اربعین: روایت و فہمِ حدیث کی فضیلت

روایت و درایت حدیث کی فضیلت

15. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضوان الله علیهم اجمعین، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ: إِنَّ اللهَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَّنْتَزِعُهٗ مِنَ الْعِبَادِ، وَلٰـکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُهَالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، 1/50، الرقم/100، ومسلم في الصحیح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن في آخر الزمان، 4/2058، الرقم/2673، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في ذہاب العلم، 5/31، الرقم/2652، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب اجتناب الرأي والقیاس، 1/20، الرقم/52، وابن حبان في الصحیح، 10/432، الرقم/4571، وأیضًا: 15/114، الرقم/6719، والدارمي في السنن، المقدمۃ، باب في ذہاب العلم، 1/89، الرقم/239.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ علم کو اچانک نہیں اٹھا لے گا (ایسا نہیں) کہ بندوں سے علم کو چھین لے بلکہ وہ علماء کو وفات دے کر علم کو (دنیا سے) اٹھا لے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں چھوڑے گا تو لوگ جہلاء کو اپنے مقتدا (پیشوا) بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے۔ وہ خود گمراہ ہوں گے اور دیگر لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

16. عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِیْدٍ، قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ ﷺ شَیْئًا، فَقَالَ: ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ. قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَکَیْفَ یَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهٗ أَبْنَائَنَا وَیُقْرِئُهٗ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَائَهُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِیَادُ، إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِینَةِ أَوَ لَیْسَ هٰذِهِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارٰی یَقْرَئُ ونَ التَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیلَ، لَا یَعْمَلُونَ بِشَيئٍ مِمَّا فِیهِمَا؟

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/160، الرقم/17508، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب ذہاب القرآن والعلم، 2/1344، الرقم/4048، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 1/180، الرقم/339، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6/145، الرقم/30199، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثانی، 4/54-55، الرقم/1999، والطبراني في المعجم الکبیر، 5/265، الرقم/5291، 5292.

سالم بن ابی الجعد کے طریق سے حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے کسی بات کا ذکر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اُس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اسے اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو قرآن پڑھائے گی، اِس طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے کھوئے، میں تو تجھے مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ کیا یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن ان کتابوں میں سے کسی حکم پر وہ عمل نہیں کرتے؟

اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: لَمَّا کَانَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ مُرْدِفٌ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ عَلٰی جَمَلٍ آدَمَ. فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، خُذُوا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ الْعِلْمُ وَقَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَقَدْ کَانَ أَنْزَلَ اللهُ تعالیٰ: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُئْوکُمْ ج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ ط عَفَا اللهُ عَنْھَا ط وَاللهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo} [المائدۃ، 5/101]. قَالَ: فَکُنَّا قَدْ کَرِهْنَا کَثِیرًا مِنْ مَسْأَلَتِهٖ، وَاتَّقَیْنَا ذَاکَ حِینَ أَنْزَلَ اللهُ عَلٰی نَبِیِّهٖ ﷺ قَالَ: فَأَتَیْنَا أَعْرَابِیًّا فَرَشَوْنَاهُ بِرِدَاءٍ، قَالَ: فَاعْتَمَّ بِهٖ حَتّٰی رَأَیْتُ حَاشِیَۃَ الْبُرْدِ خَارِجَةً مِنْ حَاجِبِهِ الْأَیْمَنِ. قَالَ: ثُمَّ قُلْنَا لَهٗ: سَلِ النَّبِيَّ ﷺ. قَالَ: فَقَالَ لَهٗ: یَا نَبِيَّ اللهِ، کَیْفَ یُرْفَعُ الْعِلْمُ مِنَّا وَبَیْنَ أَظْهُرِنَا الْمَصَاحِفُ وَقَدْ تَعَلَّمْنَا مَا فِیهَا وَعَلَّمْنَا نِسَائَنَا وَذَرَارِیَّنَا وَخَدَمَنَا؟ قَالَ: فَرَفَعَ النَّبِيُّ ﷺ رَأْسَهُ وَقَدْ عَلَتْ وَجْهَهُ حُمْرَۃٌ مِنَ الْغَضَبِ. قَالَ: فَقَالَ: أَي ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ، هٰذِهِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارٰی بَیْنَ أَظْهُرِهِمُ الْمَصَاحِفُ، لَمْ یُصْبِحُوا یَتَعَلَّقُوا بِحَرْفٍ مِمَّا جَائَتْهُمْ بِهٖ أَنْبِیَاؤُهُمْ، أَلَا! وَإِنَّ مِنْ ذَهَابِ الْعِلْمِ أَنْ یَذْهَبَ حَمَلَتُهٗ؛ ثَـلَاثَ مِرَارٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/266، الرقم/22344، والدارمي في السنن، المقدمۃ، باب في ذہاب العلم، 1/89، الرقم/240، والرویاني في المسند، 2/275-276، الرقم/1190، والطبراني في المعجم الکبیر، 8/215، 232، الرقم/7867، 7906.

حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر قیام فرما ہوئے۔ اُس دن حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ علم اٹھا لیا جائے اور اس سے پہلے کہ علم قبض کر لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ہے: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُئْوکُمْ ج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ ط عَفَا اللهُ عَنْھَا ط وَاللهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌo} ’اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب کہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے) ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صوابدید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جائو گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔‘ اِس آیت کے نزول کے بعد ہم لوگ آپ ﷺ سے بہت زیادہ سوالات کرنے کو اچھا نہیں گردانتے تھے اور اس بارے میں بہت احتیاط برتتے تھے۔ (راوی نے کہا:) پھر ہم ایک دیہاتی کے پاس آئے۔ ہم نے اُسے ایک چادر دی جس کا اس نے عمامہ باندھ لیا۔ میں نے اس کا ایک کنارہ اس کے دائیں اَبرو پر لٹکا ہوا دیکھا۔ پھر ہم نے اسے کہا کہ (جاؤ اور) حضور نبی اکرم ﷺ سے (یہ) سوال پوچھو۔ (راوی کہتے ہیں:) اس نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے نبی! جب ہمارے درمیان قرآن کے نسخے موجود ہیں تو ہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ ہم خود بھی اس کے احکامات کو سیکھ چکے ہیں اور اپنی بیویوں، بچوں اور خادموں کو بھی سکھا چکے ہیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا تو چہرۂ مبارک پر غصے کی وجہ سے سرخی چھا چکی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں تجھے کھوئے، ان یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی تو آسمانی کتابوں کے مصاحف موجود ہیں، لیکن اب وہ کسی ایک حرف سے بھی وابستہ نہیں رہے جو ان کے انبیاء علیہم السلام اُن کے پاس لے کر آئے تھے۔ یاد رکھو! علم اُٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ حاملینِ علم اُٹھ جائیں گے۔ آپ ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔

اسے امام احمد بن حنبل اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَهٗ کَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/34، الرقم/2657، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب من بلغ علما، 1/85، الرقم/232.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں تک) ایسے ہی پہنچایا جیسے ہم سے سنا کیونکہ بہت سے لوگ جن تک روایت کو پہنچایا گیا روایت بیان کرنے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔

اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبيِّ ﷺ قَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/34، الرقم/2658، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/233-234، الرقم/5179.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اُسے یاد کیا اور اُسے اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیا اور پھر اُسے آگے پہنچایا۔ کیونکہ بعض لوگ جن تک روایت پہنچائی گئی، روایت بیان کرنے والے سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک ہوتے ہیں۔

اسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

20. عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَهٗ حَتّٰی یُبَلِّغَهٗ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ.

رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3/322، الرقم/3660، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب من بلغ علما، 1/86، الرقم/236.

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے مجھ سے حدیث کو سنا اور اسے یاد رکھا پھر اُسے دوسروں تک پہنچا دیا۔ (کیونکہ) کئی فقہ جاننے والے ایسے ہوں گے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقہ جاننے والوں کو حدیث بیان کریں گے اور کئی حاملینِ فقہ ایسے ہوں گے جو حقیقت میں فقیہ نہیں ہوں گے۔

اسے امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: نَضَّرَ اللهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي، فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا.

رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَالرَّامَهُرْمُزِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ الشافعي في الرسالۃ/401، الرقم/1102، والرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/165-166، الرقم/7، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/126، الرقم/1541.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس شخص کو تر و تازہ (یعنی خوش و خرم) رکھے جس نے میری حدیث سنی، پھر اُسے یاد کیا اور اُسے اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیا اور پھر اُسے آگے بھی پہنچایا۔

اسے امام شافعی، رامہرمزی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ سَمَّاکٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضوان الله علیهم اجمعین، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: نَضَّرَ اللهُ رَجُلاً سَمِعَ مِنَّا کَلِمَةً، فَبَلَّغَهَا کَمَا سَمِعَ، فَإِنَّهٗ رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ.

رَوَاهُ الرَّامَهُرْمُزِيُّ وَالشَّاشِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجہ الرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/166، الرقم/8، والشاشي في المسند، 1/315، الرقم/278، والبیہقي في شعب الإیمان، 2/274، الرقم/1738، والقزویني في التدوین في أخبار قزوین، 3/147.

سماک کے واسطے سے حضرت عبد الرحمان بن عبد اللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اُس شخص کو تر و تازہ (یعنی خوش و خرم) رکھے جس نے ہم سے کوئی کلمہ سنا، پھر اسے اُسی طرح (کسی کمی بیشی کے بغیر) آگے پہنچا دیا جیسے سنا تھا۔ بے شک بہت سے لوگ جن کے پاس دین کی بات پہنچتی ہے وہ براهِ راست سننے والوں سے زیادہ محفوظ کرنے والے ہوتے ہیں۔

اسے امام رامہرمزی، شاشی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنهما، قَالَ: خَرَجَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا خَرَجَ هٰذِهِ السَّاعَۃَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ إِلاَّ وَقَدْ سَأَلَهٗ عَنْ شَيْئٍ، فَأَتَیْتُهٗ فَسَأَلْتُهٗ، فَقَالَ: نَعَمْ سَأَلَنِي عَنْ حَدِیثٍ سَمِعْتُهٗ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثاً فَحَفِظَهٗ فَأَدَّاهُ إِلٰی مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیہٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ بِإِسْنَادٍ صَحِیْحٍ.

أخرجہ الدارمي في السنن، المقدمۃ، باب الاقتداء بالعلماء، 1/86، الرقم/229، وابن حبان في الصحیح، 2/454-455، الرقم/680، والبیہقي في شعب الإیمان، 2/273-274، الرقم/1736- 1737، والرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/164-165، الرقم/4.

حضرت اَبان بن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: حضرت زید بن ثابت دوپہر کے وقت مروان بن حکم کے ہاں سے باہر نکلے۔ راوی کہتے ہیں: میں نے (اپنے دل میں) کہا: حضرت زید بن ثابت اس وقت مروان کے دربار سے نکلے ہیں، ضرور اُس نے آپ سے کچھ پوچھا ہوگا۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے پوچھا: کیا مروان نے آپ سے کچھ پوچھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں اس نے مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تھا جو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ (یعنی خوش و خرم رکھے) جس نے ہماری کوئی بات سن کر اسے یاد کرلیا اور اسے اس شخص تک پہنچا دیا جو اس سے بہتر طور پر اسے یاد رکھنے والا ہے، کیونکہ بعض اَہلِ علم کسی ایسے شخص تک بات منتقل کر دیتے ہیں جو اس سے زیادہ سمجھ والے ہوتے ہیں۔

اسے امام دارمی اور ابن حبان نے اِسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔

24. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهٗ شَهِدَ خُطْبَۃَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي یَوْمِ عَرَفَۃَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنِّي وَاللهِ! لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَلْقَاکُمْ بَعْدَ یَوْمِي هٰذَا بِمَکَانِي هٰذَا، فَرَحِمَ اللهُ مَنْ سَمِعَ مَقَالَتِي الْیَوْمَ، فَوَعَاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ وَلَا فِقْهَ لَهٗ، وَلَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَبُو یَعْلٰی. إِسْنَادُهٗ حَسَنٌ وَالْحَدِیْثُ صَحِیْحٌ.

أخرجہ الدارمي في السنن، المقدمۃ، باب الاقتداء بالعلماء، 1/86، الرقم/227-228، وأبو یعلی في المسند، 13/408، الرقم/ 7413.

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر یوم عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کا خطبہ سننے والوں میں شریک تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کی قسم! مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ شاید آج کے بعد میں اس جگہ پر تم سے نہ مل سکوں۔ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم فرمائے جس نے آج کے دن میری بات سن کر اسے محفوظ کر لیا، کیونکہ بہت سے لوگ حاملِ فقہ ہوتے ہیں، مگر انہیں مسئلہ کا پورا ادراک نہیں ہوتا؛ اور کتنے ہی حاملینِ فقہ ایسے شخص کی طرف روایت پہنچانے والے ہوتے ہیں جو ان سے زیادہ فقہی بصیرت رکھتے ہیں۔

اسے امام دارمی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد حسن ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔

25. عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَیْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهٗ. ثُمَّ قَالَ ﷺ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ثُمَّ بَلَّغَهَا مَنْ لَمْ یَسْمَعْهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرِ فَقِیْہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ الرَّامَهُرْمُزِيُّ.

أخرجہ الرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/166، الرقم/9.

سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مسجد خیف میں ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا: آپ نے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثنا کی جس کا وہ اہل ہے، پھر آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کا چہرہ تر و تازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی پھر اسے (اپنے سینے میں) محفوظ کیا، پھر اُسے ایسے شخص تک پہنچایا جس نے اُس حدیث کو (براهِ راست) نہیں سنا تھا۔ کتنے ہی حاملینِ فقہ ایسے ہیں جو خود مسائل (کی حکمت) کا ادراک نہیں رکھتے، اور کتنے ہی حاملینِ فقہ ایسے شخص کی طرف روایت پہنچانے والے ہوتے ہیں جو ان سے زیادہ فقہی بصیرت رکھتے ہیں۔

اسے امام رامہرمزی نے روایت کیا ہے۔

26. عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیْرٍ رضی الله عنه فَقَالَ فِي خُطْبَتِهٖ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ، فَقَالَ: نَضَّرَ اللهُ وَجْهَ عَبْدٍ سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَمَلَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ الرَّامَهُرْمُزِيُّ.

أخرجہ الرامہرمزي في المحدث الفاصل بین الراوي والواعي/168، الرقم/11، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 1/138.

شعبی سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا، انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا: رسول اللہ ﷺ نے مسجد الخیف میں ہمیں خطبہ دیا، پس آپ نے (اپنے خطبے میں) فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے کا چہرہ تر و تازہ رکھے جس نے (مجھ سے) حدیث کو سن کر اسے محفوظ رکھا۔ کتنے ہی فقہ کے حامل غیر فقیہہ ہوتے ہیں، اور کتنے ہی فقہ کے حامل ایسے شخص کی طرف روایت پہنچانے والے ہوتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقہی بصیرت رکھتے ہیں۔

اسے امام رامہرمزی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved