حضور نبی اکرم ﷺ کا پیکر جمال

جسم اطہر کی نظافت و لطافت اور خوشبوئے عنبریں

5. لَطَافَةُ جَسَدِهِ وَطِيْبُ رِيْحِهِ ﴿جسمِ اطہر کی نظافت و لطافت اور خوشبوئے عنبریں﴾

ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبی است

آپ ﷺ کے جسدِ اقدس کو دستِ قدرت نے خصوصی اہتمام اور محبت کے ساتھ خوشبو میں گوندھا تھا۔ جب آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی تو آپ ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’جوں ہی میں نے پہلی مرتبہ آپ ﷺ کی زیارت کی تو میں نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح سراپا نور پایا اور اس سے تر و تازہ کستوری کی مہک آرہی تھی۔ آپ ﷺ کے جسم پر میل کا کوئی ذرہ یا نشان تک نہ تھا‘۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’جب میں حضور ﷺ کو اپنے گھر لے آئی تو قبیلہ بنوسعد کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس سے ہم نے کستوری کی خوشبو نہ سونگھی ہو‘۔آپ ﷺ خوشبو استعمال نہ بھی فرماتے تب بھی آپ ﷺ کے جسمِ اقدس سے کستوری یا مخلوط عطر کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کرتی۔ آپ ﷺ کا پسینہ مبارک بھی مشک بار ہوتا اور اس سے پھوٹنے والی خوشبو کائنات کی عمدہ ترین خوشبو سے بھی افضل ہوتی۔

عطر و مشک و عنبر کی کیا بساط ہے لوگو
دو جہاں معطر ہیں آپ کے پسینے سے

اُمِ مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین، سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رنگ نوخیز کلیوں کی طرح چمکتا تھا‘۔ اورفرماتی ہیں: ’نہ آپ ﷺ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں کھٹکیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بے ر عب ہوجائیں۔آپ ﷺ وسیم و قسیم تھے۔‘ عربی زبان میں وسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں اور قسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں وسیم وہ خوبصورت ہوتا ہے جسے جتنا دیکھیں اس کا حسن اتنا بڑھتا ہے یعنی جسے دیکھتے ہوئے آنکھ نہ بھرے۔ قسیم اسے کہتے ہیں جس کا ہر عضو الگ الگ حسن کی ترجمانی کرتا ہو یعنی جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو۔

37. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَقِیْقَ الْبَشَرَةِ([39]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: حضور ﷺ کےجسمِ اقدس کی جِلد مبارک نہایت نرم و نازک تھی۔

38. قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ : وَاللهِ، مَا أَدْخَلْتُهُ فِرَاشِي، فَإِذَا هُوَ فِي غَایَةِ اللِّیْنِ، وَطِيْبِ الرَّائِحَةِ، كَأَنَّهُ غُمِسَ فِي الْمِسْكِ([40]).

آپ ﷺ کے عمِ محترم حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! جب بھی میں نے حضور ﷺ کو اپنے ساتھ بستر میں لٹایا تو آپ ﷺ کے جسم اطہر کو نہایت ہی نرم و نازک پایا۔ آپ ﷺ کے جسم اطہر سے اس قدر خوشبو آتی تھی جیسے آپ ﷺ کو کستوری (کے عطر) میں نہلایا گیا ہو۔

39. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِیْرَةً أَلْیَنَ مِنْ كَفِّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([41]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: میں نے (زندگی میں آج تک) کسی ایسے ریشم یا دیباج کو مَس نہیں کیا جو رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم ہو۔

40. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا شَمَمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِیْرَةً أَطْیَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([42]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: میں نے کسی کستوری یا مخلوط عطر کی خوشبو کو رسول اللہ ﷺ (کے بدنِ اطہر) کی خوشبو سے بڑھ کر نہیں پایا۔

41. عَنْ أُمِّهِ ﷺ السَّيِّدَةِ آمِنَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: وَلَدْتُهُ نَظِیْفًا مَا بِهِ قَذَرٌ([43]).

حضور ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے آپ ﷺ کو اس طرح پاک و صاف (اور لطیف و نظیف) جنم دیا کہ آپ کے وجودِ مزکّی پرمیل كاکوئی ذرّہ یا نشان تک نہ تھا۔

42. وَفِي رِوَايَةٍ: وَلَدَتْهُ ﷺ أُمُّهُ رضی اللہ عنہا بِغَیْرِ دَمٍ وَلَا وَجَعٍ([44]).

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ جب آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کوجنم دیا تو آپ کی ولادت کے ساتھ نہ کوئی خون کا دھبہ تھا اور نہ کسی درد کا احساس تھا۔

43. ذَكَرَ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ عَنْ أُمِّهِ ﷺ السَّيِّدَةِ آمِنَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: نَظَرْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ کَالْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، رِیْحُهُ یَسْطَعُ كَالْمِسْكِ الْأَذْفَرِ([45]).

امام ابو نعیم اور خطیب بغدادی نے آپﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا ایک قول یوں نقل کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جوں ہی میں نے (پہلی مرتبہ) آپ ﷺ کی زیارت کی تو میں نے آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح سراپا نور پایا اور اس سے تر و تازہ کستوری کی مہک آ رہی تھی۔

44. قَالَتْ حَلِيْمَةُ رضی اللہ عنہا : وَلَمَّا دَخَلْتُ بِهِ ﷺ إِلَی مَنْزِلِي، لَمْ یَبْقَ مَنْزِلٌ مِنْ مَنَازِلِ بَنِي سَعْدٍ إِلَّا شَمَمْنَا مِنْهُ رِیْحَ الْمِسْكِ([46]).

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب میں حضور ﷺ کو اپنے گھر لے آئی تو قبیلہ بنو سعد کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو کستوری کی خوشبو سے ہر کسی کے مشامِ جاں کو فرحت و اِنبساط کا پیغام نہ دے رہا ہو۔

45. وَعَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ لَوْنًا، وَأَطْيَبَ النَّاسِ رِيْحًا([47]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین و جمیل تھے اور مہک کے لحاظ سے سب سے زیادہ خوشبودار تھے۔

46. قَالَ النَّوَوِيُّ: كَانَتْ هَذِهِ الرِّيْحُ الطَّيِّبَةُ صِفَتَهُ ﷺ وَإِنْ لَمْ يَمَسَّ طِيْبًا([48]).

امام نووی فرماتے ہیں: یہ خوشبو حضور ﷺ کے جسمِ اطہر کی اپنی صفت تھی، اگرچہ آپ ﷺ نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی (تب بھی آپ ﷺ کے جسمِ اقدس سے اسی طرح خوشبو آتی تھی)۔

47. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ: إِنَّ هَذِهِ الرَّائِحَةَ الطَّیِّبَةَ کَانَتْ رَائِحَةَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْ غَیْرِ طِیْبٍ([49]).

امام اسحاق بن راہویہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں: یہ خوشبو اور مہک آپ ﷺ کے جسمِ اقدس کی اپنی تھی، نہ کہ اُس خوشبو کی جسے آپ ﷺ (کبھی کبھی) استعمال فرماتے تھے۔

48. قَالَ الْخَفَاجِيُّ: رِیْحُهُ الطَّیِّبَةُ طَبْعِیًّا خَلْقِیًّا، خَصَّهُ اللهُ بِهِ مَکْرُمَةً وَمُعْجِزَةً لَهُ([50]).

امام خفاجی بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نےیہ خوش گوار مہک آپ ﷺ کی عظمت اور معجزہ کے اظہار کے لیے آپ ﷺ کے جسمِ اَطہر میں طبعی و پیدائشی طور پر رکھ دی تھی۔

49. عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رِیْحُ عَرَقِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رِیْحَ الْمِسْكِ. بِأَبِي وَأُمِّي، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحَدًا مِثْلَهُ([51]).

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ کے مبارک پسینے کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی۔ میں نے حضور ﷺ جیسا خوبصورت نہ کوئی آپ ﷺ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں۔

50. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَا شَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ، وَلَا مِسْكًا، وَلَا شَيْئًا أَطْيَبَ مِنْ رِيْحِ رَسُولِ اللهِ ﷺ ([52]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نےکوئی عنبر، کستوری یاعطر بیز شے،آپ ﷺ (کے جسمِ اَطہر) کی مہک سے زیادہ پیاری مہک (اور خوشبو) والی نہیں سونگھی۔

51. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: وَلَا شَمَمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِیْرَةً أَطْیَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ([53]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے کستوری یا کسی ایسے مخلوط عطر کو نہیں سونگھا جو رسول اللہ ﷺ (کے جسمِ اَطہر) کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہو۔

52. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ عَرَقُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي وَجْهِهِ اللُّؤْلُؤَ، وَرِیْحُ عَرَقِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَطْیَبَ مِنْ رِیْحِ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ([54]).

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور ﷺ کے چہرۂ اَنور پر پسینے کے قطرے خوبصورت چمک دار (آب دار اور تاب دار) موتیوں کی طرح دکھائی دیتےتھے اور آپ ﷺ کے پسینے کی خوشبو (دنیا کی) عمدہ ترین کستوری سے کہیں بڑھ کر تھی۔

53. عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ یَسْلُكْ طَرِیْقًا أَوْ لَا یَسْلُكُ طَرِیْقًا فَیَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَكَهُ مِنْ طِیْبِ عَرَقِهِ ﷺ ([55]).

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ جس راستے سے (بھی) گزر جاتے، پھر کوئی بھی شخص بعد میں اُس راستے سے گزرتا تو وہ آپ ﷺ کے پسینہ مبارک کی (منفرد) خوشبو سے جان لیتا کہ آپ ﷺ کا گزر اِس راستے سے ہوا ہے۔

54. عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا مَرَّ فِي طَرِیْقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِیْنَةِ، وَجَدُوْا مِنْهُ رَائِحَةَ الطِّیْبِ، وَقَالُوْا: مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ هَذَا الطَّرِیْقِ([56]).

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینۂ منورہ کے جس بھی راستے سے گزر جاتے، لوگ اُس راہ میں نہایت دیباری (اور پاکیزہ) مہک پاتے اور پُکار اُٹھتے کہ اسی راستے سے رسول الله ﷺ کا گزر ہوا ہے۔

55. وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ عِنْدَنَا، فَعَرِقَ، وَجَاءَتْ أُمِّي بِقَارُوْرَةٍ، فَجَعَلَتْ تَسْلِتُ الْعَرَقَ فِیْهَا، فَاسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا هَذَا الَّذِي تَصْنَعِیْنَ؟ قَالَتْ: هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِیْبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْیَبِ الطِّیْبِ([57]).

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے، پھر ہمارے ہاں ہی قیلولہ فرمایا۔ آپ ﷺ کو پسینہ آیا تو میری والدہ ایک شیشی لے آئیں اور آپ ﷺ کا پسینہ مبارک صاف کر کے اُس شیشی میں ڈالنے لگیں۔ (دریں اِثناء) حضور نبی اکرم ﷺ بیدار ہو گئے اور دریافت فرمایا: اے اُمِّ سُلیم! یہ کیا کر رہی ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کا پسینہ مبارک ہے جسے (میں جمع کر رہی ہوں، تاکہ بعد ازاں) ہم اسے اپنی خوشبو میں ڈالیں گے۔ یہ (معنبر و معطر پسینہ مبارک) سب سے عمدہ خوشبو ہے۔

56. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تُعِیْنَنِي بِشَيءٍ. قَالَ: مَا عِنْدِي شَيءٌ، وَلَكِنْ إِذَا کَانَ غَدًا فَائْتِنِي بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ وَعُوْدِ شَجَرَةٍ، وَآیَةٌ بَیْنِي وَبَیْنَكَ أَنْ أُجِیْفَ نَاحِیَةَ الْبَابِ. قَالَ: فَلَمَّا کَانَ فِي الْغَدِ أَتَاهُ بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ، وَعُوْدِ شَجَرَةٍ. فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ یَسْلِتُ الْعَرَقَ عَنْ ذِرَاعَیْهِ حَتَّى امْتَلَأَتِ الْقَارُوْرَةُ، فَقَالَ: خُذْهَا وَأْمُرِ ابْنَتَكَ أَنْ تَغْمِسَ هَذَا الْعُوْدَ فِي الْقَارُوْرَةِ، فَتَطَیَّبُ بِهِ. قَالَ: فَکَانَتْ إِذَا تَطَیَّبَتْ شَمَّ أَهْلُ الْمَدِیْنَةِ رَائِحَةَ ذَلِكَ الطِّیْبِ، فَسَمُّوْا بَیْتَ الْمُطَیِّبِیْنَ([58]).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کی شادی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم کل ایک کھلے منہ والی شیشی اور ایک لکڑی لے کر آنا، میرے اور تمہارے درمیان ملاقات کی یہ نشانی ہوگی کہ دروازے کا کواڑ بند ہوگا (تو تم دروازے پر دستک دینا)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دن وہ کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر آیا۔ آپ ﷺ نے (لکڑی سے) اپنے بازوؤں پر سے پسینہ اکٹھا کر کے اُس شیشی میں ڈالنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپ ﷺ نے اُس شخص سے فرمایا: یہ لے جاؤ اور اپنی بیٹی سے جا کر کہو کہ اِس لکڑی کو اِس شیشی میں ڈبو کر نکالے اور اپنے آپ کو اِس سے خوشبو لگائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ خوشبو لگاتی تو پورا شہرِ مدینہ اُس کی خوشبو سے مہک اُٹھتا اور اِسی بناء پر لوگوں نے اُس گھر کا نام ’خوشبو والوں کا گھر‘ رکھ دیا۔

57. ذَكَرَ الْقَاضِي عِيَاضٌ فِي ‹‹الشِّفَا››: کَانَ لَا ظِلَّ لِشَخْصِهِ ﷺ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ، لِأَنَّهُ کَانَ نُوْرًا([59]).

قاضی عیاض فرماتے ہیں: سورج اور چاند کی روشنی میں بھی آپ ﷺ کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ ہوتا تھا،کیونکہ آپ ﷺ سراپا نور تھے۔

58. ذَكَرَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي ‹‹الْوَفَا››: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لِرَسُوْل اللهِ ﷺ ظِلٌّ، وَلَمْ يَقُمْ مَعَ شَمْسِ قَطُّ إِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُهُ ضَوْءَ الشَّمْسِ، وَلَمْ يَقُمْ مَعَ سِرَاجٍ قَطُّ إِلَّا غَلَبَ ضَوْؤُهُ عَلَى ضَوْءِ السِّرَاجِ([60]).

علامہ ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’الوفا باَحوال المصطفی ﷺ ‘ میں بیان کیا ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ آپ ﷺ سورج کی روشنی میں کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ کا نور مبارک سورج کی روشنی پر غالب آ جاتا۔ جب آپ ﷺ چراغ کےسامنے کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ کے جسمِ اَطہر کا نور چراغ کی روشنی پر غالب آ جاتا۔

59. ذَكَرَ السُّيُوْطِيُّ فِي ‹‹الْخَصَائِصِ الْكُبْرَى››: إِنَّ ظِلَّهُ ﷺ کَانَ لَا یَقَعُ عَلَی الْأَرْضِ، وَأَنَّهُ کَانَ نُوْرًا، فَکَانَ إِذَا مَشَی فِي الشَّمْسِ أَوِ الْقَمَرِ لَا یُنْظَرُ لَهُ ظِلٌّ([61]).

امام سیوطی ’الخصائص الکبریٰ‘ میں روایت نقل فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپ ﷺ سراپا نور تھے۔ جب آپ ﷺ سورج یا چاند کی روشنی میں خرامِ ناز فرماتے تو آپ ﷺ کا سایہ نظر نہ آتا۔

60. قَالَ الزُّرْقَانِيُّ: لَمْ یَکُنْ لَهَا ظِلٌّ فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ([62]).

امام زرقانی فرماتے ہیں: سورج اور چاند کی روشنی میں بھی آپ ﷺ کا سایہ نہ ہوتاتھا۔


حوالہ جات


([39]) ذكره ابن الجوزي في الوفا/409.

([40]) ذكره الرازي في التفسیر الکبیر، 31/214.

([41]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/278.

([42]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/278.

([43]) ذكره الخفاجي في نسیم الریاض، 1/363.

([44]) ذكره ملا علي القاري في شرح الشفاء، 1/165.

([45]) ذكره الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة،5/531.

([46]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 1/387.

([47]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 1/321.

([48]) النووي في شرح صحيح المسلم، 2/256.

([49]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرّشاد، 2/88.

([50]) ذكره الخفاجي في نسيم الرّياض، 1/348.

([51]) أخرجه ابن عساكر في السيرة النبوية، 1/319.

([52]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3/1306، الرقم/3368، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبي ﷺ ولین مسه والتبرك بمسحه، 4/1814-1815، الرقم/2330، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/228، 270، الرقم/13405، 13887، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في خلق النبي ﷺ، 4/368، الرقم/2015.

([53]) أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبي وإفطاره ﷺ، 2/696، الرقم/1872.

([54]) ذكره الصالحي في سبل الهدى والرشاد، 2/86.

([55]) أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1/45، الرقم/66، والبخاري في التاریخ الکبیر، 1/399، الرقم/1273.

([56]) أخرجه المقدسي في الأحادیث المختارة، 7/129، الرقم/2560، وذکره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/67.

([57]) أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب طیب عرق النبي ﷺ والتبرك به، 4/1815، الرقم/2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/136، الرقم/12419، والطبراني في المعجم الکبیر، 25/119، 122، الرقم/289، 297، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154، الرقم/1429، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 2/61، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8/428.

([58]) أخرجه أبو یعلى في المعجم، 1/117-118، الرقم/118، وأیضًا في المسند، 11/185-186، الرقم/6295، والطبراني في المعجم الأوسط، 3/190-191، الرقم/2895، والأصبهاني في دلائل النبوة/59، الرقم/41، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 6/23، الرقم/3055، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 4/48، وذکره ابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/25، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4/256، وأیضًا، 8/283، والمناوي في فیض القدیر، 5/80، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/44، وأیضًا في الخصائص الکبری، 1/115-116.

([59]) ذكره القاضي عیاض في الشفا، 1/522، والخازن في لباب التأویل في معاني التنزیل، 3/321، والنسفي في المدارك، 3/135، والمقری التلمساني في فتح المتعال في مدح النعال/510.

([60]) ذكره ابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، 2/65.

([61]) ذكره السیوطي في الخصائص الکبری، 1/122، وابن شاهین في غایة السؤل في سیرة الرسول، 1/297.

([62]) الزرقاني في شرح المواهب اللدنیة، 5/524.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved