تذکرے اور صحبتیں

مقدمہ

یہ سنت الٰہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مقرب بندوں اور ان کے احوال و مقامات کا ذکر فرماتا ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں اس کا وعدہ ہے:

فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنo

البقرہ، 2 : 152

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘

ان کے ذکر کا مقصد اپنا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ راہ حق کے طالبوں کے لئے میرے محبوب اور مقرب لوگوں کا ذکر میری سنت بن جائے اور یہ کہ ان کا ذکر پڑھنے اور سننے والوں کے دل بھی اسی حال کی طرف راغب ہوں، یہ ان کا زاد سفر بنے اور میری محبت و معرفت کی خوشبو ان تذکروں کے ذریعے آگے پھیلتی جائے اور ہزاروں لاکھوں جانوں کو معطر کرتی چلی جائے۔ یوں تو قرآن مجید نے انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے حالات و واقعات کو بہت سی جگہوں پر تفصیل سے بیان کیا ہے، مگر کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں انبیاء و مقبولین کے ذکر کو ہی عنوان کلام بنایا گیا ہے۔ اس کے چند ایک نمونے ملاحظہ ہوں:

1۔ وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ ط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاo

 مریم، 19 : 41

’’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo‘‘

سورہ ھود میں فرمایا :

2۔ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌo

 ہود، 11 : 75

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے، ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھےo‘‘

پھر سورہ مریم میں ہی فرمایا :

3۔ وَاْذ کُرْ فِی الْکِتٰبِ مُوْسٰی اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاo

 مریم، 19 : 51

’’اور (اس) کتاب میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے بے شک وہ (نفس کی گرفت سے خلاصی پاکر) برگزیدہ ہوچکے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo‘‘

پھر ارشاد فرمایا :

4۔ وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْماعِیْلَ ز اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاo

 مریم، 19 : 54

’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھےo‘‘

اور آگے انہی کے بارے میں فرمایا :

5۔ وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ وَ کَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّاo

 مریم، 19 : 55

’’اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضورمقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا) o‘‘

پھر ارشاد فرمایا :

6۔ وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ ز اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاo وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّاo

 مریم، 19 : 56۔ 57

’’اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےo اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھاo‘‘

اسی طرح یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا گیا :

7۔ وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَکٰوۃً ط وَکَانَ تَقِیًّاo

 مریم، 19 : 13

’’اور اپنے لطفِ خاص سے (انہیں) درد و گداز اور پاکیزگی و طہارت (سے بھی نوازا تھا) ، اور وہ بڑے پرہیزگار تھےo‘‘

پھر سورہ انبیاء ساری محبوب تذکروں سے بھرپور ہے حتی کہ پے در پے مقرب اور محبوب انبیاء کے تذکرے شروع کرنے سے قبل آیت 50 میں فرمایا جا رہا ہے :

8۔ وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ ط اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَo

 الانبیاء، 21 : 50

’’یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اِس سے انکار کرنے والے ہوo‘‘

’’ذکر مبارک‘‘ کا عنوان دے کر اگلی آیت سے ذکر شروع کیا جارہا ہے حضرت ابراہیم کا جو جد الانبیاء ہیں، ان کے متعلق ارشاد ہوتا ہے :

9۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا اِبْرٰهیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 51

’’اور بے شک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی استعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھےo‘‘

پھر ان کا تفصیلی تذکرہ ہے، ان کے بعد حضرت لوط، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا ذکر ہے اور آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

10۔ وَکُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 72

’’اور ہم نے اُن سب کو صالح بنایا تھاo‘‘

پھر آیت نمبر 73 میں ساتھ ہی ان کے دیگر فرائض منصبی کو بیان کرکے آگے ارشاد فرمایا گیا :

11۔ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 73

’’اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھےo‘‘

ان کے بعد حضرت نوح، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور آخر میں آیت نمبر 84 میں ارشاد فرمایا :

12۔ وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 84

’’اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے) o‘‘

پھر اگلی آیت میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس، اور حضرت ذوالکفل کا ذکر کرکے فرمایا :

13۔ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَo وَاَدْخَلْنٰہُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا ط اِنَّہُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 85۔ 86

’’یہ سب صابر لوگ تھےo اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا۔ بے شک وہ نیکو کاروں میں سے تھےo‘‘

اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام (انہیں ذوالنون کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے) حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کا ذکر فرمایا اور آخر میں حسب سابق ان کے قلبی احوال اور روحانی کیفیات بھی بیان فرمائیں۔

14۔ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 90

’’اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجزو نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھےo‘‘

الغرض ان محبوب و مقرب اور برگزیدہ بندوں کا ذکر فرمانے کے بعد دوبارہ اس کے مقصد اور غرض و غایت کو واضح کیا جارہا ہے :

15۔ اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕo

 الانبیاء، 21 : 106

’’بے شک اس (قرآن) میں عبادت گزاروں کے لیے (حصولِ مقصد کی) کفایت و ضمانت ہےo‘‘

پھر اس سورت میں ذکر محبوبین کا سارا سلسلہ سر تاج محبوبانِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جا کر ختم کیا۔ آیت نمبر 107 میں آخری ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے اور ارشاد ہوا ہے :

16۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo

 الانبیاء، 21 : 107

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘

ہم نے بطور نمونہ صرف دو سورتوں میں سے کچھ مقامات پیش کئے ہیں۔ اہل فہم و بصیرت کے لئے اتنا ہی کافی ہے ورنہ قرآن مجید میں اور بھی بہت سے ایسے مقامات ہیں آپ نے دیکھا کہ ہر جگہ کتنے پیارے انداز میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے تذکرے فرمائے۔ پھر ان میں سے ایک ایک کے روحانی مشاغل و معمولات کا ذکر فرمایا اپنے مقربین کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات بھی من و عن بیان فرمائے جن سے وہ اللہ کو پکارتے تھے، ان کی عبادت گاہوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے خاص اوقات دعا، اندازِ دعا اور مقامات دعا و گریہ تک بیان فرمائے ہیں۔ ان پر اپنی غیبی نوازشات کا ذکر کیا ہے۔ ان کی آزمائشیں، ریاضات اور مجاہدات کا ذکر فرمایا ہے ان کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی بیان فرمائی ہے۔ الغرض ان کے ذکر کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور ہمیں بار بار ادھر متوجہ کیا کہ یہ سب سامان عبادت گزاروں اور طاعت شعاروں کے لئے ہے۔ جو کوئی چاہے کہ اللہ کی طاعت و عبادت اور محبوبیت و مقربیت کی راہ پر گامزن ہو تو اس کے لئے یہی تذکرے زاد سفر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں صحابہ کرام سے لے کر آج تک اللہ والوں کا ذکر کرنا ان کے حالات و واقعات، احوال و کیفیات، ریاضات و مجاہدات، مشاہدات و کمالات اور اقوال و فرمودات کا بیان کرنا ہر صاحب ایمان و محبت کا محبوب عمل رہا ہے۔ ائمہ محدثین، علماء کاملین اور اولیاء و عارفین سب اپنے اپنے ذوق کے مطابق ان تذکروں کو لکھتے، پڑھتے، سنتے اور سناتے رہے ہیں۔ اور ہر دور میں ان تذکروں پر کتابیں تصنیف کی جاتی رہی ہیں تاکہ اس سنت الٰہیہ پر عمل کی برکات نصیب ہوں۔ حتی کہ خیر القرون کے زمانے ہی میں اہل اللہ کے تذکروں، ان کے زہد و ورع اور روحانی احوال کے بیان پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ دوسری صدی ہجری میں جب حدیث کی جمع و تدوین کا کام ہو رہا تھا اسی دور میں اکابر اہل علم و عمل ان تذکروں کی جمع و تدوین میں بھی مصروف تھے۔ امام عبد اللہ بن مبارک امام وکیع بن الجراح اور امام احمد بن حنبل جیسی ہستیوں کی اس موضوع پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں، علمی، فکری، اخلاقی و روحانی تربیت کا بہترین سامان فراہم کر رہی ہیں۔ یہی تصوف کی تاریخ ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مقدسہ کے بعد انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ تو بند کر دیا گیا، مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت اور رحمت کے تصدق سے آپ کی امت پر یہ انعام فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اسے اپنے محبوبین اور مقربین سے نوازا۔ یہ مقبولان الٰہی وقوع قیامت تک اپنی روحانی برکات سے اہل عالم کو متمتع کرتے رہیں گے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض نبوت سے دلوں کی مردہ زمینوں کو سیراب کرتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی کی شان میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْعُلَمَاء وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُؤَرِّثُوْا دِیْنَارًا، وَلا دِرْھَمًا، اِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِہٖ، أَخَذَ بِحَظِّ وَافِرٍ۔

 ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ، 5 : 48، رقم : 2682

’’ (میری امت کے) علماء ربانین (من وجہ) بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ وہ درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے یہ وراثت پالی اسے بہت بڑا حصہ مل گیا۔‘‘

بے شک امت مسلمہ میں کچھ نفوس قدسیہ ایسے ہیں جنہیں قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ ( (اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا) (1) کے رازِ محبت نے سراپا اتباع بنا دیا۔ جنہیں وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ (اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں) (2) کی خبر نے اعمال صالحہ کی لذت و حلاوت سے آشنا کیا، جنہیں وَجَاہِدُوْا فِی اللهِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰکُمْ (اور اللہ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے؛ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے ) (3) نے طاعت الٰہی میں ریاضات و مجاہدات کے لئے منتخب کر لیا۔ جنہیں ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔) (4) کے اسرار نے پیکر طاعت و تقویٰ بنا دیا۔ جنہیں تُوْبُوْا اِلَی اللهِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا) (5) کے پیغام نے پیکر ندامت بنا دیا۔ جنہیں جَآء بِقَلْبِ مُّنِیْبٍ (اور (اللہ کی بارگاہ میں) رجوع و اِنابت والا دِل لے کر حاضر ہوا۔) (6) کے وصف نے سراپا انابت بنا دیا۔ جنہیں اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ (میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے) (7) کے حیات آفرین پیغام نے استجابت کی راہوں پر گامزن کیا اور اجابت کی منزلوں پر فائز کر دیا۔ جنہیں وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ (اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو) (8) کے پیار بھرے بیان نے سراپا ایثار بنا دیا۔ جنہوں نے ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo (کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتادوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟۔) (9) کی خوش خبری سن کر اپنی جان و مال، راحت و آرام الغرض ہر چیز کا اللہ سے سودا کر لیا، جنہوں نے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّیo (بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔) (10) کے چشمے سے اپنے نفوس دھو لئے اور وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔) (11) کے انوار سے اپنے دل منور کر لئے اور ان کے دل وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّاِللهِ (وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں) (12) کے فیض سے محبت الٰہی کے چشمے سے سیراب کئے گئے جنہیں یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ( (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں) (13) کے بیان نے رحمت اور عذاب کی حالتوں پر آگہی دی اور یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَّکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَo (ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔) (14) کے پیغام نے رجاء و خوف کی دل گداز کیفیتوں سے سرشار کیا۔ جنہیں وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِo (اور جو لوگ ان سب (اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں۔) (15) کے بیان نے فکر آخرت سے درد آشنا کیا۔ جنہیں ذَالِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَخَافَ وَعِیْدِo (یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدۂ (عذاب) سے خائف ہوا۔) (16) کی آواز نے خوف الٰہی میں تڑپنا سکھایا جو قُلْ یٰعِبَادِيَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللهِ (اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا) (17) کی پیار بھری پکار سن کر اس کی رحمت کی طرف دوڑ پڑے۔ جنہوں نے وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے) (18) اور اَلَیْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (کیا اللہ اپنے بندۂ (مقرّب نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافی نہیں ہے؟) (19) کے الوہی نغمات سن کر ہر غیر کی طرف سے منہ موڑ لئے۔ جو وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo (اور اپنے رب پر توکل کیے رکھتے ہیں۔) (20) کے فیض سے توکل و رضا کے کوہ گراں بن گئے۔ جو لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللهِ وَرَسُوْلِہٖ (اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھا کرو) (21) کے حکم پر بارگاہ الٰہی اور دربارِ نبوت میں سراپا ادب بن گئے۔ جنہوں نے اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔) (22) کی بشارت سن کر راہِ حق کے مصائب کو گلے لگا لیا۔ جن کے دلوں میں اَلَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں (23) کے سرور آفریں کلام نے احوال و کیفیات کے دربار موجزن کر دیے۔ جن سے تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں ) (24) کی لذت آفریں ندا نے رات کے بستر چھین لئے، جنہیں الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ (یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں) (25) کے پر کیف بیان نے ہر گھڑی یاد محبوب میں مستغرق کر دیا۔ جنہیں یَتْلُوْنَ اٰیَاتِ اللهِ اٰنَآء الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ (وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود رہتے ہیں۔) (26) کے وجد آور کلام نے راتوں کو نغمہ لاہوتی کی لَے میں مست و بے خود کر دیا، وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔) (27) کے اعلان نے جن کی نیند سے رغبت ختم کر دیا، جنہیں وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَعْفِرُوْنَo (اور رات کے پچھلے پہروں میں (اُٹھ اُٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے۔) (28) کے پر سوز کلمات نے سرد آہیں دے دیں، جو وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًاo (اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔) (29) کی مٹھاس بھری آواز سن کر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ جنہیں یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (اپنے رب کو صرف اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے رہتے ہیں) (30) کے بیان نے اس کی دید کا مشتاق بنا دیا، جو یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلَاقُوْا رَبِّھِمْ (اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو) (31) کا وعدہ سن کر اس کی ملاقات کے لئے سراپا انتظار بن گئے اور فَ۔لَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ (سو کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے) (32) کا پیغام سن کر اس کے جلوہ و وصال کے لئے ہمہ تن بے قرار ہوگئے۔ جو فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرُکُمْ (سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا) (33) کے اجر کا مژدۂ جاں فزا سن کر اس کی یاد میں دیوانے ہوگئے۔ جنہیں یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ (جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے) (34) کے تعلق نے دائمی سرشاری دے دی۔ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ (تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں) (35) کے حال نے جن کی آنکھوں کو برسات بنا دیا اور مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ( (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب ہو گئی ہے) ) (36) کے فیض سے جن کے دل معرفت کے چشمے بن گئے اور رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَo (اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔) (37) کی قبولیت نے پردے اٹھا کر انہیں اہل مشاہد بنا دیا۔

  1. آل عمران، 3 : 31
  2. آل عمران، 3 : 114
  3. الحج، 22 : 78
  4. المائدہ، 5 : 93
  5. التحریم، 22 : 8
  6. ق، 50 : 33
  7. البقرۃ، 2 : 186
  8. الحشر، 59 : 9
  9. الصف، 61 : 10
  10. الاعلیٰ، 87 : 14
  11. الاعلیٰ، 87 : 15
  12. البقرۃ، 2 : 165
  13. بنی اسرائیل، 17 : 57
  14. الانبیاء، 21 : 90
  15. الرعد، 13 : 21
  16. ابراہیم، 14 : 14
  17. الزمر، 39 : 53
  18. الطلاق، 65 : 3
  19. الزمر، 39 : 36
  20. النحل، 16 : 42
  21. الحجرات، 49 : 1
  22. البقرۃ، 2 : 153
  23. الانفال، 8 : 2
  24. السجدہ، 32 : 16
  25. آل عمران، 3 : 191
  26. آل عمران، 3 : 113
  27. الفرقان، 25 : 64
  28. الذاریات، 51 : 18
  29. المزمل، 73 : 8
  30. الانعام، 2 : 52
  31. البقرۃ، 2 : 42
  32. السجدۃ، 32 : 17
  33. البقرۃ، 2 : 152
  34. المائدہ، 5 : 54
  35. المائدہ، 5 : 83
  36. المائدہ، 5 : 83
  37. المائدہ، 5 : 83

اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے ہی ذاکر و شاغل اور عارف بندوں کی صحبت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو صبح و شام اس کی یاد میں مست و مگن اور اس کے مکھڑے کے طالب رہتے ہیں۔ فرمایا:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِيِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔

 الکہف، 18 : 28

’’ (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے۔‘‘

کیونکہ جو اللہ کی طرف جانا چاہتا ہو وہ اپنی نگاہیں ان خدا مست فقیروں کی طرف جماتا ہے اور جو شخص اپنی نگاہیں ان سے پھیر لیتا ہے اسے سفلی دنیا کے دھوکہ و فریب میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ خدا نہیں خدا شناس ہیں، بے شک خدا نہیں مگر اس کے ہم نشین ہیں اس لئے جو ان سے دور ہوا وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوگیا اور جو ان کے قریب ہوا وہ اللہ کے قریب ہوگیا۔ اسی مضمون کو حضرت رومی کی زبان سے سنتے ہیں:

خواب راہ بگزار امشب اے پدر
یک شبے در کوئے بے خواباں گزر

 (اے پدر! آج رات کے لئے ذرا نیند کو ترک کر دے، اور ایک رات جاگنے والوں کی گلی میں سیر کرلے۔)

بنگر ایشاں را کہ مجنوں گشتہ اند
ہمچو پروانہ بوصلش کشۃ اند

 (پھر ان بے خوابوں کا حال دیکھ کہ کس طرح عشق حقیقی نے انہیں مجنوں بنا رکھا ہے اور یہ پروانوں کی مانند محبوب کے قرب و وصال کے باعث کس طرح جل کر کُشتہ ہو چکے ہیں۔)

اولیاء را در دروں نغمہا است
طالباں را زاں حیاتِ بے بہا است

 (اولیاء اللہ کے اندر عشق الٰہی کے ایسے بہت سے نغمے ہوتے ہیں جن سے طالبان حق کو بے بہا زندگی نصیب ہوتی ہے۔)

اے تواضع بردہ پیشِ ابلہاں
اے تکبر کردہ تو پیشِ شہاں

 (اے شخص کہ تو دنیا کے امراء اور سلاطین کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش آتا ہے جو اللہ سے غفلت کے باعث اللہ کے نزدیک بیوقوف شمار ہوتے ہیں اور اللہ کے عاشقوں اور ولیوں کے لئے تکبر کر تا ہے جو حقیقت میں اصل بادشاہ ہیں۔)

چوں شوی دور از حضورِ اولیاء
در حقیقت گشۃٔ دور از خد

 (اگر تو اولیاء کی صحبت اور معیت سے دور ہوگیا تو سمجھ لے کہ در حقیقت تو خدا سے دور ہوگیا۔)

مہر پاکاں درمیانِ جاں نشاں
دل مدہ اِلا بمہر دل خوشاں

 (پاک لوگوں کی محبت کو اپنی جان میں راسخ کر لے اور اپنا دل کسی کو نہ دے مگر صرف ان کو دے جن کے اپنے دل محبوب حقیقی کی یاد اور اس کے جلوؤں کے باعث خوبصورت اور حسین ہیں۔)

من غلام آنکہ نفروشد وجود
جز بآں سلطاں بافضالِ وجود

 (میں اس محبوب اور مقرب بندے کا غلام ہوں جو اپنا وجود پوری دنیا و مافیہا کے عوض بھی فروخت نہیں کرتا۔ مگر صرف اس بادشاہ حقیقی کے ہاتھ فروخت کرتا ہے جو فضل و کرم کا مالک ہے۔)

چوں جدا بینی ز حق ایں خواجہ ر
گم کنی ہم متن و ہم دیباچہ ر

 (اگر تونے اس کامل کو جو فنا فی اللہ ہے، ذات حق سے جدا سمجھ لیا تو جان لے کہ تو اپنا اصل اور مقدمہ سب کچھ گم کر بیٹھا۔)

دو مگو و دو مداں و دو مخواں
خواجہ را در خواجہ خود محو داں

 (دو مت کہہ، دو مت جان اور دو مت پڑھ، بلکہ اس کامل کو اپنے کامل محبوب میں محو اور فانی سمجھ کہ یہ اس میں گم ہوگیا ہے سو اب دو کہاں رہے۔)

خواجہ ہم در نورِ خواجہ آفریں
فانی است و مردہ و میت و دفین

 (یہ سمجھ لے کہ یہ محب کامل، اپنے محبوب کامل کے نور اور تجلیات میں فنا ہوگیا ہے اور اب یہ اپنے نفس سے فانی ہے۔ اپنی ذات سے میت ہے اور اپنی خواہشات و تعینات سے مدفون ہوچکا ہے۔ یعنی اب یہ مرد کامل اپنے مولا میں خود سے فنا ہو کر اسی کے ساتھ باقی ہوگیا ہے۔)

خدمتِ او خدمتِ حق کردن است
روزِ دیدن دیدنِ آں روزن است

 (اس کی خدمت کرنا حقیقت میں حق تعالیٰ کی خدمت کرنا ہے جیسا کہ اس دریچہ کو دیکھ لینا جس میں آفتاب کی کرنیں اندر آتی ہیں، بالواسطہ آفتاب ہی کا دیکھنا ہے۔)

ما رمیت اذ رمیت احمد است
دیدنِ او دیدنِ خالق شد است

 (یہی فنائیت اپنی آخری حد کمال پر پہنچ کر ذات احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئی جیسے فرمایا گیا اے محبوب یہ کنکریاں تونے نہیں ماریں، جو تونے ماری تھیں بلکہ یہ تو خود خدا نے ماری ہیں۔ سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا باری تعالیٰ کو دیکھنا قرار دیا گیا۔)

خواجہ را از چشم ابلیسِ لعین
منگر و نسبت مکن او را بطین

 (مرد کامل کو ابلیس لعین کی آنکھ سے مت دیکھ اور نہ ہی اس کی حقیقت کی نسبت مٹی کی طرف کر۔ یعنی وہ مٹی سے بنایا گیا پیکر بشریت ضرور ہے مگر یہ اس کی حقیقت نہیں، فقط ظاہری حال ہے جیسے ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام میں فقط مٹی اور بشریت کو دیکھا اور منکر و مردود ہوگیا اور ملائکہ نے حضرت آدم علیہ السلام کے اندر نور حقیقت کو دیکھا تو ساجد و مقرب ہوگئے دریائی گائے کا بھی یہی حال ہے کہ وہ موتی کے اوپر لگے ہوئے کیچڑ کو دیکھتی ہے، اور اسے قبول نہیں کرتی نتیجتاً اس قیمتی موتی سے بھی محروم ہو جاتی ہے جو اس کیچڑ کے اندر پنہاں ہوتا ہے۔)

عام می خواہند ہر دم نام پاک
ایں اثر نکند چوں نبود عشق ناک

 (عام لوگ بھی ہر دم اللہ پاک کا نام لیتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہیں مگر اس کی کامل تاثیر نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زباں سے نام تو لیتے ہیں مگر وہ نام دل سے عشق تاب ہو کر نہیں نکلتا، جبکہ اولیاء اللہ، اللہ کا نام لیتے ہیں تو وہ سینے سے نکلتا ہے جہاں عشق الٰہی کی آگ شعلہ زن ہوتی ہے اور وہ سینہ درد و فراق کے نالوں سے چاک چاک ہوتا ہے۔ اس لئے مقبولان خدا کے ذکر اور عوام کے ذکر میں بڑا فرق ہوتا ہے ان کے ذکر کی کیفیات دوسروں کو بھی کیف و اثر عطا کرتی ہیں۔)

چونکہ اولیاء کے تعلق باللہ میں عشق و محبت کے مختلف احوال و کیفیات کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے بعض اوقات ان کی باتیں اور اعمال و افعال ظاہری دلیل کے مطابق نظر نہیں آتے، سو طالبان دلیل کے ذہنوں میں ان کی نسبت وسواس پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے مولانا فرماتے ہیں :

گفتگوئے عاشقاں در کارِ رب
جوششِ عشق است نے ترکِ ادب

عاشقوں کی گفتگو باری تعالیٰ کی محبت و معرفت میں کبھی ظاہراً آداب کے مطابق معلوم نہیں ہوتی لیکن ان کا منشا ترک ادب نہیں ہوتا وہ تو خود پیکران ادب ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ان کے عشق کا جوش ہوتا ہے جو الفاظ کے روپ میں باہر نکلتا ہے۔

عارف رومی یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے ایک چرواہے کا ذکر کرتے ہیں جو مجذوب تھا۔ عشق الٰہی میں مست و سرشار تھا اور اس کا دل خوب زخمی تھا۔ ایک روز زبان عشق سے عرض کر رہا تھا

’’اے میرے معبود، اے میرے محبوب تو کہاں ہے، مجھے اپنا پتہ بتا، میں آکر تیری نوکری اور خدمت کروں، تیری گدڑی سیاکروں، تیرے بالوں میں کنگھی کیا کروں، تو بیمار ہو جائے تو تیری تیمار داری کروں، اگر تیرا گھر دیکھ لوں تو صبح و شام اپنی بکریوں کا دودھ اور گھی ترے گھر پہنچا آؤں اور تیرے ہاتھوں کو بوسہ دوں، تیرے پاؤں دباؤں، رات کو تیری آرام گاہ کی خوب صفائی کروں، اے میرے مولا تجھ پر میں اور میری ساری بکریاں قربان، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس کی مناجات اور کلام سنا تو فرمایا اے بے ادب تو کافر ہوگیا ہے۔ یہ کلمات اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں وہ ان حاجات سے پاک ہے۔ اس چرواہے نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارشاد سنا تو کہنے لگا :

گفت اے موسیٰ دہانم دوختی
وز پشیمانی تو جانم سوختی

 (اے حضرت موسیٰ! آپ نے میرا منہ سی دیا ہے اور ندامت و شرمندگی سے میری جان کو جلا دیا ہے۔)

جامہ را بدرید و آہے کرد تفت
سر نہاد اندر بیابان و برفت

 (اس چرواہے نے اپنا لباس پھاڑ ڈالا، رنج و غم سے نڈھال ہوگیا اور ندامت سے ایک آہ بھری اور جنگل کی طرف دوڑ گیا۔)

وحی آمد سوئے موسیٰ از خد
بندۂ ما را ز ما کردی جد

 (حضرت موسیٰ کی طرف باری تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی اور ارشاد ہوا، اے موسیٰ تونے ہمارا بندہ ہم سے جدا کر دیا۔)

تو برائے وصل کردن آمدی
یا برائے فصل کردن آمدی

 (اے موسیٰ آپ بندوں کو اللہ سے ملانے کے لئے آئے ہیں یا انہیں جدا کرنے کے لئے آئے ہیں۔)

ہر کسے راہ سیرتے بنہادہ ام
ہر یکے را اصطلاح دادہ ام

 (میں نے ہر ایک کو الگ الگ احوال عطا فرمائے ہیں اور ہر ایک کے لئے الگ الگ اصطلاحیں مقرر فرما دی ہیں۔)

در حقِ او مدح در حقِ تو ذم
در حقِ او شہد در حق تو سم

 (اس عاشق زار کے حق میں وہ کلمات میری حمد و ثنا تھے اور آپ کے لئے بیشک وہی کلمات مذموم ہیں، اس کے حق میں وہی باتیں شہد تھیں اور آپ کے حق میں زہر ہیں۔)

در حقِ او نور در حقِ تو نار
در حقِ او گل و در حقِ تو خار

 (اس سوختہ دل عاشق کے حق میں وہی کلمات نور تھے مگر بے شک آپ کے حق میں نار ہیں، اس کے حق میں وہی پھول تھے اور آپ کے حق میں خار ہیں۔)

ما بروں را نہ نگریم و قال را
ما دروں را بہ نگریم و حال ر

 (ہم نہ تو کسی کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور نہ اس کی قیل و قال کو، ہم تو اس کے قلب و باطن اور اس کے اندر کے حال کو دیکھتے ہیں۔)

موسیا آدابِ دانا دیگرند
سوختہ جانِ رواناں دیگر ند

 (اے موسیٰ عاقلوں کے لئے آداب اور ہیں سوختہ جاں عاشقوں کے لئے آداب اور ہیں۔)

خوں شہیداں را ز آب اولیٰ تر است
ایں خطا از صد صواب اولی تر است

 (تجھے معلوم ہے کہ خون ناپاک شے ہے مگر شہیدوں کا خون پاکیزگی اور طہارت میں پاک پانی سے بھی کہیں بہتر ہے اس لئے اگر شہید کا جسم خون میں لت پت بھی ہو تب بھی اسے دھویا نہیں جاتا۔ پس اسی طرح جان لے کہ اس مست حال کی گفتگو، اگر ویسے پُر خطا بھی تھی تب بھی ہمیں سو صواب سے عزیز تر تھی۔)

یہ تفصیل اس لئے بیان کی کہ عشاق کے غلبہ حال کے وقت کی کوئی بات اگر ظاہرًا مطابق دلیل نہ بھی لگے تب کبھی ان پر اعتراض نہ کیا جائے مگر اس قول کی اتباع نہ کی جائے۔

الغرض یہ مقبولان الٰہی جلیس حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں بصراحت آیا ہے :

عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: یَقُولُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِي۔

 1۔ بخاری، الصحیح، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی : ویحذرکم اللہ نفسہ، 6 : 2694، رقم : 6970
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب الحث علی ذکر اللہ تعالی، 4 : 2061، الرقم : 2675
3۔ ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الزہد، باب فی حسن الظن باللہ، 5 : 581، رقم : 3603

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘

اسی طرح فرمایا گیا :

أنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ۔

 ابن ابی شیبۃ، المصنف، 1 : 108، رقم : 1224

’’میں اپنے ذاکر کا ہم نشیں ہوتا ہوں۔‘‘

سو جن کے دل و جان میں اللہ کی یاد اور ذکر ہمہ وقت سرایت کر جائے انہیں حضور حق میں دائمی ہم نشینی نصیب ہو جاتی ہے اس لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ تم بھی ان کے ہم نشین اور ہم مجلس وہم صحبت رہا کرو تاکہ دوست کے دوست سے تمہیں بھی بوئے دوست نصیب ہو اور ان کے واسطہ سے تمہیں بھی دوست کی ہم نشینی میسر آئے۔ مگر افسوس! ہم آج ان حقیقتوں کو بھول گئے ہیں اور ہم اس مولا کی طلب و محبت سے غافل ہوگئے ہیں جس نے ہمیں عدم سے ہست کیا اور بے بہا نعمتوں سے نوازا اور بالآخر ہمیں جانا بھی اسی کے پاس ہے۔ ہمارے دل عشق و محبت الٰہی سے تو کیا شنا سا ہوتے یاد الٰہی سے بھی غافل ہوگئے بلکہ غفلت کے باعث پتھروں سے بھی سخت تر ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عاشقوں اور خستہ دلوں کے احوال سنائے جائیں تاکہ ان کی خستگی، شکستگی اور سوختگی کے حالات سن کر ہمارے دلوں کی سختی ٹوٹے۔ قرآن مجید نے پتھروں کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں اور غافل دلوں کو جھنجوڑا ہے۔ ارشاد فرمایا :

وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْهرُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللهِ۔

البقرۃ، 2 : 74

’’بے شک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقیناً ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی) ۔‘‘

اس مقام پر یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ بعض پتھروں میں ایسی خستگی پیدا ہو جاتی ہے کہ ان سے چشمے ابلنے لگتے ہیں اور نہریں رواں ہو جاتی ہیں، پھر ان سے دور دور تک سیرابی ہوتی چلی جاتی ہے اور مردہ زمینیں ان کے ذریعے زندگی پاتی ہیں۔ مگر بعض اس قدر شکستہ ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی بہنے لگتا ہے گو وہ دور دور تک زمینوں کو سیراب تو نہیں کر پاتے مگر جو پیاسا ان کے پاس آتا ہے اسے ضرور سیرابی نصیب ہو جاتی ہے اور ان کے گرد و نواح میں بھی ہریالی اور شادابی آجاتی ہے۔ تیسری قسم ان پتھروں کی ہے کہ جو پھٹتے تو نہیں مگر خشیتِ الٰہی سے لرز جاتے اور گرتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ قرآن پکار رہا ہے غافلو! یہ تو پتھروں کا حال ہے۔ تمہیں کیا ہوا تم ان پتھروں جیسے بھی نہ رہے۔ کاش کبھی تمہاری آنکھوں سے ان پتھروں کی طرح خشیتِ الٰہی کے چشمے پھوٹ پڑتے اور معرفت الٰہی کی نہریں رواں ہوتیں، پھر تم سے میرے غافل بندوں کے دلوں کی خشک وادیاں بھی سیراب ہونے لگتیں۔ ان کی اجڑی اجڑی روحیں آباد ہونے لگتیں اور ویران ویران سینے شاداب ہونے لگتے۔

مگر تم ایسے نہ رہے، چلو تم دوسری قسم کے پتھروں کی مانند ہی ہو جاتے کہ تمہاری آنکھوں سے میری محبت اور خشیت میں آنسوؤں کے قطرے بہہ نکلتے، تمہارے دلوں سے میری معارفت کا تھوڑا سا پانی رِس پڑتا، کچھ تمہیں میرے جلوہ حسن کا مزہ آتا، کچھ تمہاری صحبت میں آنے والے کو کیف ملتا، کچھ تم میرے قرب و وصال کے تصورّ کی لذت پاتے، کچھ تمہارے قریب بیٹھنے والوں کو عشق و محبت کی گرمی ملتی۔ کچھ تمہارا حال سنورتا کچھ میرے غافل بندوں کا کام بن جاتا، مگر تم سے یہ بھی نہ ہوسکا چلو تم تیسری قسم کے پتھروں کی مانند ہی ہو جاتے کہ میری باتیں سن کر اور مجھے یاد کرکے کبھی میری محبت میں پگھل جاتے، کبھی میرے خوف سے لرز اٹھتے، تمہارے دل دہل جاتے اور تمہارے سر میرے حضور سجدہ ریز ہو جاتے۔ اس سے تمہیں کچھ نہ کچھ تو میری بندگی کا سرور آتا۔ میری محبت کا کچھ نہ کچھ کیف تو ملتا میری خشیت کا کچھ نہ کچھ فیض تو ملتا۔ اگر تم میرے حضور گر ہی جاتے تو کم از کم تم خود تو سنور جاتے پھر تمہیں گرا پڑا دیکھ کر کوئی غافل بھی اسی شوق میں سر جھکا لیتا۔ تمہیں لرزتا اور گڑ گڑا تا دیکھ کر غافلوں کو بھی کچھ نہ کچھ راہ مل جاتی۔ افسوس تم ایسے بھی نہ رہے۔ تم سے تو پتھر بھی بازی لے گئے۔ بے شک محبت الٰہی، خشیت الٰہی اور معرفت الٰہی میں اہل اللہ کے دلوں کو تینوں حال اور تینوں کیفیات بدرجہ اتم نصیب ہوتی ہیں اور وہ نہ صرف خود سیرابی پاتے ہیں بلکہ افراد اُمت میں بھی روحانی شادابی کا باعث بنتے ہیں۔ آؤ ان کا تذکرہ کریں اور ان کی صحبت میں جا بیٹھیں تاکہ ان کی بات سن کر کچھ ہماری بات بن جائے۔ ان کا حال جان کر کچھ ہمارا حال سنور جائے، ان کی بیداریاں دیکھ کر کچھ ہماری غفلت دور ہو۔ ان کی گریہ و زاریاں دیکھ کر کچھ ہمیں رونے کا طریقہ آئے۔ محبوب کے لئے ان کی بے قراریاں دیکھ کر کچھ ہمیں تڑپنے کا سلیقہ آئے۔ ان کی بے نفسیاں دیکھ کر کچھ ہم قید نفس سے چھٹکارا پائیں۔ ان کی ریاضتیں اور مجاہدے دیکھ کر ہم کمر ہمت باندھنا سیکھیں اور ان کی مستیاں اور مشاہدے دیکھ کر کچھ ہم لذّت دید کے طالب بنیں۔

اس لئے اس کتاب کا نام بھی ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ رکھا ہے۔ اسے اپنے شیخ طریقت قبلہ دل و جاں قدوۃ الاولیاء سیدی و سندی حضرت سیدنا طاہر علاؤ الدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ و وساطت سے شیخ الکل سلطان الاولیاء سیدنا غوث اعظم حضرت ابو محمد محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی کی خدمت اقدس کی نذر کرتا ہوں۔ اور اس کا انتساب انہیں کے نام کرتا ہوں تاکہ بارگاہ رب العزت میں اس مبارک نسبت کے طفیل اسے قبولیت نصیب ہو۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved