، رقم : 3574
2. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب ذهاب النساء والصبيان إلي العرس، 5 : 1985،
رقم : 4885
3. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل الأنصار، 4 : 1984، رقم : 2508
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 175، رقم : 12820
5. ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 398، رقم : 32350
یہ قیام فرطِ مسرت کے اِظہار کے لیے ہے۔ اِنسان کو جب کسی کے آنے کی خوشی ہوتی ہے تو اس خوشی کا بے ساختہ اِظہار کھڑے ہو کر کرتا ہے۔ قیام کی اِس قسم کے حوالہ سے چند اَحاد یث درج ذیل ہیں :
1۔ عون بن حجیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
لما قدم جعفر من هجرة الحبشة، تلقاه النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فعانقه وقبّل ما بين عينيه، وقال : ما أدري بأيّهما أنا أسرّ : بفتح خيبر أو بقدوم جعفر؟
’’جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ہجرتِ حبشہ سے مدینہ آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر اُن سے معانقہ کیا، اُن کی پیشانی کو چوما اور فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ دونوں میں سے زیادہ خوشی مجھے کس بات پر ہوئی ہے، فتح خیبر پر یا جعفر کے آنے پر؟‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 108، رقم : 1470
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 92، رقم : 6764
2۔ فتح مکہ کے روز عکرمہ یمن کی طرف بھاگ گئے تھے، ان کی اہلیہ نے اُنہیں واپس لانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اُن ہی کی ترغیب سے عکرمہ مسلمان ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
فلما بلغ باب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، استبشر ووثب له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قائماً علي رجليه فرحاً بقدومه.
’’پس جب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اَقدس پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت خوش ہوئے اور ان کے آنے کی خوشی میں کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کیا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 269، رقم : 5055
2. بيهقي، المدخل إلي السنن الکبري : 398، رقم : 710
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قیام قیام الفرحۃ تھا اس لیے کہ عکرمہ بن ابو جہل کا قبولِ اِسلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اِنتہائی مسرت انگیز اور راحت افزاء تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آمد پر اس قدر خوش ہوئے کہ بے ساختہ اُن کے اِستقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔
3. ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما تھے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے دروازے پر دستک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جان گئے کہ کون آیا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسی وقت کھڑے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس طرح کھڑے ہونا قیام الفرحۃ اور قیام الاستقبال کے ذیل میں تھا۔ محدثین نے یہ روایت اِسلامی آداب کے ذیل میں بیان کی ہے جو اِس طرح کے قیام کے جواز پر دلیل ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ اُنہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا :
فقام إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عرياناً يجر ثوبه، واﷲ! ما رأيته عرياناً قبله ولا بعده فأعتنقه و قبّله.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کپڑے سنبھالتے ہوئے فوری اُن کے اِستقبال کے لیے کھڑے ہوگئے، اللہ کی قسم! میں نے اِس سے قبل اور بعد، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل لباس کے بغیر (لباسِ اِستراحت میں) کسی سے ملتے نہ دیکھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے معانقہ کیا اور ان کا بوسہ لیا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الاستئذان والآداب، باب ما جاء في المعانقة
والقبلة، 4 : 450، رقم : 2732
2. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 92، رقم : 6765
3. زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 4 : 256
4. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 52
5. عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 2 : 601
آقا علیہ السلام فوری طور پر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر صرف اِظہارِ محبت و فرحت کے طور پر ان کی پذیرائی کے لیے آگے بڑھے تھے۔ اِس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو آداب سکھا دیے کہ کسی پیارے کی آمد پر اس کا اِستقبال کس پر تپاک اندازسے کرنا چاہیے۔ پس چاہت اور خوشی کے عالم میں کسی کو چومنا قیامِ استقبال اور قیامِ فرحت کا اگلا قدم ہے۔
یہ قیام تعظیم کے لیے ہے جس سے اِظہارِ اِحترام مقصود ہوتا ہے، جیسے اُمتی کا قیام نبی کے لیے، اولاد کا والدین کے لیے، مریدین کا شیخ کے لیے، شاگردوں کا استاد کے لیے اور چھوٹوں کا بڑوں کے لیے۔ یہ قیام کسی کی عزت و کرامت اور شرف و بزرگی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے تقدس و اِحترام کے پیش نظر بھی۔
قیامِ اِستقبال کسی کی پذیرائی کے لیے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ اِس کا محرک تعظیم کرنے کا داعیہ ہو۔ اس کی مثال بارات میں آئے ہوئے مہمانوں کی پذیرائی ہے جن میں سے اکثر کو آپ جانتے بھی نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو ملنے والا کوئی نووارِد مہمان بھی ہو سکتا ہے جس کے اِستقبال کے لیے آپ محض رسماً کھڑے ہوجاتے ہیں جب کہ اس کے برعکس آپ اپنے استاد اور شیخ کے لیے تعظیماً کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ قرآن حکیم کے ذکر، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور مشائخ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تعظیماً کھڑے ہوتے تھے۔
1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يجلس معنا في مسجد يحدّثنا، فإذا قام قمنا قيامًا حتي نراه قد دخل بعض بيوت أزواجه.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف فرما ہو کر ہمارے ساتھ گفتگو فرمایا کرتے تھے، پھر جب قیام فرماتے تو ہم سب بھی ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی اَزواجِ مطہرات میں سے کسی کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في الحلم وأخلاق النبي صلي الله
عليه وآله وسلم ، 4 : 247، رقم :
4775
2. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 467، رقم : 8930
3. بيهقي، المدخل إلي السنن الکبري : 401، رقم : 717
4. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 52
اِس حدیث سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گھر جانے کے اِرادہ سے اپنی جائے نشست سے اٹھتے توصحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قیام کرتے۔ حدیث کے الفاظ. فاذا قام قمنا قیامًا (پھر جب قیام فرماتے تو ہم سب بھی ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے)۔ اس مفہوم کی وضاحت کرتے ہیں کہ صحابہ کا قیام صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کی خاطر ہوتا تھا اور وہ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجروں میں سے کسی ایک میں داخل نہ ہو جاتے۔ یہ ان کا روزمرہ کا معمول تھا، ایک یا دو دن کا معاملہ نہ تھا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے تو مجلس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی جاری رہتی تھی۔ اِس میں یہ بات خارج اَز اِمکان نہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلسِ صحابہ سے اپنے حجرۂ مبارک کی طرف جا رہے ہوتے تو کوئی راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال پوچھتا یا کسی کام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِجازت یا ہدایات طلب کرتا اور اس طرح کچھ وقت راہ میں بھی صرف ہو جاتا۔ اس کا دار و مدار موقع و محل اور صورتِ حال کی نوعیت پر ہوتا کہ راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنا توقف فرماتے۔ بہرحال اس دوران جتنا بھی وقت صرف ہوتا، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حجرہء مبارک میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیتے۔ یہ سارا وقت صحابہ کرام مسلسل قیام کی حالت میں گزارتے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو رخصت نہیں ہوتے تھے۔ ان کا یہ قیام صرف تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا تھا۔
2۔ سیدہء کائنات فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تعظیماً کھڑی ہوتیں۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
وکان النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إذا دخل عليها قامت من مجلسها فقبّلته وأجلسته في مجلسها.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی نشست سے کھڑی ہو جاتیں، دستِ اَقدس کا بوسہ لیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل فاطمة، 6 : 175، رقم : 3872
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في القيام، 4 : 355، رقم : 5217
3. نسائي، السنن الکبري، 5 : 96، رقم : 8369
4. ابن حبان، الصحيح، 15 : 403، رقم : 9953
5. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 174، رقم : 4753
6. ابن راهويه، المسند، 1 : 8، رقم : 6
3۔ عمرو بن سائب بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ
إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان جالساً يوماً، فأقبل أبوه من الرضاعة، فوضع له بعض ثوبه فقعد عليه، ثم أقبلت أمه فوضع لها شق ثوبه من جانبه الآخر، فجلست عليه، ثم أقبل أخوه من الرّضاعة، فقام له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأجلسه بين يديه.
’’ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رضاعی والد ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے بچھائی، پھر رضاعی والدہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر مبارک کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رضاعی بھائی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرما ہو کر ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب في برّ الوالدين، 4 : 337، رقم : 5145
2. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 2 : 455
3. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 52
اِس حدیث شریف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رضاعی والدین کے لیے تعظیماً کھڑے ہونے کا اِثبات ہے۔
4۔ حضرت اُم فضل رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے :
أتی النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فلما رآه، قام إليه وقبّل ما بين عينيه، ثم أقعده عن يمينه.
’’بے شک حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی پیشانی چوم کر اپنی دائیں طرف بٹھا لیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 10 : 116، رقم : 9246
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 235، رقم : 10580
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 275
4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 63
جمہور اہلِ اِسلام کا اِقامتِ نماز کے وقت مسنون اور مستحب طریقہ کے مطابق حي علی الصلوۃ اور قد قامت الصلٰوۃ پر کھڑے ہونے کا معمول ہے، لیکن اس بات کو شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ اس کا آغاز کب اور کیسے ہوا اور کس نے کیا؟ اِقامت کے وقت یہ قیام فی الحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام و تعظیم کے لیے تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ جب وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اِقامتِ نماز کے لیے آتا دیکھتے تو اَدباً و اِحتراماً کھڑے ہوجاتے۔ اس طرح یہ قیام اقامت کے لیے نہیں بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِکرام کے لیے ہوتا تھا جس سے در حقیقت یہ اِطلاع دینا مقصود ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ اِس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی نماز اللہ کے لیے اور اِقامت ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہوتی تھی۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے جس کی وضاحت درج ذیل ہے :
آج کے دور میں ہر نماز کا وقت گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے مقرر ہے۔ مقررہ وقت پر اذان کہی جاتی اور بعد ازاں مقررہ وقت پر اقامت کہہ کر نماز ادا کی جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب وقت کا موجودہ نظام متعارف نہیں ہوا تھا نماز کے لیے قیام کا طریقہ کار کیا تھا؟ اس کاجواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرض نمازوں کی اذان سننے کے بعد مسجد میں آ کر سنتیں ادا کرتے اور صف بہ صف بیٹھ کر نماز کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے منتظر رہتے۔ ان کے فرض نماز ادا کرنے کا وقت فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تشریف آوری کا وقت ہوتا۔ ہر کوئی اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف نہ لاتے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے وہی نما ز کا وقت ہوتا۔ فرض نمازوں کی ادئیگی کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اِسی فارمولا پر عمل کرتے تھے۔
مؤذنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہنے کے بعد ایک جگہ اوٹ میں کھڑے ہوکر آقا علیہ السلام کے حجرۂ مبارک کی طرف نظریں مرکوز کیے رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے باہر تشریف آوری کے منتظر رہتے۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی صفیں آراستہ کیے انتظار کی حالت میںہوتے کہ کب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرۂ مبارک سے باہر نکلنے سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک کونے میں گوش بر آواز رہتے اور حجرے کے دروازے کا پردہ سرکنے کی آواز سنتے ہی اگلی صف میں آ کر اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی صدا بلند کرنے لگتے۔ اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جان لیتے کہ آقا علیہ السلام اپنے حجرۂ مبارک سے مسجد میں تشریف لے آئے ہیں اور وہ اپنی اپنی صفوں میں سراپا ادب و تعظیم بنے کھڑے ہو جاتے۔ یہ قیامِ تعظیم تھا جو ایک شعار اور سنت بن گیا۔
1۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان بلال يؤذّن إذا دحضت فلا يقيم حتي يخرج النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ، فإذا خرج أقام الصلاة حين يراه.
’’جب نماز کا وقت ہوجاتا تو بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے لیکن اُس وقت تک اِقامت نہ کہتے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف نہ لے آتے، اور جب بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو نماز کے لیے اِقامت کہتے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب متي يقوم الناس للصلاة، 1 : 423، رقم : 606
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء أن الإمام أحق بالإمامة، 1 :
391، رقم : 202
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21039
4. أبوعوانة، المسند، 1 : 372، رقم : 1350
حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اِقامت کے لیے نہیں بلاتے تھے کہ حضور! نماز کا وقت ہو گیا ہے، باہر تشریف لے آئیں۔ اِقامت سے مراد صحابہ رضی اللہ عنھم کو اِطلاع دینا ہوتی تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے آئے ہیں، تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاؤ! آج بھی اِقامت کے دوران میں کھڑے ہونا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قیامِ اِستقبال و تعظیم کی سنت کی پیروی ہے۔
ایک قیام حضرت بلال رضی اللہ عنہ آغازِ اِقامت میں کرتے اور دوسرا صحابہ رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر کرتے۔ قاضی عیاض (476. 544ھ) اِس حدیث کی شرح میں قیام کی یہی دو قسمیں زیر بحث لائے ہیں۔ اُنہوں نے دونوں کے درمیان تقابل کرتے ہوئے خلاصہ یوں بیان کیا ہے :
بأن بلالاً رضي الله عنه کان يراقب خروج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من حيث لا يراه غيره أو إلا القليل، فلأوّل خروجه أقام هو : ثم لا يقوم الناس حتي يظهر للناس ويروه، ثم لا يقوم مقامه حتي يعدلوا صفوفهم.
’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کا انتظار کرتے رہتے تھے جہاں انہیں کوئی اور نہ دیکھ سکتا یا چند لوگ دیکھ سکتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجرے سے باہر تشریف آوری کے ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہتے اور لوگ اس وقت تک کھڑے نہیں ہوتے تھے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہو جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نہ لیتے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ پر کھڑے نہ ہوتے تھے یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنی صفوں کو سیدھا کرلیتے۔‘‘
قاضي عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 2 : 556، 557
قاضی عیاض مزید لکھتے ہیں :
وفيه أن القيام للصّلاة لا يلتزم بالإقامة أو قوله : قد قامت الصلاة أو حيّ علي الفلاح، علي ما نذکره من اختلاف العلماء، وإنما يلزم بخروج الإمام.
’’اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لیے کھڑا ہونا اِقامت کے ساتھ خاص نہیں ہے یا یہ کہنا کہ یہ ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ یا ’’حی علی الفلاح‘‘ کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ مصنف نے اِس بارے میں علماء کا اختلاف بیان کیا ہے بلکہ یہ امام کے نماز کے لیے نکلنے کے ساتھ خاص ہے۔‘‘
قاضي عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 2 : 556
امام بدر الدین عینی اس حوالے سے فرماتے ہیں :
وجه الجمع بينهما أن بلالاً کان يراقب خروج النبي صلي الله عليه وآله وسلم من حيث لا يراه غيره أو إلا القليل، فعند أول خروجه يقيم ولا يقوم الناس حتي يروه، ثم لا يقوم مقامه حتي يعدل الصفوف.
’’میں کہتا ہوں کہ ان دو باتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کا اِنتظار کرتے تھے جہاں ان کو کوئی نہ دیکھ سکے یا چند لوگ دیکھ سکیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف آوری کے ساتھ ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور لوگ اُس وقت تک (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوتے جب تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نہ لیتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مصلیٰ پر اُس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک (صحابہ کی) صفیں نہ سیدھی کروا لیتے۔‘‘
عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 5 : 154
یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی ایک عاشقانہ خواہش کی تکمیل کا ذریعہ تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلے وہ زیارت کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارکرنے والے لوگوں میں ان کی آنکھیں سب سے پہلے جلوۂ یار پر مرکوز ہوں اور چہرۂ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تکنے والوں میں وہ سب سے بازی لے جائیں۔ اﷲ اکبر اﷲ اکبر کے کلمات گویا اعلان ہوتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ اعلان سنتے ہی کھڑے ہو جاتے۔ ایسا بار بار تسلسل کے ساتھ ہوتا رہا، کبھی ایسا ہوتا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرۂ مبارک سے مسجد میں داخل ہونے کے بعد کسی کام کے باعث واپس چلے جاتے۔ جب متعدد بار ایسا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے کہا کہ وہ اقامت کی اِبتدا میں نہ کھڑا ہوا کریں اور صرف اسی وقت کھڑے ہوں جب وہ مجھے جائے نماز پر کھڑا ہوتے دیکھیں۔ اس طرح یہ ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے حکم کی بنیاد بن گیا جس میں حي علی الصلٰوۃ اور قد قامت الصلٰوۃ کے کلمات کی ادائیگی کے وقت کھڑا ہونا مقصود تھا۔
2۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا :
أقيمت الصلاة فقمنا فعدّلنا الصفوف قبل أن يخرج إلينا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فأتي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي إذا قام في مصلاه قبل أن يکبّر ذکر فانصرف، وقال لنا مکانکم فلم نزل قياماً ننتظره حتي خرج إلينا.
’’نماز کے لیے اِقامت کہہ دی گئی تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے لیے تشریف لانے سے قبل ہی کھڑے ہو کر اپنی صفیں سیدھی کرلیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نماز کی جگہ کھڑے ہوگئے۔ تکبیر کہنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی بات یاد آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مڑے اور ہمیں فرمایا : اپنی جگہ پر کھڑے رہو اور ہم قیام کی حالت میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب متي يقوم الناس للصّلاة، 1 : 422، رقم : 605
2. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 398، رقم : 3874
پھر صحابہ رضی اللہ عنھم کا معمول بن گیا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہی کھڑے ہوتے تھے قطع نظر اس سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرے سے باہر آرہے ہیں یا کہیں اور سے، ان کا کھڑا ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کے لیے ہوتا۔ یہ موقف درج ذیل احادیث سے پایہ ثبوت کو پہنچتاہے :
3۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا أقيمت الصلاة فلا تقوموا حتي تروني.
’’جب نماز کے لیے اِقامت کہی جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہوا کرو جب تک مجھے نہ دیکھ لو (صرف میری آمد پر کھڑے ہوا کرو)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب متي يقوم الناس إذا رأوا الإمام عند
الإقامة، 1 : 228، رقم : 611
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب متي يقوم الناس للصلاة، 1 :
422، رقم : 604
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الجمعة، باب کراهية أن ينتظر الناس الإمام وهم
قيام عند افتتاح الصلاة، 2 : 287، رقم : 592
یہ حدیث ’’صحیح بخاری،‘‘ ’’صحیح مسلم‘‘ اور ’’جامع ترمذی‘‘ کی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِقامتِ صلوٰۃ کے حوالہ سے اُمت کو دوسرا حکم دیا جس نے صحابہ رضی اللہ عنھم کے پہلے معمول کو تبدیل کردیا جس کی رُو سے اَئمہ حدیث کے مطابق وہ تکبیر کی صدا سن کر کھڑے ہوتے تھے۔
اِمام بخاری (194۔ 256ھ) اِس حدیث کو کتاب الاذان کے باب متی یقوم الناس اذا راوا الامام عند الاقامۃ (لوگ اِقامت کے وقت جب امام کو دیکھیں تو کب کھڑے ہوں؟)، امام مسلم (206۔ 261ھ) کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ کے باب متی یقوم الناس للصلاۃ (لوگ نماز کے لیے کب کھڑے ہوں؟) اور امام ترمذی (210۔ 279ھ) اسے کتاب الجمعۃ کے باب کراہیۃ ان ینتظر الناس الامام وہم قیام عند افتتاح الصلاۃ (آغازِ نماز کے وقت لوگوں کے کھڑے ہو کر امام کے اِنتظار کرنے کی ناپسندیدگی) کے تحت لائے ہیں۔ اِن اَبواب میں موضوع کی تشریح و توضیح کے لیے اَئمہ کرام جو احادیث لائے ہیں وہ قیام ہی کے حوالے سے ہیں، اس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مقتدی حضرات نماز کے لیے اِمام کی موجودگی یا غیر موجودگی میں کب کھڑے ہوں؟ اُنہوں نے تصریح کردی ہے کہ دورانِ اِقامت وقتِ قیام کا اِنحصار امام کو دیکھنے پر ہے اور اُس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے امام، اِمام الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ ’’جب اِقامت پڑھی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو۔‘‘ حدیث کے یہ الفاظ غور طلب ہیں۔ اگر ادب کرانا ملحوظ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اقامت کی تکبیرکے ساتھ ہی کھڑے ہونے کا حکم دے دیتے جب کہ اس کے برعکس انہیں کہاگیا کہ جب تم دیکھ لو کہ میں امامت کے لیے آگیا ہوں تو بلاتاخیر میرے لیے کھڑے ہوجایا کرو۔ پس ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کا قیام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھا نہ کہ نماز کے لیے اور یہ قیامِ استقبال اور قیامِ تعظیم تھا۔
4۔ یہی روایت امام بخاری (194۔ 256ھ) نے دوسرے طریق سے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یوں بیان کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا أقيمت الصلاة، فلا تقوموا حتي تروني، وعليکم بالسکينة.
’’جب نماز کے لیے اِقامت کہی جائے تو تم اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو جب تک مجھے دیکھ نہ لو اور تم اپنے اوپر سکون کو لازم رکھو (یعنی نماز کے قیام میں عجلت سے کام نہ لو)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة مستعجلاً وليقم
بالسّکينة والوقار، 1 : 228، رقم : 612
2. ابن حبان، الصحيح، 5 : 51، رقم : 1755
اِس حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ حکم تھا کہ جب تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھ لیں دورانِ اِقامت کھڑے نہ ہوں۔ اس حکم سے یہ ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ پر نماز کا قیام تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جب کہ اقامت پر قیام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے۔ اللہ رب العزت نے نماز اپنے لیے اور اقامت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ لہٰذا آغازِ نماز میں پہلا قیامِ اِقامت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جب کہ دوسرا قیام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔
5۔ اسحاق نے اپنی روایت میں معمر اور شیبان سے حدیث بیان کرتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے :
حتي تروني قد خرجت.
’’یہاں تک کہ تم مجھے (نماز کے لیے) نکلتا ہوا دیکھ لو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الأذان، باب متي يقوم الناس للصلاة، 1 : 422، رقم : 604
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الجمعة، باب کراهية أن ينتظر الناس الامام وهم
قيام عند افتتاح الصلاة، 2 : 487، رقم : 592
3. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب في الصلاة تقام ولم يأت الإمام ينتظرونه
قعودا، 1 : 148، رقم : 540
4. أبو عوانة، المسند، 2 : 28
5. عبد بن حميد، المسند، 1 : 95، رقم : 189
6. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 20، رقم : 2120
10۔ لوگ ’’صحیح مسلم‘‘ کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن وہ اس نکتہ کو سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے جو امام مسلم (206۔ 261ھ) نے درجِ ذیل حدیث میں بیان کیا ہے۔ صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث کے منتخب الفاظ اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے کلام سے بالخصوص متذکرہ بالا نکتہ اَلم نشرح ہوجاتا ہے۔ یہ اہم حدیث جسے ہم حدیثِ عشق بھی کہہ سکتے ہیں اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَدب و توقیر کی تعلیم مضمر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن الصلاة کانت تقام لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’بے شک نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے لیے کھڑی کی جاتی تھی۔‘‘
آگے بیان کرتے ہیں کہ یہ ہماری اِقامتِ نماز صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے ہوتی تھی۔ اس کی توجیہہ انہوں نے یہ بیان کی ہے :
فيأخذ الناس مصافهم قبل أن يقوم النبي صلي الله عليه وآله وسلم مقامه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (مصلی پر) اپنی جگہ پر کھڑے ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنی ’’جگہوں‘‘ پر کھڑے ہو جاتے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب متي يقوم الناس للصلاة، 1 : 423، رقم : 605
2. أبوداود، السنن، کتاب الصلاة، باب في الصلاة تقام ولم يأت الإمام ينتظرونه
قعوداً، 1 : 148، رقم : 541
اِس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نماز کی اِقامت اس لیے کہی جاتی تھی تاکہ لوگوں کو مطلع کیا جائے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصلیٰ پر آمد سے پیشتر ہی اپنی صفیں باندھ لیں اور اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوجائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ لوگ نماز کے لیے صفیں بنا لیتے بلکہ یہ کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کے لیے تشریف لانے اور مصلیٰ کو زینت بخشنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال و پذیرائی کے لیے صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ قیام قیامِ اِستقبال اور قیامِ تعظیمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا، قیامِ نماز کے لیے نہ تھا۔
میت کا اِحترا م اِکرام للاِنسان کے زمرے میں آتا ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہے۔ اس حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنازے کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے خواہ وہ کسی غیر مسلم کا بھی ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قیام جسد اِنسانی کے اکرام کی وجہ سے ہوتا۔
1۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا رأيتم الجنازة فقوموا حتي تخلفکم.
’’جب تم کوئی جنازہ دیکھو تو اِحتراماً کھڑے ہو جایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس سے گزر جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 1 : 440، رقم : 1245
2. نسائي، السنن الکبري، 1 : 625، رقم : 2042
3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 323، رقم : 3051
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 25، رقم : 6660
2۔ دوسری روایت حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم الجنازة فقوموا لها، حتي تخلفکم أو توضع.
’’جب تم کوئی جنازہ دیکھو تو اِحتراماً کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس سے گزر جائے یا کندھوں سے رکھ دیا جائے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 : 659، رقم : 958
2. ترمذي، السنن، کتاب الجنائز، باب ماجاء في القيام للجنازة، 3 : 360، رقم : 1042
3. أبوداود، السنن، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 3 : 203، رقم : 3172
4. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ماجاء في القيام للجنازة، 1 : 492، رقم
: 1542
5. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 404، رقم : 5537
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکمِ قیام جسدِ اِنسانی کے احترام میں ہے۔
3۔ اِسی اِکرامِ انسانی کے باب میں امام بخاری (194. 256ھ) نے الصحيح کی کتاب الجنائز میں باب من قام لجنازۃ یہودي قائم کیا ہے جو ایک یہودی کے جنازے سے متعلق ہے۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
مرّت بنا جنازة، فقام لها النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وقمنا له.
’’ایک جنازہ ہمارے سامنے سے گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے اور ہم سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے۔‘‘
یہاں صحابہ کا مقامِ ادب ملاحظہ کریں کہ وہ جنازہ دیکھ کر بیٹھے نہیں رہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑا ہوتے دیکھ کر فی الفور کھڑے ہوگئے لیکن انہوں نے اپنے دل کی بات بتا دی۔ اُنہوں نے عرض کیا :
يارسول اﷲ! إنها جنازة يهودي؟
’’یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات سن لی اور فرمایا :
إذا رأيتم الجنازة فقوموا.
’’جب تم جنازہ دیکھو تو (اِحتراماً) کھڑے ہوا کرو۔‘‘
1.
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 : 441، رقم : 1249
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 354
3. طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الجنائز، باب الجنازة تمر بالقوم أيقومون لها
أم لا، 2 : 14، رقم : 2717
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 26
قطع نظر اس بات کے کہ یہودی ہے یا مسلمان جب کوئی جنازہ دیکھیں تو اس کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے اور یہ قیام انسان کے مردہ جسم کا اِحترام ہے۔ جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے یہودی اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں، دونوں اِنسان ہیں اور اِحترامِ آدمیت کے اعتبارسے دونوں کا مردہ جسم اِکرام کا مستحق ہے۔
امام بخاری (194۔ 256ھ)، (1) امام مسلم (206۔ 261ھ)، (2) امام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ)، (3) امام نسائی (215۔ 303ھ)(4) اور امام طحاوی (229۔ 321ھ)(5) اسی ضمن میں مزید احادیث لائے ہیں۔
(1) بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 : 441، رقم :
1250
(2) مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 : 661، رقم :
961
(3) أحمد بن حنبل، المسند، 6 :
6
(4) 1. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب القيام لجنازة أهل شرک، 4 : 45، رقم : 1921
2. نسائي، السنن الکبري، 1 : 626، رقم : 2048
(5) طحاوي، شرح معاني الآثار، کتاب الجنائز، باب الجنازة تمرّ بالقوم أيقومون
لها أم لا، 2 : 13، رقم : 2714
اِن اَحادیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے اُمت کو تعلیم دی ہے کہ لوگ جنازے کے اِکرام کے لیے کھڑے ہو جایا کریں۔ پس وہ لوگ جو قیام کے مطلقاً قائل نہیں اُنہیں سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی ربط نہیں کیوں کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آقا علیہ السلام نے نماز کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر قیام فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حد تک اَخلاقیات کا درس دیا کہ کسی انسان کا جنازہ دیکھ کر قطع نظر اس کے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم ہمیشہ کھڑے ہونے کا حکم فرمایا۔ یہ قیام اِکرامِ جسدِ انسانی یعنی آدمیت کے احترام کے لیے قیام کرنا تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
اگر کسی جنازے یا مردہ لاش کا احترام کرنا اس کا استحقاق ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اسے دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم دیتی ہے تو پھر میلاد پر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجنے کے لیے کھڑا ہونا اور نعت کی شکل میں گلہائے عقیدت پیش کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے اظہار کے لیے خوشی منانا اور ماہِ میلاد کے استقبال کے لیے خصوصی تقریب کا اہتمام اور قیام کیوں کر غیر شرعی فعل ہو سکتا ہے؟
قیام کی صورتوں میں سے ایک قیامِ ذکر ہے۔ اِس سے مراد کسی بھی دینی، تبلیغی یا روحانی و تربیتی مقصد کے لیے کھڑا ہونا ہے جیسے درس و تدریس کے لیے معلم کا کھڑا ہونا، خطبہ کے لیے عالم کا کھڑا ہونا اور قاری کا تلاوت قرآن کے لیے کھڑا ہونا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
اَلَّذِيْنَ يَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِهِمْ.
’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اﷲ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
آل عمران، 3 : 191
سلام محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہے اور اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا ہے(1) جیسا کہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنی اِطاعت، (2) محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معصیت کو اپنی معصیت، (3) محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو اپنی رضا، (4) محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا کو اپنی ادا، (5) محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذا کو اپنی ایذا(6) اور محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا۔ (7)
1. الانشراح، 94 : 4
2. ابن حبان، الصحيح، 8 : 175، رقم :
3382
(2) النساء، 4 :
80
(3) 1. النساء، 4 : 14
2. الأحزاب، 33 : 36
3. الجن، 72 :
23
(4) التوبة، 9 :
62
(5) الأنفال، 8 :
17
(6) الأحزاب، 33 :
57
(7) النساء، 4 : 14
خالقِ کائنات نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم، عجز و اِنکسار اور مقامِ عبدیت میں درجۂ کمال پر پہنچنے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو دنیا کی ہر چیز پر بلندی و رفعت کا مورِد ٹھہرایا۔ اِرشاد فرمایا :
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذِکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند کر دیاo‘‘
الانشراح، 94 : 4
اِس اِرشادِ خداوندی کی تفسیر ایک حدیث مبارکہ کے مضمون سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
أنَّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أتاني جبريل، فقال : إن ربّي وربّکَ يقولُ لک : کيف رفعتُ ذکرکَ؟ قال : اﷲ أعلمُ. قال : إذا ذُکِرتُ ذُکِرتَ معي.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے کہا : بے شک آپ کا اور میرا رب آپ سے اِستفسار فرماتا ہے : میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : (اے حبیب!) جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ کا ذکر میرے ذکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘
1. ابن حبان، الصحيح، 8 : 175، رقم : 3382
2. أبو يعلي، المسند، 2 : 522، رقم : 1380
3۔ خلال نے ’’السنۃ (1 : 262، رقم : 318)‘‘ میں اِس کی اسناد کو حسن قرار دیا ہے۔
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 405، رقم : 7176
5. هيثمي، موارد الظمآن الي زوائد ابن حبان : 439، رقم : 1772
6. ابن ابي حاتم رازي، تفسير القرآن العظيم، 10 : 3445، رقم : 19393
7. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 712
8. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 524
9. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 8 : 549
اِس حدیثِ قدسی کی رُو سے ذکرِ الٰہی اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ساتھ کرنا ضروری ہے۔ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے الگ نہ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر وہ عمل بارگاہِ صمدیت میں شرفِ قبولیت حاصل نہیں کر سکے گا۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملایا ہے، اِس لیے یہ دونوں ذکر ایک ساتھ ایک ہی حالت میں کرنا جائز ہے۔ ذکرِ خدا بہ حالتِ قیام جائز ہے تو ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ صورتِ درود و سلام بھی جائز ہے۔
قیام کی متعدد صورتوں میں سے ایک قیامِ سلام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر صلوٰۃ و سلام اَدب و تعظیم سے سرشار کیفیت میں کھڑے ہو کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ قیام متعدد درجاتِ قیام کامجموعہ ہے، مثلاً قیامِ محبت، قیامِ فرحت، قیامِ تعظیم، قیامِ ذکر اور قیامِ صلوۃ و سلام جب ہم محفلِ میلاد میں قیامِ سلام کو لیتے ہیں جس میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پڑھا جاتا ہے تو پھر قیام اور عدمِ قیام کی تمیز پر مبنی ساری بحث محض سعی لاحاصل ہے۔ اس کا میلاد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قیام قیامِ استقبال ہے ہی نہیں۔ اس لیے ہم سرے سے اس بحث ہی کو لغو سمجھتے ہیں کہ استقبال کے لیے قیام کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ درحقیقت یہ قیامِ تعظیم ہوتا ہے بلکہ اس پر مستزاد قیامِ فرحت اور قیامِ محبت اس کا محرک ہے۔ قیام کی یہ تمام صورتیں بلاخوفِ تردید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی ہیں اور اس پر کسی قسم کی اختلاف رائے یا تکرار کرنے کا کوئی محل نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ادب ونیاز سے کھڑے ہو کر سلام پیش کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفرِ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا :
مررتُ علٰي موسيٰ وهو يُصلّي في قبره.
’’میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں صلاۃ پڑھ رہے تھے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضائل موسي عليه السلام ، 4 : 1845، رقم : 2375
2. نسائي، السنن، کتاب قيام اليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي اﷲ موسي عليه
السلام ، 3 : 151، رقم : 1637
3. نسائي، السنن الکبري، 1 : 419، رقم : 1329
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 120
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 241، رقم : 49
6. أبو يعلي، المسند، 7 : 127، رقم : 4085
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری سند سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مررتُ علٰی موسيٰ ليلة أسري بي عند الکثيب الأحمر، وهو قائم يصلّي في قبره.
’’میں معراج کی رات سرخ ٹیلہ کے مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو (میں نے دیکھا کہ) وہ اپنی قبر میں کھڑے صلاة پڑھ رہے تھے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضائل موسي عليه السلام ، 4 : 1845، رقم : 2375
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 148
3. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 387
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 137
5. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال
والأموال والحفدة والمتاع، 8 : 250
6. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال
والأموال والحفدة والمتاع، 10 : 304
7. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 668
8. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع صلي الله عليه وآله وسلم : 168
حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج رہے تھے، اس کی وضاحت لفظ صلوٰۃ کی ذیل میں دی گئی بحث سے ہوجائے گی :
عام طور پر کتابوں میں ان احادیث مبارکہ کا یہ ترجمہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو وہ اپنی قبر انور میں نماز ادا کر رہے تھے۔ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سفرِ معراج کے اس مرحلہ میں مترجمین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے :
هو قائم يصلّي في قبره.
’’(موسیٰ علیہ السلام) اپنی قبر میں کھڑے نماز ادا کررہے تھے یا وہ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہو رہے تھے۔‘‘
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالتِ قیام میں صلوٰۃ ادا کرنے سے راقم نے صلوٰۃ (درود) پڑھنے کا جو نتیجہ اَخذ و مستنبط کیا ہے وہ حدیث سے متعارض نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت دیگر تمام انبیاء بیت المقدس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ تمام انبیاء علیھم السلام کو بھی اس بات کاعلم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس رات سفرمعراج شروع ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کی امامت فرمائیں گے اور یہ امامت لیلۃ المعراج کے اگلے مرحلے پر روانہ ہونے سے پہلے ہوگی، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے آسمانوں پر بھی ملاقات ہونا تھی اور یہی حضرت موسیٰ علیہ السلام مقامِ قدس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے بھی تھے۔ پھر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر کسی دنیاوی سواری پر نہیں بلکہ برّاق پر تھاجس کی رفتار کا اِنسانی عقل اندازہ بھی نہیں کر سکتی۔ وہ برّاق آن واحد میں اتنی مسافت طے کرلیتا تھا جو روشنی کی رفتار سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔ یہ سب جانتے ہوئے کیوں کر ممکن تھا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرے تو وہ محض نمازِ نفل ادا کررہے ہوں، اگر کوئی فرض نماز ہوتی تو یہ بات قرین فہم ہوتی لیکن وصال کے بعد کوئی فرض نماز نہیں ہوتی جو قبر میں ادا کی جائے۔ دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد برزخی زندگی میں کوئی فرائض و واجبات نہیں رہتے اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام قبور میں جو اعمال بجا لاتے ہیں ان کی حیثیت نفلی عبادت کی ہوتی ہے جو ایک اضافی معاملہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ حرام سے سفر معراج پر روانہ ہورہے ہیں اور ان کا گزر اس طرف سے ہوگا۔ اس لیے یہ بات قابل فہم نہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے مرحلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزر رہے ہوں اور وہ اس وقت نفل نماز ادا کرنے میں مصروف ہوں۔ چنانچہ مذکورہ بالا احادیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیج رہے تھے۔ یہ مفہوم متنِ حدیث کے خلاف نہیں کیوں کہ تمام انبیاء جانتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت المقدس میں امامت فرمانی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں بحیثیت مقتدی شریکِ نماز ہونا تھا اس لیے اس وقت یہاں قبر میں نماز پڑھنے کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
وھو قائم یصلی فی قبرہ کے صحیح مفہوم کی روشنی میں لفظ صلوٰۃ کا معنی نماز نہیں بلکہ درود وسلام پڑھنا ہے کیونکہ صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ رحمت بھیجنا، تعریف کرنا اور درود وسلام پڑھنا جیسے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
امام مرتضیٰ الزبیدی صلوٰۃ کا معنی لکھتے ہیں :
وقال ابن الأعرابي : الصلاة من اﷲ الرحمة، ومنه (هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْکُمْ)(1) أي يرحم. (2)
’’ابن اعرابی کہتے ہیں : اللہ کی طرف سے صلاۃ کا معنی ’’رحمت ہے۔‘‘ یہی اس آیت کا معنی ہے : (وہی ہے جو تم پر صلاۃ بھیجتا ہے) یعنی جو تم پر رحمت بھیجتا ہے۔‘‘
(1) الأحزاب، 33 :
43
(2) زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 19 : 607
ابن منظور (630. 711ھ) اِرشادِ باری تعالی۔ أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ کے تحت لکھتے ہیں :
البقرة، 2 : 157
فمعني الصلوات ههنا الثناء عليهم من اﷲ تعاليٰ.
’’یہاں صلوات سے مراد ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف کا ہونا ہے۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 14 : 465
لفظِ صلوۃ کے انہی معانی کا اطلاق درج ذیل آیات کریمہ اور حدیث مبارکہ میں کیا گیا ہے :
1۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘
الأحزاب، 33 : 56
2۔ دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ.
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے۔‘‘
القرآن، الأحزاب، 33 : 43
3۔ حدیث مبارکہ میں بھی یہ لفظ کثرت کے ساتھ درود کے معنیٰ میں آیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من صلي عليّ صلاة، صلي اﷲ عليه بها عشراً وکتب له بها عشر حسنات.
’’جس نے مجھ پر درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُس پر دس رحمتیں بھیجے گا اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دے گا۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 354، رقم : 484
اِس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا اَحادیث مبارکہ میں صلوٰۃ کا مفہوم حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت اور سلام بھیجنا ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے ہوئے کر رہے تھے۔
امام شعرانی (898۔ 973ھ) الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر میں شبِ معراج کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’جب صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ سے آگے اپنی سواری براق کو چھوڑ کر رفرف پر اس مرحلہ تک عروج کر گئے جو ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ دَنٰی فَتَدَلّٰی پر اﷲ رب العزت کے حضور باریابی سے مشرف ہوئے تو اس جگہ جہاں محب و محبوب کے سوا اور کوئی نہ تھا باری تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہوئے اور یہ آواز آئی :
يا محمد! قف، إن ربک يصلي.
’’اے پیارے محمد! ٹھہر جایئے، آپ کا رب آپ پر درود بھیج رہا ہے۔‘‘
شعراني، اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الأکابر، 2 : 367
قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ صلوٰۃ جو شبِ اسریٰ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیج رہا تھا وہی صلوٰۃ اﷲ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام پڑھ رہے تھے۔ اُس رات حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر انور میں کوئی نفل نماز نہیں بلکہ صلوٰۃ و سلام کا وظیفہ کر رہے تھے۔ یہ صلوٰۃ صلوٰۃ مبارک باد، صلوٰۃ تعظیم و توقیر اور صلوٰۃ اِحترام تھا۔
اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ صلوٰۃ کے مفہوم کو صرف نماز تک محدود نہ کیا جائے بلکہ یہ رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ اور برکت بھیجنے کا عمل تھا اور یہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلام تھا جس کے آئینہ دار قائم یصلی کے اَلفاظِ حدیث ہیں۔ اِسی واقعہ کی اطلاع ہمیں مخبرِ صادق رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی اور بتایا کہ سفر معراج کے ابتدائی مرحلہ میں انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہ حالتِ صلوٰۃ دیکھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ کھڑے تھے اور صلوٰۃ و سلام پڑھ رہے تھے۔
آپ دونوں میں سے کسی بات کو تسلیم کر لیں اور اِس اَمر پر اپنی توجہ مرکوز کریں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہ اطلاع کیوں فراہم کی؟ اگر یہ محض نماز کا معاملہ ہوتا تو یہ اﷲ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تھا۔ ہر پیغمبر اپنی قبر انور میں نفل ادا کرتا ہے، یہ کوئی خلافِ معمول بات نہیں۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ سفرِ معراج کے مرحلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں امت کو یہ بتانے میں کیا نکتہ اور حکمت کار فرما تھی؟ دراصل بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران میں اُن کی قبر کے پاس سے گزرے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ (درود) پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس موضوع پر امت کو آگاہی دینے کا مقصد انہیں قیامِ سلام کے آداب سمجھانا تھا۔
3۔ صحیح مسلم کی کتاب الایمان کے باب ذکر المسیح بن مریم والمسیح الدجال میں اس مضمون کی ایک اور حدیث وارد ہوئی ہے۔ امام سخاوی (831۔ 902ھ) نے القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ حدیث سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے باب میں صلوٰۃ و سلام کے حوالے سے بیان کی ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
قد رأيتني في جماعة من الأنبياء، فإذا موسي قائم يصلي، فإذا رجل ضرب جعد کأنه من رجال شنوء ة.
’’تحقیق میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں دیکھا تو موسیٰ کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے، وہ شنوءہ قبیلے (کے لوگوں) کی طرح درمیانے قد کے اور گھنگریالے بالوں والے تھے۔‘‘
وإذا عيسي ابن مريم عليه السلام قائم يصلّي، أقرب الناس به شبهاً عروة بن مسعود الثقفي.
’’اور عیسٰی بن مریم کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے، ان سے قریباً ہم شکل عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔‘‘
وإذا إبراهيم قائم يصلي، أشبه الناس به صاحبکم (يعني نفسه)، فحانت الصلاة فأممتهم.
’’اور ابراہیم بھی کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے، سب سے زیادہ اُن کے ہم شکل تمہارے صاحب (یعنی میں) ہوں، اِس کے بعد نماز کھڑی ہوگئی اور میں نے اُن کی اِمامت کروائی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب ذکر المسيح بن مريم والمسيح الدجال، 1 : 157،
رقم : 172
2. خطيب تبريزي، مشکوٰة المصابيح، کتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، 3 : 379، رقم
: 5866
3. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 387
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 135، 138
5. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال
والأموال والحفدة والمتاع، 8 : 249
6. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع صلي الله عليه وآله وسلم : 168
اس روایت سے مترشح ہو رہا ہے کہ شبِ اسریٰ ہر پیغمبر حالتِ قیام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ رہا تھا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام اَنبیاء کی اِمامت کرائی۔
قیام کے موضوع پر یہ حوالہ جات بالصراحت اِس اَمر پر دلالت کرتے ہیں کہ ہم قیام کیوں اور کس لیے کرتے ہیں؟ یہاں ایک شبہ کا اِزالہ اَز حد ضروری ہے کہ معاذ اﷲ ہم ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت لمحۂ موجود میں ہوئی ہے، لہٰذا ہمیں قیام کرنا ہے یا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مجلس میں تشریف لا رہے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر قیام کر رہے ہیں۔ یہ کسی مسلمان کا عقیدہ ہے نہ ہمارا قیامِ اِستقبال کا مظہر ہے۔ یہ بھی نہیں کہ جو محفلِ میلاد میں شرکت کے لیے آئے ہیں ان کے لیے قیام کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بات ممکنات میں سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی طور پر محفل میلاد میں تشریف لائیں۔ روحانی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسا کرنا ناممکن نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں چاہیں روحانی طور پر تشریف لے جا سکتے ہیں۔ جسمانی طور پر اس لیے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اقدس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ پاک میں قبر انور کے اندر استراحت فرما رہا ہے، لیکن ملائکہ اور عالمِ اَرواح کے کسی فرد کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جگہ اور کسی مقام پر روحانی طور پر آجا سکتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں یا حالتِ بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کرتا ہے جیسا کہ متعدد اولیاء کرام کے بارے میں مذکور ہے تو وہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی زیارت سے شادکام ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسمانی طور پر نظر آتے ہیں لیکن وہ الروح التمثیل یا الروح المتمثلۃ کی ایک صورت گری ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے جبرئیل امین یا ملک الموت کسی کو بشری شکل میں دکھائی دے۔ اس حوالے سے کئی مثالیں قرآن و حدیث سے دی جاسکتی ہیں۔
قرآن حکیم میں ہے کہ حضرت جبرئیل امین حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جسمانی صورت میں حاضر ہوئے :
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّاO
’’تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرئیل) کو بھیجا سو جبرئیل ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہواo‘‘
مريم، 19 : 17
بَشَرًا سَوِيّا کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک مکمل جیتے جاگتے انسان کی شکل میں سیدہ مریم علیھا السلام کے پاس آئے اور یہ اس پیکرِ نوری کا اصل جسم نہیں بلکہ متمثل صورت تھی۔ روایات میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بشری صورت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبي صلي الله عليه
وآله وسلم عن الإيمان والإسلام
والإحسان، 1 : 27، رقم : 50
2. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله إن اﷲ عنده علم الساعة، 4 : 1793،
رقم : 4499
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1 : 37،
39، رقم : 8، 9
پس صحیح عقیدہ یہی ہے کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اَطہر اُن کے روضہ پاک میں آرام فرما ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح پاک متمثل ہو کر کہیں بھی جلوہ گر ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا بے ادبی اور گستاخی کے ذیل میں آئے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر اَطہر سے باہر روحانی طور پر متمثل ہو کر جہاں چاہیں تشریف نہیں لے جاسکتے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ قدرتِ تام حاصل ہے کہ فرشتوں کی طرح جہاں چاہیں اپنی روح پاک کے ساتھ تشریف لے جا سکتے ہیں۔ روح کے اس طرح جسمانی وجود میں نظر آنے کو تمثل الروح یا تجسد الروح سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ مریم میں جبرئیل امین علیہ السلام کے باب میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی طور پر جسمانی صورت میں متمثل ہو کر کہیں بھی تشریف لے جا سکتے ہیں لیکن یہ جمہور مسلمین اور اہلِ سنت وجماعت کا کبھی عقیدہ نہیں رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسمانی وجود کے ساتھ محفل میلاد میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور اس بنا پر اہلِ محفل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے قیام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ غلط الزام ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ شرکائے محفلِ میلاد صرف علامتی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کے احترام میں کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ قیام اس لیے بھی نہیں کیا جاتا کہ معاذ اﷲ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لمحۂ موجود میں متولد ہو رہے ہیں۔ کوئی اَحمق اور فاتر العقل شخص ہی ایسی سوچ رکھ سکتا ہے۔ محفلِ میلاد میں قیام ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور ولادت پاک کو یاد کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اس قدر شانِ جمال اور عظمتِ بے مثال کی حامل ہے کہ اس کا ذکر بھی بہت فضیلت کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی تعظیم اِس اَمر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات پر سلام پیش کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَوصافِ حمیدہ کی تحسین کریں اور ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہایت درجہ اَدب و تعظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائیں۔
تذکارِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری محبت، چاہت اور الفت کے متقاضی ہیں۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت (ربیع الاول) آئے تو لازم ہے کہ ہم اﷲ رب العزت کے حضور شکرانہ بجا لائیں کہ اس نے نوعِ انسانیت کو اتنی بڑی نعمت اور احسانِ عظیم سے نوازا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے حق و صداقت اور ہدایت کا نور ہر طرف پھیل گیا اور کفر و شرک کے اندھیرے چھٹ گئے۔ اﷲ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے دنیا کی ان تاریکیوں کو دور کرنے کا سامان کیا جو پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھیں۔ گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں وہ نورِ سرمدی چمکا جس کی ضوء پاشیوں سے ہدایت ربانی کی صبح طلوع ہوئی۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایام میں اﷲ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ کی خوشی منانا اور محبت اور اپنائیت سے اس کا ذکر کرنا ہم پر لازم ہے۔ یہ مہینہ اور ولادتِ مبارکہ کا دن اﷲ عزوجل کی خصوصی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ اور دن ہے۔
وہ ساعتیں جب اِس دنیائے آب و گل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اپنے دامن میں بے اِنتہاء خوشی و مسرت اور فرحت کی دولت لے کر منصہ عالم پر ظہور پذیر ہوئیں۔ اس متاعِ عظیم کی یاد میں قیام کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار جھوم جھوم کر میلاد پڑھنا سرورِ ایمان کا اِظہار ہے۔ جتنی احادیثِ مقدسہ کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ قیام کا جواز فراہم کرتی ہیں، مدحت و نعت کے گجرے بہ حضور سید خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرنے کی سند ہمیں متعدد روایات سے ملتی ہے۔ یہ سارا عمل سنت قرار پاتا ہے جس کی تائید تمام ائمۂ حدیث کی روایات اور اَقوال سے ہوتی ہے۔
قیام کی اِس ساری بحث کا خلاصہ ہے کہ ہر ذات کے لیے قیام اُس کے مرتبہ کے لحاظ سے جائز ہے۔ شاگرد اپنے استاد کے لیے اَدباً اور تعظیماً کھڑا ہوتا ہے، میزبان مہمان کے اِستقبال کے لیے کھڑا ہوتا ہے، شیخ مرید کے لیے محبت رکھتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے اور بیٹا باپ کے لیے ادباً کھڑا ہوتا ہے۔ قیام کی یہ تمام صورتیں جائز ہی نہیں حباً واجب ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا اگر ان تمام ذاتوں کے لیے ادباً، تعظیماً، اِکراماً اور فرحت محسوس کرتے ہوئے کھڑا ہونا جائز ہے تو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بہ درجہ اَولیٰ جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر قیام کرتے ہیں تو یہ محبت، فرحت اور خوشی کے اِظہار میں کرتے ہیں، ہم اِس گھڑی کو اپنے تصور و تخیل میں رکھتے ہوئے محبت اور فرحت کا اظہار کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دنیائے آب و گل میں تشریف لائے۔
جہاں تک قیام کرنے سے منع کرنے کا تعلق ہے وہ اُس شخص کے لیے ہے جو دوسروں سے اِس اَمر کی خواہش اور توقع کرے کہ اُس کے آنے پر لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں۔ حدیث مبارکہ میں اِسی خواہش اور توقع کی مذمت کی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اس انداز کے قیام سے منع فرمایا۔ اِمام بخاری (194۔ 256ھ)، اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) اور اِمام ابو داؤد (202۔ 275ھ) نے اس مضمون کی ایک حدیث بیان کی ہے جس میں اِمتناعِ قیام کا ذکر کیا گیا ہے اور کسی مجلس میں آنے والے کی ایسی خواہش کی مذمت کی گئی ہے۔ (1) اس کے لیے عاجزی اور تواضع اختیار کرنے کا حکم ہے، البتہ جو لوگ کسی کی آمد کے منتظر ہوں ان کے لیے حکم ہے کہ وہ اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جائیں کہ یہ ادب و تعظیم کا تقاضا ہے۔ اگر اس شخص کے دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگے کہ دوسرے اس کی آمد پر کھڑے ہو جائیں تو یہ قابلِ مذمت ہے۔ اِس رویہ سے تکبر و رعونت کا اظہار ہوتا ہے۔ اِس اِمتناعِ قیام کو اَخلاقی تربیت اور اِسلامی تعلیم کے ایک حصے کے طور پر لیا جائے تاکہ لوگوں کے اندر تواضع و انکساری پیدا ہو۔ اگر کوئی شخص مجلس میں آتا ہے اور اُس کی آمد پر لوگ کھڑے نہیں ہوتے تو اُسے ناراض اور غضب ناک نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ایسی خواہش اور توقع اِسلامی آداب و اَخلاق کے منافی ہے۔
(1) عن معاوية رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : من سرّه أن يتمثّل له الرّجال قياما فليتبوّأ مقعده من النّار.
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لئے بُت کی طرح کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار رکھے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الآداب، باب ما جاء في کراهية قيام الرجل للرجل،
5 : 90، رقم : 2755
2. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في قيام الرجل للرجل، 4 : 358، رقم : 5229
3. بخاري، الأدب المفرد : 339، رقم : 977
4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 93، 100
5. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 282، رقم : 4208
6. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 351، رقم : 819
Copyrights © 2023 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved