اربعین: توحید اور ممانعت شرک

حضور ﷺ کا توحید الٰہی کی طرف دعوت دینا

دَعْوَةُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی تَوْحِيْدِهِ تَعَالٰی

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا توحیدِ اِلٰہی کی طرف دعوت دینا}

اَلْقُرْآن

(1) قُلْ يٰـآهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ م بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo

(آل عمران، 3/ 64)

آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اللہ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔

(2) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ط وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰـبَنِيْٓ اِسْرَآئِيْلَ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّيْ وَرَبَّکُمْ ط اِنَّهُ مَنْ يُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰهُ النَّارُ ط وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍo

(المائدة، 5/ 72)

درحقیقت ایسے لوگ کافرہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم (علیہما السلام) ہے حالاں کہ مسیح (علیہ السلام) نے (تو یہ) کہا تھا اے بنی اسرائیل تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا (بھی) ربّ ہے اور تمہارا (بھی) ربّ ہے۔ بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گاتو یقینا اللہ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔

(3) لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهِ فَقَالَ يٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ط اِنِّيْٓ اَخَافُ عَلَيْکُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍo

(الأعراف، 7/ 59)

بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقینا مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہے۔

(4) وَاِليٰ عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ط قَالَ يٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ط اَفَـلَا تَتَّقُوْنَo

(الأعراف، 7/ 65)

اور ہم نے (قومِ) عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی هُود (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کیا تم پرہیزگار نہیں بنتے؟

(5) وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا م قَالَ يٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ط قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَيِنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط هٰذِهِ نَاقَةُ اللهِ لَکُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْکُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌo

(الأعراف، 7/ 73)

اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا۔

(6) وَاِلٰی مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ط قَالَ يٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ.

(الأعراف، 7/ 85)

اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

(7) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَی اللهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰـلَةُ ط فَسِيْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَيْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِيْنَo

(النحل، 16/ 36)

اور بے شک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی (ٹھیک) ثابت ہوئی، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

(8) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo

(الأنبياء، 21/ 25)

اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری (ہی) عبادت کیا کرو۔

(9) فَـلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَo

(الشعراء، 26/ 213)

پس (اے بندے!) تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پوجا کر ورنہ تو عذاب یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا۔

(10) وَاِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوْهُ ط ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمُ تَعْلَمُوْنَo اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِن دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا يَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللهِ الْرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْکُرُوْا لَهُ ط اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَo

(العنکبوت، 29/ 16-17)

اور ابراہیم (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (حقیقت کو) جانتے ہو۔ تم تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو، بے شک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لیے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرواور اسی کی عبادت کیاکرو اور اسی کا شکر بجا لایاکرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

اَلْحَدِيْث

12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَی الْيَمَنِ: إِنَّکَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ کِتَابٍ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلٰی أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَکَ بِذٰلِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَکَ بِذٰلِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَکَ بِذٰلِکَ فَإِيَاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ.

رَوَاهُ الْجَمَاعَةُ، مِنْهُمْ: الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث کانوا، 2/ 544، الرقم/ 1425، وأيضًا في کتاب المغازي، باب بعث أبو موسی ومعاذ بن جبل رضی الله عنه إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4/ 1580، الرقم/ 4090، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدعاء إلی الشهادتين وشرائع الإسلام، 1/ 51، الرقم/ 19، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 233، الرقم/ 2071، وأبو داود في کتاب الزکاة، باب في زکاة السائمة، 2/ 104، الرقم/ 1584، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في کراهية أخذ خيار المال في الصدقة، 3/ 21، الرقم/ 625، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5/ 2،3، الرقم/ 2435.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا: عنقریب تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس پہنچو گے، جب تم ان کے پاس آؤ تو انہیں یہ گواہی دینے کی دعوت دینا کہ ’اللہ تعاليٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعاليٰ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات تسلیم کرلیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعاليٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ ان پر زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ یہ تسلیم کر لیں تو ان کے اَموال سے (چھانٹی) کرکے عمدہ مال لینے سے احتراز کرنا، اور مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ اس (کی دعا) اور اللہ تعاليٰ (کے ہاں قبولیت) کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

اسے محدّثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جیسے امام بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی اور نسائی۔

وَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ رضی الله عنه فِي حَدِيْثِهِ الطَّوِيْلِ فِي قِصَّةِ هِرَقْلَ: قَالَ هِرَقْلُ: مَاذَا يَأْمُرُکُمْ؟ قُلْتُ: يَقُولُ: اعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ وَلاَ تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا، وَاتْرُکُوا مَا يَقُولُ آبَاؤُکُمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب کيف کان بدء الوحي، 1/ 7-8، الرقم/ 7، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب کتاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم إلی هرقل يدعوه إلی الإسلام، 3/ 1393-1395، الرقم/ 1773، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 262، الرقم/ 2370، وابن حبان في الصحيح، 14/ 492-495، الرقم/ 6555، وعبد الرزاق في المصنف، 5/ 344-346، الرقم/ 9724، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 14-15، الرقم/ 7269، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 177-178.

اور حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے واقعہ ہرقل سے متعلق طویل حدیث میں بیان کیا ہے: ہرقل نے پوچھا: وہ (نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم)تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں؟ تو میں نے بتایا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ایک اللہ تعاليٰ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، جو تمہارے آباؤ اجداد کہا کرتے تھے وہ چھوڑ دو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

13. عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: ذَکَرَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْکَبَائِرَ - أَوْ سُئِلَ عَنِ الْکَبَائِرِ - فَقَالَ: الشِّرْکُ بِاللهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ. فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟ قَالَ: قَوْلُ الزُّورِ - أَوْ قَالَ: شَهَادَةُ الزُّورِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 5/ 2230، الرقم/ 5632، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الکبائر وأکبرها، 1/ 91، الرقم/ 88، وأحمد في المسند، 3/ 131، الرقم/ 12358، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 121، الرقم/ 20168.

عبید اللہ بن ابی بکر کا بیان ہے: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا - یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی جان کو قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا (کبیرہ گناہ ہیں)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ فرمایا کہ جھوٹی بات - یا فرمایا کہ جھوٹی گواہی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْکَبَائِرُ: الإِشْرَاکُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِيْنُ الْغَمُوسُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 6/ 2457، الرقم/ 6298، وأحمد في المسند، 2/ 201، الرقم/ 6884، والنسائي في السنن، کتاب تحريم الدم، ذکر الکبائر، 7/ 89، الرقم/ 4011، والدارمي في السنن، 2/ 251، الرقم/ 2360.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔

اِسے امام بخاری، احمد، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ: {اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} [الأنعام، 6/ 82]، شَقَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم . وَقَالُوا: أَيُنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ کَمَا تَظُنُّونَ إِنَّمَا هُوَ کَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: {يٰـبُنَيَ لَا تُشْرِکْ بِاللهِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌo} [لقمان، 31/ 13].

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب استتابة المرتدین والمعاندین، باب ما جاء في المتأولین، 6/ 2542، الرقم/ 6538، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب صدق الإيمان وإخلاصہ، 1/ 114، الرقم/ 124، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 424، الرقم/ 4031، والترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب تفسیر سورة الأنعام، 5/ 262، الرقم/ 3067.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ - {اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ} ’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم کے ساتھ نہیں ملایا‘ - نازل ہوئی تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب کو اِس پر عمل کرنے میں بڑی دشواری نظر آئی اور انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو (یعنی خطا نہ سرزد ہوئی ہو)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بات یہ نہیں ہے جو تم گمان کرتے ہو بلکہ بات وہ ہے جو (حضرت) لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی: {يٰـبُنَيَ لَا تُشْرِکْ بِاللهِط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌo} ’اے میرے فرزند! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شِرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

15. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه قَالَ: دَعَانَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَايَعْنَاهُ. فَقَالَ: فِيْمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَکْرَهِنَا وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللهِ فِيْهِ بُرْهَانٌ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : سترون بعدي أمورا تنکرونها، 6/ 2588، الرقم/ 6647، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في المعصية، 3/ 1470، الرقم/ 1709.

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔ بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے اِقرار لیا کہ ہم نے اِس پر بیعت کی ہے کہ آپ کا حکم مانیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی اور غمی میں، تنگی و کشادگی میں، خواہ ہمارے اوپر کسی کو ترجیح دی جائے، اور اس بات پر بھی کہ جس کو حکمرانی کا حق دیا گیا اس کے حقِ حکومت (یعنی اتھارٹی) کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے، مگر اس صورت میں کہ تم اس کا کفرِ صریح واضح طور پر دیکھ لو۔ اور (اس معاملہ) میں تمہارے پاس اللہ تعاليٰ کی طرف سے (بیان کردہ) واضح اور قطعی دلیل بھی موجود ہو۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ فِي مَجْلِسٍ: تُبَايِعُونِي عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ، فَأَجْرُهُ عَلَی اللهِ؛ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ کَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللهُ فَأَمْرُهُ إِلَی اللهِ، إِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ. فَبَايَعْنَاهُ عَلٰی ذٰلِکَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأحکام، باب بيعة النساء، 6/ 2637، الرقم/ 6787، والنسائي في السنن، کتاب البيعة، باب البيعة علی الجهاد، 7/ 141-142، الرقم/ 4161-4162.

ایک اور روایت میں حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے اس مجلس میں فرمایا جس میں ہم نے بیعت کی کہ تم کسی کو اللہ تعاليٰ کا شریک نہ ٹھہرانا، چوری نہ کرنا، بدکاری نہ کرنا، اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا، کسی کی شخصیت اور عزت و آبرو پر بہتان نہ لگانا اور نیک کاموں میں نافرمانی نہ کرنا۔ جو تم میں سے یہ وعدہ پورا کرے گا اُس کا اجر اللہ کے پاس ہے، جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا، پھر اُسے دنیا میں سزا دی گئی تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہو جائے گی۔ جو شخص اِن میں سے کسی فعل کا مرتکب ہوا، پھر اللہ تعاليٰ نے اُس پر پردہ ڈالے رکھا تو اُس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے تو اسے (آخرت میں) سزا دے اور چاہے تو معاف فرما دے۔ پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی۔

اسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

16. عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ: أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ وَکُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ؟ فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاکَ يَا رَسُولَ اللهِ. ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟ فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاکَ يَا رَسُولَ اللهِ. ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاکَ يَا رَسُولَ اللهِ؛ فَعَلَامَ نُبَايِعُکَ؟ قَالَ: عَلٰی أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَتُطِيعُوا وَأَسَرَّ کَلِمَةً خَفِيَةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا. فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولٰئِکَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَاهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب کراهة المسألة للناس، 2/ 721، الرقم/ 1043، والبيهقي في السنن الکبری، 4/ 196، والمقدسي في فضائل الأعمال/ 72، الرقم/ 297.

حضرت عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہم نو، آٹھ یا سات آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ حالانکہ ہم نے انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ حضرت عوف کہتے ہیں: ہم نے ہاتھ بڑھا دیے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم تو آپ سے بیعت کرچکے ہیں، اب آپ سے کس چیز کی بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نماز پنج گانہ ادا کرو گے اور اللہ تعاليٰ کی اطاعت کرو گے۔ نیز ایک اور بات آہستہ سے فرمائی کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ میں نے (اس مجلس میں موجود) ان افراد میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا (سواری سے) چابک گر جاتا تھا تو وہ کسی سے اس کے اٹھا کر دینے کا سوال نہیں کرتا تھا۔

اسے امام مسلم، بیہقی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ خَلَفٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ الْأَسْوَدَ رَأَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُبَايِعُ النَّاسَ يَوْمَ الْفَتْحِ. قَالَ: جَلَسَ عِنْدَ قَرْنِ مَسْقَلَةَ، فَبَايَعَ النَّاسَ عَلَی الإِسْلَامِ وَالشَّهَادَةِ. قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الشَّهَادَةُ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ خَلَفٍ أَنَّهُ بَايَعَهُمْ عَلَی الإيمان بِاللهِ وَشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 415، الرقم/ 15469، وعبد الرزاق في المصنف، 6/ 5، الرقم/ 9820.

عبد اللہ بن عثمان بن خثیم سے مروی ہے کہ محمد بن اَسود بن خلف نے انہیں بیان کیا کہ ان کے والد اَسود (بن خلف) نے فتح مکہ کے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں سے بیعت لیتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت مسقلہ کی چوٹی پر تشریف فرما تھے اور لوگوں سے اِسلام اور شہادت پر بیعت لے رہے تھے۔ راوی (عبد اللہ بن عثمان بن خثیم) نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: شہادت سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے محمد بن اَسود بن خلف نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے ایمان باللہ اور اِس بات کی شہادت پر بیعت لے رہے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد، اللہ کے رسول ہیں۔

اسے امام احمد بن حنبل اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي نِسْوَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ نُبَايِعُهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، نُبَايِعُکَ عَلٰی أَنْ لَا نُشْرِکَ بِاللهِ شَيْئًا وَلَا نَسْرِقَ وَلَا نَزْنِيَ وَلَا نَأْتِيَ بِبُهْتَانٍ نَفْتَرِيهِ بَيْنَ أَيْدِينَا وَأَرْجُلِنَا، وَلَا نَعْصِيکَ فِي مَعْرُوفٍ. قَالَ: فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ. قَالَتْ: قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا، هَلُمَّ نُبَايِعْکَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ کَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَابْنُ مَاجَه.

(1) أخرجه الترمذي في السنن، کتاب السير، باب ما جاء في بيعة النساء، 4/ 151، الرقم/ 1597، والنسائي في السنن، کتاب البيعة، باب بيعة النساء، 7/ 149، الرقم/ 4181، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب بيعة النساء، 2/ 959، الرقم/ 2874-2875، ومالک في الموطأ، کتاب البيعة، باب ما جاء في البيعة، 2/ 982، الرقم/ 1775.

حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں: میں کئی انصاری عورتوں کے ہمراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، ہم نے آپ کی خدمت میں بیعت کے لیے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ سے اس بات پر بیعت کرتی ہیں کہ ہم اللہ تعاليٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی، چوری نہیں کریں گی، بدکاری نہیں کریں گی، کسی کی شخصیت اور عزت و آبرو پر بہتان نہیں باندھیں گی اور نیکی کے کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جتنی تمہاری استطاعت و طاقت ہوگی۔ حضرت اُمیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر بہت مہربان ہیں (کہ آپ ہماری استطاعت کے مطابق ہم سے بیعت لینا چاہتے ہیں)۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر اپنا دست مبارک آگے بڑھائیے کہ ہم آپ سے بیعت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا، ایک سو عورتوں کے لیے میرا حکم ویسا ہی ہے جیسا کسی ایک عورت کے لیے ہے۔

اسے امام ترمذی نے، نسائی نے مذکورہ الفاظ سے اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيْبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيْرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِیمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيْرٌ عَلٰی مَنْ يَسَّرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أَدُلُّکَ عَلٰی أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِیُٔ الْخَطِيْئَةَ، کَمَا يُطْفِیُٔ الْمَاءُ النَّارَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 231، الرقم/ 22069، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في حرمة الصلاة، 5/ 11، الرقم/ 2616، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنة، 2/ 1314، الرقم/ 3973، والمستدرک في الحاکم، 2/ 447، الرقم/ 3548، وابن حبان في الصحيح، 1/ 447، الرقم/ 214، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 194، الرقم/ 20303، والطبراني في المعجم الکبير، 20/ 131، الرقم/ 266.

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا، ایک روز چلتے چلتے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوگیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے مجھ سے بہت بڑی بات کا سوال کیا۔ البتہ جس کے لیے اللہ تعاليٰ اسے آسان فرما دے اس کے لیے آسان ہے۔ (سنو!) اللہ تعاليٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہاری خیر کے دروازوں کی طرف رہنمائی نہ کر دوں (سنو وہ دروازے یہ ہیں:) روزہ (گناہ اورجہنم) کے خلاف ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں (کی آگ) کو اس طرح بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَدْلَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ صَلّٰی بِالنَّاسِ صَلَاةَ الصُّبْحِ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، حَدِّثْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِيَ الْجَنَّةَ، وَلا أَسْأَلُکَ عَنْ شَيئٍ غَيْرِهِ، قَالَ: بَخٍ بَخٍ، لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيْمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيْرٌ عَلٰی مَنْ أَرَادَ اللهُ بِهِ الْخَيْرَ. ثُمَّ قَالَ: تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ، وَتَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لا شَرِيْکَ لَهُ حَتّٰی تَمُوتَ عَلٰی ذٰلِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 245، الرقم/ 22175، والطبراني في المعجم الکبير، 20/ 63، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 5/ 273، والهندي في کنز العمال، 15/ 397، الرقم/ 43628.

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک میں رات کے وقت لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور میں آپ سے اس کے علاوہ کسی دوسری چیزکے متعلق نہیں پوچھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا، بہت اچھا۔ تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے، البتہ جس کے ساتھ اللہ تعاليٰ بھلائی کا ارادہ کرے اس کے لیے بہت آسان ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ۔ نماز قائم کرو، اور اللہ کی عبادت کرو جو یکتاہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، یہاں تک کہ اسی (عقیدہ اور عمل کی) حالت میں تمہارا وصال ہو جائے۔

اِسے امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔

18. عَنْ مُوْسَی بْنِ طَلْحَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَسِيْرُ فَجَائَهُ رَجُلٌ فَأَخَذَ بِزِمَامِ نَاقَتِهِ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِشَيئٍ يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ وَيُزَحْزِحُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: تُؤْمِنُ بِاللهِ وَلاَ تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِیمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ، فَأَرْسَلَ الزِّمَامَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنْ وَفٰی بِمَا قُلْتُ لَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَارِثُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ السَّرِيِّ.

أخرجه ابن حبان عن أبي أيوب الأنصاري رضی الله عنه في الصحيح، 2/ 179، الرقم/ 437، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 1/ 159، الرقم/ 14، وابن السري في الزهد، 2/ 515، الرقم/ 1062.

حضرت موسيٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کی لگام پکڑ لی اور عرض کرنے لگا: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسی چیز بتائیں جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (یہ اُسی وقت ممکن ہے جب) تم اللہ پر ایمان لے آؤ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ (یہ سن کر) اس نے لگام چھوڑ دی۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ میں نے اسے بتایا ہے اگر اس نے اسے پورا کر دیا تو جنت میں داخل ہوگا۔

اِسے امام ابن حبان، حارث اور ابن سری نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام حارث کے ہیں۔

19. عَنِ ابْنِ سِيْرِيْنَ، قَالَ: کَانَ أَبُوْ َبکْرٍ وَعُمَرُ رضی الله عنهما يَأْخُذَانِ عَلٰی مَنْ دَخَلَ فِي الإِسْلَامِ، فَيَقُوْلَانِ: تُؤْمِنُ بِاللهِ لَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَتُصَلِّي الصَّلَاةَ الَّتِي افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْکَ لِوَقْتِهَا، فَإِنَّ فِي تَفْرِيْطِهَا الْهَلَکَةَ، وَتُؤَدِّي زَکَاةَ مَالِکَ طَيِبَةً بِهَا نَفْسُکَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، وَتَسْمَعُ وَتُطِيْعُ لِمَنْ وَلَّی اللهُ الْأَمْرَ، قَالَ: وَزَادَ رَجُلاً مَرَّةً، تَعْمَلُ ِﷲِ وَلَا تَعْمَلُ لِلنَّاسِ.

رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْعَدَنِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.

أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11/ 330، الرقم/ 20683، والعدني في الإيمان/ 115، الرقم/ 48، وابن عبد البر في التمهيد، 23/ 294.

امام ابن سیرین فرماتے ہیں: جو شخص اسلام میں داخل ہوتا حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما اس سے عہد لیتے اور فرماتے: اللہ تعاليٰ پر ایمان لاؤ گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، اللہ تعاليٰ نے تجھ پر جو نمازیں فرض کی ہیں انہیں وقت پر ادا کرو گے، بے شک ان میں کمی کرنا باعثِ ہلاکت ہے۔ اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو گے کہ اس کے ذریعے تمہیں طہارت و پاکیزگی حاصل ہوگی۔ اوربیت اللہ کا حج کرو گے۔ اور اللہ تمہارا معاملہ جس کے سپرد کرے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرو گے۔ راوی کہتے ہیں:ایک روایت میں رَجُلاً کا اضافہ ہے (یعنی اس شخص کی اطاعت کرو گے جسے اللہتعاليٰ تمہارا معاملہ سونپ دے اور) اللہ تعاليٰ (کی رضا) کے لیے عمل کرو گے نہ کہ لوگوں (کے دکھاوے) کے لیے۔

اِسے امام عبد الرزاق، العدنی اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved