جواب: جی ہاں! عید کی نماز کے لئے جماعت شرط ہے۔ نمازِ عید کی جماعت ایک شخص کے شریک ہونے سے بھی ہو جاتی ہے۔
جواب: عید الفطر کا خطبہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ امام عید کی نماز کے سلام کے بعد بغیر دعا مانگے منبر کے پہلے درجہ پر کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف منہ کر کے خطبہ پڑھنا شروع کرے۔ آہستہ آواز میں پہلے تعوذ اور پھر تسمیہ پڑھ کر نو (9) دفعہ اَﷲُ اَکْبَرُ کہے یا تین دفعہ تکبیرِ تشریق (اَﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ وَ ِﷲِ الْحَمْد) پڑھے پھر اَلْحَمْدُ ِﷲِ سے خطبہ شروع کر دے۔
پہلا خطبہ ختم کرنے کے بعد تین تسبیحات یا تین آیات کی مقدار خاموش ہو کر منبر پر بیٹھ جائے۔ پھر اس کے بعد کھڑے ہو کرسات دفعہ اَﷲُ اَکْبَرُ یا دو دفعہ تکبیر تشریق پڑھ کر دوسرا خطبہ شروع کرے۔
جواب: اگر کوئی شخص عید کی نماز امام کے پیچھے نہ پڑھ سکے یا کسی وجہ سے اس کی عید کی نماز فاسد ہو جائے تو شرعًا اس کی قضا کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، نہ وقت کے اندر نہ اس کے بعد۔
ہاں اگر وہ شخص چاہے تو نمازِ چاشت کی چار رکعتیں بغیر اضافی تکبیرات کے پڑھ لے۔ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورۃ الاعلی اور دوسری رکعت میں سورۃ الضحٰی، تیسری میں سورۃ الانشراح اور چوتھی میں سورۃ التین پڑھی جائے۔
جواب: اگر عید جمعہ کے دن آ جائے تو دونوں نمازیں اپنے اپنے مقررہ اوقات پر حسبِ معمول ادا کی جائیں گی۔ رحمتیں اور برکتیں دوگنا ہو جائیں گی۔
إِنَّ النَّبِی صلیٰ الله عليه وآله وسلم اجْتَمَعَ فِی زَمَانَه يَوْمٍ جُمْعَةِ وَ يَوْمَ فطر، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ يُوْم، قد اجْتَمَعَ فِيُهِ عَيُدَانِ، فَمَنْ اَحَبَّ فَلْيَنْقَلِبْ وَمَنْ اَحَبَّ اَنْ يَنْتَظِرَ فَلْيَنْتَظِرْ.
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ اور عید الفطر ایک دن میں جمع ہوگئے توآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: آج ایک دن میں دو عیدیں جمع ہوگئیں، جو گھر واپس جانا چاہے چلا جائے اور جو نماز جمعہ کا انتظار کرنا چاہے، وہ انتظار کرے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 3: 304، رقم: 5729
فمن کان من اهل العوالی فاحب ان يمکث حتی يشهد الجمعة فليفعل، ومن احب ان ينصرف فقد اذنا له.
’’پس جو مضافات کا باشندہ ہے اور نماز جمعہ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو شامل ہو جائے اور جو گھر کو لوٹنا چاہے تو اسے بھی اجازت دے دی گئی ہے۔‘‘
عبد الرزاق، المصنف، 3: 305، رقم: 5732
کان رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقرا في الجمعة والعيد بِـ : {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی} وَ {هَلْ اَتَاکَ حَدِيُثُ الْغَاشِيَةِ} فَإِذَا اجْتَمَع الجمعة وَ العيدان في يوم قرا بهما.
’’رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ و نماز عید میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی (سورۃ الاعلی) اور هَلْ اَتَاکَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ (سورۃ الغاشیہ) پڑھا کرتے تھے۔ جب ایک دن میں جمعہ و عیدین جمع ہو جائے تو (بھی) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی دو سورتیں پڑھتے تھے۔‘‘
نسائی، السنن الکبری، 1: 547، رقم: 1775
اَشَهِدْتَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عِيُدَيُنِ؟ قَالَ: نَعَمْ، صَلَّی الْعِيُدَ مِنْ اَوَّلِ النَّهَارِ ثُمَّ رَخَّصَ فِی الْجُمعَه.
’’کیا آپ نے دو عیدیں (یعنی جمعہ اور عید اکٹھی) حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پڑھی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دن چڑھے نمازِ عید پڑھائی پھر نماز جمعہ میں رخصت عطا فرما دی۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في التخلف عن الجمعة لمن شهد العيد، 3: 194، رقم: 1591
يشهدهما جميعًا ولا يترک واحدا منهما، والاولی منهما سنة والاخری فريضة.
’’دونوں میں حاضری ہوگی اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، کیونکہ پہلی سنت (واجب) ہے دوسری فرض۔‘‘
ابن نجيم، البحرالرائق، 2: 70
عيدان اجتمعا في يوم واحد، فالاول سنة والثاني فريضة، ولا يترک واحد منهما
’’جب ایک دن میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہو جائیں تو پہلی سنت (واجب) اور دوسری فرض ہے۔ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘
ابن عابدين، رد المحتار، 2: 166
تجب صلاة العيدين علی أهل الاحصار کما تجب الجمعة
’’دونوں عیدوں کی نماز شہریوں پر ایسی ہی واجب ہے جیسے نماز جمعہ واجب ہے۔‘‘
امام کاسانی البدائع الصنائع میں امام محمد کی رائے سے متعلق لکھتے ہیں:
فإنه قال فی العيدين اجتمعا في يوم واحد، فا لاول سنة … في الجامع الصغير انها واجبة بالسنة … والصحيح أنها واجبة.
’’امام محمد نے کہا جمعہ اور عید ایک دن میں جمعہ ہو جائیں تو پہلی (نماز عید) سنت ہے۔۔۔۔ جامع صغیر میں ہے کہ نماز عید سنت کی رو سے واجب ہے۔۔۔۔ صحیح یہ ہے کہ نماز عید واجب ہے۔‘‘
کاسانی، بدائع الصنائع، 1: 275
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز عید و جمعہ دونوں پڑھائیں۔ ہمارے لئے یہ دلیل کافی ہے۔ ہم جو کچھ سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ نماز عید پڑھا کر مضافات مدینہ سے آنے والے لوگوں کو آپ نے رخصت دے دی کہ جو چاہے مدینہ منورہ میں رہے اور نماز جمعہ بھی ادا کرے اور جن کے گھر شہر سے اتنے دور ہیں کہ وہاں نماز جمعہ و عیدین ادا نہیں کر سکتے وہ چاہیں تو نماز جمعہ ادا کرنے سے پہلے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ پس جو شہر میں رہ جائیں گے ان پر نماز جمعہ فرض ہوگی اور جو جمعہ کے وقت سے پہلے ہی گاؤں چلے گئے ان پر نماز جمعہ فرض ہی نہ ہوئی کہ اس کے لئے شہر ہونا شرط ہے۔ (واﷲ اَعلم ورسولہ۔)
جواب: عیدین (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی) کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ ان پر جن پر جمعہ واجب ہے۔ اس کی ادائیگی کے لئے وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کی ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت ہے اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اگر عیدین میں نہ پڑھا تو نماز تو ہو گئی مگر مکروہ ہوئی۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے اور عیدین کا نماز کے بعد۔ اگر عیدین کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھا تو مکروہ ہے مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی۔
جواب: صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی عذر مثلاً: سفر، مرض، بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذ اﷲ بلا عذر بھی روزہ نہ رکھا تب بھی صدقہ فطر واجب ہے۔
جواب: جی ہاں! صدقہ فطر یوم عید سے پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ عید سے ایک دو دن قبل حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدقہ فطر ادا کرنا ثابت ہے۔ نافع بیان کرتے ہیں:
کَانُوْا يُعْطُوْنَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ اَوْ يَوْمَيُنِ.
’’وہ (یعنی حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) عید الفطر سے ایک یا دو روز قبل فطرانہ ادا کر دیا کرتے تھے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر علی الحر و المملوک، 2: 549، رقم: 1440
جواب: جی ہاں! اگر نابالغ کا اپنا مال ہو تو اس کے مال میں سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا وگرنہ ہر صاحبِ نصاب مالک پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: صدقہ فطر/ فطرانہ کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اُنہیں صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُنہیں فطرانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مصارِف میں سے بہتر یہی ہے کہ فقراء و مساکین کو ترجیح دی جائے، اِس لیے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے:
اُغْنُوْهُمْ فِيُ هٰذَا الْيَوْمِ.
’’اس دن مساکین کو (سوال سے) بے نیاز کر دو۔‘‘
دارقطنی، السنن، 2: 152، رقم: 67
جواب: جی ہاں! رشتہ داروں مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو صدقہ فطر دینا جائز ہے لیکن اپنی اولاد کو یا ماں باپ، نانا، نانی اور دادا، دادی کو زکوٰۃ اور صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ علاوہ ازیں شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتی۔
جواب: صدقہ فطر گیہوں یا گیہوں کا آٹا آدھا صاع اور جو یا جو کا آٹا یا کھجور ایک صاع دیں۔ موجودہ وزن میں ایک صاع کا وزن چار کلو اور تقریباً چورانوے گرام ہے اور آدھا صاع دو کلو اور تقریباً پینتالیس گرام کا بنتا ہے۔
اگر فطرانہ میں اس مقدار کے برابر قیمت دے دی جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ محتاجوں کو اس سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ صدقہ فطر اجتماعی طور پر کسی ایک محتاج کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
جواب: ہر طبقہ کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کریں گے، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’صرف مُسِنَّۃ کی قربانی کرو۔ لیکن اگر دنبوں میں مُسِنَّۃ کا ملنا دشوار ہو تو چھ ماہ کے دنبے کی قربانی بھی کرسکتے ہو۔‘‘
نسائی، السنن، کتاب الضحايا، باب المسنة والجزعة، 7: 218، رقم: 4378
بکرے، گائے اور اونٹ میں مُسِنَّۃ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ پینے کے دانتوں کی جگہ چرنے اور کھانے کے دانت نکل آئیں۔ بکرے کی عمر ایک سال ہو تو اُس کی یہ دانت نکلتے ہیں جب کہ گائے دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہوجائے تو اُس کے کھانے کے دانت نکلتے ہیں۔ شریعت میں اِجازت ہے کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بکروں، دنبوں، گایوں یا اونٹوں کی قربانی کرے۔ اِسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کی بھی مختلف اَقسام کو اُمت کے لئے جائز فرمایا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہم ایک صاع (چار کلو گرام) اناج (بطور صدقہ فطر) ادا کرتے تھے؛ یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کشمش ادا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ آیا تو گندم کا آٹا آگیا - جو کہ اُس وقت نسبتاً سب سے مہنگا تھا - تو نصف صاع (دو کلو) گندم کو ان چیزوں کے چار کلو کے برابر قرار دے دیا گیا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب صدقة الفطر، باب صاع من زبيب، 2: 548، رقم: 1437
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اَقدس میں ہم ایک صاع اناج بطور صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ ہمارا اناج جَو، کشمش، پنیر اور کھجور پر مشتمل ہوتا تھا۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العيد، 2: 548، رقم: 1439
لہٰذا مختلف آمدنی رکھنے والے طبقات اپنی اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق دو کلو گندم کی قیمت سے لے کر چار کلو کشمش کی قیمت تک کسی بھی مقدار کو صدقہ فطر کے طور پر ادا کریں گے تاکہ غرباء و مستحقین کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
Copyrights © 2021 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved