شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے پیش کردہ قرارداد امن

اسلام دینِ امن و سلامتی ہے

آرٹیکل نمبر 1

اِسلام محبت اور عدمِ تشدد کا دین ہے۔ یہ تمام اَقوام اور معاشروں کو اَمن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے اور تمام بنی نوع اِنسان کے لیے باہمی اُخوت و محبت، تعظیم و تکریم اور باہمی عدل و اِنصاف کی تلقین کرتا ہے۔

اِسلام دینِ اَمن و سلامتی ہے

اِسلام خود بھی اَمن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اِسلام کے دینِ اَمن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی ’اِسلام‘ پسند کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ.

بے شک دین اﷲ کے نزدیک اِسلام ہی ہے۔

آل عمران، 3: 19

ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کون سا اِسلام اَفضل ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ.

(اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔

احمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6753

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اَلْمُؤمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِهِمْ وَامْوَالِهِمْ.

مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال کو محفوظ سمجھیں۔

نسائي، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب صفة المؤمن، 8:104، رقم: 4995

لفظ اِسلام کا معنی اور مفہوم

  1. لفظِ اِسلام سَلَمَ یا سَلِمَ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اَمن و سلامتی اور خیر و عافیت کے ہیں۔ اِسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر اَمن (peace) ہے۔ گویا اَمن و سلامتی کا معنی لفظِ اِسلام کے اندر ہی موجود ہے۔ لہٰذا اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اِسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و سلامتی، محبت و رواداری، اِعتدال و توازُن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔
  2. قرآن و حدیث کی روشنی میں اگر مسلم اور مومن کی تعریف تلاش کی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان صرف وہ شخص ہے جو تمام اِنسانیت کے لیے پیکرِ اَمن و سلامتی ہو اور مومن بھی وہی شخص ہے جو اَمن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاے باہمی اور اِحترامِ آدمیت جیسے اوصاف سے متصف ہو۔ یعنی اِنفرادی درجے سے لے کر اِجتماعی سطح تک جس سے ہر کوئی محفوظ و مامون ہو وہی مسلمان ہے۔
  3. حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَيُّ الْإِسْلَامِ اَفْضَلُ کا جواب مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ دے کر لوگوں کے اِس اِعتراض کو رفع فرما دیا ہے کہ ’ہم کس کا اِسلام مانیں اور کس کا نہ مانیں۔‘ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسلام کا واضح تصور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بہترین اِسلام ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھ اور زبان سے تمام طبقاتِ اِنسانی محفوظ رہیں، جو بقاے باہمی، محبت و رواداری، تحمل و برداشت اور بین المذاہب رواداری کے علم بردار ہوں۔ گویا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقیقی اِسلام کو پرکھنے کا معیار بنیادی طور پر اَمن و سلامتی کو قرار دیا ہے۔
  4. حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَحادیث مبارکہ میں بعض مقامات پر مطلقاً لفظِ ’النَّاس‘ استعمال کر کے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ فرما دیا ہے کہ مسلمان اور مومن وہی شخص ہوگا جس سے بلا تفریقِ دین و مذہب ہر شخص کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوں گے۔ لہٰذا جو شخص آدمیت و اِنسانیت کا اِحترام ملحوظ نہ رکھے اور قتل و غارت گری، فساد انگیزی اور جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرے، بھلے وہ کتنی ہی عبادت و ریاضت کرتا پھرے، ہرگز مومن نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی شخص نے داڑھی رکھی ہو، نماز پنج گانہ ادا کرتا ہو، تسبیح و تہلیل بھی کرتا ہو، روزوں کا اہتمام بھی کرتا ہو، تہجد گذار اور قائم اللیل ہو اور دعوت و تبلیغ کے علاوہ ہر سال حج و عمرہ بھی کرتا ہو؛ الغرض تمام اِسلامی اقدار کا پابند ہونے کے باوجود اس سے لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہوں تو یہ تمام عبادات اسے اﷲ کے عذاب سے نہیں بچا سکتیں، کیونکہ حقیقی فلاح کا اِنحصار محض ظاہری عبادات پر نہیں بلکہ قلبِ سلیم پر ہے۔ اگر اندر کا اِنسان نہیں بدلا، وہ وحشی اور درندہ ہے تو باہر کے اِنسان کو جتنے بھی پارسائی کے لبادے اوڑھا لیں، اس سے وہ اِنسانوں کو تو دھوکا دے سکتا ہے مگر معاذ اﷲ خالقِ کائنات کو ہرگز دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
  5. اِسلام اپنے لفظ، معنی اور عنوان کے لحاظ سے کلیتاً اَمن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و اَمان کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں اِسلام فساد و ہلاکت سے نہ صرف اِجتناب کرنے بلکہ ہر ایک کو محفوظ و مامون رکھنے کا نام ہے۔ اس میں اَصلاً کسی فساد انگیزی، تباہی و بربادی اور تفرقہ و اِنتشار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کی تعلیمات کا ہر پہلو اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کی نفی کرتا ہے اور اس کی جگہ بھلائی، آبادی، شادابی، سلامتی، ترقی، عافیت اور نفع بخشی کی ترغیب اور ضمانت دیتا ہے۔ گویا جس شخص کا طرزِ عمل اِسلام کے اساسی معنی اور اس کے فکری و عملی اِطلاق سے متصادم ہوگا اس کا اِسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

محبت و تکریمِ اِنسانیت اور عدمِ تشدد

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.

کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔

بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب خوف المومن من ان يحبط عمله وهو لا يشعر، 1: 27، رقم:48

مذکورہ حدیث کی رُو سے کسی مسلمان کو محض برا بھلا کہنے کو فسق یعنی بڑا گناہ قرار دیا ہے اور اسے ناحق قتل کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ عزت وتکریم کا یہ معیار صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہے۔ اِسلام نے عزت اور جان و مال میں تمام اِنسانیت کو یکساں تکریم عطا کی ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.

جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔

بخاری، الصحيح، کتاب الجزية، باب إثم من قتل معاهدا بغير جرم، 3: 1155، رقم: 2995

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَقُمْنَا لَهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُوْدِيٍّ؟ قَالَ: إِذَا رَاَيْتُمُ الْجِنَازَةَ فَقُوْمُوْا.

ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اﷲ! یہ توکسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔

بخاري، الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1: 441، رقم: 1249

ایک اور روایت میں ہے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ!یہ جس میت کے لیے آپ نے قیام فرمایا ہے، یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے جواب دیا:

اَلَيْسَتْ نَفْسًا؟

کیا یہ اِنسان نہیں؟

بخاري، الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1: 441، رقم: 1250

اِس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا مقصد تکریم اِنسانیت تھا۔ چونکہ شریعتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تکریمِ اِنسانیت پہلے ہے جبکہ تکریمِ مذہب بعد میں ہے ۔ اِسی لیے تو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستفسار فرمایا کیا یہ اِنسان نہیں تھا؟ گویا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اِنسانی جان کی تکریم کی ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا تھا۔ لہٰذا ہم اَہلِ پاکستان اور اَہلِ اِسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم زندہ اِنسانوں کی تکریم کا معاشرہ بھی قائم نہیں کرسکے۔

  • اِس قراردادِ اَمن کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اِسلام کے اِس روشن پہلو سے زیادہ سے زیادہ لو گوں کو رُوشناس کروایا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کے دلوں میں وسعت پیدا کی جائے تو دوسری طرف وہ لوگ جو اِسلام کو دہشت گردی اور اِنتہا پسندی سے منسوب کرتے ہیں اُن کی اس غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved