Khun-e-Muslim ki Hurmat

باب 3 :خود کشی فعل حرام ہے

1۔ خود کشی کیوں حرام ہے؟

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل پر بحث سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اسے اتنا بڑا جرم کیوں قرار دیا۔

درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی (suicide) کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔

2۔ قرآن و حدیث میں خودکشی کی ممانعت

جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشا ربانی ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo

’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘

  1. البقرة، 2: 195

امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:

وقيل: أراد به قتل المسلم نفسه.

’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔‘‘

  1. بغوی، معالم التنزيل، 1: 418

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًاo

’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہےo‘‘

  1. النساء، 4: 29، 30

امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.

’’{اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو}۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘

  1. رازی، التفسير الکبير، 10: 57

مزید برآں امام بغوی نے ’’معالم التنزيل (1: 418)‘‘ میں، حافظ ابن کثیر نے ’’تفسير القرآن العظيم (1: 481)‘‘ میں اور ثعالبی نے ’’الجواهر الحسان في تفسير القرآن (3: 293)‘‘ میں سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیات کے تحت خود کشی کی حرمت پر مبنی احادیث درج کی ہیں (جو کہ اگلے صفحات میں آرہی ہیں)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خود کشی کی ممانعت و حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔

احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.

’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، 2: 697، رقم: 1874

یہ حکم نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں (suicide attacks) اور بم دھماکوں (bomb blasts) کے ذریعے اپنی جان کے ساتھ دوسرے پُراَمن شہریوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے کی اجازت دے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔

3۔ خودکُش دُہرے عذاب کا مستحق ہے

احادیث مبارکہ میں حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے مرتکب شخص کو دُہرے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ ہوں:

1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا. وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيْدَةٍ، فَحَدِيْدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح،کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، 5: 2179، رقم: 5442

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 103، رقم: 109

  3. ترمذي، السنن،کتاب الطب، باب ما جاء فيمن قتل نفسه بسم أو غيره، 4: 386، رقم: 2044

  4. أبو داود، السنن،کتاب الطب، باب الأدوية المکروهة، 4: 7، رقم: 3872

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : الَّذِي يَطْعَنُ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَطْعَنُهَا فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَتَقَحَّمُ فِيْهَا يَتَقَحَّمُ فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قاتل النفس، 1: 459، رقم: 1299

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 435، رقم: 9616

  3. طبراني، مسند الشاميين، 4: 285، رقم: 3311

  4. بيهقي، شعب الإيمان، 4: 350، رقم: 5362

3. عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيئٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ.

’’حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح،کتاب الأدب، باب من أکفر أخاه بغير تأويل فهوکما قال، 5: 2264، رقم: 5754

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 104، رقم: 110

  3. أبو داود، السنن،کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء في الحلف بالبراء ة وبملة غير الإسلام، 3: 224، رقم: 3257

  4. نسائي، السنن،کتاب الأيمان والنذور، باب الحلف بملة سوی الإسلام، 7: 5، 6، رقم: 3770، 3771

  5. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 33، 34، رقم: 16434-16438

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کے کلمات - جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کے عمل کو دوزخ میں بھی جاری رکھنے کا اشارہ فرمایا ہے - دراصل اس فعلِ حرام کی انتہائی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی بہت سے ناجائز اُمور کی سزا تو جہنم ہوگی مگر خودکشی کے مرتکب کو بار بار اس تکلیف کے عمل سے گزارا جائے گا۔ گویا یہ دُہرا عذاب ہے جو ہر خودکُش کا مقدر ہوگا۔ (العیاذ باللہ۔)

4۔ خودکشی کا حکم دینے والے اُمراء کی مذمت

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں خود کشی کی عمومی حرمت وارِد ہوئی ہے۔ ذیل میں کچھ احادیث خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جن میں بعض امراء اور حکمرانوں کی غیر شرعی اطاعت سے ممانعت کی گئی ہے جس سے انسانی زندگیاں بلاوجہ خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوانوں کو میڈیا پر بات کرتے ہوئے سنا گیا ہے جو خودکشی کا سبب اپنے امیر کے حکم کو گردانتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں امیر کی اطاعت تو بٹھائی جاتی ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام میں اس اطاعت کی حدود و قیود بھی ہیں۔ محض اس لیے اپنی اور دوسروں کی قیمتی جانیں تلف کردی جائیں کہ ’’امیر‘‘ کا حکم ہے، انتہائی نادانی، ناسمجھی اور جہالت ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے رہنماؤں اور ان کے کارکنوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے۔

1. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، وَقَالَ: ادْخُلُوهَا. فَأَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ آخَرُونَ: إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا. فَذَکَرُوا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا: لَوْ دَخَلُوهَا لَمْ يَزَالُوا فِيهَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ. وَقَالَ لِلآخَرِينَ: لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور (انصار کے) ایک آدمی کو اُس پر امیر مقرر فرمایا۔ پس اُس نے آگ جلائی اور اپنے ماتحت لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جائو۔ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو بعض نے کہا: ہم آگ ہی سے تو بھاگے ہیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن لوگوں سے فرمایا جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا: اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو قیامت تک کبھی اس سے باہر نہ نکلتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا (جنہوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں کیا تھا): گناہ کے کاموں میں کسی کی اِطاعت و فرمانبرداری لازم نہیں۔ (حکمران کی) اِطاعت و فرمانبرداری تو صرف بھلائی کے کاموں میں لازم ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحيح،کتاب الأحکام، باب السمع والطاعة للإمام ما لم تکن معصية، 6: 2649، رقم: 6830

2۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں یہ روایت مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان کی گئی ہے:

عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سَرِيَّةً وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا، فَأَغْضَبُوهُ فِي شَيْئٍ، فَقَالَ: اجْمَعُوا لِي حَطَبًا. فَجَمَعُوا لَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا. فَأَوْقَدُوا، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَأْمُرْکُمْ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ تَسْمَعُوا لِي وَتُطِيعُوا؟ قَالُوا: بَلَی. قَالَ: فَادْخُلُوهَا. قَالَ: فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ، فَقَالُوا: إِنَّمَا فَرَرْنَا إِلَی رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ النَّارِ. فَکَانُوا کَذَلِکَ، وَسَکَنَ غَضَبُهُ، وَطُفِئَتِ النَّارُ، فَلَمَّا رَجَعُوا، ذَکَرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور اُس کا امیر انصار کے ایک آدمی کو مقرر فرمایا اور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ امیر کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ (اتفاق سے) وہ امیر اُن پر کسی چیز سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا: میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ لشکر نے لکڑیاں جمع کیں تو اس نے کہا: ان میں آگ جلائو۔ انہوں نے آگ جلائی تو امیر نے کہا: کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ لوگوں کو میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! امیر نے حکم دیا: تو پھر اس آگ کے اندر کود جاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں: اِس پر وہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اُن میں سے بعض نے کہا: آگ ہی سے بچنے کے لئے تو ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی ہے (پھر کیوں اس میں داخل ہوں)؟ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور آگ بجھا دی گئی۔ پس جب وہ لوٹے تو اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے کیونکہ اطاعت تو صرف نیک باتوں میں لازم ہے۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء، 3: 1469، رقم: 1840

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا متفق علیہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اُن خود کش بمباروں کو اپنے فعل پر غور کرنا چاہیے جو اپنے نام نہاد کمانڈروں اور امیروں کی اِطاعت کے نشے میں ڈوب کر مذہب کے نام پر سول آبادیوں پر خود کش حملے کرتے ہیں۔ اور یوں نہ صرف دیگر لوگوں کے قتل کا باعث بنتے ہیں بلکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق خود کو جہنم کا ایندھن بھی بناتے ہیں۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے والوں اور اس پر اُکسانے والوں کے لیے یہ احادیثِ صحیحہ نہایت غور طلب ہیں۔

5۔ خود کشی کرنے والے پر جنت حرام ہے

کم سن نوجوانوں کی ذہن سازی (brain washing) کرکے اور انہیں شہادت اور جنت کے سبز باغ دکھا کر خود کش حملوں کے لیے تیار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود کشی کرنے والے کے لیے جہنم کی دائمی سزا مقرر کی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کے لیے حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ فرما کر جنت حرام فرما دی ہے۔

1۔ حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ حدیث مبارکہ مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کَانَ فِيْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ فَأَخَذَ سِکِّيْنًا، فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ. قَالَ اللهُ تَعَالَی: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

’’تم سے پہلے لوگوں میںسے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح،کتاب الأنبيائ، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3: 1272، رقم: 3276

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 107، رقم: 113

  3. ابن حبان، الصحيح، 13: 328، رقم: 5988

  4. ابن حبان، الصحيح، 13: 329، رقم: 5989

2۔ حضرت حسن بصری حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ رَجُلًا مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، خَرَجَتْ بِهِ قُرْحَةٌ، فَلَمَّا أذَتْهُ انْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ کِنَانَتِهِ، فَنَکَأَهَا، فَلَمْ يَرْقَأْ الدَّمُ حَتَّی مَاتَ. قَالَ رَبُّکُمْ: قَدْ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

’’پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا: میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه وإن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، 1: 107، رقم: 113

مذکورہ بالا روایات میں اِس اَمر کی بھی اِجازت نہیں دی گئی کہ اگر کسی کو کوئی تکلیف یا مرض لاحق ہوجائے تو وہ اس تکلیف سے چھٹکارا پانے کی غرض سے ہی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس کا یہ عمل مقبول نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے باعثِ جہنم بنے گا۔

6۔ دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے

احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اللہ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔

1۔ متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

إِلْتَقَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُشْرِکُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِکِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا، فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ، مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالُوا: أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ، وَأَبْطَأَ، کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.

’’ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4: 1541، رقم: 3970

  2. مسلم، الصحيح،کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 106، رقم: 112

  3. ابن منده، الإيمان، 2: 663، رقم: 644

  4. عبد بن حميد، المسند، 1: 169، رقم: 459

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حُنَيْنًا، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ يُدْعَی بِالْإِسْلَامِ: هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَلَمَّا حَضَرْنَا الْقِتَالَ، قَاتَلَ الرَّجُلُ قِتَالًا شَدِيدًا، فَأَصَابَتْهُ جِرَاحَةٌ. فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، الرَّجُلُ الَّذِي قُلْتَ لَهُ آنِفًا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَإِنَّهُ قَاتَلَ الْيَوْمَ قِتَالًا شَدِيدًا، وَقَدْ مَاتَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِلَی النَّارِ. فَکَادَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَرْتَابَ فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَی ذَلِکَ إِذْ قِيلَ إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ وَلَکِنَّ بِهِ جِرَاحًا شَدِيدًا. فَلَمَّا کَانَ مِنَ الليْلِ لَمْ يَصْبِرْ عَلَی الْجِرَاحِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَلِکَ، فَقَالَ: اللهُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلَالًا، فَنَادَی فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَأَنَّ اللهَ يُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں تھے، ہم لوگوں میں ایک شخص تھا جس کا شمار مسلمانوں میں ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بہادری سے لڑا اور زخمی ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! جس شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے وہ تو آج بہت بہادری سے لڑا اور اب وہ مر چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں گیا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی تہ تک نہ پہنچ سکے اور) قریب تھا کہ وہ شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے۔ اتنے میں کسی شخص نے آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شخص ابھی مرا نہیں تھا لیکن بہت زخمی تھا، رات کے آخری حصہ میں وہ زخم کی تکلیف برادشت نہ کر سکا تو اس نے خودکشی کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلوا کر لوگوں میں اعلان کروایا کہ جنت میں صرف مسلمان جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسقوں کے ذریعے بھی تقویت دیتا رہتا ہے۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، 1: 106، رقم: 111

7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی

خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس عمل مبارک سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراپا رحمت ہونے کے باوُجود خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی دعا فرمائی، اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ اس حوالے سے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح،کتاب الجنائز، باب تَرْکِ الصَّلَاة عَلَی الْقَاتِلِ نَفْسَه، 2 : 672، رقم : 978

2۔ امام نسائی، امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے:

عَنِ ابْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقَِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا أَنَا فَلَا أُصَلِّي عَلَيْهِ.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے تیر کے ذریعے خودکشی کرلی تو حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘

  1. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب تَرْکِ الصَّلَاة عَلَی من قتلِ نَفْسَه، 4: 66، رقم: 1964

  2. أبوداؤد، السنن، کتاب الجنائز، بَابُ الْإِمَامِ لَا يُصَلِّي عَلَی مَنْ قَتَلَ نَفْسَه، 3: 206، رقم: 3185

  3. أحمد بن حنبل ، المسند، 5: 92، رقم: 20891

خلاصہ کلام

مختصراً یہ کہ اسلام اپنی تعلیمات اور اَفکار و نظریات(teachings and idealogy) کے لحاظ سے کلیتاً اَمن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و اَمان کا دین ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہے جو نہ صرف تمام انسانیت کے لئے پیکرِ امن و سلامتی اور باعثِ خیر و عافیت ہو بلکہ وہ اَمن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترامِ آدمیت جیسے اوصاف سے متصف بھی ہو۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے برعکس اِقامت و تنفیذِ دین اور اِعلاء کلمہ حق کے نام پر انتہا پسندی، نفرت و تعصب، افتراق و انتشار، جبر و تشدد اور ظلم و عُدوان کا راستہ اختیار کرنے والے اور شہریوں کا خون بہانے والے لوگ چاہے ظاہراً اسلام کے کتنے ہی علم بردار کیوں نہ بنتے پھریں، ان کا دعویٰ اسلام ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔

اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ قتلِعمد کی سزا موت ہے۔ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے لیے شدید اور دردناک عذاب کی وعید ہے۔ جب اسلام کسی ایک فرد کے قتل حتی کہ اپنی جان کو بھی تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتا، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں شہریوں کے جان ومال کو تلف کرنے کی اجازت دے! لہٰذا جو لوگ نوجوانوں کو خون ریزی اور قتلِ عام پر اُکساتے ہیں اور جو نوجوان ایسے گمراہ لیڈروں کے کہنے پر خود کش حملوں میں حصہ لیتے ہیں، دونوں نہ صرف دنیا میں اسلامی تعلیمات سے اِنحراف کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی شدید عذاب کے حق دار ہیں کیونکہ وہ اسلام جیسے پُراَمن اور متوازن دین کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں اور پوری اِنسانیت کو نفرتوں کی آگ میں دھکیلنے کا سبب بھی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved