تذکرے اور صحبتیں

حضور نبی اکرم ﷺ کا تذکرہ مبارک

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

  1. اگر تمہیں وہ کچھ معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو کم ہنسا کرو اور زیادہ رویا کرو۔
  2. اغر بن یسار المزنی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو! اللہ کے حضور کثرت سے توبہ کیا کرو اس سے معافی مانگا کرو میں خود روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔
  3. ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو اتنی کثرت سے عبادت کرتے کہ آپ کے قدمین شریفین متورم ہو جاتے صحابہ کرام نے عرض کیا حضور! آپ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بخشش و مغفرت کا وعدہ فرما رکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں اللہ کی بندگی اور شکر گزاری اختیار نہ کروں۔
  4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دنیا سے بے رغبتی دل اور روح کو حقیقی راحت دیتی ہے اور دنیا کی رغبت و محبت زندگی میں رنج و غم کو بڑھاتی ہے۔
  5. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مال اور عزت کی چاہت اور محبت دل میں اس طرح نفاق اگاتی ہے جیسے پانی سبزے کو اُگاتا ہے۔ اور فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے گلے میں اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی تباہی مال و جان کی محبت مسلمان کے دل میں مچا دیتی ہے۔
  6. ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے اور فرمایا : دیکھو یہ مردار کس درجہ ذلیل و خوار پڑا ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ فرمایا : اس اللہ کی قسم! جس کے قبضہ میں مجھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ اگر دنیا کا درجہ حق تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر جیسا بھی ہوتا تو کسی کافر کو ایک چلو بھر پانی بھی نہ ملتا۔ فرمایا دنیا کی محبت تمام گناہوں کی سردار ہے دنیا برباد شدہ لوگوں کا گھر اور مفلسوں کا مال ہے۔
  7. قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جن کے اعمال تہامہ کے پہاڑوں جتنے ہوں گے مگر انہیں دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ وہ نمازی بھی ہوں گے، روزہ دار بھی ہوں گے اور تہجد گزار بھی ہوں گے مگر دنیا اور مال کی محبت میں گرفتار ہوں گے۔
    ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دلوں کو دنیا اور مال و دولت کی محبت سے پاک رکھیں۔ دنیوی مال و اسباب کمائیں انہیں استعمال بھی کریں مگر ان کی چاہت اور رغبت کو دل و دماغ میں ہرگز جگہ نہ دیں۔
  8. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے باتیں کرتے اور ہم آپ سے باتیں کرتے مگر جب نماز کا وقت آجاتا تو آپ کی یہ حالت ہو جاتی کہ گویا نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو پہچانتے اور نہ ہم آپ کو پہچانتے۔
    ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اذان سنتے اسی وقت سے آپ کی یہ حالت ہو جاتی کہ گویا آپ کسی کو بھی نہیں پہچانتے۔
  9. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرب الٰہی کے بعض لمحات ایسے بھی گزرتے تھے کہ آپ بجزذات حق کے کسی کو نہ پہچانتے تھے۔ چنانچہ ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ اس وقت خاص معیت اور قرب کی تجلیات میں محو تھے، غلبہ حضور مع الحق کہ یہ عالم تھا کہ آپ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پہچان نہ سکے اور دریافت فرمایا کہ من انت؟ تو کون ہے؟ عرض کیا انا عائشہ میں عائشہ ہوں۔ پھر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ پہچانا لہٰذا پھر دریافت کیا من عائشہ؟ عائشہ کون؟ عرض کیا بنت ابی بکر ابوبکر کی بیٹی پھر بھی آپ کو اس حالت میں افاقہ نہ ہوا اور دریافت فرمایا من ابوبکر؟ ابوبکر کون ہیں؟ عرض کیا ابن ابی قحافہ ابو قحافہ کے بیٹے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا من ابو قحافہ؟ ابو قحافہ کون؟ تب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر دہشت اور خوف کا غلبہ ہوا اور چپکے سے واپس ہوگئیں۔ پھر جب آپ کو اس حالت سے افاقہ ہوا تو حضرت عائشہ صدیقہ نے سب ماجرا کہہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

لی مع اللہ وقت لا یسعنی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل۔

عجلونی، کشف الخفاء، 2 : 226

’’(اے عائشہ!) مجھ پر اللہ کے قرب و معیت میں کبھی کبھی ایسا خاص وقت آتا ہے کہ اس میں نہ تو مجھ تک کسی نبی مرسل کی رسائی ہو سکتی ہے اور نہ کسی مقرب فرشتے کی۔‘‘

  1. ایک مرتبہ جب حضرت حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ان سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :

اے حارث تم نے صبح کیسے کی؟ عرض کیا میں نے اللہ کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہوئے صبح کی۔ آپ نے فرمایا غور کرو  اے حارث تم کیا کہہ رہے ہو۔ کیونکہ ہر شے کے لئے ایک حقیقت ہوتی ہے تو تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے انہوں نے عرض کیا۔ میں نے دنیا سے اپنی جان نکال کر رب کو پہچانا اس کی علامت یہ ہے کہ پتھر، سونا چاندی اور مٹی میرے نزدیک سب برابر ہیں میں نے دنیا سے بیزار ہو کر عقبیٰ سے لو لگا رکھی ہے اب رات کو بیدار رہتا ہوں اور دن کو پیاسا، یہاں تک کہ اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ گویا میں اپنے رب کے عرش کو واضح طور پر دیکھ رہا ہوں اور یہ کہ جنتیوں کو باہم ملاقات کرتے جنت میں دیکھ رہا ہوں اور یہ کہ جہنمی لوگوں کو آگ میں ایک دوسرے سے لڑتے اور ایک روایت میں ہے شرمسار ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

اس پر سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اے حارث تو نے اپنے رب کو پہچان لیا اس پر قائم رہو۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کاش ہمارا یہی حال ہو جائے اور ہم ایمان کی حقیقت کو پا لیں (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved