العرفان فی فضائل و آداب القرآن

اُن لوگوں کا بیان جنہیں قرآن پڑھنا کوئی نفع نہیں دیتا

177. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ رضي الله عنه وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاَثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي کِلاَبٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَّظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوْا: يُعْطِيْهِ صَنَادِيْدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِيْنِ، کَثُ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِتَّقِ اﷲَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: فَمَنْ يُطِيْعُ اﷲَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَی أَهْلِ الْأَرْضِ، وَلاَ تَأْمَنُوْنِي؟ فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم. (وَفِي رِوَايَةِ أَبِي نُعَيْمٍ: فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِتَّقِ اﷲَ، وَاعْدِلْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: يَأْمَنُنِي أَهْلُ السَّمَاءِ وَلاَ تَأْمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَذَهَبَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي، فَجَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: وَجَدْتُهُ يُصَلِّي، فَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَضْرِبُ رَقَبَتَهُ؟) فَلَمَّا وَلَّی، قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوثَانِ، لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ. متفق عليه. وهذا لفظ البخاري.
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اَقرع بن حابس حنظلی جو بنو مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے تھا، اور زید الخیل طائی جو بنی نبہان سے تھا؛ ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور اَنصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تو ان کی تالیفِ قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا، اور اس نے کہا: اے محمد! اﷲ سے ڈرو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی اِطاعت کرنے والا کون ہے اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے؟ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی، میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا۔ (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے: اس شخص نے کہا: اے محمد! اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آسمان والوں کے ہاں میں امانت دار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا: ہاں۔ سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا)۔ تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا: میں اس کی گردن کاٹ دوں؟) جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اگر میں انہیں پاؤں تو قومِ عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔“

178. عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه فَسَأَلاَهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَّةِ: أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ: لاَ أَدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ ... الحديث. متفق عليه.
”حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔“

179. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّی يَعُودَ السَّهْمُ إِلَی فُوقِهِ. قِيلَ: مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ: سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ. أَوْ قَالَ: التَسْبِيْدُ. رواه البخاري.
”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا ہے۔ یا فرمایا: سر منڈائے رکھنا ہے۔“

180. عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيفٍ رضي الله عنه: هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ: سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ، لاَ يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رواه مسلم.
”یُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارِج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے سنا ہے؛ اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہا: وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، اور دین سے ایسے خارج ہوجائیں گے جیسے تیر شکار سے (خارج ہوجاتا ہے)۔“

181. وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ زَادَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضي الله عنه، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ! أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اﷲِ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: لاَ. فَقَالَ: إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُونَ کِتَابَ اﷲِ لَيِّنًا رَطْبًا، (وَقَالَ: قَالَ عَمَّارَةُ: حَسِبْتُهُ) قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
”اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے۔ (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان لوگوں کو پا لیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔“

182. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهَنِيِّ: أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوا إِلَی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ، لَيْسَ قِراءَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَتِهِمْ بِشَيئٍ، وَلاَ صَلاَتُکُمْ إِلَی صَلاَتِهِمْ بِشَيئٍ، وَلاَ صِيَامُکُمْ إِلَی صِيَامِهِمْ بِشَيئٍ، يَقْرَءُوْنَ القُرآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ... الحديث. رواه مسلم.
”زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی، وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت ہوگی نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔“

183. أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب: قَولُ اﷲِ تَعَالَی: وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُضِلَّ قَومًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّی يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ. [التوبة، 9 : 115]. وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَقَالَ: إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.
وقال العسقلاني في الفتح: وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد اﷲ بن الأشج: أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا: کَيْفَ کَانَ رَأَی ابْنُ عُمَر فِي الْحَرُوْرِيَّةِ؟ قَالَ: کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، انْطَلَقُوا إِلَی آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ. قلت: وسنده صحيح.
”امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے: اﷲ تعالیٰ کا فرمان: ”اور اﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔“ اور حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں (یعنی خوارج کو) اﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اِطلاق مومنین پر کرنا شروع کردیا۔
”اور اِمام عسقلانی ”فتح الباری“ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار میں بکیر بن عبد اﷲ بن اَشج کے طریق سے مسندِ علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ”انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے بدترین لوگ خیال کرتے تھے۔ جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اِطلاق مومنین پر کیا۔ میں ”ابن حجر عسقلانی“ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“

184. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِيْکَتِهِ يَاْتِيْهِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي کِتَابِ اﷲِ اتَّبَعْنَاهُ. رواه الترمذي وأبوداود وابن ماجة. وقال أبو عيسی: هذا حديث حسن.
”حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے آدمی کو ہرگز نہ پاؤں جس کے پاس کوئی ایسی بات آئے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا جس سے میں نے منع کیا ہو تو وہ کہے: میں نہیں جانتا، ہم نے صرف اسی کی پیروی کی جسے اللہ کی کتاب (قرآن) میں پایا۔“

185. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنهما، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: سَيَکُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلاَفٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَيُسِيْئُونَ الْفِعْلَ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ (وَفِي رِوَايَةٍ: يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لاَ يَرْجِعُوْنَ حَتَّی يَرْتَدَّ عَلَی فُوْقِهِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ، طُوبَی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيئٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أَوْلَی بِاﷲِ مِنْهُمْ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ: التَّحْلِيقُ. رواه أبوداود وابن ماجة.
”حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری اُمت میں اِختلاف اور تفرقہ بازی ہوگی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو اُن کے گلے سے نہیں اترے گا، (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے)، وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے۔ وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے۔ خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عز و جل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا: سر منڈانا۔
”ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔“

186. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْمِرَاءُ فِي القُرْآنِ کُفْرٌ. رواه أبوداود وأحمد. إسناده حسن.
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید (کے کلام اﷲ ہونی) میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔“

187. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: سَيَخْرُجُ قَوْمٌ أَحْدَاثٌ أَحِدَّاءُ أَشِدَّاءُ ذَلِقَةٌ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ، يَقْرَءُونَهُ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ. فَإِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَأَنِيْمُوهُمْ، ثُمَّ إِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ قَاتِلُهُمْ. رواه أحمد والحاکم وابن أبي عاصم. رجال أحمد رجال الصحيح. وقال ابن أبي عاصم: إسناده صحيح.وقال الحاکم: هذا حديث صحيح.
”حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو، پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو۔ یقینا ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔“

188. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی يَخْرُجُ الدَّجَّالَ فِي بَقِيَّتِهِمْ. رواه أحمد والحاکم.
”حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا۔ اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا؛ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا۔ فرمایا: ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ (کی صورت) میں ظاہر ہوگا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔“

189. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اﷲ عنهما، قَالاَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَکْثَرُ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا. رواه أحمد وابن أبي شيبة والبيهقي والطبراني، ورجاله ثقات.
”حضرت عبد اﷲ بن عمرو اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، ان دونوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے اکثر منافق اس (قرآن) کو پڑھنے والے ہوں گے.“

190. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه، يَقُوْلُ: بَصَرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْجِعْرَانَةِ، وَفِي ثَوبِ بِلاَلٍ فِضَّةٌ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ. قَالَ: وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اﷲِ! دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَعَاذَ اﷲِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَيُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رواه أحمد وأبو نعيم.
”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا: جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا: عدل کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کردوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔“

191. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّی إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ، وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَی مَاشَاءَ اﷲُ، فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَنَبَذَهُ وَرَائَ ظُهْرِهِ وَسَعَی عَلَی جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ. قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِي اﷲِ! أَيُّهُمَا أَوْلَی بِالشِّرْکِ: الْمَرْمِي أَمِ الرَّامِي. قَالَ: بَلِ الرَّامِي. رواه ابن حبان والبزار، والبخاري في التاريخ. إسناده حسن.
”حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا: شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔“

192. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ. رواه الطبراني، ورجاله ثقات کما قال الهيثمي والمناوي.
”حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔“

193. عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ: سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلاَتِ وَالنَّازِعَاتِ أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ. فَقَالَ عُمَرُ: ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: أَمَا وَاﷲِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ. ثُمَّ قَالَ: ثُمَّ کَتَبَ إِلَی أَهْلِ الْبَصْرَةِ، أَوْ قَالَ: إِلَيْنَا، أَنْ لاَ تُجَالِسُوهُ، قَالَ: فَلَوْ جَاءَ وَنَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا. رواه سعيد بن يحيی الأموي وغيره بإسناد صحيح کما قال ابن تيمية.
”حضرت ابو عثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو یربوع یا بنو تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلاَتِ وَالنَّازِعَاتِ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ فرمایا: بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں: پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بصرہ کے نام خط لکھا، یا کہا کہ ہمیں خط لکھا، جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو (100) بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے۔“

194. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ: قَالَ: فَبَيْنَمَا عُمَرُ رضي الله عنه ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا يُغَدِّي النَّاسَ إِذَا جَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَعِمَامَةٌ، فَتَغَدَّی حَتَّی إِذَا فَرَغَ، قَالَ: يَا أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ! وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلاَتِ وِقْرًا. فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: أَنْتَ هُوَ؟ فَقَامَ إِلَيْهِ وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ يَجْلِدُهُ حَتَّی سَقَطَتْ عِمَامَتُهُ. فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرُ بِيَدِهِ! لَوْ وَجَدْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ رَأْسَکَ. رواه الإمام أبوالقاسم هبة اﷲ اللالکائي.
حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، اسی اثنا میں ایک شخص آیا، اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا، تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا۔ جب فارغ ہوا تو کہا: اے امیر المومنین! وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلاَتِ وِقْرًا کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو وہی (گستاخِ رسول) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔“

195. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه، قَالَ: سَيَبْلَی الْقُرْآنُ فِي صُدُوْرِ أَقْوَامٍ کَمَا يَبْلَی الثَّوَابُ فَيَتَهَافَتُ، يَقْرَؤُوْنَهُ لاَ يَجِدُوْنَ لَهُ شَهْوَةً وَلاَ لَذَّةً، يَلْبَسُوْنَ جُلُوْدَ الضَّأْنِ عَلَی قُلُوْبِ الذِّئَابِ، أَعْمَالُهُمْ طَمَعٌ لاَ يُخَالِطُهُ خَوْفٌ إِنْ قَصَّرُوْا. قَالُوا: سَنَبْلُغُ وَإِنْ أَسَاؤُا قَالُوا: سَيُغْفَرُ لَنَا إِنَّا لاَ نُشْرِکُ بِاﷲِ شَيْئًا. رواه الدارمي.
”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہ قرآن لوگوں کے سینے میں اس طرح بوسیدہ ہوجائے گا جس طرح ایک کپڑا بوسیدہ ہو کر گر پڑتا ہے۔ لوگ اس کو پڑھیں گے لیکن اس کی تلاوت کے لئے نہ تو کوئی خواہش رکھیں گے اور نہ ہی اس کی تلاوت سے کوئی حظ لیں گے۔ گویا وہ بھیڑیوں کے دلوں پر بھیڑوں کی اون کا لباس پہنائیں گے، ان کے اعمال سراسر لالچ پر مبنی ہوں گے جن میں اﷲ کی خشیت کی آمیزش بھی نہیں ہوگی۔ اگر انہوں نے کوئی تقصیر کی تو کہیں گے کہ عنقریب ہم اپنی منزل کو پہنچ جائیں گے؛ اور اگر کوئی برائی کی تو کہیں گے کہ عنقریب اﷲ ہمیں بخش دے گا کیونکہ بیشک ہم کسی کو اﷲ کا شریک نہیں ٹھہراتے۔“


حواشی

الحديث رقم 177: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تعالى: تعرج الملائکة والروح إليه، 6 / 2702، الرقم: 6995، وفي کتاب: الأنبياء، باب: قول اﷲ عز وجل : وأما عاد فأهلکوا بريح صرصر - شديدة - عاتية، 3 / 1219، الرقم: 3166، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 741، الرقم: 1064، وأبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم: 4764، والنسائي في السنن، کتاب: تحريم الدم، باب: من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم: 4101، وفي کتاب: الزکاة، باب: المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم: 2578، وفي السنن الکبرى، 6 / 356، الرقم: 11221، وأبو نعيم في المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم: 2373، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم: 11666، 11713، وعبدالرزاق في المصنف، 10 / 156، والبيهقي في السنن الکبرى، 6 / 339، الرقم: 12724، 7 / 18، الرقم: 12962، وابن منصور في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم: 2903، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 72، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 196.

الحديث رقم 178: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم: 6532، وفي فضائل القرآن، باب: إثم من راءى بقراءة القرآن، أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم: 4771، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم: 1064، ومالک في الموطا، کتاب: القرآن، باب: ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم: 478، والنسائي في السنن الکبرى، 3 / 31، الرقم: 8089، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم: 11596، وابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم: 6737، والبخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم: 37920، وأبو يعلى في المسند، 2 / 430، الرقم: 1233، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم: 935، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم: 2640، والربيع في المسند، 1 / 34، الرقم: 36.

الحديث رقم 179 / 180: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قراءة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم: 7123، ومسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم: 1068، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم: 11632، 3 / 486، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم: 37397، وأبو يعلى في المسند، 2 / 408، الرقم: 1193، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم: 5609، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم: 909، وقال: إسناده صحيح، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم: 2390.

الحديث رقم 181: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم: 1064.

الحديث رقم 182: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: التحريض على قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم: 1066، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم: 4768، والنسائي في السنن الکبرى، 5 / 163، الرقم: 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم: 706، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 147، والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم: 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445-446، والبيهقي في السنن الکبرى، 8 / 170.

الحديث رقم 183: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: (5) قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 286، الرقم: 6532، وفي تغليق التعليق، 5 / 259.

الحديث رقم 184: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم، باب: ما نهي عنه أن يقال عند حديث النبي صلى الله عليه وآله وسلم، 5 / 37، الرقم: 2663، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم: 4605، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: تعظيم حديث رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم والتغليظ على من عارضه، 1 / 6، الرقم: 13، والشافعي في المسند، 1 / 151، والحاکم في المستدرک، وقال: هذا الإسناد وهو صحيح، 1 / 190، الرقم: 368، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 209، والبيهقي في السنن الکبرى، 7 / 76، الرقم: 13219.

الحديث رقم 185: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم: 4765، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب: في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم: 169، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم: 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم: 2649، والبيهقي في السنن الکبرى، 8 / 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم: 2391-2392، وقال: إسناده صحيح، وأبو يعلى في المسند، 5 / 426، الرقم: 3117، والطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم: 7553، والمروزي في السنة، 1 / 20، الرقم: 52.

الحديث رقم 186: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: النهي عن الجدال في القرآن، 4 / 199، الرقم: 4603، والنسائي في السنن الکبرى، 5 / 33، الرقم: 8093، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 300، الرقم: 7976، وابن حبان في الصحيح، 4 / 324، الرقم: 1464، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 61، الرقم: 2478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 157.

الحديث رقم 187: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم: 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم: 937، وعبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم: 1519، وقال: إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبرى، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم: 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم: 704.

الحديث رقم 188: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 198، الرقم: 6871، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم: 8497، وابن حماد في الفتن، 2 / 532، وابن راشد في الجامع، 11 / 377، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 228، والآجري في الشريعة، 1 / 113، الرقم: 260.

الحديث رقم 189: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 175، الرقم: 6633-6634، 6637، 4 / 151، الرقم: 17405، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 797، الرقم: 34335، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 363، الرقم: 6959، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 179، 305، الرقم: 471، 841، وابن المبارک في الزهد، 1 / 152، الرقم: 451، والبخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 118، والفريابي في صفة المنافق، 1 / 55، الرقم: 32-33، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229-230.

الحديث رقم 190: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم: 1461، وأبو نعيم في المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم: 2372.

الحديث رقم 191: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم: 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم: 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم: 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضی الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم: 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم: 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم: 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال: إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266.

الحديث رقم 192: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم: 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118.

الحديث رقم 193: أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 195.

الحديث رقم 194: أخرجه هبة اﷲ اللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 634، الرقم: 1136، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 155، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 166، وابن قدامة في المغني، 1 / 65، 9 / 8.

الحديث رقم 195: أخرجه الدارمي في السنن، باب: في تعاهد القرآن، 2 / 531، الرقم: 3346، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 7 / 312.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved