شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے پیش کردہ قرارداد امن

آرٹیکل نمبر 15

آرٹیکل نمبر 15

جملہ مذاہب کے بانیان اور پیغمبرانِ کرام علیہم السلام کی گستاخی کو کسی طور پر آزادیِ اِظہار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ تمام مذاہب کی تعلیمات اور جملہ عالمی قوانین کی رُو سے یہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے اِنسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کوئی قوم یا ملّت اپنے سیاسی، قومی یا مذہبی رہنماؤں کی توہین برداشت نہیں کرتی چہ جائیکہ پیغمبرِ اَمن و سلامتی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین و تحقیر کر کے دنیا بھر میں بسنے والے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو قلبی و ذہنی اَذیت میں مبتلا کیا جائے۔

پیغمبرِ اِسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ ہر مسلمان کو اپنی جان سے عزیز تر ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ جہاں تک آزادیِ اِظہار رائے کا تعلق ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بنیادی اِنسانی حقوق میں سے ہے جسے نہ صرف امریکی آئین اور قانون میں بلکہ حقوقِ اِنسانی کے عالمی اِعلامیہ (Universal Declaration of Human Rights)، قانونِ حقوق اِنسانی اور بنیادی اِنسانی حقوق کے تمام ممالک کی دستاویزات میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک کے دساتیر میں اس کے ساتھ ساتھ عزت و حرمت کو تحفظ دینے والے قوانین کی موجودگی اِس اَمر کا بین ثبوت ہے کہ اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی اِنسانی حقوق میں شامل ہے۔ جس طرح آزادیِ اِظہارِ رائے بنیادی اِنسانی حقوق میں سے ہے، اُسی طرح اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی اِنسانی حق ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

عالمی دساتیر اور قوانین ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو اِنسانی وقار کو مجروح کرنے کا باعث ہوں، حتی کہ امریکی دستور کی آٹھویں ترمیم اِنسانی وقار کے تحفظ کو اس حد تک یقینی بناتی ہے کہ اِس ترمیم کی رُو سے:

کسی کو کوئی بھی ایسی سزا نہیں دی جاسکتی جس کی شدت اور انداز اِنسانی وقار کے منافی ہو۔

اِس تناظر میں کسی اِنسانی رویے کو کیونکر اِس اَمر کی اِجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کی اِہانت اور بے توقیری کا سبب بنے۔

اَقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان (Kofi Annan) نے کہا تھا:

میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا اِحترام کرتا ہوں لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حق قطعاً بھی مطلق نہیں ہے۔ یہ حق اِحساسِ ذِمہ داری اور دانش مندی کے ساتھ مشروط ہے۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا (Jack Straw) نے کہا تھا:

ہر شخص کو آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق حاصل ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن کسی کو بھی توہین کرنے یا بغیر کسی سبب کے اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔۔۔۔ ہر مذہب کے لیے کچھ قابلِ حرمت اُمور ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ درست نہیں کہ آزادیِ اِظہار رائے کے نام پر عیسائیوں کی تمام مقدس رسوم اور عبادات پر ہر طرح کی تنقید کی جاتی رہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے کہ یہودی، ہندو یا سکھ مذہب کے حقوق اور مقدس رسوم کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ نہ ہی ایسا رویہ مذہبِ اِسلام کے حوالے سے اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اس طرح کی صورت حال میں عزت و احترام کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاط کرنا ہوگی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق ترجمان کرٹس کوپر (Kurtis Cooper) نے کہا:

ہم سب اِظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا خوب اِحترام کرتے ہیں لیکن اِسے صحافتی ذمہ داری سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ مذہبی یا نسلی نفرت کو اِس آڑ میں بھڑکانے کا عمل قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔

سابق فرانسیسی وزیر خارجہ فلپ ڈوسے بلیزی (Philippe Douste-Blazy) نے کہا تھا:

آزادیِ اِظہارِ رائے کے قانون پر عمل برداشت، عقائد اور مذاہب کے احترام کی روح کے ساتھ ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کے سیکولر اِزم کی بنیادی اَساس ہو۔

اگر برداشت، رواداری اور بقاے باہمی کے عالمی متفقہ اُصول کو نظر انداز کر دیا جائے اور اَخلاقی اور مذہبی اَقدار کی بے توقیری کی جائے تو عالمی اَمن کی صورت حال بد سے بدتر ہوجائے گی اور دنیا میں موجود تناؤ کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہو کر رہ جائیں گی۔

آج اِس اَمر کی ضرورت ہے کہ اِس خوف ناک اور پریشان کن صورتِ حال کے خاتمے کے لیے فوری اِقدامات کیے جائیں ورنہ یہ اَمنِ عالم کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ وہ لوگ جو اس بات کے حامی ہیں کہ آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی اور اس پر کوئی بھی پابندی ناقابلِ برداشت ہے۔ انہیں اپنے جمہوری معاشروں پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ان کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف حالیہ قانون سازی میں شہری آزادیوں کو کس حد تک پابند کر دیا گیا ہے اور کئی ایسے اِقدامات کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں معاشرہ میں رہنے والے افراد کے حقوق اور آزادیوں کی بظاہر واضح طور پر تحدید ہوئی ہے۔

آج مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کی آڑ میں جان بوجھ کر ہدف بناکر دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں جب بھی مسلمانوں کے عقیدہ کے اِنتہائی مقدس پہلوؤں کی تضحیک کی جائے گی یا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کی اہانت ہوگی تو اس کا ردِ عمل بھی لازماً شدید تر ہوگا۔ یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ مغربی اور یورپی اَقوام کو جہاں دہشت گردی کی لعنت سے حفاظت کے لیے آزادیِ رائے کے اِظہار پر بھی پابندی روا ہے، وہاں اِسی آزادیِ رائے کے حق کے نام پر ایسے اِہانت انگیز اِقدامات کے ذریعے مسلمانانِ عالم کے جذبات اور اِحساسات کو نہ صرف مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ دہشت گردوں اور اِنتہا پسندوں کو اپنے غیر قانونی اِقدامات کے لیے منطقی جواز فراہم کیے جا رہے ہیں۔

بظاہر اِظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا بہت غلغلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی بھی مذہب مقدس ہستیوں، رسولوں، پیغمبروں اور اﷲ کے کلام کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا، حتیٰ کہ ’کتابِ مقدس (The Bible)‘ کا ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘ اور ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ دونوں حضرت موسیٰ e اور حضرت عیسیٰ e کی توہین سے منع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’عہد نامہ عتیق‘ کی کتاب ’اِحبار (Leviticus)، 24:13-16‘؛ ’اِحبار (Leviticus)، 24:23‘؛ ’2 سموئیل (2 Samuel)، 12:14‘ اور ’عہد نامہ جدید‘ کی کتاب ’متی کی اِنجیل (Matthew)، 12:32‘؛ ’مرقس کی انجیل (Mark)، 3:29‘ اور ’لوقا کی انجیل (Luke)، 12:10‘ ملاحظہ ہوں۔

اِسلام قدیم آسمانی مذاہب ہی کا تسلسل ہے ۔ اس نے بھی تمام رسولوں اور پیغمبروں خصوصاً حضرت موسی e، حضرت عیسیٰ e اور حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِحترام کو اِیمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا کے تمام براہیمی اَدیان نے پیغمبروں کی توہین کی ممانعت کی ہے لیکن ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘، ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ اور قرآنِ مجید میں پیغمبروں کے اِحترام کی تعلیمات نے کسی بھی شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی کے حق سے محروم نہیںکیا۔

ایک مسلمان تو کسی مذہب کے کسی پیغمبر e کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا دائرہ اِیمان میں رہنا ہی ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طر ح اﷲ رب العزت نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:

تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍم مِنْهُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ ط وَاٰتَيْنَا عِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.

یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم aکو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی۔

البقرة، 2: 253

مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قران مجید کس طرح دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی شان و عظمت بیان فرماتا ہے۔ لہٰذا کوئی مسلمان تو بانیانِ مذاہب میں سے کسی کی گستاخی و بے ادبی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اِس کے برعکس مغربی دنیا میں چند شرپسند عناصر نبیِ رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اِسلامی تعلیمات کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ وہ آزادیِ اِظہارِ رائے کو بنیاد بنا کر گستاخانہ لب و لہجہ اِختیار کرتے ہیں، مسلمانوں کے لیے ان کا یہ رویہ کسی صورت برداشت نہیں ہو سکتا۔ اگر مغرب میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے باوجود ہولوکاسٹ کے ذکر پر پابندی ہو اور تقریراً یا تحریراً کسی طرح ملوث ہونے پر سزا مقرر ہو اور جیل کی ہوا کھانی پڑ جائے تو پھر یہ دوہرا معیار کیوں؟

اِسلام اَمن و آشتی کا درس دیتا ہے، بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتا ہے، بقاے باہمی کی تلقین کرتا ہے تو اِسلام کے بارے میں عالم مغرب کا غیر منصفانہ رویہ کیوں؟

  • لہٰذا ہم اس قراردادِ اَمن کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر اِس دنیا کو اَمن کا گہوارہ بنانا ہے اور دہشت گردی اور اِنتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر اِسلام اور اَہلِ اِسلام کے ساتھ ہتک آمیز رویہ روا نہ رکھا جائے اور عالمی سطح پر ایسے قوانین بنائے جائیں کہ کوئی بھی کسی مذہب اور دین کے متعلقات کے بارے میں گستاخی کی جسارت نہ کر سکے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved