سلسلہ تعلیمات اسلام 6: روزہ اور اعتکاف (فضائل و مسائل)

رمضان المبارک سے متعلقہ مسائل

سوال نمبر 14: رؤیتِ ہلال (چاند دیکھنے) سے کیا مراد ہے؟

جواب: رؤیت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی دیکھنا، جاننا اور معلوم کرنا کے ہیں۔ رؤیتِ ہلال سے مراد پہلی رات کے چاند (crescent) کو دیکھنا ہے تاکہ نہ صرف قمری تاریخ کا حساب رکھنا ممکن رہے بلکہ تقویم (کیلنڈر) کے ذریعے اہم ایام و لیالی مثلاً نصف شعبان کی رات، رمضان اور عیدین وغیرہ کا تعین بھی کیا جا سکے۔

سوال نمبر 15: کیا رؤیتِ ہلال کے لیے دوربین کا اِستعمال جائز ہے؟

جواب: رؤیت کا دار و مدار عموما مطلع و فضا صاف ہونے اور مشاہدہ کرنے والے کی نظر کمزور نہ ہونے کے علاوہ مقامی موسمی کیفیات پر بھی ہوتا ہے۔ دوربین کی مدد سے چاند دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمزور نظر والا شخص عینک کی مدد سے چاند دیکھے۔ لہٰذا دورِ جدید میں جہاں زندگی کے ہر شعبے میں سائنسی ترقی سے بھرپور استفادہ کیا جارہا ہے، رویتِ ہلال کے لیے بھی دوربین و دیگر سائنسی آلات استعمال کیے جانے چاہییں تاکہ قومی وحدت بھی پیدا ہو اور جگ ہنسائی بھی نہ ہو۔

سوال نمبر 16: چاند کو دیکھ کر کون سی دعا مانگنی چاہئے؟

جواب: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ چاند دیکھنے کے بعد یہ دعا مانگتے تھے:

اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالأَمْنِ وَالإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالسَّلَامِ، وَالتَّوْفِيْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَی رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللهُ.

هيثمی، موارد الظمآن، 1: 589، رقم: 2374

’’اے اللہ! ہم پر یہ چاند امن، ایمان، سلامتی، اسلام اور اس توفیق کے ساتھ طلوع فرما جو تجھ کو پسند ہو اور جس پر تو راضی ہو، (اے چاند) ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔‘‘

سوال نمبر 17: 29 شعبان المعظم کو اگر چاند نظر نہ آئے تو کیا کسی کے لئے 30 شعبان المعظم کو روزہ رکھنا جائز ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص کسی خاص دن کے روزے کا عادی ہو اور اس تاریخ (30 شعبان) کو وہ دن آجائے مثلاً ایک شخص ہر پیر کو روزہ رکھتا ہے اور 30 شعبان کو پیر ہو تو وہ اپنے اسی نفلی روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں جس آدمی کی عادت اس دن روزہ رکھنے کی ہو وہ رکھ سکتا ہے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب لا تقدموا رمضان بصوم يوم ولا يومين، 2: 762، رقم: 1082

سوال نمبر 18: اگر مطلع صاف ہو تو رمضان المبارک کے روزے کے لئے کم از کم کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟

جواب: اگر مطلع صاف ہو اور چاند دیکھنے والا آدمی باہر سے کسی بلند پہاڑی مقام سے بھی نہ آیا ہو بلکہ اس علاقے اور شہر کا ہو اگر وہ چاند دیکھنے کا دعویٰ کرے جس کو باوجود کوشش کے اس کے علاوہ اور کسی نے نہ دیکھا ہو تو ایسی صورت میں اس کی شہادت پر چاند ہو جانے کا فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ اس صورت میں دیکھنے والے آدمی ایک سے زیادہ اتنی تعداد میں ہونے چاہئیں جن کی شہادت پر اطمینان ہو جائے۔ البتہ عید کے چاند کے ثبوت کے لئے کم از کم دو دیندار اور قابلِ اعتبار مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے۔

سوال نمبر 19: اگر مطلع صاف نہ ہو تو پھر کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟

جواب: اگر مطلع صاف نہ ہو یعنی آسمان پر بادل، دھواں، گرد و غبار کا اثر ہو تو رمضان المبارک کے چاند کے لئے ایک دیندار، پرہیزگار اور سچے آدمی کی گواہی معتبر ہے چاہے مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ اسی طرح جس شخص کا فاسق ہونا ظاہر نہیں اور ظاہر میں دیندار پرہیزگار معلوم ہوتا ہو اس کی گواہی بھی معتبر ہے۔ امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ کہتے ہیں: ایک بار لوگوں کو ہلالِ رمضان میں شک ہو گیا۔ ان کا ارادہ ہو گیا کہ تراویح پڑھیں گے نہ روزہ رکھیں گے کہ اچانک حرہ سے ایک اعرابی آیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ اس کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو الله کے وحدہ لاشریک ہونے اور میرے رسول الله ہونے کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ آپ ﷺ نے بلال کو اعلان کرنے کا حکم دیا۔ سو بلال نے یہ اعلان کیا کہ لوگ تراویح پڑھیں اور روزہ رکھیں۔

ابوداؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی شهادة الواحد علی رؤية هلال رمضان، 2: 289، رقم: 2341

سوال نمبر 20: نمازِ تراویح سے کیا مراد ہے اور اس کے پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب: تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے: ایک دفعہ آرام کرنا جبکہ تراویح کے معنی ہے: متعدد بار آرام کرنا۔ نمازِ تراویح کی تعداد بیس ہے اس لئے ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر ٹھہر کر اور سکون کرنے کے بعد نماز کا شروع کرنا مستحب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیا ہے۔ نماز تراویح کا پڑھنا مرد و عورت سب کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔

قیامِ رمضان کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کو رمضان کی راتوں میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے:

’’جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب فی قيام رمضان وهو التراويح، 1: 523، رقم: 759

نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد وتر سے پہلے ہوتاہے اور رات کے آخری حصے میں پڑھنا افضل ہے۔ مگر آج کے دور میں نمازیوں کی سہولت کی خاطر پہلے حصہ میں پڑھنا افضل ہے۔

سوال نمبر 21: نمازِ تراویح کی کل کتنی رکعات ہیں؟

جواب: صحیح قول کے مطابق تراویح کی کل بیس (20) رکعات ہیں اور یہی سوادِ اَعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا فتویٰ ہے۔

  • اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے۔
  1. بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب: تحريض النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1: 380، رقم: 1077
  2. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التروايح، باب فضل من قام رمضان، 2: 708، رقم: 1908
  3. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1: 524، رقم: 761
  4. ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 1:49، رقم: 1373
  5. نسائي، السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب قيام شهر رمضان، 2: 337، رقم: 1604
  • امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت) اکٹھے ہوئے تھے۔
  1. ابن حبان، الصحيح، 1: 353، رقم: 141
  2. ابن خزيمة، الصحيح، 3: 338، رقم: 2207
  • امام ابن حجر عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ ﷺ ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔

عسقلاني، تلخيص الحبير، 2: 21

  • حضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنہماسے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔
  1. طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 243، رقم: 798
  2. طبرانی، المعجم الاوسط، 5: 324، رقم: 5440
  3. طبرانی، المعجم الکبير، 11: 311، رقم: 12102
  4. ابن ابی شيبة، المصنف، 2: 164، رقم: 7692
  • حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس (20) رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔

بيهقی، السنن الکبری، 2: 699، رقم: 4617

مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔

سوال نمبر 22: رمضان المبارک میں تراویح کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت کی مقدار کیا ہونی چاہئے؟ کیا رمضان المبارک میں تراویح میں مکمل قرآن پڑھنا لازم ہے؟

جواب: ماہ رمضان المبارک میں تراویح کے دوران پورے قرآن حکیم کا پڑھنا سنت ہے بشرطیکہ مقتدیوں کو اس سے اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ افضل یہی ہے کہ صلاۃ التراویح کے دوران قرآن حکیم کی تلاوت میں ان کے حالات کو ملحوظ رکھا جائے اور پڑھنے میں اتنی جلدی نہ کی جائے جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔

سوال نمبر 23: رمضان المبارک میں شبینہ کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

جواب: عصر حاضر میں ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے جو درحقیقت صریحاً سنت کے خلاف ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دورانِ ماہ ایک ختم قران پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ ﷺ نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور انہیں مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے۔ آپ ﷺ نے ان کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی:

فَاقْرَأْهُ فِي کُلِّ سَبْعٍ.

’’سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرر به أو فوت به حقاً…، 2: 813، رقم: 1159

مذکورہ بالا حدیث سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج صریحاً خلافِ سنت ہے لہٰذا اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ حضور ﷺ کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے۔ محافل شبینہ کے لئے چند باتوں کو پیش نظر ضرور رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کے الفاظ مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں نہ کہ رفتار اتنی تیز ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔ شبینہ یا کسی اور صورت میں قرآن کریم اتنا پڑھا جائے جس سے دل بوجھل نہ ہو جونہی اکتاہٹ محسوس ہو تلاوت ختم کر دی جائے۔ حضرت جندب بن عبد الله بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قرآن پڑھتے رہو جب تک تمہارا دل زبان کی موافقت کرتا رہے (یعنی جب تک اکتاہٹ نہ ہو) اور جب دل اور زبان میں اختلاف ہو جائے تو اٹھ جاؤ۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب النهی عن اتباع متشابه القرآن، 4: 2054، رقم: 2667

شبینہ میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نامناسب ہے۔ اس لئے کہ تلاوت قرآن سننا واجب ہے اور نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا مناسب اور دانش مندانہ بات یہ ہے کہ شبینہ کے لئے اوّل تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لئے اندرونی نظام ہو تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔

سوال نمبر 24: کیا عورت خواتین کو باجماعت نماز تراویح پڑھا سکتی ہے؟

جواب: عورتوں کا مردوں کے علاوہ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں علماء کا اختلاف ہے بعض فقہا مکروہ کے قائل ہیں۔ صاحبِ ہدایہ نے لکھا ہے:

ويکره للنساء أن يصلين وحدهن الجماعة … فإن فعلن قامت الإمامة وسطهن.

’’اکیلی عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔‘‘

مرغيناني، الهداية، 1: 84

احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے حوالے سے روایت بیان کی ہے کہ وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔

حاکم، المستدرک، 1: 320، رقم: 731

اس روایت سے ثابت ہوا کہ دینی تربیت اور عبادت الٰہی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اگر عورتیں جمع ہوکر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھ سکتی ہے کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے۔ فقہا کرام نے لکھا ہے کہ عورت، عورتوں کی اور نابالغ، نابالغوں کا امام ہوسکتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved