جواب: عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 7: 162
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا۔ جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا۔ اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔
ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 4: 229
جواب: رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘
القدر، 97: 3
رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2: 709، رقم: 1910
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1: 22، رقم: 37
جواب: حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہِ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہِ رمضان کا استقبال فرماتے۔
مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟
’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ فِی اَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ اَهْلِ الْقِبْلَةِ.
’’بے شک اﷲ تعالیٰ ماہِ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘
منذری، الترغيب والترهيب، 2: 64، رقم: 1502
اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ.
’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور (بالخصوص) ماہِ رمضان کو بابرکت بنا دے۔‘‘
ابو نعيم، حلية الأولياء، 6: 269
عَنْ اسَامَهَ بْنِ زَيْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الاَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَاحِبُّ اَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَاَنَا صَائِمٌ.
’’حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اوررمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔‘‘
اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا۔
نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث ابي سلمه في ذلک، 4: 150، رقم: 2175
ماہِ شعبان ماہِ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم۔ علامہ ابن رجب حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’لطائف المعارف (ص: 258)‘ میں لکھتے ہیں:
’’ماہِ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہِ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ اکبُّوا علی المصاحِفِ فقرووها، واَخْرَجُوْا زَکَاهَ اموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ.
’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہِ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔‘‘
ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258
جواب: رمضان المبارک کے ماہِ سعید میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے اﷲ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إذَا دَخَلَ رَمَضَانَ لَغَيَرَ لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِي الدُّعَائِ، وَاَشْفَقَ مِنْهُ.
’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 3: 310، رقم: 3625
رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَةً.
’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه…، 2: 770، رقم: 1095
ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فصل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1096
رمضان المبارک میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکرِ الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:
’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب الصيام، باب ذکر اختلاف يحيی بن ابي کثير والنضر بن شيبان فيه، 4: 158، رقم: 2208-2210
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:
فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ (رَسُوْلُ اﷲِ) اَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.
’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘
حضرت جبریل اﷲ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب اجود ما کان النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم يکون فی رمضان، 2: 672-673، رقم: 1803
امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاً
نووی، شرح صحیح مسلم، 15: 69
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے:
اَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اﷲُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الا واخر والإعتکاف في المساجد کلها، 2: 713، رقم: 1922
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الاوسط من رمضان، 2: 719، ر قم: 1939
جواب: رمضان المبارک میں عمرہ ادا کرنا ثواب میں حج کرنے کے برابر ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انصاری خاتون سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تو نے ہمارے ساتھ حج نہیں کیا؟ اس (عورت) نے کہا: ہمارے پاس ایک پانی بھرنے والا اونٹ تھا۔ اس پر ابو فلاں اور اس کا لڑکا یعنی اس کا شوہر اور بیٹا سوار ہوکر حج کے لئے روانہ ہو گئے اور اپنے پیچھے ایک آب کش اونٹ (خاندان کی ضرورت کے لئے) چھوڑ گئے (اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں)۔ یہ سن کر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب العمرة، باب عمرة فی رمضان، 2: 631، رقم: 1690
جواب: عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک نفس کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کی سرکشی، دوسرا شیطان کا مکر و فریب۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دین حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے: اے طالبِ خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اﷲ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہِ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 61، رقم: 682
رمضان المبارک میں شیطانوں کا جکڑ دیا جانا اس امر سے کنایہ ہے۔ کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہل ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے۔ غضب اور شہوت ہی بڑے بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے، جیسا کہ مشاہدہ میں ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔
شیطانوں کو جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں اس طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں اور بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان سرکشی اور طغیانی کی شوکت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا بھی جانتا ہے کہ وہ کیا گل کھلاتا؟
جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صفه إبليس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اور جہنم کے دروازں کا بند ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایسے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جو جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے بچنے کا باعث ہیں۔ ماہِ رمضان میں باقی مہینوں کی نسبت اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم اور خیرات و برکات کثرت سے تقسیم ہوتی ہیں۔ پس روزہ دار گناہ کبائر سے بچتا ہے اور روزے کی برکت سے اس کے صغیرہ گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ جس کے سبب وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
حجۃ اﷲ البالغۃ میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اہل ایمان کے لئے فضل ہے ورنہ کفار و مشرکین تو ان دنوں میں گمراہی و ضلالت میں پہلے سے زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ شعائر اﷲ کی ہتک کرتے ہیں۔ اہل ایمان چونکہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی کثرت کرتے ہیں اور برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔
شاه ولی اﷲ، حجة اﷲ البالغة، 2: 88
اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔
اور جنت کے دروازوں کے کھولے جانے کا فائدہ یہ ہے کہ ملائکہ روزہ داروں کے عمل کو اچھا جان کر ان کے لئے جنت تیار کرتے ہیں اور یہ اﷲ رب العزت کی طرف سے روزہ داروں کی بڑی عزت افزائی ہے۔
جواب: حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔
أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اﷲُ تَعالی إِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اﷲُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.
’’پہلا یہ کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اﷲ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘
وَأَمَّا الثَّانِيَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.
’’دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَهَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.
’’تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اﷲَ يَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَيَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّي وَتَزَيَنِي لِعِبَادِي أَوْشَکُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَی دَارِي وَکَرَامَتِي.
’’چوتھا یہ کہ اﷲ ل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندوں کے لئے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘
وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.
’’پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ‘‘
فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ يَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟
’’ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘
جواب: رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اس طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ کئی صاحب ثروت ایسے ہیں جو روزہ ٹھنڈے دفاتر، ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور نوع بنوع مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں میں بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کو افطاری کے وقت کھانے کے لئے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو لہٰذا رمضان المبارک ہمیں اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش، تنگ دست مسلمان بھائی جن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ لباس و طعام خرید کر اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھانپ سکیں اور ان کا پیٹ پال سکیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہِ رمضان ہمیں ریاکاری، غیبت، عیب جوئی، مکر و فریب، بغض و حسد اور جھوٹ جیسے بے شمار معاشرتی و روحانی امراض سے بچانے کی تربیت بھی کرتا ہے۔
جواب: رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قراتِ قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ انْ يَامُرَهُمْ بِعَزِيْمَةٍ، و يَقُوْلُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبہ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب الترغيب في قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 2: 161، رقم: 808
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیامِ رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ ندا دیتا ہے۔
هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاعْطِيَهُ سُؤْلَهُ، هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبَ عَلَيْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ؟
’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
بيهقی، شعب الإيمان، 3: 335، رقم: 3695
رحمتِ پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومئ قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خواب غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
یوں بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے۔ اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔
جواب: قرآن حکیم وہ واحد کتاب ہے جس کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں:
مَنْ قَرَاَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اﷲِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا. لَا اَقُولُ: الم حَرْفٌ، وَلَکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ.
’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘
ترمذی، السنن، ابواب فضائل القرآن، باب ما جاء فیمن قرا حرْفاً من القرآن، 5: 33، رقم: 2910
تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
افْضَلُ عِبَادَةِ اُمَّتِيْ قراء ةُ الْقُرْآن.
’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 2: 354، رقم: 2022
یہ عظیم کتاب جس کی تلاوت کی بے پناہ فضیلت ہے رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا گویا اس تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتاہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور جبرئیل امین علیہ السلام کو سناتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے:
کَانَ يَلْقَاهُ فِی کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ.
’’حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دور کرتے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحی الی الرسول اﷲ، 1: 7، رقم: 6
مزید برآں روزِ قیامت تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے معانی سمجھنے والوں کی شفاعت خود قرآن حکیم فرمائے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6626
جواب: رمضان المبارک میں سحری کھانے کی فضیلت اور اس کے فیوض و برکات کا بکثرت تذکرہ ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرماتے اور دوسروں کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرماتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:
تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَةً.
’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 770، رقم: 1095
اَلسُّحُوْرُ أَکْلُهُ بَرَکَةٌ فَـلَا تَدْعُوْهُ.
’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 3: 12، رقم: 11102
فَإِنَّ اﷲَ وَ مَلاَئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَأ الْمُتَسَحِّريْنَ.
’’اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 3: 12، رقم: 11102
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ، أَکْلَةُ السَّحَرِ.
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1096
وَهُوَ يَدْعُوْا إِلَی السُّحُوْرِ فِی شَهْرِ رَمَضَانْ، فَقَالَ: هَلُمُّوْاإِلَی الْغَدَائِ الْمُبَارَکِ.
’’آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں سحری کے لئے بلاتے اور ارشاد فرماتے: صبح کے مبارک کھانے کے لئے آؤ۔‘‘
روزے میں سحری کو بلاشبہ اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔
جواب: رمضان المبارک میں افطاری کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ.
’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1098
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا.
’’میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔‘‘
ابن حبان، الصحيح، 4:558، رقم: 1670
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کو تین چیزیں پسند ہیں:
گویا معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں بروقت روزہ افطار کرنا نہ صرف بے شمار فضائل و روحانی فیوض و برکات کا حامل ہے بلکہ اس وقت کی فضیلت یہ بھی ہے۔
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب: فی الصائم لاتردُّ دعوته، 2: 364، رقم: 1753
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص ث سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا کو رد نہیں کیا جاتا۔‘‘
Copyrights © 2021 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved