عقیدہ شفاعت: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور صالحین کے شفاعت کرنے کا بیان

بَابٌ فِي شَفَاعَةِ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّحَابَةِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ

 (انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور صالحین کے شفاعت کرنے کا بیان)

277 / 1. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُوْنَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ، شَکَّ فِي أَحَدِهِمَا، مُتَمَاسِکِيْنَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ، حَتَّی يَدْخُلَ أَوُّلُهُمْ وَآخِرُهُمُ الْجَنَّةَ، وَوُجُوْهُهُمْ عَلَی ضَوْءِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : الرقاق، باب : يدخل الجنة سبعون ألفاً بغير حساب، 5 / 2396، الرقم : 6177، وأيضاً في کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة، 3 / 1186، الرقم : 3075، وأيضاً في کتاب : الرقاق، باب : صفة الجنة والنار، 5 / 2399، الرقم : 6187، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : الدليل علی دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب، 1 / 198، الرقم : 219، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 335، الرقم : 22839.

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (بغير حساب وعذاب کے) جنت میں داخل ہوں گے، (راوی کو دونوں میں سے ایک کا شک ہے) یہ ایک دوسرے کو (نسبت کی وجہ سے باہم) تھامے ہوئے ہوں گے یہاں تک کہ ان کا پہلا (قیادت کرنے والا) اور آخری شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

278 / 2. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، (فَذَکَرَ حَدِيْثًا طَوِيْلًا)، قَالَ : فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ، قَدْ تَبَيَنَ لَکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ لِلْجَبَّارِ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا إِخْوَانُنَا، کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا، وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَيَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَيَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِيْنَارٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، وَيُحَرِّمُ اﷲُ صُوَرَهُمْ عَلَی النَّارِ، فَيَأْتُوْنَهُمْ وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَی قَدَمِهِ وَإِلَی أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إذْهَبُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِيْنَارٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا. قَالَ أَبُوسَعِيْدٍ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوْنِي فَاقْرَءُ وا (إِنَّ اﷲَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا) [النساء، 4 : 40]. فَيَشْفَعُ النَّبِيُّوْنَ وَالْمَلَائِکَةُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ. فَيَقُوْلُ الْجَبَّارُ : بَقِيَتْ شَفَاعَتِي، فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ، فَيُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوْا، فَيُلْقَوْنَ فِي نَهَرٍ بِأَفْوَهِ الْجَنَّةِ، يُقَالُ لَهُ : مَاءُ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُوْنَ فِي حَافَتَيْهِ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيْلِ السَّيْلِ، قَدْ رَأَيْتُمُوْهَا إِلَی جَانِبِ الصَّخْرَةِ وَإِلَی جَانِبِ الشَّجَرَةِ، فَمَا کَانَ إِلَی الشَّمْسِ مِنْهَا کَانَ أَخْضَرَ، وَمَا کَانَ مِنْهَا إِلَی الظِّلِّ کَانَ أَبْيَضَ، فَيَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمُ اللُّؤْلُؤُ، فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمِ الْخَوَاتِيْمُ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيَقُوْلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ : هٰؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الرَّحْمٰنِ، أَدْخَلَهُمُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوْهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوْهُ، فَيُقَالُ لَهُمْ : لَکُمْ مَا رَأَيْتُمْ وَمِثْلَهُ مَعَهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.

2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : وجوه يومئذ ناضرة إلی ربها ناظرة، 6 / 2707، الرقم : 7001، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 16، وابن حبان في الصحيح، 16 / 379، الرقم : 7377، والحاکم في المستدرک، 4 / 626، الرقم : 8736.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیثِ مبارکہ مروی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مؤمنین کا اپنے مؤمن بھائیوں کی شفاعت کرنے کے باب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم مجھ سے حق کا مطالبہ کرنے میں جو تمہارے لئے واضح ہوچکا ہے آج اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ سے مطالبہ کریں گے جس وقت وہ دیکھیں گے کہ وہ نجات پاگئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کے حق میں مطالبہ کرتے ہوئے وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے بھائی (جن کو تو نے دوزخ میں ڈال دیا ہے ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے یہ) ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ عمل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں دینار کے وزن کے برابر ایمان پاؤ اسے (دوزخ سے) نکال لو اور اللہ تعالیٰ ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کردیگا، پس وہ ان کے پاس آئیں گے جبکہ بعض قدموں تک اور بعض پنڈلیوں تک آگ میں ڈوبے ہوئے ہوں گے چنانچہ وہ جن کو پہچانیں گے انہیں نکال لیں گے۔ پھر واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو، پس وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو چنانچہ وہ جسے پہچانیں گے نکال لیں گے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے : (بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اوراگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے) [النساء، 4 : 40]، (تو صحبتِ صالحین بھی عظیم نیکی ہے۔ ) پس انبیاء، فرشتے اور مؤمنین شفاعت کریں گے تو خالق ومالک جبار فرمائے گا : میری شفاعت باقی ہے پھر وہ دوزخ سے (جہنمیوں کو) قبضہ بھر کر نکالے گا جو جل کر کوئلے کی طرح ہوچکے ہوں گے اور انہیں نہرِ حیات میں ڈال دیا جائے گا جو جنت کے کناروں پر ہے۔ چنانچہ وہ اس طرح تر و تازہ ہو کر نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ سے دانہ اگتا ہے جن کو تم نے کسی پتھر یا درخت کے پاس دیکھا ہو گا۔ جو ان میں سے سورج کی طرف ہوتا ہے سبز اور جو سایہ میں ہوتا ہے سفید رہتا ہے گویا وہ موتیوں کی مانند نکلیں گے اور ان کی گردنوں میں مہریں لگا دی جائیں گی تو وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہلِ جنت کہیں گے : یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں کہ اس نے ان کو بغیر عمل کیے اور بغیر کسی بھلائی کو آگے بھیجنے کے جنت میں داخل کر دیا۔ پس ان (جہنم سے آزاد ہونے والوں) سے کہا جائے گا : جو کچھ تم نے دیکھا وہ بھی تمھارا ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہے۔‘‘

اسے امام بخاری، احمد، ابنِ حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

279 / 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه (فَذَکَرَ حَدِيْثًا طَوِيْلًا) عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةِﷲِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَِﷲِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ، يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! کَانُوْا يَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَيُصَلُّوْنَ وَيَحُجُّوْنَ. فَيُقَالُ لَهُمْ : أَخْرِجُوْا مَنْ عَرَفْتُمْ، فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَی النَّارِ، فَيُخْرِجُوْنَ خَلْقًا کَثِيْرًا قَدْ أَخَذَتِ النَّارُ إِلَی نِصْفِ سَاقَيْهِ وَإِلَی رُکْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! مَا بَقِيَ فِيْهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِه، فَيَقُوْلُ : إِرْجِعُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِيْنَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ خَلْقًا کَثِيْرًا، ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! لَمْ نَذَرْ فِيْهَا أَحَدًا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُوْلُ : إِرْجِعُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِيْنَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ خَلْقًا کَثِيْرًا، ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! لَمْ نَذَرْ فِيْهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا أَحَدًا، ثُمَّ يَقُوْلُ : إِرْجِعُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَ خَلْقًا کَثِيْرًا، ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! لَمْ نَذَرْ فِيْهَا خَيْرًا، وَکَانَ أَبُوْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيُّ رضی اﷲ عنه يَقُوْلُ : إِنْ لَمْ تُصَدِّقُوْنِي بِهَذَا الْحَدِيْثِ، فَاقْرَئُ وْا إِنْ شِئْتُمْ (إِنَّ اﷲَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَکُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيْماًo) [النساء، 4 : 40]. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّيَالِسِيُّ وَالْحَاکِمُ.

3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : معرفة طريق الرؤية، 1 / 169، الرقم : 183، والطيالسي في المسند، 1 / 289، الرقم : 2179، والحاکم في المستدرک، 4 / 626، الرقم : 8736، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 223، الرقم : 5466.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو مومن نجات پا کر جنت میں چلے جائیں گے وہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو جو جہنم میں پڑے ہوں گے جہنم سے چھڑانے کے لیے (بطور ناز ) اللہ تعالیٰ سے ایسا جھگڑا کریں گے جیسا جھگڑا کوئی شخص (دنیا میں) اپنا حق مانگنے کے لیے بھی نہیں کرتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے ہمارے رب! یہ لوگ (ہماری سنگت اختیار کیے ہوئے تھے کہ) ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا : جن لوگوں کو تم پہچانتے ہو ان کو دوزخ سے نکال لو، ان لوگوں کی صورتیں آگ پر حرام کر دی جائے گی۔ پھر جنتی مسلمان کثیر تعداد میں ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے جن میں سے بعض کو نصف پنڈلیوں تک اور بعض کو گھٹنوں تک دوزخ کی آگ نے جلا ڈالا ہوگا۔ وہ پھر عرض کریں گے : یا اللہ! اب ان لوگوں میں سے کوئی باقی نہیں بچا جن کو جہنم سے نکال لانے کا تو نے حکم دیا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر جاؤ اور جس کے دل میں دینار کے برابر بھی نیکی ہے اس کو جہنم سے نکال لاؤ، پھر وہ کثیرتعداد میں لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے : یا اللہ! جن لوگوں کو تو نے جہنم سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی نیکی ہو اس کو جہنم سے نکال لاؤ، وہ پھر جائیں گے اور کثیر تعداد میں لوگوں کو جہنم سے نکال لائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے ہمارے رب! جن لوگوں کو تو نے دوزخ سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : جس شخص کے دل میں تم کو ذرہ برابر بھی نیکی ملے اس کو بھی جہنم سے نکال لاؤ، وہ جائیں گے اور جہنم سے بہت بڑی تعداد میں خلقِ خدا کو نکال لائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : اے اللہ! اب دوزخ میں نیکی کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر تم میری اس بیان کردہ حدیث کی تصدیق نہیں کرتے تو قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو : (بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے اور اپنے پاس سے بڑا درجہ عطا فرماتا ہےo) [النساء، 4 : 40].

اسے امام مسلم، طیالسی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

280 / 4. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَقِيْقٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَهْطٍ بِيْلِيَاءَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَکْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. قِيْلَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! سِوَاکَ؟ قَالَ : سِوَايَ. فَلَمَّا قَامَ، قُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ قَالُوْا : هَذَا ابْنُ أَبِي الْجَدْعَاءِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَأَبُويَعْلَی. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

4 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 626، الرقم : 2438، وابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4316، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 469. 470، الرقم : 15857، إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح، والدارمي في السنن، 2 / 423، الرقم : 2808، وأبو يعلی في المسند، 12 / 280، الرقم : 6866، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 140، الرقم : 122، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 645، الرقم : 2598.

’’عبداللہ بن شقیق کا بیان ہے کہ ایلياء کے مقام پر میں ایک گروہ کے ساتھ تھا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت کے ایک شخص (عثمان یا اویس قرنی) کی شفاعت کے سبب بنو تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ کوئی اور ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں میرے علاوہ. راوی کہتے ہیں : پس جب وہ چلے گئے تو میں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتلایا : یہ ابنِ ابی الجدعا ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابنِ ماجہ، احمد، دارمی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

281 / 5. عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِلشَّهِيْدِ عِنْدَ اﷲِ سِتُّ خِصَالٍ : يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَيَرَی مَقْعَدَه مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ، وَيُوْضَعُ عَلَی رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوْتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ زَوْجَةً مِنَ الْحُوْرِ الْعِيْنِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِيْنَ مِنْ أَقَارِبِهِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ وَأَحْمَدُ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجهاد، باب : في فضائل الشهيد، 4 / 187، الرقم : 1663، وابن ماجة في السنن، کتاب : الجهاد، باب : فضل الشهادة في سبيل اﷲ، 2 / 935، الرقم : 2799، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 131، الرقم : 17182، رجاله ثقات، والبيهقي في شعب الإيمان، 4 / 25، الرقم : 4254، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 210، الرقم : 2134، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 175.

’’حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے پاس شہید کے لئے چھ انعام ہیں : خون بہتے ہی اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ لیتا ہے۔ عذابِ قبر اور قیامت کی گھبراہٹ و خوف سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے سر پر یاقوت سے بنا ہوا عزت وعظمت والا تاج رکھا جاتا ہے جس کے بعض موتی دنیا و ما فيھا سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ 72 حور عِین (جو سیاہ چشم اور موٹی آنکھوں والی ہیں) کو اس کی زوجیت میں دیا جاتا ہے۔ اس کے 70 رشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘‘

اسے امام ابنِ ماجہ، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

282 / 6. عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَشْفَعُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمِثْلِ رَبِيْعَةَ وَمُضَرَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 627، الرقم : 2439، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 523، الرقم : 866، والآجري في الشريعة : 351.

’’حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلاً مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان بن عفان دو قبیلوں ربیعہ اور مضر کے برابر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

283 / 7. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيْلَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعَصَبَةِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ حَتَّی يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُويَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 627، الرقم : 2440، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 20، الرقم : 11148، وفي روايته : قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم : قَدْ أُعْطِيَ کُلُّ نَبِيٍّ عَطِيَةً فَکُلٌّ قَدْ تَعَجَّلَهَا، وَإِنِّي أَخَّرْتُ عَطِيَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي... إلي آخر الحديث، وأبويعلی في المسند، 2 / 293، الرقم : 1014، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 310، الرقم : 31683، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 283، الرقم : 903، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 468.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا ایک امتی لوگوں کے ایک گروہ کی شفاعت کرے گا، ان میں سے کوئی کسی قبیلہ کی شفاعت کرے گا، ان میں سے کوئی کسی جماعت کی شفاعت کرے گا اور ان میں سے کوئی ایک شخص کی شفاعت کرے گا یہاں تک کہ وہ سب جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

اسے امام ترمذی، احمد، ابو یعلی، ابنِ ابی شیبہ اور عبد بن حميد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کی اِسناد حسن ہے۔

284 / 8. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مُجَادَلَةُ أَحَدِکُمْ فِي الْحَقِّ، يَکُوْنُ لَهُ فِي الدُّنْيَا بِأَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ أُدْخِلُوا النَّارَ. قَالَ : يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! إِخْوَانُنَا کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا، وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا، وَيَحُجُّوْنَ مَعَنَا، فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، قَالَ : فَيَقُوْلُ : إِذْهَبُوْا فَأَخْرِجُوْا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، قَالَ : فَيَأْتُوْنَهُمْ فَيَعْرِفُوْنَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَی أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَی کَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَهُمْ، فَيَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا! قَدْ أَخْرَجْنَا مَنْ أَمَرْتَنَا، قَالَ وَيَقُوْلُ : أَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِيْنَارٍ مِنَ الْيْمَانِ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِيْنَارٍ، حَتَّی يَقُوْلَ : مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ. قَالَ أَبُوْ سَعِيْدٍ : فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ فَلْيَقْرَأْ هَذِهِ الْيَةَ : (إِنَّ اﷲَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَکَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَشَآءُ) إِلَی (عَظِيْمًا) [النساء، 4 : 48]. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ وَأَحْمَدُ.

8 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الإيمان وشرائعه، باب : زيادة الإيمان، 8 / 112، الرقم : 5010، وابن ماجة في السنن، کتاب : المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 23، الرقم : 60، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 94، الرقم : 11897، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 294، الرقم : 276.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی حق کا مطالبہ کرنے میں اس قدر سخت نہیں ہے جس قدر شدت کے ساتھ مومن اس روز اللہ سے اپنے ان بھائیوں کے بارے میں مطالبہ کریں گے جو دوزخ میں داخل کر دیے جائیں گے۔ وہ اپنے بھائیوں کے حق میں مطالبہ کرتے ہوئے عرض کریں گے : اے ہمارے رب! (یہ) ہمارے بھائی ہیں (انہوں نے ہماری معیت اختیار کی ہوئی تھی)، یہ ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے اور تُو نے انھیں دوزخ میں داخل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ ان میں سے جن کو تم پہنچانتے ہو اس کو نکال لو، پس وہ ان کے پاس آئیں گے تو ان میں سے بعض کو نصف پنڈلیوں تک اور بعض کو ٹخنوں تک آگ پہنچی ہوگی چنانچہ وہ انہیں نکال لیں گے۔ وہ پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا ہم نے انہیں نکال ليا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر اﷲ رب العزت فرمائے گا : جس کے دل میں دینار کے وزن برابر ایمان پاؤ اسے (دوزخ سے) نکال لو۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لو، پھر وہ واپس لوٹیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان پاؤ اسے بھی نکال لو. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جسے یقین نہ آتا ہو وہ یہ آیت پڑھ لے : (بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔۔۔ اخیر آیت تک) [النساء، 4 : 48]۔‘‘

اسے امام نسائی، ابنِ ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

285 / 9. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ : الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْعُلَمَاءُ ثُمَّ الشُّهَدَاءُ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

9 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4313، والبيهقی في شعب الإيمان، 2 / 265، الرقم : 1707، والکنانی في مصباح الزجاجة، 4 / 260، الرقم : 1550، والآجری في الشريعة : 350، والخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 11 / 177، الرقم : 5888، والعجلونی في کشف الخفاء، 2 / 539، الرقم : 3259.

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے : انبیاء پھر علماء پھر شہداء۔‘‘

اسے امام ابنِ ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

286 / 10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ أَبِي بُرْدَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا الْحَارِثُ بْنُ أُقَيْشٍ، فَحَدَّثَنَا الْحَارِثُ لَيْلَتَئِذٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِهِ أَکْثَرُ مِنْ مُضَرَ، وَإِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَعْظُمُ لِلنَّارِ حَتَّی يَکُوْنَ أَحَدَ زَوَيَاهَا.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو يَعْلَی وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

10 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : صفة النار، 2 / 1446، الرقم : 4323، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 312، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31702، وأبويعلی في المسند، 3 / 154، الرقم : 1581، والحاکم في المستدرک، 1 / 242، الرقم : 238، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 294، الرقم : 1056.

’’عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں : میں ایک رات ابو بردہ کے پاس تھا کہ ہمارے پاس حضرت حارث بن اقیشث آئے۔ حارث نے اسی رات ہمیں بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ایک امتی کی شفاعت کے سبب قبیلہ مضر سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور بے شک ایک ایسا امتی بھی ہوگا (جو اپنے گناہوں کے سبب) دوزخ کے لئے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ اس کا ایک کونہ محسو س ہو گا۔‘‘

اسے امام ابنِ ماجہ، احمد، ابنِ ابی شیبہ، ابو یعلی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح الاسناد ہے۔

287 / 11. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوْفاً (وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ : أَهْلُ الْجَنَّةِ) فَيُمُّر الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلَی الرَّجُلِ، فَيَقُوْلُ : يَا فُلَانُ! أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُکَ شَرْبَةً؟ قَالَ : فَيَشْفَعُ لَه، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ، فَيَقُوْلُ : أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُکَ طَهُوْرًا؟ فَيَشْفَعُ لَه، وَيَقُوْلُ : يَا فُلَانُ! أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ کَذَا وَکَذَا؟ فَذَهَبْتُ لَکَ، فَيَشْفَعُ لَه.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَأَبُو يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.

11 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الأدب، باب : فضل صدقة الماء، 2 / 1215، الرقم : 3685، وأبو يعلی في المسند، 7 / 78، الرقم : 4006، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 317، الرقم : 6511، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 39، الرقم : 1415، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 382، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 3 / 275.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ صفیں بنائیں گے (ابنِ نمیر نے کہا یعنی کہ اہلِ جنت) تو دوزخیوں میں سے ایک شخص جنتیوں میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا : اے فلاں! تجھے یاد ہے کہ ایک دن تو نے پانی مانگا تھا اور میں نے تجھے پانی پلایا تھا؟ (راوی فرماتے ہیں : ) پس وہ جنتی اس دوزخی کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی دوسرے آدمی کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا : تجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دن تجھے وضو کرایا تھا؟ چنانچہ وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی کہے گا : اے فلاں : تجھے یاد ہے کہ ایک دن تو نے مجھے اس اس کام کے لئے بھیجا تھا چنانچہ میں تیری خاطر چلاگیا تھا؟ پس وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام ابنِ ماجہ، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

288 / 12. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : يُعْرَضُ النَّاسُ عَلَی جِسْرِ جَهَنَّمَ، وَعَلَيْهِ حَسَکٌ وَکَلَالِيْبُ وَخَطَاطِيْفُ تَخْطَفُ النَّاسَ. قَالَ : فَيَمُرُّ النَّاسُ مِثْلَ الْبَرْقِ، وَآخَرُوْنَ مِثْلَ الرِّيْحِ، وَآخَرُوْنَ مِثْلَ الْفَرَسِ الْمُجِدِّ، وَآخَرُوْنَ يَسْعَوْنَ سَعْيًا، وَآخَرُوْنَ يَمْشُوْنَ مَشْيًا، وَآخَرُوْنَ يَحْبُوْنَ حَبْوًا وَآخَرُوْنَ يَزْحَفُوْنَ زَحْفاً. فَأَمَّا أَهْلُ النَّارِ فَلَا يَمُوْتُوْنَ وَلَا يَحْيَوْنَ، وَأَمَّا نَاسٌ فَيُؤْخَذُوْنَ بِذُنُوْبِهِمْ فَيُحْرَقُوْنَ، فَيَکُوْنُوْنَ فَحْمًا، ثُمَّ يَأْذَنُ اﷲُ فِي الشَّفَاعَةِ، فَيُوْجَدُوْنَ ضِبَارَاتٍ ضِبَارَاتٍ، فَيُقْذَفُوْنَ عَلَی نَهَرٍ، فَيَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيْلِ السَّيْلِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ يَعْلَی.

12 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 25، الرقم : 11200، إسناده صحيح علی شرط مسلم، وابن حبان في الصحيح، 16 / 384، الرقم : 7379، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 406، الرقم : 11327، والحاکم في المستدرک، 4 / 627، الرقم : 8737، وأبو يعلی في المسند، 2 / 446، الرقم : 1253، وابن مندة في الإيمان، 2 / 809، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 462.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جہنم کے پل پر لوگوں کو ڈالا جائے گا جبکہ اس پر کانٹے اور نوکیلے لوہے کے ٹکڑے پڑے ہوں گے جو لوگوں کو اچکیں گے۔ فرماتے ہیں : بعض لوگ بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے، بعض ہوا کی طرح، بعض عالی نسل تیز رفتار گھوڑے کی طرح، بعض دوڑتے ہوئے، بعض چلتے ہوئے، بعض سرین کے بل گھسٹتے ہوئے اور بعض رینگتے ہوئے گزریں گے۔ اہلِ جہنم نہ اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے اور وہ لوگ جنہیں ان کے گناہوں کے سبب پکڑا جائے گا جب انہیں جلایا جائے گا تو وہ کوئلہ ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ شفاعت کا اذن دے گا تو انہیں جماعتوں کی شکل میں لا کر نہر پر ڈال دیا جائے گا۔ پس وہ (وہاں سے) ایسے تروتازہ نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ سے سرسبز وشاداب دانہ نکلتا ہے۔‘‘

اسے امام احمد، ابنِ حبان، نسائی، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

289 / 13. عَنْ جَابِرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا مُيِّزَ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ، فَدَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ. قَامَتِ الرُّسُلُ فَشَفَعُوْا، فَيَقُوْلُ : إِنْطَلِقُوْا أَوِ اذْهَبُوْا، فَمَنْ عَرَفْتُمْ فَأَخْرِجُوْهُ، فَيُخْرِجُوْنَهُمْ قَدِ امْتُحِشُوْا، فَيُلْقُوْنَهُمْ فِي نَهَرٍ أَوْ عَلَی نَهَرٍ. يُقَالُ لَه : الْحَيَاةُ. قَالَ : فَتَسْقُطُ مَحَاشُّهُمْ عَلَی حَافَةِ النَّهَرِ، وَيَخْرُجُوْنَ بِيْضًا مِثْلَ الثَّعَارِيْرِ، ثُمَّ يَشْفَعُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إِذْهَبُوْا أَوِ انْطَلِقُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ قِيْرَاطٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُمْ، قَالَ : فَيُخْرِجُوْنَ بَشَرًا، ثُمَّ يَشْفَعُوْنَ، فَيَقُوْلُ : إِذْهَبُوْا أَوِ انْطَلِقُوْا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ يْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ، ثُمَّ يَقُوْلُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ : أَنَا الْآنَ أُخْرِجُ بِعِلْمِي وَرَحْمَتِي، قَالَ : فَيُخْرِجُ أَضْعَافَ مَا أَخْرَجُوْا، وَأَضْعَافَهُ، فَيُکْتَبُ فِي رِقَابِهِمْ عُتَقَاءُ اﷲِ عزوجل، ثُمَّ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَيُسَمَّوْنَ فِيْهَا الْجَهَنَّمِيِّيْنَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ، رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

13 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 325، الرقم : 14491، وابن حبان في الصحيح، 1 / 410، الرقم : 183، وابن الجعد في المسند، 1 / 386، الرقم : 2643، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 : 452.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب جنتی اور جہنمی لوگوں میں امتیاز ہو جائے گا اور جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد رسلِ عظام کھڑے ہو کر شفاعت فرمائیں گے۔ پس (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا : جاؤ اور جس جس کو تم پہچانتے ہو اس کو جہنم سے نکال لو تو وہ ایسے لوگوں کو نکال لیں گے جو جل کر کوئلے کی طرح ہوچکے ہوں گے۔ پھر انہیں نہرِ حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر فرمایا : ان کے جلے ہوئے جسموں کو نہر کے کنارے ڈال دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ سفید ککڑیوں کی طرح سفید تروتازہ ہو کر نکلیں گے۔ اس کے بعد انبیاء دوبارہ شفاعت فرمائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا : جاؤ جس کے دل میں رتی برابر ایمان پاؤ تو اسے بھی جہنم سے نکال لو تو وہ جلدی سے نکال لیں گے۔ پھر شفاعت کریں گے تو انہیں کہا جائے گا : جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان پاؤ تو اسے بھی نکال لو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا : اب میں اپنے علم اور رحمت سے نکالتا ہوں پس اللہ تعالیٰ ان کے نکالے ہوئے افراد سے کئی گنا زیادہ لوگوں کونکال لے گا اور پھر کئی گُنا اور. ان کی گردنوں پر لکھ دیا جائے گا عتقاءُ اﷲ یعنی اللہ کے آزاد کردہ لوگ۔ پھر انہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا اور اس میں انہیں جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا۔‘‘

اسے امام احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ امام مسلم کی شرائط پر اس حدیث کی اِسناد صحیح ہے اور اس کے رِجال ثقہ ہیں۔

290 / 14. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يُحْمَلُ النَّاسُ عَلَی الصِّرَاطِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَتَقَادَعُ بِهِمْ جَنَبَةُ الصِّرَاطِ تَقَادُعَ الْفَرَاشِ فِي النَّارِ، قَالَ : فَيُنْجِي اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ. قَالَ : ثُمَّ يُؤْذَنُ لِلْمَلَا ئِکَةِ وَالنَّبِيِّيْنَ وَالشُّهَدَاءِ أَنْ يَشْفَعُوْا، فَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ، وَزَادَ عَفَّانُ مَرَّةً، فَقَالَ أَيْضًا : وَيَشْفَعُوْنَ وَيُخْرِجُوْنَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً مِنْ يْمَانٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

14 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 43، الرقم : 20440، والبزار في المسند، 9 / 123، الرقم : 3671، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 142، الرقم : 929، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 403، الرقم : 837، وقال الألباني : إسناده حسن أو متحمل للتحسين رجاله کلهم ثقات، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 359، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 470.

’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن لوگ پل صراط پر چلیں گے تو پل صراط کا کنارہ ان کو پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح اس میں گرائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ اپنی رحمت سے جسے چاہے گا نجات دے گا۔ پھر فرشتوں، نبیوں، اور شہداء کو اجازت دی جائے گی کہ وہ شفاعت کریں. پس وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے، پھر وہ شفاعت کریں گے اور (دوزخیوں) کو نکالیں گے۔ عفان نے اس میں اضافہ کیا ہے : وہ شفاعت کریں گے اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا اس کو بھی (دوزخ سے) نکال لیں گے۔‘‘

اسے امام احمد، بزار، طبرانی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس حدیث کے اشخاص صحیح حدیث کے اشخاص ہیں۔

291 / 15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنه قَالَ : أَوَّلُ شَافِعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، جِبْرَائِيْلُ رُوْحُ الْقُدُسِ، ثُمَّ إِبْرَهِيْمُ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ، ثُمَّ مُوْسٰی أَوْ عِيْسٰی. قَالَ أَبُوالزَّعْرَاءِ : لَا أَدْرِي أَيُّهُمَا، قَالَ : قَالَ : ثُمَّ يَقُوْمُ نَبِيُّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم رَابِعًا، فَلَا يَشْفَعُ أَحَدٌ بِمِثْلِ شَفَاعَتِهِ وَهُوَ وَعْدُهُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي وَعَدَهُ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَالْحَاکِمُ.

15 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 6 / 382، الرقم : 11296، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 271، الرقم : 36001، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 356، الرقم : 9761، والحاکم في المستدرک، 4 / 641، الرقم : 8772، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 330.

’’حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام پھر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام شفاعت کریں گے۔ ابو زعراء کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کون ہے، پھر فرماتے ہیں : آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : چوتھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل کوئی بھی شفاعت نہیں کرے گا اور یہی وہ اللہ کا کیا ہوا وعدہ مقام محمود ہے جو اس نے آپ سے کیا۔‘‘

اسے امام نسائی، ابنِ ابی شیبہ، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

292 / 16. عَنْ جَابِرٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَفْتَقِدُ أَهْلُ الْجَنَّةِ نَاسًا يَعْرِفُوْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، فَيَأْتُوْنَ الْأَنْبِيَاءَ فَيَذْکُرُوْنَهُمْ فَيَشْفَعُوْنَ فِيْهِمْ فَيُشَفَّعُوْنَ. فَيُقَالُ لَهُمْ : الطُّلَقَاءُ، وَکُلُّهُمْ طُلَقَاءُ، يُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.

16 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 243، الرقم : 3044، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 379، وقال : إسناده حسن، والهندي في کنزالعمال، 14 / 414، الرقم : 39116.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اہلِ جنت ان لوگوں کو جنہیں دنیا میں پہچانتے تھے جنت میں نہیں دیکھیں گے تو انبیاء کرام کے پاس آکر ان کے بارے عرض کریں گے۔ پس وہ ان کی شفاعت کریں گے تو ان کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا۔ انہیں کہا جائے گا : آزاد کردہ لوگ، اور وہ سارے آزاد ہوں گے پھر ان پر آبِ حیات انڈیلا جائے گا۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

293 / 17. عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضی اﷲ عنه (ذکر حديثاًَ طويلاً) قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يُقَالُ (أي يوم القيامة) : اُدْعُوا الصِّدِّيْقِيْنَ فَيَشْفَعُوْنَ، ثُمَّ يُقَالُ : أُدْعُوا الْأَنْبِيَائَ، فَيَجِيئُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ، وَالنَّبِيَُّ وَلَيْسَ مَعَه أَحَدٌ ثُمَّ يُقَالُ : أُدْعُوا الشُّهَدَاءَ، فَيَشْفَعُوْنَ لِمَنْ أَرَادُوْا. فَإِذَا فَعَلَتِ الشُّهَدَاءُ ذٰلِکَ قَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ : أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ، أَدْخِلُوْا جَنَّتِي مَنْ کَانَ لَا يُشْرِکُ بِي شَيْءًا. قَالَ : فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ.

قَالَ ثُمَّ يَقُوْلُ عزوجل : أُنْظُرُوْا فِي النَّارِ، هَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ أَحَدٍ عَمِلَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَجِدُوْنَ فِي النَّارِ رَجُلًا، فَيَقُولُ لَه : هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ : لَا غَيْرَ أَنِّي کُنْتُ أُسَامِحُ النَّاسَ فِي الْبَيْعِ، فَيَقُوْلُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ : أَسْمِحُوْا لِعَبْدِي کَإِسْمَاحِهِ إِلَی عَبِيْدِي. ثُمَّ يُخْرِجُوْنَ مِنَ النَّارِ رَجُلًا، فَيَقُوْلُ لَه : هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُوْلُ : لَا غَيْرَ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُ وَلَدِي إِذَا مِتُّ فَأَحْرِقُوْنِي بِالنَّارِ، ثُمَّ اطْحَنُوْنِي حَتَّی إِذَا کُنْتُ مِثْلَ الْکُحْلِ، فَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَحْرِ، فَاذْرُوْنِي فِي الرِّيْحِ، فَوَ اﷲِ لَا يَقْدِرُ عَلَيَّ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ أَبَدًا. فَقَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ : لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : مِنْ مَخَافَتِکَ، قَالَ : فَيَقُوْلُ اﷲُ : انْظُرْ إِلٰی مُلْکِ أَعْظَمَ مَلِکٍ، فَإِنَّ لَکَ مِثْلَه وَعَشَرَةَ أَمْثَالِه. قَالَ : فَيَقُوْلُ : لِمَ تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِکُ؟ قَالَ : وَذَاکَ الَّذِي ضَحِکْتُ مِنْهُ مِنَ الضُّحَی.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو يَعْلَی. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

17 : أخرجه أحمد في المسند، 1 / 4. 5، رقم : 15، إسناده حسن، وابن حبان في الصحيح، 14 / 393. 395، الرقم : 6476، وأبو يعلی في المسند، 1 / 44. 45، الرقم : 52، والبزار في المسند، 1 / 149. 151، الرقم : 76، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 375.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (طویل حدیثِ مبارکہ ذکر کی جس میں چاشت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبسم فرمانے کی وجہ پوچھی گئی تھی) فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قیامت کے احوال ذکر کرتے ہوئے) فرمایا : کہا جائے گا : صدیقین کو بلاؤ تو وہ شفاعت کریں گے۔ پھر کہا جائے گا : انبیاء کو بلاؤ تو کوئی نبی ایسے آئے گا کہ ان کے ساتھ (اپنے امتیوں کی) ایک جماعت ہوگی، کسی نبی کے ساتھ پانچ چھ افراد ہوں گے اور ایسے نبی بھی ہوں گے جن کے ساتھ ایک بھی امتی نہیں ہوگا۔ پھر کہا جائے گا : شہداء کوبلاؤ پس وہ جس کی چاہیں گے شفاعت کریں گے۔ جب شہداء شفاعت کر لیں گے تو اللہ رب العزت فرمائے گا : میں ارحم الراحمین ہوں میری جنت میں ہر وہ شحص داخل ہو جائے جس نے میرے ساتھ کسی قسم کا کوئی شرک نہ کیا ہو. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جہنم میں دیکھو کیا تم کسی ایسے شخص کو پاتے ہو جس نے کبھی کوئی نیک عمل کیا ہو؟ پس وہ جہنم میںایک شخص کوپا لیں گے تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : کیا تو نے کبھی کوئی نیک عمل کیا؟ وہ کہے گا : نہیں! سوائے یہ کہ میں لوگوں کے ساتھ بیع (خرید و فروخت میں) نرمی کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے بندے کے ساتھ اس طرح نرمی کرو جس طرح یہ میرے بندوں کے ساتھ نرمی کیا کرتا تھا۔ پھر وہ دوزخ سے ایک اور آدمی کو نکالیں گے تو وہ اس سے پوچھے گا : کیا تو نے زندگی میں کوئی عملِ خیر کیا تھا؟ وہ کہے گا : نہیں سوائے اس کے کہ میں نے اپنے بیٹے کو حکماً وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر سرمہ کی طرح پیس لینا اور سمندر کے پاس لے جاکر مجھے تیز ہوا میں اڑا دینا، خدا کی قسم! اللہ رب العالمین مجھے کبھی بھی سزا نہیں دے سکے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا تھا؟ وہ کہے گا : تیرے خوف کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرمائے گا : سب سے بڑے بادشاہ کے ملک کو دیکھو، تیرے لئے اس کے برابر اور مزید اس طرح کے دس اور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو وہ عرض کرے گا : یا اللہ تو میرے ساتھ مذاق کیوں کر رہا ہے حالانکہ تو بادشاہ کائنات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے میں بوقتِ چاشت مسکرایا۔‘‘

اسے امام احمد بن حنبل، ابنِ حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رجال ثقہ ہیں۔

294 / 18. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ قَوْمٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، قَدْ عُذِّبُوْا فِي النَّارِ بِرَحْمَةِ اﷲِ وَشَفَاعَةِ الشَّافِعِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

18 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 214، الرقم : 10509، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 379.

’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی ایک قوم جنہیں دوزخ میں عذاب دیا گیا ہوگا اللہ کی رحمت اور شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے ضرور جنت میں داخل ہو گی۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

295 / 19. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ لَيْسَ بِنَبِيٍّ، مِثْلُ الْحَيَيْنِ أَوْ مِثْلُ أَحَدِ الْحَيَيْنِ : رَبِيْعَةَ وَمُضَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أَوَمَا رَبِيْعَةُ مِنْ مُضَرَ؟ فَقَالَ : إِنَّمَا أَقُوْلُ مَا أُقَوَّلُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُ أَحْمَدَ وَأَحَدُ أَسَانِيْدِ الطَّبَرَانِيِّ رِجَالُهُمْ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَيْسَرَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ.

19 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 257، الرقم : 22215، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 143، الرقم : 7638، وأيضاً في مسند الشاميين، 2 / 147، الرقم : 1079، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 381، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 248.

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ایک شخص جو کہ نبی نہیں ہوگا، کی شفاعت کے سبب دو قبیلوں ربیعہ اور مضر یا ان دونوں میں سے ایک کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ! کیا ربیعہ مضر کی طرح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں وہی کہتا ہوں جس کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔‘‘

اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : امام احمد کے رجال اور طبرانی کی اسانید میں سے ایک کے رجال صحیح حدیث کے (بلند درجہ) رجال ہیں سوائے عبد الرحمان بن میسرہ کے، وہ ثقہ ہے۔

296 / 20. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ مُضَرَ، وَيَشْفَعُ الرَّجُلُ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ، وَيَشْفَعُ عَلٰی قَدْرِ عَمَلِهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ أَبِي غَالِبٍ وَقَدْ وَثَّقَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ وَفِيْهِ ضُعْفٌ.

20 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 275، الرقم : 8059، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 382.

’’حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے ایک امتی کی شفاعت کے سبب سے قبیلہ مضر کی تعداد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، ایک شخص اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے گا اور کوئی اپنے عمل کے حسبِ حال شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے ابو غالب کے اسے کئی محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن اس میں تھوڑا سا ضعف ہے۔

297 / 21. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أُمَّتِي لَيَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِهِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَشْفَعُ لِلْقَبِيْلَةِ مِنَ النَّاسِ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِهِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَشْفَعُ لِلرَّجُلِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ فَيَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

21 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 63، الرقم : 11605.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا ایک امتی ایک گروہ کی شفاعت کرے گا تو وہ اس کی شفاعت کے سبب سے جنت میں داخل ہوں گے، ایک شخص کسی قبیلہ کی شفاعت کرے گا تو وہ اس کی شفاعت کے سبب سے جنت میں داخل ہوں گے، ایک شخص کسی دوسرے شخص اور اس کے گھر والوں کی شفاعت کرے گا تو وہ اس کی شفاعت کے سبب سے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

298 / 22. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيَتَحَمَّدَنَّ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی أُنَاسٍ مَا عَمِلُوْا مِنْ خَيْرٍ قَطُّ. فَيُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ بَعْدَ مَا احْتَرَقُوْا فَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ بَعْدَ شَفَاعَةِ مَنْ يَشْفَعُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ.

22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 400، الرقم : 9201، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 346، الرقم : 5506، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 383.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں پر ان کے بارے احسان جتائے گا جنہوں نے (دنیا میں) کبھی کوئی بھلائی کی ہوگی۔ پس وہ لوگوں کو جہنم میں جلنے کے بعد شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے سبب اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘

اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

299 / 23. عَنْ عُثْمَانَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَوَّلُ مَنْ يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الشُّهَدَاءُ، ثُمَّ الْمُؤَذِّنُوْنَ. رَوَاهُ البَزَّارُ.

23 : أخرجه البزار في المسند، 2 / 27، الرقم : 372، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 381، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 465.

’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے یہ لوگ شفاعت کریں گے : انبیاء کرام، شہداء اور مؤذن۔‘‘

اسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔

300 / 24. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِيْنَ هُمْ أَهْلُهَا لَا يَمُوْتُوْنَ وَلَا يَحْيَوْنَ وَأَمَّا أُنَاسٌ يُرِيْدُ اﷲُ بِهِمُ الرَّحْمَةَ فَيُمِيْتُهُمْ فِي النَّارِ. فَيَدْخُلُ عَلَيْهِمُ الشُّفَعَاءُ، فَيْخُذُ الرَّجُلُ أَنْصَارَه. فَيَبُثُّهُمْ أَوْ قَالَ فَيَنْبُتُوْنَ عَلَی نَهَرِ الْحَيَاةِ، أَوْ قَالَ : الْحَيَوانِ، أَوْ قَالَ : الْحَيَاةِ، أَو قَالَ : نَهَرِ الْجَنَّةِ، فَيَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ فِي حَمِيْلِ السَّيْلِ، قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرَوْنَ الشَّجَرَةَ تَکُوْنُ خَضْرَاءَ ثُمَّ تَکُوْنُ صَفْرَاءَ، أَوْ قَالَ : تَکُوْنُ صَفْرَاءَ ثُمَّ تَکُوْنُ خَضْرَاءَ؟ قَالَ : فَقَالَ بَعْضُهُمْ : کَأَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ بِالْبَادِيَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

24 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11016، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 274، الرقم : 865.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اہلِ جہنم میں سے جو اس کے مستحق ہوں گے وہ نہ اس میں مریں گے اور نہ جئیں گے اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے گا ان کو جہنم میں موت دیدے گا۔ جب شفاعت کرنے والے ان کے پاس جائیں گے تو انسان اپنے مدد گاروں کو بلائے گا۔ پس وہ ان کو بکھیر دے گا یا فرمایا : وہ جنت کی نہرِ حیات میں (نہا کر) اُگیں گے، پس وہ (اس میں سے) ایسے نکلیں گے جیسے سیلابی جگہ سے سر سبز دانہ نکلتا ہے۔ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم درخت کو نہیں دیکھتے کہ سبز ہوتا ہے پھر زرد ہوتا ہے، یا فرمایا : زرد ہوتا ہے پھر سبز ہوتا ہے؟ ان میں سے بعض نے کہا : گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دیہات میں رہ رہے ہیں۔‘‘

اسے امام احمد اور عبد بن حميد نے روایت کیا ہے۔ امام مسلم کی شرط پر اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

301 / 25. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُشْرِفُ عَلَی أَهْلِ النَّارِ فَيُنَادِيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ : يَا فُلَانُ! أَمَا تَعْرِفُنِي؟ قَالَ : وَاﷲِ مَا أَعْرِفُکَ، مَنْ أَنْتَ وَيْحَکَ؟ قَالَ : أَنَا الَّذِي مَرَرْتَ بِي فِي الدُّنْيَا فَاسْتَسْقَيْتَنِي شَرْبَةَ مَاءٍ فَسَقَيْتُکَ، فَاشْفَعْ لِي بِهَا عِنْدَ رَبِّکَ. قَالَ : فَدَخَلَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلَی اﷲِ فِي زُوَّرِهِ، فَقَالَ : يَا رَبِّ! إِنِّي أَشْرَفْتُ عَلٰی أَهْلِ النَّارِ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَنَادٰی : يَا فُلَانُ! أَمَا تَعْرِفُنِي؟ فَقُلْتُ : لَا وَاﷲِ مَا أَعْرِفُکَ، وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : أَنَا الَّذِي مَرَرْتَ بِي فِي الدُّنْيَا فَاسْتَسْقَيْتَنِي فَسَقَيْتُکَ، فَاشْفَعْ لِي بِهَا عِنْدَ رَبِّکَ، يَا رَبِّ! فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، قَالَ : فَيُشَفِّعُهُ اﷲُ فِيْهِ. وَأَخْرَجَهُ مِنَ النَّارِ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالْمُنْذَرِيُّ وَغَيْرُهُمْ.

25 : أخرجه أبويعلی في المسند، 6 / 210، الرقم : 3490، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 39، الرقم : 1415، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 382، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 471.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہلِ جنت میں سے ایک شخص دوزخیوں پر جھانکے گا تو اہلِ جہنم میں سے ایک شخص اسے کہے گا : اے فلاں! کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا : اللہ کی قسم! میں تجھے نہیں پہچانتا، تمہارا بھلا ہو توکون ہے؟ وہ کہے گا : میں وہی ہوں دنیا میں تو میرے پاس گزرا تو تُو نے مجھ سے پانی مانگا تھا اور میں نے تجھے پانی پلایا تھا۔ (اس صلے میں) اپنے رب کے ہاں میرے لئے شفاعت کرو۔ راوی فرماتے ہیں : وہ شخص اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے والوں میں جا کر عرض کرے گا : یا رب! میں جہنم والوں کے پاس گیا تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے بلا کر کہا : اے فلاں! کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ میں نے کہا : نہیں اللہ کی قسم! میں تجھے نہیں پہچانتا تُو کون ہے؟ اس نے کہا : میں وہی ہوں تو نے دنیا میں میرے پاس سے گزرنے پر مجھ سے پانی مانگا تھا سو میں نے تجھے پانی پلایا تھا۔ پس اپنے رب کے ہاں میرے لئے شفاعت کرو. اے میرے رب! تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اس کی شفاعت قبول فرمائے گا اور اسے دوزخ سے نکالے گا۔‘‘

اسے امام ابو یعلی، منذری اور دیگر ائمہ نے روایت کیا ہے۔

302 / 26. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : سَلَکَ رَجُلَانِ مَفَازَةً، أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ بِهِ رَهَقٌ، فَعَطِشَ الْعَابِدُ حَتّٰی سَقَطَ. فَجَعَلَ صَاحِبُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَمَعَهُ مِيْضَأَةٌ فِيْهَا شَيْيئٌ مِنْ مَاءٍ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَهُوَ صَرِيْعٌ. فَقَالَ : وَاﷲِ! لَإِنْ مَاتَ هٰذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ عَطَشًا وَمَعِيَ مَاءٌ، لَا أُصِيْبُ مِنَ اﷲِ خَيْرًا أَبَدًا. وَإِنْ سَقَيْتُهُ مَائِي لَأَمُوْتَنَّ فَتَوَکَّلَ عَلَی اﷲِ عزوجل، وَعَزَمَ وَرَشَّ عَلَيْهِ مِنْ مَائِهِ وَسَقَاهُ مِنْ فَضْلِهِ. قَالَ : فَقَامَ حَتّٰی قَطَعَا الْمَفَازَةَ.

قَالَ : فَيُوْقَفُ الَّذِي بِهِ رَهَقٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِلْحِسَابِ، فَيُؤْمَرُ بِهِ إِلَی النَّارِ، فَتَسُوْقُهُ الْمَلَا ئِکَةُ، فَيَرَی الْعَابِدَ، فَيَقُوْلُ : يَا فُلَانُ! أَمَا تَعْرِفُنِي؟ قَالَ : يَقُوْلُ : مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : أَنَا فُلَانٌ الَّذِي آثَرْتُکَ عَلٰی نَفْسِي يَوْمَ الْمَفَازَةِ. قَالَ : يَقُوْلُ : بَلٰی، أَعْرِفُکَ، قَالَ : فَيَقُوْلُ لِلْمَلَا ئِکَةِ : قِفُوْا، قَالَ : فَيُوْقَفُ وَيَجِيئُ حَتّٰی يَقِفَ وَيَدْعُوَ رَبَّهُ يَقُوْلُ : يَا رَبِّ! قَدْ تَعْرِفُ يَدَهُ عِنْدِي، وَکَيْفَ آثَرَنِي عَلٰی نَفْسِهِ؟ يَا رَبِّ! هَبْهُ لِي. فَيَقُوْلُ : هُوَ لَکَ. قَالَ : وَيَجِيئُ فَيَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ. قَالَ الصَّلْتُ : قَالَ جَعْفَرُ : قُلْتُ : حَدَّثَکَ أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : نَعَمْ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ أَبِي ظِلَالٍ الْقَسْمَلِيِّ، وَقَدْ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَغَيْرُهُ وَضَعَّفَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ.

26 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 7 / 215، الرقم : 4212، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 194، الرقم : 2906، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 38، الرقم : 1414، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 132، 10 / 382.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو شخص کسی بیابان میں سے گزرے جن میں سے ایک عبادت گزار تھا اور دوسرا گناہ گار تھا۔ راستے میں عبادت گزار کو اتنی پیاس لگی کہ وہ وہیں گر گیا۔ اس کا ساتھی اس کی طرف دیکھنے لگا اور اس کے پاس برتن میں کچھ پانی تھا۔ اس نے اپنے پیاس سے چلّاتے ہوئے ساتھی کو دیکھ کر کہا : اللہ رب العزت کی قسم! اگر یہ صالح بندہ میرے پاس پانی ہونے کے باوجود پیاسا فوت ہو گیا تو میں اللہ کی طرف سے کبھی بھی بھلائی نہیں پا سکوں گا اور اگر میں نے اسے اپنا پانی پلایا تو ضرور میں مر جاؤں گا۔ اس نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پختہ ارادہ کر کے اس پر اپنے پانی سے چھینٹے مارے اور باقی بچا ہوا پانی اسے پلا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ عابد اٹھ کھڑا ہوا یہاں تک کہ دونوں نے صحرا عبور کر ليا۔

’’فرمایا : قیامت کے دن اس گنہگار کو حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو اسے جہنم میں بھیجنے کا حکم دیدیا جائے گا۔ فرشتے اس کو لے کر جارہے ہوں گے تو وہ اسی عبادت گزار شخص کو دیکھ کر کہے گا : اے فلاں! کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وہ پوچھے گا : تُو کون ہے؟ وہ کہے گا : میں وہی فلاں شخص ہوں جس نے بیابان میں اپنی جان پر تجھے ترجیح دی۔ وہ کہے گا : کیوں نہیں! میں تجھے پہچانتا ہوں۔ فرمایا : وہ فرشتوں سے کہے گا : رک جاؤ، تو اسے روک دیا جائے گا۔ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرے گا : اے میرے رب! تو میری نسبت اس کا حال پہچانتا ہے کہ کیسے اس نے اپنی جان پر مجھے ترجیح دی؟ یا رب! تو اسے میرے اختیار میں دیدے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : وہ تیرے اختیار میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص آئے گا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں لے جائے گا۔‘‘ صلت راوی کہتے ہیں کہ میں نے جعفر سے کہا : کیا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسے روایت کیا؟ انہوں نے فرمایا : ہاں۔‘‘

اسے امام ابویعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے ابو ظلال القسملی کے اسے ابنِ حبان اور دیگر نے ثقہ قرار دیا ہے جبکہ بعض نے ضعیف شمار کیا ہے۔

303 / 27. عَنْ عَطِيَةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ : قَامَ کَعْبٌ فَأَخَذَ بِحُجْزَةِ الْعَبَّاسِ رضی اﷲ عنه، وَقَالَ : ادَّخِرْهَا عِنْدَکَ لِلشَّفَاعَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ الْعَبَّاسُ : وَلِي الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ : نَعَمْ! إِنَّه لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيٍّ يُسْلِمُ إِلَّا کَانَتْ لَه شَفَاعَةٌ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو نُعَيْمٍ الْأَصْبَهَانِيُّ.

27 : أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 944، الرقم : 1824، والأصبهاني في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 / 42.

’’عطیہ عوفی سے روایت ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا دامن پکڑ کر کہا : آپ قیامت کے دن شفاعت کے لئے اس کو اپنے پاس محفوظ رکھیں؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے لئے شفاعت ہوگی؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت میں سے جس کسی نے بھی اسلام قبول کیا ہے اس کے لئے شفاعت ہو گی۔‘‘

اسے امام احمد اور ابو نعیم اصبہانی نے روایت کیا ہے۔

304 / 28. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَمَعَ اﷲُ أَهْلَ الْجَنَّةِ صُفُوْفاً، فَإِذَا أَهْلُ النَّارِ صُفُوْفاً فَيَنْظُرُ الرَّجُلُ مِنْ صُفُوْفِ أَهْلِ النَّارِ إِلَی الرَّجُلِ مِنْ صُفُوْفِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُوْلُ لَهُ : يَا فُلَانُ! أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ اصْطَنَعْتُ إِلَيْکَ فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفاً؟ قَالَ : فَيَقُوْلُ : أَللّٰهُمَّ إِنَّ هٰذَا اصْطَنَعَ لِي فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفاً، فَيُقَالُ لَهُ : خُذْ بِيَدِهِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اﷲِ. قَالَ أَنَسٌ : أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُهُ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ.

28 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 6 / 125، الرقم : 7687، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 332، الرقم : 2152، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 471.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اہلِ جنت کی صفیں بنائے گا تو دوزخیوں کی بھی صفیں بنی ہوں گی۔ پس اہلِ جہنم کی صفوں میں سے ایک شخص اہلِ جنت کی صفوں میں ایک شخص کو دیکھ کر کہے گا : اے فلاں! تُو یاد کر ایک دن میں نے دنیا میں تیرے ساتھ نیکی کی تھی؟ فرماتے ہیں : وہ عرض کرے گا : یا اللہ! واقعی اس نے دنیا میں میرے ساتھ نیکی کی تھی۔ اسے کہا جائے گا : اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل کر دو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔‘‘

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

305 / 29. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْثِرُوْا مِنَ الْمَعَارِفِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ، فَإِنَّ لِکُلِّ مُؤْمِنٍ شَفَاعَةً عِنْدَ اﷲِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

29 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 81، الرقم : 251، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 138، الرقم : 352.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مؤمنین سے اچھی طرح جان پہچان رکھو کیونکہ ہر مؤمن قیامت کے دن اللہ کے ہاں شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

306 / 30. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : يَقُوْلُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : يُقَالُ لِلرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : قُمْ فَاشْفَعْ، فَيَشْفَعُ لِقَبِيْلَتِهِ. فَيُقَالُ لِلْآخَرِ : قُمْ فَاشْفَعْ، فَيَشْفَعُ لِأَهْلِ الْبَيْتِ. فَيُقَالُ لِلْآخَرِ : قُمْ فَاشْفَعْ، فَيَشْفَعُ لِلرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ عَلٰی قَدْرِ عَمَلِهِ. رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْأَصْبَهَانِيُّ.

30 : أخرجه الأصبهاني في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 7 / 105، وابن کثير في نهاية البداية والنهاية، 10 / 468وأخرج ابن کثیر في نهاية البداية والنهاية، 10 / 467، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَقُوْلُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْجَّنَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَارَبِّ! إِنَّ فُ. لَا نًا سَقَانِي شَرْبَةً مِنْ مَائٍ فِي الدُّنْيَا، فَشَفِّعْنِي فِيْهِ. فَيَقُوْلُ اﷲُ : إِذْهَبْ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَيَذْهَبُ فَيَتَحَسَّسُِفی النَّارِ حَتَّی يُخْرِجَه مِنْهَا.

’’حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : قیامت کے دن کسی شخص کو کہا جائے گا : اٹھ کر شفاعت کرو تو وہ اپنے قبیلہ کی شفاعت کرے گا۔ کسی دوسرے سے کہا جائے گا : اٹھ کر شفاعت کرو تو وہ اپنے گھر والوں کی شفاعت کرے گا۔ پھر کسی اور سے کہا جائے گا : اٹھ کر شفاعت کرو تو وہ اپنے عمل کے موافق ایک یا دو اشخاص کی شفاعت کرے گا۔‘‘

اسے امام ابو نعیم اصبہانی نے روایت کیا ہے۔

307 / 31. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرَّجُلَ لَيَشْفَعُ لِلرَّجُلَيْنِ وَالثَلَاثَةِ.

رَوَاهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ، وَقَالَا : رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

31 : أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 241، الرقم : 5514، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 382، والهندي في کنز العمال، 14 / 408، الرقم : 39097، والطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 29 / 167.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص دو یا تین آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔‘‘

اس امام منذری اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : اسے امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

308 / 32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيَدْخُلَنَّ بِشَفَاعَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا کُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمُنَاوِيُّ.

وَفِي رِوَيَةٍ أُخْرَی لابْنِ عَسَاکِرَ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيَشْفَعَنَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِي قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ حَتَّی يُدْخِلَهُمُ اﷲُ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.

32 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 39 / 122، 123، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 360، الرقم : 7034، والمناوي في فيض القدير، 5 / 352.

’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) کی شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار وہ لوگ جنت میں جائیں گے جن پر دوزخ لازم ہو چکی ہوگی۔‘‘

اسے امام ابنِ عساکر اور مناوی نے روایت کیا ہے۔

’’ابنِ عساکر کی دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ قیامت کے روز) لازماً میری امت کے ان ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا جن پر دوزخ لازم ہو چکی ہوگی تو اﷲ تعالیٰ انہیں (اس کی شفاعت کے سبب) جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘

اسے امام ابنِ عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

309 / 33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : الشُّفَعَاءُ خَمْسَةٌ : الْقُرْآنُ، وَالرَّحِمُ، وَالْأَمَانَةُ، وَنَبِيُّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَهْلُ بَيْتِهِ.

رَوَاهُ الْهِنْدِيُّ.

33 : أخرجه الهندي في کنز العمال، 14 / 390، الرقم : 39041.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن پانچ شفاعت کریں گے : قرآن، رشتہ، امانت، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہلِ بیت۔‘‘

اِسے امام علاؤ الدین ہندی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved