دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور (تعارف اور خصوصیات)

اِمتیازات و تفرّدات

ریاستِ مدینہ کی آئینی اور انتظامی بنیادیں میثاقِ مدینہ پر اُستوار ہیں۔ یہ معاہدہ مسلمانانِ مدینہ اور دیگر مذاہب کے راہ نُماؤں کے درمیان تحریری شکل میں طے پایا جس کا مقصدمختلف رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کے حامل گروہوں کے مابین قیامِ امن اور بقاے باہمی کا حصول تھا۔

اِس کتاب میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ریاستِ مدینہ کے ماڈل کی جزئیات کو تفصیل کے ساتھ سپردِ قلم کیا ہے۔ انہوں نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ریاستِ مدینہ کے انتظامی، معاشی، عدالتی، قانونی، جنگی و دفاعی قوانین اور اِنسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور بین الاقوامی تعلقات و معاہدات کے لیے وضع کردہ اُصول و ضوابط کے بارے میں ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ بیش قیمت معلومات فراہم کی ہیں۔

اس کتاب کے چند اہم اِمتیازات و تفردات درج ذیل ہیں:

1۔ دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ میثاقِ مدینہ، کائناتِ انسانی کا پہلا تحریری دستور ہے۔

2۔ میثاقِ مدینہ یا دستورِ مدینہ پر یہ پہلی جامع اور کثیر الجہات تجزیاتی تحقیق ہے۔

3۔ میثاقِ مدینہ کے مختلف آرٹیکلز کی تائید اور توثیق کے لیے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ درج کی گئی ہیں۔ یوں براہِ راست آیات اور احادیث سے اِستشہاد و اِستنباط کرکے اِس کی حقانیت کو ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔

4۔ کتاب کے مشتملات کی تصدیق و توثیق پر عالمِ اسلام کی ممتاز یونیورسٹی جامعہ الاَزہر کے شیوخ کی تقاریظ شامل ہیں۔

5۔ یہ تحقیقی کتاب دستورِ مدینہ کا امریکی، برطانوی اور یورپی دساتیر سے تقابلی موازنہ پیش کرتی ہے۔

6۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات متحقق ہوتی ہے کہ ریاستِ مدینہ تاریخِ عالم کی پہلی فلاحی ریاست (welfare state) تھی۔

7۔ جدید جمہوریت کے بانی ہونے کے دعوے دار برطانیہ میں 1215ء میں ’’میگنا کارٹا (Magna Carta)‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ وجود ميں آیا، جب کہ دستورِ مدینہ کی تسوید و تحریر اس معاہدہ سے 593 سال قبل 622ء میں کی گئی۔

8۔ میگنا کارٹا کا معاہدہ یکطرفہ طور پر تحریر کیا گیا جب کہ دستورِ مدینہ کی تحریر پر اتفاق کرنے والوں میں کثیر اَقوام اور مذاہب کے نمائندے شامل تھے۔

9۔ دیگر قدیم معاہدے ایک خاندان، ایک قبیلہ یا گروہ کے اِنفرادی اِقتدار کو دائمی بنانے کی بنیادوں پر اُستوار تھے، جب کہ دستورِ مدینہ میں اِجتماعیت کے مفاد کو کمال دور اندیشی سے مدِ نظر رکھا گیا۔ دستورِ مدینہ کی روح شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ تھا۔ بلا تفریقِ رنگ و نسل ریاستِ مدینہ کے ہر شہری کے مذہبی، سیاسی، معاشی اور دفاعی حقوق کو تحفظ دیا گیا۔ الغرض! دستورِ مدینہ میں اِنفرادی نہیں بلکہ سماج کے اجتماعی مفادکو مدِ نظر رکھا گیا۔

10۔ میثاقِ مدینہ کی روشنی میں ایک اسلامی، رفاہی و فلاحی ریاست کے ماڈل کی داغ بیل ڈالی گئی۔

11۔ اس کتاب میں یونان، روم سمیت قبل مسیح کی قدیم تہذیبوں ميں آئین سازی کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ریاستِ مدینہ کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے مفید مواد ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاستِ مدینہ کا انتظامی، معاشی، فلاحی ماڈل سب سے بہترین ہے جو ماضی کی کسی تہذیب سے مستعار نہیں لیا گیا۔

12۔ اس کتاب کےمطالعہ سے عرب معاشرہ کے خدّ و خال اور معروضی حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ اس میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ قبل مسیح کی تہذیبوں کا عہدِ رسالت مآب ﷺ سے موازنہ کیا گیا ہے اور ایک تاریخی تقابلی جائزہ قاری کے سامنے شرح و بسط سے رکھا گیا ہے۔

13۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ قدیم تہذیبیں حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے ہونے والی بڑے پیمانے پر ہجرت (نقل مکانی) کی بنا پر برباد ہوئیں اور مہاجرین بھی پریشان و خستہ حال ہوئے۔ جب کہ ریاستِ مدینہ ہجرت کی برکت سے آباد ہوئی اور ریاستِ مدینہ میں ہجرت کرنے والوں کو عزت و تحفظ اور وقار و اِفتخار نصیب ہوا۔

14۔ معروف قدیم تہذیبوں میں آمریت کا غلبہ تھا، اس کے علی الرغم ریاستِ مدینہ شورائی نظام سے پھلی پھولی۔ اس نظام کی روح مشاورت اور اِفہام و تفہیم تھی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved