عقیدہ شفاعت: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت خاصہ گناہگاروں اور خطاکاروں کیلئے ہے نیز آپ ﷺ کی عامۃ المسلمین کیلئے شفاعت عامہ کا بیان

بَابٌ فِي شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الْخَاصَّةِ لِلْمُذْنِبِيْنَ الْخَطَّائِيْنَ وَشَفَاعَتِهِ الْعَامَّةِ لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ

 (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعتِ خاصہ گناہگاروں اور خطاکاروں کے لئے ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عامۃ المسلمين کے لئے شفاعت عامہ کا بیان)

164 / 1. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ اُمَّتِي الْجَنَّةَ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَی، أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلَکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

1 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4311، والکناني في مصباح الزجاجة، 4 / 260، الرقم : 1549.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حقِ شفاعت اور (بغير حساب) میری نصف امت کے جنت میں داخل کئے جانے کا اختیار دیا گیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کرليا کیونکہ یہ زیادہ عام اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ متقین کے لئے ہے؟ نہیں! بلکہ وہ تو گناہگاروں، خطاکاروں اور معصیت میں آلودہ لوگوں کے لئے ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد صحیح ہے۔

165 / 2. عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا خَيَرَنِي رَبِّی اللَّيْلَةَ؟ قُلْنَا : اَﷲُ وَرَسُوْلُه أَعْلَمُ! قَالَ : فَإِنَّه خَيَرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، قُلْنَا : يَارَسُوْلَ اﷲِ! اُدْعُ اﷲَ أَن يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ : هِيَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

2 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1444، الرقم : 4317، والحاکم في المستدرک، 1 / 60، 135، الرقم : 36، 221، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 68، الرقم : 126، وابن منده في الإيمان، 2 / 873، الرقم : 932، إسناده صحيح.

’’حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں پتہ ہے کہ میرے رب نے رات کو مجھے کیا اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت (بغير حساب) جنت میں داخل ہوجائے یا میں شفاعت کروں؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا، ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اس کا مستحق بنا دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ ہر مسلمان کے لئے ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابنِ ماجہ، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : امام مسلم کی شرائط پر یہ حديث صحيح ہے۔

166 / 3. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ أَوْ يَدْخُلُ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَی. أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلٰکِنَّهَا لِلْمُتَلَوِّثِيْنَ الْخَطَّاؤُوْنَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ : إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.

3 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 75، الرقم : 5452، وابن أبی عاصم في السنة 2 / 368، الرقم : 791، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 242، الرقم : 5518، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 455.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حقِ شفاعت اور (بغير حساب) میری نصف امت کے جنت میں داخل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کرليا کیونکہ یہ زیادہ عام اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ متقین کے لئے ہے؟ نہیں! بلکہ وہ تو معصیت میں آلودہ لوگوں اور خطاکاروں کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے کہا ہے : اس کی اِسناد ٹھیک ہے۔

167 / 4. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنّي لَأَرْجُوْ أَنْ أَشْفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدَدَ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ وَمَدَرَةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الرقم : 22943، والروياني في المسند، 1 / 73، الرقم : 30، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378، والهندي في کنز العمال، 14 / 399، الرقم : 39062.

’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مجھے امید ہے کہ میں قیامت کے دن روئے زمین کے جملہ درختوں اور مٹی کے ڈھیلوں کی مقدار کے برابر اپنی امت کے افراد کی شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

168 / 5. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِعْمَلِي وَلَا تَتَّکِلِي فَإِنَّ شَفَاعَتِي لِلْهَالِکِيْنَ مِنْ أُمَّتِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 369، الرقم : 872، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 432، الرقم : 8650.

’’حضرت امِ سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مجھے نصیحت کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا : عملِ صالح کیا کرو اور (اتنے قرب کی وجہ سے بے عمل مجھ پر) امید لگا کر نہ رکھو، بے شک میری شفاعت امت کے ہلاک ہونے والوں کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

169 / 6. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ رضی اﷲ عنها خَرَجَتْ مُتَبَرِّجَةً قَدْ بَدَا قُرْطَاهَا، فَقَالَ لَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّاب : اِعْلَمِي فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَا يُغْنِي عَنْکِ شَيْءًا، فَجَاءَ تْ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرَتْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَزْعُمُوْنَ أَنَّ شًفَاعَتِي لَا تَنَالُ أَهْلَ بَيْتِي وَأَنَّ شَفَاعَتِي تَنَالُ حَا وَحَکَمَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : هُوَ مُرْسَلٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 24 / 434، الرقم : 1060، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 257، وابن الأثير في النهاية، 1 / 421.

’’عبد الرحمن بن ابی رافع سے روایت ہے کہ حضرت ام ہانی بنتِ ابی طالب رضی اﷲ عنہا آراستہ ہوکر ایسے نکلی کہ ان کے کانوں کے زیورات نمایاں ہو رہے تھے۔ عمر بن خطاب نے انہیں دیکھ کر کہا : تو جان لے کہ بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھے کچھ فائدہ نہ دیں گے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی خبر دی، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس قوم کا کیا انجام ہوگا جو یہ گمان کرتی ہے کہ میری شفاعت میرے اہلِ بیت کو فائدہ نہیں دے گی حالانکہ میری شفاعت تو حَا اور حَکَم قبیلوں تک پہنچے گی۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : یہ حدیث مرسل ہے اور اس کے اشخاص ثقہ ہیں۔

170 / 7. عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ النَّصْرِيِّ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُسْرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ : مَرَرْتُ بِجَدِّکَ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُسْرٍ رضی اﷲ عنه وَهُوَ أَمِيْرٌ عَلَی حِمْصٍ، فَقَالَ لِي : يَا أَبَا عَمْرٍو! أَلَا أُحَدِّثُکَ بِحَدِيْثٍ يَسُرُّکَ؟ فَوَاﷲِ لَرُبَمَا کَتَمَتْهُ الْوُلَاةُ؟ قُلْتُ : بَلَی، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اﷲِ بْنُ بُسْرٍ، قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ بِفِنَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا جُلُوْسًا، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا مُشْرِقَ الْوَجْهِ تَهَلَّلَ، فَقُمْنَا فِي وَجْهِهِ فَقُلْنَا : سَرَّکَ اﷲُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! إِنَّهُ لَيَسُرُّنَا مَا نَرَی مِنْ إِشْرَاقِ وَجْهِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ جِبْرِيْلَ أَتَانِي آنِفًا، فَبَشَّرَنِي أَنَّ اﷲَ قَدْ أَعْطَانِي الشَّفَاعَةَ، هِيَ فِي أُمَّتِي لِلْمُذْنِبِيْنَ الْمُثْقَلِيْنَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.

7 : أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، 5 / 304، الرقم : 5382، والمقدسی في الأحاديث المختارة، 9 / 77، الرقم : 59، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 4 / 24، الرقم : 4568، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 377.

’’حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے عبدالواحد نصری روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا کہ میں تمہارے دادا عبدالواحد بن عبداللہ بن بسر کے پاس سے گزرا جبکہ وہ ان دنوں حمص کے امیر تھے تو انہوں نے مجھے فرمایا : اے ابو عمرو! میں تجھے ایسی حدیث بیان نہ کروں جس سے تو خوش ہو؟ اللہ کی قسم! اکثر اوقات حاکموں نے اسے چھپایا ہے، میں نے کہا : کیوں نہیں! بیان فرمائیں، انہوں نے فرمایا : مجھ سے میرے والد عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : ہم ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس (خوشی سے) چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ تشریف لائے تو ہم (ادباً و تعظیماً) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کے رخ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے، آپ کے دمکتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہو رہی ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک جبرئیل نے ابھی مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاعت کا حق عطا کیا ہے، یہ میری امت کے گناہگاروں اور گناہ سے بوجھل افراد کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

171 / 8. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : نِعْمَ الرَّجُلُ أَنَا لِشِرَارِ أُمَّتِي، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ : کَيْفَ أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! لِخِيَارِهِمْ؟ قَالَ : أَمَّا شِرَارُ أُمَّتِي فَيُدْخِلُهُمُ اﷲُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي، وَأَمَّا خِيَارُهُمْ فَيُدْخِلُهُمُ اﷲُ الْجَنَّةَ بِأَعْمَالِهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

8 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 8 / 97، الرقم : 7483، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 377.

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی امت کے برے لوگوں کے لئے سب سے بہتر آدمی میں ہوں. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! امت کے اچھے لوگوں کے لئے آپ کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے گنہگار لوگوں کو اللہ تعالیٰ میری شفاعت سے جنت میں داخل کرے گا، جبکہ میری امت کے اچھے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

172 / 9. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَکْثَرُ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ ثَلاَثُ مَرَّاتٍ، قُلْنَا : نَعَمْ! قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَشَفَاعَتِي أَکْثَرُ مِنَ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.

9 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 246، الرقم : 4100، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 379، والعجلوني في کشف الخفاء، 2 / 462، الرقم : 2965.

’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین مرتبہ فرماتے ہوئے سنا : درختوں اور پتھروں کی مقدار سے زیادہ، ہم نے (بغیر سمجھے تائید کرتے ہوئے) عرض کیا : جی ہاں! (ایسے ہی ہے تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، بے شک میری شفاعت پتھروں اور درختوں کی مقدار سے بھی زیادہ ہو گی۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

173 / 10. عَنْ أُنَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي لَأَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي کُلِّ شَيْئٍ مِمَّا عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ مِنْ حَجَرٍ وَمَدَرٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 295، الرقم : 5360، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 379.

’’حضرت اُنَیس انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں قیامت کے دن ضرور روئے زمین کے. تمام پتھروں اور مٹی کے ڈھیلوں کی مقدار کے برابر شفاعت کروں گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

174 / 11. عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکِ الْأَشْجَعِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : سَافَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَفَرًا، فَنَزَلْنَا حَتَّی إِذَا کَانَ اللَّيْلُ أَرِقَتْ عَيْنَايَ، فَلَمْ يْتِنِي النَّوْمُ، فَقُمْتُ فَإِذَا لَيْسَ فِي الْعَسْکَرِ دَابَّةٌ اِلَّا وَاضِعٌ خَدَّه إِلَی الْأَرْضِ، وَأَنْ أُرْفِعَ شَيْئٌ فِي نَفْسِي لِمَوْضِعِ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ، فَقُلْتُ : لَآتِيَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلِأَکْلَأَ بِهِ اللَّيْلَةَ حَتَّی يُصْبِحَ، فَخَرَجْتُ أَتَخَلَّلُ الرِّحَالَ حَتَّی دَفَعْتُ اِلَی رَحْلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي رَحْلِهِ، فَخَرَجْتُ أَتَخَلَّلُ الرِّحَالَ حَتَّی خَرَجْتُ مِنَ الْعَسْکَرِ، فَإِذَا أَنًا بِسَوَادٍ، فَتَيَمَّمْتُ ذٰلِکَ السَّوَادَ فَاِذَا هُوَ اَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَقَالَا لِيْ : مَا الَّذِي أَخْرَجَکَ؟ فَقُلْتُ : اَلَّذِي اَخْرَجَکُمَا، فَاِذَا نَحْنُ بِغَيْطَةٍ مِنَّا غَيْرُ بَعِيْدٍ، فَمَشَيْنَا اِلَی الْغَيْطَةِ، فَاِذَا نَحْنُ نَسْمَعُ فِيْهَا کَدَوِيِّ النَّحْلِ اَوْ کَحَفِيْفِ الرِّيَاحِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَهَهُنَا أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ؟ قُلْنَا : نَعَمْ، قَالَ : وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ؟ قُلْنَا : نَعَمْ، قَالَ : عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ؟ قُلْنَا نَعَمْ، فَخَرَجَ اِلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُمْنَا لَا نَسْأَلُه عَنْ شَيْئٍ وَلَا يَسْأَلُنَا عَنْ شَيْئٍ حَتَّی رَجَعَ إِلٰی رَحْلِهِ، فَقَالَ : أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِمَا خَيَرَنِي رَبِّي آنِفًا؟ قُلْنَا : بَلٰی يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : خَيَرَنِي بَيْنَ اَنْ يَدْخُلَ ثُلُثُ اُمَّتِي الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ؟ قُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَا الَّذِي اخْتَرْتَ؟ قَالَ : اِخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، قُلْنَا جَمِيْعًا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! اِجْعَلْنَا مِنْ اَهْلِ شَفَاعَتِکَ، فَقَالَ لَنَا : إِنَّ شَفَاعَتِي لِکُلِّ مُسْلِمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَمَعْمَرٌ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدِ أَحَدِهَا جَيِّدٌ.

11 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 58، الرقم : 107، ومعمر بن راشد في الجامع، 11 / 413، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 369، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 234، الرقم : 5501.

’’حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کے دوران راستہ میں قیام کیا. رات کا ایک حصہ گزرنے پر میری آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی جس کے باعث میں سو نہ سکا تو اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت لشکر میں کوئی بھی ایسا جانور نہ تھا جو سو نہ گیا ہو، کجاوہ کے پچھلے حصہ کی جانب سے (کچھ گڑ بڑ ہونے کا) میرے ذہن میں خیال آیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں گا تاکہ ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے سکوں یہاں تک کہ صبح ہوجائے، پس میں کجاووں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کجاوے تک پہنچا تو آپ اپنے کجاوے پر موجود نہ تھے۔ لہذا میں کجاووں کو عبور کرتا ہوا لشکر سے باہر نکل گیا تو اچانک میں نے کسی چیز کا سایہ دیکھا، میں نے اس کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو وہ ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل تھے، انہوں نے مجھ سے کہا : کس چیز نے تمہیں (اس وقت لشکر سے) نکالا ہے؟ میں نے کہا : جس نے تمہیں نکالا ہے، ہم سے تھوڑا ہی دور ایک باغ تھا، ہم اس باغ کی طرف بڑھنے لگے، اس دوران ہم نے اس میں مکھیوں کے بھنبھنانے یا ہلکی سی ہوا چلنے جیسی آواز سنی، پس (ہمیں اس میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنائی دی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں ابو عبیدہ بن جراح ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور معاذ بن جبل بھی ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں! آپ نے فرمایا : عوف بن مالک بھی ہے؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں موجود ہے، پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے تو ہم اٹھ کھڑے ہوئے نہ ہم نے آپ سے کچھ عرض کیا اور نہ آپ نے ہمیں کچھ ارشاد فرمایا، یہاں تک کہ آپ اپنی سواری کی طرف لوٹ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ میرے رب نے ابھی مجھے کیا اختیار دیا ہے؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں! یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھے یہ اختیار دیا ہے کہ میری تہائی امت بغير حساب کتاب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوجائے یا میں شفاعت کروں؟ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ نے کیا اختیار فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے شفاعت کو اختیار کر ليا، ہم تمام نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں آپ کی شفاعت میں شامل فرما لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا : بے شک میری شفاعت ہر مسلمان کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام طبرانی اور معمر نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے کہا ہے : اسے طبرانی نے روایت کیا ہے جس کی اسانید میں سے ایک ٹھیک ہے۔

175 / 12. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ صأَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَقُوْلُ : اَللَّهُمْ اجْعَلْنِي فِيْمَنْ تُصِيْبُهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : إِنَّ اﷲَ يُغْنِي الْمُؤْمِنِيْنَ عَنْ شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَکِنَّ الشَّفَاعَةَ لِلْمُذْنِبِيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْإِعْتِقَادِ.

12 : أخرجه البيهقی في الإعتقاد، 1 / 203، والعجلوني في کشف الخفاء، 2 / 15، الرقم : 1557.

’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا : اے اللہ! تو مجھے ان میں شامل کر جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی، انہوں نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے مستغنی کر دے گا، لیکن وہ شفاعت خاص طور پر مؤمن اور مسلمان گناہگاروں کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

176 / 13. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِّ صلی الله عليه وآله وسلم : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ شَطْرُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَی، أَتَرَوْنَهَا لِلْمُؤْمِنِيْنَ الْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلٰکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ الْخَطَّائِيْنَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْإِعْتِقَادِ.

13 : أخرجه البيهقي في الإعتقاد، 1 / 203.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حقِ شفاعت اور (بغير حساب) میری نصف امت کے جنت میں داخل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا؟ پس میں نے شفاعت کو اختیار کرليا کیونکہ یہ زیادہ عام اور زیادہ کفایت کرنے والی ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ مؤمنین متقین کے لئے ہے؟ نہیں بلکہ وہ تو گناہگاروں، معصیت میں آلودہ لوگوں اور خطا کاروں کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

177 / 14. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُسْرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ جِبْرِيْلَ أَتَانِي اللَّيْلَةَ فَبَشَّرَنِي أَنَّ اﷲَ قَدْ أَعْطَانِي الشَّفَاعَةَ. فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أَفِي بَنِي هَاشِمٍ خَاصَّةً؟ قَالَ : لَا. قُلْنَا : فِي قُرَيْشٍ عَامَّةً؟ قَالَ : لَا. فَقُلْنَا : فِي أُمَّتِکَ؟ قَالَ : فَعَقَدَ بِيَدِهِ، فَقَالَ : هِيَ لِأُمَّتِي الْمُذْنِبِيْنَ الْمُثْقَلِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

14 : أخرجه ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 392، الرقم : 823، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 27 / 163، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 78، الرقم : 60.

’’حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل نے رات کو میرے پاس حاضرہوکر مجھے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاعت کا حق عطا کیا ہے۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ! کیا یہ بنی ہاشم کے لئے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں. ہم نے عرض کیا : کیا یہ قریش میں ہی عام ہے؟ فرمایا : نہیں. ہم نے عرض کیا : کیا یہ آپ کی ساری امت کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیا اور فرمایا : یہ میری امت کے گناہگاروں اور گناہ سے بوجھل افراد کے لئے ہے۔‘‘

اسے امام ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

178 / 15. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِّ صلی الله عليه وآله وسلم : نِعْمَ الرَّجُلُ أَنَا لِشِرَارِ أُمَّتِي، فَقَالُوْا : فَکَيْفَ أَنْتَ لِخِيَارِهِمْ؟ قَالَ : أَمَّا خِيَارُهُمْ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِصِلَاحِهِمْ وَأَمَّا شِرَارُهُمْ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي.

رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْأَصْبَهَانِيُّ.

15 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 10 / 219، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 249، الرقم : 6738.

وأخرج ابن قتيبة بسنده في تأويل مختلف الحديث، 1 / 172 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِّ صلی الله عليه وآله وسلم : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ شَطْرُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ؟ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْثَرُ لَعَلَّکُمْ تَرَوْنَ أَنَّ شَفَاعَتِي لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلَکِنَّهَا لِلْمُتَلَطِّخِيْنَ بِالذُّنُوْبِ.

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی امت کے برے لوگوں کے لئے سب سے بہتر شخص میں ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : آپ ان کے اچھے لوگوں کے لئے کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان کے اچھے لوگ اپنے اصلاح اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے جبکہ ان کے گنہگار لوگ میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

اسے امام ابو نعیم اصبہانی نے روایت کیا ہے۔

179 / 16. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضی اﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أُدْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِمَّنْ تَشْفَعُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَنْ تَخْمُشُکِ النَّارُ فَإِنَّ شَافِعَتِي لِکُلِّ هَالِکٍ مِنْ أُمَّتِي تَخْمُشُهُ النَّارُ. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَر.

16 : أخرجه ابن عبد البر في التمهيد، 19 / 67، الرقم : 173.

’’حضرت اَسماء بنتِ عمیس رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ مجھے قیامت کے روز ان (عام) لوگوں میں شامل فرمائے جن کی آپ شفاعت فرمائیں گے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تب تو آگ تمہیں خراش پہنچائے گی کیونکہ میری شفاعتِ عامہ ہر اس ہلاک ہونے والے امتی کے لئے ہے جسے آگ ضرر پہنچائے گی (جبکہ تم صالحہ، متقیہ اور خود شفاعت کرنے والوں میں سے ہو)۔‘‘

اسے امام ابنِ عبد البر نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved